ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا مقدس دفاع کے مجاہدین، جانبازوں اورکمانڈروں سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آج کی نشست بہت ہی دلچسپ ، نہایت ہی شیریں، با اثراوراہم ہے۔ یہ واقعات ہمارے تاریخی نشیب وفرازکا نہایت ہی دلچسپ پہلو ہیں ہم بہت مستفیض بھی ہوئے ہیں اور محظوظ بھی! میں ان تمامی حضرات کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنی آپ بیتی بیان کی ان کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے یہ نشست منعقد کی میں آپ سبھی حضرات کا مشکور ہوں آپ اس ملک کی حالیہ باعظمت تاریخ کی یاد گارہیں۔

دوالگ الگ موضوع ہیں ان پر الگ الگ گفتگو کی ضرورت ہے ایک خود مقدس دفاع ہے یہ آٹھ سالہ جنگ دنیا کی عام جنگوں کی مثل نہیں تھی بلکہ اس کی اپنی خصوصیات تھیں۔ اس پر گفتگو ہونی چاہئے! کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ صرف میں اس طرح کی نشستوں میں اس موضوع پر گفتگو کیا کروں بلکہ عام سماجی سطح پر اس پر غور و فکر ہونا چاہئے دوسرا موضوع اسی سے منشعب ہے اس کی بھی بھی اپنی اہمیت ہے اور وہ ہے جنگ کے واقعات، فنون حرب اورجنگی ادب! یہ ساری چیزیں جنگی ادب کے ذیل میں آجائیں گے ۔ یہ دونوں ہی موضوعات اہم ہیں۔

خود جنگ کی بات کی جائے تو سب سے پہلے یہ کہ یہ دفاعی جنگ تھی دفاعی جنگ اورحملہ آوری کے معنی ومفہوم میں دو اہم فرق ہیں؛ ایک یہ ہے کہ حملہ آوری جارحیت کی عکاس ہے جب کہ دفاعی جنگ میں ایسا کچھ نہیں ہے دوسرے یہ کہ دفاعی جنگ اپنے اہداف ومقاصد سے وفاداری کا ثبوت ہے اب ممکن ہے مقصد صرف وطن ہو یا وطن سے بڑھ کے اپنا دین وعقیدہ ہو حملہ آوری میں اس چیز کا دخل نہیں ہوتا مثال کے طور پر امریکہ نے عراق پر حملہ کیا ہے تو کوئی امریکی سپاہی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنے وطن کے لئے لڑ رہا ہے عراق کا اس کے وطن سے کیا تعلق ہے؟ اس کے مقاصد کچھ اور ہیں لیکن اسی حملہ، اسی فوجی یلغار اورفوجوں کی موجودگی کے خلاف اگر کوئی عراقی اٹھ کھڑا ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے وطن کا دفاع کر رہا ہے، اپنے قومی تشخص کا تحفظ چاہتا ہے ان اقدار کو پامالی سے بچانا چاہتا ہے جن کا وہ پابند ہے دفاعی جنگ اورحملہ آوری میں یہ دو بنیادی فرق ہیں۔

ہم دفاعی جنگ لڑرہے تھے ہماری قوم نے کہیں یہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ جارحیت پسند ہے بلکہ اس نے یہ دکھایا کہ جہاں ہمارے قومی تشخص کی بات آئے گی یا قومی تشخص سے بالاتر کوئی ہدف سامنے ہوگا توہماری استقامت مثالی ہوگی معمولی نہیں ہوگی ہم وہ ثابت قدمی دکھائیں گے جو دیگر اقوام عالم کے لئے نمونہ قرارپا جائے اور نمونہ قرارپائی فلسطینی کہتے ہیں ہم نے آپ سے سیکھا ہے، لبنانی کہتے ہیں ہم نے آپ سے سیکھا ہے، جن قوموں نےاسلام قبول کیا ہے یا مسلمان تھیں اوراب مکتب اہلبیت(ع) کی پیرو کار ہو گئی ہیں بار بارکئی جگہ کہہ چکی ہیں کہ ہم آپ کی جنگ، آپ کا دفاع، آپ کی استقامت اورآپ کی صداقت دیکھ کرحق تک پہنچے ہیں ایسا تھا دفاع مقدس کا دور، یہ ہےدفاع مقدس کامفہوم! تو یہ دفاع مقدس کے موضوع کا ایک حصہ ہے۔

دوسرا حصہ یہ ہے کہ مقدس دفاع میں کیا ہوا تھا دوملکوں (پڑوسی ہوں یا نہ ہوں) کی آپسی جنگ اوردنیا کی تمام طاقتوں کے اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پرمتحد ہوکرکسی ایک علاقہ ایک مرکز یا ایک ملک پر ٹوٹ پڑنے میں فرق ہے اس جنگ اوراس جنگ میں فرق ہے ہماری جنگ کی نوعیت بعد والی تھی کہنے کا مطلب یہ کہ دنیا کی تمام فوجی سیاسی اور مالی طاقتیں آوازسے آواز اور قدم سے قدم ملا کرایران پر ٹوٹ پڑیں حقیقی معنی میں "جنگ احزاب"! دنیا کی تمام طاقتور لابیاں ایران پر حملہ آور ہو گئیں کیوں؟ اس کے لئے سیاسی تجزیہ وتحلیل درکار ہے بہرحال سوویت یونین اور امریکہ اپنے اختلافات کے با وجود اس سلسلہ میں متفق تھے یہ جن خاص پانج رخی مورچوں کی ابھی حضرات بات کر رہے تھے یہ سوویت یونین کی جنگی حکمت عملی تھی جو اس نے عراق کے حوالہ کی آپ چونکہ خود جنگ میں شریک رہے ہیں لہذا یہ ساری چیزیں جانتے ہیں روسی وامریکی جنگی طیارے، روسی وامریکی میزائیل، روسی وامریکی توپیں، روسی وامریکی جدید ٹینک اوردیگر انواع واقسام کا روسی وامریکی جنگی سازو سامان عراق کی بعثی حکومت کے ذریعہ ہمارے خلاف استعمال کیا گیا سب عراق کی بعثی حکومت کی مدد کر رہے تھے۔

جنگ ختم ہونے کے بعد میرے خیال میں سنہ ۱۹۸۸کے آخر میں، میں نےاپنے صدارتی دور میں بعض دیگرحکام ساتھ یوگوسلاویہ کا دورہ کیا تھا (یوگوسلاویہ عراق کی مدد کا ایک اہم مرکزتھا جوبعد میں ٹوٹ گیا) وہاں کےسربراہ مملکت سے مفصل مذاکرات ہوئے لیکن وہ ہمیں ایک بھی ٹینک دینے پر رضا مند نہ ہوا جبکہ عراقیوں کو اپنی طرف جب بھی ضرورت ہوتی تھی مشرق ومغرب سے انواع واقسام کے ٹینک ان کے پاس آجایا کرتے تھے اورجب کوئی ٹینک خراب ہو جاتا تھا توکرین لاکراسے دریا یا کسی گڈھے میں پھینک دیتے تھے گویا ان کے لئے یہ کوئی قیمتی شے نہیں تھی اورہمارے جوان کس مصیبت سے غنیمت میں ٹینک حاصل کرکے ان کی مرمت کرتے اور استعمال کرتے تھے مطلب یہ ہےکہ عراق کے پاس انواع واقسام کا جنگی سازو سامان، حکمت عملی، فضائی معلومات اورہر طرح کی مالی وسیاسی مدد تھی سب کچھ ان کے پاس یکجا تھا دوسری جانب اسلامی جمہوریہ یکہ وتنہا! واقعاً یکہ وتنہا تھا۔ تو جنگ کا یہ بھی ایک پہلو ہے۔

اسی موضوع کا ایک حصہ اختتام جنگ پرمبنی ہے دشمنوں نے بے بنیاد باتوں کوبنیاد بنا کرکچھ کچے ذہنوں میں طرح طرح کے شکوک وشبہات ڈال دیئے اس میں کس کو شک ہے کہ آٹھ سالہ جنگ میں اسلامی جمہوریہ پوری طرح کامیاب ہو گئی تھی ؟ اس میں شک کی گنجائش ہی نہیں ہے جیسا کہ ہم نےعرض کیا ایک حکومت دوسرے ملک پر چڑھائی کرتی ہے سب اس کی مدد کرتے ہیں کچھ علاقہ پر قبضہ ہوجاتا ہے آٹھ سال تک اس ملک کو دباتی رہتی ہے اورآخر میں مجبور ہوکر اس حال میں اس ملک سے نکلتی ہے کہ اس کے ہلاک شدگان، زخمیوں اورقیدیوں کی تعداد حملہ شدہ ملک سے زیادہ ہے دوسری طرف جس ملک پر حملہ ہوا ہے اس نے اس جنگ میں بہت کچھ حاصل کر لیا ہے اورحملہ آورکومنہ کی کھانی پڑی ہے وہ اپنے حامیوں کی نظروں سے بھی گر گیا ہے جس ملک پر اس نے حملہ کیا اس کی ایک اینچ زمین بھی اس کے قبضہ میں نہیں رہی تو ایسے میں جیت کس کی ہوئی؟ ہاراکون؟ کیااس میں شک کی گنجائش ہے؟ جنگ کا خاتمہ بھی اس موضوع کا ایک اہم حصہ ہے جس پر ہمیں فخر ہے۔

جنگ کی تاریخ اورواقعات کے سلسلہ میں، میں بہت تاکید کرنا چاہوں گا کہ اس پر کام ہونا چاہئے جتنا اب تک کام ہوا ہے اورجتنا ہونا چاہئے وہ اس سے کہیں کم ہے اگر چہ اس وقت انقلابی گارڈز، فوج، شعبہ فن وادب سبھی جنگ کی تاریخ پرکام کررہے ہیں لیکن ان سب کا کام کل ملا کرمقدارمیں بھی اس سے کہیں کم ہے جتنا ہونا چاہئے اورکیفیت بھی ویسی نہیں ہے ہاں کچھ کا اسٹینڈرڈ اچھا ہے لیکن مجموعی طور پر ویسا نہیں ہے جواس عجیب وغریب دورکی زیبائش، باریکی، ظرافت اوربرجستگی کا غمازہو۔ابھی بہت کچھ بیان کرنا باقی ہے بہت کچھ! مثال کے طور پر جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے مقدس دفاع پر چھ سو یا ایک ہزارکتابیں لکھی ہیں توکچھ یقیناً سوچتے ہیں بہت کام ہوگیا ہے جی نہیں یہ بہت کم ہے جنگ کا دور ہر قوم کے لئے نہایت حساس ہوا کرتا ہے چاہے ان کی جیت ہوئی ہو یا ہار، اس دور کے واقعات قوم کے لئے درس ہوتے ہیں اس کا فائدہ صرف اتنا ہی نہیں کہ ہمیں فخر کا موقع ملے گا فخر کا موقع تو صرف ایک فائدہ ہے، بے پناہ معلومات، اس وقت کے حالات ، آئندہ کیا حالات ہو سکتے ہیں اس سب کا پتہ چل جانا اس کےدیگر فوائد ہیں دنیا میں کہیں جنگ ہوتی ہے تو اس پر بہت کچھ لکھا جاتا ہے نہیں معلوم آپ اوردیگر حضرات جو اس باب پر لکھ رہے ہیں انہیں دنیا میں ہوئی جنگوں پر لکھی گئی کتابوں کا کتنا پتہ ہے میں صرف ایک اعدادوشمارپر اکتفا کرنا چاہوں گا کہ سنہ ۱۹۶۰میں امریکہ میں خانہ جنگیاں شروع ہوئیں اورچار سال تک چلیں ۶۵/ ۱۹۶۴ میں ختم ہو گئیں انہیں علاحدگی پسند جنگیں کہا جاتا ہے اب مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ شمال وجنوب آپس میں نبردآزما تھے یا مختلف ریاستیں ؟ اس وقت ریاستہائے متحدہ امریکہ کو تشکیل پائے اسی نوے سال ہو چکے تھے۔ ایک امریکی مصنف جو ظاہراً ہمارا ہم عصر ہے کہتا ہے کہ ان جنگوں پر ایک لاکھ سے زائد کتابیں لکھی جا چکی ہیں ! صرف چار سال کی جنگ پر اور وہ بھی ایسی جنگ پر جس میں کسی فخریہ پہلو کا تصور ہی نہیں ہے ایک لاکھ سے زائد کتابیں لکھی گئی ہیں یہ ایک امریکی مصنف کے الفاظ ہیں معتبر مصنف ہے۔ کچھ امریکی پروپگینڈہ مشینریاں کہتی ہیں کہ یہ جنگیں غلامی کے خاتمہ کے لئے تھیں یہ بالکل جھوٹ ہے ہاں ابرہم لنکن بھی اسی دور میں تھا اور غلامی کا خاتمہ ہو گیا لیکن یہ جنگیں اس مقصد کے لئے نہیں تھیں ان جنگوں کی تاریخ پڑھ کے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کا یہ مقصد نہیں تھا ۔ تو ایسی جنگ پر اتنی کتابیں تحریر ہوئی ہیں جس میں فخر کیا نقصان کے سوا کچھ تھا ہی نہیں آخر میں شمالی خطہ جنوبی خطہ کو ہرادیتا ہے جو علاحدگی چاہ رہا تھا اور"ریاستہاے متحدہ امریکہ " پھر سے تشکیل پا جاتا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ ان جنگوں میں اگر چہ ایک خطہ نے دوسرے کو ہرا دیا تھا لیکن امریکہ کی ایک ملک کی حیثیت سے ہار ہوئی تھی کہتے ہیں کہ ان جنگوں میں ساٹھ ستر لاکھ لوگ مارے گئے یعنی مقدس دفاع کے شہدا سے کئی گنا زیادہ ! تو چارسال کی جنگ پر اتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ہمارا دفاع تو سراپا قابل فخر ہے جس دن صدام نے تہران ائرپورٹ پر حملہ کیا اس دن سے لیکر اس دن تک جب امام خمینی (رہ)نے ریزولیشن تسلیم کیا بلکہ اس کے بعد تک جب صدام نے دوبارہ حملہ کر دیا اور یہ پورا صحرائی علاقہ ہمارے مجاہد عوام سے بھر گیا تھا ملک بھر سے رضاکارٹوٹ پڑے اوراس بار بھی صدام کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اسے مجبورہو کرعقب نشینی کرنا پڑی یہ پورا دورسراپا قابل فخر ہے۔

ادبی کام ہونا چاہئے اسے محفوظ کیا جانا چاہئے اور خصوصی کام ہونا چاہئے کئی مراکز ہیں جہاں ہمارے بھائی پیشہ ورانہ طرز پر مصروف عمل ہیں اچھے اورعمدہ کام ہو رہے ہیں ایک ساتھ دو کام ہونے چاہئیں ایک یہ کہ پیشہ ورانہ اورماہرانہ طرز سے واقعات اکٹھا کئے جائیں اوردوسرے یہ کہ ہر اس شخص کی خدمات لی جائیں جس کے پاس جنگ سے متعلق کوئی واقعہ ہے صرف کسی ایک ذریعہ سے معلومات اکٹھا نہ کی جائیں اس سے کام کا پیمانہ محدود ہوجائے گا۔

پروردگارا! افطارکے لمحات ہیں، ماہ رمضان کے آخری ایام ہیں یہ تیری راہ میں جہاد کرنے والوں کا مجمع ہے ہم تجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ انقلاب اور مقدس دفاع کے شہدا کو پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اورشہدائے کربلا کے ساتھ محشور فرما!

پالنے والے ان شہدا اوران کے امام(رضوان اللہ تعالی علیہ) پر ہمارا درودوسلام بھیج!

پالنے والے ہماری موت کو اپنی راہ میں شہادت قراردے!

پالنے والے!محمدوآل محمد(علیھم الصلوۃ والسلام)کاواسطہ ہمیں ملک وقوم کے سلسلہ کی سخت آزمائشوں میں کامیاب وکامران فرما۔

حضرت ولی عصر(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ) کی خدمت میں ہماراسلام پہنچا دے۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ