ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظّم کا فضائیہ کے کمانڈروں اور اعلیٰ عہدیداروں سےخطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الّرحیم

آپ عزیزوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور آپ کے جوان اور ہشاش بشّاش چہروں کو دیکھ کر بہت خوش ہوں ۔

یقینا ہم سب کو ، مجھے اور آپ کو ان لوگوں کا شکر گزار ہونا چاہئیے جنہوں نے اپنے عزم وعمل سے انّیس بہمن (اٹھائیس فروری )کے واقعہ کو وجود بخشا اور اسے تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لئیے محفوظ کر دیا ۔جب کوئی عمل اور اقدام ، خلوص اور صحیح فکر کی بنیاد پر انجام پاتا ہے تو پائداری و بقا اس کی سب سے اہم خصوصیّت ہوتی ہے ۔ عین ممکن ہے کہ ہم کچھ کام ، نمائشی طور پر انجام دیں جو خلوص سے عاری ہوں لیکن ایسے کام ،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محواور نابودی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔انّیس بہمن کا واقعہ ، اس نوعیّت کا واقعہ نہیں تھا بلکہ ایک ایسا واقعہ تھا جو ایمان ،اخلاص اور عزم راسخ کی بنیاد پر استوارتھا ۔ یہ بات درست ہے کہ یہ واقعہ ایسے حالات میں پیش آیا جب اسلامی انقلاب کی حتمی کامیابی میں کچھ ہی دن باقی تھے لیکن کو ئی بھی اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ انّیس بہمن کے بعد بائیس بہمن (اسلامی انقلاب کی کامیابی کا دن )کا واقعہ بھی رو نما ہو گا ، حتمی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا ایسے حالات میں یہ ایک انتہائی خطرناک اقدام تھا ، لیکن اس دن ،آپ جیسے جوان ، پختہ عزم کے ساتھ حاضر ہو ئے تا کہ اس واقعہ کے صحیح درک وفہم کے تناظر میں جو وقوع پذیر ہونے جا رہا تھا اپنے عقیدے ، عزم راسخ اور قوم کے ساتھ اپنی یکجہتی کا عملی ثبوت فراہم کر سکیں، البتّہ یہ ایک خطر ناک اقدام تھا لیکن فضائیہ کے جوانوں نےیہ کارنامہ انجام دیا اور انّیس بہمن کا واقعہ ہمیشہ کے لئیے تاریخ میں محفوظ ہو گیا ۔

یہ واقعہ اچانک رونما نہیں ہوا ، بلکہ اس سے فضائیہ کا جوہر کھل کر سامنے آیا اور اس کا یہی جوہر جنگ کے دوران ، دفاع اور حملے دونوں میدانوں میں یکساں طور پر عیاں ہوا ؛آٹھ سالہ دفاع کے دوران بھی فضائیہ نے اسی جوہر کا مظاہرہ کیا جب ایرانی قوم کو یہ احساس ہو چکا تھا کہ اس کے ارد گرد کوئی سیکورٹی حصا ر نہیں ہے اور دشمن بے خوف و خطر اسے بمباری اور حملوں کا نشانہ بنا رہا تھا ۔ ہم پر تھوپی گئی جنگ کے اوائل میں ، ایرانی فوج کی طرف سے سب سے پہلا ، بہترین اور تابناک اقدام ، فضائیہ کی طرف سے سامنے آیا جو انّیس بہمن کے جوہر کا تسلسل تھا اورآج بھی یہی صورت حال ہے ۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ کوئی انسان یا گروہ اپنے ارد گرد ہونے والی تبدیلیوں کا صحیح فہم و ادراک رکھتا ہو ۔وہ حوادث جو بہت سے دوسرے افراد سے مخفی رہ جاتےہیں صاحبان بصیریت انہیں بھانپ لیتے ہیں ،اور انہیں محسوس ہو جاتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے؛ یہ بہت اہم چیز ہے ۔وہ تبدیلی جو اسلامی انقلاب میں واقع ہوئی وہ اسی نوعیّت کی تھی ، بعض افراد نے اسے محسوس نہیں کیا اور اس کی صحیح تشخیص نہیں دی ، کچھ افراد نے اسے دنیا کے دیگر گوشوں میں رو نما ہونے والی عبث تحریکوں کی طرح کی ایک تحریک سمجھنے کی غلطی کی ،اور اسی طرز فکر کے مطابق اس پر رد عمل دکھایا ۔بعض افراد نے اس تحریک کو اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئیے استعمال کرنے کی کوشش کی ؛ یہ سب ان کی تنگ نظری کا نتیجہ تھا۔اسلامی انقلاب نے پہلے مرحلے میں ،ایرانی سماج کو تبدیل کیا اور دوسرے مرحلے میں امت مسلمہ اور عالمی سیاست پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ؛اور طاقت کے جغرافیائی نقشے کو بالکل ہی الٹ دیا ، دنیا کے بعض ممالک میں اس کے اثرات نمایاں ہیں ۔اسلامی انقلاب ایک ایسی عظیم تحریک تھی ۔عصر حاضر میں اس انقلاب کا اثر ہر سو نمایاں ہے ۔انقلاب کے دوران ، ایران میں سب سے بڑی تبدیلی یہ ہو رہی تھی کہ اس تحریک نے اس ملک کو ایک ایسی ظالم و جابر ،استبدادی حکومت کے چنگل سے نجات دلائی جس کے حکمران اور سربراہ جہاں ایک طرف ، جاہ طلب ، شہوت پرست ،خود غرض اور انسان اور انسانیّت سے غافل تھے وہیں دوسری طرف اغیار کی سیاست کے اسیر اور تسلّط پسند طاقتوں کے دست بستہ غلام تھے ۔

اسلامی انقلاب نے اس معاشرے کو ایک ایسے دانشمند، بیدار اور پر عزم معاشرے میں تبدیل کر دیا جسے انتخاب کا اختیار اور قدرت حاصل ہے ۔ جو خود بھی سربلندی ،عزّت و وقار کا حامل ہے اور دیگر معاشروں پر بھی اس نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔ اصلی تبدیلی یہ تھی ،اور یہ تبدیلی رونما ہوئی ۔

آپ ملاحظہ کر رہے ہیں ، سن رہے ہیں ، پڑھ رہے ہیں کہ اس خطّے کے مختلف مسائل کے بارے میں عالمی طاقتوں کی متّفقہ رائے یہ ہے کہ ان مسائل کے حل کے لئیے ایران کی موجودگی اور اس کی شر کت ''فیصلہ کن''حیثیّت رکھتی ہے ۔ہمارے صف اوّل کے دشمن آج یہ کہنے پر مجبور نظر آتے ہیں کہ ایران کی شرکت کے بغیر ، مشرق وسطیٰ کے مسائل کے سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس پر عمل درآمد ہو سکتا ہے ۔موجودہ صورتحال کہاں اور انقلاب سے پہلے کی پوزیشن کہاں کہ جب یہ عظیم ملک اپنی درخشاں تاریخ و ثقافت ،اور زندہ دل عوام سے مالامال ہوتے ہوئے بھی سامراج اور تسلّط پسند طاقتوں کا مہرہ شمار ہوتا تھا ، تسلّط پسند طاقتیں من چاہے طریقے سے اس کا استعمال کرتی تھیں اور اس کے عوام کو کسی گنتی میں ہی نہیں لاتی تھیں ۔

اقتصادی اعتبار سے بھی ملکی ذخائر ان کے قبضے میں تھے ؛ تیل پر ان کا تسلّط تھا، معدنی ذخائر ، انسانی اور سوق الجیشی وسائل ، ان سب وسائل پر اغیار کا تسلّط تھا تا کہ وہ اپنی من مانی سے ان سے فائدہ اٹھائیں ۔ عظیم تبدیلی یہ تھی (کہ اسلامی انقلاب نے اس تسلّط کی بیخ کنی کی اور ان وسائل کو ایرانی قوم کے سپر دکیا )

البتّہ اس تبدیلی کے کچھ دیگر پہلو بھی ہیں ۔وہ قوم جو اس آہنی عزم کی حامل ہو ، جس میں یہ طاقت ہو کہ ایک ظالم و جابر نظام حکومت کو ایک پسندیدہ عوامی حکومت میں تبدیل کر دے ، یقینا اسے اقتصادی میدان میں ، ثقافت کی نشر و اشاعت میں ، اپنے انسانی اخلاق کی ترویج میں ، اپنے افکار و عقائد کو پھیلانے میں نمایاں کامیابی نصیب ہو گی ، اور یہ کامیابی اسے حاصل بھی ہوئی ہے ۔یہ وہ عظیم تبدیلی ہے جسے بعض افراد نے محسوس نہیں کیا اور کچھ نادان تو آج بھی اسے نہیں محسوس کرپا رہے ہیں۔

بڑی طاقتیں (جن کا مقصد قوموں پر تسلّط اور غلبے کے سوا کچھ نہیں )یہ سمجھنے کو تیّار نہیں ہیں کہ جب کوئی قوم بیدار ہو جائے ،اسے اپنے عزم و ارادے کی قیمت معلوم ہو جائے ، اور جب کوئی قوم یہ سمجھ لے کہ اگر وہ چاہے اور فیصلہ کر لے اور اس پر عمل کرے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی اور ایسی قوم سے ٹکّر نہیں لی جاسکتی ۔ممکن ہے ایسی قوم کو اپنے اس موقف کی کچھ قیمت چکانی پڑے لیکن اس پر تسلّط و غلبہ ممکن نہیں ، اسے غلامی کی زنجیروں میں نہیں جکڑا جا سکتا ، اس پر اپنے عقائد اور مرضی کو نہیں تھونپا جا سکتا ، بڑی طاقتیں آج بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں ۔

اس تبدیلی کو شروع ہوئے تیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے ، اس دوران ایرانی قوم کے دشمنوں اور اس حکومت کے مخالفین نے اس قوم پر تسلّط اور غلبہ حاصل کرنے کے لئیے ہر روز نت نئی چالیں چلیں تاکہ اس جہنّمی تسلّط کو ایک بار پھر اس قوم پر مسّلط کیا جا سکے جس سے یہ قوم دسیوں سال نبرد آزما رہی ہے ، اور ہمارے دشمن اس تسلّط سے دستبردار ہونے کو ہر گز تیّار نہیں تھے ۔ آج اسلامی جمہوریہ کے نظام حکومت اور اس کے طاقتور عالمی دشمنوں کے درمیان سارا تنازعہ اسی بات پر ہے ۔جوہری توانائی ، میزائیلوں کی تیّاری ، اور ان جیسے دیگر مسائل تو محض ایک بہانہ ہیں ۔اصل مسئلہ کچھ اور ہی ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک قوم اپنے عزم و ارادے اور جوش و جذبے کے ذریعے اغیار کے تسلط کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اغیار اسی تسلط کو دوبارہ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے اور آئندہ بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔

ہمارے ملک پر سالہا سال سے جو پابندیاں عائد ہیں ان کے دامن سے اچانک ''امّید''نامی مصنوعی سیّارہ باہر نکلتا ہے اور فضامیں چھوڑا جاتا ہے ؛ ان سختیوں کے باوجود اچانک ، ملک میں یورینیم کی افزودگی کی ٹیکنالوجی فروغ پاتی ہے اور اس میں نئی جان پڑ جاتی ہے اور ہمارے ماہرین اپنی صلاحیّتوں کا لوہا منوالیتے ہیں ، حالانکہ اس ٹیکنالوجی پر چند گنی چنی بڑی طاقتوں کی اجارہ داری ہے اور ان کی اجازت کے بغیر کسی کو اس تک رسائی نہیں ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ دشمن کی پابندیاں اور دھمکیاں مؤثر نہیں ہوئیں ۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ ایسا اس لیئے ممکن ہوا چونکہ اس قوم نے ہمیشہ ہی اپنے اس عزم راسخ کی حفاظت کی ہے جس کی بنیاد گہرا اور عمیق ایمان ہے ، اور اسی راستے پر مسلسل آگے کی سمت بڑھ رہی ہے ،یہ وجہ ہے کہ دشمن اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا ۔

حالانکہ ان طاقتوں کی انتہائی پیشرفتہ پروپیگنڈہ مشینری، روز وشب اسلامی نظام حکومت ، اسلامی تحریک اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف ہے لیکن اس کے باوجود اسلامی انقلاب کا طرز فکر روز بروز فروغ پا رہا ہے جس کے نتیجے میں غزّہ کا واقعہ رونما ہوا، ایک چھوٹے سے گروہ نے ایک محدود علاقے میں ، ایک ایسی حکومت اور فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جو اپنے آپ کو دنیا کی صف اوّل کی فوجی طاقت سمجھتی ہے ، دشمن اپنے تمام امکانات و وسائل کے ساتھ میدان کارزار میں داخل ہوا تا کہ فلسطینی قوم پر تسلّط اور غلبہ حاصل کر سکے لیکن اسے منہ کی کھانا پڑی ۔ یہ کوئی معمولی بات ہے ؟!دو سال قبل ، لبنان میں بھی یہی تاریخ دہرائی جا چکی ہے ، جب اسرائیل کی غاصب حکومت نے اپنے تمام وسائل کو استعمال کیا اور امریکیوں نے بھی اس کی ہر ممکن تسلیحاتی مدد کی ،حالانکہ اس غاصب حکومت کے پاس ایٹمی طاقت ہے اور وہ دوسرے ممالک کو اسلحہ فراہم کرتی ہے؛ اس کے باوجود امریکیوں نے اسے طرح طرح کا اسلحہ فراہم کیا تا کہ کچھ مؤمن اور پر عزم جوانوں پر غلبہ حاصل کر سکے لیکن تینتیس روزہ جنگ میں وہ اپنے ناجائزمقاصد کے حصول میں بری طرح ناکام ہوئی،یہ کوئی معمولی بات ہے ؟!

ان واقعات نے دنیا میں طاقت کے نقشے کو تبدیل کر دیا ہے؛ اور بے انصافی کے عالمی نظام کو بدل ڈالا ،جس نے پوری دنیا کو''تسلّط پسند''اور ''تسلّط پذیر '' دو حصّوں میں بانٹ رکھّا تھا ۔سترہویں اور اٹھارہویں صدی عیسسوی سے جب سے استعمار وجود میں آیا ہے ، دنیا نے یہ تسلیم کر لیا تھا کہ اقوام عالم کی تقدیر چند گنی چنی طاقتوں کے ہاتھوں میں ہو اور وہ بھی فوجی برتری کی وجہ سے ، ورنہ کبھی کبھی کوئی حکومت اپنے طرز فکر اور اخلاقی قدروں کی بنا پر دوسری حکومتوں اور قوموں پر اثر انداز ہوتی ہے اس میں کوئی مضایقہ نہیں ، لیکن استعمار کا نفوذ اس نوعیّت کا نہیں تھا ۔استعمار کا نفوذ ، جبری تسلّط پر مبنی تھا ، فوجی طاقت پر استوار تھا ؛ طاقت کے استعمال کی وجہ سے تھا۔

دنیا کو عادت پڑ چکی تھی کہ کچھ ممالک شمشمیر بکف رہیں اور دنیا کی اکثر حکومتیں اور قومیں ان کے سامنے سر تسلیم خم کئیے رہیں ؛ پھر ان سراپا تسلیم ممالک میں سے بعض اپنی شاطرانہ صلاحیّتوں کے سہارے بہتر مادی سہولیّات سے مستفید ہوں ، اور بعض ممالک دو وقت کی روٹی کے بھی محتاج ہوں ، بالکل کسی آقا کے غلاموں کی طرح کہ جن میں سے بعض کو پیٹ بھر کر کھانا ملے اور بعض غلامی کی ذلّت کے ساتھ ساتھ بھوک بھی برداشت کریں ۔

اسلامی انقلاب کی کامیابی کی وجہ سے اس طرز فکر میں تبدیلی رونما ہوئی اور معلوم ہوا کہ تسلّط پسند قوّتیں ہی سب کچھ نہیں ہیں بلکہ قوموں کی تقدیر خود ان کے ہاتھوں میں ہے ، ان کا عزم و ارادہ اور ایمان سب سے بڑی طاقت اور فیصلہ کن کردار کا حامل ہے ۔ ایرانی قوم نے دنیا کو یہ درس دیا ، اسلامی ا نقلاب سے قبل بھی دنیا میں انقلاب آئے ہیں لیکن فرانس کے عظیم انقلاب، اوراس سے قبل اور اس کے بعد آنے والے تمام انقلابوں کی تاریخ کا آپ جائزہ لیں، کوئی بھی انقلاب مسلسل کئی عشروں تک اپنے اصولوں کی ایسی حفاظت نہیں کر سکا جس طرح اسلامی انقلاب نے اپنے اصولوں کی پاسداری کی ہے اور وہ کسی کے سامنے سر تسلیم خم کیے بغیر اپنے اہداف و مقصد کی راہ پر مسلسل آگے کی سمت بڑھ رہا ہے ۔

مستقبل کا نسخہ بھی یہی ہے ، پوری ایرانی قوم اس سے واقف ہے ۔ اور اسے جان لینا چاہئیے ، آپ بھی سمجھ لیں اور آپ جانتے بھی ہیں کہ ایرانی قوم کی حتمی اور مکمّل کامیابی کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر ، ایمان ، خداوند متعال پر بھروسے ، اپنی علمی کاوشوں ، اور ضرورت کے مطابق فوجی اقدامات اور جذبہ جہاد کو کمزور نہ پڑنے دے ۔

ہماری قوم بائیس بہمن کو پورے جوش و جذبے اور عزم راسخ کے ساتھ سڑکوں پر نکل آتی ہے ، اوران عظیم جلوسوں اور ریلیوں میں شریک ہوتی ہے ؛ اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے ، یہ در حقیقت ، اعلیٰ اہداف و مقاصد کے حصول کے سلسلے میں استقامت اور پائداری کی عکّاسی کرنے والا ایک علامتی (symbolic)عمل ہے ۔اس عمل سے قوم اپنی طاقت کا اظہار کرتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آپ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان تیس برسوں میں ۲۲بہمن کو برف باری ، کڑاکے کی سردی اور گرم علاقوں میں جھلستی گرمی میں بھر پور انداز میں منایا جاتا رہا ہے ، اور عوام نے ان ریلیوں میں بھر پور شرکت کی ہے ؛اور انہوں نے ان ریلیوں کی شان و شوکت میں ذرّہ برابر بھی کمی نہیں آنے دی ، اس سال بھی انشاء اللہ یہی منظر ہو گا ۔ایرانی قوم ایک بار پھر میدان میں آئے گی ، اپنی موجودگی کا اعلان کرے گی ؛ اس بات سے ہمارا دشمن حقیقی معنا میں مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے ؛ ۲۲بہمن کی ریلیوں کی خاصیّت یہی ہے ، انتخابات اور دیگر میدانوں میں حاضری بھی اس خصوصیّت کی حامل ہے ۔ خوش قسمتی سے ، سائینس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی ہماری قوم اور اس کے جوان مسلسل اپنے جوہر دکھا رہے ہیں؛ جوانوں کی محنت رنگ لا رہی ہے ، ان کاوشوں میں دن بدن اضافہ ہونا چاہئیے ۔

جہاں تک فضائیہ کا تعلّق ہے ، اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلّح افواج میں آپ کے فرائض اور ذمّہ داریاں طے شدہ اور معیّن ہیں ،آپ کے اوپر فضائیہ کے اصلی اور دفاعی شعبوں میں بہت اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ انسان کے اندر ،خلاء کو پر کرنے کا احساس پیدا ہو، آپ جہاں کہیں بھی ہیں ، آپ کی پوری کوشش ہونا چاہئیے کہ آپ وسائل اور انتظامی سطح کے خلاء کو پر کریں ۔جب کوئی گروہ پیشرفت کا پختہ ارادہ کر لیتا ہے تو جگہ کی تبدیلی اور آرڈر کا منتظر نہیں رہتا ، بلکہ وہ جہاں بھی مصروف عمل ہوتا ہے ، وہاں کی ضرورتوں کو مدّ نظر رکھتا ہے اور اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس ضرورت کو پورا کرے اور اپنی ذمّہ داری کو بخوبی انجام دے ۔خدا کے فضل و کرم سے آج تک فضائیہ میں یہی جذبہ کارفرما رہا ہے ، اور اس کے بعد بھی یہی جذبہ ان کے لئیے مشعل راہ ہے ۔میں جب فضائیہ کے جوان ، مؤمن اور پر عزم چہروں پر نگاہ ڈالتا ہوں تو میرے اندر یہ احساس موجزن ہوتاہے ، اور جو رپورٹیں اور خبریں مجھے موصول ہوتی رہتی ہیں ان سے بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

میں فضائیہ کے شہیدوں ، دیگر مسلّح افواج کے شہیدوں ، اور دوسرے گروہوں اور شعبوں سے وابستہ شہیدوں کی قدر کرتا ہوں اور ان پر درود وسلام بھیجتا ہوں ، جنہوں نے فریضہ جہاد انجام دیا، جام شہادت نوش کیا ، اور اپنے خون سے اسلامی انقلاب کے تناور درخت کی آبیاری کی ۔ میں اپنے عزیز امام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ ) کی روح پر بھی درود وسلام بھیجتا ہوں جنہوں نے اس عظیم تحریک کی بنیاد رکھّی ۔میں فضائیہ کے اعلیٰ عہدیداروں اور اس کے مختلف شعبوں میں سرگرم افراد بالخصوص فضائیہ میں نئی ایجادات کرنے والے ماہرین کا انتہائی شکر گزار ہوں اور خداوند متعال کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ آپ کی توفیقات اور عزم میں روز بروز اضافہ فرمائے تا کہ آپ مسلّح افواج کو اس مقام پر لے جائیں کہ ایرانی قوم کو آپ کی وجہ سے مکمّل تحفّظ کااحساس ہو اور اسے یہ اطمینان ہو کہ آپ کی موجودگی میں کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔