بسماللّہالرّحمنالرّحيم
میں خداوند متعال کا شکر گذار ہوں کہ اس نے مجھے توفیق عطا کی کہ کئی برس بعد گرمسار کے عوام سے صمیمی اور پر جوش ملا قات کر سکوں، البتّہ میں یہاں اس بات کا اعتراف کرتا چلوں کہ آپ لوگوں کا حق یہ تھاکہ اس سے پہلے آپ لوگوں کی خدمت میں حاضر ہوتا چونکہ آپ تہران کے جوار میں ہیں، میں نے کئی مرتبہ ارادہ بھی کیاکہ گرمسار کے عوام سے ملاقات کے لیے یہاں آؤں لیکن توفیق نہیں ہوئی، بہر حال آج یہ توفیق نصیب ہوئی ہے۔
الحمد للہ اس صوبہ میں گرمسار شہر ان شہروں میں سے ہے جن میں ترقّی اور پیشرفت کافی اعلیٰ پیمانہ پر ہے،یہاں کا تعلیمی معیار اس منطقہ میں ممتاز ہے،اس شہر کے لوگ محبّت اور جوش سے سرشار ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت صلاحیّت اور استعداد کے حامل ہیں کہ جس کا مظاہرہ ہم نے ملک کی بعض ممتاز شخصیّا ت میں دیکھا جن کا تعلّق اس شہر سے ہے،ہم نے موجودہ سفر اور اس سے پہلے سفر میں ملک کی بعض ایسی ممتاز اور بر جستہ شخصیّات سے ملا قات کی جن کا تعلّق گرمسار سے ہے۔
یہ منطقہ وہ منطقہ ہےکہ جسے علم و عمل کے لیے جانا جاتا ہے،اور یہ بات یہاں کے جوانوں کے لیے امّید اور سعی و کوشش کا محرّک بننا چاہیے،یہاں کے جوانوں کو اپنے مستقبل کو اس نگاہ سے دیکھنا چاہیے جہاں وہ اپنا کردار خوش اسلوبی سے ادا کر سکیں اور ملک کی ترقّی اور پیشرفت میں حصہ دار بن سکیں۔
میں اس چند روزہ سفر کے اختتام پر صوبہ سمنان میں، ملک کے موجودہ حالات پر ایک مختصر بحث کروں گا ۔
آپ لوگ جو کہ جوش و ولولہ سے سرشار ہیں اور جو اپنے ملک کی سرنوشت اور تقدیر سے دلچسپی رکھتے ہیں اوراسکے مستقبل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں بالخصوص جوان ،یہ بات جان لیں کہ الحمد للہ آج ماضی کے مقابلہ میں ملک کے حالات کہیں زیادہ سازگارہیں، آج اس ملک کا سیاسی ڈھانچہ بہت زیادہ مضبوط ہے،وہ لوگ جو انقلاب کے آغاز سے اس ملک میں سیاسی بے چینی کے در پے تھے اور اس ملک کے سیاسی نظام کو برباد کرنا چاہتے تھےوہ آج اس ملک میں مکمّل سیاسی ثبات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
مختلف طبقات اور مناطق سے تعلّق رکھنے والے افراد ،یکساں طور پر اور پوری ہوشیاری کے ساتھ جو اس عظیم قوم کے شایان شان ہے ،ملکی مسائل میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں اور مکمّل آگاھی کے ساتھ ملکی اہداف و مقاصد کو اپنی زبان پر جاری کرتے ہیں،جیسا کہ آپ کے نعروں سے بھی نمایان تھا، اورہر جگہ اس ملک کی علمی اور ایٹمی توانائی میں ترقّی و پیشرفت اور بین الاقوامی سیاست میں اس کے نمایاں مقام
کی بات ہو رہی ہے،آج اس ملک میں ماضی کے مقابلہ میں سماجی عدل و انصاف پر زیادہ توجّہ دی جا رہی ہے اور نابرابری اور بد عنوانیوں کے خلاف مہم جاری ہے۔
ہماری جوان نسل، جسے انقلاب کی تیسری نسل کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے،با صلاحیّت ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے پیشرو افراد کی زحمتوں کی قدردان بھی ہے، آج ہم جن جوانوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں چاہے وہ کسی بھی صنف سے تعلّق رکھتے ہوں ،علمی اور درسی اعتبار سے کسی بھی مر حلہ پر فائز ہوں ان میں اسلامی انقلاب کے اصولوں و اھداف سے دلچسپی کا عمومی رجحان پایا جاتا ہے۔جس قوم کی ا کثریّت ایسے جوانوں پر مشتمل ہو اسے اپنے مستقبل کے بارے میں پر امّید ہونا چاہیے۔
نئی نسل،تازہ دم نسل ،مستقبل کے بارے میں پر امّید نسل، کسی بھی ملک و ملّت کے شایان شان مستقبل کی تعمیر کا موقع فراہم کرتی ہے،اور آج ہماری پوزیشن بھی یہی ہے۔ ہمارے سماج کی اکثریّت جوانوں پر مشتمل ہے، وہ بھی ایسے جوان جو، ان برائیوں میں مبتلا نہیں جن میں باقی دنیا کے ا کثر جوان گرفتار ہیں۔میں ان لوگوں کے نظریّہ سے متّفق نہیں ہوں جو ہماری جوان نسل سے بد بین ہیں اور اس پر طرح طرح کی الزام تراشیاں کر رہے ہیں ، میں اس نظریّہ کو حقیقت سے دور سمجھتا ہوں،یہ زاویہ فکر حقیقت میں بد بینی کا نتیجہ ہے۔
آج کے جوانوں اور اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے کے جوانوں میں، ہماری قوم کے جوانوں اوراس خطّہ کے دیگر ممالک کے جوانوں میں اور جیسا کہ ہمیں علم ہے ہمارے جوانوں میں اور بقیہ دنیا کے اکثر جوانوں میں زمیں آ سمان کا فرق ہے۔
ہمارے جوانوں کی زندگی اور دل، دینی اعتقادات سے مملو ہیں،اسلامی اقدار کی ان دیکھی اور ان سے لا پر واہی کے مناظر شاذونادر ہی دکھائی دیتے ہیں۔
میں نے عید کے موقع پر اپنے علم و آگاھی کی بنیاد پر یہ بات کہی تھی کہ اس سال ماہ رمضان کی شب ہائے قدر کی دعا و مناجات، آہ و گریہ زاری کے پروگراموں میں شرکت کرنے والے جوانوں کے لباس و ظاہری وضع قطع کو اگر کوئی سطحی اور ظاہر بین شخص دیکھتا تو یہ نتیجہ اخذ کرتا کہ ان جوانوں کو دین سے کوئی سر و کارنہیں ، حالانکہ ہر گز ایسا نہیں ، ہمارے جوانوں کے دل حق و حقیقت سے وابستہ ہیں ،ان کے دل ملایم اور نورانی ہیں ،مجھے اپنی نوجوانی اور جوانی کے ایّام سے اچھی طرح یاد ہے کہ اس ملک کی مساجد میں یا گوہر شاد مسجد میں اس شان و شوکت سے عوام نے کسی دور میں اعتکاف میں شرکت نہیں کی، البتّہ رجب اور شعبان کے تین دنوں میں جنہیں ایّام البیض کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ہم نے ضرور دیکھا تھا کہ قم میں کچھ انگشت شمار لوگ اعتکاف کیا کرتے تھے جو غالباّ دینی طالب علم تھے،عام لوگوں میں اعتکاف رائج نہیں تھا ۔لیکن آج اعتکاف کے ایّام میں ، پورے ملک کی یونیو رسٹیاں
اور عام مساجد، جامع مساجد اعتکاف کر نے والوں سے چھلکتی نظر آتی ہیں،اس کے علاوہ ماہ رمضان کے آخری دس دن میں ایک عظیم جمعیّت اعتکاف میں مشغول تھی،اور وہ بھی کون ؟ بوڑھے اور سن رسیدہ مرد و عورت نہیں ،بلکہ کم سن اور جوان ،یہ مناظر دنیا میں بےمثال ہیں،یہ ہماری آج کی جوان نسل ہے۔آج سماج میں، دین اور انقلابی اقدار کا رجحان روز بہ روز بڑھ رہا ہے۔
یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ آج ایک عو امی اوردینی اقدار کی پائبند حکومت بر سر اقتدار ہے
صدر مملکت بھی اپنی عوامی اور سادہ زندگی ،اور انقلاب کی اقدار پر ثابت قدمی ۔شجاعت اور خوداعتمادی کے ساتھ مصروف عمل ہیں، وہ اور ان کی کابینہ کے اراکین عوام کی خدمت کے لیے کمر ہمّت کسے ہوئے ہیں ملکی اور عالمی مسائل کی نبض اپنے ہاتھوں میں لیے ہوئے ہیں،آج ہمارے ملک کے ذمّہ دار بین الاقوامی سیاست کے میدان میں عالمی سیاست کا تعیّن کرنے والے سیاستدانوں کی پیروی کرنے پر مجبور نہیں،بلکہ سیا ست کی باگ دوڑہمارے حکام کے ہاتھ میں ہے، اوریہ ملکی حکام میں پائی جانے والی خود اعتمادی اور خدا پر توکّل و ایمان کا نتیجہ ہے ،الحمد للہ آج ایسا ہی ہے۔ ہمارے ملک کے صدر مملکت ،مرد عمل،خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار،اور انتھک شخصیّت کے مالک ہیں جو اس ملک کے تابناک مستقل کی نویدہے۔آج ہمارا سیاسی نظام ثبات و پائداری کا حامل ہے۔ مومن عوام ، جوش و ولولہ سے سرشار جوان،ہمدرد،شجاع، اور خدمت کے جذبہ سےلبریز مسؤولین اس نظام کا حصّہ ہیں۔
آج تقریباّ ہر میدان میں ترقّی اور پیشرفت کے آثار نمایاں ہیں، چند ہفتہ پہلے صدر مملکت نے ملک کےاقتصادی اور دیگر مسائل کے بارے میں جو رپورٹ عوام کی خدمت میں پیش کی وہ با انصاف ماہرین،حتّی بعض موارد میں بین الاقوامی مرا کز کی مورد تائید ہے،اگر چہ بین الاقوامی مرا کز ہمارے سلسلے میں عام طور پر تعصّب و عناد سے کام لیتے ہیں لیکن بہت سے مسائل میں انہوں نے اسی رپورٹ کی تصدیق کی ہے: جس میں افراط زراور مہنگائی،بےروزگاری،بدعنوانی سے پیکارکا مسئلہ شامل ہے ۔
اگر چہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ جو اعداد وشمار وہ پیش کر تے ہیں وہ علم اور حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ اس کے پیچھے سیاسی عوامل کار فرما ہوتے ہیں ، وہ ہمارے ملکی مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا چاہتے ہیں اور انہیں بد تر دکھانے کے در پے ہیں۔ انہیں اداروں نے بہت سے مسائل کے بارے میں موجودہ رپورٹ کے صحیح ہونے کی تصدیق کی ہے۔
الحمد للہ آج عوام میں عام طور سے اور محروم و مستضعف طبقہ میں خاص طور سے امّید کی کرن پائی جاتی ہے،یہ امّید اس لیے نہیں ہے کہ ان کی مشکلات حل ہو چکی ہیں ، ممکن ہے کہ مشکلات کی بر طرفی کے لیے ایک طویل مدّت درکار ہو، کبھی کبھی عظیم امور کو پایہ تکمیل تک پہونچانے کے لیے ایک یا دو حکومتی دورانیہ کی مدّت درکار ہوتی ہے،لیکن اس کے باوجود بھی لوگ پر امّید اور خوش ہیں، آخر ایسا کیوں ہے؟ایسا اس لیے ہے کہ انہیں یہ احساس ہے کہ بے عدالتی اور محرومیّت کو مٹانے کے منصوبہ پر کام جاری ہے؛یہی چیز ان کے دلوں کو خو ش کرنے کے لیے کافی ہے۔میں نے بھی بر سر اقتدار حکومتوں اور انکے ذمّہ دار افراد سے ہمیشہ یہی تاکید کی ہے کہ ایسا برتاؤ کریں کہ عوام میں یہ احساس جاگے کہ آپ ان کے لیے کام کر رہے ہیں اور اہداف و مقاصد کی راہ پر گامزن ہیں ۔ہمارے عوام نہایت فراخدل عوام ہیں ۔
میں نے تاریخ کا بہت مطالعہ کیا ہے،ملکوں اور قوموں کے مختلف مسائل سے آشنا ہوں ۔ بہت سی اقوام میں یہ شرافت ونجابت، یہ صبر، یہ حقیقت بینی،یہ ہمدردی و ہمراہی نہیں پائی جاتی ،جیسا کہ بعض قوموں میں وہ علم و آگاہی نہیں پائی جاتی جو ہماری قوم میں ہے۔
ہماری قوم کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ اسے اس بات کا احساس ہو جائے کہ ملک کے اعلیٰ عہدیدار، ان کے لیے کام کر نا چاہتے ہیں ،نکمّے نہیں بیٹھے ہیں ،اور اپنے لیے کچھ نہیں چاہتے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں حکام کی سادہ زندگی پر زور دیتا ہوں،یہ اس لیے ہے تا کہ آپ عوام پرظاہرکر سکیں کہ آپ کا مقصد اپنی جیب گرم کرنا نہیں ،اس سے لوگوں میں امّید پیدا ہوتی ہے اوران میں اعتماد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
اس شخص میں جو اپنے عہدے کی مدت میں ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارتا ہے تا کہ اپنے مالی مستقبل کو فراہم کر سکےاور ہمیشہ اسی تگ و دو میں رہتا ہے، شاید اپنے مالی مستقبل کو فراہم کر نے میں کامیاب بھی ہو جاے، اور ایسے شخص میں جسے اپنے ذاتی مسائل کی ذرّہ برابر بھی فکر نہ ہو، ان دو میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔
آج دنیامیں جو کوئی بھی کسی وزارت یا عہدہ پر فائز ہوتا ہے اس کا سب سے پہلا ہدف یہ ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طریقہ سے اپنی تجوری بھر لے ، فلا ں کمپنی ، اورفلاں سرمایہ گذاری میں شریک ہو۔ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی جمھوری نظام کےحکام ایسے نہ ہوں ۔خوشبختی سے آج ہمارے حکام اور خود صدر مملکت نے اپنا پورا وقت عوام کی خدمت کے لیے وقف کر رکھّا ہے۔
عالمی سطح پر ہماری قوم کے اقتدار و عزّت نے اس قوم کے جوش و ولولہ میں اضافہ کیا ہے، آج ایٹمی توانائی کے مسئلہ میں پوری دنیا نے تسلیم کر لیاہے کہ ایرانی قوم اپنے طبیعی اور مسلّمہ حق سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے والی نہیں ،حا لانکہ ایٹمی توانائی کا مسئلہ ہمارا سب کچھ نہیں بلکہ دیگر مسائل کی طرح ایک مسئلہ ہے۔
اس عالمی اقتدار سے قوم کے جوش و ولولہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ملک کے اندر علمی ،سائینسی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقّی نے ، مشکلات کو حل کرنے کا بہترین موقع فراہم کیا ہے۔آج حکام کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ روزگار کی فراہمی کا مسئلہ ہے،مسؤولین دن رات اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں تا کہ خوش اسلوبی سے اور ایک مناسب مدّت کے اندر اس مسئلہ کو حل کر سکیں جو کافی مدّت سے اس قوم کے گریبان گیر ہے۔
دوسرا مسئلہ"بدعنوانی سے پیکار " کا مسئلہ ہے ،مالی اور اداری بدعنوانی اس کے بدترین عوارض میں سے ہے،اور یہ ان چیزوں میں سے ہے جس کی تائید بین الا قوامی اداروں نے بھی کی ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ سال کے اندر ، بدعنوانی سے پیکار میں ہمارے ملک کا گراف اونچا ہوا ہے اور اس نے اس سلسلے میں نمایاں پیشرفت کی ہے۔البتّہ ہم اسی پر قانع نہیں ہیں ،بلکہ ملک سے اداری اور مالی بدعنوانیوں اور قومی امانتوں میں خیانت کا مکمّل طور پر سدّ باب ہونا چاہیے۔ اس بات کا مفید اور سالم سرمایہ کاری سے کوئی ربط نہیں ہے ،ہم ملک کے سرما یہ داروں کو سفا رش کر تے ہیں کہ بے خوف و خطر سرمایہ کاری کے میدان میں قدم رکھّیں اور قانون کے مطابق کام کریں ،بعض لوگ ان دو چیزوں کو ایک دوسرے میں ادغام کر کے غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں ،ہم بدعنوانی کے مخالف ہیں ،ہم غلط استفادہ کے مخالف ہیں ،ہم امانت میں خیانت کے مخالف ہیں جو عام طور پر حکومت کے ملا زمین سے سر زد ہوتی ہے ۔ہم ان مفاسد سے پیکار کے معتقد ہیں ،الحمد للہ یہ جنگ سنجیدہ ہے اور اس کا آغاز ہو چکا ہےاور اس کو پھیلانےاور ہمہ گیر کرنے کی ضرورت ہے۔
آج ملک کے سیاسی میدان میں بھی عوام کی وحدت اور یکجہتی ماضی کے مقا بلہ میں کہیں زیادہ ہے
کچھ عرصہ پہلے بعض افراد عجیب و غریب نعرے بلند کر رہے تھے،ایسے نعرے جو صرف عوام میں تفرقہ ڈالنے کے لیے مفید تھے،اسی پر قانع نہ تھے بلکہ دوہری حاکمیّت کا نعرہ دے رہے تھے یعنی ملکی حاکمیّت اور انتظامیّہ میں تفرقہ ڈالنے اور انہیں آپس میں لڑانے کے در پے تھےاور کھلے عام اس کا نعرہ بلند کر رہے تھےاور ذرّہ برابر شرم بھی محسوس نہیں کرتے تھے،الحمد للہ آج ایسے لوگ الگ تھلگ پڑ چکے ہیں ۔ آج ملکی انتظامیّہ کی وحدت و یکجہتی ایک بہت بڑی نعمت ہے،لوگوں کے دل، ایک دوسرے سے قریب ہیں ،عوام اور حکومت کا رابطہ بھی نہایت خوشگوار ہے۔ البتّہ پروپیگنڈے بھی اپنی جگہ جاری ہیں ۔ کچھ روز قبل صدر مملکت نے مطبوعات سے گلہ شکوہ کیا کہ وہ ان پر الزام تراشی اور کیچڑ اچھالنے کے مرتکب ہو رہے ہیں،بعض مطبوعات نے اس پر اعتراض کیا،میں عام طور پر مطبوعات پر نظر رکھتا ہوں میری نگاہ میں ،حق صدر مملکت کی طرف ہے، میں معتقد ہوں کہ بعض مطبوعات ، سازگار تنقید کے بجائے نا انصافی سے کام لیتے ہیں،اگر چہ سازگار تنقید میں کوئی حرج نہیں ہے،یہ مطبوعات دنیا کے رائج پروپیگنڈوں اور حیلوں سے کام لیتے ہیں اگر حکومت ،عوام کے حق میں کوئی مفید اوراچھا کام کرتی ہے تو اس پر یا تو سوالیّہ نشان لگانے کی کوشش کرتے ہیں یا سرے سے ان دیکھا کر دیتے ہیں ، اور اگر کہیں کوئی نقص پایا جاتا ہو چاہے معمولی ہی کیو ں نہ ہو اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں ،بعض مطبوعات میں ہم لوگ اس کا مشاہد ہ کر رہے ہیں ،چونکہ ہماری قوم اس سے باخبر ہے لہذا اس میں کوئی حرج نہیں ۔
میں نے کئی برس پہلے اس سلسلہ میں متنبّہ کیا تھا اور ملک کی ثقافتی انتظامیّہ اور مطبوعات و نشریّات میں اغیار کے نقش و کردار سے عوام کو آگاہ کیا تھا ،بعض لوگوں نے اس سے انکار کیا لیکن آخر کار سب نے اس کی تصدیق کی،ہمارے دشمن بیکار نہیں بیٹھے ہیں ،وہ میڈیا ،مطبوعات اور طرح طرح کے پروپیگنڈوں کو بروے کار لا رہے ہیں تاکہ ان اقدار کو ہماری قوم کی نظروں سے گرا سکیں جو اس قوم کے لیے عزیز ہیں اور دشمنوں کی آنکھ کا کانٹا ہیں ۔ہم نے بھی عملی طور پر بتا دیا ہے کہ ہمارے مطبوعات آزاد ہیں بعض جرائد و مطبوعات کا رویّہ جو ہمارے نقطہ نظر سے بہت منفی ہے،اس آزادی کامنہ بولتا ثبوت ہے،اور ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو یہ دہائی دیتے ہیں کہ ایران میں اظہار عقیدہ و بیان کی آزادی نہیں ۔حالانکہ ایسا نہیں ،آزادی بیان کا نمونہ وہ مطبوعات ہیں جو کھلے عام ،حکومت، موجودہ نظام اور ملک کی کلّی سیاست کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اپنی من چاہی باتیں لکھ رہے ہیں اور کوئی بھی ان کے آڑے نہیں آتا ،البتّہ عوام بھی ان کی باتوں کی پرواہ نہیں کرتے اور یہ خدا وند متعال کا لطف و کرم ہے۔
آج دنیا میں سیاسی اور سماجی اعتبار سے ایرانی حکومت اور ملّت کا مقام بہت اونچا ہے۔ پہلے ہمارے دشمن اس خوش فہمی میں مبتلا تھےکہ وہ ایسا موقع فراہم کر چکے ہیں یا آئندہ فراہم کریں گے کہ اپنے ایک اشارے سے اس ملک کی سیاسی بساط الٹ سکیں گے ، امریکیوں نے یہ دعویٰ بھی کیا،اور کچھ برس پہلے بعض امریکی سیاستدانوں نے ہماری اطلاع کے بغیر ایران کا خفیہ دورہ کیا ،ان کے لوٹنے کے بعد ہمیں
ان کے آنے کی اطلاع ملی،یہاں انہوں نے بعض حکومت مخالف عناصر سے نشست و بر خاست کی اور جب یہاں سے امریکہ لوٹے تو یہ بیان دیا کہ ایران میں ایسے عنا صر موجود ہیں جو ہمارے ایک اشارے پر اسلامی حکومت کی بساط الٹ سکتے ہیں ۔آج ، حقیقت ان پر واضح ہو چکی ہے کہ بساط الٹنا اور قبضہ جمانا تو دور کی بات ہے وہ اس نظام کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے ۔ہماری قوم بیدار و متّحد ہے،ہمارے دل ایک ہیں ،ہماری قوم اپنے مسؤولین پر بھروسہ رکھتی ہے، یہ بات اچھی طرح جا نتی ہے ملک کے اعلیٰ عہدیدار جو کر رہے ہیں ،جو کہہ رہے ہیں اپنے ذاتی مفادات اور طاقت و ثروت اندوزی کے لیئے نہیں ہے، بلکہ ملکی مصلحت کو پیش نظر رکھے ہوئے ہیں ، وسیع النظری سے ملک کی مصلحتوں اور ضرورتوں کو دیکھا جا سکتا ہے اور عوام بھی اس کی تشخیص دے سکتے ہیں۔
الحمد للہ آج ہماری پوزیشن بہت مستحکم ہے،اس کے بر خلاف، ہما رے مخالفین اور دشمنوں کے قدم ڈگمگا رہے ہیں ،میں نے کل اورپرسوں بھی آپ کے گوش گذار کیا تھا کہ آج کا امریکہ دس، پندرہ سال قبل کا امریکہ نہیں ہے؛آج کی غاصب صیہونی حکومت چند سال قبل والی صیہونی حکومت نہیں ہے،اس حکومت کو شدید دھچکا لگا ہے۔البتّہ یہ لوگ اپنی دشمنی و عناد سے دست بردار نہیں ہوں گے،اس میں کوئی حرج بھی نہیں ۔ یہ ان کے خلاف خدائی مکر ہے تا کہ دنیا پر عا لمی طاقتوں کی قدرت کا پول کھل سکے۔
آج دنیا کا سیاسی نقشہ بدل چکا ہے،آج ایسے خطوں میں بھی امریکہ مخالف حکومتیں بر سرِ اقتدار آرہی ہیں جنہیں امریکہ اپنا خالی صحن شمار کرتا تھا۔ امریکہ جس قدر بھی کوشش کرتا ہے کہ ایسی حکومتوں کو بر سر اقتدار آنے سے روکے لیکن اسے کامیابی نہیں ملتی۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ دنیا کی سیاست میں بھی انقلاب آ چکا ہے۔
ہماری عزیز قوم؛گرمسار کےعزیز لوگو؛ آپ یہ جان لیں کہ خداوند ِمتعال نےحتمی وعدہ کیا ہے کہ
"انّ الذین قالوا ربّنا اللہ ثمّ استقامواتتنزّل علیھم الملائکۃ الّا تخافواولا تحزنوا"صراط مستقیم پر استقامت و پائداری کا نتیجہ یہ ہے کہ خداوندِمتعال ،انسان اور معاشرے سےغم و اندوہ ،ڈرو خوف کودور کر دیتا ہےاور کامیابی و کامرانی کو ان کا مقدّر قرار دیتا ہے۔ہم نے جس راستے کا انتخاب کیا ہے وہ خدا کا راستہ ہے۔خدا کی راہ کے معنا ،صرف عبادت کرنے اور ایک گوشے میں بیٹھے رہنے کے نہیں ؛بلکہ راہِ خدا کے معنا انسانی سماج کو خوشبختی تک پہنچانے کے ہیں ۔ہماری قوم نے اس راستے کا انتخاب کیا ہے ؛ یعنی ،عدل و انصاف،عبودیّت الہی،انسانی مساوات،انسانی بھائی چارہ،انسانی فضیلت ، اچھّے اور پسندیدہ اخلاق کے راستے کا انتخاب کیا ہے اور اس پر استقامت کا مظاہرہ کیا ہے ،اور اس راستے کی مشکلات سے خائف ہوئے بغیر ان کا سامنا کیا ہے،انشاء اللہ خداوند متعال جلد ہی اس استقامت و پائداری کا میٹھا پھل ہماری قوم کو چکھائے گا ۔
مختلف شعبوں سے مربوط حکام اس ضلع کے مسائل کے بارے میں بہت حسّاس ہیں ۔یہ مطالب جو یہاں کے محترم امامِ جمعہ نے بیان کیے بعینہ وہی مطالب ہیں جن کی گزارش مجھے اس سفر سے پہلے دی گئی تھی،حکومت انہیں مسائل پر کام کر رہی ہے؛ مفید اور اہم فیصلے لیے گئے ہیں۔لیکن ہم نہیں چاہتے کہ اپنے سفر کے دوران ،ان کاموں میں مداخلت کریں جو حکومت سے مربوط ہیں اور حکومت پر اضافی بوجھ لادنےکا باعث بنیں ،یہ وہ امور ہیں جو حکومت کے پروگرام میں شامل ہیں ۔ہم صرف اتنی سفارش کرتے ہیں کی ان پر عمل درآمد میں تیزی لائی جائے، اور ان نقاط پر توجّہ دی جاے جو نظروں سے دور رہ گئے ہیں اور حکومت کے تمام ذمّہ دار ،خواہ صوبائی انتظامیّہ ہو یا ضلعی،پارلیمنٹ کے اراکین ہوں یا تہران کےاعلی ٰانتظامیّہ کے عہدیدار، سبھی متحد ہو کر ان نقاط پر توجّہ مرکوز کریں اور یکے بعد دیگرے ان مشکلات کو حل کریں اور ان گتھیوں کو سلجھائیں۔ہم امّید کرتے ہیں کہ خداوندِمتعال اپنی معنوی اور مادی برکتوں کو آپ لوگوں پر نازل فرمائے گا۔
پروردِگارا! گرمسار کے مؤمن اور پر جوش عوام کو یہاں کے مرد و عورت ،پیروجوان کو اپنے خاص لطف و کرم کاسایہ عطا فرما۔ خدا وندا! جوانوں کو سیدھے راستے ،رشد و استقامت کے راستے کی ہدایت فرما۔خداوندا! ان مؤمن اور با کردار لوگوں کی زندگی کے حسن اور بہبودی میں دن بدن اضافہ فرما۔اے خدا؛ان لوگوں کی خدمت کے لیئے حکام کی توفیقات میں روز افزوں اضافہ فرما۔
والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ