بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
میں آپ لوگوں ، اپنی عزیز قوم اور قم کے محبوب عوام کی خدمت میں ، عید غدیر خم کی مناسبت سے تہنیّت اور مبارکبادپیش کرتا ہوں جسے ہماری روایات میں " عید اللہ الاکبر "(خداوند متعال کی سب سے بڑی عید) سے تعبیر کیا گیا ہے ، قم کے لوگوں کا مودّت اہلیبیت (علیہم السّلام) کے سلسلے میں ایک طویل اور دیرینہ سابقہ ہے جو کم از کم گیارہ سو سال پر محیط ہے ۔
اس زمانے میں بھی قم اہلبیت (علیہم السّلام)کی تعلیمات اور ان کے ممتاز شاگردوں کی تربیّت کا ایک اہم مرکز تھا جب اسلامی سرزمین کے ایک وسیع و عریض حصے پر بسنے والے مسلمان ان کی تعلیمات اور معارف کے نور سے بے بہرہ تھے ، قم ، امام ھادی اور امام عسکری علیہما السّلام کے دور سے ہی ،معارف اہلیبیت (ع)کی ترویج کا مرکز رہا ہے ۔
عصر حاضر میں بھی ،انقلاب اسلامی کے حیرت انگیز واقعہ میں اہل قم نے نہایت اہم کردار ادا کیا اور انقلابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، اور اس سلسلے میں قائدانہ رول ادا کیا ، ان کی یہ تحریک، آہستہ آہستہ ملک کے دوسرے حصّوں میں بھی پھیل گئی اور اسلامی انقلاب کی کامیابی پر منتج ہوئی ۔خداوند متعال قم کے عوام کے اجروثواب میں روزافزوں اضافہ فرمائے اور آپ اور اہل قم پر اپنی بیکراں توفیقات نازل فرمائے ۔
انقلاب کی کامیابی کے بعد سے لے کر آج تک ، قم ، تمام میدانوں میں انقلاب کے اصلی خصوط پر باقی ہے ، مقدّس دفاع اور دیگر مسائل میں اہل قم اور حوزہ علمیہ کی بے مثال استقامت اور پائداری نے ان حسّاس مواقع پر ملک کے دوسرے مقامات کے عوام کی راہنمائی کی ہے ۔
غدیر کا واقعہ محض ایک تاریخی واقعہ نہیں ہے ' بلکہ اسلام کی ہمہ گیری اور جامعیّت کی علامت ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دس سال کے عرصے میں ،اپنی اور اپنے باوفااصحاب کی انتھک کاوشوں کے ذریعہ ایک بالکل ابتدائی اور تعصبات اور خرافات سے آلودہ معاشرے کو ایک پیشرفتہ اور تہذیب یافتہ سماج میں تبدیل کر دیا ، اگر پیغمبر اسلام (ص)نے اپنے بعد کے لئیے ، امت کے سامنے کوئی منصوبہ اور نصب العین پیش نہ کیا ہوتاتو پیغمبراسلام (ص) کا کام ناقص رہ جاتا ۔ چونکہ زمانہ جاہلیّت کے تعصّبات کی جڑیں اتنی گہری تھیں کہ ان کی بیخ کنی کے لئیے ایک طویل مدّت درکار تھی ۔ ظاہری اعتبار سے سب ٹھیک ٹھاک تھا ، لوگوں کا ایمان بھی مضبوط تھا ، البتّہ سب کا ایمان ایک جیسا نہیں تھا ، ان میں سے کچھ لوگ ،پیغمبر اسلام (ص)کی رحلت سے ایک یا دو سال قبل اسلام لائے تھے اور بعض کے اسلام کو ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے ،ان میں سے بعض اسلام کی جنگی طاقت سے مرعوب ہو کر مسلمان ہوئے تھے البتّہ بعض اسلام کی جاذبیّت کو دیکھ کر مسلمان ہوئے تھے ، سبھی تو صدر اوّل کے سچّے اور با وفا مسلمانوں جیسے نہیں تھے ،لہٰذا جاہلیّت کے تعصّبات کی روک تھام اور پیغمبر (ص) کے بعد،اسلام کے صحیح راستے کی ہدایت کے لئیے کوئی انتظام ضروری تھا ، اگر یہ انتظام نہ ہوتا تو کام ادھورا رہ جاتا ، سورہ مائدہ کی یہ آیت اس حقیقت کا واضح اعلان کر رہی ہے " الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی "کہ اسلام کی نعمت ، ہدایت کی نعمت ، بنی نوع انسان کو صراط مستقیم کی ہدایت کی نعمت تبھی پایہ تکمیل تک پہنچ سکتی ہے جب پیغمبر اسلام کے بعد کا(road map ( لائحہ عمل معیّن ہو ؛ یہ ایک طبیعی اور فطری عمل ہے ۔
پیغمبر اسلام (ص)نے غدیر خم کے موقع پر اس عمل کو انجام دیا ؛ اور حضرت علی علیہ السّلام کو اپنی جانشینی کے لئیے منصوب کیا جو ایمان ، اور رفتار و کردار میں ایک ممتاز ، منفرداور بے مثال شخصیّت کے حامل تھے ، اور سبھی پر ان کی اطاعت و پیروی کو لازم قرار دیا ۔البتّہ یہ پیغمبر اسلام(ص) کا اپنا ذاتی اقدام نہیں تھا بلکہ پیغمبر (ص)کی دیگر ہدایات اور فرمودات کی طرح یہ کام بھی وحی الٰہی کے ذریعہ انجام پایا ، خدا نے حضرت علی علیہ السّلام کو عہدہ امامت پر فائز کیا ، اور پیغمبر اسلام (ص)کو اس کا واضح اور دوٹوک پیغام دیا ، پیغمبر اکرم (ص)نے اس پر عمل کیا ۔غدیر اس حقیقت کا نام ہے ؛ غدیر،دین اسلام کی ہمہ گیری اور جامعیّت کی عکّاسی کرتی ہے ، اسلام کے مستقبل کی ضامن ہے اور ان شرائط کو واضح کرتی ہے جو امت اسلامیہ کی زعامت اور قیادت کے لئیے لازم ہیں ، وہ کون سی شرطیں ہیں ؟ وہ وہی شرائط ہیں جو امیرالمؤمنین (ع)کی ذات والا صفات میں جلوہ گر تھیں ، یعنی "پرہیزگاری " دینداری"دین کی بے قید و شرط پابندی" خدا اور حق کے راستے کے سوا کسی کو خاطر میں نہ لانا "خدا کی راہ میں بے خوف و خطر چلنا"علم ، عقل و تدبیر سے مزیّن ہونا " عزم و ارادہ کی طاقت سے آراستہ ہونا" ؛غدیر ایک حقیقت ہے لیکن اس کا ایک اشارتی اور علامتی(symbolic ) پہلو بھی ہے ۔ امیرالمؤمنین (ع) کو انہیں خصوصیّا ت کے پیش نظر منصوب کیا گیا ؛ یہ خصوصیّات ،اسلام کی زندگی کے مختلف اداوار میں اسلامی قیادت اور زعامت کے لئیے مشعل راہ ہیں ۔ امت اسلامیہ کے رہبروں اور حکومت کےزمامداروں میں انہی خصوصیّات کا ہونا ضروری ہے جو امیرالمؤمنین (ع)کے انتخاب میں شامل تھیں ، غدیر ایک ایسی حقیقت کا نام ہے ۔
ہم اہلیبیت علیہم السّلام کے چاہنے والے اور ان کے پیروکار ، خدا کا لاکھ لاکھ شکر اداکرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اس عظیم نعمت سے نوازا اور ہمارے دلوں کو اس حقیقت کو قبول کرنے کی توفیق عطا کی ، ہمیں ایسے ماحول میں پیدا کیا اور پروان چڑھایا جہاں مودّت اہلیبیت علیہم السّلام موجزن تھی ؛ یہ کوئی کم نعمت نہیں ہے ۔
محبّان اہلیبیت اور تمام مسلمانوں کو اس کے ساتھ ساتھ ، عصر حاضر میں ایک اور نکتے پر خصوصی توجّہ دینے کی ضرورت ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ ہم واقعہ غدیر کو، اسلام کو کمزور کرنے کے لئیے استعمال نہ کریں چونکہ غدیر کا واقعہ اسلام کی عظمت اور جامعیّت اور ہمہ گیری کا عکّاس ہے ، میں آج کل اپنی ذمّہ داری سمجھتا ہوں کہ اپنی عزیز قوم اور دیگر ممالک کے مسلمانوں کی توجّہ اس نکتے کی طرف مبذول کروں کہ وہ عصر حاضرمیں دشمنوں کی شاطرانہ چالوں سے ہوشیار رہیں ، ہمارے دشمن اپنی تمام تر توجّہ انہیں نکات پر مرکوز کئیے ہوئے ہیں جو اسلام کی عظمت اور سربلندی کا منشا ہیں ، یعنی شیعہ اور سنّی کا مسئلہ ، غدیر کو ماننے اور اس کے انکار کا مسئلہ ۔ دشمن ،غدیر کے ذریعہ مسلمانوں میں برادر کشی اور خونریزی کا بازار گرم کرنا چاہتا ہے ؛ حا لانکہ یہی غدیر ، مسلمانوں کے آپسی بھائی چار ے اورمیل ملاپ کا باعث بن سکتی ہے ، مرحوم شہید مطہّری ( رضوان اللہ تعالیٰ علیہ ) نے انقلاب سے پہلے ، علّامہ امینی کی کتاب " الغدیر " کے سلسلے میں ایک مفصّل مقالہ تحریر کیا تھا اور اس میں ثابت کیاتھا کہ علّامہ امینی کی "الغدیر " مسلمانوں کے اتحاد اور یکجہتی کا باعث ہے ۔ بعض لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ شاید اس کتاب سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی فضا پیدا ہو جائے ۔ لیکن موصوف نے ثابت کر دیا کہ اگر ہم صحیح فکر وعمل سے کام لیں اور سوچ سمجھ کر آگے کی طرف قدم بڑھائیں تو یقینا " الغدیر " دنیائے اسلام کی یکجہتی اور اتحاد کا سبب بن سکتی ہے ۔ہمار ے سنّی بھائی بھی ، تعصّب اور پیشگی قضاوت کے ماحول سے دور رہ کر " الغدیر " کے منابع اور مآخذ کی طرف رجوع کریں ؛ پھر ان کی اپنی مرضی ہے خواہ قبول کریں یا رد، بہر حال یہ بات اپنی جگہ مسلّم ہے کہ دونوں صورتوں میں واقعہ غدیر کسی بھی طور پر غدیر کے ماننے والوں اور اس کے انکار کرنے والوں کے مابین ، اختلاف و خونریزی کا باعث نہیں بنتا ، شیعوں سے بھی میری یہی گزارش ہے ۔شیعہ ،خدا کا لاکھ لاکھ شکر بجا لائیں کہ اس نے انہیں اس عظیم نعمت سے نوازا ۔ جن سنّی بھائیوں نے اس حقیقت کو قبول نہیں کیا ، یا مآخذ کی طرف رجوع نہیں کیا، یا وہ اس سے بے خبر ہیں ، یا ان کا ذہن قانع نہیں ہو سکا وہ اس پر اعتقاد نہیں رکھتے ، لیکن یہ بات ہر گز اختلاف و نزاع کا تقاضا نہیں کرتی ۔
آج، سامراج نے اپنی پوری توجّہ ، اسلامی دنیا کے اتحاد کو پارہ پارہ کر نے پر مرکوز کر رکھّی ہے ، دوسرے حربوں کو بھی استعمال کر کے دیکھا لیکن انہیں ناکامی ہوئی ، آپ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں تینوں محاذوں پر شکست کا سامنا ہے ، عراق ،لبنان ،فلسطین اور افغانستان میں اسےاپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے میں ہزیمت اٹھانا پڑی حالانکہ اس سلسلے میں اس نے ،پیسے ، اسلحے اور انسانی و سیاسی وسائل کے دریا بہا دئیے ،لیکن پھر بھی شکست اس کا مقدّر بنی ، اسے دھیرے دھیرے اپنی شکست کا احساس ہو رہا ہے ۔ تین ،چار سال پہلے ، صرف ہم ان باتوں کو کہا کرتے تھے لیکن آج خود امریکی اور وہاں کے تجزیہ کار اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں ، ان کے دوسرے تمام حربے ناکام ہو چکے ہیں ۔
اس اسلامی بیداری اور آگاہی کی لہر کو روکنے کے لئیےاب ان کے سامنے چند راستے باقی ہیں جس کا اصلی منشا ایران میں اسلامی جمہوریہ کا قیام ہے ، سب سے اہم راستہ یہی سنّی و شیعہ کا مسئلہ ہے ، یعنی اہل سنّت کی عظیم جمعیّت کے سامنے،اسلامی جمہوریہ ایران کو ایک شیعہ جمہوریت کے طور پرپیش کریں ؛ مذہبی تعصّبات اور جذبات کو ہو ا دیں ، یہ ایک انتہائی خطرناک صورت حال ہے ، وہ اس کام میں مشغول ہیں ، وہ بیکار نہیں بیٹھے ہیں ۔ہم سب کی یہی کوشش ہونا چاہئیے کو سامراج کی اس خواہش کو پورا نہ ہونے دیں ۔ سب کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔ہماری قوم ، ہماری برجستہ سیاسی اور مذہبی شخصیّات اور سبھی کو الرٹ رہنا چاہئیے کہ ان سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جائے جو سامراج کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں مددگار ثابت ہو ۔
ہم نے مشاہدہ کیا کہ دشمن نے ہمار ے سماج کے بعض عناصر کو اس بات پر اکسایا کہ وہ شیعوں کے حقوق کے دفاع اور ان کی پاسداری کے نام پر ایسی رفتار و کردار کا مظاہرہ کریں جس سے اہل سنّت کے درمیان آشفتگی برپا ہو ، ان کی دل آزاری ہو ، دشمن اپنے ہاتھ میں یہ اسلحہ لے کر میدان میں داخل ہوا ، اس پر سرمایہ لگایا، ہم نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اس سے باخبر بھی ہیں ۔
شیعوں کو سنجیدگی سے اپنا راستہ جاری رکھنا چاہئیے ۔ ہم " الحمد للہ الذی جعلنا من المتمسّکین بولایۃ امیرالمؤمین " کا ورد نہیں چھوڑ سکتے ؛ ہم علی بن ابی طالب علیہ السّلام کی مودّت و ولایت کا دامن مضبوطی سے تھامے رہیں گے ؛ لیکن کسی ایسے شخص سے لڑائی جھگڑا بھی نہیں کریں گے جو اس دا من سے وابستہ نہیں ہے ۔ یہ شیعہ سماج کا فریضہ ہے ۔ دشمن کی خواہش ہے کہ ہم لوگ آپسی اختلافات کا شکار ہوں ۔
اہل سنّت کا فریضہ بھی یہی ہے ، ہمار ے سنّی بھائی بھی اچھّی طرح جان لیں کہ دشمن ہمارے درمیان اختلاف ڈالنے کی سازشیں رچ رہا ہے ، وہ ہمار ے درمیان برادر کشی اور تعصّب پھیلانا چاہتا ہے ، برادر کشی اور خونریزی سے کم پر راضی نہیں ،آپ خود ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ بغداد اور عراق کے دیگر شہروں میں کیا کر رہے ہیں ! مسجد شیعہ ، مسجد براثا، مسجد کوفہ ، امام ہادی اور امام عسکری علیہما السّلام کے روضہ اقدس کی بے حرمتی آپ کے سامنے ہے ، جہاں کہیں بھی انہیں شیعوں کا کوئی گروہ نظر آتا ہے اور ان کا بس چلتا ہے وہاں دھماکے کراتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کا قتل عام کرتے ہیں ، یہ دشمن کی سازش ہے ، دشمن ان کی مالی امداد کر رہا ہے ؛ان افراطی اور تکفیری گروہوں کو امریکہ اور اسر ائیل کی خفیہ ایجینسیوں کی پشت پناہی حاصل ہے شاید ان کے عام فوجی ان حقایق سے بے خبر ہوں اور انہیں ان حوادث کے پس پردہ عوامل کی خبر نہ ہو لیکن ان کے اعلیٰ کمانڈروں اور فوجی افسروں کو اس کا علم ہے ، ان سب کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے ، امریکی فوجیوں کو بھی اس سلسلے میں ہوشیار اور بیدار رہنا چاہئیے ۔آج اسلامی بیداری اور آگاہی ،اور اسلامی قدروں کے رجحان میں ایک نئی جان پیدا ہوئی ہے ، تمام عالم اسلام میں بالخصوص ، جوانوں ، پڑھے لکھّے طبقوں ، یونیورسٹی اور تعلیمی اداروں ، اور سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد میں ،اسلام اور اس کی قدروں کی حاکمیّت کارجحان گزشتہ تیس ،چالیس برس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے ، اسلامی آگاہی اور بیداری کے دور کا آغاز ہو چکا ہے ۔وہ بھی اسی سے خائف ہیں ، اور اسے مٹانے کے درپے ہیں، دشمن کو اس آگاہی اور بیداری کی عمومی تحریک کو نقصان پہنچا نے کی اجازت نہ دیجئیے ، دشمن کی سازش یہ ہے کہ شیعوں اور سنّیوں کو آپسمیں لڑایا جائے اور مذہبی لڑائی میں جب بحث و گفتگو پر تعصب کی فضا حکم فرما ہوتی ہے تو بہت سی منطقی اور عقلی باتیں برباد ہو جاتی ہیں اور کوئی انہیں سننے کے لئیے تیّار نہیں ہوتا ، روشن فکر افراد اور علماء حضرات کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے ، اس سلسلے میں لوگوں کی راہنمائی کریں انہیں دشمن کی سازشوں سے با خبر کریں ، اسلامی ممالک کے سیاست دانوں اور سربراہان مملکت کوبخوبی معلوم ہونا چاہئیے کہ یہ اتحاد جسے ہم وجود میں لانا چاہتے ہیں اور بار بار اس کی تاکید کر رہے ہیں اسلام کی عزّت و سربلندی کا باعث ہے ، اسلام کی عزّت و سربلندی، ان کی اصلی طاقت ہے ، اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت ، ان کی حوصلہ افزائی اور تقویّت کا باعث ہے ۔ انقلاب کی کامیابی کے آغازسے اس انقلاب کے دشمنوں کی کوشش یہ تھی کہ سیاسی پروپیگنڈوں اور ہتھکنڈوں کے ذریعہ ، اسلامی جمہوریہ کے اطراف میں بسنے والے مسلمانوں کو اس حکومت سے خائف و ہراساں کریں ، عرب ممالک ، خلیج فارس کے ممالک اور دیگر ہمسایہ ممالک کو اسلامی جمہوریہ ایران سے ہراساں کرنے کی کوشش کی ،آج اسلامی انقلاب کی کامیابی کو بیس سال سے بھی زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے اور ان ممالک نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ اس دوران اسلامی جمہوریہ ایران نے کسی پڑوسی اور غیر پڑوسی ملک کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا؛اگر ہم پر کسی نے دست درازی کی تو وہ بھی ایک عرب حکومت تھی ، یہی بد انجام صدّام تھا جس نے ہم پر حملہ کیا ، کویت کو بھی نشانہ بنایا ، اور اگر موقع ملتا تو دیگر عرب ممالک پربھی حملہ کرتا۔ایران نے کسی ملک پر ذرّہ برابر بھی تجاوز نہیں کیا ہے ؛ اسلامی ممالک کے سربراہوں نے اسے دیکھا ہے ، انہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ اسلام اور اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت ، ان کی اپنی طاقت ہے ۔ امریکہ ، اسلامی حکومتوں کی کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے اور ان سے تحکّمانہ برتاؤ کرتا ہے ۔ اگر یہ حکومتیں مضبوط ہوں اور انہیں عوام کی حمایت حاصل ہو تو کوئی بھی ان پر رعب نہیں ڈال سکتا ۔ امریکہ غاصب صیہونی حکومت کو خراج دیتا ہے اور عرب حکومتوں سے خراج وصول کرتا ہے !اگر عرب حکومتو ں کو کسی عظیم طاقت کی پشت پناہی حاصل ہو تو وہ امریکہ کو خراج دینے پر ہر گز مجبور نہیں ہوں گی ۔
کچھ دنوں سے یہ خبر سیاسی محافل میں گرم ہے اور سیاسی مبصّر اور تجزیہ کار بھی اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ امریکہ ، اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ، امریکہ ، برطانیہ بعض عرب حکومتوں پر مشتمل اتحاد تشکیل دینے کے درپے ہے ، عرب حکومتوں کو بہت ہوشیاری اور بیداری سے کام لینا چاہئیے ،ذرا سی غفلت نہ برتیں ، دو منحوس اور پلید اور مسلم دشمن حکومتوں کا اتحاد ،اور وہ بھی ایسی مسلمان قوم کے خلاف جس نے اسلام کی راہ میں عظیم قربانیاں دی ہیں ، اسلام کی عزّت اور سربلندی کے لئیے سر دھڑ کی بازی لگائی ہے ، پرچم اسلام کی سربلندی کے لئیے ہزاروں جوانوں کی قربانی دی ہے آیا کوئی ان دو نجس اور پلید حکومتوں سے ہاتھ ملانے کو تیّار ہو گا اور وہ بھی ایسی قوم کے خلاف ؟!البتّہ انہیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا ، ایک زمانے میں اس بھی بڑھ کر اتحاد تشکیل دے چکے ہیں ؛ امریکہ ، اسرائیل ،سوویت یونین اور پورا یورپ اور بہت سے عرب ممالک آٹھ سالہ جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف متحد تھے اور ان کا مقصد یہ تھا کہ روسیاہ اور بد انجام صدّام کے ذریعہ سر زمین ایران کے ایک حصّہ کو ہتھیا لیں اور اسلامی جمہوریہ کو بدنام کر یں کہ وہ اپنی سرزمین کا دفاع نہیں کر سکا ؛ آٹھ سال تک پوری طاقت صرف کی لیکن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے ، اب بھی یہی صورت حال ہے ۔ اسلامی نظام کے خلاف ان کی سازشیں بار آور نہیں ہوں گی ۔ لیکن دشمن کے جال سے بچنے کے لئیے ہوشیاری اور بیداری کی ضرورت ہے ۔اسلامی جمہوریہ ایران ، علم ،سائینس اور ٹیکنالوجی اور سماجی اعتبار سے جس قدر مضبوط اور طاقتور ہو گا ،اس کی یہ طاقت پوری اسلامی دنیا کی طاقت ہے۔اسلام کے پلڑے کے بھاری ہونے کا موجب ہے ۔
ایرانی قوم کے لئیے جوہری توانائی یہاں کی داخلی پیداوار ہے ، ایرانی قوم بلکہ پورے عالم اسلام کے لئیے فخر کا مقام ہے ۔اب اگر امریکہ ، برطانیہ اور کچھ عرب ممالک سر جوڑ کر بیٹھیں اور ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں بحث و گفتگو کریں کہ ہمیں ایران کو جوہری توانائی کے حصول کی اجازت نہیں دینا چاہئیے ، ہمیں اس پر مزید پابندیاں عائد کرنا چاہئیے ، اور کوئی ایسا اقدام کرنا چاہئیے تاکہ اسرائیل ،ایران کی طرف سے آسودہ خاطر ہو جائے ، اسلامی حکومتوں کی طرف سے اس قسم کی گفتگو ایک بہت بڑی سیاسی غلطی ہے ، اسلامی حکومتوں کوتو ایران کی اس پیشرفت پر فخر کرنا چاہئیے اور اسے اپنی طاقت سمجھنا چاہئیے ۔
البتّہ ایرانی قوم اپنے اس حق سے ہر گز دست بردار نہیں ہو گی اور نہ ہی ملک کے اعلیٰ عہدیداروں کو یہ حق ہے کو وہ ایرانی قوم کے اس حق سے چشم پو شی کریں ۔
خداوند متعال انشاء اللہ عید غدیر کو آپ کے لئیے ، پوری ایرانی قوم کے لئیے ، امت مسلمہ کے لئیے مبارک قرار دے اور انشاء اللہ امیر المؤمنین (ع) کی شخصیّت اور عظمت کے اعتبار سے اس قوم کو عیدی عنایت فرمائے،اور امام زمانہ حضرت ولی عصر (عج) کے قلب مقدّس کو ہم سے راضی اور خوشنود فرمائے ۔
والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔