ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا مختلف یونیورسٹیوں کے ممتازطلباء اور علمی شخصیّیات سےخطاب

بسم ا للہ الرّحمٰن الرحیم

میں آپ سبھی نوجوان دوستوں کا انتہائی شکر گذار ہوں جنہوں نے آج اس حسینیہ میں عقلانیّت اور تفکّر پر مبنی ،جوانی کی طراوت سے سرشار فضا کو موج زن کیا ،ہمیں امّید ہے کہ آپ عزیز جوانوں اور دوست طلباء کے درمیان اس جذبے میں دن بدن اضافہ ہو گا چونکہ جب اس جذبے کے ساتھ ساتھ، دینداری اور پرہیزگاری کا جذبہ بھی پایا جاتا ہو تو یہ جذبہ ملکوں کی مشکلات کے تمام مراحل کو دور کرنے میں معاون اورمددگار ثابت ہوتا ہے ۔

آپ دوستوں نے جو مطالب بیان کیئے وہ انتہائی مفید مطالب تھے ؛ آج کی گفتگومیری نظر میں نہایت

مفید اور پر مغز گفتگو تھی ،خاص کر میرے لئیے اور میرا ہمیشہ سے یہ رویّہ رہا ہے کہ جو افراد بھی یہاں آتے ہیں یا کسی دوسرے مقام پر ان سے گفتگو ہوتی ہے اور وہ اپنے مطالب بیان کرتے ہیں میں نہایت توجّہ اور انہماک سے ان کی باتوں کو سنتا ہوں اور ان سے استفادہ کرتا ہوں خواہ وہ طلباء اور نوجوانوں کی محفل ہو یا دوسرے کسی گروہ سے جلسہ یا ملاقات ہو۔مجھے آج کی بحث و گفتگو انتہائی مفید لگی اور اس سے یونیورسٹی کے طلباء کی عقلانیّت اور ذہنیّت کی درمیانی اور متوسّط سطح کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ آپ پورے ملک کے طلباء کے نمائیندے ہیں لیکن یہ تو اندازہ لگایا ہی جا سکتا ہے کہ آج ہماری یونیورسٹیوں میں مشکلات اور ان کے حل کے بارے میں کیا انداز فکر پایا جاتا ہے ؛یہ میرے لئیے انتہائی دلچسپ بات ہے ۔

آپ دوستوں نے بھی کچھ نکات کی طرف اشارہ کیا، میرے پاس بھی اس سلسلے میں کچھ یاد داشتیں ہیں اگرموقع ملا تو عرض کروں گا۔ جو مطالب میرے ذہن میں ہیں ان کو آپ کے ذریعہ بیان شدہ مطالب کی روشنی میں کچھ توضیحات کے ساتھ بیان کیا جائے گا البتّہ یہاں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے آپ کے ذریعہ بیان شدہ مطالب پر ایک غائرانہ نگاہ ڈالی جائے ۔

ایک دوست نے کہا، ایک نئی نسل منصّہ ظہور و شہود کی حالت میں ہے ،یہ بالکل صحیح بات ہے ، البتّہ یہ پہلی نسل نہیں ہے جوعصر انقلاب میں اپنے وجود کا اظہار کر رہی ہےبلکہ آپ سے پہلے بھی ایک انقلابی نسل تھی جو اس انقلاب کی پیداوار تھی اور اس کی آغوش میں پروان چڑھی اور اپنی قوّت بازو کا بخوبی اظہار کیا ،وہ بھی انقلاب کی نسل تھی، وہ کسی دوسری فضایا مقام کی پروردہ نہیں تھی ،انقلاب پگھلانے والی بھٹّی کے مانند ہے ،موجودات عالم کے مختلف عناصرکی شکل وصورت کوتبدیل کرتا ہے ۔انقلاب میں ایسی ہی خاصیّت پائی جاتی ہے ؛ بالکل ویسے ہی جیسا کہ پرانے لوگ کہا کرتے تھے ، کیمیا کا اکسیر تانبے کو سو نا بنا دیتا ہے ۔ شاید بعض لوگوں کو یہ بات افسانہ لگے۔ لیکن یہ افسانہ نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے اور آج بھی ممکن ہے ، انقلاب کی مثال بھی ایسی ہی ہے ،انقلاب تغیّر و تحوّل پیدا کرتا ہے اور یہ تغیّر و تحوّل صرف سماجی اور معاشرتی سطح تک محدود نہیں ہے بلکہ سب سے پہلے اس کے اثرات انسانی ذہن و فکر پر مرتّب ہوتے ہیں ،پہلا تغیّرو تحوّل قلب و دل پر عارض ہوتا ہے ۔

لہٰذا وہ نسل بھی انقلاب کی نسل ہے جو انقلاب کی کامیابی کے وقت پندرہ،سولہ یا اٹھارہ سال پر مشتمل تھی جوانقلاب کے مختلف میدانوں میں ہر امتحان میں سرخروہوئی اورجس نے مقدّس دفاع کے دوران عجیب و غریب مناظر پیش کئیے۔وہ نسل بھی انقلاب کی دین تھی اور یہ نسل بھی انقلاب کی پیداوار ہے جس کے بارے میں آپ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ نسل اپنے وجود کا اظہار کر رہی ہے ،مجھے آپ کی بات تسلیم ہے اور میں اسے محسوس کر رہا ہوں ۔

سوال پوچھا جاتا ہے کہ اس نسل کا فریضہ کیا ہے ؟اس پر کون سی ذمّہ داری عائد ہوتی ہے؟ اس کی رہبری اور ہدایت کی ذمّہ داری کس پر ہے ؟یہ اچھّے سؤالات ہیں اور میری نظر میں یہ سؤالات ،سؤال ضرور ہیں لیکن ابہام نہیں ہیں ۔ان کا جواب معلوم ہے ،انقلاب کسی حکومت کو بدلنے کے لئیے برپا نہیں ہوا بلکہ انقلاب ایک نظام کے قیام اور انسانی اور قومی فکر کو بدلنے کے لئیے برپا ہوا ہے ، انقلاب کا تفکّر ، وہی اسلام کا تفکّر ہے ، ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ انسانوں کی خوشبختی اور سعادت کا راز انبیاء کرام(ع) کی تعلیمات میں مضمر ہے یہ ہمارا دعویٰ ہے اور ہم اسے ثابت بھی کر سکتے ہیں اور بات اپنی جگہ مسلّم اور قطعی ہے ۔انبیاء (ع) کی تعلیمات کا کاملترین نمونہ اسلامی تعلیمات ہیں۔انبیاء (ع)کی تعلیمات کے بغیر ، بشر اس مادی پیشرفت و ترقّی تک بھی نہیں پہنچ سکتا تھاجو اس نے حاصل کی ہے ؛ معنوی ارتقاء ،نفسیاتی آرام وسکون کی بات تو درکنار جو ملکوت تک پرواز کرنے کا پیش خیمہ ہے اور جوانسان کی حقیقی سعادت کا راستہ ہے ۔

سماج میں انبیاء(ع) کے طرز فکر کو رائج کرنے کے لئے ایک طویل المیعاد منصوبہ بندی کی ضرورت تھی۔یہ انقلاب اس ہدف کو لے کر معرکہ وجود میں آیا ،ایک اسلامی معاشرے ،ایک اسلامی ملک کے قیام کا ہدف مد نظر تھا ،صرف اسلامی حکومت یا ایک اسلامی نظام کا قیام پیش نظر نہیں تھا بلکہ اس سے بڑھ کر اسلامی تعلیمات پر مبنی معاشرے کا قیام منظور نظر تھا جہاں لوگ اپنی روز مرہ کی زندگی میں ان کے آثار دیکھیں اور یہی حقیقت انبیاء(ع) کی تعلیمات کا لب لباب اور خلاصہ ہے ،ہمارا مقصد وہدف یہ ہے، ابھی ہم اس مقصد سے کوسوں دور ہیں اور یہ توقّع بھی نہیں تھی کہ ہم تیس سال کے عرصے میں اس نشانے کو پار کر لیں گے ،چونکہ یہ ہدف ایک طویل المیعاد ہدف ہے ۔جسے حاصل کرنے کے لئیے سعی پیہم اور کام کی ضرورت ہے ؛ آپ کی ذمّہ داری یہ ہے،اس نسل کی ذمّہ داری یہ ہے ،اپنے ملک و ملّت کو اس مقام پر لے جائیے جہاں وہ ایک حقیقی اسلامی معاشرے کامنظر پیش کرے، اسے دوسروں کے لئیے نمونہ عمل بنائے،تا کہ اس کے ذریعہ دنیا میں اس فکر کو رواج حاصل ہو ،البتّہ تصوّر اورنظریاتی اعتبار سے یہ کام چنداں مشکل نہیں لیکن عملی طور پر یہ کام انتہائی دشوار کام ہے اور اس کے لئیے جوانی کی قوّت اور جوش و ولولہ لازم ہے ،اس کے لئیے جہادی پیمانے پر کاوشوں کی ضرورت ہے ۔میں نے اس سے قبل بھی کہا ہے اور اب بھی تاکید کر رہا ہوں ۔ہمارا مقصد یہ ہے ،ہم ایک اسلامی ملک چاہتے ہیں اور اسلامی ملک کی تشکیل کا مطلب ہے کہ لوگوں کی دنیا آباد ہو لیکن ہماری مراد وہ آبادی نہیں ہے جس کا تصوّر موجودہ مادی نظاموں میں پایا جاتا ہے ،مادی نظاموں میں بھی آبادی ہے ،مادی پیشرفت نسبتا اچھی ہے ،لیکن اسی مادی پیشرفت میں توازن و تعادل نہیں پایا جاتااور عدالت و انصاف سے کام نہیں لیا جاتا ۔آپ امریکہ جیسے امیر ملک کو ہی مثال کے طور پر لیجئیے دنیا کا سب سے امیر شخص وہاں رہتاہے لیکن اس کا فقیر شخص بھی کبھی کبھی دنیا کا بدتریں فقیر ہوتا ہے جو سردی کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے اور کبھی گرمی کی تاب نہ لا کر موت کی نیند سو جاتا ہے ،وہاں ایک ایسا متوسّط طبقہ بھی زندگی گزار رہاہے جو اگر دن رات اپنی پوری توانائی سے کام نہ کرےتو فاقوں کی نوبت بھی آسکتی ہے ۔یہ بشریّت کے لئیے سعادت اور خوشبختی نہیں ہے ،یہ کسی معاشرے کے لئیے خوشبختی نہیں ہے ،ہاں اگر آپ اس کے نا خالص داخلی سرمایے کو دیکھیں تو دوسرے کسی ملک کا دس گنا ہے لیکن یہ سعادت اور خوشبختی کا باعث نہیں ہے ، مادی سہولیّات بھی سبھی افراد کو یکساں فراہم نہیں ہیں ، عمومی نہیں ہیں ، یعنی سب کو فراہم نہیں ہیں ،معنویات کا ذکر رہنے دیں ،وہاں نفسیاتی سکون نہیں ہے ،خدا کی طرف توجہ و لگاؤ کا نام نہیں ہے ،تقوا اور پرہیزگاری کا نام و نشان نہیں ،عفّت اور طہارت کی خبر نہیں ،عفو و درگذر نہیں ،خدا کے بندوں پر رحم اور ترس نہیں پایا جاتا ،کہاں تک گنوائیں غرض !وہاں اخلاقی قدروں اور معنویات کا فقدان ہے ۔

یہ وہ پیشرفت اور ترقّی نہیں ہے کہ ایک اسلامی معاشرہ ،ایک اسلامی ملک جس کے تعاقب میں ہو ،اسلامی معاشرے کے لئیے ہم اس ترقّی کے قائل نہیں ہیں جو وہاں دکھائی دیتی ہے بلکہ اس سے ہماری مراد مادی و معنوی پیشرفت ہے یعنی فقر نہ ہو ،عدل و انصاف کا دور دورہ ہو،تقوا ،پرہیزگاری ،اخلاق اور معنویات بھی موج زن ہوں ،یہ وہ مقصد ہے کہ جس کا ہمیں تعاقب کرنا چاہئیے ۔

ایک دوست ہم سے کہہ رہے تھے کہ طلباءتحریک کا مستقبل مبہم اور نامعلوم ہے! میرا عقیدہ ہے کہ اس سلسلے میں ہرگزکوئی ابہام نہیں پایا جاتا ،اتفاقا ہمارے وہی دوست جو یہ بات کہہ رہے تھے " طلباء تحریک '' کے وظائف اور ذمّہ داریوں اور ان امور کو گنوا رہے تھے جو " طلباء تحریک '' کو انجام دینا چاہئیے ، پس کون سا ابہام پایا جاتا ہے ؟ ان مقاصد و اہداف کو مد نظر رکھتے ہوئے کام جاری رکھئیے ۔

یہاں ایک اہم سوال یہ پایا جاتا ہے کہ آیا ان عظیم مقاصد و اہداف کے حصول کی ذمّہ داری صرف طلباء پر عائد ہوتی ہے ؟ اور وہ بھی ان مخصوص طلباء پر جنہیں '' طلباء تحریک '' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، یعنی متحرّک اور فعّال طلباء ،ایسے طلباء جو ملک کی پیشرفت و ترقّی کے لئیے ، اپنی جسمانی ،ذہنی اور نفسیاتی قوّت کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں ، آیا فقط یہی لوگ مخاطب ہیں ؟بلا تردید ایسا ہرگز نہیں ہے ، بلکہ حکام اور سماج کی برجستہ وممتاز شخصیّات پر بھی اس کی سنگین ذمّہ داری عائد ہوتی ہے ،خواہ وہ ممتاز علمی شخصیّات ہوں یافکری اور سیاسی منتخب افراد ہوں ۔البتّہ طلباء کی تحریک پر بھی اس سلسلے میں اہم ذمّہ داری عائد ہوتی ہے ۔ان کی ایک اہم ذمّہ داری 'اپنے اندر مختلف مسائل کے بارے میں سوجھ بوجھ پیدا کر نا ہے ۔

میری نگاہ میں ایک اہم کا م یہ ہے کہ یونیورسٹی اور حوزہ علمیّہ کے طلّاب آپس میں تبادلہ فکر کے لئیے وسیع جلسات کا انعقاد کریں اور ایک بہترین نظام الاوقات کے تحت مختلف مسائل کے بارے میں غور و فکر کریں ، صحیح فکر کے رواج پر بھی وہی نتائج مرتّب ہوتے ہیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی کی میدان میں ایک طالب علم سے متوقع ہیں ؛ فکر اور نظر کے میدان میں شکوفائی ، خلّاقیت ،نئی بات کا پیش کرنا بھی بہت اہم کام ہے ۔

ایک اہم کام اصول و مبانی کا تعیّن ہے ، ہمارے نظام میں کچھ ایسے بھی اصول پائے جاتے ہیں جن سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی ،یعنی نظریہ پردازی ،روشن فکری کے نام پر ان اصولوں کا سودا نہیں کیا جاسکتا ،یہ اصول، صراط مستقیم اورصحیح راستے کا معیار ہیں ،ان اصولوں کو ایسی دیواروں سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی جن کے درمیان ، انسان کو چلنا چاہئیے ،یہ اصول معیار ہیں ، ایک صراط مستقیم اور صحیح راستہ پایا جاتا ہے جو انسان کو منزل مقصود تک پہنچاتا ہے ، اس صراط مستقیم کی شناخت ضروری ہے ، اس کو کشف کرنے کی ضرورت ہے ، کوئی بھی اس صراط مستتقیم میں قید نہیں ہے ۔ کوئی بھی صراط مستقیم کو طے کرنے پر مجبور نہیں ہے ،یہ اصول کسی شخص کو مجبور نہیں کرتے ،اسے محدود نہیں کرتے بلکہ اس کی راہنمائی کرتے ہیں کہ اگر تم ان اصولوں پر چلو گے تو فلان مطلوبہ ہدف تک پہنچ جاؤ گے اور اگر ان اصولوں سے منحرف ہوگے تو منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکو گے ، غلط راستہ اختیار کرنے میں دو عیب پائے جاتے ہیں، ایک عیب یہ ہے کہ انسان منزل مقصود تک نہیں پہنچتا اور دوسرا عیب یہ ہے کہ انسان کا وقت ضایعہ ہوتا ہے اور موقع ہاتھ سے جاتا رہتا ہے ۔

جن لوگوں نے ہمارے ملک میں ،گذشتہ ایک صدی ،ڈیڑھ سو سال میں ،اصلاح ، ترقّی اور پیشرفت کا نام نہاد نعرہ بلند کیا اور ہم کو غلط راستے پر لگایا، وہ اس عظیم گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں ،اس ڈیڑھ سو سال میں ہم نہ تو مقصد تک پہنچ پائے بلکہ پیچھےرہ گئے اور دوسری طرف ہمیں وقت کا زیان بھی برداشت کرنا پڑا، پے در پے چند نسلیں آئیں اور برباد ہوجائیں ، اس وادی میں سرگرداں اور پریشاں بھٹکتی پھریں اور پھر ایک نسل متوجّہ ہوجائے کہ انہوں نے غلط راستے کا انتخاب کیا ہے اور اس راستے سے لوٹنا چاہے اور ابتداء سے دوبارہ حرکت کا آغاز کیا جائے تو آپ ہی انصاف سے بتائیے کہ اس قوم کوکتنا عظیم نقصان برداشت کرنا ہو گا ، وہ لوگ جو بشریت کے قافلے کو غلط راستے پر لگاتے ہیں ان کا گناہ یہ ہے کہ وہ عمر ،وقت اور مواقع کو ضایعہ کرتے ہیں۔

ایک وقت ایسا بھی تھا جب ہمارے سماج کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ ترقّی اور پیشرفت کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم مغربی ممالک کی اندھی تقلید کریں ، علوم و فنون سیکھنے میں نہیں بلکہ ظاہری وضع و قطع میں ،ہماری خواتیں بے پردہ ہو جائیں ،ہمارے مرد فلان طریقے کی ٹوپی اور لباس پہنیں ، آپ بخوبی جانتے ہیں کے ہمارے ملک پر ایک ایسا دور بھی گزرا ہے جب پہلوی نام کی ٹوپی پہننا سب کے لئیے لازمی تھا اور اگر کوئی شخص اسے نہیں پہنتا تھا اسے مجرم سمجھا جاتا تھا ، بعد میں ایک قدم اور آگے بڑھے اور انگریزوں کی مخصوص ٹوپی شاپو کو بھی شامل کر لیا ۔ چونکہ اہل مغرب اور انگریز اس لباس کو پہنتے تھے، مقامی لباسوں کا پہننا ممنوع قرار پایا تا کہ سب مغرب سے امپورٹ شدہ متحد الشکل لباس زیب تن کریں ،آخر ایسا کیوں کیا گیا ؟ترقّی کے نام پر ،یہ لوگ ترقّی اس میں سمجھتے تھے کہ ہمارے لوگ پینٹ کوٹ پہنیں ، ٹائی استعمال کریں ،ہماری خواتین بے پردہ گھومیں ، مغربی آداب و رسوم سیکھیں ، آج جب انسان اس کا تصوّر کرتا ہے تو اسے انتہائی شرم محسوس ہوتی ہے ، اس دور میں نہ صرف احساس شرم مٹ چکا تھا بلکہ اسے فخر و مباہات کا باعث سمجھا جاتا تھا۔یہ پیشرفت اور ترقّی کا غلط نسخہ تھا ، یہ غلط راستہ تھا ،اصول اور قوانین اسی لئیے ہیں تا کہ ان غلطیوں سے اجتناب کیا جا سکے ۔

آپ میں سے ایک دوست نے بعض افراد اور اداروں پر کھل کر اعتراض کیا ،اور طالب علم کی خصوصیّت بھی یہی ہے کہ وہ بے خوف و خطر اپنی بات بیان کر سکے ، میں فی الحال ان اعتراضات کے بارے میں فیصلہ نہیں کرنا چاہتا کہ آیا یہ اعتراضات درست ہیں یا غلط؟لیکن اس جرات کی ستایش کرتا ہوں ،ان اعتراضات کو سیاسی رنگ دینے کی ضرورت نہیں ، ایک بہت بڑا اشکال جو یونیورسٹی پر حکم فرما ماحول پر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ طالب علم، بعض خیالی مصلحتوں اور موقع کی نزاکت کے پیش نظر اپنی بات پیش کرنے سے کترائے ،طالب علم کو اپنا موقف واضح لفظوں میں بیان کرنا چاہئیے ، البتّہ صدق بیانی کے ساتھ ساتھ نیک نیّتی بھی ضروری ہے ،اس کے علاوہ اس میں اپنی غلطی کو فورا تسلیم کرنے کاظرف بھی ہونا چاہئیے ،آپ ، پاک دل اور نیک نیّت نوجوان اور ایک سیاسی شخص میں یہی فرق ہونا چاہئیے ، آپ اپنی بات واضح طور پر بیان کیجئیے ، اپنی بات دل سے کہیے ،اگر معلوم ہو جائے کہ آپ غلطی پر ہیں اپنی بات فورا واپس لے لیجئیے ،میری نظر میں یہ طالب علم کے لیئے ایک بہترین معیار ہے ۔ان اعتراضات میں سے ایک اعتراض ملکی ریڈیو اور ٹیلیویژن کے بارے میں تھا، بعض افرادکا تصوّر یہ ہے کہ ان پر تنقید،رہبریت پر تنقید کے مساوی ہے چونکہ اس کے ڈائریکٹرکو رہبر معیّن کرتے ہیں ، اگر حقیقت میں یہی معیار ہے تو پھر کسی پر تنقید نہیں کی جا سکتی ، چونکہ عدلیّہ کے سربراہ کو بھی رہبر منصوب کرتا ہے ،صدر جمہوریہ کاانتخاب بھی رہبر کی مہر تصدیق کے بعد نافذالعمل ہوتا ہے ، پھر کسی شخص پر اعتراض نہیں کرنا چاہئیے ، نہیں جناب، ایسا نہیں ہے ، ریڈیو اور ٹیلیویژن کو چلانے کی ذمّہ داری رہبر کی نہیں ہے ،رہبر فقط اس کے سربراہ کو منصوب کرتا ہے، اسے چلانے کی ذمّہ داری اس کے ڈائریکٹر کی ہے ، رہبر کو بھی ریڈیو، ٹیلیویژن کی بعض پالیسیوں پر اعتراض ہے ، کم و بیش وہی اعتراضات ہیں جن کا آپ لوگوں نے تذکرہ کیاہے ، ان کے علاوہ دوسرے اعتراضات بھی ہیں ، ممکن ہے میں آپ کی طرح ،ٹیلیویژن، ریڈیو کا دیکھنے ،سننے والا نہ ہوں ،لیکن مجھے ہر طرف سے برابر رپورٹیں موصول ہوتی رہتی ہیں اور اس سلسلے میں میری معلومات بہت زیادہ ہیں ،اور میں ریڈیو ، ٹیلیویژن کی موجودہ صورت حال پر اعتر اض بھی کرتا رہتا ہوں، کبھی کبھی یہ اعتراضات شدّت بھی اختیار کر لیتے ہیں ، ان کی بھی کچھ اپنی مجبوریاں ہیں ، وہ اعتراضات کا جواب دیتے ہیں ، کبھی ان کے جواب قانع کنندہ ہوتے ہیں اور کبھی صحیح نہیں ہوتے، بہر حال اعتراض اپنی جگہ محفوظ ہے ، اس ادارے پر آپ کی تنقید کسی طور پر بھی رہبر کی طرف منتقل نہیں ہوتی ،آپ کو اعتراض کا مکمّل حق ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ۔

ایک دوست نے یہ سؤال کیاہے کہ امام (رضوان اللہ تعالی علیہ) کے نظریّات کو کیوں کر معلوم کیا جاسکتاہے ؟ میری نظر میں اس کا جواب بالکل واضح ہے ، امام (رہ) کے نظریات ایک مجموعہ ہیں ، خوش قسمتی سے یہ نظریات ،تحریری اور تقریری شکل میں موجود ہیں اور دیگر متون کی طرح ان سے بھی متکلم کی فکر کو سمجھا جا سکتا ہے ، البتّہ استنباط کی صحیح روش کو بروئےکار لاتے ہوئے ، استنباط کی صحیح روش یہ ہے کہ متکلم کی تمام باتوں کو ایک دوسرے سے ملا کر دیکھا جائے چونکہ ان میں عام ،خاص ، مطلق ومقیّد پایا جاتا ہے ،ان کو تولنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے ،اس کے بعد جو بات سامنے آئے وہ امام (رہ) کا نظریّہ ہے ،البتّہ یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے ، ایک اجتہادی کام ہے جس سے آپ لوگ عہدہ برآہو سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں مختلف کمیٹیاں بنائیے جو امام (رہ) کے نظریّات کا استنباط کریں ۔

چونکہ اذان ہونے میں زیادہ وقت نہیں بچا ،کچھ باتیں ان مطالب کے سلسلے میں بھی عرض کر تا چلوں جو میرے ذہن میں تھے اور جنہیں میں نے یادداشت بھی کر رکھا ہے ،جیسا کہ بعض دوستوں نے بھی اشارہ کیا ہم اسلامی جمہوریہ کے نظام کی چوتھی دہائی میں داخل ہونے جارہےہیں ، البتّہ تیس ، پینتیس سالہ معاشرتی نظام ایک جوان نظام شمار ہوتا ہے اور اگر اسمیں موقع ومناسبت سے اندرونی تغیّر و تحوّ؛ل پایا جاتا رہے تو ایسا نظام کبھی پیر و فرسودہ نہیں ہو سکتا، صدیاں بیت جانے کے بعد بھی اس میں طراوت اور تازگی باقی رہتی ہے ، لیکن یہ مسلّم ہے کہ ایک تیس ، پینتیس یا چالیس سالہ معاشرتی نظام ایک جوان نظام ہے ، جوانی کا مطلب یہ ہے کہ ابھی مزید تجربات کی ضرورت ہے ،اس کے مبانی اور اصول میں نکھار لانے کے لئیے انہیں مضبوط بنانے کے لئیے مزید محنت اور کام کی ضرورت ہے ۔

ہم نے کہا ہے کہ اس دہائی میں'' عدالت اور پیشرفت ''ہمارا شعار ہونا چاہئیے ، تمام ترتوجۃ انہیں دو چیزوں پر مرکوز ہونا چاہئیے ، پیشرفت اور ترقّی کے سلسلے میں ہم نے عرض کیا کہ پیشرفت سے ہماری مراد ہمہ گیر پیشرفت ہے ، یعنی مادی اور معنوی میدان میں یکساں پیشرفت ، ہم مادی پیشرفت کی اہمیّت کے منکر نہیں ہیں ،عوام کے معیشتی مسائل ، روزگار ، سائنس و ٹیکنالوجی کے میداں میں پیشرفت کی اہمیّت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، یہ سب بہت اہم ہیں اور ان کا تعاقب ہونا چاہئیے تا کہ ملک سے فقر و بیکاری ، مہنگائی اور افراط زر کا سدباب کیا جا سکے ، لیکن ہم اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ، انسانی اور اخلاقی قدروں ،روشن فکری اور عمیق اعتقاد کے روزافزوں فروغ کو بھی ضروری سمجھتے ہیں ۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا غلط راہوں کے انتخاب سے اجتناب ضروری ہے ، کبھی کبھی پیشرفت اور ترقّی کے لئیے ایسے راستوں کو تجویز کیا جاتا ہے جو غلط ہوتے ہیں ، اس کا ایک نمونہ میں نے آپ کے سامنے پیش کیا ، پہلوی دور حکومت، توقف،پسماندگی اور انحطاط کی علامت ہے ،وقت کی کمی کی وجہ سے تفصیلات میں جانے کی گنجایش نہیں ،پہلوی دور حکومت اس کا ایک بہترین نمونہ ہے ، جس دور میں اہل مغرب کی ظاہری تقلید رائج تھی جس کا نتیجہ ہم نے تاریکی اور بد بختی کے گذشتہ پچاس، ساٹھ سالہ پہلوی دور میں مشاہدہ کیا۔

اس کے ایک نمونے کو عصر حاضر میں بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ، اس پر توجّہ دینے کی ضرورت ہے ، موجودہ دور میں مغربی ظواہر کا نام نہیں لیا جاتا ، اسلامی اور قومی شناخت بھی اپنی جگہ باقی ہے ،بعض سیاستدانوں اور سماجی شخصیّات میں ، ترقّی اور پیشرفت کے سلسلے میں مایوسی او ر ناامّیدی مشاہدہ کی جا سکتی ہے ، یہ لوگ جب مغربی دنیا کی طرف دیکھتے ہیں ، اس کی پیشرفت سے انگشت بدنداں ہو جاتے ہیں، اس تک پہنچنے کو نا ممکن سمجھتے ہیں ، اس کا نام ان لوگوں نے حقیقت بینی ''یا واقع بینی " رکھ رکّھا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ آج وہ لوگ ، علمی اعتبار سے ہم سے کہیں آگے ہیں ، انہوں نے مختلف میدانوں میں نمایاں ترقّی کی ہے ، سیاست کے میدان میں ، انسانی علوم میں ، سماجی مسائل میں ، سائنس اور ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں انہوں نے کتنے ہی جدید اور خلّاق نظریّات پیش کیے ہیں ہم لاکھ کوشش اور محنت کے بعد بھی ان کی گرد پا تک نہیں پہنچ سکتے ۔ان میں اس طرح کا جذبہ کا ر فرما ہے ، گذشتہ تیس برس میں بار ہا میرا سامنا ایسے افراد سے ہو ا ہے جنہوں نے بعض اوقات کھل کر اور بعض اوقات کنایہ کے طور پر اس بات کو دہرایا ہے کہ جناب ! ہمیں پیشرفت اور ترقّی کرنا چاہئیے لیکن ان کے پیچھے چلنا چاہئیے ہم ان کی گرد پا کو نہیں پا سکتے چہ جائیکہ ان سے آگے بڑھنے کی سوچیں ، آپ کیوں بلا وجہ اپنے آپ کو مصیبت میں ڈال رہے ہیں ؟ یہ طرز تفکر بالکل غلط ہے ۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرقی اقوام ، ملت اسلامیہ ، ہماری قوم ہمیشہ ہی ان کے پیچھے چلنے اور ان کا شاگرد بنے رہنے پر مجبور ہے اور ان کے دل میں کبھی بھی یہ امّید پیدا نہ ہو کہ کسی دن ہم ان کی برابری کر پائیں گے چہ جائیکہ ان سے آگے بڑھ سکیں گے ۔یہ طرز فکرسراسر غلط ہے ۔اور نہایت افسوس کا مقام ہے کہ آج یہ فکر، بعض سیاسی شخصیتوں ،یونیورسٹی کے بعض اساتذہ اور بعض مذہبی شخصیات کے ذریعہ رواج پا رہی ہے ،یہ بات طویل انسانی تجربے کے بالکل بر عکس ہے ۔ کیا خداوند متعال نے کچھ انسانوں کو اس لئیے پیدا کیا ہے کہ ہمیشہ دوسروں سے آگے رہیں ؟کون سے تا ریخی حقائق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے ؟کیا یہی قومیں جو آج ترقی یافتہ ہیں چندسو سال قبل مختلف مسائل میں پسماندہ قومیں شمار نہیں ہوتی تھیں ؟کیا قرون وسطیٰ کی تاریخ فراموشی کی نذر ہو چکی ہے ؟میں نے بارہا کہا ہے کہ قرون وسطیٰ کی تاریخ، یورپ کے لئیے جہالت اور نادانی کا دور ہے ، اسلامی ممالک اور ہمارے ملک کے لئیے نہیں ،وہی دور جسے وہ ظلمت ،نادانی ،جہالت اور خواب غفلت کے دور سے تعبیر کرتے ہیں ، ہمارے ملک اور دیگر اسلامی کے لئیے ، علم و فلسفہ کی عظمت ، سیاسی پیشرفت و اقتدار کا دور شمار ہوتا ہے ۔

یہ طرز فکر انتہائی خطرناک ہے ، آپ جن میدانوں میں آج پیشرفت ملاحظہ کر رہے ہیں ، ان کے بارے میں بھی بعض لوگ ہم سے یہی کہتے تھے کہ جناب ! بیہودہ محنت سے کچھ حاصل ہو نے والا نہیں ،لیکن مسلمان نوجوان ، سرزمین ایران کے غیرت مند نوجوان ، عزم و ولولے کے ساتھ میدان میں داخل ہوئے اور نہ صرف یہ کہ دوسروں کی برابری کر دکھائی بلکہ بعض چیزوں میں ان سے بھی آگے بڑھ گئے،اگر آپ وقت اور کام کا موازنہ کریں تو آپ کو پیشرفت کا اندازہ ہو گا ، لہٰذا یہ طرز فکر سراسر غلط ہے ، مایوس اور نا امّید ہونے کی ضرورت نہیں ، انسان کے بارے میں ،اسلام ،دین اور قرآن کا نظریہ یہ ہے کہ اسے مقاصد کے حصول کے لئیے، ٹائم ٹیبل کی روشنی میں سعی پیہم جاری رکھنا چاہئیے ۔ اذان کی آواز آ رہی ہے لہٰذا میں اپنے بیان کو یہیں ختم کرتا ہوں ۔

میں خدا وند متعال کی بارگاہ میں طالب دعا ہوں کہ وہ آپ کو اس میدان کے ہر امتحان میں سرخ رو ہونے کی توفیق عنایت فرمائے اور آ پ کو ملک کی ترقّی اور پیشرفت کا وسیلہ قرار دے ۔

پروردگارا! ان عزیز جوانوں کو اپنے لطف وہدایت نیز حمایت کے سائے میں اس ملک کی دنیا اور آخرت کا سرمایہ قرار دے ،اور تمام میدانوں میں انہیں کامیابی وکامرانی نصیب فرما،اور رمضان کے مبارک مہینے میں ان کے دلوں پر اپنے معنوی الطاف و برکات کی بارش نازل فرما ، امام زمانہ حضرت ولی عصر (عج) کے قلب مقدّس کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔

والسّلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ