ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کی صدر جمہوریہ اور کابینہ کے ارکان سے ملاقات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہم اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں عاجزانہ التجا کرتے ہیں کہ وہ ہماری رفتار و گفتار اور تمام اعمال کو اپنے لطف و کرم سے اس چیز کے قریب تر کردے جس میں اس کی رضا و خوشنودی ہے۔
سب سے پہلے ہم ہفتہ حکومت کو آپ تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں اور مختلف انتظامی سطح پر مصروف زحمت کش اہلکاروں و عہدہ داروں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جن کے نام سے ہفتہ حکومت مزین ہے شہید رجائی اور شہید باہنر کی یاد ، یہ دونوں عزیز بھائی علم و عمل کے حقیقی مظہر تھے، ہفتہ حکومت میں ان کی یاد قابل تحسین اور گرانقدر امر ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم جو آج ملک کے مختلف شعبوں میں الگ الگ عہدوں پر فائز ہیں تو سماجی زندگی میں بھی ہماری نظر ان صفات اور اقدار پر مرکوز رہنی چاہئیں جن کی وجہ سے یہ دو عزیزوں کی شخصیت ممتاز اور برجستہ بن گئی ۔

میں حکومت سے وابستہ تمام افراد، صدر محترم، وزرا، اعلی عہدہ داروں اور مختلف شعبوں میں کام کرنے والے اہلکاروں کی قدردانی ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ آپ تلاش و کوشش میں مصروف ہیں، زحمت اٹھارہے ہیں، ہمدردانہ انداز میں عوام کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ انشاء اللہ خدا وند عالم آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ آپ کو اخروی اجر و ثواب بھی اور دنیوی اجر و ثواب سے بھی مرحمت فرمائے۔ آپ کا دنیوی اجر و ثواب آپ کی کوششوں کے وہ نتائج ہیں جو عوام کی زندگی میں منعکس ہوتے ہیں اور جسے عوام محسوس بھی کرتے ہیں۔ انشاء اللہ خدمت کی اس فضا میں عوام کی زندگی خوشبختی سے سرشار ہوگی۔
میں آپ عزیزوں کو خصوصی سفارش کرتا ہوں کہ عوام کی خدمت کا جو موقع ملا ہے اس کی قدر کیجئے۔ یہ کہ انسان کسی ایسے مقام پر پہنچے جہاں وہ عوام کی خدمت کرسکتا ہے عوام کی خدمت کے لئے اس کا ہاتھ کھلا ہےیہ بہت قیمتی موقع ہے کسی بھی شعبے میں عوام کی خدمت اور قوم کے اعلی اہداف کے لئے سعی و کوشش کا موقع بہت بڑی نعمت ہے۔ صدیوں سے ہم بہت سے ایسے اچھے کام تھے جنہیں انجام دینا چاہتے تھے لیکن اس کے لئے ہمارے ہاتھ کھلے نہیں تھے۔ لیکن آج آپ کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں لہذا آپ کو چاہئے کہ اس کی قدر کریں اور اللہ تعالی کا شکر بجا لائیں۔ اپنی توفیقات میں اضافے کی دعا کریں اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں التجا کریں کہ وہ آپ کو عوام کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنےکا موقع دے اور آپ عوام کی خدمت کے لئےاپنے اختیارات سے بہتر استفادہ کریں۔

خوش قسمتی کا مقام ہے مبارک ایام ہیں، شعبان المعظم کے با برکت ایام ہیں اور رمضان المبارک کی آمد ہے، ضیافت الہی کا معنوی دسترخوان بچھنے کو ہے۔ ہمیں اس مہمانی سے بھرپور استفاد کرنا ہے۔ ہمیں خود سازی اور روحانیت و معنویت پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینی چاہیے اس سے ہمیں بڑی مدد ملے گی۔
صدر محترم نے بہت اچھی اور اطمینان بخش رپورٹ پیش کی۔ البتہ میں سفارش کرتا ہوں کہ یہ رپورٹ شائع ہو اور ریڈیو ٹی وی ان کے بیانات کومن و عن عوام کے سامنے پیش کریں تاکہ عوام اور دانشور طبقہ بھی اس سے بخوبی آگاہ ہو سکیں۔ بہت سے حقائق ایسے ہیں جو ہماری زندگی میں موجود ہیں لیکن عوام ان سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم جو کام کرتے ہیں وہ خدا وند متعال کی خوشنودی کے لئے کرتے ہیں لیکن عوام کو بھی جملہ امور اور کوششوں سے آگاہ رکھنا لازمی ہے۔یہ بھی ایک بڑا ہدف ہے۔ میں پہلے بھی اس سلسلے میں سفارش کر چکا ہوں اور اب پھر تاکید کرتا ہوں۔
موجودہ حکومت میں چند ممتاز اوربرجستہ خصوصیات ہیں جن کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ البتہ یہ چیزیں اس سے قبل بھی بیان کی جا چکی ہیں لیکن بہتر ہوگا کہ آپ خود بھی اپنی ان خصوصیات کے بارے میں جان لیں۔ عہدہ و مقام و منصب اور شہرت سے انسان کو تشخص نہیں ملتا، بلکہ حقیقی تشخص اور شرف کچھ اورہی ہے جیسا کہ روایت میں بھی ہے کہ "اشراف امتی حملۃ القرآن و اصحاب اللیل" مادی نظاموں میں اشرافیت کے کچھ اور معنی ہیں لیکن اسلامی نظام میں اشرافیت کے معنی کچھ اور ہیں وہ لوگ جو اصحاب اللیل ہیں وہ رات میں خدا کے لئے جاگتے اورقیام کرتے ہیں یا رات کی تاریکی میں عوام کے لئے دشوار اور طاقت فرسا کام انجام دیتے ہیں۔ یا وہ لوگ با شرف ہیں جو قرآنی زیور سے آراستہ ہیں، قرآن سے مانوس ہیں اور جو قرآن کی روشنی میں حرکت کرتے ہیں۔ وہ اسلامی نظام میں اشراف ہیں۔ جن کے پاس دولت و ثروت ہے، جنہیں بڑی شہرت حاصل ہے وہ اسلامی نظام میں اشراف میں شمار نہیں ہوتے ہیں۔

حکومت کے اہلکاروں کے امتیازات و خصوصیات بھی ایسے ہی ہیں۔ بعض چیزیں حقیقی امتیازات کی حامل ہیں ان پر توجہ رکھنی چاہئے۔میری پہلی سفارش خود آپ کے لئے ہے آپ ان خصوصیات و امتیازات کی بدولت اپنے تشخص و اہمیت کو پہچان لیں اگر بعد میں معاشرے کی عام فضا معلوم ہوکہ انسان اگر حکومت یا ایک مجموعہ کی حمایت کرتا ہے تو اس کا مقصد و مسئلہ کیا ہے میں نے یہاں تین خصوصیات کو یادداشت کیا ہے جو بیان کرتا ہوں۔
پہلی خصوصیت یہ ہے کہ موجودہ حکومت حقیقت میں پرتلاش اور زحمت کش حکومت ہےسرگرم عمل حکومت ہے کام کی نشاط و انرجی اس حکومت کا مظہر ہے الحمد للہ آپ لوگوں نے حکومت کی تشکیل کے پہلے سال سے اسی انداز سے اپنا سفر شروع کیا اور اب تین سال گزر جانے کے بعد بھی اس حکومت کی محنت و مشقت اور سعی و کوشش اسی طرح جاری و ساری ہے۔ اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ عوام کی خدمت کا جذبہ بالکل واضح ہے۔ شہروں ، قصبوں اور چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں جانا ملک کے گوشے گوشے کا سفر کرنا اور کسی بھی علاقے کو نظر انداز نہ ہونے دینا، یہ سب بڑی خصوصیات ہیں۔ یہ قابل قدر خصوصیات ہیں۔ انشاء اللہ خدا وند عالم کی توفیقات بھی آپ کے شامل حال ہوں گی اور وہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے گا۔
موجودہ حکومت کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کے شعار و نعرے اور بنیادی اصول، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور اسلامی انقلاب کے نعروں اور اصولوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔ یہ بہت ہی گرانقدر اور قابل فخر بات ہے۔ جس کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ انقلاب سے قلبی لگاؤ رکھنے والا ہر شخص اس کی قدر کرتا ہے۔ جو شخص بھی اسلامی انقلاب کے زیر سایہ ملک کی ترقی میں یقین رکھتا ہے اسے اس کی قدر کرنا چاہئے۔ اس حکومت میں عدل و انصاف کا جذبہ بہت نمایاں ہے۔ حکومت کے عہدہ داروں اور ان کے منصوبوں میں عدل و انصاف کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ سامراج کی مخالفت کا جذبہ جو ایک خاص انقلابی انداز میں اس حکومت میں نمایاں ہے۔ سامراج کی مخالفت کا مطلب حکومتوں سے دشمنی کرنا نہیں بلکہ اس کا مطلب سامراج کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ کسی بھی ملک اور حکومت کی جانب سے سامنے آنے والا سامراجی اندازاور طرز عمل پوری انسانیت کے لئے بہت بڑا خطرہ اور مصیبت ہے۔ اس وقت امریکہ اور صیہونی حکومت سامراج کے مظہر ہیں لیکن کہیں کوئی اور حکومت بھی اگر کسی قوم کے سلسلے میں سامراجی انداز اختیار کرتی ہے تو وہ بھی انسانی معاشرے کے لئے ایک بڑی مصیبت ثابت ہوگی۔ سامراج کی غیر انسانی حرکتوں کا مقابلہ کرنا اسلام کا پسندیدہ اقدام ہے، موجودہ حکومت میں یہ صفت بھی ممتاز ہے جو صاف طور پر نظر آتی ہے۔


قومی عزت و وقار کا احیا، سامراجی طاقتوں کی تسلط پسندانہ پالیسیوں اور ان کے بڑھتے ہوئے مطالبات کے مد مقابل انفعال کی حالت سے نکلنا بھی موجود حکومت کے اہم اقدامات میں شامل ۔ قومی عزت اور حقیقی و معنوی استقلال اسی طریقہ سے حاصل ہوتا ہے۔ استقلال یہ نہیں ہے کہ انسان اس کے بلند نعرے لگائے یا اقتصادی شعبہ میں کسی حد تک ترقی حاصل کر لے ۔ یہ حقیقی خود مختاری نہیں ہے۔ حقیقی خود مختاری یہ ہےکہ قوم اپنے تشخص اور قومی وقار پر یقین کامل رکھے اور اس کی حفاظت کے لئے سخت محنت کرے اور اس سلسلے میں دوسروں کے طنز و تمسخر سے بالکل متاثر نہ ہو۔

ماضی میں افسوس کے ساتھ ہم یہ دیکھتے تھے کہ بعض افراد جو حکام سے وابستہ ہوتے یا خود اعلی منصب پر فائز ہوتے تھے وہ دوسروں کے سامنےانقلاب اسلامی کے اصولوں اور حقائق کو بیان کرنے پر شرم محسوس کرتے تھے انقلاب کے اصولوں پر اہمیت نہیں دیتے تھے اور معاشرے کے لئے یہ ایک بہت بڑی مصیبت تھی یہ چیز آپ میں نہیں ہے۔
قومی عزت کے دفاع کا ایک ثبوت یہی ایٹمی توانائی کا مسئلہ ہے۔ ایٹمی توانائی کا مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ ہم ایٹمی توانائی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اغیار اس کےخلاف ہیں۔ یہ تو اس مسئلے کا صرف ایک پہلو ہے۔ مسئلے کا حقیقی پہلو یہ ہے کہ فرومایہ ، پست ، جارح اور تسلط پسند طاقتیں اور ان کے حواری اس سلسلے میں ملت ایران پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے تھے لیکن ملت ایران، صدر جمہوریہ اور حکومت نے پائداری و استقامت کا ثبوت دیا اور اللہ تعالی نے بھی ان کی مدد کی۔ یہ اس حکومت کی وہ خصوصیات ہیں جو میرے نزدیک بہت ہی اہم ہیں۔
اس حکومت نے مغرب نوازی کے جذبے کو لگام لگائی جو حکومت کے اندر بڑھتا جارہا تھا درحقیقت حکومت کا یہ اقدام قابل ستائش ہے۔ ممکن ہے معاشرے میں بعض افراد کسی ملک اور کسی تہذیب کے فریفتہ ہوں لیکن اگر یہ جذبہ انقلاب کے حامیوں اور اعلی عہدہ داروں میں سرایت کرتا ہے تو بہت خطرناک ہو جاتا ہے۔ بہرحال اس پر قابو پا لیا گیا ہے۔

سیکولرزم کی طرف بڑھتے ہوئےرجحانات جو ملک کے اعلی اہلکاروں میں نفوذ پیدا کررہے تھے اس پر قابو پالیا گيا۔انقلابی نظام، دین اسلام اور قرآن کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا اور اسی حقیقت کی بنا پراسے قوم کی بھرپور حمایت حاصل ہوئی قوم نے اپنے جوانوں کو اس نظام پر قربان کیا اور عوام نےاپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس کی حفاظت کی اور ادھر بعض اہلکار سیکولرزم کی بات کررہے ہیں؟! یہ ایک خطرناک سازش تھی جسے ناکام بنا دیا گیا ہے ۔
موجودہ حکومت میں بڑی تبدیلیاں لانے اور بڑے اقدام اٹھانےکی جرئت و ہمت ہے، یہ حکومت اصلاحات کے لئے جرئتمندانہ انداز میں اقدام کرتی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ حکومت کے سارے اقدامات سو فیصد درست ہیں۔ ممکن ہے ان میں کہیں کوئی خامی بھی ہو لیکن مشکلات اور دشواریوں کے سامنے دلیرانہ انداز میں اقدام کرنا اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
اس حکومت میں بد عنوانیوں سے مقابلہ کرنے کی بڑی ہمت ہے حالانکہ بدعنوانیوں سے مقابلہ بہت دشوار کام ہے۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ بد عنوانی کے اس عفریت کا قلع قمع کرنا آسان کام نہیں ہے، یہ بہت دشوار کام ہے۔ ہمارا یہ دعوی نہیں ہے کہ اس کا خاتمہ ہو چکا ہے، جی نہیں یہ عفریت اب بھی موجود ہے لیکن بہرحال اس کے خلاف اقدام کی جرئت تو سامنے آئی ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ جب حکومت میں شامل افراد کا دامن پاک ہوگا تو ان میں اقدام کرنےکی مکمل جرئت ہوگی۔ ماضی میں بھی بہت سے لوگ پاکیزہ تھے وہ بھی پاک تھے لیکن بدعنوانیوں سے مقابلہ کرنے کا امتیاز آپ کے ہاتھ آیا ہے۔
عالمی تسلط پسند طاقتوں کے مد مقابل جارحانہ انداز اختیار کرنا موجودہ حکومت کی ایک اور خصوصیت ہےایک موقع پر عالمی تسلط پسند طاقتیں کہتی ہیں آپ نے فلاں کام کیا ہے ہم صفائی پیش کرتے ہیں معاملہ رفع دفع ہوجاتا ہے لیکن ایک موقع پر بڑی طاقتوں کا انداز جارحانہ انداز ہے ان کا بجوم زور اور طاقت پر مبنی ہے۔ ایسی صورت میں جواب بھی جارحانہ ہونا چاہئے۔ سامراجی طاقتوں کی کمزوریاں بھی کم نہیں ہیں۔ وہ جرائم کا ارتکاب کر رہی ہیں، بد عنوانیوں میں ملوث ہیں، انسانی حقوق کی پائمالی ان کا شیوہ ہے، قوموں کے حقوق وہ پامال کررہی ہیں۔ وہ ہر برا کام کر رہی ہیں اور اوپر سے سینہ زوری بھی کرتی ہیں۔ ایسے میں ان سے انہیں کی زبان میں بات کرنی چاہیے اور انہیں ان کے جرائم اور عیوب سے آگاہ کرنا چاہئے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ تو بڑھتی ہوئي چلی آئیں اور ہم صفائی ہی دیتے رہیں۔ ابتدائی سالوں میں ایک دفعہ مجھ سے ایسے ہی کسی مسئلے کے بارے میں سوال کیا گيا کہ آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ میں نے کہا ہمیں جواب نہیں دینا ہے ہم تو خود مدعی ہیں۔ خواتین کے مسئلے میں ہمیں ان پر اعتراض ہے۔ انسانی حقوق کے سلسلے میں ہم ان سے شاکی ہیں۔ انسانوں کے بنیادی حقوق کے سلسلے میں ہم مدعی ہیں۔ تو جواب ہمیں نہیں بلکہ انہیں دینا چاہیے۔ ہمیں جواب نہیں دینا چاہیےوہ سوال کیوں کریں کہ کوئي ان کا جواب دینے پر مجبور ہوجائے؟ ان کا سوال و دعوی غلط ہوتا ہے عالمی طاقتوں کے مقابلہ میں یہ جذبہ بہت اچھا جذبہ ہے یہ انقلابی طرز عمل ہے یہ انقلابی جذبہ ہے جو حقیقت کو آشکار کرتا ہے۔

خلاصہ کے طور پر یہ حکومت کے عام اصول ہیں انقلاب کی بعض جوہری خصوصیات اور امام (رہ) کی منطق کو احیاء اور دوبارہ زندہ کرنا اور ان افراد سے مقابلہ کرنا جو ان بنیادی اورگرانقدر اصولوں کو منسوخ یا محو کرنےکی تلاش و کوشش کررہےتھے یا دعوی کرتے تھے کہ انقلاب اور امام (رہ) کی اقدار منسوخ اور مٹ گئي ہیں یہ موجودہ حکومت کی دوسری اور اہم خصوصیت ہے۔

موجودہ حکومت کی تیسری خصوصیت عوامی خدمت و محبت کا جذبہ اور انکساری ہے۔یہ بھی بہت اہم اور قابل قدر خصوصیت ہے۔ آپ کا تشخص آپ کی ظاہری شکل و صورت سے نہیں بلکہ آپ کا امتیاز اس میں ہے کہ آپ خود کو عوام الناس کی سطح کے برابر رکھیں۔ عوام کے درمیان رہیں اور انہیں کے مانند زندگی بسر کریں۔ عوام سے آپ کا رابطہ برقرار رہے اور آپ ان کا جز بن کر رہيں۔ یہ بہت بڑی خصوصیت ہے جو آپ میں موجود ہے اس کی حفاظت آپ کی اہم ذمہ داری ہے۔
سادہ زندگی بسر کرنا بالخصوص خود صدرجمہوریہ کے ہاں بہت نمایاں ہے۔ یہ صفت دیگر حکام میں بھی کم و بیش موجود ہے۔ سادہ زندگی بسر کرنا بہت ہی عمدہ صفت ہے۔ اگر ہم معاشرے سے اسراف و ‌فضول خرچی اور عیش و عشرت کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو زبانی گفتگو سے یہ ہدف حاصل ہونے والا نہیں ہے کہ ایک طرف تو ہم بڑی بڑی باتیں کریں اور دوسری طرف عوام مشاہدہ کریں کہ ہمارے گفتار و رفتار میں یکسانیت نہیں ہے۔ تو ہمیں عملی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمارا فعل کو ہمارے قول کی تصدیق کرنی چاہیے تب جاکر کہیں ہماری بات میں اثر پیدا ہوگا۔ خوش قسمتی سے یہ چیزیں آج نظر آ رہی ہیں۔ آپ نے معاشرے کے کمزور طبقوں سے اپنا فاصلہ بہت کم کر لیا ہے اور اسے ختم کرنے کی آپ کی کوششیں جاری ہیں۔ تو یہ تین صفتیں اور خصوصیتیں آپ میں موجود ہیں۔
"من لم يشكر المخلوق لم يشكر الخالق" "جو مخلوق کا شکریہ ادا نہ کرے وہ اللہ کا شکر گزار نہیں بن سکتا " یہ میرا بھی فرض ہے اور تمام افراد کی ذمہ داری بھی ہے۔ اگرہم موجودہ حکومت کی ان خصوصیات کی قدر نہ کریں ان کا شکریہ ادا نہ کریں تو اللہ تعالی بھی ہمارے عمل سے خوش نہیں ہوگا۔ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ لوگوں کے اچھے کاموں کا شکریہ ادا کیا جائے ان کی قدر کی جائے۔ میرا بھی فرض ہے کہ قدردانی کروں اور یہی وجہ ہے کہ ان خصوصیات کی بنا پر میں حکومت کی حمایت کرتا ہوں۔ البتہ یہ حمایت صرف اسی حکومت سے مخصوص نہیں ہے بلکہ میں ہمیشہ حکومتوں کی حمایت کرتا رہا ہوں۔ امام (خمینی رہ) بھی متعدد مواقع پر حکومت اور حکومت کےاعلی عہدہ داروں کی حمایت کرتے تھے۔ اس کی وجہ بھی معقول ہے کیونکہ کہ ملک کا نظم و نسق چلانے کی بنیادی ذمہ داری قوہ مجریہ کے دوش پرہوتی ہے۔ اس لئے نظام کی جانب سے صدر جمہوریہ، حکام اور وزراء کی حمایت لازمی ہے۔ امام (خمینی رہ) بھی حمایت کرتے تھے اور میں بھی حمایت کرتا رہا ہوں لیکن اگر حکومت میں یہ خصوصیات موجود ہوں جن کا میں نے ذکر کیا تو حمایت زیادہ گرمجوشی سے ہوتی ہے۔ البتہ اس کا مطلب حکومت کے عیوب و نقائص اور خامیوں سے چشم پوشی کر لینا نہیں ہے۔ بہرحال آپ بھی انسان ہی ہیں آپ میں کچھ خامیاں بھی ہیں، بہت سے کام ایسے بھی ہوں گے جنہیں انجام دینے کی کوشش آپ نے کی ہوگی لیکن آپ کامیاب نہیں ہوئے ہوں گے۔ بہت سے ایسے امور بھی ہو سکتے ہیں جن کی جانب آپ کی توجہ ہونی چاہئے تھی لیکن آپ توجہ نہیں دے سکے۔ ان امور کی جانب صدر جمہوریہ اور دیگر عہدہ داروں سے خصوصی ملاقاتوں اور اسی طرح عمومی پروگراموں میں اشارہ بھی کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں تک حکومت کی حمایت کا تعلق ہے تو یہ حمایت جاری ہے۔
یہاں پر میں چند نکات پیش کروں گا۔ ایک تو وہ مطالبات ہیں جو ہم نے کابینہ کے ساتھ ہونے والے جلسات میں ہمیشہ پیش کئے ہیں۔ میں ان مطالبات پر ایک بار پھر تاکید کروں گا۔ گزشتہ سالوں کے جلسات میں ہم نے ان مطالبات کا ذکر کیا ہے، یہ بہت اہم ہیں اور ان پر قوہ مجریہ کے صف اول کے حکام کی توجہ ہونی چاہئے۔ ایک اہم مطالبہ قوانین کی پابندی اور پاسداری کا ہے۔ آپ قوانین کو اہمیت دیجئے۔ جب آئینی تناظر میں کوئی قانون اپنی منزلیں طے کر لے تو اسے حتمی شکل حاصل ہو جاتی ہے۔ اب ممکن ہے کہ اس قانون کو منظوری دینے والی وہی پارلیمنٹ یا حکومت یا دوسرے لوگ ایسے مقدمات فراہم کریں اور اس قانون کو بدل دیں پارلیمنٹ میں جو لائحہ پیش ہوتے ہیں یا حکومت جو قراردادیں منظور کرتی ہے ان کے ذریعے ممکن ہے قانون میں تبدیلی آ جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اگر قانون میں کوئی کمی ہے تو اسے بدلنا ہی چاہئے لیکن جب تک قانون بدلا نہیں ہے اس کا احترام اور اس پر عمل ضروری ہے۔ میں اس پر خاص تاکید کرنا چاہوں گا۔ مختلف شعبوں میں یہ چیز پیش آ سکتی ہے۔ ممکن ہے کسی چیز کے بارے میں آپ کو محسوس ہو کہ وہ مناسب طریقے سے قانونی مراحل سے نہیں گزری ہے۔ اسی طرح ممکن ہے کہ پارلیمنٹ نے کوئی قانون منظور کرکے اجراء کے لئے حکومت کواس سے مطلع کر دیا ہے تو اب مجریہ کو چاہئے کہ اس قانون کا احترام کرے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ اگر اس قانون میں کوئی خامی ہے تو اسے کیسے دور کیا جائے یا متعلقہ ادارے اس قانون کو کس طرح ختم کریں، قانون جب تک قانون ہے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
حکومت کی ما تحت اداروں اور اہلکاروں پرنگرانی بھی بہت ضروری ہے۔ آپ عزیزوں سے میری خواہش ہے کہ اعلی عہدہ دار کی حیثیت سے اپنے ما تحت اہلکاروں پر نگرانی کو خصوصی اہمیت دیجئے۔ آپ کی تیز بیں اور دور رس نگاہیں جب آپ کے محکمے میں گردش کرتی رہیں گی تو آپ متعلقہ امور کو صحیح طور پرانجام دے سکیں گے۔ اگر آپ سے ذرہ برابر غفلت ہوئی تو ممکن ہے کہ اسی لمحے کوئی بڑی غلطی رونما ہو جائے۔ انسانی عملہ خودکار مشین جیسا تو نہیں ہوتا کہ ایک بٹن دبایا اور اس نے خود بخود کام کرنا شروع کر دیا۔ انسانی کارکنوں میں ارادہ، فکر و نظر، ذوق اور اچھی بری خواہشات پائی جاتی ہیں۔ آپ نے غور و فکر کے بعد کسی کام کے بارےمیں فیصلہ کیا جسے آپ کے عملے نے عملی جامہ پہنانا ہے ۔ ممکن ہے کسی منزل پر پہنچ کر اس کام کے بارے میں فکر و نظر اور خواہش و ارادے کی شکل میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے اور وہ کام متوقف ہو جائے۔ جیسے پانی کے بہاؤ کے سامنے کوئي چٹان آ جائے تو بہاؤ رک جاتا ہے۔ ایسی صورت میں رکاوٹ دور کی جانی چاہئے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب نظارت و نگرانی ہو۔
خود صدر جمہوریہ بھی اس سے مستثنی نہیں ہیں البتہ وزراء کے کام پر صدر جمہوریہ کی نگرانی میں یہ ضروری ہے کہ وزراء کی آزادی عمل اور ان کے اختیارات سے کوئی تضاد اور ٹکراؤ پیدا نہ ہونے پائے۔ چونکہ وزراء کے دوش پر آئینی فرائض ہیں اور انہیں پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ ملا ہے اس لئے ان کی آزادی عمل ضروری ہے لیکن اس کے باوجود وزراء کے کاموں پر بھی نگرانی ضروری ہے۔ صدر کو چاہئے کہ ان کی آزادی کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ان کے کاموں کی نگرانی کرے۔

ایک مسئلہ ان منظور ہونے والے امور کا پیچھا کرنا ہے بالخصوص وہ امور جو صوبائی دوروں کے دوران منظور کئےجاتے ہیں اور جن کا عوام سے وعدہ کیاجاتا ہے آپ نے کسی جگہ کا دورہ کیا مثلا کہا جاتا ہے کہ حکومت نے فلاں جگہ کے لئے سو یا دوسو امور منظور کئے ہیں ۔ ان کے عملی طور پرمحقق ہونے کے لئے انکا پیچھا کریں۔ آپ جانتے ہیں رپورٹیں سننے اور اعداد و شمار پیش کئے جانے کے سلسلے میں میرا تجربہ بہت طولانی ہے صدرات کے دور میں اور اس کے بعد مجھے ان رپورٹوں کے بارے میں کافی تجربہ ہےآتے ہیں رپورٹ پیش کرتے ہیں کہتے ہیں آقا! یہ کام ہوگيا ، یہ کام ہوگيا ، یہ کام ہوگيا، لیکن جب انسان اس کام کو قریب سے مشاہدہ کرنے کے لئے جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ رپورٹ جھوٹی نہیں ہے لیکن درست بھی نہیں ہے۔ اس میں ایک نکتہ ہے کہ آپ سے جھوٹ نہیں کہا ہے لیکن جو چیز آپ چاہتے ہیں وہ بھی انجام نہیں پائی ہے! لہذا ہوشیار رہیں جو چیز آپ جاہتے ہیں وہ ہوناچاہیے تحریری رپورٹیں جو اعداد و شمار کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں ممکن ہے ان میں خلل موجود ہولہذا بہت دقت ، احتیاط اور ہوشیاری کے ساتھ منظور شدہ امور اورعوام سے کئے گئے وعدوں کا پیچھا کرنا چاہیے۔

جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں آپ کی حکومت عوامی حکومت ہے یعنی جب لوگ آپ کی آواز سنتے ہیں تو اس آواز کو وہ اپنی جنس و ذات سے تصور کرتے ہیں اور قدرتی طور پر ان میں توقعات کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ اچھی بات ہے لیکن توقعات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اگر کہیں ان توقعات کے خلاف عمل ہوا تو لوگوں کے اعتقاد و ایمان میں خلل کا موجب بن جائے گا اور یہ جائز نہیں ہےاور نہ ایسا ہونے کی اجازت دینی چاہیے عوام سے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا ہونا چاہیے اگر پورا کرنے کی ہمت نہیں ، تو عوام سے صاف بیان کیجئے کہ نہیں ہوسکتا۔

میں نےڈاکٹر احمدی نژاد کی صدارت کے ابتدائی ایام میں ایک خاص مورد کے متعلق کہا تھا ، جس کا بیان ضروری نہیں ہے اور جس کے بارے میں گذشتہ حکومت نے بھی اقدام کیا تھا ، کہ ممکن ہے یہ کام آپ کے لئے مشکلات پیدا کرے اور آئیے اور صاف طور پر عوام اور انھیں حکام سے کہہ دیجئے کہ یہ کا نہیں ہوسکتا! آپ کی بات مان لیں گے لیکن انھوں نے مصلحت نہیں سمجھی اور وہ کام نہیں کیا اور میں نے بھی کوئي جبر سے نہیں کہابلکہ تجویز اور پیشنہاد کے عنوان سے کہا تھا۔ میرا عقیدہ یہ ہے کہ اگر آپ ایک کام کو انجام نہیں دےسکتے مثلا فلاں صوبہ میں آپ گئے ہیں فلاں وعدہ عوام سے کیا ہے؛ اب آپ نے مشاہدہ کیا کہ اس سے مہنگائی اور مشکلات پیدا ہوتی ہیں یا ممکن ہےدوسرے کاموں میں سستی پیدا کردے تو عوام سے صاف کہہ دیجئے کہ ہم نے یہ کام کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن نہیں ہوسکتا کام بالکل ہی نہ ہو اس سے بہتر ہے کہ عوام کو صاف صورتحال سے آگاہ کردیں۔ یہ ہوئی ایک بات۔

قوہ مقننہ اور عدلیہ کے ساتھ بھرپور تعاون بھی میری اہم سفارشوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک لازمی امر ہے جسے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ ممکن ہے اس راہ میں دشواریاں بھی پیش آئيں لیکن صبرو ضبط کے ساتھ ان کا سامنا کرنا ہوگا۔
اسی طرح اہل نظر اور مفکرین سے رابطہ بھی ضروری ہے چاہے ان کا تعلق مخالفین کی صف سے ہی کیوں نہ ہو۔ معاشرے کی علمی شخصیات کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق میرا کہنا ہے کہ اگر علمی شخصیات اور عوام الناس کے آرا میں تضاد پیدا ہو جائے تو عوام الناس کی رای اور مرضی کو ترجیح دینی چاہئے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے گورنر مالک اشتر کے نام اپنے خط میں اس نکتے کا ذکر فرمایا ہے۔ لیکن ہمیشہ یہی نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی ممتاز و مفکر شخصیات کے اصلاحی نظرئے سے استفادہ بھی ضروری ہوتا ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ اطلاعات بہم پہنچانے کا مسئلہ ہے جس پر میں بارہا تاکید کر چکا ہوں۔کابینہ کے صوبائی سفر کے بارے میں اطلاع رسانی کا عمل بحسن و خوبی انجام پا رہا ہے لیکن اب بھی یہ اطمینان بخش سطح تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ کاموں کی تفصیلات ماہرانہ انداز میں پیش کی جانی چاہئیں۔
میری ایک اور سفارش علم و ٹکنالوجی کے سلسلے میں ہے۔ اس میدان میں جو ادارہ قائم کیا گیا ہے وہ حقیقت میں بہت اہم خدمات انجام دے رہا ہے تاہم اس شعبے پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے یہ بڑا بنیادی شعبہ ہے۔ اگر ہم نے اس بنیاد اور اساس کو مضبوط کر لیا تو بہت سے دیگر امور کو اس کے سہارے بآسانی آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
ثقافتی امور پر بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس شعبہ میں بھی بہت سے اہم کام انجام پائے ہیں اور ان کی رپورٹ مجھے پیش کی گئی ہے جبکہ بہت سے اہم اقدامات سے میں ذاتی طور پر واقف ہوں، لیکن ثقافت کا مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ میں بارہا عرض کر چکا ہوں کہ یہ اس فضا کی مانند ہے جس میں انسان سانس لیتا ہے۔ ہر فرد، ہر عہدہ دار اور ہر عام انسان سانس لیتا ہے۔ فضا صاف و شفاف ہونی چاہئے تاکہ تنفس کا عمل بآسانی انجام پائے۔
تنقیدوں پر بھی توجہ کیجئے۔ البتہ تنقید اور تخریب میں فرق ہے۔ بد قسمتی سے بعض افراد غیر تعمیری رویہ اختیار کرتے ہیں اور اسے تنقید کا نام دے دیتے ہیں۔ لیکن جب جذبہ ہمدردی کے ساتھ کوئی مثبت باتوں کے ساتھ ساتھ نقائص کا بھی ذکر کرے تو کھلے ذہن سےاسے سننا چاہئے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر تنقید کو من و عن قبول کر لیا جائے کیونکہ ممکن ہے کہ خود تنقید کرنے والے سے بھی غلطی ہو جائے۔ ہاں اس کی بات غور سے سنئے اور جو تعمیری تنقید اور مشورہ ہے اسے نظر انداز نہ ہونے دیجئے۔ میں یہ باتیں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں۔ اس وقت صرف یاد دہانی کے طور پر دہرا رہا ہوں۔
موجودہ حکومت کے اس آخری سال کے متعلق بھی میں چند باتیں پیش کرتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ اس آخری سال میں بھی آپ سال اول کے جذبے کے ساتھ کام کیجئے۔ ویسے مجھے تو وہی جذبہ نظر آ رہا ہے تاہم اس کے باوجود میں اس پر تاکید کرتا ہوں کہ آپ ہرگز یہ نہ سوچئے کہ اب تو موجودہ دور کا آخری سال ہے۔ بلکہ آپ اس انداز سے کام کیجئے کہ گویا مزید پانچ سال آپ کو کام کرنا ہے یعنی آپ اس آخری سال اور آئندہ چار سالہ دور حکومت کو بھی اپنی حکومت اور نظم و نسق کا دور تصور کرتے ہوئے کام کیجئے۔ اس نقطہ نظر کے ساتھ کام کیجئے منصوبہ بندی سے کام کیجئے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ان کاموں کو ترجیح دیجئے جو نا تمام رہ گئے ہیں۔ ہم نے اس سال کو خلاقیت و پیش رفت کے سال سے موسوم کیا ہے۔ خلاقیت سے مراد صرف نئے نئے منصوبے اور پروجیکٹ شروع کرنا نہیں ہے بلکہ خلاقیت سے مراد نئے راستے تلاش کرنا، نئی فکر و نظر پیش کرنا ہے تاکہ حکومت خواہ وہ موجودہ حکومت ہو یا آئندہ حکومت اس سے استفادہ کرے۔ خلاقیت سے مراد نئے راستے اور نئی روش متعارف کرانا ہے۔ پیش رفت کا بھی ایک مطلب یہ ہے کہ اب تک جو نمایاں کام آپ نے انجام دئے ہیں اس کا ثمرہ عوام کو حاصل ہو۔ لہذا آپ ترجیج ادھورے کاموں کی تکمیل کو دیجئے۔ خواہ وہ ایسے ادھورے کام ہوں جو آپ کی حکومت نے شروع کئے ہیں یا وہ کام ہوں جو گزشتہ حکومتوں کے شروع کردہ ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام اسی دورے میں آپ کی خدمات سے استفادہ کر سکیں۔
تیسرا نکتہ اطلاع رسانی اور عوام کو امور سے آگاہ رکھنے کا ہے جس کی جانب میں نے پہلے بھی اشارہ کیا۔

اس سلسلے میں میری سفارشات یہ ہیں کہ اسلامی انقلاب کا جو عشرہ اس وقت ہمارے سامنے ہے وہ عدل و انصاف وترقی کا عشرہ ہے اور آئندہ دہائي کے یہی دو اہم نعرے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب تک ہم نے ترقی نہیں کی اور انصاف کے مسئلے پر توجہ نہیں دی۔ نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ ہمارا ہدف یہ ہے کہ اس عشرے میں ہم برق رفتاری سے ترقی کریں اور وسیع و ہمہ گری انصاف قائم کریں۔ خوش قسمتی سے اس کے لئے راہ بھی ہموار ہے لہذا نئی دہائی میں حکام کا بنیادی ہدف ترقی اور مساوات ہونا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ معنویت و دانشمندی کے بغیر انصاف و ترقی ممکن نہیں ہے۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اگر معنویت نہ ہو تو عدل و انصاف ریاکاری میں تبدیل ہو جائے گا اور اگر عقلانیت کا فقدان ہو تب تو انصاف وجود میں ہی نہیں آئے گا۔ ایسی صورت میں انسان اپنی خام خیالی میں جس چیز کو انصاف تصور کر رہا ہے، وہ حقیقی انصاف کی جگہ لے لےگا۔ لہذا انصاف کے لئے معنویت اور عقلانیت لازمی شرط ہیں۔
لیکن انصاف کے بغیر پیشرفت کا کوئی معنی و مفہوم نہیں رہ جاتا اور ترقی کےبغیر انصاف ممکن نہیں۔ لہذا ترقی و پیش رفت بھی ضروری ہے اور عدل وانصاف بھی لازمی ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کرے اور دیگر مسلم ممالک کے لئے قابل عمل نمونہ بن جائے تو ہم سب کا بنیادی ہدف یہی ہونا چاہئے اور اس کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنا چاہئے،

بیس سالہ منصوبہ نقشہ راہ ہے، اس منصوبہ کے بارے میں بالکل غفلت نہیں ہونی چاہیے یہ ایک حقیقی سند ہے ایک واقعی نقشہ راہ ہےاپنے نگراں اداروں کا محاسبہ کرنا چاہیے ممکن ہے دوسرے بھی نگرانی کریں ممکن ہے نہ کریں ؛ ممکن ہے ان کی نگرانی صحیح ہو ممکن ہے ناقص ہو؛ لیکن خود قوہ مجریہ کے مجموعہ کا بیسن سالہ منصوبہ کے اہداف تک پہنچنے میں بڑا اہم کردار ہے نگراں اداروں کو فعال کریں، نگرانی کے عمل کو کام میں لائیں ، اور دیکھیں کہ منصوبوں اور پالیسیوں میں کتنی پیشرفت حاصل ہوئي ہے؛ یعنی ایسا نہ ہو کہ بیس سالہ منصوبہ کے دسویں سال دیکھیں تو معلوم ہو کہ ابھی کوئي پیشرفت نہیں ہوئی ہے؛ پیشرفت پر مسلسل نظر رکھیئے تاکہ معلوم ہو کہ کس قدر اہداف کے نزدیک پہنچے ہیں اور کس قدر امکانات فراہم ہوئے ہیں۔

ایک اور نقطہ دفعہ 44 کی پالیسیوں کا ہے سب اس بات کے معترف ہیں کہ دفعہ 44 کی پالیسیاں اگر نافذ ہوجائیں تو اقتصادی میدان اور اس کے ساتھ دوسرے شعبوں میں بھی ملک کی پیشرفت میں ایک عظيم انقلاب پیدا ہوجائے گا، یہ بھی ایک بہت ہی اہم مسئلہ ہے، اعداد و شمار اچھے پیش کئے گئے ہیں؛ اس سلسلے میں اجھے اور نمایاں کام بھی ہوئے ہیں، اس حالیہ قانون کی منظور سے قبل حکومت نے اس سلسلے میں کئي اقدامات انجام دیئے تھے خوش قسمتی سے اب قانون بھی منظور ہوگيا ہے اور آپ کے ہاتھ میں ہے ؛ تو اب ان پالیسیوں کو سنجیدگي اور قوت کے ساتھ سرانجام تک پہنچانے کی کوشش کیجئے۔

حکومت نے حال ہی میں جواقتصادی تحول کا منصوبہ پیش کیا ہے یہ بھی انھیں اہم امور میں سے ایک ہے جس کو انجام دینے کے لئے قدم اٹھانا بھی خود اہم کام ہے ، اس کی سرفصلوں کو سب نے قبول کیا ہے اور قبول کرتے ہیں، یہی سبسڈي کو بامقصد بنانے کا مسئلہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے؛ گذشتہ حکومتوں میں بھی اس موضوع پر بحث ہوتی تھی گفتگو ہوتی تھی لیکن پیشرفت نہیں ہوتی تھی۔ یا اس اقتصادی تحول کے منصوبہ میں وہ مشکلات جو بینکوں ، مالیات اور کسٹم اور دیگر مختلف شعبوں میں موجود ہیں بہت بڑے اور اہم کام ہیں ان امور کو انجام دینا چاہیے، میں سفارش کرتا ہوں اس میں عزم بالجزم سے کام لیں ؛ اس بزرگ اور عظیم کام میں عجلت اور جلد بازی بالکل نہیں ہونی چاہیے یہ کام بہت بڑا اور عظیم کام ہے انشاءاللہ اگر آپ اس کو اچھی طرح انجام دے سکیں،تو گویا آپ نے ملک کی پیشرفت میں ایک بڑا قدم اٹھایا ہے، لیکن اگر یہ کام اچھی طرح انجام نہ پا سکے تو اس کے نقصانات بھی بہت زيادہ ہونگے ہوشیار رہیں ، عجلت اور جلد بازی سے کام نہ لیں، اس میدان میں ڈرنے اور متوقف ہونے کی سفارش نہیں کرتا ہوں لیکن دقت اور آگے رونما ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھنے کی سفارش کرتا ہوں اس کام میں بڑی ہوشیاری اور گہری دقت کی ضرورت ہے۔

فرض کیجئے اس اقتصادی تحول کے منصوبہ کے کچھ حصہ کی وجہ سے مہنگائی وجود میں آئے گی تو اس مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لئے کیا کرنا چاہیے کہ مہنگائی وجود میں نہ آئے یا اگر مہنگائی آئے بھی تو اس کے اثرات کم ہوں تاکہ یہ بڑا اقتصادی کام اور بڑا آپریشن سلامتی کے ساتھ اوراچھی طرح انجام پاسکے اس کے بارے میں پہلے سے فکر و دقت ضروری ہے ہمارے ملک میں مہنگائی کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ یعنی آپ نے یہ تمام خدمات انجام دیں اور زحمتیں برداشت کیں تو ان زحمتوں کا نتیجہ لوگوں کی زندگي میں ظاہر ہونا چاہیے، اب بھی مہنگائی ہے البتہ جیسا کہ اشارہ کیا گيا ہے یہ مہنگائی عالمی سطح پر ہے- اس کا کچھ حصہ عالمی سطح پر ہونے والی مہنگائی سے متعلق ہے اور کچھ حصہ حقیقت میں خشکسالی سے مربوط ہے اور اس کا کچھ حصہ گذشتہ سال کے موسم سرما سے متعلق ہے لیکن اس کا کچھ حصہ ان عناصر پر بھی مشتمل ہے جن کو پہچان کر مہنگائی کے کچھ حصہ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ تعمیری و تخریبی تنقید کا ہے۔ ان دونوں میں فرق کیا ہے؟ ممکن ہے تعمیری تنقید کے نام پر تخریبی تنقید کی جائے یا ہم تعمیری تنقید کو بھی تخریبی تنقید قرار دے کر اسے مسترد کر دیں۔ لہذا دونوں کا فرق واضح ہونا چاہیے۔ تعمیری تنقید وہ ہے جو کوئی ماہر شخص منصفانہ انداز میں کرتا ہے۔ مثلا کسی سونار کے سامنے سونا پیش کیا جائے اور وہ کہے کہ بیس قیراط کا سونا ہے یعنی وہ اس بات کو قبول کر رہا ہے کہ یہ دھات سونا ہی ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ خالص سونے یعنی چوبیس قیراط سے اس کا معیار چار قیراط کم ہے۔ تعمیری تنقید اسی طرح ہوتی ہے۔ سونار سونے کی بخوبی پہچان رکھتا ہے اور اپنی اس صلاحیت کی بنیاد پر کوئی بات کہہ رہا ہے۔ لیکن اگر اس کے بر عکس آپ سونا لیکر لوہار کے پاس جائیں اور وہ اس پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر کہے کہ اس کی تو کوئی قیمت ہی نہیں ہے تو اسے تنقید نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ ایک تو اس نے یہی ماننے سے انکار کر دیا کہ یہ سونا ہے۔ حالانکہ یہ سونا ہے ۔ اب ممکن ہے چوبیس قیراط کا سونا نہ ہو لیکن بیس قیراط کا تو کم سے کم ہے ۔ یہ تو رہی ایک بات۔ دوسرے یہ کہ آپ تو سونار کہاں ہیں جو سونے کے بارے میں اظہار نظر فرما رہے ہیں۔ آپ کو تو اس دھات کے بارے میں معلومات ہی نہیں ہے۔
لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج حکومت پر تنقید کے نام پر جو باتیں کی جاتی ہیں وہ تخریبی پہلو کی حامل ہیں۔ یعنی مثبت خصوصیات کا یکسر انکار کرنا، قابل تعریف کاوشوں کو نظر انداز کر دینا، خامیوں اور کمزوریوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا یہ تخریبی تنقید ہے۔ بہرحال خامیاں ہیں، ہر حکومت میں ہوتی ہیں۔ انسانوں میں خامیاں ہوتی ہیں۔ اب اگر خامیاں بیان کرنا ہے تو کامیابیاں اور مثبت و مفید اقدامات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا صحیح طریقہ یہ ہےکہ اس کی کمزوریوں اور کامیاب کوششوں کو ایک ساتھ رکھ کر پیش کیاجائے۔ نہ یہ کہ ایک طرف سے برائیاں گنوانے کا سلسلہ شروع ہو اور دوسری طرف تمام خصوصیات اور اہم اقدامات کا سرے سے انکار کر دیا جائے۔ میں تین بنیادی نکات کی جانب اشارہ کروں گا، حالانکہ ان نکات کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن میں صرف تین نکات کو کروں گا۔ ایک تو حکومت کے بنیادی موقف کا نکتہ ہے، دوسرے حکومت کی فعالیت و کارکردگی کا موضوع ہے اور تیسرے حکومتی عہدہ داروں کے سلوک و رفتارکی بحث ہے۔ پہلے حکومت کی ان تین خصوصیات کا اعتراف کیا جائے پھر اس کے ساتھ اگر بعض خامیوں کی نشاندہی کی جائے تو کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس مشورے کو دل و جان سے قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا مناسب ہوگا۔ یہ تو انصاف کا تقاضا نہیں ہے کہ حکومت کی تمام خوبیوں کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے اور حتی خوبیوں کو خامیوں کی شکل میں پیش کرنےکی کوشش کی جائے۔
اس وقت عالمی سامراج کے مقابلے میں ہماری خارجہ پالیسی کی زبان قومی و معنوی عزت واقتدار پر مبنی ہے ہم استکبار کے مقابل دفاعی پوزیشن سے نکل کر بات کر رہے ہیں ، ہمارا قومی وقار اور عزت دنیا کے سامنے جلوہ گر ہے۔ اب اگر کوئی آکر کہنے لگے کہ جناب آپ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی کیونکہ فلاں حکومت آپ سے ناراض ہے تو یہ اس کی بھول ہے کیونکہ اس فلاں حکومت کی ناراضگی تو فطری ہے۔ وہ دوسرے ممالک کو تملق و خوش آمد میں مصروف دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ حکومت ایران سے انقلاب اسلامی کا خاتمہ چاہتی ہے۔ اگر ہم اس کے لئے تیار ہو جائیں خود کو ان کے سامنے گرادیں تب وہ حکومتیں ہم سے بہت خوش ہو جائیں گی۔
تنقید ایک مستحسن چیز ہے لیکن عیب جوئی اور منفی تنقید قبیح ہے۔ تعمیری تنقید خدمت کا درجہ رکھتی ہے لیکن منفی تنقید خیانت کہلاتی ہے۔ حکومت سے خیانت نہیں بلکہ نظام اور ملک سے خیانت ہے۔ لہذا عیب جوئی اور منفی تنقید نہیں مثبت تنقید کی جانی چاہئے۔
البتہ آپ تنقید کو فراخدلی سے سنیں ۔ یعنی اگر واقعی تعمیری تنقید کی جاتی ہے تو اسے کھلے دل سے قبول کیجئے۔ میں تو کہوں گا کہ تخریبی تنقید کو بھی برداشت کیجئے۔ کیونکہ اقتدار کے آخری سال میں عموما حکومتوں پر یہ تنقیدیں ہوتی رہتی ہیں۔ موجودہ حکومت کے خلاف اس وقت دو محاذ ہیں۔ ایک داخلی اور دوسرا بیرونی۔ بیرونی محاذ زیادہ توجہ طلب ہے۔ اگر آج آپ عالمی ذرائع ابلاغ کو دیکھیں، سیاسی حلقوں پر نظر دوڑائیں تو جنگ احزاب کی مانند سب کے سب اس حکومت کے خلاف متحد نظر آئیں گے۔ ان کے نشانے پر ڈاکٹر احمدی نژاد اور ان کی کابینہ کے وزرا نہیں بلکہ ایران کا اسلامی انقلاب ہے۔ بیرونی سطح پر اس وقت یہ فضا قائم ہے۔ ہم تو ہر حربہ استعمال ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ بہت سے حربے ایسے ہوتے ہیں جن سے عوام واقف ہیں لیکن بہت سے حربے ایسے ہوتے ہیں جن سے خواص اور اہل نظر بھی واقف نہیں ہیں۔ جو اطلاعات ہم تک پہنچتی ہیں ان سے ہم اندازہ کرتے ہیں کہ کس طرح اس حکومت کے خلاف محاذ آرائی جاری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس حکومت کی روش اور انداز انقلاب اسلامی سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ یہ حکومت انقلاب کی راہ پر گامزن ہے۔ تو یہ رہا بیرونی محاذ۔ داخلی سطح پر بھی محاذ آرائي نظر آتی ہے۔ البتہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا درست نہیں۔ کیونکہ بہت سے افراد ایسے بھی ہیں جو دانستہ کسی سازش میں شریک نہیں ہیں بلکہ محض اپنی لاعلمی اور عدم واقفیت کی وجہ سے بعض باتیں کہہ جاتے ہیں۔ بعض عناصر ایسے ہیں جو معمولی مفادات کے لئے بیجا تنقید کرتے ہیں جبکہ بعض عناصر ایسے بھی ہیں جو اسلامی نظام کے وجود پر معترض ہیں۔ جو انقلاب کو ہی نہیں مانتے۔ اسی بنا پر وہ فتنہ انگیزی کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک اور سفارش یہ ہے کہ آپ دوسروں کو اعتراض کا موقع نہ دیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ بعض اوقات آپ لوگوں سے ایسے کام سرزد ہو جاتے ہیں جن سے اعتراض کا موقع ملتا ہے تو آپ اس سے بچنے کی کوشش کیجیئے۔ کہا گیا ہے کہ "اتقوا من مواضع التھم" ایسی جگہوں سے دور رہو جن سے نزدیک ہونے کی صورت میں مورد الزام قرار پانے کا خدشہ ہو۔ کہتے ہیں کہ ایک شیخ نے دینی مدرسہ کے ایک طالب علم سے کہا کہ فلاں طالب علم کی رفت و آمد غلط ہے، طالب علم نے بھی جواب دیا : اتقو من مواضع التّھم، آقای شیخ تم بھی ہوشیار رہو ، مختصر یہ کہ ہوشیار رہیں آگاہ رہیں، " اتقو من مواضع التّھم " اپنے لئے اور حکومت کے لئے کوئیی مشکل پیدا نہ کریں شور غل اور جنجال برپا کرنے والے افراد کے ہاتھ کوئي بہانہ نہ دیں۔
امیدوارہوں کہ انشاء اللہ خداوند متعال اللہ ہم سے اور آپ سے راضی و خوشنود رہے، ہماری مدد فرمائے اور انشاءاللہ حضرت ولی عصر(عج) کے قلب مبارک کو ہم سے شاد وخوشحال رکھے۔ ہمیں اس نظام کا حقیقی خدمت گزار قراردے، عوام کا خدمت گزار بنائے اور اپنی بارگاہ میں ہمیں سرخرو فرمائے۔ یہ چار دن کی زندگی بہت تیزی سے گزر رہی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ آپ کے ساتھ پہلے اجلاس میں میں نے عرض کیا تھا کہ حکومت کے عہدہ داروں سے یہ میری پہلی ملاقات ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے آخری ملاقات کا وقت بھی آن پہنچےگا۔ ہماری نظروں کے سامنے زمانہ کتنی سرعت کے ساتھ گزر رہا ہے اور انسان کی زندگی ایک ایک دن کم ہوتی جا رہی ہے۔ قیامت کے دن جب ہمارے اعمال کا دفتر کھولا جائے تو اللہ تعالی کی بارگاہ میں اور اس کے اولیاء اور تمام لوگوں کے سامنے شرمندہ نہ ہوں۔ انشاءاللہ ۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ