ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا حرم حضرت امام رضا (ع) میں لاکھوں زائرین اور مجاورین سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدللہ رب العالمین والصلواۃ والسلام علی سیدنا ونبینا ابی القاسم المصطفی محمد وعلی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المعصومین المکرمین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین۔

خدا کا شکر ہے کہ اس نے توفیق دی کہ ایک بار پھرشمسی سال کے آغاز پرحضرت علی ابن موسی الرضا(علیہ آلاف التحیۃ والثنا) کے جوار میں آپ زائرین اورمجاورین کی خدمت میں حاضری کاموقع ملاہے۔ میں آپ سب کی خدمت میں عید سعید میلادالنبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، ولادت با سعادت امام صادق(علیہ السلام) اورعید نوروزکے موقع پر - جوہماری قوم کے لئے ایک قومی جشن اور مظہر کی حامل ہے - مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

حضرت محمد ابن عبداللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے چند جملے عرض کرنا چاہتا ہوں؛ یہ توحید، عدل، علم اور طھارت کے علمبردار کا یوم ولادت ہے " ھوالذی بعث فی الامیین رسولاً منھم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ" آپ کی ذات گرامی ان تمام چیزوں کامجسمہ ہے ولادت سے لیکر بعثت تک یعنی چالیس سال تک کا دورہمارے پیغمبر اکرم(ص) کے لئےطہارت، امانت، شجاعت اورصداقت کے امتحان کا دور تھا۔ اس دور میں سرداران قبائل سمیت تمام لوگ، مکہ آنے والے مسافراور تجارتی سفر کے دوران پیغمبر اکرم(ص) سے ملاقات کرنے والے دوست، دشمن سب اعتراف کرتے اور گواھی دیتے تھے کہ یہ نجیب وشریف شخص طہارت، امانت، شجاعت اورصداقت کا پیکر ہے ان چالیس سالوں میں کسی نے کوئی بھی تاریک پہلو آپ کی شخصیت میں نہیں دیکھا، کبھی آپ کی زبان سے کوئی جھوٹی بات نہیں سنی، کبھی آپ کے ہاتھوں کسی کا حق پامال ہوتے نہیں دیکھا، ہر شخص اس بات کا معترف تھا۔ چالیس سال تک لوگ آپ کو ان صفات وخصوصیات سے پہچانتے رہے۔

چالیس سال بعد جب تبلیغ کا آغاز ہوا توانہیں لوگوں میں سے کچھ خاص لوگ آپ سے دشمنی، حسد اورتہمت والزام پر کمر بستہ ہوگئے جو لوگ بعثت سے قبل آپ کی طہارت، علم اورصداقت کا کلمہ پڑھتے تھے اب آپ کومجنون، ساحر اورکذاب کہنے لگے قرآن مجید نے ان تہمتوں کا ذکر کیا ہے۔ اسکے معنی یہ ہوئے کہ آپ کے دشمنوں کو آپ کی ذات سے نہیں بلکہ آپ کے پیغام سے دشمنی تھی پیغمبر(ص)کےخلاف محاذ آرائی کرنے والوں کو آپ کے پیغام توحیدوعدل اورآپ کی تعلیمات سے دشمنی تھی۔

چودہ صدیوں سے یہی مسئلہ چلاآرہا ہے اس وقت جو ہم دیکھ رہے ہیں کہ بعض مغربی ممالک کے لٹریچر اور مغربی دنیاکے گوشہ وکنارسےکچھ سیاست دانوں کے قلم اور زبان سے پیغمبر(ص) کی توہین کی جارہی ہے تواس کی وجہ بھی وہی ہے جو جاہلیت کے دور میں تھی اس وقت بھی جو لوگ پیغمبر(ص) کے خلاف صف آرا ہیں اور آپ کے مقدس نام کی توہین کر رہے ہیں وہ در حقیقت انسانوں کے لئےآپ کے لائے ہوئے عدل، توحید اورآزادی کے پیغام کے دشمن اور مخالف ہیں جن لوگوں نے ظلم، فریب اور غنڈہ گردی کووسیلہ بنا کے، انسانوں کی توہین کرکے اور انہیں غلام بنا کے اپنے لئے طاقت اور دولت فراہم کی ہے وہ اس پیغام کے دشمن ہیں، وہ پیغام توحید کے مخالف ہیں، اس پیغام کے مخالف ہیں جو لوگوں کو خدائے واحد کی عبادت کی دعوت دیتا ہے جب کوئی خدائے واحد کا بندہ ہو جائے گا تودولت، طاقت اور غرور کے بتوں کی عبادت نہیں کرے گا جن لوگوں نے اپنی زندگی کی بنیاد ہی قوموں اورلوگوں سے امتیازی سلوک پر رکھی ہے انہیں پیغمبراسلام (ص) کا پیغام عدل پسند نہیں ہے لہذا اس سے دشمنی کر رہے ہیں یہ عداوتیں اس دور میں بھی کمزوری اور خوف کی علامت تھیں اور آج بھی کمزوری اور خوف کی علامت ہیں جو لوگ پیغمبراسلام (ص) اور ان کے لائے ہوئے دین کے مخالف ہیں، وہ دشمنی کر رہے ہیں توہین کر رہے ہیں انہوں نے کمزور ہونے کی وجہ سے یہ گھٹیا طریقہ اپنایا ہے نہ کہ طاقتور ہونے کی وجہ سے! اس وقت بھی انہیں پیغمبراسلام(ص) کے پیغام عدل و توحید سے ڈر اور خطرہ محسوس ہوا اورآج بھی جب دنیا بھر کے عام لوگوں کے دل روحانیت کے لئے تشنہ اورعالمی غنڈوں کی غنڈہ گردی سے متنفر ہیں توانہیں اسلام سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے وہ اسلام کہ جس نے عدل اور انصاف کا پرچم ہاتھوں میں لے رکھا ہے، جو دنیا میں معنویت اورعبودیت کاعلم لہراتے ہوئے مادی نظاموں سے خستہ شدہ انسان کواپنی طرف آنے کی دعوت دے رہا ہے اس وقت عالمی مستکبرین اوران کے نمک خوارڈر کے مارے پیغمبراسلام(ص) کی توہین کررہے ہیں یہ ان کی طاقت اور قدرت کی نہیں بلکہ ناکامی کی دلیل ہے۔

یہ سوچنا غلط ہے کہ سلمان رشدی جیسا لکھنے والا ایجنٹ یا قلم فروش خاکہ ساز(جنھوں نےبعض یوروپی ممالک میں توہین آمیز خاکےتیار کئےہیں) ہی اس سارے معاملہ میں اسلام کے مد مقابل نہیں بلکہ یہ سب توعالمی استکبار کے تخلیق کردہ سیاہ چہرہ بد بخت نظام کے پروردہ عناصرہیں۔ اس کےمد مقابل سیاستیں، عالمی سامراجی واستکباری لابی ہے جس میں غداروخونخوارصہیونی لابی کے اراکین اوران کے زیراثر سیاست داں شامل ہیں یہی وجہ ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ یوروپی یونین کا ایک اعلی رکن صاف صاف اعلان کرتا ہے کہ پوری مغربی میڈیا کو مل کر پیغمبر اسلام(ص) کی توہین کرنی چاہئیے یہ اظہار خیال اس معاملہ میں اپنے چھپے ہاتھوں کا اظہار اور اپنی رسوائی کا اعلان ہے ظاہر ہے کہ اسلام نے دنیا بھر میں دلوں پر حکومت قائم کرکے مستکبروں اور غنڈوں کو سخت ڈرا دیا ہے لہذا انہیں راہ حل یہ نظر آ رہا ہے کہ پیغمبراسلام(ص) سے دشمنی کی جائے انہیں تب بھی شکست ہوئی تھی اور اب بھی خدا کی مدد سے مسلمانوں کے ہاتھوں انھیں شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

اب چند جملے امام ناطق بہ حق جعفربن محمد الصادق(علیہ الصلوۃ والسلام) کے یوم ولادت کی مناسبت سے عرض کرنا چاہتا ہوں؛ اس امام بزرگوار(ع) کو دیگر ائمہ (ع)کی نسبت مشتاق اور تشنہ دلوں تک تعلیمات اہلبیت یعنی تعلیمات اسلام حقیقی پہنچانے کا زیادہ موقع ملا تھا یہ تصور غلط ہے کہ امام صادق (ع)سے علم حاصل کرنے والے ہزاروں افراد سب کے سب شیعہ اور آپ کی امامت کے معتقد تھے نہیں بہت سارے ایسے تھے جو آپ کی امامت کے اس طرح قائل نہیں تھے جس طرح شیعہ قائل ہیں لیکن انہوں نے امام صادق(ع)کے علم اور آپ کے پاس موجود اسلامی تعلیمات سے فیض اٹھایا ہماری بہت ساری روایات ایسی ہیں جن کے راوی سنی ہیں۔ غیر شیعہ ہیں لیکن انہوں نے حضرت ابو عبداللہ الصادق(ع) سے روایت نقل کی ہے اس کے معنی یہ ہوئے کہ آج بھی عالم اسلام کو امام صادق اوراہلبیت(علیہم السلام)کی تعلیمات کی ضرورت ہے عالم اسلام کو معارف اہلبیت، امام صادق (ع)اور دیگر ائمہ (ع)کی تعلیمات سیکھنے کی ضرورت ہے اور انہیں ان تعلیمات سے فیضیاب ہونا چاہئیے امت مسملہ کے مختلف طبقات اس سلسلہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تاکہ ان کی علمی سطح بلند ہو اور یہ تب ہوگا جب اسلامی فرقوں کے درمیان دشمنی اور نفرت کے پردے حائل نہ ہوں اتحاد اسلامی جو ہم کہا کرتے ہیں اس کا مطلب یہی ہے۔

ہفتہ وحدت قریب ہے ہفتہ وحدت میں اسلامی جمہوریہ ایران یہ دعوت نہیں دیتا کہ سنی یا شیعہ اپنا مسلک چھوڑ کر دوسرے کے مسلک می داخل ہو جائیں، نہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ کا پیغام یہ ہے کہ اسلامی فرقوں کے درمیان مشترک باتوں پر زور دیا جائے اور دشمنان اسلام کے ہاتھوں بنی دیواریں توڑ کر آپسی منافرت اور دشمنی کا خاتمہ کیا جائے آئیں اور آکر تعلیمات اہلبیت (ع)کا مطالعہ کریں اور تعلیمات اہلبیت (ع) سے استفادہ کریں۔ اس وقت دشمن ماضی سے بڑھ کر اسلامی فرقوں کےدرمیان کھڑی دیواریں مضبوط کررہے ہیں نیز تفرقہ ڈالنے والی چیزوں پرزور دے رہے ہیں تاکہ برادران اسلام ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں۔

امریکی، صہیونی اور مستکبرین عالم نہ شیعوں کے دوست ہیں نہ سنیوں کے بلکہ شیعہ اور سنی دونوں کے دشمن ہیں جب بھی مسلمان خدا کا نام لے کر اپنی قوت ایمانی سے ان کی غنڈہ گردی اور ظلم کا مقابلہ کرتاہے تو وہ اس کے دشمن ہو جاتے ہیں آپ ملاحظہ کیجئے کہ یہ لوگ لبنان میں شیعہ حزب اللہ کے اتنے ہی دشمن ہیں جتنے فلسطین میں حماس اور اسلامی جہاد کے! طاغوتی دور میں بدعنوان پٹھو پہلوی بادشاہت جو نام کی شیعہ تھی اس کے اتنے ہی حامی تھےجتنے آج اسی جیسی دوسری سنی بادشاہتوں کےحامی ہیں! یہ لوگ اس اسلام کے مخالف ہیں جو ان کی غنڈہ گردی قبول نہ کرے استکبار کے مقابلہ میں اٹھ کھڑا ہو، جو اقوام عالم کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار کےسلسلہ میں ان کے سامنے رکاوٹ بن جائے اور اپنے حق کا مطالبہ کرے۔ ان کے نزدیک شیعہ اور سنی میں کوئی فرق نہیں ہے ہاں! اس مقصد سے کہ اسلام مضبوط نہ ہو جائے اورمسلمان بے باکی سے اپنی بات کہہ نہ سکیں ان کی پالیسی یہ ہے کہ مسلمان بھائیوں کے درمیان اختلاف ڈال دیں، شیعہ اور سنی کو ایک دوسرے سے الگ کر دیں شیعہ فرقوں کے درمیان اختلاف ڈال دیں، سنی فرقوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیں ان کا کام پھوٹ ڈالنا ہے یہ بات ہمیں، ہمارے سرکردہ افراداور ہمارے عوام کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہئیے ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم مکتب اہلبیت(ع) کے ماننے والے ہیں، شیعہ ہیں، امیرالمومنین علی (ع) کی ولایت اور ان کی خلافت بلا فصل کے قائل ہیں لیکن یہ بات ثابت کرنے کی جگہ سڑکیں اور گلیاں نہیں ہیں یہ بات ثابت کرنے کی جگہ علما، ماہرین اور ممتاز افراد کی نشست ہے اس موضوع پر بحث کلامی اور منطقی حیثیت سےہونی چاہئیے بدکلامی، عیب تراشی، گال گلوچ اورآپس میں دست و گریباں ہونا دشمنان اسلام کے ساتھ تعاون ہے جو شیعوں کے بھی دشمن ہیں اور سنیوں کے بھی۔ اسلامی انقلاب میں ہم نے اسی بات کی علمبرداری کی ہے ایرانی قوم اسی کی خواہاں ہے اور یہی کہتی ہے۔

اب کچھ باتیں نوروز سے متعلق! نوروز خلاقیت اوررشد وپیشرفت کی فصل ہے ہم نے اس سال کا نام" خلاقیت اور پیشرفت کا سال" رکھاہے، بہار خلاقیت اور پیشرفت کا موسم ہے خلقت اورفطرت نیا لباس پہن لیتی ہے ہر جگہ سبزہ آجاتا ہے کلیاں کھلنے لگتی ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارایہ سنہ ۸۷پوراکا پورابہار،خلاقیت اور پیشرفت کا آئینہ دار رہے اس سال ہم خلاقیت اور پیشرفت کا نعرہ کیوں دے رہے ہیں؟

اسلامی انقلاب ایک تاریخی خلاقیت تھی جسے ہماری قوم نے اپنی اورانسانی تاریخ میں ثبت کردیا ہے، انقلاب ایک خلاقیت تھی، اسلامی جمہوریہ ایک خلاقیت تھی، سامراجیت کے آغاز کے بعد دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تسلط پسند اورتسلط پذیرمیں! حکومتوں اور بڑی طاقتوں نے اپنی ٹکنالوجی، اسلحہ اور دھوکہ دہی سے فائدہ اٹھا کر دوسرے ممالک پر قبضہ جما لیا۔ یہ سب ہوئے تسلط پسند اورجن ممالک اور اقوام پریہ قابض ہوئے وہ خواہ مخواہ تسلط پذیر بن گئیں اس کے بعد دنیا کوتسلط پسند اور تسلط پذیر میں بٹے رہنے کی عادت ہو گئی اورطریقہ کار ہی یہ ہو گیا کہ کچھ قومیں کچھ دوسری حکومتوں اور قوموں کی سامراجیت اوراستحصال میں دبی رہیں انقلاب اسلامی اور اسلامی جمہوریہ نے آکر اس باطل تقسیم اور اس غلط سسٹم کو ختم کردیا، اسلامی جمہوریہ نے اعلان کیا کہ ہم تسلط پسندی کے مخالف ہیں اور اگر خود ہمارے اندر طاقت ہو تو ہم کبھی بھی کسی پر قبضہ نہیں کریں گے نہ کسی قوم پر اور نہ کسی قوم کے حکام پر! اور نہ ہی کسی کا زبردستی قبضہ قبول کریں گے۔ ہم تسلط پسندی کے مخالف ہیں لیکن اس سے زیادہ تسلط پذیری کے مخالف ہیں۔

تسلط پذیری کا مطلب تسلط پسندوں کے سامنے سرخم کرنا اور انکی ہمت باندھنا ہے جو قوم بیٹھی تماشا دیکھتی رہتی ہے اور وہ لوگ آکر اس کے قدرتی وسائل لوٹتے اور اس کی تقدیر اپنے قلم سے لکھتے ہیں یہ قوم ان کی ہمت باندھتی اوراپنے ہاتھوں اپنی قبر کھودتی ہے۔ اخلاقی اعتبار سے تسلط پسندی، ایک ملک کا استحصال، اس پر ظالمانہ قبضہ، اقوام عالم کی توہین اور ان کی شناخت مٹی میں ملانا ہے۔ جب قوموں پر دوسروں کی حکمرانی ہوتی ہے تو وہ آہستہ آہستہ اپنی تہذیب، شناخت اورامتیازکھوبیٹھتی ہیں ان کی قومی غیرت اورعزت چھن جاتی ہے سیاسی اعتبار سے تسلط پسندی کا مطلب ہے دوسری قوموں کی تقدیر اپنے ہاتھ میں لے لینا، جس طرح طاغوتی دور میں ہمارے ملک پر امریکیوں اور امریکی حکومت کا قبضہ تھا اور ہماری قوم فضول سمجھی جاتی تھی انہوں نے ایک ڈکٹیٹر بٹھا رکھا تھا اسے ڈکٹیٹ کرتے تھےاور اس کےذریعہ سے قوم پر قابض تھے یہاں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے تھے جسے چاہتے منصب عطا کرتے اور جسے چاہتے معزول کر دیتے تھے حکومت کو گائیڈ لائن دیتے تھے کسی کو وزیر اعظم بناتے اور کسی کو وزارت عظمی کے عہدہ سے سبکدوش کر دیتے تھے یہاں تک کہ وزراء اوراعلی فوجی افسران کے انتخاب میں بھی انہیں کی چلتی تھی۔ اقتصادی لحاظ سے تسلط پسندی کا مطلب ہے کسی ملک کے قدرتی وسائل کی لوٹ کھسوٹ یا انہیں بے کار پڑے رہنے دینا۔ یہ سب تسلط پسندی کے نتائج ہیں۔

اسلامی انقلاب نے آکران سب پرکراس کا نشان لگا دیا گذشتہ تیس سالوں سے اسلامی جمہوریہ اپنے اس تاریخی اور واضح مؤقف کے ذریعہ ان تسلط پسندوں کے مقابل صف آرا ہے جو پوری دنیا کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں، اس علاقہ پر امریکی حکمرانوں کی بادشاہت تھی مشرق وسطی مستکبروں اورامریکی حکمرانوں کی پیر ملنے کی جگہ تھی اس علاقہ کے نگین اورعلاقائی مرکز ایران پران کا کنٹرول تھا اسلامی انقلاب نے آکرحالات کا رخ یکسر بدل دیا اسلامی جمہوری نظام پوری شجاعت و ہمت سے میدان کے بیچ آکران سے نبرد آزما ہوگیا اورحالات میںتبدیلی آگئی۔

آپ ملاحظہ کیجئے کہ اس وقت مشرق وسطی امریکی ناکامیوں کاعکاس ہے۔ اس عرصہ میں اسلامی نظام کے رشدونمو اور اسکی بڑھتی ہوئی طاقت کو کنٹرول کرنے کے لئے ان سے جو ہو سکا ہے کرتے رہے ہیں۔ اگرآپ کا یہ تصور ہے کہ وہ کسی مقام پرہمیں نقصان پہنچا سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے گریزکیاتویہ سوچنا غلط ہے اور جو انہوں نے نہیں کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کر نہیں سکے، انکی طرف سے ہم پرجنگ مسلط کی گئی، شبخون مارا گیا، اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں، نفسیاتی جنگ چھیڑی گئی، پروہ پیگنڈے کئے گئے(اورکئے جا رہے ہیں)، دنیا بھرمیں اسلامی جمہوریہ کے خلاف شوروہنگامہ مچایا گیا لیکن اسلامی جمہوریہ اپنی عظیم، بافہم اورطاقتورقوم کی پشتپناہی سے اس سب کے مقابلہ میں ثابت قدم رہا ہے اور ثابت قدم رہ کہ نہ صرف یہ کہ اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب ہوا ہے بلکہ روز بروز ترقی کی سمت گامزن ہے۔

آج اسلامی انقلاب کا پیغام اعلی پیمانہ پر دنیا میں منتشر ہوکراپنی جڑیں مضبوط کرچکا ہے آج آپ کو نگاہ استعجاب وتحسین سے دیکھنے والی صرف پڑوسی قومیں نہیں ہیں ہمارے اسلامی جمہوری نظام کے حکام اور بزرگان سے محبت کرنے والے لوگ صرف ہمارے اطراف کے رہنے والے ہی نہیں ہیں انقلاب اسلامی کی آواز، ایرنی قوم کی استقامت اور اپنے اقداراور اصولوں کی پابندی کا شہرہ دنیا کے بہت سارے علاقوں تک پھیل چکا ہے اس اعلی سطحی شہرت کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ نے اندر سے بھی ملک کو سائنس وٹیکنالوجی ،عوامی خدمت رسانی اور سماجی لحاظ سے ترقی دلائی ہے ان انتیس، تیس سالوں میں ہماری حکومتوں نے جو خدمات سر انجام دی ہیں ان کا طاغوتی دور کی اتنے عرصہ کی خدمات سے موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اقتصادی، سماجی اورسیاسی لحاظ سے ایران کو زبردست ترقی حاصل ہوئی ہے ہماری قوم اور قومی عزت اس وقت زبان زدخاص وعام ہے سائنسی میدان میںجہاں اس ملک کا نمبر سب سے آخر میں آتا تھا اس وقت بہت سے سائنسی شعبوں میں پہلا نمبر ہے آپ ملاحظہ کر رہے ہیں کہ اس وقت ایران دنیا کےآٹھ ممالک سے، نو ممالک سے، دس بڑے ممالک سے کئی لحاظ سے آگے نکل چکا ہے یا کم سے کم ان کے برابر ہوگیا ہے جہاں تک وہ کئی سالوں کے بعد پہنچے ایرانی قوم بہت سے شعبوں میں اپنے جوانوں کی صلاحیت اوران کی ہمت سے وہاں تک پہنچ چکی ہے ہماری قوم کا افق روشن ہے اور مستقبل بھی ان کی نظروں میں تابناک ہےاور یہی ایرانی قوم کی ترقی ہے۔

بہرحال اب ہم چوتھے عشرے میں داخل ہو رہے ہیں اسلامی جمہوریہ کے چوتھے عشرے میں داخل ہونے کے لئے ہمیں اپنی زندگی اور خامیوں کا جائزہ لینا ہوگا آج کے پیغام میں میں نے ایرانی قوم سے عرض کیا ہے کہ ہمیں سو سالہ طاغوتی دور کی پسماندگیاں وراثت میں ملی ہیں اور ہم بہت سے شعبوں میں پسماندہ ہیں ہم نے کہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ انسانوں کی اگلی صفوں میں رہیں اوراسکے لئے ہمیں یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ دوسری قومیں بے کار کھڑی نہیں ہیں وہ بھی آگے بڑھ رہی ہیں ہمیں اپنی رفتار اتنی رکھنا ہوگی کہ ہم اگلی صفوں تک پہنچ جائیں بصورت دیگر اگر ہم اسی رفتار سے چلتے رہیں جس رفتار سے دوسری قومیں چل رہی ہیں توظاہر ہے ان ساری چیزوں میں ہم پیچھے ہی رہیں گے۔

جب ہم آنےوالےچوتھے عشرے پر نظر کرتے ہیں تو ہمیں دو اہم چیزیں نظر آتی ہیں جن کا حصول ضروری ہے ایک ترقی اور دوسرے انصاف ! ہم دنیا کے بہت سے ملکوں کی طرح فقط ترقی کے خواہاں نہیں ہیں بلکہ ہم انصاف کے ساتھ ساتھ ترقی چاہتے ہیں بہت سے ملک ایسے ہیں جنہوں نے سائنسی ترقی کی ہے ہم جب ان کے اقتصادی اعدادوشمار پر نظرکرتے ہیں تواندازہ ہوتا ہے کہ ان کی فی کس سالانہ آمدنی کا فیصد کافی اونچا ہے لیکن یہ فی کس سالانہ آمدنی قوم کے درمیان کیوں کرتقسیم ہو اس پراستکباری نسخوں پرعمل پیراغیرالہی نظامہائے حکومت کی توجہ نہیں ہے لیکن ہم اس مسئلہ کونظرانداز نہیں کرسکتے ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک سائنسی، اقتصادی، سیاسی اورٹیکنالوجی کے لحاظ سے ترقی کرے، لوگوں کوآرام وآسائش حاصل ہولیکن ترقی کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ملک عدل وانصاف کے ساتھ چلے یہی اہم ہے نہ انصاف کے بغیرترقی چاہئیے اور نہ ترقی کے بغیرانصاف۔ ترقی کے بغیرانصاف کا مطلب ہے غریبی اورپسماندگی میں سب برابرہوں یہ ہم نہیں چاہتے اورانصاف کے بغیرترقی بھی مقصد نہیں ہے ترقی عدل وانصاف کے ہمراہ! طبقاتی فاصلہ کم ہونا چاہئیےجن لوگوں میں آگے بڑھنے کی صلاحیت ہے انہیں ترقی کے مساوی مواقع ملنے چاہئیں اگرکوئی سست ہے توسستی کا نقصان وہ خود اٹھائے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئیے کہ ملک کے بعض علاقوں میں سائنسی واقتصادی ترقی کا کوئی موقع ہی نہ ہواوربعض علاقوں میں لوگ ملکی وسائل سے بے پناہ فائدہ اٹھائیں یہ کوئی کمال کی بات نہیں ہےہماری حکومت، پارلیمنٹ، عدلیہ اورجملہ حکام سے قوم کا مطالبہ یہ ہوناچاہئیے کہ ملک کو ترقی دلائیں اورہرشعبہ میں ترقی دلائیں، دولت کےحصول میں ترقی، وسائل وسہولیات کی افادیت میں اضافہ، قومی عزم وارادہ میں استحکام، قومی اتحاد کی مضبوطی، مختلف طبقات کو ایک دوسرے سے نزدیک لانے میں کامیابی، سائنس وٹیکنالوجی میں ترقی، اخلاق و روحانیت میں ترقی، طبقاتی فاصلہ کم کرنے میں پیشرفت، عمومی آسائش وآرام، سماجی نظم وضبط اورسماج کی تمام اکائیوں میں کام کاجذبہ بیدارکرنے میں پیشرفت، اخلاقی تحفظ میں پیشرفت، سیاسی بصیرت وآگاہی اورقومی خوداعتمادی میں اضافہ۔ "میں نے کچھ عرصہ قبل قومی خود اعتمادی کا ذکر کیا تھا قوم کوخودپراعتماد ہونا چاہئیےاورذہن میں یہ رکھنا چاہئیے کہ وہ کرسکتی ہے اوریہ بات اس چیز کے بالکل برعکس ہے جو سالوں سے دشمنوں نے ہماری قوم کو تلقین کرتےہوئے یہ کہنا اورثابت کرنا چاہا ہے کہ تم نہیں کرسکتے" ان تمام چیزوں میں ترقی ہونی چاہئیے لیکن ترقی قیام عدل و انصاف کے سایہ میں اور انصاف کے ساتھ ساتھ ہونی چاہئیے۔ ممکن ہے کچھ صاحبان فکریا اقتصادی ماہرین کہے جانے والے لوگ کہیں کہ "یہ نہیں ہوسکتا" جی نہیں اگر اقتصادی ترقی کا حصول مقصود ہے توطبقاتی فاصلہ قبول کرنااورماننا ہوگا اسی لئے ہم خلاقیت کی بات کررہے ہیں ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئیے کہ مغرب کے اقتصادی نسخے انسانیت کی آخری حصولیابی ہے نہیں یہ نسخہ بھی ایک وقت تک چلے گا جب اس کا وقت گذر جائے گا تونئی اور تازہ افکار سامنے آئینگی آپ تلاش کیجئے اور اس تازہ فکر کا پتہ لگائیے۔ ہدف یہ ہونا چاہئیے ہم چاہتے ہیں کہ ملک مالدار ہوجائے، ہم چاہتے ہیں کے ملک کے صنعتی شعبوں میں سرمایہ کاری عام ہوجائے ہمارے ملک میں کافی مالدار لوگ رہتے ہیں جن کے پاس کافی مال ودولت ہے یہ لوگ اپنا پیسہ مفید اورقابل فخر سرمایہ کاری میں لگا سکتے ہیں اس سے انہیں خود بھی فائدہ پہنچے گا، عوام کو بھی فائدہ ہوگا اورخدا کی خوشنودی بھی حاصل ہوگی اہل ثروت کیطرف سے سرمایہ کاری کےذریعہ اگر ملکی صنعتوں اورگھریلوپیداوار کوزبردست منافع حاصل ہو تویہ کام عبادت اورثواب کا حامل ہے یہ راستہ کھلا ہے یہ لوگ سرمایہ کاری اور وہیلتھ پروڈکشن کرسکتے ہیں ملک کا انتظامی عملہ بھی نگرانی رکھے تاکہ ہرطبقہ کو فائدہ ملے اورکمزورطبقے بھی مواقع سے فائدہ اٹھائیں، ان کی غربت دورہواورسب طاقتورہوجائیں ہم ان تیس سالوں میں بہت آگے بڑھے ہیں اب تک ہمارا دشمن مغلوب ہوتا رہاہے اس لمحہ اور اس دن تک ملت ایران کے دشمنوں یعنی شیطانی صہیونی لابی اورمغرور امریکی حکومت نے ایرانی قوم سے شکست کھائی ہے۔

آج عالمی رائے عامہ میں امریکہ منفور اورالگ تھلگ ہوگیاہے ان کے نعرے بھی اب لوگوں کی نظروں میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے کون یقین کرے گا کہ امریکی حکومت انسانی حقوق اورجمہوریت کی حامی ہے؟ امریکی انسانی حقوق! گیارہ ستمبر سنہ ۲۰۰۰کوورلڈ ٹریڈ سینٹرپر حملہ کے بعدامریکی حکومت اب تک خودامریکہ کےاندرتین کروڑبیس لاکھ لوگوں سے تفتیش کرچکی ہے تین کروڑ بیس لاکھ لوگ! یہ ان کے اپنے بتائے ہوئے اعدادوشمار ہیں لوگوں کی ٹیلیفون کالوں پر کنٹرول رکھا گیا، جیلوں میں ایذائیں دی گئیں، کانگریس نے شکنجہ مخالف قانون پاس کیا لیکن امریکہ کے موجودہ صدر نے اسے ویٹو کردیا، مسترد کر دیا مطلب یہ کہ شکنجہ دینا ممنوع نہیں ہے! یہ لوگ کیا سمجھیں گےکہ انسانی حقوق کیا ہیں؟ امریکہ کی دنیا بھر میں دوسو کے قریب خفیہ جیلیں ہیں جن میں سے بہت سی یورپ میں ہیں یورپی جن کی زبانیں انسانی حقوق کا نام لیتے تھکتی نہیں ہیں جہاں جاتے ہیں انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں کہ ہم انسانی حقوق کے پابند ہیں تو کیا یہی ہیں انسانی حقوق؟! جو شخص ہولوکاسٹ پر سوال اٹھائے اس کے خلاف سب اکٹھا ہوجاتے ہیں؛ انکی عدالتیں،حکومتیں،اخبارات سب! لیکن پیغمبراکرم(ص) کی توہین کے مقابلہ میں نہ یہ کہ اعتراض نہیں کرتے بلکہ آواز میں آواز ملاتے ہیں یہی ہیں انسانی حقوق؟ یہی ہے انسانیت کا احترام؟ یہی ہے انسانوں کا احترام؟ کہتے ہیں کہ ہم جمہوریت کے حامی ہیں لیکن جہاں کہیں عوامی رائے ان کے مفادات کے برعکس ہووہاں آہنی ہاتھ سے جمہوریت اورعوام کی منتخب حکومت کو دباتے ہیں اس کی ایک مثال فلسطین میں حماس کی حکومت ہے کیا اس حکومت کو عوام نے نہیں منتخب کیا ہے؟ اورایک مثال اسلامی جمہوریہ کو ان کی طرف سے دی جانے والی کھوکھلی دھمکیاں ہیں ایک ایسی زبردست عوامی حکومت کے باوجود کہ جس کی مثالیں پورے اس علاقہ اور دنیا کے بہت سے ممالک میں نہیں ملتیں اور ان تیس سالوں میں تیس الیکشن ہوچکے ہیں اس سب کے باوجود اسلامی جمہوریہ کے خلاف مہمل گوئی کرتے ہیں، دھمکیاں دیتے ہیں، پابندیاں لگانے کی بات کرتے ہیں، فوجی حملہ کی دھمکیاں دیتے ہیں تو کیا اس سے پہلے حملہ نہیں کیا؟ پابندیاں نہیں لگائیں؟ کیا اب تک تم نےایرانی قوم کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا ہے؟ اس قوم کے پاس جو کچھ ہے وہ سب اسے اپنی شجاعت اور استقامت کے نتیجہ میں ملا ہے اس نے خود اپنے ذریعہ اوراپنے اندرسے طاقت حاصل کی ہے انسانی حقوق کا نعرہ لگاتے ہیں اور پھر صہیونی ظالم اورخونخوارحکومت کی حمایت بھی کرتے ہیں جوفلسطینیوں پراس قدرمظالم ڈھارہی ہے مجھے تعجب ہے کہ کچھ یورپی حکومتیں امریکہ کی حالت سے عبرت کیوں نہیں حاصل کرتیں جبکہ وہ خود دیکھ رہی ہیں کہ اس حکومت سے دنیا میں کس قدر نفرت کی جارہی ہے ان کے بعض لوگ صہیونی سرمایہ داروں کی خوشامد کے لئے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کرتے اور وہاں صہیونیوں کی خودساختہ پارلیمنٹ میں ایران کے خلاف بیان دیتے ہیں، ایران کی مذمت کرتے ہیں تاکہ انہیں خوش کر سکیں یہ عبرت کیوں نہیں حاصل کرتے؟ اس وقت صہیونی حکومت منفور ہے امریکہ جو اس کی پشت پناہی کرتا ہے اقوام عالم اس سے بھی نفرت کر رہی ہیں اس وقت انسانی حقوق کا تقاضا ہے کہ تمام حکومتیں اوران کےعوام مل کرامریکہ اوراس پر مسلط صہیونیوں اور امریکی حکومت کی چودھراہٹ کے مقابلہ میں صف آراہوجائیں اس سلسلہ میں ایرانی قوم ہر قوم سے زیادہ بہادری کے ساتھ دوٹوک انداز میں ثابت قدم ہے۔

ہم اپنی قوم کے اندر موجود ارادہ اور عزم راسخ کے ذریعہ، بحمداللہ حکومت، حکام، تازہ دم پارلیمنٹ اور پارلیمانی ممبران " جو کہ سب کے سب اسلامی اقدار کی بالادستی کی سمت قدم بڑھا رہے ہیں" کے اندرموجود آمادگی کے اورعوام کی پشت پناہی کے ذریعہ ملک کو مزید آگے لے جا سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ حکام اپنے ہر عمل میں خلاقیت اور پیشرفت کو اپنی ذمہ داری قراردیں اورکوشش کریں کہ ان تیس سالوں میں جو کچھ ہواہے انجام پاچکا ہے یا جو کچھ باقی ہے اسے مثمر ثمر بنادیں، میں حکومت کو بھی تاکید کرتا ہوں اور اسلامی پارلیمنٹ کو بھی تاکید کرتا ہوں کہ وہ ان منصوبوں اور کاموں کو پایہ تکمیل تک پہونچانے کا تہیہ کر لیں جو بہت عرصہ پہلے شروع ہوئے تھے لیکن ابھی آدھے باقی ہیں یا ابھی ان کے نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ قومی وسائل کو ترجیحی بنیادوں پر پوری ظرافت اورباریک بینی کے ساتھ کام میں لائیں۔ انشا اللہ ہماری قوم، ہمارے جوانوں اورہمارے حکام کو ہرروز اس ملک کی نئ بہار نظرآئے گی۔ امید ہے کہ خدا کی توفیق اور حضرت بقیۃ اللہ(ارواحنا فداہ) کی دعا سے اس سال 1387 کےآخری ایام ہماری قوم کے لئےاس کے آغاز کے ایام سے کافی بہتر ہوں گے۔

پروردگارا! حضرت ولی عصر(عج) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی و خشنود فرما!ہمیں اسلام ومسلمین اور اس قوم کی خدمت کے سلسلہ میں کامیاب فرما! پروردگارا! ہمارے عظیم امام(رہ) اورشہدائے عالیقدر کے درجات بلند فرما! ملت ایران کی سرافرازی اور عزت میں روزبروز اضافہ فرما!

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ