ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا عیدغدیرخم کےموقع پر عوام کے مختلف طبقات سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں تمام مومنین، دنیا بھر کے مسلمانوں اوران آزاد لوگوں کو عید سعید غدیر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جوان فضائل وکمالات کےدلدادہ ہیں جو ہمیں صرف امیر المومنین(علیہ الصلاۃ والسلام) ہی کی ذات میں نظرآتےہیں۔ اسی کےساتھ میں پوری ایرانی قوم، اس پرخلوص نشست میں شریک آپ تمام حاضرین کرام اورکاشان کی عزیز اورمومن عوام کوخاص طورسےاس عید سعید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

پیارےبھائیواوربہنو! غدیرکئی لحاظ قابل توجہ اور اہم ہے۔ یہ تصور نہیں ہونا چاہئے کہ عیدغدیر بھی باقی عیدوں کی طرح ایک عام سی عید ہے اگرچہ ہر اسلامی عیدکا ایک ظاہری اورعلامتی پہلو ہےاورایک باطنی اورمعنوی! لیکن عید غدیرجیسا باطنی اور معنوی پہلو کسی کا نہیں ہے۔

اس مسئلہ میں ایک رخ تویہ ہے کہ اسلام کس سمت اور کس رخ سے آگے بڑھے گا یہ ہمارے اعتقاد سے متعلق ہے یعنی یہ ولایت کا پہلو ہےاور دوسرا رخ مسئلہ امامت پر اعتقاد اور امام (ع) کے پیغمبر اسلام (ص) یا حقیقت میں خدا کی طرف سے منصوب ہونے کا ہے اگرمسلمان تحقیقی نظر سے اس واقعہ کو دیکھیں توتصدیق کریں گے کہ پیغمبر(ص)نےاس کارعظیم یعنی حج سے واپسی کے موقع پرراستہ میں، ایک صحرامیں،اپنی زندگی کےآخری سال میں، ان مقدمات و موخرات کے ساتھ امیرالمومنین کا نام لینےاور"من کنت مولاہ فھذاعلی مولاہ" کہہ کےامیرالمؤمنین(علیہ السلام) کاتعارف کرانےکےمعنی ،پیغمبر(ص) کے بعد، اسلام کی ولایت و حکومت کی تعیین کےسوااورکچھ نہیں ہوسکتے تاریخ گواہ ہے کہ عالم اسلام کے محققین نے اس واقعہ اور پیغمبر(ص) کی اس عبارت کے یہی معنی درک کئے اور سمجھے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں حکومت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اسلامی معاشرہ پر ایک ایسی حکومت قائم ہو جائے جوحکومتی اموراور لوگوں کی زندگی نظم و ضبط سے چلانے کی اہل ہو۔ اسلام کی نظر میں صرف اتنی سی بات نہیں ہے بلکہ اسلام میں حکومت کا مطلب امامت ہے۔

امامت کامطلب جسم وروح دونوں کی قیادت ہے صرف جسمانی قیادت اور لوگوں کی معمولی روزمرہ زندگی چلانا مراد نہیں بلکہ دلوں کی قیادت، قلب و روح کو کمال تک پہنچانا اور افکار اورروحانیت کو اعلی درجات تک لے جانا مراد ہے امامت کا یہ مطلب ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے! دیگرمذاہب میں بھی یہ بات رہی ہے لیکن اس وقت دیگرمذاہب کی کوئی بھی قابل اعتبارچیزانسانوں کے پاس نہیں ہے مگر اسلام کے پاس واضح سند موجودہے۔

اسلام کی تحریک اوردیگرتحریکوں میںبنیادی فرق یہ ہےکہ اسلام کا وجود انسانی زندگی کی قیادت کےلئے ہے اسلام دنیا اورآخرت دونوں ہی کی تعمیر چاہتا ہے لوگوں کی روزمرہ زندگی کے انتظام و انصرام کے ساتھ ساتھ انسان کی کمال حقیقی تک رسائی بھی اپنے ذمہ لیتا ہے۔ امامت کے یہی معنی ہیں اور اس لحاظ سے خود پیغمبراکرم(ص) بھی امام تھے ایک روایت میں ہے کہ امام باقر(علیہ السلام) نے منی میں لوگوں کے درمیان بلند آواز سے فرمایا: " انّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کان ھوالامام" پیغمبر بھی امام تھے۔

امامت یعنی لوگوں کی زندگی میں دین و دنیا کی حکومت! بہرحال یہ اس واقعہ کا ایک رخ ہے یعنی اعتقادی رخ! اور شیعہ اس درخشاں چراغ اور اس واضح منطق کے ذریعہ صدیوںسےانصاف پسند متلاشیان حق کیلئےحق وحقانیت کااثبات کرتے آئے ہیں۔

تمام ترمشکلات رکاوٹوں اوردباؤ کے باوجود جو شیعہ خود کو باقی رکھ سکے ہیں اس کی وجہ اسی واضح اورمضبوط منطق کی پشتپناہی اوراس پرانحصارہےاگر یہ منطق نہ ہوتی تو شیعہ بکھر کر ختم ہوجاتے یہ بہت مضبوط منطق ہے۔

واقعہ کا دوسرارخ اس شخصیت کےمعنوی فضائل وکمالات پرتوجہ ہےجسے پیغنبرنےاپنےبعد(خلیفہ وامام)معین کیاہےیعنی امیرالمومنین(علیہ السلام) کےفضائل وکمالات پرتوجہ جنہیںپیغمبر(ص)نےعہدہ امامت کیلئےمنتخب کیا ہے ایک عام انسان کسی شخص کے کمالات کے تمام پہلوؤں کااندازہ لگانا چاہے تو یہ اس کے بس سے باہر ہے اس کے لئے الہی اور مافوق بشری حساب کتاب کی ضرورت ہے اب اسی قسم کے حساب کتاب کے ذریعہ پیغمبر اکرم(ص) نے امیرالمؤمنین(علیہ السلام) کو اس منصب اور مقام کے اہل قراردیا ہے۔

جب تک زمانہ ہے تب تک اسلام کی حکومت رہے گی مختلف افراد اپنی مختلف صلاحیتوں کے ساتھ حکومت تشکیل دیں گے اسلام کے شروع ہی میں یہ بات طے تھی لہذا اس حکومت کا سرچشمہ جس شخص کے حوالہ کیا جائے اور پوری تاریخ اس سے سیراب ہوتی رہے ضروری تھا کہ وہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب(علیہ السلام) کی منزلت کا ہو! یہ سرچشمہ کسی عام انسان کو نہیں سونپا جاسکتاتھا۔ توسرچشمہ امیرالمومنین(علیہ السلام)کےپاس ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ائمہ(علیہم السلام) بھی (اگرچہ اسی منصب پر فائزتھے لیکن انہیں حکومت کا موقع نہیں دیا گیا) امیرالمومنین کونگاہ عظمت سےدیکھتےتھےآئمہ طاہرین(علیہم السلام) امیرالمومنین(علیہ السلام)کوآسمان امامت کاسورج اورخود کوستارہ سمجھتے تھے۔ امیرالمومنین(علیہ السلام) ان سے افضل تھے۔ امام حسن(ع) اورامام حسین(ع) کی اس قدرفضلیت کے باوجود پیغمبر(ص) نے فرمایا:" وابوھما افضل منھما" امام حسن(ع)اورامام حسین(ع)سےان کےپدرگرامی زیادہ افضل ہیں یہ ہے امیرالمومنین(علیہ السلام) کا مقام!

لہذا ہم خدا کے بر گزيدہ بندوں کیلئےجن فضائل وکمالات کے قائل ہیں وہ سب امیرالمومنین (علیہ الصلاۃ والسلام) میںموجودتھےاسی لئے پیغمبر(ص) نےاس منصب کے لئے ان کا انتخاب کیا۔ یہ دوسراپہلو ہے جس میں امیرالمومنین(علیہ السلام) کے فضائل و کمالات کی طرف توجہ ہے۔

غدیرکا ایک اورپہلوجوہمارےلئےاس دورمیں بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی حکومت اوراسلامی معاشرہ کیلئےامیرالمومنین(علیہ السلام) کی شخصیت اورجو سماج وہ تشکیل دینا چاہتے تھےنمونہ قرارپاناچاہئے ہماراآئیڈیل یہ ہے لہذا ہمیں اسی نمونہ عمل کے مطابق عمل کرنا چاہئے کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تاریخ میں کچھ ایسے لوگ بھی وجود میں آسکتے ہیں جو امیرالمومنین کے ہم پلہ ہوں یا ان سے تھوڑا نچلے درجہ پر فائز ہوں نہیں ، یہ مطلب نہیں ہے ہمارے بزرگ ہمارے علماء ہماری ممتاز شخصیات امیرالمومنین(علیہ السلام) کےغلام قنبر کے ہم پلہ نہیں ہیں امیرالمومنین(علیہ السلام)کےقدموں کی دھول بھی نہیں بن سکتے یہ حضرات! ہم کسی بھی شخص کا اس ذات گرامی کےساتھ موازنہ نہیں کرسکتے ہم ایسا نہیں کرسکتے لیکن کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم انہیں نمونہ عمل بنا کر عمل کرسکتے ہیں۔

جب طالب علم کو مشق کے لئے نمونہ دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ بہرصورت وہی تحریر اور وہی نقش و نگار اختیارکر لے، نہیں بلکہ اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ تمہیں اس طرح لکھنا ہے اس سمت میں حرکت کرنا ہے تمہارا ہدف یہ ہونا چاہئے اوراسی لحاظ سے تمہیں کوشش کرنا چاہئے اس وقت ہمارے اسلامی معاشرہ کی کوشش وہ کام ہونے چاہئیں جنہیں امیرالمومنین(علیہ السلام) انجام دینا چاہتے تھے اور جب موقع ملا تو انہیں انجام دیا آپ دیکھئے کہ امیرالمومنین(علیہ السلام) جو نظام تشکیل دینا چاہتے تھے اس کی بنیادیں کیا تھیں ہم انہیں بنیادوں کو مد نظر رکھ قدم آگے بڑھائیں۔

عدل، اخلاق،توحید، کام میں خدا کو مد نظر رکھنا، سماج کی تمام اکائیوں کو مہربان نظر سے دیکھنا! امیرالمومنین(علیہ السلام) اپنے گورنرسے فرماتے ہیں: لوگ یا تمہارے دینی بھائی ہیں یا انسانیت کے لحاظ سے تمہاری ہی جنس سے ہیں آپ ملاحظہ کیجئے کہ اس نگاہ میں کتنی وسعت ہے انسانی اکائیاں! انسان (جو انسان امیرالمومنین(علیہ السلام) بنانا چاہتے ہیں) کی تمام انسانی اکائیوں پر مہربان نظر اس طرح کی ہوتی ہے! مہربان نظر!

اس کےبعدگناہ،خلاف ورزی اورخیانت پرسخت اوردوٹوک کاروائی! امیرالمومنین( علیہ السلام)اپنے نہایت قریبی افراد کی طرف سے بھی خلاف ورزی، خیانت اور دین خدا سے انحراف برداشت نہیں کرتے تھے مہربانی اپنی جگہ اور دوٹوک قانونی کاروائی اپنی جگہ! امیرالمومنین(علیہ السلام) کا یہ طریقہ کارتھا اور یہی ہمارے لئے نمونہ عمل ہے ممکن ہے ہم اس ہدف تک پہنچنے کے سلسلہ میں دوسرے تیسرے درجہ سے ہی آگے نہ بڑھ پائیں اگر مثلاً دس درجہ ہوں تو! لیکن اسی راہ پر چلنا ضروری ہے ہمارا ہدف یہی ہو! غدیرکا یہ مطلب ہے! ہم غدیرکو جو زندہ رکھنا چاہتے ہیں یہ صرف عقیدتی اورامیرالمومنین(علیہ السلام)کی فضیلت کے لحاظ سے نہیں ہے اس کی بھی بہت اہمیت ہے ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارا سماج علوی سماج ہے ہماری تمنا ہے کہ ہم بھی اس سماج میں شامل ہوجائیں جو امیرالمومنین(علیہ السلام) تشکیل دینا چاہتے تھے لہذا ہمیں ان بنیادوں کی رعایت کرنا ہوگی۔

اس واقعہ کا ایک پہلویہ ہےکہ امیرالمومنین(علیہ السلام) نے اپنی تمام تر فضیلت کے با وجود، اپنے اس حق امامت کےاس قدر واضح ہونے کے با وجود جو انہیں پیغمبر(ص) اور خدا نےعطا کیا تھا جب دیکھتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ کمزور ہے اگروہ اپنے حق کیلئے قیام کرتےہیں، اپنے حق کا مطالبہ کرتے ہیں تو ممکن ہے اسلام خطرہ میں پڑ جائے تو گوشہ نشین ہوجاتے ہیں یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہےکہ آپ صرف الگ ہو کر بیٹھ ہی نہیں گئے یعنی یہ نہیں کہ مسلمانوں میں اختلاف پیدا نہ ہواس وجہ سے اپنے حق کاصرف مطالبہ نہیں کیا بلکہ ان لوگوں کے ساتھ تعاون بھی کیا جو ان کی نظرمیں منصب حق کے اہل نہیں تھےاوراسلامی معاشرہ پر حکومت کر رہے تھے آپ نے جب دیکھا کہ اسلام کو اس چیز کی ضرورت ہے تو آپ نے اپنا حق قربان کیا یہ ایک اور سبق ہے (غدیر کا) یہ علوی سبق ہے۔

اس وقت دنیائے اسلام میں ہماری منطق قوی ترین منطق ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہےشیعوں کی منطق امامت وولایت کی منطق ہمیشہ اورہردورمیں ایک قوی ترین منطق رہی ہے لیکن اس کے با وجود کہ ہم اپنی اس منطق اوررفتار و گفتار پر مکمل یقین رکھتے ہیں (پرچم اسلام اس وقت ایران کے ہاتھ میں ہے) عالم اسلام کے تمام بھائیوں کو خواہ کسی بھی فرقہ و مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اتحاد اور اخوت کی دعوت دیتے ہیں اور یہ نہیں چاہتےکہ اختلاف پیدا ہودوسروں کی نفی کر کے خود کو ثابت نہیں کرنا چاہتے یہ ایک نہایت اہم نکتہ ہے اور یہی اسلامی یکجہتی سے مراد ہے جس کا ذکر ہم نے اس سال کے آغاز میں کیا تھا یہ عین وہی دروازہ ہے جہاں سے دشمنان اسلام دراندازی کرکے امت مسلمہ کو زیادہ کمزور کرنا چاہتے ہیں سالہا سال تک انہوں نے عالم اسلام اور مسلمان حکومتوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اسلامی دنیا کے اندر جو دل چاہا کیا مسلم علاقوں میں جو چاہا انجام دیا اب جب مسلم اقوام بیدار ہو چکی ہیں اور عالم اسلام کے ایک حصہ یعنی اسلامی ایران میں عوام کی موجودگی اور اقتدار کے ذریعہ اتنی عظمت و سربلندی ملی ہے اور دوسری اقوام بھی روز بروز بیدار ہوتی جا رہی ہیں تو استکباریعنی وہی ابدی دشمن پھر سے پوری ذلت کے ساتھ اسلامی دنیا کے اندر اختلاف کا وائرس پھیلانا چاہتا ہے، اختلافات میں شدت لانا چاہتا ہے اس کامقابلہ کرنےکی ضرورت ہےیہ بھی غدیرکاایک سبق ہے یہ بھی امیرالمومنین(علیہ السلام) کا ایک درس ہے۔

جن لوگوں نےاسی وقت امیرالمومنین(علیہ السلام) کے پاس آکر کہا کہ یا علی (ع)حق آپ کے ساتھ ہے ہم یہ کریں گے وہ کریں گے آپ کی حمایت کریں گے آپ ان کے دباؤ میں مت آئیےامیرالمومنین(علیہ السلام)نےسب کو واپس کردیا اور اگر قیام کرنا چاہتےاپنےحق کادفاع کرناچاہتے توانہیں کسی کی ضرورت بھی نہیں تھی(اکیلے ہی کافی تھے) لیکن آپ نے دیکھا کہ اسلامی معاشرہ اس اختلاف اور ٹکراؤ کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا لہذا آپ الگ ہٹ گئے یہ بھی ہمارے لئے ایک سبق ہے۔

اختلافات کوپھرسےہوانہیںملنی چاہئے، ان میں تازگی نہیں آنی چاہئے اسلامی فرقوں کو ایک دوسرے کےمقدسات جو کہ ہر فرقہ کے لئے حساس ہیں کی توہین نہیں کرنی چاہئے۔ طے ہے کہ حساس پوائنٹ پرانگلی رکھنے اور اسے چھیڑنے سے دوسرے کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور پھر اس کا نتیجہ پوری دنیائے اسلام کے اختلاف کی صورت میں نکلتا ہے ہمارا یہ کہنا ہے کہ اختلاف نہیں ہونا چاہئے۔

ا س سال ہم نے حج کے موقع پر بھی حجاج کرام کو یہی پیغام دیا ہم نے کہا کہ عالم اسلام کے ہر ہمدرد کا یہی کہنا ہے کہ اسلامی فرقے ایک دوسرےکوچھیڑنے،ایک دوسرے کےجذبات بھڑکانےاورآپس میں دشمنی پیدا کرنےسے پرہیز کریں اس وقت ایک بڑا دشمن سامنے ہے جو نہ سنی ہے نہ شیعہ اور نہ ہی کسی اور اسلامی فرقہ سےتعق رکھتا ہے وہ شیعوں کے پاس جا کے کچھ کہتا ہے، سنیوں کے پاس جاتا ہےتوکچھ اورکہتاہےاوریہ سب کرکےان کے درمیان اختلاف اور لڑائی جھگڑابنانا چاہتا ہے اس دشمن سے بچ کے رہنے کی ضرورت ہے۔

ایرانی قوم خدا کی توفیق سے ستائیس، اٹھائیس سال سے اس سرزمین پر اسلامی پرچم لہرا رہی ہے خدا کا شکر ہے کہ اس نے استکباری سازشوں کے جواب میں وہ طریقہ اپنایا ہے کہ استکبار ایرانی قوم کے مقابلہ میں اپنی ہر چال میں ناکام ہواہے۔

ان ستائیس، اٹھائیس سال کے اندر اسلامی جمہوریہ کے خلاف استکباری سازشوں کی فہرست بنائی جائے تو بلا استثنا ان سب میں بڑے بڑے دعوے کرنے والے مغروروں ہی کی شکست ہوئی ہے ہمارا کوئی دعوی نہیں تھا لیکن ہم اپنی مسلمان عوام کے ایمان، خدا پر توکل اور اپنی میدان میں موجودگی کی برکت سے اوراس بات کی برکت سے کہ ہم صرف اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہتے تھے ہمیں ہر مسئلہ میں شورشرابہ کرنے والی استکباری مشینری پر برتری ملی یہ لوگ انواع واقسام کے اختلافات پھیلانا چاہتے تھے لیکن ناکام رہے ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

میرےعزیزو! اسی راہ پر چلتے رہنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے دشمن سے غافل نہ ہوں ہر مسئلہ میں ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ایک دشمن ہے جو ہماری غفلت سے فائدہ اٹھا کرہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے یہ طریقہ ہمیں قرآن کریم سکھا رہا ہے آپ ملاحظہ کیجئے کہ قرآن مجید میں کتنی بار شیطان کا نام آیا ہے ایک بار کہہ دیا جاتا کہ ایک شیطان ہے تو بات ختم ہوجاتی لیکن یہ بار بار تذکرہ اس لئے ہے کہ انسان اپنی زنگی میں( جو کہ چیلنج اور جنگ سے بھری ہے) کبھی بھول نہ جائے کہ اس کا ایک دشمن ہے اورممکن ہے وہ نقصان پہنچائے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ: ہم دشمن سے غافل نہ ہوں خدا ہمارامددگار ہے یہ ذہن میں رہے میدان میں حاضر رہنے کی ذمہ داری سے غافل نہ ہوں یہ نہایت اہم اورمؤثرہے۔

کچھ عرصہ بعد انتخابات ہیں انتخابات کے سلسلہ میں انشا اللہ میں ایرانی قوم کوکچھ تاکیدات کروں گا یہ بھی نہایت اہم موڑ ہے یہاں پرایرانی قوم کو ہوشیاررہنےکی ضرورت ہے یاد رہے کہ یہ بھی ایسا ہی امتحان، ایسا ہی ایک موقع اور ایسا ہی ایک موڑ ہے جہاں دشمن ہماری غفلت سے فائدہ اٹھا کر ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے البتہ خداوند متعال ہمیشہ شجاع، فداکار اور با وفا ایرانی قوم کا مددگار رہاہے اور امید ہے کہ آئندہ بھی وہ انشا اللہ ہر مرحلہ میں عزیزایرانی قوم کی مدد کرے گا۔

پروردگارانشا اللہ اس عید کوپوری ایرانی قوم کےلئےمبارک قراردے اور اپنے بلند اسلامی اہداف سے قریب ہونے کوایرانی قوم کی عیدی قراردے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ