ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا ملک بھر کے حوزات علمیہ کےمحققین، مبلغین، اساتذہ اور فضلاء سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ ملاقت میرےلئے نہایت شیریں اور دلنشیں رہی، قم کے عظیم حوزہ علمیہ کے ساتھ ساتھ مشھد واصفہان جیسے دیگر بڑے حوزات کی توفیقات کے بارے میں کافی باتیں بیان کی گئی ہیں، خوشخبریاں سنائی گئی ہیں اور سنائی جا رہی ہیں لیکن ہمارے خیال سے آج رات کی نشست میں جو کچھ سننے میں آیا ہے وہ سب سے شیریں ، اچھا اور قابل یقین ہے۔ حوزہ میں پروان چڑھ رہی یہ نئی نسل جس کا ایک نمونہ یہی حضرات اور خاتون ہیں جنہوں نے ابھی تقریر کی ہے اور حوزہ انہیں افراد پر مشتمل ہے یہ نسل بے شک وہ عظیم کام انجام دے گی جس کی ہمیں حوزات علمیہ سے توقع ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس رفتار میں سست روی نہ آئے بلکہ مزید تیزی آتی رہے۔

حوزہ سے متعلق میں نے حالیہ برسوں میں کئی تجاویز پیش کی ہیں۔ کبھی طلاب، فضلاء اوراساتذہ کے عام جلسات میں جو کبھی سینکڑوں اور کبھی ہزاروں افراد پر مشتمل ہوتا رہا ہے، کبھی حوزہ کے حکام سے خصوصی نشستوں میں اور کبھی حوزہ کے بزرگان، مراجع اورفضلاء کے ساتھ ہونے والی نشستوں میں ہم نے یہ تجاویز پیش کی ہیں لیکن ابھی تک ان میں سے بہت ساری پر عمل نہیں ہوا ہے یا تھوڑابہت عمل ہوا ہے البتہ اسلامی انقلاب کی برکت سےخودبخودوجود میں آنے والی یہ علمی اور دینی تحریک جو کہ انقلاب کی برکت ہے اور اس کا ثواب ہمارے عظیم امام (رہ)کی روح کو ملےگا اس تحریک کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہمیں یہ سب کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ بہت سارے اصلاحی نظریات ابھی عمل میں لائے نہیں گئے ہیں لیکن کارکردگی، معیار اور افرادی قوت اس حد تک ہے کہ آج ہم ملاحظہ کر رہے ہیں اور اس کی ایک مثال تو ابھی ان حضرات کی گفتگو میں نظر آئی جوکہ واقعاً میرے لئے لذت بخش تھی اور دیگر مثالیں بھی فضلاء کے ساتھ نشستوں میں نظرآتی رہی ہیں۔علوم عقلی فلسفہ، کلام، عرفان، منطق وغیرہ میں تحقیق کرنے والے بعض افاضل سے دوسال پہلے ملاقات ہوئی تو وہاں بھی مجھے یہی چیز نظرآئی جو آج نظرآئی ہے جو افاضل یونیورسٹی سے رابطہ میں ہیں ان سے ملاقات میں بھی مجھ پر یہی تأثر قائم ہوا یہ نہایت اہم بات ہے یعنی حوزہ علمیہ میں فعال افراد کی صلاحیتیں اتنی اچھی ہیں جن کے وجود میں آنے کے لئے خاص آب وہوا اورخاص ماحول کی ضرورت ہوتی ہے ہمیں وہ حاصل نہیں تب یہ عالم ہے اگر حاصل ہوجائے تویقناًیہ برکات کئی گنا، دس گنا بڑھ جائیں گی یہ ہے پہلی بات جومیںنےعرض کی۔

آپ سے کہنے کے لئے باتیں تو کافی ساری میں نے نوٹ کر رکھی تھیں لیکن اب کوئی ضرورت نہیں رہ گئی ہے وقت بھی نہیں ہے۔اس لئے کہ جو باتیں میرے ذہن میں تھیں ان میں سے بہت ساری آپ کی زبان سے کہی جا چکی ہیں میرے لئے یہ نہایت خوبصورت اوردلچسپ بات ہے کہ یہ باتیں برادران کے ذہن میں ہیں میں بس مختصردو تین باتیں جن میں زیادہ وقت نہ لگےعرض کر دینا چاہتا ہوں :

پہلی یہ کہ حوزہ ایک کل ہے جس کے بہت سارے اجزاء ہیں یہ ایک زندہ موجود ہے، اس میں رشد ونمو بھی ہے اور ٹھہراؤ بھی، حرکت اور شادابی بھی ہے اورجمود ورکود بھی، حیات بھی ہے اورممات بھی ایک زندہ موجود ہے اور اسکی دلیل حوزات علمیہ کی تاریخ ہے مثلاً ساتویں صدی، اب ساتویں بلکہ چھٹی صدی کے اواخرسے ساتویں صدی تک ، آٹھویں صدی کے شروع تک حلہ کا حوزہ علمیہ با رونق تھا جس وقت خواجہ نصیرالدین طوسی حلہ گئے تووہاں اس حوزہ میں جہاں تک میرے ذہن میں ہے بیس پچیس بزرگ علما موجود تھے ان میں سے ایک محقق حلی تھے، ایک علامہ کےوالد تھے، ایک صاحب "جامع الشرایع" ابن سعید، یحیی ابن سعید حلی تھے اس طرح کے علماء تھے تو یہ تھا حلہ کا حوزہ ! آج حلہ کا حوزہ موجود نہیں ہے۔ نجف کا حوزہ بھی ایک دور میں پہلے جیسی رونق کھو بیٹھا یعنی نجف کے حوزہ میں کوئی معروف ہستی، کوئی ممتاز شخصیت موجود نہیں تھی اورپھر اس کے بعد وحید بہبہانی کے بحرالعلوم اورکاشف الغطا جیسے شاگرد آئے اور اس حوزہ کو ایسی رونق بخشی کہ میرے خیال سے دوسو سال سے انہیں کے ہاتھوں کی طاقت حوزہ علمیہ نجف کو آگے بڑھا رہی ہے ان کی فقہی مہارت اورکام کی گہرائی نے حوزہ کو ایسی رونق بخشی اور زندگی دی کہ پھربحمداللہ موجودہ دور تک یہ ایسے ہی زندہ رہا۔

قم کا حوزہ تھا ہی نہیں وہ ابتدائی رونق کے بعد ایک بے جان سا حوزہ تھا حاج شیخ عبدالکریم حائری(رضوان اللہ تعالی علیہ) آئے تو حوزہ میں جان آگئی تو یہ ہے حوزہ! صرف آج کو مد نظرنہ رکھئے کل بھی آئے گا یہ کل کیسا ہوگا یہ آپ کو طے کرنا ہے اورآج ہی طے کرنا ہے۔

اگرآج حوزہ کے اراکین یعنی منتظمین، اہل فکر، اساتذہ اورممتاز شخصیات ہمت سے کام لیکر صحیح فکروتدبرسے منصوبہ سازی کریں تو اگلے بیس سالوں میں طول عرض، عمق، سطح اور افرادی قوت کے لحاظ سے حوزہ آج سے کہیں بہتر ہوگا لیکن اگرآج منصوبہ سازی نہ کی جائے توکوئی طے نہیں ہے کہ قم کا حوزہ مستقبل میں بھی موجودہ طول عرض کے ساتھ موجود ہوگا۔ بزرگان، محققین، اچھے علما، فقہا، اورفلاسفہ حوزہ سے چلے جائیں گے " ننقصھا من اطرافھا" ان کی جگہ دوسری شخصیتیں تیار ہونی چاہئیں جن کی صلاحیتیں نکھر آئیں اور وہ ان کی جگہ پر کر لیں جتنا کچھ انہوں نے کیا ہے اس سے زیادہ کریں اگر ایسا ہوا، اس طرح سے مستقبل کے لئے منصوبہ سازی کی گئی تو مستقبل اچھا ہوگا لیکن اگر آج قم کے حوزہ میں مستقبل کے لئے منصوبہ سازی نہ ہو اورہم موجودہ حالت پر ہی راضی رہیں کہ کسی طرح حوزہ کا نظام چلتا رہے اسی پر اکتفا کر لیا جائے تو کل یا تو حوزہ ہوگا ہی نہیں یا اگر ہوگا تو روبہ زوال ہوگا۔

ہم آج اس دن کی فکر کر رہے ہیں جب ہمارے ملک کے پاس تیل نہیں ہوگا تیل کے علاوہ توانائی (حاصل کرنا چاہتے ہیں) جب ملک کے پاس تیل نہیں ہوگا شاید دنیا میں تیل بچے ہی نہ ، دنیا اس دن کی فکر میں ہے ہم بھی اس سارے درد سر کے ساتھ جو آپ ملاحظہ کر رہے ہیں اپنے موقف پر قائم ہیں تاکہ اس مستقبل کا آج ہی انتظام کر لیا جائے اگر نہ کریں تو جس دن تیل ختم ہوجائے گا ہم نہیں ہوں گے لیکن ہمارے اس عمل کے برے اثرات اس دن سامنے آئیں گے تو حوزہ کے اندر یہ فکر ایجاد کرنے کی ضرورت ہے حوزہ کے منتظمین، حوزہ کی اعلی انتطامیہ، حوزہ کے بزرگ مراجع کرام یہ جان لیں اور اس پر توجہ دیں کہ ہمیں آج ہی قم، مشہد، اصفہان اور دیگر شہروں کے حوزات علمیہ کے آئندہ بیس سالوں کے لئے تیس سالوں کے لئے سوچنا ہوگا آنے والے تیس سالوں کا مطلب کیا ہوا؟ مطلب یہ ہوا کہ ایک ایسی دنیاکہ جس میں اپنے اقدامات کو مؤثربنانے اورسرزمینوں اوردلوں کو تسخیر کرنے کے لحاظ سے احتمالاًآج کی دنیا سے کوئی شباہت نہیں ہوگی۔

آج سے بیس سال قبل یہ انفارمیشن ٹکنالوجی جسکی ابھی محترم نے اتنی اچھی وضاحت کی ہے نہیں تھی کچھ تھی لیکن آج دیکھئے دنیا کہاں پہونچ گئی ہے!

اس وقت کے لحاظ سے جب ہم آج کے بارے میں سوچیں گے تو آج ہمیں خلا محسوس نہیں ہوگا آج ہر گھر، ہر اسکول، ہرگوشہ میں اور بقول شخصے شاید جس دیہات میں بھی جائیں تو انفارمیشن ٹکنالوجی کی کوئی نہ کوئی چیز نظرآجائے گی توحوزہ علمیہ پیچھے رہنا چاہتا ہے کیا؟ آنے والے تیس سالوں کا بھی اسی سے اندازہ لگائیے اوراس میں مزید تیزی بھی ہوگی یعنی سائنس اورانفارمیشن ٹکنالوجی کی رفتارآنے والے بیس تیس سالوں میں گذشتہ بیس سالوں کی سائنسی رفتارسے کہیں زیادہ ہوگی۔

اس دن ممکن ہے مختلف افکار رکھنے والے لوگ، مختلف مکاتب فکر، منحرف گروہ اورغلط اغراض ومقاصدرکھنے والے لوگ آپ کی یونیورسیٹی کلاسیز، اسکول، اورآپ کے گھروں کے اندر آپ کے بچوں کونہایت آسانی سے اپنی مٹھی میں لے لیں، اپنی گرفت میں لے لیں اورآپ کچھ بھی کرنے کے قابل نہ ہوں حوزہ علمیہ کو اس دن کی فکر کرنی چاہئیے۔ ذمہ دار حوزہ علمیہ ہے، لوگوں کی دینداری کے ذمہ دارعلماء ہیں علماء بھی حوزہ ہی کی پیداوار ہیں۔اس نقطہ نظرسےذمہ داری کا اندازہ لگائیے اس طرح حساب لگائیں تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ ہمارے کندھوں پر جو سنگین ذمہ داری ہے وہ کیا ہے تویہ ایک بات ہوئی مستقبل کے لئے منصوبہ سازی کے متعلق!

ایک مسئلہ یہ ہے کہ تبدیلی پرکنٹرول رکھئیے۔ عزیزحضرات اور بہنو! دیکھئے تبدیلی سے بچا نہیں جا سکتا۔ آفرینش الہی کی سنت ہی یہی ہے؛ یہ بات میں نے بارہا کہی ہے، پیش کی ہے کہ تبدیل آئے گی ،ایک ایسے مجموعہ یا شخص کا تصور کیجئے جو تبدیلی کا قائل نہ ہو تو اس کے ساتھ دو ہی صورتیں پیش آئیں گی یا تو وہ مٹ جائے گا یاگوشہ نشین ہو جائے گا، یا توتبدیل شدہ حالات کے ہنگامہ میں اپنی کوئی جگہ نہ پاکر پیروں کے نیچے کچلاجائے گا اور مٹ جائے گا یا اگر زندہ رہا توگوشہ نشیں ہو جائے گا۔ اسی جنگلی انسان کی طرح جس کی خبر ابھی آج یا کل کے اخبارمیں آئی ہے؛ کہ وہ تیس چالیس سال قبل مازندران کے ایک جنگل میں چلا گیا اور باہری ماحول سے بہت کم رابطہ رکھتا ہے۔ تواسی طرح وہ مجموعہ یا ش‍خص بھی گوشہ نشیں ہوجائے گا الگ تھلگ رہاجا سکتا ہے تبدیلی سے دوری اختیار کی جاسکتی ہے لیکن گوشہ نشینی کے ذریعہ حوزہ اگر تبدیلیوں سے دور رہنا چاہے تو گوشہ نشیں ہوجائے گا، مرے گا نہیں زندہ رہے گا۔ دین اسے مرنے سے روک لے گا لیکن گوشہ نشیں ہوجائے گا اور اس گوشہ نشینی میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے گا۔

تبدیلی آنا حتمی ہے البتہ تبدیلی کے دو رخ ہیں تبدیلی کے ذریعہ صحیح سمت اختیار کرنا اور تبدیلی کے ذریعہ غلط سمت اختیار کرنا۔ ہمیں یہ کنٹرول رکھنا ہوگا کہ تبدیلی صحیح سمت اختیار کرے۔ حوزہ کی بااثرشخصیات کا یہ فرض ہے۔ حوزہ کے منتظمین، افاضل، اور صاحبان فکر اس کام کے لئے ہمت جٹائیں۔ تبدیلی سے فرار نہیں کرنا چاہئے ابھی آپ حضرات نے کہا ہے کہ تعلیمی، تحقیقی، اورداخلہ کے طریقہ کاراورنصاب میں تبدیلی کی ضرورت ہے یہ نہ کہئے کہ اس نظام کی دس سال، پندرہ سال پہلے ضرورت تھی تو ہم نے اسے ترتیب دیا اور لکھا تواب یہ دیکھئے کہ اسی دس، پندرہ سال پہلے کے نظام کی ترقی یافتہ شکل کی کیا ہوگی؟ تبدیلی کا مطلب یہ ہوا! یعنی وقت کے ساتھ ساتھ چلنا، آگے بڑھنا اورتغیرات زمانہ سے بے بہرہ نہ رہنا البتہ موجودہ حوزات علمیہ زمانہ سے فطری طور سے کچھ پیچھے رہے ہیں۔اس لحاظ سے کوئی قصووار بھی نہیں ہے۔ اس لئے کہ انقلاب اوراس تیز بجلی کی وجہ سے سماج میں آئی تبدیلیوں نے ہر چیز کو پیچھے کر دیا ہمارے سماج کی روشنفکری بھی عقب افتادہ ہے یونیورسٹیاں بھی جس مقام پر ہونی چاہئے تھیں اس سے پیچھے ہیں۔ حوزہ علمیہ بھی پیچھے ہے یعنی ہمارے سماج میں زبردست تبدیلی نے اپنے اطراف میں ہر سطح پر گہرا اثرڈالا، ہم اس تبدیلی سے پیچھے ہیں حوزہ بھی کسی حد تک پیچھے ہے لیکن لازمی سرعت اور جدوجہد کے ذریعہ اس کا جبران کیا جا سکتا ہے۔

تبدیلی کو قبول کرتے ہوئے اس پر کنٹرول رکھنا چاہئے بہت احتیاط کی ضرورت ہے دیکھئے یہاں سرٹیفکیٹ کی بات کی گئی ہے میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے شروع سے ہی حوزہ کے مستقل سرٹیفکیٹ پرتاکید کی ہے اور اب بھی میری یہی تاکید ہے سرٹیفکیٹ ! حوزہ خود اپنے معیار سے نہ کہ وزارت تعلیم کے معیار سےسرٹیفکیٹ جاری کرے، اس لئے کے حوزہ کا معیارہروزارت سے اونچا ہے تواپنے معیار سے حوزہ سرٹیفکیٹ جاری کرے، اب ڈگری کا نام کچھ بھی ہو بعض دوستوں نے اعتراض کیا ہے کہ آپ اس بات سے کیوں گریزاں ہیں کہ حوزہ کی ڈگریوں کا نام بھی ڈاکٹریٹ اورماسٹرس وغیرہ ہو جبکہ اسی کا نام آپ نے تیسری سطح، چوتھی سطح وغیرہ رکھ رکھا ہے اس پر میری کوئی رائے نہیں ہے اس پربیٹھ کر بات کریں اورجوطے پا جائے وہی صحیح ہے لیکن سرٹیفکیٹ ہونا چاہئے البتہ سرٹیفکیٹ کومحوربنانا سرٹیفکیٹ کے لئے آفت ہے، دینی طالب علم ڈگری کی خاطر تعلیم حاصل کرے یہ بہت بڑا عیب ہے تو تبدیلیوں کے درمیان کا راستہ یہی ہے کہ ڈگری کے سلسلہ میں تبدیلی پراس طرح کنٹرول رکھئے کہ ڈگری دیجئے لیکن ڈگریوں کو محور بنانے سے پرہیز کیجئے جدید تعلیم کیلئے بھی ہم نے اسے ہمیشہ عیب قراردیا ہے تو یہ ایک نمونہ ہے۔

نصابی کتابوں سے متعلق جو بات کی گئی ہے بالکل درست ہے۔ میں ایک بارجب قم گیا اب صحیح سے یا د نہیں کہ یہ کب کی بات ہےایک صاحب نے کہا ہے دس سال ہو گئے ہیں میں تو سوچ رہا تھا کہ یہی تین چار سال کی بات ہے بہرحال جب گیا تھا تو افاضل کے ساتھ ایک نشست میں میں نے نصابی کتابوں اوران میں تبدیلی کی بات کی توفوراًہمیں اس پررد عمل کی اطلاع ملی مخالفتیںشروع ہو گئیں البتہ ہمیں پہلے سے علم تھا کہ کچھ لوگ مخالفت کریں گے۔ نصابی کتابوں کی تبدیلی لازمی ہے لازماً تبدیلی آنا چاہئے اس میں شک کی کوئی بات ہی نہیں ہے ایک برادر نے جو دلیل پیش کی ہے وہ میں نے نوٹ کر لی ہے بہت ہی سنجیدہ دلیل ہے کہ اگر یہ طے ہے کہ ہمیں نصابی کتابیں بدلنا نہیں ہیں تو پھر وہی "معالم" ہی پڑھنا چاہئے اس کے بعد "قوانین" کیوں لکھی گئی؟ "رسائل" کیوں لکھی گئی؟ "فصول" کیوں لکھی گئی "کفایہ" کیوں لکھی گئی؟ اس کا مطلب تبدیلی صحیح ہے اب بھی یہی ہے اب بھی لازماً نصاب میں تبدیلی آنی چاہئے ایسا کچھ کرنا چاہئے کہ طالب علم کا زوربات سمھجنے پر ہو نہ کہ عبارت سمجھنے پر! اس میں کوئی کمال نہیں ہے کہ ہم عبارت کو پیچیدہ بنا دیں یا جان بوجھ کر پیچیدہ نہ بنائیں بلکہ اتنا الٹ پھیر کریں کہ عبارت پیچیدہ ہوجائے اورطالب علم اچھاخاصا وقت اسے حل کرنے پرصرف کرے اس میں کون سی کمال کی بات ہے؟ اس میں کیا مزہ ہے؟ کون سی خوبی اس کام میں نہاں ہے؟ نہیں بلکہ عبارت اتنی وضاحت سے بیان ہونی چاہئے کہ جو لوگ بات سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ اس عبارت سے اس بات کو آسانی سے سمجھ جائیں استاد بھی عبارت سمجھانے میں پریشان نہ ہو اورفقط بات بیان کردے۔

"کفایہ" کو "جدید کفایہ" میں بدل دیتے ہیں اس میں کیا حرج ہے؟ "مکاسب" کے اندرشیخ کے طرز بیان میں مستقل اجتہادی اتار چڑھاؤ ہے اس لئے کہ یہ شیخ کا درس خارج ہے "مکاسب" کو کم نہیں سمجھنا چاہئے لیکن اب کون شیخ انصاری جیسا ہے؟ اتنے مکاسب لکھے گئے ہیں یہ درس خارج جو اب کتابی صورت میں منظرعام پر ہے اس شخص کے لئے مفید ہے جس نے شیخ کے درس خارج میں شرکت کی ہے بات کو مستقل ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر گھمائے مستقل احتمالات ایجاد کرے لیکن جوشخص فقہ استدلالی کو متن سے سیکھنا چاہتا ہے اس کے لئے یہ مفید نہیں ہے طالب علم مشکل میں پھنسا ہے اس مشکل کو دور کیا جائے شیخ کی ہی باتیں ایک دوسری کتاب میں لے کر آجائیں لیکن بالکل صحیح اورواضح! ہرمسئلہ کے سلسلہ میں شیخ کی تحقیق کوصاف صاف بیان کریں لیکن اس بات کے پابند رہیں کہ اس نئی کتاب میں وہی بات لے کر آئیں جو شیخ نے بیان کی ہے تو یہ بن جائے گی جدید مکاسب! یہ ضروری بھی ہے یہی میرا نظریہ ہے اب ممکن ہے کہ حوزہ کے منتظمین، ذمہ داران اورسرکردہ افراد کو یہ پسند نہ آئے اور وہ ایسا نہ کریں لیکن ایک دن ایسا خود ہی ہو جائے گا تو یہ بات کا ایک رخ ہے۔

بات کا دوسرا رخ جو ہم نے کہا وہ یہ ہے کہ تبدیلی پر کنٹرول رکھا جائے اس بات پر توجہ رہےکہ علمی مواد ہلکا نہ ہوجائے، شیخ کی بات سطحی نہ بن جائے، اصول میں آخوند کی بات ہلکی نہ ہوجائے۔ اس وقت کے ہمارے فقہ و اصول کے ان اہم عناصرسے طالب علم نادان نہ رہ جائے عبارتیں صحیح،اچھی اورعربی عبارتیں ہوں۔ میں جب حوزہ کی بعض تحریریں ملاحظہ کرتا ہوں تومحسوس کرتا ہوں کہ اس لحاظ سے ہم میں کچھ کمی ہے، نقص ہے ہماری جب کوئی محکم سنجیدہ تحریر علمی اسلامی اداروں تک پہونچے تو چونکہ عربی زبان میں ہے " ہماری علمی زبان عربی ہے اور اس سے سب فائدہ اٹھا سکتے ہیں" لہذا ایک اہم اور ممتاز تحریر شمار کی جائے اس میں لفظی، عبارتی اورتحریری غلطیاں نہ ہوں لہذا تبدیلی ضروری ہے اب یہ تبدیلی کے ایک دو نمونے ہیں تبدیلی کے مقامات اور بھی بہت ہیں ان میں سے بہت سے آپ دوستوں نے اپنی گفتگو میں بیان کئے ہیں ان سب کی میں بھی تائید کرتا ہوں توتبدیلی پر کنٹرول رہنا چاہئیےایک بات یہ ہوئی۔

نظام کے سلسلہ میں بھی کچھ نظریات ہیں دوستوں نے ابھی کچھ تجاویز پیش کی ہیں بنیادی قانون لکھا جائے، طریقہ کار لکھا جائے، مستقبل کا منصوبہ لکھا جائے یہ سب آپ حضرات نے کہا ہے سب صحیح بھی ہے لیکن ان میں سے کچھ بھی ایک مفید مدیریت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ تمام منصوبہ بند اقدامات جن سے انسان کو نتیجہ کی امید ہو، جن سے انسان نتیجہ کی توقع رکھ سکتا ہو ان کی بنیادی چیز مدیریت اورانتظام ہے۔

حوزہ کے اندر ہمیں مدیریت کو پایہ تکمیل تک پہونچانا ہوگا خوش قسمتی سے حالیہ برسوں میں اعلی انتظامیہ اورادارتی مرکز کی بات قبول کی گئی ہے اور اس ضمن میں اقدام بھی کئے گئے ہیں اور اس کے فوائدوبرکات بھی آپ دیکھ رہے ہیں۔ مجھے آج رات دوستوں کی گفتگو سے پتہ چلا ہے کہ حوزہ میں بارہ خصوصی علمی انجمنیں ہیں۔ خصوصی علمی انجمن! یہ بہت اچھا ہے مجھے اس کا پتہ نہیں تھا اقتصادیات کی علمی انجمن، نفسیات کی علمی انجمن، رجال کی علمی انجمن، تاریخ کی علمی انجمن البتہ بعض کومیں جانتا تھا۔ یہ ادارت وانتظام ہی کی وجہ سے ہے اگر مدیریت نہ ہوتی تو یہ نہیں ہوسکتا تھا لیکن اب تک جو کچھ حوزہ میں سسٹم اور نظام بنانے کے سلسلہ میں کیا گیا ہے اسی پرقطعی اکتفا نہیں کیا جاسکتا ہم میں کچھ نقائص ہیں سب سے پہلے یہ کہ اعلی انتطامیہ "پتہ نہیں اعلی انتظامیہ کے اراکین یہاں تشریف فرما ہیں یا نہیں" منصوبہ سازی پر بہت توجہ دے۔ پہلے اور بنیادی مراحل میں سب سے پہلا کام حوزہ علمیہ کے لئے منصوبہ سازی ہے منصوبہ سازی کے مختلف پہلو ہیں کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ علم کی پیداوار بڑھائی جائے اورترقی کی جائے؟ کون سا علم؟ علم فقہ کی ترقی کے کیا معنی ہوں گے؟ علم اصول کی ترقی کے کیا معنی ہوں گے؟ خود ترقی کا کیا مطلب ہے؟ اس ترقی کا رخ کس سمت ہے؟ ان سب سوالوں کے جواب ضروری ہیں ان سوالات کا جواب منصوبہ سازی کی اعلی انتطامیہ دے گی ؛ حوزہ علمیہ کے مستقبل کے بارے میں ایک واضح منصوبہ بنایا جانا چاہئے جس طرح ملک کے لئے آئندہ بیس سالہ منصوبہ تیار کیا گیاہے اسی طرح آپ بھی حوزہ کے لئے آنے والے دس سالوں، بیس سالوں کے لئے منصوبہ بنا لیجئے یہ حوزہ کی اعلی انتظامیہ کا کام ہے۔

بہرحال اعلی انتظامیہ کب یہ کر سکتی ہے؟ اس صورت میں کہ جب اعلی انتظامیہ کے محترم اراکین اس کام کے لئے کافی وقت دیں۔ باقی چیزوں سے فارغ ہوں حوزہ کی اعلی انتطامیہ میں رکنیت دیگر اصلی کاموں کے ہمراہ ایک فرعی سا کام نہ ہو۔ اچھا آپ یہ دیکھئے کہ کسی یونیورسیٹی کی انتظامیہ یا اس کی قانون سازیہ کیسے کام کرتی ہے؟ اتنا عظیم حوزہ علمیہ! قم کا ہو یا مشہد کا یا اصفہان کا! حاشیہ میں رکھ کر نہیں چلایا جا سکتا اس کے لئے وقت دینا ہوگا یہ ایک بات!

دوسری بات یہ کہ ان کے پاس ایک نہایت قوی "ماہرین کاگروہ" ہو اورخوش قسمتی سے ماہرین کا یہ گروہ یہی آپ حضرات جنہوں نے آ ج رات تقریر کی ہے یا بہت سے جنہوں نے تقریر نہیں کی شاید حوزہ علمیہ میں اس طرح کے بہت سے جوان روشن فکر افاضل موجود ہیں "ماہرین کا گروہ" تشکیل دینے کے لئے یقیناً یہی حضرات کافی ہیں ہمیں حوزہ کے مسائل میں کسی دوسرے شخص کی ضرورت نہیں ہے اورانہیں افاضل کی خدمات لی جا سکتی ہیں البتہ ماہرین کے اس گروہ کو کام کرنا ہوگا ۔ محنت کرنا ہوگی اعلی انتظامیہ جو کام کر سکتی ہے ان میں سے ایک یہ ہے۔

حوزہ کو ایک نظام اور سسٹم کے تحت لانے کے سلسلہ میں ایک اورکام اعلی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ حوزہ کی مجلس منتظمہ کی تشکیل ہے جوکہ نہایت اہم ہے لازماً حوزہ میں ایک پالیسی ساز ادارہ ہونا چاہئے آپ حضرات نے اپنی گفتگو میں ذکر کیا کہ بعض پروگرام آپس میں ہم آہنگ نہیں ہیں ہماری بہن نے بھی کہا ہے کہ مختلف سطحوں کے لئے خواہران سے متعلق سسٹم مناسب نہیں ہے یہ اعتراضات حقیقت پر مبنی ہیں یہ نقائص کیوں کر دور کئے جا سکتے ہیں؟ ایک ماہر واقف کارپالیسی ساز ادارہ جو پالیسی سازی کے جدید ترین اصولوں سے باخبر ہویہ کام کرسکتا ہے۔

پالیسی سازی آجکل دوسرے علمی کاموں کی طرح کا ایک علمی کام ہے کوئی ذاتی اور نجی فن نہیں ہے ذاتی اور نجی فن کے لحاظ سے تو اس وقت یہ مفید واقع نہیں ہوتی بلکہ ایک علمی کام ہے اس کے لئے اس فن کے ماہرین کی خدمات لی جانی چاہئے یہ لوگ اسی "ماہرین کے گروہ" کا حصہ ہوں اور پالیسی تیار کریں۔

حوزہ کو منظم کرنے کا ایک کام مردم شماری ہے اس کی طرف میں نے دوستوں کی گفتگو کے درمیان ایک اشارہ کیا تھا ہمیں حوزہ کے صحیح اعدادو شمار پتہ نہیں ہیں اسی بنا پر ملک میں علماء کی تعداد کا بھی بدرجہ اولی علم نہیں ہے ملک میں علماء کی تعداد، ان کے علم وفضل کی سطح، تبلیغی مہارتیں، اپنے آس پاس انکا اثررسوخ وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن کی ہمارے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں ہمارے پاس اعدادوشمار نہیں ہیں۔ مردم شماری بھی ایک علم ہے ایک کام ہےجس کوانجام دینا چاہیےاورفوری شروع ہونا چاہئے جسے پورا ہونے میں کچھ سال لگیں گے لیکن اس کے فوائد بہت زیادہ ہیں وہ یہی مردم شماری ہے حوزہ کے طلاب، ان کی سطوح، جودرس پڑھ چکے ہیں اسے کتنا سمجھے ہیں، علمی پیشرفت کتنی ہے ان سب کے اعدادوشمارہاتھ میں ہوں تاکہ معلوم تو ہو کہ حوزہ کی انتظامیہ کے ذیل میں کتنے لوگ ہیں ۔ کن لوگوں کے ساتھ کام کرنا ہے یہ کمی بھی ہم میں پائی جاتی ہے۔ مردم شماری کے ساتھ ساتھ اہمیت کی اندازہ گیری کا سسٹم بھی وجود میں آجائے گا ہماری یہ گزارش بھی حوزہ کو ایک نظام کے تحت لانے کا ایک حصہ ہے۔

ایک اوربات جس کا تذکرہ ضروری ہے وہ آزاد فکری ہے بعض حضرات نے ابھی اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے قم میں آزاد فکری کے مراکز کیوں نہیں تشکیل پاتے اس میں کیا حرج ہے؟ ابھی کی بات نہیں ہے ہمارے حوزات علمیہ ہمیشہ سے آزاد فکری کا گہوارہ رہے ہیں اور ہمیں اس بات پر فخر ہے دوسرے علمی مراکز میں اس کی مثال بھی نہیں ملتی کہ شاگرد درس کےدوران استاد پر اعتراض کرے اوراستاد کو اس بات سے اپنے تئیں دشمنی اور مخالفت کا احساس نہ ہو، دینی طالب علم آزادی سے اعتراض کرتا ہے اور اس ضمن میں استاد کا بالکل خیال نہیں رکھتااوراستاد کو اس بات پرنہ کوئی تکلیف ہوتی ہے اور نہ وہ ناراض ہوتا ہے یہ بہت اہم چیز ہے یہ ہمارے حوزہ کا خاصہ ہے۔ ہمارے حوزات علمیہ میں ایسے بزرگ گذرے ہیں جو فقہ میں بھی مختف راہیں ایجاد کرتے تھے اور دوسرے مزید سخت علوم میں بھی؛ فلسفی ہوتے تھے عارف ہوتے تھے فقیہ ہوتے تھے اور سب کے سب ساتھ میں رہتے اور ساتھ ساتھ کام کرتے تھے ہمارے حوزات علمیہ اس طرح کے ہیں کسی کے یہاں اپنا علمی نظریہ ہو تا تھا جو دوسرے کو قبول نہیں ہوتاتھا علماء کے حالات زندگی کا مطالعہ کرنے سےاس طرح کی چیزیں نظر آتی ہیں۔

مرحوم صاحب حدائق اورمرحوم وحید بہبہانی دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے لیکن دونوں کربلا میں رہتے تھے ایک دوسرے کے ہمعصر تھے آپس میں مباحثہ بھی کرتے تھے ایک شب سید الشہدا سلام اللہ علیہ کے حرم مطہرمیں کسی بات پر ان کا مباحثہ شروع ہو گیا تواذان صبح تک یہ دونوں بزرگ کھڑے کھڑے مباحثہ کرتے رہے جبکہ اس وقت وحید بہبہانی تو نسبتاً جوان تھے لیکن صاحب حدائق بوڑھے تھے مباحثہ بھی کرتے تھے منازعہ بھی کرتے تھے لیکن دونوں تھے دونوں درس دیتے تھے میں نے سنا ہے کہ وحید بہبہانی کے شاگرد جبکہ انہیں اخباریوں سے شدید تعصب تھا لیکن ان کے شاگرد صاحب ریاض وغیرہ صاحب حدائق کے درس میں بھی شرکت کرتے تھے۔ تو یہ ماحول تھا حوزہ کے اندر ہمیں تحمل اور برداشت کی سطح اونچی کرنا ہوگی کوئی فلسفی طریقہ اختیار کرتا ہے، کوئی عرفانی اور کوئی فقاہتی اور شاید ایک دوسرے کو مانتے بھی نہ ہوں میں نے چند ماہ قبل مشہد میں کہا تھا مرحوم شیخ مجتبی قزوینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) حکمت متعالیہ اورملا صدرا کے نظریات کے سخت مخالف تھے اوراس سلسلہ میں بہت پکے تھے دوسری طرف امام (رضوان اللہ تعالی علیہ) مکتب ملا صدرا کا نچوڑ ہیں نہ صرف فلسفہ میں بلکہ عرفان میں بھی لیکن شیخ مجتبی قزوینی امام(رہ) کو مانتے تھے اور جب تک زندہ تھے امام (رہ) کی حمایت کرتے رہے امام(رہ) کی حمایت بھی کرتے تھے آپ مشہد سے چل کر قم آئے تھے امام(رہ) سے ملنے کے لئے مشہدمیں میرزا جواد تہرانی بھی اسی مکتب کی خاص اورمنتخبہ فرد تھے لیکن آپ محاذ جنگ پر بھی گئے۔ امام(رہ) کی تفسیر سورہ حمد جو ٹی وی پر نشر ہوتی تھی اس کے مخالف تھے انہوں نے اور آقائے مروارید نے خود مجھ سے یہ بات کہی تھی لیکن حمایت بھی کرتے تھے فکر ونظریہ کے اعتبار سے ایک دوسرے کے مخالف لیکن سیاسی، سماجی اور رفاقتی لحاظ سے ایک دوسرے سے مانوس! ایک دوسرے کو برداشت کرتے تھے قم میں یہ ہونا چاہئے۔

ایک شخص کوئی ایسا فقہی نظریہ پیش کرتا ہے جو شاذ ہے بہت اچھا آپ نہیں مانتے، ایک نظریاتی مرکز تشکیل دیجئے اور آپس میں اس موضوع پر مباحثہ کیجئے دس افاضل آکر اس فقہی نظریہ کو دلیلوں کے ساتھ باطل قراردیں کوئی حرج نہیں ہے کوئی فلسفی نظریہ سامنے آئے تب بھی یہی کیجئے، معارفی اور کلامی نظریہ ہو تو تب بھی یہی ، الزام تراشی اور تکفیر وغیرہ کو حوزہ سے نکال پھینکئے حوزہ کے اندر بزرگ اور ممتاز علماء کے سلسلہ میں اس طرح کی باتیں ہوں! مثلاً ان بزرگ علماء کے کچھ نظریات کا میں بھی مخالف ہوں تو میں اٹھ کر الزام تراشی شروع کر دوں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس کا آغاز خود طلبہ کے بیچ سے کیجئے اوریہ کام؛ خود طلبہ کے توسط سے آزاد فکری کے مراکزکی تشکیل اورمباحثہ مناظرہ کے بغیر ممکن نہیں ہےیعنی وہی چیز جو ہم نے آزاد فکری کی تحریک شروع کرنے کے سلسلہ میں کہی ہے اسے حوزہ میں رائج کیجئے جرائد اورتحریروں میں اسے پیش کیا جائے کوئی شخص، کوئی فقہی بات کہتا ہے تو دوسرا شخص اس کے جواب میں مقالہ لکھے اب اس مقالہ کو کوئی نہیں مانتا تو اس کے جواب میں مقالہ لکھے کوئی حرج نہیں ہے آپس میں علمی بحث کریں علمی بحث میری نظرمیں اچھی چیز ہے۔

ایک اور مسئلہ ہمارے علماء وفضلاء کی سماجی اہمیت ہے یہ بھی ہماری ایک مشکل ہے کچھ دوستوں نے اس سلسلہ میں ایک تجویز دی ہے اسے میں بیان کرتا ہوں اوروہ یہ ہے کہ قم میں ایک علمی بورڈ تشکیل دیا جائے یعنی ہر سطح کے لئے الگ الگ تسلیم شدہ علمی بورڈ قائم کر لئے جائیں ایک شخص جب ایک حد تک پہونچا ایک امتحان کو اس نے پاس کیا تو وہ قم کے علمی بورڈ کا رکن بن جائے توایسا ایک سلسلہ قائم ہوجائے البتہ اسی سے ملتی جلتی بات میں نے چند سال قبل جامعہ مدرسین کے اراکین سے بھی کہی تھی کہ جامعہ مدرسین کا دائرہ تھوڑا وسیع کریں لیکن جو مدنظر تھا ظاہراًقابل عمل نہیں تھا اور ایسی چیز وجود میں نہیں آسکی اب اس صورت میں تجویز سامنے آئی ہے۔

بہر حال حوزہ میں کام بہت ہوا ہے لیکن جو ہونا چاہئے تھا ابھی تک نہیں ہوا یا یہ کہ ہو جانا چاہئے تھا اگر ماضی کے سلسلہ میں نہیں ہو سکا تواب شروع کر لیا جائے جتنا کچھ حوزہ میں اب تک ہوا ہے اس سے سو گنا زیادہ کام باقی ہے لیکن سوگنا کام کیا جا سکتاہے بس شرط یہ ہے کہ آپ لوگ سامنے آئیں، کمر ہمت باندھیں اور میدان میں وارد ہو جائیں آپ میں سے ہر فرد جس شعبہ میں تخصص رکھتا ہے اسی میں کام کرے انشا اللہ انتظامیہ آپ کی خدمات حاصل کرے گی۔

ان تجاویز میں سے میں نے بعض نوٹ کر لی ہیں البتہ سب کی سب ریکارڈ ہو گئی ہیں میری نظرمیں یہ تجاویز اچھی ہیں شاید یہ بھی ضروری ہو کہ جتنی باتیں یہاں کی گئی ہیں سب کو لکھ کر کتابی شکل میں شائع کیا جائے میرے خیال سے یہ کام بہت مناسب رہے گا اب آدمی کا دل چاہتا ہے کہ یہ سب ٹی وی پر نشر ہو لیکن چونکہ میں ان کےشرائط اورترجیحات سے واقف نہیں ہوں لہذا معلوم نہیں کہ یہ کس حد تک قابل عمل ہے لہذا میں اس کام کے لئے نہیں کہہ رہا ہوں یہ بھی اگر ہو جائے تو اچھا ہے لیکن کم سے کم اتنا تو ہو کہ ہمارے دوست حضرات جو یہاں کے ہمارے دفتر میں ہیں یا قم کے دفتر سے منسلک ہیں انہیں باتوں کو اتار کرکانٹ چھانٹ کر کے شائع کر دیں خود اس کے بھی بہت سے فوائدوبرکات ہیں یہ اچھا ہوگا۔

ایک تجویز جو مجھے اچھی لگی اور پسند آئی وہ یہ ہے کہ ملک بھر کے علمی مدارس کے منتظمین ایک سیمینار کا انعقاد کریں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں اورایک دوسرے کو اپنے تجربات سے آگاہ کریں یہ بہت ہی اچھا ہے۔

ایک اور کام جو میری نظر میں بہت اچھاہے وہ یہ ہے کہ اسلامی حکومت سے مختلف شکلوں میں کچھ توقعات کا اظہار کیا گیا ہے البتہ ان میں سے بعض تو فی الوقت بالکل قابل عمل نہیں ہیں۔ جب حوزہ میں ایک مضبوط مرکزی انتظامیہ تشکیل پاجائے گی، یعنی حوزہ کو اس طرح منظم کیا جائے کہ سب کی بھروسہ مند، تمام امور پر مسلط، مفکرمرکزی انتظامیہ اپنے کمال کو پہنچ جائے اور تشکیل پاجائے تاکہ انسان اس کے ساتھ لین دین کرسکے۔ اس لئے کہ پیش کردہ بہت سی تجاویز حوزہ کے وسائل اوراس کی گنجائش پر منحصر ہیں فرض کیجئے کہ یہ لوگ حوزہ کے افاضل کی خدمات حاصل کرنا چاہیں، حوزہ کے افکار سے فائدہ اٹھانا چاہیں توکیسے، کس کے ذریعہ، کہاں سے فائدہ اٹھائیں؟کام کی ضرورت ہے حوزہ میں انشا اللہ کام ہوناچاہئے اور اس کام کے نتیجہ میں حوزہ اس مقام تک پہونچ جائے گا کہ اس کی خدمات لی جا سکیں۔ اسلامی نظام پر حوزہ کی خدمات لینا فرض ہے یہ لین دین ہونا چاہئے البتہ بہت سارے کام جو ذکر ہوئے ہیں وہ اس وقت بھی ممکن اور قابل عمل ہیں۔

دوستوں کی ایک اورتجویز جو مجھے پسند آئی ہے وہ یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح کے مبلغ تیارکرنے کے لئے ایک " تربیتی مرکز" تشکیل دیا جائے البتہ یہ بات میں نے اگر میراحافظہ ساتھ دے ،تو تقریباً چودہ پندرہ سال پہلے کہی تھی اس وقت حوزہ کے ایک بزرگ جواس وقت بھی اپنی با برکت زندگی گذار رہے ہیں کسی مرض میں مبتلا ہوئے تو علاج کے لئے انہیں باہر کسی یوروپی ملک جانا پڑا وہاں طلبہ، جوانوں اور ایرانیوں نے ان سے آکر کہا کہ مثلاً آپ فلاں جگہ آکرتقریر کیجئے، فلاں جگہ گفتگو کیجئے ایک مہینہ تک ان محترم بزرگوار کو ان لوگوں نے روکے رکھا تو انہیں وہاں ضرورت کا احساس ہوا۔ جب وہ واپس آئے تو مجھ سے ملاقات کا وقت چاہا اورپھر ملاقات کی لئے آئے تومجھ سے سخت لہجہ میں کہنے لگے جناب آپ کیوں ان ضروریات کو پورا نہیں کر رہے ہیں اتنی ضرورت ہے وہاں میں نے کہا کہ البتہ ہم نے کچھ کیا بھی ہے لیکن کیا کریں ہمارے ہاتھ بھی خالی ہیں اب اگر صورت حال یہ ہے تو آپ جائیے قم میں اور ایران سے باہر تبلیغ کے لئےماہرین تیار کرنے کا ایک مدرسہ قائم کیجئے"وعلی نفقۃ عیالہ" میں نے ایسے ہی کہا کہ اس کا خرچ میں اٹھاؤں گا اس کے اخراجات میرے ذمہ رہیں گے میں برداشت کروں گا مدرسہ آپ بنائیے چونکہ میں تو قم میں آکر مدرسہ نہیں بنا سکتا وہ گئے اور کچھ عرصہ تک کوششیں کرتے رہے اورمیرے خیال سے قم میں ایک اشتہار بھی نکالا گیا کہ جو کوئی شرکت کرنا چاہتا ہے وہ یہاں آئے اس کے بعد سب کچھ بھول گیا اور ابھی تک وہ کام نہیں ہوا ہے یہ کام کیجئے یہ بہت اچھا اورضروری کام ہے۔

منبر سے متعلق بھی دوستوں نے کہا ہے یہ میری ہمیشہ کی باتیں ہیں میں جو باتیں ہمیشہ زور دے کرکہتا ہوں ان میں سے ایک یہی منبر کا احترام، اس کی اہمیت اور مبلغ کی تربیت ہے بہت اچھا! جب ایسا ہے تو جائیے مشغول ہو جائیے منصوبہ بنائیے اور کام میں لگ جائیے ایک مضبوط اورمحکم پروگرام ترتیب دے کر کام کا آغاز کر دیجئے اس میں مشکلات بھی بہت ساری سامنے آئیں گی جب کام میں وارد ہوں گے آپ حضرات تو دھیرے دھیرے مشکلات کابھی اندازہ ہوگا لیکن میرا ماننا ہے کہ آپ ان ساری مشکلات سے اپنی جوانی، ایمان اور عزم و ارادہ کی طاقت کے ذریعہ عبورکر جائیں گے۔

پروردگارا! ہماری اس نشست کو اسلام و مسلمین اورعلماء کے لئے باعث خیروبرکت قرار دے! ہم نے جو کہا ہے اور جو کچھ سنا ہے اسے اپنے لئے اوراپنی راہ میں قراردے! پروردگارا! توہم سے جس چیز کے بارے میں قیامت میں سوال کرے گا " واستعملنی بماتسألنی غداً عنہ " اس کی توفیق اورقدرت عنایت فرما۔ پرودردگارا! ہمارے شہدا جن کے پاک خون، شجاعانہ مجاہدت اورفداکاریوں کے صدقہ میں یہ ساری توفیقات اور وسائل فراہم ہوئے ہیں انکی ارواح طیبہ اورہمارے عظیم امام (رہ)کی روح مطہرکوہم سے راضی و خوشنوداوراپنے اولیاء کے ساتھ محشورفرما!

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ