ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا حضرت فاطمہ زہرا (س)کے یوم ولادت کی مناسبت سے دانشور خواتین سے خطاب


بسم‌ الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌

سب سے پہلے میں تمام خواتین کو خوش آمدید عرض کرتاہوں اور نبی کریم (ص) کی پارہ جگر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہفتہ خواتین اور ماں کی تکریم و احترام  کے دن کی مناسبت سے مبارکباد اورتہنیت پیش کرتا ہوں۔ جیسا کہ محترمہ(1) نے فرمایا: ملک کی اس اہم سماجی مناسبت کا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت با سعادت کے ساتھ منسلک ہونا، اس عظیم ہستی کی زندگی کو سمجھنے اور اس سے درس حاصل کرنے کے لئۓ ایک عظیم فرصت اور گرانقدر موقعہ ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا معنوی مرتبہ اور روحانی مقام بشریت کی برگزیدہ ہستیوں میں بھی بڑا نمایاں اور عظیم ہے۔ آپ معصوم ہیں؛مقام عصمت انسانوں میں سے کچھ معدود اور برگزیدہ بندوں کو ہی عطا کی گئی ہے اور شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ان میں سے ایک ہیں۔ اس مسلّم حقیقت کے پیش نظر کہ اس مجاہد فی سبیل اللہ خاتون نے اپنی تقریبا بیس سالہ عمر میں، روایتوں میں اختلاف ہے اور آپ کا سن مبارک اٹھارہ سے پچیس سال تک ذکر ہوا ہے، بہرحال اس مختصر سی عمر میں ایک نوجوان خاتون اتنے عظیم معنوی مدارج طے کرکے اولیاء و انبیاء اور ان جیسی ہستیوں کی صف میں کھڑی ہو جائے اور اولیائے الہی سے "سیدہ نساء العالمین" کا لقب حاصل کرے، اس عظیم معنوی مرتبے کے ساتھ ساتھ نمایاں اور ممتاز خصوصیات و صفات سے مزین ہونا آپ کی شخصی زندگی کی عظیم اسباق اور دروس ہیں ۔ آپ کا تقوی، آپ کی عفت و طہارت، آپ کی مجاہدت، شوہر کی اطاعت، بچوں کی تربیت، سیاسی شعور، اس دور کے انسان کے تمام حیاتی شعبوں میں بھرپور شراکت، بچپن میں بھی ،نوجوانی میں بھی اور شادی کے بعد کے ایام میں بھی، یہ سب اہم اسباق اور نمونے ہیں۔ آپ صرف خواتین کے لئے نمونہ عمل نہیں بلکہ تمام بشریت کے لئے نمونہ عمل ہے۔ تو یہ موقعہ ہمارے لئے سنہری موقعہ ہے، اس موقعہ پر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی زندگی پر غور کرنا چاہیے، نئے زاویہ فکر سے اس زندگی کو دیکھنا اور سمجھنا چاہیے اور حقیقی معنی میں اسے اپنے لئے نمونہ عمل قرار دینا چاہیے۔
جہاں تک ہمارے معاشرے، ہمارے ملک اور اسلامی نظام میں عورت کا مسئلہ ہے تو میں اس سلسلے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ میں اس طرح کی مناسبتوں پر جب بھی مسلمان خواتین، صاحب ایمان اور اعلی تعلیم یافتہ خواتین کو دیکھتا ہوں تو اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں۔ یہ حقیقی اسلامی نظام کے عظیم افتخارات میں ہے کہ اسلامی نظام کے سایہ میں  اتنی بڑی تعداد میں اعلی تعلیم یافتہ، اچھی فکر رکھنے والی، دانشور اور فکری و عملی لحاظ سے ممتاز خواتین ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ یہ بہت بڑی نعمت اور ہمارے لئے باعث فخر ہے۔ آج تو صرف ایک محترمہ نے ہی تقریر کی، اس سے پہلے بہت سی نشستوں میں ہم نے دیکھا کہ متعدد خواتین نے تقریریں کیں، سب نے اپنی گفتگو میں کوئی نیا دریچہ بازکیا، کوئی نئی فکر پیش کی۔ جس سے انسان کے ذہن میں ایک نیا زاویہ فکر پیدا ہوا۔ اس کثرت کے ساتھ ممتاز اور نمایاں صلاحیتوں کے مالک اور اچھی فکر کے حامل افراد کی تربیت کرنا اسلامی نظام کے اہم افتخارات کا حصہ ہے۔ آج جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمارے ملک کی خواتین کے نام گوناگوں موضوعات کی کتابوں، سائنسی کتابوں ، تحقیقاتی کتابوں ، تاریخی کتابوں ، ادبی کتابوں ، سیاسی کتابوں ، فن و ہنر کے موضوعات پر لکھی جانے والی کتابوں پر نظر آتے ہیں۔ اسلامی جمہوری نظام کی اہم ترین تحریروں میں، خواہ وہ مقالات ہوں یا کتب، خواتین کی تصنیفات نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔ یہ ہمارے لئے باعث فخر اور مایہ ناز بات ہے۔ یہ ہماری پوری تاریخ میں بے نظری اور بے مثال بات ہے۔ ہم نے مختلف ادوار دیکھے ہیں، ملک کی علمی و ثقافتی فضا سے ہماری آشنائی رہی ہے، ہم نے کبھی بھی دینی علوم کے میدان میں اور یونیورسٹیوں کے میدان میں مختلف شعبوں کے اندر اس کثرت کے ساتھ مفکر اور اہل قلم افراد نہیں دیکھے۔ اور پھر ان حالات میں ایرانی خاتون کا بالکل الگ اور نمایاں ظہور، الگ تشخص اور الگ پہچان کے ساتھ سامنے آنا، تلاش و کوشش کے میدان میں، دفاع مقدس کے میدان میں اور پھر اس کے بعد آج تک شہدا کی ہمسریں، جانبازوں اور زخمیوں کی ہمسریں، شہدا کی مائیں، راہ خدا میں اپنی جان قربان کر دینے والوں کے پسماندگان، اپنے عزم محکم، پختہ ارادے، صبر و ضبط کے سامنے ہر کسی کو سر تعظیم خم کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ میں جب بھی ان عظیم خواتین کو دیکھتا ہوں تو ان کے سامنے تواضع و انکساری کے ساتھ سر تعظیم جھک جاتا ہے۔ شہداء کی ماؤں سے، شہدا کی ازواج اور جانبازوں کی ازواج سے میری ملاقات ہوتی رہتی ہے، یہ ایثار پیشہ خاتون جس نے جنگ میں زخمی ہوکر معذور ہو جانے والے اپنے شوہر کی زندگی کو چلانے اور سنبھالنے کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کر دی، یہ کوئی معمولی ہستی نہیں ہے، اسے زبانی طور پر بیان کر دینا تو آسان ہے۔ وہ ماں جس نے اپنے دو بیٹے، تین بیٹے اور چار بیٹے راہ خدا میں قربان کر دئیے اور پھر بھی ثابت قدمی اور پائداری کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے اور ہمیں بھی استقامت کی دعوت دیتی ہے، انسان کا سر تعظیم سے اپنے آپ اس کے سامنے خم ہوجاتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی خواتین کی حقیقت اور جیتی جاگتی تصویر ہے جو قابل فخر اور باعث عزت و عظمت حقیقت ہے۔ یہ ہمارے ملک میں خواتین کے باب کا روشن اور نمایاں پہلو ہے۔
لیکن آج کی دنیا میں منجملہ خود ہمارے ملک میں عورت کا مسئلہ ان اہم ترین مسائل میں ہے جن پر مختلف زاویوں اور پہلوؤں سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلی وجہ تو یہی ہے کہ دنیا کے ممالک کی آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ کیا طریقہ اپنایا جائے کہ یہ عظیم قوت وطن عزیز ایران اور ہر ملک کے مفاد میں صحتمندانہ انداز میں استعمال ہو؟ دوسری چیز یہ ہے کہ جنسیت کا مسئلہ خلقت کے حساس ترین اور ظریف ترین مسائل میں ہے، اسے کس طرح انسان کے ارتقاء کے لئے استعمال کیا جائے، نہ کہ بشریت کے زوال اور اخلاقی تنزل کے لئے ؟ تیسری بات یہ ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان جو جنس کا فطری فرق ہے اس فرق کو سماجی اور خاندانی سطح پر کس طرح رائج کیا جائے کہ عورتوں پر ظلم و زیادتی کا سلسلہ ختم ہو؟ یہ بڑے اہم مسائل ہیں۔ اگر ہم انہی دو تین مسائل کو فکر و تدبر اور غور و خوض کا محور قرار دیں تو تحقیقاتی اقدامات اور کوششوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگا۔ عورتوں پر ظلم و ستم کے مسئلے میں کسی کو یہ غلط فہمی نہ رہے کہ یہ چیز پسماندہ سماجوں اور غیر مہذب معاشروں سے مختص ہے۔ آج کے نام نہاد تہذیب یافتہ معاشروں میں عورتوں پر ہونے والے مظالم دیگر سماجوں سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہیں۔ یہ اہم مسائل ہیں، ان کا جائزہ لیا جانا چاہیے، ان پر بحث ہونا چاہیے۔
محترمہ خاتون نے اپنے خطاب میں بڑے اہم نکات پیش کئے۔ انسان کے ذہن میں جو اہم نکات ہیں وہ انھوں  نے بیان کر دیئے۔ محترمہ نے کہا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ملک کے اندر عدلیہ، مقننہ اور مجریہ سے آزاد ایک الگ مرکز قائم کرنےکی ضرورت ہے، جو اس مسئلے پر کام کرے، تحقیقات انجام دے۔ میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اگر کوئی شخص عورت کے مسئلے کو خاندان اور کنبے کے مسئلہ سے نظر انداز کرکے اس پربحث کرنا چاہتا ہے تو وہ راہ حل کے ادراک اور تعین میں یقینا مشکلات سے دوچار ہوگا۔ یہ دونوں ہی چیزیں ایک ساتھ زیر بحث لائی جائیں حالانکہ یہ دونوں الگ الگ موضوعات ہیں۔ اس طرح کے مرکز کی ضرورت ہے جس کا ابھی قیام عمل میں نہیں آ سکا ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ ہمارے یہاں ایسا کوئی تعلیمی مرکز نہیں ہے جو عورتوں کے مسئلے میں، ان موضوعات کو مد نظر رکھتے ہوئے جن کا ہم نے ذکر کیا اور اسی طرح دیگر اہم موضوعات کو مد نظر رکھ کر ہمہ گير اور صحیح حکمت عملی تیار کرے، اس موضوع پر کام کرے، عملی اقدامات انجام دے۔ ایسا مرکز وجود میں آنا چاہیے، البتہ اس کے کچھ لوازمات اور شرائط بھی ہیں۔
آج میں آپ کی خدمت میں  اس سلسلے میں دو تین نکتے بیان کرنا چاہتا ہوں؛ ایک نکتہ یہ ہے کہ اگر ہم اسی مرکز میں جس کا ذکر ہوا یا کسی اور جگہ پر یا ادارے میں بیٹھ کر عورت کے مسئلے پر صحیح انداز میں غور و فکر کرنا چاہتے ہیں اور صحیح انداز میں آگے بڑھنا اور غلطیوں سے خود کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اہل مغرب کی تکراری باتوں سے اپنے ذہنوں کو پوری طرح خالی کرنا ہوگا۔ اہل مغرب عورت کے مسئلے میں بالکل غلط نتیجے پر پہنچے ہیں اور انہوں نے بالکل غلط انداز میں کام کیا ہے۔ یہی غلط نتیجہ، غلط سوچ ، تباہ کن اور گمراہ کن طرز عمل کو مغربی ممالک رائج سکہ کی طرح دنیا میں عام کر دینا چاہتے ہیں۔ اگر کسی نے ان کی سوچ کے خلاف ایک لفظ بھی بول دیا تو ان کے بڑے بڑے تبلیغاتی ادارے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور کسی کو کچھ بولنے کا موقعہ ہی نہیں دیتے۔ اگر آپ عورت کے مسئلے میں درست حکمت عملی تک پہنچنا چاہتے ہیں اور اس کے ضروری لوازمات اور تقاضوں کی فراہمی کے ساتھ اس پر عملدرآمد کرنا اور دراز مدتی منصوبے کے تحت آگے بڑھنا اور منزل مقصود تک پہنچنا چاہتے ہیں تو اپنے ذہنوں کو مغربی افکار و نظریات سے خالی کردیجئے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ بالکل بے خبر رہیں۔ نہیں۔ ہم عدم آگاہی اور لاعلمی کے حامی ہرگز نہیں ہیں۔ میں تو آگاہ اور باخبر رہنے پر تاکید کرتا رہا ہوں، لیکن میں ان نظریات اور افکار کو مآخذ اور محور قرار دئیے جانے کا پوری طرح مخالف ہوں۔ عورتوں کے مسئلے میں مغرب والوں کے افکار، اہل مغرب کے نظریات ہرگز انسانی معاشرے کی صحیح ہدایت اور سعادت کا ذریعہ نہیں بن سکتے۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ان کے افکار، مادہ پرستی اور غیر معنوی رجحانات پر مبنی ہیں، یہ اپنے آپ میں بہت بڑی خامی ہے۔ جو بھی علمی مکتب فکر مادہ پرستانہ عقیدے اور شناخت پر استوار ہوگا، فطری طور پر وہ غلط مکتب فکر ہوگا۔ کائنات اور قدرت کے حقائق کو دیکھنا اور سمجھنا ہے تو معنوی و الوہی نقطہ نظر کے ساتھ، وجود خدا پر اعتقاد کے ساتھ، قدرت الہیہ پر مکمل یقین کے ساتھ، اللہ کو ہر جگہ اور ہر آن حاضر و ناظر سمجھتے ہوئے اس کی ربوبیت کے عقیدے کی بنیاد پر دیکھنا اور سمجھنا ہوگا۔ چونکہ اہل مغرب کی فکر و نظر کی بنیاد مادہ پرستی پر استوار ہے لہذا غلط ہے۔ یہ ایک بات ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عورت کے معاملے میں مغربی انداز اور اسٹریٹیجی جیسا کہ صنعتی انقلاب کی تاریخ میں انسان اچھی طرح دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے، بالکل تاجرانہ اور مادہ پرستانہ ہے۔ یعنی یورپ میں جہاں عورت کے مالکانہ حقوق نہیں ہوتے تھے بلکہ اس کے پاس جو کچھ ہوتا تھا مرد اور شوہر کی ملکیت سمجھا جاتا تھا، اسے خود اپنے مال میں کوئی تصرف کرنے کا حق نہیں ہوتا تھا، اسی طرح جب مغرب میں جمہوریت آئی تب بھی عورتوں کو رائے دہی کا حق نہیں تھا۔ اسی مغربی دنیا میں ایک دفعہ صنعتی انقلاب آتا ہے اور کارخانوں میں کم اجرت پر عورتوں کے کام کرنے کا مسئلہ، موضوع بحث بن جاتا ہے۔ تب اہل مغرب نے عورت کے لئے مالکانہ حقوق کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ تاکہ عورت کو کام کرنےکے لئے کارخانوں اور فیکٹریوں میں استعمال کیا جا سکے۔ عورت کو تنخواہ بھی کم دینا ہوتی تھی اور اس کے علاوہ جب عورت کام کے لئے آتی ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے کچھ  شرائط اور نتائج بھی یقینی تھے جن کا آج تک ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔ تو عورت کے معاملے میں اہل مغرب کی سوچ غیر معنوی اور مادہ پرستانہ ہے اور اس کے علاوہ اسی سوچ کی بنیاد پر جو پالسیاں وضع کی گئیں اور جن کی وجہ سے یورپ میں خاص طور پر اور مغرب میں عام طور پر جو حالات پیدا ہوئے وہ سب مادہ پرستی اور تاجرانہ طرز عمل کی وجہ سے پیدا ہوئے۔
عورت کے مسئلے میں مغرب کے نقطہ نگاہ سے دور رہنے  کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ مغرب کے نقطہ نظر سے عورت شہوانی خواہشات کی تسکین کا ایک ذریعہ ہے، اس حقیقت کو چھپانا ممکن نہیں ہے۔ ممکن ہے کوئی دعوی کرے کہ نہیں جناب حقیقت امر یہ نہیں ہے، مگر انسان ان کی زندگی پر نظر ڈالے تو بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ مغرب میں  یہی طرز فکر حکمفرما ہے۔ سماجی مقامات پر عورت کا لباس جتنا کم ہے اتنا ہی اچھا سمجھا جاتا ہے۔ وہ مردوں کے بارے میں اس طرح کی بات نہیں کرتے۔ سرکاری پروگراموں میں مرد تو پورے لباس میں ہوتے ہیں کوٹ، پینٹ، ٹائی اور نیک ٹائی پہنتے ہیں تب سرکاری اور رسمی تقاریب میں جاتے ہیں مگر انہی سرکاری پروگراموں میں عورتوں کی وضع قطع کچھ اور ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے مرد کی ہوسناک نگاہوں کی تسکین کے علاوہ کوئی اور فلسفہ نہیں ہو سکتا۔ آج مغربی دنیا میں یہی ماحول ہے اور عورتوں پر مغربی ممالک میں جو مظالم ہو رہے ہیں ان میں بنیادی زیادتی اسی قسم کی ہے۔
میں اخبارات کے تراشے رکھنے کا عادی نہیں ہوں مگر کل یا پرسوں میں نے اخبار میں ایک چیز دیکھی، مجھے محسوس ہوا کہ یہ بہت اہم چيزہے تو میں اسے آپ کے سامنے بیان کرنے کے لئے لایا ہوں ۔

امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے، جس کا عنوان ہے 'اقدام کا تقاضا' یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور عورتوں کے خلاف وحشتناک زیادتیوں کے موضوع پر مبنی کتاب ہے۔ اس کتاب میں جمی کارٹر نے لکھا ہے؛ "امریکہ میں ہر سال ایک لاکھ لڑکیاں کنیز کے طور پر فروخت کی جاتی ہیں۔ طوائف خانوں کے مالک لڑکیوں کو جو عام طور پر لاطینی امریکہ یا افریقہ کے ملکوں کی ہوتی ہیں، ایک ہزار ڈالر کی قیمت پر خرید لیتے ہیں۔ جمی کارٹر نے کالجوں میں ہونے والی جنسی زیادتیوں کا بھی ذکر کیا ہے، مگر اس طرح کے پچیس واقعات میں سے صرف ایک واقعہ کی شکایت درج کرائی جاتی ہے۔ کارٹر نے اسی طرح یہ بھی لکھا ہے کہ فوج میں جنسی زیادتی کا ارتکاب کرنے والوں میں صرف ایک فیصد افراد کے خلاف ہی کوئی قانونی کارروائی ہو پاتی ہے۔ یہ حالات دیکھ کر انسان سر پیٹ لیتا ہے؛ اس طرح کی خبریں آپ اخبارات میں کثرت سے دیکھتے ہیں، میں بھی پڑھتا ہوں، میں کبھی بھی ان خبروں کا حوالہ نہیں دیتا۔ مگر یہ بہرحال حقیقت ہے۔ جمی کارٹر ایک مشہور شخصیت ہے اور یہ کتاب جمی کارٹر کی تصنیف ہے۔ دنیا میں آخر یہ کیا حالات پیدا ہو گئے ہیں؟ یہ عورتوں کا کیسا احترام ہے؟ مغرب کا نامور قلمکار طوائف کے پیشے کو ایک باعزت پیشہ ظاہر کرنے کے مقصد سے ایک ناول لکھتا ہے جس کا فارسی زبان میں بھی ترجمہ ہوا ہے۔ اس کتاب میں یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح فاحشہ عورتوں کے دلال لاطینی امریکہ کے ممالک سے لڑکیوں کو سبز باغ دکھا کر لے جاتے ہیں اور فروخت کر دیتے ہیں، اس کتاب میں یورپ کے حالات بتائے گئے ہیں، امریکہ کے بارے میں نہیں ہے۔ اس کتاب میں جنسیات کو ایک باعزت پیشے کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ عورت کے بارے میں مغرب کی ثقافت اور سوچ ایسی ہے ،ان کی نظر میں عورتوں کا احترام یہی ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ عورت کے بارے میں ہماری فکر و نظر درست اور منطقی ہو تو اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ ہم عورتوں کے بارے میں مغرب کی تقلید نہ کریں عورتوں کے بارے میں اہل مغرب جو باتیں کرتے ہیں، روزگار کے بارے میں، انتظامی امور کے بارے میں اور جنسی مساوات کے بارے میں ان سے اپنے ذہنوں کو پاک کریں۔ مغربی نقطہ نظر کی عورتوں کے بارے میں ایک بہت بڑی خامی یہی جنسی مساوات کا مسئلہ ہے۔ انصاف ہمیشہ برحق ہوتا ہے لیکن  مساوات کبھی حق کےمطابق ہوتی ہے اور کبھی باطل کے۔ آخر جس انسان کو فطری ساخت کے اعتبار سے، جسمانی لحاظ سے بھی اور جذبات و احساسات کے اعتبار سے بھی انسانی زندگی کے ایک خاص شعبے کے لئے بنایا گيا ہے، اس خاص شعبے سے اسے الگ کرکے ایک اور شعبے میں جو کسی اور ساخت والے افراد کے لئے اللہ تعالی نے خلق فرمایا ہے، گھسیٹ لائیں؟ آخر کیوں؟ اس میں کون سی منطق ہے اور یہ کیسی ہمدردی ہے؟ مردوں کے کام عورتوں پر کیوں مسلط کئے جائيں؟ عورت کے لئے یہ کون سا فخر ہے کہ وہ مردانہ کام سرانجام دیں۔ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ بعض اوقات خود خواتین اس مسئلے کا دفاع کرتی ہیں۔ مردوں میں اور ہم میں کیا فرق ہے؟ بیشک بہت سی چیزوں کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام مرد و عورت کو ایک نگاہ سے دیکھتا ہے انسانیت کے مسئلے میں، معنوی منزلیں طے کرنے کے مسئلے میں، بے پناہ فکری و علمی صلاحیتوں کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔ لیکن دونوں کے قالب الگ الگ ہیں۔ ایک قالب کسی کام کے لئے اور دوسرا قالب کسی اور قسم کے کاموں کے لئے ہے۔ البتہ کچھ کام مشترکہ ہیں۔ کیا یہ بہت بڑی خدمت ہے کہ ہم ایک پیکر کو اس کے خاص شعبے سے باہر نکال کر دوسرے پیکر سے مخصوص شعبے میں پہنچا دیں؟ مغرب والے یہی کام کر رہے ہیں۔ ان کے بہت سے بین الاقوامی کنونشنوں کی بنیاد یہی ہے۔ اسی غلط سوچ کی بنیاد پر انہوں نے انسانی زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ خود کو تباہ کر ڈالا اور اب دوسروں کو بھی برباد کر دینے پر کمر بستہ ہیں۔ آپ محترم خواتین صاحب علم ہیں، صاحب فضل ہیں، ممتاز حیثیت کی مالک ہیں۔ میں آپ کا احترام کرتا ہوں۔ جب کسی نشست اور اجتماع میں خواتین تقریر کرتی ہیں تو مجھے بہت سی مفید باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ اسی جگہ جہاں اس وقت ہم جمع ہیں عورت اور خاندان کے سلسلے میں اسٹراٹیجک نظریات کی ایک نشست منعقد ہوئی تھی۔ کچھ خواتین نے آکر تقریریں کیں۔ میں حقیقت عرض کر رہا ہوں کہ جو نکات انہوں نے بیان کئے میں نے ان سے استفادہ کیا۔ میرا خیال یہ ہے کہ اگر آپ عورت کے اساسی و بنیادی مسئلے، عورت کی مشکلات اور ہمارے وطن عزیز سمیت ہر جگہ صنف نسواں کو در پیش مسائل کے بارے میں غور و خوض کرنا چاہتے ہیں تو اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ خود کو، اپنے ذہن کو ان مغربی افکار سے دور کریں جو غلط روایات  اور رجعت پسندانہ افکار ہیں۔ ان افکار سے نجات حاصل کیجئے جن کا ظاہر نیا مگر باطن رجعت پسندانہ، ظاہر ہمدردانہ مگر باطن خیانت آمیز ہے۔ مغربی افکار سے آزاد نظریہ قائم کیجئے۔
دوسرا اہم تقاضا یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات اور متون سے رجوع کیجئے۔ قرآن سے، سنت پیغمبر (ص)سے، احادیث سے، دعاؤں سے، اسلامی متون اور ائمہ علیہم السلام کی رفتار و گفتار سے اصلی اصولوں اور بنیادوں کو اخذ کیجئے۔ یہ وحی ہے، اور وحی کلام خدا ہے اور اللہ ہی ہمارا اور آپ کا خالق ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ دین کے نام پر لوگوں کی زبان سے جو سنئے قبول کر لیجئے۔ نہیں۔ ان دینی باتوں پر عمل کیجئے جو استنباط کی صلاحیت و اہلیت رکھنے والے افراد صحیح روش کے مطابق پیش کریں۔ کتاب خدا، سنت پیغمبر اسلام ، آئمہ علیہم السلام کی روش اور اقوال کو مآخذ قرار دیا جائے اور اس کی بنیاد پر طے کیا جائے کہ ہمیں عورتوں کے مسائل میں کیا حکمت عملی وضع کرنا چاہیے اور کون سا راستہ اختیار کرناچاہیے۔
میری نظر میں یہ دو بنیادی کام ہیں۔ تیسرا اہم کام یہ ہے کہ خواتین کے مسائل کا احاطہ کرنے کے عمل میں حقیقی طور پر بنیادی مسائل پر توجہ دی جائے، دوسرے درجے کے فروعی مسائل پر نہیں۔ خاندان کا مسئلہ اور خاندان کے اندر عورت کے احترام، سکون و اطمینان اور تحفظ و سلامتی کا مسئلہ کلیدی مسائل میں ہے۔ کچھ اساسی مسائل ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے۔
آپ ملاحظہ کیجئے اور جائزہ لیجئے کہ خاندان کے اندر عورت کا سکون اور اطمینان سلب کر لینے والے اسباب و عوامل کیا ہیں؟ اس کوشش میں رہئے کہ قانون کے ذریعہ، تبلیغ کے ذریعہ اور دیگر مختلف روشوں کی مدد سے ان اسباب کو کیسے برطرف کیا جائے؟ یہ مسئلے کا بنیادی پہلو ہے۔ عورت گھر کے اندر سکون و آرام کا سرچشمہ ہے، شوہر، اولاد، بیٹی اور بیٹے کی آسودہ خیالی کا ذریعہ ہے۔ اب اگر خود اس عورت کو فکری و ذہنی سکون و آسودگی میسر نہ ہو تو وہ گھر میں پرسکون ماحول کیسے پیدا کر سکے گی؟ جس عورت کو توہین آمیز رفتار اور سلوک کا سامنا ہے، جس پر کام کا شدید دباؤ ہے وہ گھر کی مالک اور گھر کی منتظمہ کیسے بن سکتی ہے؟ جبکہ عورت گھر کی منتظمہ ہوتی ہے۔ یہ کلیدی مسئلہ ہے۔ یہ ان اساسی مسائل میں ہے جن پر ہمارے ماحول اور سماج میں خواہ وہ قدیمی ماحول ہو یا آج کا جدید ماحول، کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے۔ جبکہ اس پر خاص توجہ مبذول کرنے کی بہت ضرورت ہے۔
عورت کا گھر کے اندر تصور ، درحقیقت دوسرے درجے کی شئ کا تصور ہوتا ہے جو دوسروں کی خدمت پر مامور ہے۔ یہ تصور بہت سے لوگوں کے اندر پایا جاتا ہے۔ بعض افراد ہیں جو زبان سے اس کا اعتراف کرتے ہیں، برملا اظہار کرتے ہیں اور بعض لوگ ظاہر نہیں کرتے مگر ان کےدل میں بھی یہی فکر ہے۔ یہ اسلام کی منشاء کے بالکل برخلاف ہے۔ میں نے یہ حدیث بارہا نقل کی ہے؛ «اَلمَرأَةُ رَیحانَةٌ وَ لَیسَت بِقَهرَمانَة»(2) عربی کی رائج اصطلاحات میں قھرمان، ملازم کو کہتے ہیں، مثال کے طور پر اس طرح کہتے ہیں؛ «اَمَرَ قَهرِمانَهُ بِکَذا» یعنی فلاں سرمایہ دار اور دولتمند نے اپنے قھرمان یعنی ملازم کو  املاک کے امور کی دیکھ بھال کا حکم دیا۔ تو اسے کہتے ہیں قھرمان۔ اس حدیث میں ارشاد ہوتا ہے؛ یہ تصور نہ کرو کہ عورت گھر کے اندر تمہاری ملازمہ ہے اور اس کی ذمہ داری ہے کہ گھر کے کام کاج انجام دے۔ ایسا نہیں ہے۔ اب آپ دیکھئے یہ ایک مکمل باب ہے جس سے کئی فصلیں نکلتی ہیں؛ گھر کے اندر عورت کی محنت و مشقت کی اہمیت کا مسئلہ، اسے کاموں پر مجبور نہ کئے جانے کا مسئلہ، اس کے اس کام کی باقاعدہ اجرت ادا کرنے کا مسئلہ، یہ ساری فصلیں ہیں۔ یہ چیزیں اسلام میں ہیں، اسلامی فقہ میں موجود ہیں۔ جیسا کہ محترمہ نے اشارہ کیا واقعی ہماری فقہ بڑی ممتاز اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ فقہ ہے۔ مگر کچھ لوگ اس کی بعض باتیں لے لیتے ہیں اور بعض باتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جبکہ کچھ چیزوں میں مغرب کے پست افکار سے ہم آہنگ کرنے کے لئے رد و بدل کر دیتے ہیں۔ یہ چیزیں ہم نے دیکھی ہیں۔
بعض لوگ مغرب والوں کی ناراضگی کے خوف سے، بعض اسلامی احکامات کے حقائق میں، بالکل واضح اسلامی احکامات میں بھی تحریف کر دیتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے: وَ اِن تُطِع اَکثَرَ مَن فِى الاَرضِ یُضِلّوکَ عَن سَبیلِ‌اللهِ اِن یَتَّبِعونَ اِلّا الظَّنَّ وَ اِن هُم اِلّا یَخرُصُون؛(3) جہل و خرافات کی دنیا میں رائج افکار کی پیروی نہیں کرنا چاہیے، اسلامی افکار کی نشاندہی کرکے ان افکار کے مطابق چلنا چاہیے خواہ اس کی کچھ لوگ برائی ہی کیوں نہ کریں۔ یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ تو ضروری ہے کہ اہم مسائل کی نشاندہی کی جائے۔ میری نظر میں ایک اصلی موضوع اور کلیدی مسئلہ گھر اور خاندان کا ہے۔ گھر کے ماحول میں عورت کا تحفظ، خاندان کے اندر عورت کو مواقع کی فراہمی، صلاحیتوں کو نکھارنے کے مقصد سے کی جانے والی خانہ داری اس کی تعلیم میں رکاوٹ نہ بننے پائے، اس کے مطالعہ میں خلل کا باعث نہ ہو، اس کے فہم و ادراک اور تحریر و تصنیف میں رکاوٹ کا سبب نہ بنے  ۔ جو خاتون ان چیزوں کا شوق رکھتی ہے اسے سازگار ماحول اور حالات فراہم کرنا چاہیے۔ یہ ایک بنیادی اور اساسی چیز ہے۔
عورتوں کی ملازمت اور روزگار کا مسئلہ کلیدی اور اصلی مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ ہم عورتوں کے روزگار اور ملازمت کی مخالفت نہیں کرتے۔ میں نہ تو ان کی ملازمت کا مخالف ہوں، نہ اعلی عہدوں پر فائز ہونے کی مخالفت کرتا ہوں، مگر اس وقت تک جب تک یہ ملازمت ان اصلی اور کلیدی مسائل سے متصادم نہ ہو جائے۔ اگر متصادم ہو تو پھر ترجیح اسی اصلی اور کلیدی مسئلے کو حاصل ہوگی۔ اس تیسرے میدان میں جس کا ہم نے ذکر کیا جو اہم کام انجام پانا چاہیے وہ یہ ہے کہ جائزہ لیا جائے کہ ان اوصاف اور خصوصیات کی مالک خواتین کے لئے مناسب پیشے اور کام کون سے ہیں؟ بعض پیشے ایسے ہیں جو صنف نسواں کے لئے مناسب نہیں ہیں تو وہ ان کی طرف نہ جائیں۔ اسی طرح تعلیم کے دوران ان پیشوں کی طرف لے جانے والے مضامین خواتین پر مسلط نہ کئے جائیں۔ یہ جو یونیورسٹی اور تعلیم کے مسئلے میں بعض لوگ ہنگامہ آرائی کرتے ہیں کہ تعلیم میں بھی تفریق و امتیاز ہے تو حقیقت یہ ہے کہ تفریق ہر جگہ بری نہیں ہوتی۔ تفریق وہاں بری ہے جہاں ناانصافی کا باعث بنے۔ ورنہ آپ فرض کیجئے کہ آپ کسی فٹبال ٹیم میں ایک کھلاڑی کو حملے کی جگہ رکھتے ہیں، کسی کھلاڑی کو دفاع کے لئے رکھتے ہیں، کسی کھلاڑی کو گول کیپر بناتے ہیں، یہ بھی تفریق ہے۔ اگر ڈیفنس کرنے والے کو آپ حملہ آور بنا دیں تو ٹیم شکست کھا جائیگی، جو اگول مارنے اور خملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اگر اسے آپ گول کیپر بنا دیں جو اس کی مہارت نہیں رکھتا تو ٹیم کو شکست ہوگی۔ یہ بھی تفریق ہے مگر یہ تفریق انصاف کے مطابق ہے۔ کسی کو کسی مقام پر اور دوسرے کو کسی اور مقام پر رکھا جاتا ہے۔ تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ دراز مدتی اہداف کے پیش نظر کون سے مضامین اور موضوعات خواتین کے لئے مناسب اور مفید ہیں وہی موضوعات انہیں دئیے جائیں۔ لڑکیوں کو مجبور نہ کیا جائے کہ آپ چونکہ داخلے کے امتحان میں فلاں پوزیشن حاصل نہیں کر سکیں اور آپ کو اتنے نمبر نہیں ملے لہذا آپ فلاں مضمون نہیں پڑھ سکتیں، آپ کو تو بس فلاں موضوع ہی دیا جائے گا، حالانکہ وہ موضوع نسوانی مزاج سے مطابقت رکھتا ہے نہ ہی اعلی اہداف کے لئے سازگار ہے اور نہ ہی اس موضوع کی تعلیم کے نتیجے میں جو کام اس طالبہ کو ملنے والا ہے وہ اس کے لئے مناسب ہے۔ عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں میرے اعتبار سے ان چیزوں پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ یہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے کہ عورت وہ سارے کام نہیں کر سکتی جو کام مرد انجام دیتا ہے۔ بالکل نہیں۔ عیب تو اس پیشے اور کام میں ہے جو عورتوں کی خداداد فطرت و طبیعت سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔ تو یہ میرے عرائض ہیں، البتہ میں نے کچھ اور چیزیں بھی نوٹ کی تھیں مگر آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔
عورتوں کا مسئلہ بڑا اہم مسئلہ ہے اور اس مسئلے کو بہترین انداز سے خود خواتین ہی حل کر سکتی ہیں۔ ہمارے یہاں اعلی تعلیم یافتہ، اچھی فکر کی مالک، با صلاحیت، اچھا قلم اور اچھا اسلوب بیان رکھنے والی خواتین کی کثرت ہے۔ آج ہمارے ملک میں ما شاء اللہ ایسی خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہم نے یہ عرض کیا کہ وطن عزیز کی پوری تاریخ میں کبھی بھی اتنی تعداد میں اعلی تعلیم یافتہ، نمایاں صلاحیتوں کی مالک خواتین نہیں رہیں۔ نہ دینی علوم کے شعبے میں اور نہ یونیورسٹیوں کے اندر۔ اس کثیر تعداد میں اہل قلم خواتین، اتنی شاعرہ خواتین ، اس کثرت کے ساتھ محقق خواتین، مختلف شعبوں میں تحقیقاتی کام انجام دینے والی خواتین پہلے نہیں تھیں مگر اسلامی نظام کی برکت سے آج ہمارے پاس یہ نعمت فراواں مقدار میں موجود ہے۔ یہ سب اسلام کی برکت ہے، یہ اسلامی جمہوریہ کی برکت ہے، عورت کے سلسلے میں حضرت امام خمینی(رہ)  کے روشن نقطہ نگاہ کی برکت سے ہے جس کا ذکر محترمہ (4) نے کیا۔ یہ صورت حال ہمارے ملک میں پہلے کبھی نہیں رہی۔ ہمیں اللہ کا شکر و سپاس ادا کرنا چاہیے، اس کی توفیقات پر سر سجدہ میں رکھنا چاہیے اور توفیقات میں اضافہ کی دعا کرنا چاہیے، ان توفیقات پر بار بار شکر ادا کرنا چاہیے۔ شکر ادا کرنے کا طریقہ وہی ہے جو ہم نے عرض کیا کہ اللہ کی جانب سے ملنے والی تعلیمات پر توجہ دی جائے اور مادہ پرستانہ ہدایات سے دور ہرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو اہل مغرب اور امریکیوں کی جانب سے ہیں، جنہیں وہ بڑی شد ومد سے پیش کر رہے ہیں اور ہنگامہ آرائی کر رہے ہیں۔ ان کی ان غلط باتوں کے خلاف کوئی زبان کھولے تو وہ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں، لیکن ان کی اس تبلیغاتی یلغار پر توجہ نہیں کرنی چاہیے بلکہ اپنے راستے پر آگے کی سمت گامزن رہنا چاہیے۔

والسّلام علیکم ورحمةالله و برکاته‌

……………………………………………

1:خانم شهیندخت مولاوردى ( خواتین اور خاندانی امور میں صدر کی معاون)
2:نهج‌البلاغه، مکتوب نمبر‌
۳۱
3: سوره‌ انعام، آیه‌
۱۱۶
4:محترمہ مولاوردى‌