ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا ہفتہ مزدور کی مناسبت سےملک کی پیداوار میں فعال کارکنوں اور مزدوروں کے اجتماع سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں آپ تمام بھائیوں ، بہنوں اور ملک کی پیشرفت وترقی میں گرانقدر خدمات انجام دینے والے اہلکاروں کو خوش آمدید عرض کرتا ہوں ملک کی پیشرفت اور نمایاں ترقی کے سب سے دشوار شعبوں میں آپ اہم ذمہ داریاں متانت اور سنجیدگی کے ساتھ نبھا رہے ہیں  آپ کے دوش پر سنگين ذمہ داری عائد ہے اور قوم کی سعادت و خوشبختی کے لئے آپ اپنے دوش پر کام کا سنگين بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالی آپ کی کوششوں اور زحمات کا قدرداں ہے اور انشاء اللہ آپ تمام اہلکاروں اور زحمتکشوں کو اللہ تعالی اپنے اجر و ثواب سے نوازےگا۔ یوم مزدور کی مناسبت سے حسب معمول اہل قلم و بیان اورمقررین و مصنفین حضرات، مزدور طبقہ کی زحمات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں؛ جو بہت ہی مناسب اور بجا ہے لکھنے اور بیان کرنے سے مزدور کے رتبے میں کتنا اضافہ ہوتا اور اس کی قدر و قیمت اور رتبہ  میں کتنی رفعت و بلندی حاصل ہوتی ہے اس کواگر مد نظر نہ بھی رکھا جائے تو بھی معاشرے میں مزدور کی اصلی اور بنیادی تعریف اور منقبت یہ ہے کہ مزدور اپنے بدن کے ذریعہ، اپنے جسم و جاں کے ذریعہ ، اپنی عقل اور اپنے دماغ کے ذریعہ ، ملک کی ترقی و پیشرفت اور عوام کی آسائش اور آرام کے اسباب فراہم کرتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ دیگر عناصر اور عوامل بھی اس سلسلے میں مؤثر ہیں جیسے سرمایہ کاری، مدیریت  اور ان کی اپنے مقام پر قدر دانی ہونی چاہیے لیکن مزدور اپنے جسم و جاں کے ذریعہ کام انجام دیتا ہے؛ اس کی قدر و قیمت دگنی اور مضاعف ہونی چاہیے۔

اگر کسی ملک میں ماہر کار گر اور مزدور نہ ہوں، یا اگر کمزور، ناتواں اور ضعیف ہوں یا مہارت نہ رکھتے ہوں یا ان کی فکر و سوچ مختلف سیاسی گروہوں میں مشغول اور بٹی ہوئی ہو، تو وہ ملک مفلوج ہوجائے گا۔ ملک کا مزدور طبقہ ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے یہ آپ لوگ ہیں جو ملک کو مفلوج ہونے سے بچاتے ہیں ؛ اس بات کا علم ہونا چاہیے؛ یہ بات پوری قوم کو جاننی اور پہچاننی چاہیے، ثقافت کے شعبہ میں بھی عوام کو کام کی قدر و قیمت سے آگاہ ہونا چاہیے؛ اور قانون بنانے والوں اور قانون کا نفاذ کرنے والوں کو بھی عملی طور پر مزدور طبقہ پر ہمیشہ نظر رکھنی چاہیے۔اگر ملک میں مزدور طبقہ فلاح و بہبود اور امید سے سرشار ہو نوکری کے لحاظ سے  مطمئن ہو تو پیشرفت و ترقی کی سمت ملک کی حرکت آسان ہوجائےگی؛ یہ ایک حقیقت ہے اور ہم سب کو اس حقیقت کو درک اور محسوس کرنا چاہیے۔

میرا اس بات پر یقین ہے کہ ہمارے ملک میں مزدور طبقہ کی اہمیت اس سے بھی کہیں بلند و بالا ہے۔ میں نےجس بات کی طرف اوپراشارہ کیا وہ تمام ممالک سے متعلق ہے لیکن یہاں ایک مضاعف چیز بھی موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ مزدوروں نے اپنی نوکری کی ذمہ داریاں انجام دینے کے علاوہ  ملکی اور انقلابی ذمہ داریوں کو بھی اچھی طرح انجام دیا ہے انھوں نے انقلاب کے آغاز اور کامیابی کے موقع پر بھی اس ذمہ داری پر عمل کیا اور اس دور میں مزدوروں کی عظيم حرکت فتح کی ایک اہم کلید تھی، تیل کمپنی کے مزدور وغیرہ وغیرہ ، مسلط کردہ جنگ کے دوران ، محاذ جنگ پر، جدھر بھی انسان دیکھتا تھا جوان اور بوڑھے مزدور کام اور فعالیت کرتے نظر آتے تھے مزدوروں نے خامیوں  اور کمیوں کو پورا کردیا ، مختلف سیاسی حوادث میں بھی مزدور طبقہ  کو کوئی اغوا نہیں کرسکا بعض سیاسی افراد مزدوروں کو انقلاب اسلامی اور نظام اسلامی کے مد مقابل قراردینا چاہتے تھے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے البتہ بہت سے  افراد ان حقائق کو نہیں جانتے ؛ لیکن ہم نے قریب سے مشاہدہ اورلمس کیا ہے۔

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے ابتدائی ایام میں مغربی تہران میں مزدوروں کے ایک اجتماع میں، میں نےذاتی اور شخصی طور پر شرکت کی تو وہاں میں نے مشاہدہ کیا کہ اسلام اور انقلاب کے دشمن کیسی کیسی سرگرمیوں میں مشغول اور مصروف ہیں انھوں نے کیسے کیسے منصوبے اور پروگرام مرتب کررکھے تھے؛ وہ انقلاب کے ابتدائی مراحل ہی میں ، انقلاب اسلامی کے ابتدائی ایام ہی میں مزدور طبقہ کے ذریعہ اپنے سیاسی مقاصد تک پہنچنا چاہتے تھے اور اپنے سے وابستہ سیاسی طاقتوں  کو مضبوط بنانا چاہتے تھے۔ میں نے اس چیز کو  بہت قریب سے  مشاہدہ کیا؛ لیکن مؤمن مزدوروں نے، حضرت امام خمینی (رہ) پر اعتماد رکھنے والے مزدوروں نے، با ایمان مزدوروں نے، علماء پر بھروسہ رکھنے والے مزدوروں نے ان کے منصوبوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس  سلسلے میں انھوں نے  بہترین شجاعت اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ اور یہ سلسلہ کئی برسوں تک جاری رہا، آج 34 سال بیت گئے ہیں ؛ بہت سے لوگوں نے مزدور طبقہ کو انقلاب اسلامی کے مقابلے میں لانے کے لئے تلاش و کوشش کی پیسہ خرچ کیا لیکن انھیں کچھ نہیں ملا اور مزدور طبقہ نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا؛ اور یہ بات بہت ہی اہم بات ہے اور اس بات سے ہمارے مزدوروں کی قدر و قیمت کا پتہ چلتا ہے ، ہمارے مزدوروں کی ثقافتی ، انقلابی اور انسانی اقدار کا پتہ چلتا ہے؛ اس بات کا سب کو خیال رکھنا چاہیے ، سمجھنا چاہیے اور مزدوروں کو اپنے اس عمل پر فخر کرنا چاہیے۔

ہم نے گذشتہ سال ایرانی کام اور ایرانی سرمایہ کی حمایت میں بات کہی تھی جبکہ یہ معاملہ ایک سال میں تمام ہونے والا معاملہ نہیں ہے۔ اب دوستوں اور حکام کی جانب سے کچھ رپورٹیں موصول ہورہی ہیں کہ کچھ امور انجام پذیر ہوئے ہیں؛ بہت اچھی بات ہے؛ اللہ ہر اس کام پر اجر و ثواب اور برکت عطا کرتا ہے جو صحیح اور خالص نیت کے ساتھ انجام دیا جائے ؛ لیکن کام کا بنیادی طور پر اور سنجیدگی کے ساتھ پیچھا کرنا چاہیے؛اور یہ ہر انسان کی ذمہ داری ہے، میں نےثقافت سازی کے سلسلے میں جو بات پیش کی تھی اس کا اہم حصہ یہی ہے۔

ہم نے اندرونی پیداوار ، ایرانی کام اور ایرانی سرمایہ کی حمایت کی  بات کی تھی؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ مغربی ناموں کی چمک دمک آنکھوں کو اپنی طرف مبذول نہ کرے۔ سب کو جاننا چاہیے کہ اندرونی محصول کو خرید کر ،وہ  ایک ایرانی مزدور کو فائدہ پہنچا سکتےہیں اور بیرونی محصول خرید کر ایرانی مزدور کو محروم اور غیر ایرانی مزدور کو فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔ البتہ ہمیں تمام بشریت سے محبت و پیار ہے، لیکن ایرانی مزدور اس ملک کی سربلندی اور پیشرفت کے لئے کام کررہا ہے، جو اس عظیم قوم کے مجموعہ کا حصہ ہے؛ اس کی تائيد اور تشویق کرنی چاہیے، اس کو قوت بہم پہنچانی چاہیے ؛ بعض افراد اس مطلب کو سمجھنے اور درک کرنے سے قاصر اور عاجز ہیں یا ان کے لئے ایرانی اور غیر ایرانی پیداوار میں کوئی فرق نہیں ہے؛ یا ممکن ہے اس کےبرعکس ہو ، ایرانی پیدوار کے نشان کی تلاش کے بجائے وہ غیر ملکی پیدوار کے نشان  کی تلاش و جستجو میں  رہتےہیں؛ یہ واضح انحراف ہے، یہ اشتباہ اور خطا ہے میرے اس بیان کے مخاطب سبھی افراد ہیں۔

میں پوری قوم سے درخواست کرتا ہوں ، تاکید کرتا ہوں، اصرار کرتا ہوں کہ وہ داخلی پیداوار اور اندرونی محصولات کے استعمال پر توجہ دیں؛ یہ معمولی کام نہیں ہے۔ یہ بہت بڑا اور عظیم کام ہے، البتہ اس سلسلے میں حکومتی اداروں کے دوش پر بھی اہم اور دگنی ذمہ داری عائد ہوتی ہے فلاں وزارت خانہ، یا فلاں ادارہ اپنے لئے ضروری اشیاء کو فراہم کرنا چاہتا ہے تو اسے بھی غیر ملکی اشیاء سے استفادہ نہیں کرنا چاہیے انھیں بھی اندرونی پیداوار سے استفادہ کرنا چاہیے اور ادھر اشیاء اور اجناس  سے متعلق مدیروں، مزدوروں ، اہلکاروں اور سرمایہ کاروں سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ درست ، تمییز اور عالمی اسٹینڈر کے مطابق اشیاء بنائیں  اور ان دونوں چیزوں یعنی پیداوار اور استعمال کے بارے میں ہمارے مقدس دین میں بہت سفارش کی گئی ہے اللہ تعالی نے ہم سے  مضبوط اور مستحکم کام کا مطالبہ کیا ہے، اللہ تعالی نے ہم سے مزدور کے احترام کا مطالبہ کیا ہے اللہ تعالی نے ہم سے مزدور کی نوکری کو مطمئن بنانے کے سلسلے میں مطالبہ کیا ہے اور سرمایہ کی حفاظت کا بھی اللہ تعالی نے ہم سے مطالبہ کیا ہے۔

یہ تمام موارد جب ایک دوسرے کے ساتھ  منسلک ہوجاتے ہیں تو پھر وہ افراط و تفریط باقی نہیں رہتی جو آج یورپی مالک کے دامنگیر ہے جہاں آزاد اور لیبرل اقتصاد حاکم ہے جو ان کے قول کے مطابق آزاد ہے لیکن یہ آزادی صرف سرمایہ دارانہ نظام کے لئے ہے لیکن فقیر اور مظلوم طبقہ کے لئے ان کی اقتصادی آزادی صرف جیل اور دباؤ کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ یورپ میں آج اس نظام کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور اسی طرح سوشلسٹ اقتصادی نظام بھی دم توڑ چکاہے لیبرل معاشی پالیسیاں آج یورپ  اور امریکہ میں ناکام ہوچکی ہیں اور تجربہ سے ثابت ہوگیا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام غلط اور ناکام نظام ہے۔ حتی اس کا ان لوگوں کے لئے بھی کوئی فائدہ نہیں جن کی حمایت کے لئے یہ اقتصاد پیدا کیا جارہا ہے۔ یورپی ممالک میں تو مزدور طبقہ کے حقوق کئی برسوں سے  پامال کئے جارہے ہیں حتی یہ نظام، بینکاروں، بڑے بڑے سرمایہ دار گروہوں اورٹراسٹس کے فائدے میں بھی نہیں ہے؛ یہ ابھی ابتدائی مراحل ہیں، تازہ آغاز ہوا ہے، مغربی ممالک میں  اس کے بعد اس سے بھی بدترین حوادث رونما ہوں گے، وہ اس بری معاشی صورتحال کو ٹھیک کرنے کے وعدے کررہے ہیں؛ لیکن وہ ٹھیک نہیں کرپائیں گے یہ زوال اور پھسلنے کا راستہ ہے، وہ پستی کی طرف جارہے ہیں اور یہ مغرب کے غلط مادی تمدن کے زوال کا ایک حصہ ہے ان کی ثقافتی ، اعتقادی اور اخلاقی پستی کا مسئلہ ایک الگ مسئلہ ہے ہمارے لئے ایک تجربہ ہے اور ادھر سوشلسٹ اقتصادی نظام کئی برس پہلے ہی ناکام اور شکست سے دوچار ہوچکا ہے۔

اسلام کے پاس تمام میدانوں میں میانہ روی، اعتدال ، انسانیت اور انصاف پسندی پر مشتمل پالیسی ہے اور اس میدان میں بھی اسلام کا نقطہ نظر یہی ہے اس طرف کی بھی رعایت ، اس طرف کی بھی رعایت؛ ایکدوسرے کے ساتھ ان کی باہمی اخوت و برادری، عدم تضاد؛ اور سب کی توجہ  اپنی الہی ذمہ داری اور تکلیف پر مرکوز، اور سب کی اس بات پر توجہ کہ اللہ تعالی حاضر و ناظر ہے ان چیزوں کو ثقافتی اور عملی طور پر ہماری زندگی کا حصہ بننا چاہیے۔

ہم نے سیاسی رزم و جہاد اور اقتصادی رزم و جہاد کے بارے میں عرض کیا؛ اقتصادی رزم و جہاد صرف حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہے؛ البتہ حکومت کے منصوبے اور پروگرام اس سلسلے میں مفید اور مؤثر ہیں، حماسہ یعنی مجاہدانہ تلاش و کوشش اور ولولہ؛ ایرانی قوم اور ایرانی حکام کو اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے اسے مد نظر رکھنا چاہیے؛ خامیوں اور کمزوریوں کو برطرف کرنا چاہیے؛ سب سے پہلے پہچاننا چاہیے؛تمام پروگراموں اور منصوبوں میں کمزور طبقات کی معیشت اور نچلی سطح کے لوگوں کی زندگی کو مد نظر رکھنا چاہیے؛اس کے بعد ان کے لئے منصوبہ بندی کرنی چاہیے،اسے رزم و جہاد اور حماسہ کہتے ہیں، اس سلسلے میں ہر فرد کو جد وجہد کرنی چاہیے چاہے اپنے مصرف میں ، چاہے اپنی پیداوار میں ، صنعتی شعبہ اپنے طور پر، مصرف کرنے والے شعبہ اپنے طور پر ، خدمات سے متعلق شعبہ اپنے طور پر اقتصادی رزم و جہاد کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ ملک کی پیشرفت کے لئے دوچنداں سرعت ضروری ہے، رزم و جہاد ضروری ہے؛  اسی صورت میں ملک آگے بڑھےگا، ملک میں استقرار پیدا ہوگا، سیاسی رزم و جہاد اور اقتصادی رزم وجہاد دونوں باہم ایکدوسرے کی تقویت، استحکام اور حفاظت کا باعث بنیں گے۔

ہم نے سال کے آغاز پر سیاسی اور اقتصادی رزم و جہاد کی جو بات کی، ہمیں معلوم تھا کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں؛ دشمن بھی سمجھ رہا تھا کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں دشمن نے اقتصادی دباؤ اور اقتصادی پابندیوں کے ذریعہ عوام کو میدان سے خارج کرنے کی بہت  تلاش و کوشش کی، دشمن نے یہ بھی کہا کہ ہماری دشمنی اور عداوت عوام کے ساتھ نہیں ہے، وہ جھوٹ بولتے ہیں وہ آسانی کے ساتھ جھوٹ اور غلط بیانی کا سہارا لیتے ہیں ان کے دباؤ کا مقصد عوام کو پریشان اور ناراحت کرنا ہے، عوام مشکلات سے دوچار ہوں ؛ عوام پر دباؤ ڈالا جائے تاکہ اس طرح عوام اور اسلامی نظام کے درمیان فاصلہ ایجاد کرسکیں؛ ان کا مقصد عوام پر دباؤ ڈالنا ہے، چنانچہ اگر مختلف سطحوں پر قوہ مقننہ اور مجریہ کے مختلف حصوں میں یہ عظیم اقتصادی حرکت ، یہ شاندار اقتصادی سرعت، اس درست منصوبہ بندی پر توجہ مرکوز ہو تو دشمن کا ہر قسم کا دباؤ ناکام اور شکست سے دوچار ہوجائے گا، ایرانی قوم اور ملک کے حکام کو چاہیے کہ وہ پختہ عزم کے ساتھ دشمن کو مایوس بنانے کی تلاش و کوشش میں مصروف رہیں۔

سیاسی رزم و جہاد میں بھی اسی قسم کی رفتار ہونی چاہیے، سیاسی رزم و جہاد یعنی ملک کی سیاست اور ملک کی مدیریت میں عوام کا آگاہانہ حضور؛ اس کا آشکار نمونہ یہی انتخابات ہیں جو انشاء اللہ  کچھ عرصہ بعد  اللہ تعالی کی مدد و نصرت اور اپنے مقررہ وقت پر عوام کی ولولہ انگيز شرکت اور شوق و نشاط سے منعقد ہوں گے۔ چونکہ دشمنوں نے سیاسی رزم و جہاد اور اقتصادی رزم وجہاد کا مقصد سمجھ لیا ہے اس لئے انھوں نے اپنے خیال میں ابھی سے تخریب کاری کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ آج مختلف قسم کی تبلیغات اور پروپیگنڈے ہورہے ہیں اور ان کا مقصد اقتصادی میدان میں عوام کے اندر مایوسی اور ناامیدی پیدا کرنا ہے؛ اور سیاسی میدان میں عوام کی بھر پور شرکت کو کم کرنے کی کوشش کرنا ہے تاکہ عوام سیاسی میدان میں بھر پور شرکت نہ کریں وہ انتخابات سے پہلے عوام کی اندر مایوسی پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن انھوں نے ایرانی قوم کو درست اور صحیح ڈھنگ سےنہیں پہچانا ہے استعماری طاقتیں اور ان کے آلہ کار ایرانی عوام کی مختلف میدانوں میں بھر شرکت کے بعد بھی آج تک ایرانی عوام کو نہیں پہچان سکے ہیں؛ انھیں نہیں معلوم کہ وہ کس کا مقابلہ کررہے ہیں ، ان کے مد مقابل  گذشتہ تیس سے زائد برسوں سےکون ہے؛ یہ قوم تمام عداوتوں اور دشمنیوں کے باوجود میدان میں کھڑی ہے اگر حکام نے کسی جگہ استقامت و پائداری کا مظاہرہ کیا ہے تو وہ بھی عوام کی پشتپناہی کی بنا پر کیا ہے۔سب سے پہلے شاباش عوام کے لئے  ہے عظیم تعریف و تحسین عوام کے لئے ہے؛ عوام نے حکام کو حوصلہ دیا عوام نے حکام کی پشتپناہی کی جس کی بنا پر دشمنوں اور تسلط پسند طاقتوں کی منہ زوری ، تسلط پسندی اور دباؤ  کے مقابلے میں ایرانی حکام نے استقامت اور پائداری کا مظاہرہ کیا۔؛ آج بھی ایسا ہی ہے اور اللہ تعالی کی مدد سے آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔

مختلف سلیقوں کے لوگ اور جو شخص  بھی توانائی کا احساس  رکھتا ہے وہ میدان میں  آئے، عوام بھی انشاء اللہ  بڑے بڑے اجتماعات کے ساتھ  اور وسیع پیمانے پر شرکت کریں گے؛ لیکن وہ لوگ جو امیدوار بننا چاہتے ہیں  وہ اپنے محاسبہ میں غلطی اور اشتباہ نہ کریں ؛ انھیں جاننا چاہیے کہ ملک کی مدیریت کسے کہتے ہیں ملک کی مدیریت کے جائز ے میں اشتباہ نہیں کرنا چاہیے اسی طرح اپنی توانائي کے جائزے میں بھی اشتباہ نہیں کرنا چاہیے چنانچہ اگر درست اور صحیح جائزہ لے لیا ہے تو پھر میدان میں آجائیں؛ اور پھر قوم بھی جائزہ لیکر انتخاب کرےگی۔

ہمارے ملک میں انتخابات کا طریقہ کار مضبوط اور مستحکم طریقہ کار ہے، بعض افراد ادھر ادھر جو اعتراض کرتے ہیں وہ غیر منطقی اعتراض ہیں؛ حقیقت میں وہ اعتراضات غلط اور بے معنی ہیں، بنیادی آئین میں گارڈین کونسل کا حضور – حضرت امام (رہ) بھی اس پر بار بار تاکید فرماتے تھے -  ایک مبارک حضور ہے، صلاحیتوں کی جانچ کے بارے میں  گارڈین کونسل کی تشخیص عادل افراد کی تشخیص اور غیر جانبدار اور بصیر افراد کی تشخیص ہے اور یہ ہمارے لئے اور پوری قوم کے لئے ایک مبارک چیز ہے جن افراد کی صلاحیت کی تائيد ہوگئی وہ سبھی صالح ہیں ، عوام ان کے بارے میں تلاش و تحقیق کریں، قابل اعتماد افراد سے ان کے بارے میں سوال کریں، ان کے ماضی کو دیکھیں ان کے نعروں کو مشاہدہ کریں ان کی گفتگو اور باتیں سنیں اور اس کے بعد ووٹ دینے کا فیصلہ کریں۔

انتخابات کے امیدوار کو بھی پہلے نمبر پر اللہ تعالی ، انقلاب اسلامی، بنیادی آئین اور عوام پر ایمان اور اعتقاد رکھنا چاہیے۔؛ اور دوسرے نمبر پر استقامت اور پائداری کے جذبہ سے سرشار ہونا چاہیے، ایرانی قوم کے بلند و بالا اہداف ہیں؛ اس کے بڑے اور بزرگ کام ہیں ، یہ قوم تسلیم ہونے والی نہیں، اس قوم سے کوئی طاقت کی زبان میں بات نہیں کرسکتا، جو افراد قوہ مجریہ کی زمام اپنے ہاتھ میں لیں گے انھیں دشمن کے دباؤ کے مقابلے میں قوی اور پائدار ہونا چاہیے، دشمن سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے، جلدی سےمیدان سے خارج نہیں ہونا چاہیے؛ یہ ایک ضروری شرط ہے، تیسرے نمبر پر قوہ مجریہ کے افراد با تدبیر افراد ہوں ، حکمت والے ہوں ، ہماری خارجہ پالیسی " عزت، حکمت اور مصلحت" پر استوار ہے، ملک کو چلانے کی پالیسی بھی ایسی ہی ہونی چاہیے، اندرونی مسائل میں بھی ایسی ہی پلیسی ہونی چاہیے، اقتصاد میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے، حکمت، تدبیر اور پروگرام سے چلنا چاہیے، ہمہ گير اور طویل المدت منصوبہ ہونا چاہیے،ایک صحیح ہندسہ اور پرکار کے ذریعہ امور کا مشاہدہ کریں ، دیکھیں اور میدان میں وارد ہوجائیں۔

اقتصادی مسائل کے بارے میں میں ہر روز منصوبہ بنانا ، فکر کرنا غلط اور مضر ہے؛ اقتصادی پالیسیوں میں مسلسل تبدیلی مضر ہے، تمام شعبوں بالخصوص اقتصادی مسائل  میں غیر ماہر افراد کے نظریات پر عمل کرنا غلط اورمضر ہے؛  مشرقی اور مغربی مسلط کردہ طریقوں  پر اعتماد کرنا مضر ہے۔

اقتصادی پالیسیاں مزاحمتی اقتصاد پر استوار ہونی چاہییں؛ مزاحمتی اقتصاد کے لئے  ضروری ہے کہ وہ اندرونی طور پر بھی مضبوط اور مستحکم ہو؛ استقامت کرسکتا ہو؛ دنیا کے اس گوشے یا اس گوشے میں رونما ہونے والے تلاطم کا شکار نہ ہوجائے۔؛ یہ چیزیں بہت ضروری ہیں۔  اس ملک کی زمام سنبھالنے والے صدر کے لئےضروری ہے کہ وہ عوام کے تعاون سے اس قابل فخر راستے کو طے کرے اس کے اندر ان خصوصیات کا ہونا ضروری ہے؛

چوتھے نمبر پر اخلاقی لحاظ سےمہذب اور مؤدب  ہوں؛ ضمنی اور حاشیائي امور سے پرہیز یہ اہم امور ہیں میں تمام حکومتوں کو ہمیشہ یہی سفارش کرتا رہا ہوں ، آپ جانتے ہیں کہ میں تمام صدور اور حکومتوں کی ہمیشہ حمایت کرتا رہا ہوں ؛ انھیں نصیحت اور سفارش بھی کرتا رہا ہوں؛ اور متعدد موارد میں ان سے وضاحتیں بھی  طلب کرتا رہا ہوں میری اس بات پر تاکید رہی ہے کہ عوام کے لئے مشکلات ایجاد نہ کریں، عوام کے لئے پریشانی کا سبب نہ بنیں، عوام کے اندر تشویش اور اضطراب پیدا نہ کریں؛ غیر منطقی اور غیر معقول وعدہ بھی نہ دیں ، غیر منطقی سبز باغ کے دروازے نہ کھولیں؛ اللہ تعالی پر توکل، حقیقت اور عقل و منطق کے ساتھ آگے کی سمت حرکت جاری رکھیں  اور انشاء اللہ آئندہ بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔

گذشتہ سالوں کے تجربہ سے  جو ہم نے سمجھا ہے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالی اپنے فضل و کرم اور اپنی ہدایت سے اس قوم کو دشمنوں پر  فتح اور غلبہ عطا کرےگا؛ دشمن خود بھی اس کی تائید اور تصدیق کریں گے؛ جیسا کہ وہ آج تائید اور تصدیق کررہے ہیں اور جو شخص بھی اس عظیم  اور با ایمان قوم کے ساتھ  دشمنی کرےگا وہ یقینی طور پر ناکام اور ذلیل و خوار ہوجائےگا۔

اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ اس قوم اور اس ملک کے مستقبل کو ماضی کی نسبت روز بروز بہتر اور درخشاں قراردے، اور آپ عزیز عوام کو ہمیشہ اور مسلسل کامیابیوں سے ہمکنار فرمائے،انشاء اللہ مزدوروں  اور زحمت کش طبقہ نے آج تک جو قابل فخر کام انجام دیئے  ہیں  ان کا سلسلہ وہ برق رفتاری کے ساتھ  آئندہ بھی جاری رکھیں اور انشاء اللہ مزدور اور کار گر کا چہرہ قوم کے لئے زیادہ سے زیادہ تابناک اور درخشاں ہو جائے۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌