ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا 19 بہمن کو فضائیہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں سے خطاب


بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

میں بحمد اللہ آپ بھائیوں، بیٹوں، عزیز جوانوں اور اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ  کے سرافراز اہلکاروں کے ساتھ اس سالانہ ملاقات سے بحد خوشی اور مسرت محسوس کرتا ہوں ۔ آپ سب کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید پیش کرتا ہوں۔ جو ترانہ پیش کیا گیا، اس کے اشعار بھی بڑے با معنی ہیں اور اسے اچھے انداز میں بھی پیش کیا گیا ہے،  یہ ترانہ اعلی مضمون پر مشتمل تھا۔ اللہ کرے کہ ہمارے اور آپ کے قلوب ہمیشہ اللہ تعالی کی رحمت و ہدایت کی نسیم بہاری سے بہرہ مند رہیں  اور یہی ہمارے لئےسب سے بڑا سرمایہ ہے۔

گذشتہ برسوں میں اگر اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کا عام جائزہ لیا جائے تو ان برسوں کے دوران بڑے عظیم حقائق نظروں کے سامنے آتے ہیں۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ آپ ہوائی جہاز کے کسی بھی پرزے کی تعمیر کرنے پر قادر نہیں تھے اور  نہ ہی آپ کو ایسا کرنے کی  اجازت تھی لیکن آج فضا بالکل مختلف ہے  آج آپ تربیتی طیارہ خود بنا رہے ہیں، جنگی طیارے خود تعمیر کر رہے ہیں، بڑے کلیدی کام آپ اپنے ہاتھ سے انجام دے رہے ہیں۔ انتہائی پیچیدہ قطعات اور پرزے خود تیار کر رہے ہیں۔ فضائیہ کی سطح پر، پوری فوج کی سطح پر، ملک بھر میں مسلح فورسز کی سطح پر خود اعتمادی اور خود کفائی کی سمت میں مرکوزہ خلاقیت ،جدت عمل، ابتکار عمل، جذبہ عمل، کام سے عشق اور کام کی عظیم صلاحیتوں کی عظیم لہر ایک ایسی حقیقت میں تبدیل ہو چکی ہے جس کا ہمارے مخالفین بھی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن بھی انکار نہیں کر سکتے۔ سامراجی نظام نے دولت اور طاقت کے ذریعہ، ہتھیاروں اور فوجی اقدامات کے ذریعہ دنیا بھر کی اقوام اور ملکوں کے اختیارات کو اپنی مٹھی میں کر لینے کی منصوبہ بند کوششیں کی تھیں۔ اس نے قوموں کو یہ باور کرا دینے کی بھر پورسازش کی تھی کہ سپر طاقتوں کی مدد لئے بغیر، صاحبان دولت و طاقت کا تعاون حاصل کئے بغیر وقار، تشخص اور خود مختاری کا کوئی راستہ تلاش نہیں کیا جا سکتا صاحبان قدرت کی پیشت پر اکثر و بیشتر صیہونی اور غیر صیہونی کمپنیاں ہیں، لیکن آپ نے اس طلسم کو توڑ دیا۔ آج آپ جائزہ لیجئے اور ایرانی قوم کا موازنہ ان قوموں سے کیجئے جو تیس سال سے امریکی سامراج کے تسلط میں جکڑی ہوئی ہیں، پھر آپ مشاہدہ کیجئے کہ ایرانی قوم کس منزل پر پہنچ گئی ہے اور یہ قومیں کس مقام پر ہیں؟! ایرانی قوم تیس سال سے اپنی بات مکمل  آزادی سے بیان کر رہی ہے، اپنا حق بجانب مؤقف آزادانہ طور پر پیش کر رہی ہے، ایرانی قوم نے تسلط پسند طاقتوں کی پالیسیوں کو مسترد کرکے خود کو اس منزل پر پہچایا ہے۔ کچھ قومیں اور کچھ حکومتیں ایسی بھی تھیں اور ہیں جنہوں نے اس تیس سال کے عرصے میں امریکی تسلط میں زندگی بسر کی، امریکہ کی غلامی کرنے والی حکومتیں بھی موجود ہیں جنہوں نے اپنے عوام کو امریکی تسلط کے ذریعہ دبا رکھا اور اپنی قوموں کے حقوق پامال کررہی ہیں، آپ ملاحظہ کیجئے کہ وہ آج کس مقام پر کھڑی ہیں؟! اور آپ کہاں پہنچ چکے ہیں؟! ایرانی قوم نے اپنے فیصلے سے، اپنے خود مختارانہ اقدامات سے، اپنی خود اعتمادی سے، اللہ کی ذات پر توکل کی خصوصیت سے ثابت کر دیا کہ اغیار اور توسیع پسندوں کے تسلط کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور ایسا کرنا لازمی ہے۔ اسے ایرانی قوم نے ثابت کر دیا ہے۔ تیس سال قبل ایرانی قوم علم و دانش اور سائنس و ٹکنالوجی کے کارواں میں کس مقام پر تھی، سیاسی اثر و نفوذ کے لحاظ سے کہاں تھی اور آج کہاں ہے؟ استقامت و پائداری کی برکت سے، اللہ کی ذات پر توکل کی برکت سے، تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے نتیجے میں یہ کامیابی حاصل ہوئی ہے اور یہ ایک اہم تجربہ ہے ایرانی قوم کے لئے بھی عمدہ تجربہ ہے اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی سبق آموز تجربہ ہے، اسی طرح یہ دیگر اقوام کے لئے بھی بہترین نمونہ عمل ہے۔ اس استقامت اور اس نئی تحریک میں جو خود اعتمادی پر استورا تھی اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ قابل تعریف اور قابل تقلید نمونہ ہے۔ اس سلسلے کو اسی طرح جاری رکھنا چاہیے، اور ایرانی عوام کو اسی راستے پر آگے کی سمت گامزن رہنا چاہیے، یہ بڑا بابرکت راستہ ہے۔ ایرانی قوم کے دشمنوں نے اس تیس سال سے زیادہ کے عرصے میں جو بھی ان کے بس میں تھا وہ انھوں نے ایرانی قوم کے خلاف انجام دیا ، ان کے ترکش میں کوئی بھی ایسا تیر نہیں ہے جو انہوں نے ایرانی قوم کے خلاف استعمال نہ کیا ہو۔ اشتعال انگیزیاں کیں، جنگ کا بازار گرم کیا، اسلامی جمہوریہ ایران کے مخالفین کی بھرپور حمایت و پشتپناہی کی۔ فوجی حملے کئے، سافٹ وار کے حربے آزمائے۔ جو بھی ان کے بس میں تھا انہوں نے اس قوم کے خلاف کیا لیکن قوم اپنی جگہ پر ثابت قدمی سے استوار رہی، پائداری سے کھڑی رہی۔ دشمن صرف یہی نہیں کہ اس قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکے بلکہ اس کی پیشرفت کا سلسلہ بھی نہیں روک پائے، اس قوم نے مسلسل ترقی کی شاہراہ پر پیش قدمی کی ہے۔ ان کے بس میں جو بھی تھا انہوں نے کیا، سازشیں کیں، بغاوتیں کروائیں، فوجی اشتعال انگیزی کی، ہمارے مسافرطیارے پر حملہ کیا، اقتصادی پابندیوں میں زیادہ شدت پیدا کی، روز بروز ، اور مسلسل پابندیوں میں اضافہ کیا، اس امید پر کہ ایرانی قوم کو میدان سے خارج کر دیں، اس قوم پر مایوس طاری کر دیں، قوم کو اسلام اور اسلامی جمہوری نظام کے متعلق بدگمانی میں مبتلا کر دیں لیکن انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی۔ یہ اسلامی جمہوریہ کا شاندار کارنامہ ہے۔

آج کل کے یہ ایام، عشرہ فجر کے ایام اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کی تقریبات  کے ایام بہترین موقعہ ہیں کہ ہم اپنی ممتاز شخصیتوں، اپنے بیدار اور ذہین بھائيوں، اپنے نوجوانوں اور اپنی قوم کے کارناموں کا جائزہ لیں جو انہوں نے چونتیس سال کے عرصے میں انجام دئیے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی پیشرفت کا جائزہ لیں، کامیاب کوششوں پر ایک نظر دوڑائیں، نصرت الہی کے مواقع کو یاد کریں، دشمنوں کے مکر و فریب کی ناکامی کو دیکھیں۔ و مكروا و مكر اللّه و اللّه خير الماكرين(1) یہ ہمارے لئے ایک کلی لائحہ عمل ہے جس کی بنیاد پر ہم اپنے مستقبل کے راستے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ آپ بھی فضائیہ کے اندر اسی نقطہ نگاہ کے ساتھ اور اسی نہج پر گامزن رہیں  اور آگے بڑھیں۔ ملک کے مختلف شعبے، عوام، حکام سب اسی طرز فکر کے ساتھ آگے بڑھیں۔ بیشک دشمن ہمیں پریشان کرے گا، اذیتیں دینے کی کوشش کرے گا، لیکن پریشان کرنے اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کے علاوہ وہ اور کچھ نہیں کر سکتا۔ میں نے چند روز قبل عرض کیا تھا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے؛ لن يضرّوكم الّا اذى ؛(2) ان کا کام آپ کو اذیت پہنچانا ہے لیکن وہ آپ کی پیش قدمی کو نہیں روک سکتے، آپ کا راستہ مسدود نہیں کر سکتے۔ ایرانی کے خلاف تیس سال سے زیادہ کے عرصے میں امریکیوں نے کتنی رجز خوانی کی، جو بس میں تھا کہا اور کیا، بیشمار پروپیگنڈہ کیا اور ایرانی عوام کے خلاف سامراجی میڈیا کو خوب استعمال کیا لیکن سب بے معنی اور بے سود رہا۔ آج اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ایرانی قوم ہمیشہ سے زیادہ شاداب، پرعزم، مصمم اور فعال ہے، مختلف شعبوں میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے۔ دشمنوں کی یہ کوشش تھی کہ عوام کو اسلامی جمہوری نطام سے اور اسلامی انقلاب سے دل برداشتہ کر دیں۔ ہر سال بائیس بہمن مطابق گیارہ فروری کو ایرانی قوم نے عمومی سطح پر پیش کئے جانے والے قومی و انقلابی منظر نامے میں اپنی پرجوش شراکت کے ذریعہ دشمن کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ عوام کو اسلامی نظام سے جدا کر دیں۔ امریکہ کی سابق ناتجربہ کار وزیر خارجہ (ہلیری کلنٹن) نے صریحی طور پر کہا کہ ہم یہ پابندیاں اس لئے عائد کر رہے ہیں تاکہ ایران کے عوام اسلامی نطام کے مقابل کھڑے ہو جائیں۔ ایرانی عوام نے ان کی ان حرکتوں کا جواب اپنے عملی اقدامات اور اپنی عظیم  ریلیوں کے ذریعہ دیا اور آپ دیکھیں گے 22 بہمن کو عوام ایک بار پھر اپنی دنداں شکن شراکت سے دشمن کو ایک بار پھر شکست سے دوچار کر دیں گے۔ ...(3) سب سے بڑی اور اچھی بات یہ ہے کہ ایرانی قوم بیدار ہے،با بصیرت ہے، دشمن کی نقل و حرکت کا مطلب خوب سمجھتی ہے، دشمن کے اقدامات کے رخ کو پہچان لیتی ہے، عوام فوری طور پر سمجھ جاتے ہیں کہ دشمن نے کون سی پالیسی کیوں اپنائی ہے اور پھر وہ اس کے بالکل برخلاف سمت میں آگے بڑھتے ہیں اور انہیں جو کچھ حاصل ہوا ہے اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتے ہیں، عوام قومی وقار کے اس عظیم میدان میں اپنی بھرپور شراکت کا ثبوت دیتے ہیں، اپنی توانائیوں کا مظاہرہ کرتے ہیں،بھر پور تعاون کرتے ہیں، عوام کے اندر پائی جانے والی ہمہ گیر بصیرت بہت بڑا حسن ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے کہ عوام دشمنوں کی سازشوں اور ان کے پروپیگنڈوں کے باوجود غلطی نہیں کرتے ، اشتباہ نہیں کرتے  ایرانی عوام پروپیگنڈوں کے سلسلے میں امریکی اور صہیونی حلقوں سے آگاہ اور واقف ہیں؛  یہ ہمارے دراز مدتی ، عظيم اور اہم معاملات ہیں۔

حال ہی میں امریکیوں نے ایک بار پھر مذاکرات کا مسئلہ پیش کیا ہے۔ بار بار کہہ رہے ہیں کہ امریکہ ایران سے مذاکرات کے لئے آمادہ ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مذاکرات کی بات تو امریکی ہمیشہ بار بار دہراتے رہتے ہیں۔ اس وقت میدان کے نووارد امریکی سیاستدانوں نے ایک بار پھر وہی رٹ لگائی ہے کہ مذاکرات کیجئے۔ کہتے ہیں کہ گیند اب ایران کی فیلڈ میں ہے، جبکہ حقیقت میں گیند ان کی فیلڈ میں ہے۔ جواب ان کو دینا ہے۔ دشمن کو واضح کرنا ہے کہ دباؤ اور دھمکی کے ساتھ انجام دئیے جانے والے مذاکرات کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ مذاکرات نیک نیتی ثابت کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ آپ دس کام ایسے کرتے ہیں جو آپ کے برے عزائم کی نشاندہی کرتے ہیں اور زبان سے آپ یہ رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ مذاکرات کیجئے! آپ کو توقع ہے کہ ایرانی قوم آپ کی نیک نیتی کا یقین بھی کر لے! ویسے ہمیں خوب اندازہ ہے کہ ان دنوں امریکی دوبارہ مذاکرات کا شوشہ کیوں چھوڑ رہے ہیں۔ بار بار الگ الگ انداز میں یہی بات کیوں دہرا رہے ہیں۔ ہمیں اس کی وجہ معلوم ہے۔ بقول خود امریکیوں کے ان کی مشرق وسطی سے متعلق پالیسی شکست سے دوچار ہوئی ہے۔ علاقہ میں امریکہ اپنی پالیسیوں کے سلسلے میں منہ کے بل زمین پر گرا ہے۔ اب امریکیوں کو کامیابی کے پتے کی سخت ضرورت پڑی ہے، ان کے خیال میں کامیابی کا پتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اسلامی، عوامی اور انقلابی نظام کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔ فی الحال اس کی انہیں شدید ضرورت ہے۔ دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ نیک نیتی سے کام کر رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں کہیں کوئی نیک نیتی اور صدق دلی نظر نہیں آ رہی ہے۔ امریکہ کی موجودہ حکومت کے پہلے دور کے آغاز میں جب مذاکرات کی پیشکش ہوئی تھی تب بھی میں نے اعلان کر دیا تھا کہ ہم پہلے سے کوئی فیصلہ نہیں کریں گے، قبل از وقت فیصلہ مناسب نہیں ہے۔ ہم پہلے جائزہ لیں گے، ہم دیکھیں گے کہ عملی طور پر ان کی طرف سے کیا اقدامات انجام دئیے جاتے ہیں، اس کے بعد ہی ہم کوئی فیصلہ کریں گے۔ چار سال گزر جانے کے بعد آج ایرانی قوم کس نتیجے پر پہنچی ہے؟ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ امریکیوں نے داخلی آشوب اور فتنہ کو ہوا دی، فتنہ پرور عناصر کی پشتپناہی کی، علاقہ کی سطح پر انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان پر لشکر کشی کی، بیشمار لوگوں کو قتل کر ڈالا، بڑے پیمانے پر تباہی مچائی اور آج شام میں امریکہ انہی دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے، مدد کر رہا ہے۔ انہوں نے انہی دہشت گردوں کو ایران میں جہاں بھی ممکن ہوا استعمال کیا۔ ان کے ایجنٹوں نے، ان کے زرخریدوں نے، صیہونی حکومت کے جاسوسوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ کی۔ امریکی ان کی لفظی مذمت کرنے پر بھی تیار نہ ہوئے الٹے ان کی حمایت کی۔ یہ ان کی کارکردگی ہے۔ ایرانی عوام پر ایسی پابندیاں عائد کیں جن کے بارے میں ان کی خواہش تھی کہ مفلوج کن پابندیاں ثابت ہوں، کمر شکن اور مفلوج کن پابندیوں کی بات انہوں نے صراحت کے ساتھ کہی تھی۔ وہ کس کی کمر توڑنا چاہتے تھے؟ وہ ایرانی قوم کی کمر توڑنا چاہتے تھے۔ یہ آپ کی نیک نیتی تھی؟ مذاکرات ہمیشہ نیک نیتی کے ساتھ، مساوی حالات میں ایسے دو فریقوں کے درمیان ہوں جو ایک دوسرے کو فریب دینے کا ارادہ نہیں رکھتے تب تو مذاکرات کی بات قابل فہم ہے۔ ورنہ مذاکرات کو حربے اور چال کے طور پر استعمال کرنا، مذاکرات برائے مذاکرات، دنیا پر اپنی سپر پاور والی حیثیت ظاہر کرنے کی غرض سے مذاکرات صرف حیلہ فریب ہے، حقیقی اور بامعنی اقدام نہیں۔ میں کوئی سفارتکار نہیں ہوں، میں ایک انقلابی آدمی ہوں، اپنی بات دو ٹوک انداز میں پوری صداقت کے ساتھ بیان کر دینے کا عادی ہوں۔ سفارتکار کہتا کچھ ہے اور اس کا مقصود ایک بالکل مختلف چیز ہوتی ہے۔ ہم اپنی بات صادقانہ اور دو ٹوک انداز میں بیان کر دیتے ہیں۔ ہم پوری صداقت سے اپنی بات کہتے ہیں۔ مذاکرات اسی وقت بامعنی ہو سکتے ہیں جب مذاکرات کا فریق نیک نیتی ثابت کر دے۔ اگر آپ نیک نیتی نہیں رکھتے اور خود اپنی زبان سے کہتے ہیں جبکہ دباؤ اور مذاکرات دونوں چیزیں ایک دوسرے کے لئے سازگار نہیں ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ ایرانی عوام پر ہتھیار تانے ہوئے کہیں کہ مذاکرات کرو ورنہ فائر کر دوں گا، تا کہ ایرانی قوم کو خوفزدہ کیا جا سکے، تو یقین رکھیے کہ ایرانی قوم ان چیزوں سے مرعوب ہونے والی نہیں ہے۔(4)

کچھ لوگوں نے سادگي کی بنیاد پر اور کچھ لوگوں نے خاص مقصد کے تحت خوش ہوکر کہنا شروع کر دیا کہ آئيے مذاکرات کرتے ہیں۔ اس بارے میں فیصلہ کرنا اور دونوں قسم کے لوگوں کے مابین فرق کو پہچاننا مشکل کام ہے تاہم جو شخص سادگي کی بنیاد پر یہ بات کہہ رہا ہے اس میں اور اس شخص میں جو خاص مقصد کے تحت یہ بات کہہ رہا ہے، ان میں اصل حقائق کے حوالے سے کوئی فرق نہیں ہے۔ معاملہ یہ نہیں ہے، مذاکرات سے کوئی مشکل حل ہونے والی نہیں ہے، امریکہ سے گفتگو کر لینے سے کچھ بھی حل ہونے والا نہیں ہے۔ امریکیوں نے کب اپنے وعدے پر عمل کیا ہے۔ انیس اگست سنہ 1953 کے واقعہ کے بعد سے ساٹھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس مدت میں جب بھی ہمارے ملک کے حکام نے امریکیوں پر اعتماد کیا، انہیں نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ڈاکٹر مصدق نے امریکیوں پر اعتماد کیا، ان پر بھروسہ کیا، انہیں اپنا دوست سمجھ لیا تو 19 اگست 1953 کی بغاوت کا واقعہ رونما ہوا۔ بغاوت کی جگہ امریکیوں کے ہاتھ میں تھی اور ایک امریکی ایجنٹ پیسوں سے بھرے ہوئے صندوق کے ساتھ تہران آیا اور اس نے اوباشوں کو جمع کرکے پیسے تقسیم کئے کہ حکومت کے خلاف بغاوت کریں۔ یہ امریکیوں کا کام تھا۔ اپنی ان گھناؤنی سازشوں اور چالوں کا اعتراف خود امریکیوں نے کیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے برسوں تک اس ملک پر ظالم پہلوی حکومت کو مسلط رکھا، ساواک ( شاہ کاخفیہ ادارہ) قائم کیا، مجاہدین کو پابند سلاسل کر دیا، انہیں ایذائیں پہنچائیں، یہ اس زمانے کی بات ہے۔ اسلامی انقلاب کے بعد ایک زمانے میں ملک کے حکام نے حسن ظن کا ثبوت دیتے ہوئے امریکیوں پر ایک بار پھر اعتماد کیا، لیکن امریکی حکومت کی سیاست یہ رہی کہ اس نےایران کو بدی کا محور قرار دے دیا گیا۔ جبکہ شرارت اور بدی کا محور خود امریکہ ہیں۔ امریکہ دنیا بھر میں شر پھیلا رہا ہے، جنگ کی آگ بھڑکا رہا ہے، قوموں کو لوٹ رہا ہے، صہیونی حکومت کی پشتپناہی کر رہا ہے، اسلامی بیداری کی اس لہر کے نتیجے میں قیام کرنے والی قوموں کی جہاں تک ممکن ہے امریکہ سرکوبی کر رہا ہے، انہیں کمزور کر رہا ہے، ان میں اختلافات کی آگ بھڑکا رہا ہے، بدی و شر کا محور تو خود امریکہ ہے، یہ آپ کا طریقہ ہے۔ ایرانی قوم  پر بدی اور شرارت کا الزام لگایا ہے، ایرانی قوم کی یہ بہت بڑی توہین ہے۔ جب بھی امریکیوں پر اعتماد کیا گیا انہوں نے اس طرح کی حرکت کی ہے۔ انہیں نیک نیتی ثابت کرنا ہوگی۔۔ دباؤ اور دھمکی کے ساتھ مذاکرات کی بات گلے سے نہیں اترے گی۔ دباؤ اور مذاکرات دو الگ الگ راستے ہیں۔ ایرانی عوام یہ ہرگز نہیں قبول کریں گے کہ دباؤ میں آکر اور دھمکیوں سے متاثر ہوکر دھمکی دینے والے سے مذاکرات شروع کر دیں۔ ایسی گفتگو کا کیا نتیجہ ہے؟ اس سے کیا حاصل ہونے والا ہے؟

آج ایرانی قوم  پوری طرح بیدار ہے۔ امریکہ کا حقیقی چہرہ صرف ایران ہی نہیں بلکہ  پورے علاقے میں عیاں ہو چکا ہے۔ امریکہ کے سلسلے میں قوموں کے اندر بدگمانی ہے اور اس بدگمانی کے قوی اور پختہ قرائن و دلائل موجود ہیں۔ ایرانی قوم نے بھی امریکہ کو خوب پہچان لیا ہے، اسے معلوم ہے کہ امریکہ کیا چاہتا ہے، قوم ہوشیار ہے۔ آج اگر کچھ لوگ اس ملک میں دوبارہ امریکی تسلط کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کریں گے، اگر امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے قومی مفادات، علمی ترقی اور استقلال اور آزادی سے صرف نظر کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ قوم ان کا گریبان پکڑ لے گی۔ خود میں بھی اگر اس عوامی نہج کے برخلاف اور عوامی مطالبے کے خلاف عمل کرنا چاہوں تو عوام کو اعتراض ہوگا، یہ معلوم ہے۔ تمام حکام کی ذمہ داری ہے کہ قومی مفادات کو ملحوظ رکھیں، قومی خود مختاری کا پاس و لحاظ رکھیں اورایرانی قوم کے وقار  اور عظمت کی حفاظت کریں۔

جن ملکوں نے ایرانی قوم  کے خلاف سازشیں نہیں کیں اور آج بھی سازشوں میں مصروف نہیں ہیں ان سے ہم نے مذاکرات کئے، معاہدے کئے اور ان سے ہمارے روابط ہیں۔ ایرانی قوم امن پسند اور صلح پسند قوم ہے، ایرانی قوم صابر اور بردبار قوم ہے، ایرانی قوم کا اتحاد تمام بشریت کے مفادات کی خدمت کے لئے ہے۔ آج ایرانی قوم جو اقدامات کر رہی ہے وہ ایران کے قومی مفادات کے ساتھ ہی امت اسلامیہ اور تمام بشریت کے مفادات کے لئے ہیں۔ بیشک ایرانی قوم کو اللہ تعالی کی مدد اور نصرت حاصل ہے ۔ ایرانی قوم اس بصیرت کے ساتھ، اس پختہ اور مضبوط عزم کے ساتھ اور روشن راستے پر اپنی ثابت قدمی کے ذریعہ آگے کی سمت ، پیشرفت اور ترقی کی جانب گامزن ہے جس کا اس نے بارہا مظاہرہ کیا ہے اور آئندہ بھی اسے جاری رکھے گی، ایرانی قوم صرف ایران کو ہی نہیں بلکہ ان شاء اللہ پوری امت مسلمہ کو افتخارات کی بلند چوٹی پر پہچائے گی۔ اس کا راستہ یہ ہے کہ بصیرت کو قائم رکھا جائے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اتحاد کی حفاظت کی جائے، اس کی روش یہ ہے کہ ملک کے حکام قومی مفادات کی حفاظت کریں۔ ان بد اخلاقیوں کو جو بعض حکام کی طرف سے بعض مواقع پر نظر آتی ہیں، ترک کریں، میں آئندہ عوام سے ان بد اخلاقیوں کے بارے میں گفتگو کروں گا۔ قوم کے اندر اتحاد ہے، قوم پختہ عزم کی مالک ہے، سرگرم عمل ہے۔ اگر بعض مسائل کے سلسلے میں قوم کے اندر اختلاف نظر ہے تب بھی وہ دشمن کے مقابلے میں، سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں ، اس قوم اور اس نظام کی بیخ کنی پر کمربستہ عناصر کے مقابلے میں متحد ہے ، اوراس معاملے میں عوام کے اندر بھرپور یکجہتی پائی جاتی ہے۔

ان شاء اللہ 22 بہمن کے موقع پر عوام ایک بار پھر عظیم ریلیوں میں شرکت کرکے ثابت کر دیں گے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم  سے وہ انقلاب کی حفاظت کے لئے ہمیشہ میدان میں حاضر ہیں۔ اس مقصد کے لئے ان میں بھرپور اتحاد، یکجہتی اور ہم آہنگی ہے۔ اللہ تعالی کی توفیق یقینی طور پر ان کے شامل حال ہوگی۔ ان شاء اللہ ۔
والسّلام عليكم و رحمة‌اللّه و بركاته

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1) آل‌عمران: 54
2) آل عمران: 111
3) حاضرین کی جانب سے اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے
(4 حاضرین کی جانب سے اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے