ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی
دریافت:

احکام آموزشی

    • پہلا جلد
      • پہلی فصل: تقلید
      • دوسری فصل: طہارت
      • تیسری فصل: نماز
      • چوتھی فصل: روزه
      • پانچویں فصل: خمس
      • چھٹی فصل: انفال
      • ساتھویں فصل: جہاد
      • آٹھویں فصل: امر بالمعروف اور نہی از منکر
        • سبق 76: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے معنی
        • سبق 77: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (2)
          پرنٹ  ;  PDF
           
          سبق 77: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (2)
          امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل اور مراتب۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے متفرق مسائل
          5۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل اور مراتب
          1۔ قلبی امر اور نہی
          2۔ زبانی امر اور نہی
          3۔ عملی امر اور نہی
          توجہ
          امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل اور مراتب کی رعایت کرنا واجب ہے یعنی جب تک نچلے مرحلے سے مقصد حاصل ہوتا ہے بالاتر مرحلے میں داخل نہیں ہونا چاہئے۔
           
          1۔ قلبی امر اور نہی
          امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا پہلا مرحلہ قلبی امر اور نہی یا دل سے امر اور نہی ہے۔ قلبی امر اور نہی سے مراد دل سے نفرت کا اظہار کرنا ہے یعنی مکلف کو چاہئے کہ منکر کو انجام دینے اور معروف کو ترک کرنے کے بعد بارے میں اپنی اندرونی نفرت اور ناپسندیدگی کو آشکار کرے اور اس طریقے سے معروف کو ترک کرنے والے یا منکر کو انجام دینے والے فرد کو معروف بجالانے اور منکر کو ترک کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔
          2۔ قلبی امر اور نہی (رضایت اور نفرت کے اظہار) کے کئی درجے ہیں جب تک نچلے درجے اور آسان راہ سے امر اور نہی کرنا اور ہدف تک رسائی ممکن ہوتو بالاتر مراحل میں نہیں جانا چاہئے۔ یہ مراحل اور درجات شدید اور ضعیف ہونے اور انواع کے مطابق زیادہ ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں؛ تبسم، مسکراہٹ اور خندہ پیشانی سے پیش آنا، آنکھیں بند کرنا، حیرت کا اظہار کرنا، چہرے پر ہاتھ مارنا، ہاتھ یا سر سے اشارہ کرنا، سلام نہ کرنا، منہ پھیرلینا، بات چیت بند کرنا اور ناراض ہوکر تعلقات ختم کرنا۔
           
          2۔ زبانی امر اور نہی
          1۔ امر بالمعروف عن المنکر کا دوسرا مرحلہ زبانی امر اور نہی کرنا ہے۔ زبانی امر اور نہی سے مراد یہ ہے کہ مکلف کو چاہئے کہ بات چیت کے ذریعے منکر سے اجتناب اور معروف کو انجام دینے کا تقاضا کرے۔
          2۔ زبانی امر اور نہی کے کئی درجات ہیں کہ جب تک نچلے مرحلے اور نرم لہجے میں بات کرکے ہدف حاصل ہونے کا امکان ہے بالاتر مرحلے کا اقدام نہیں کرنا چاہئے۔ یہ مراحل شدید اور ضعیف اور مختلف انواع کے لحاظ سے زیادہ ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں؛ نصیحت کرنا، تذکر دینا، ہدایت کرنا، فوائد اور نقصانات کو گننا، بحث اور مناظرہ کرنا، دلیل کے ساتھ بات کرنا، سخت اور تند لہجے میں بات کرنا اور دہمکی آمیز گفتگو کرنا۔
           
          3۔ عملی امر اور نہی
          1۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تیسرا مرحلہ ہاتھ کے ساتھ امر اور نہی کرنا ہے (طاقت کے استعمال سے کنایہ ہے) عملی امر اور نہی سے مراد یہ ہے کہ مکلف کو زور و زبردستی اور طاقت استعمال کرکے منکر کو انجام دینے اور معروف کو ترک کرنے سے روکنا چاہئے۔
          2۔ عملی امر اور نہی کے کئی مراحل اور درجات ہیں کہ جب تک نچلے درجے اور آسان طریقے سے نتیجہ مل سکتا ہے، شدید تر مرحلے میں داخل نہیں ہونا چاہئے۔ یہ درجات شدید اور ضعیف ہونے اور انواع کے لحاظ سے زیادہ ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں؛ مانع بن کر راستہ روکنا، گناہ کے وسائل سے محروم کرنا، پیچھے دھکیلنا، مضبوطی سے ہاتھ پکڑنا، نظربند کرنا، سخت گیری کرنا، مارنا پیٹنا، درد میں مبتلا کرنا، رخمی کرنا، عضو کو توڑدینا، ناکارہ بنانا، معذور کرنا، قتل کرنا۔
           
          توجہ
          اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اسلامی حکومت کے دور میں زبانی امر ونہی کے بعد والے مراحل کو پولیس اور عدالتوں کے سپرد کیا جاسکتا ہے خاص طور پر جب گناہ کو روکنے کے لئے فعل حرام کا ارتکاب کرنے والے کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اس کے مال میں تصرف کرنے، اسے سزا دینے اور محبوس کرنے جیسے کاموں کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو ان حالات میں ایسی اسلامی حکومت اور اقتدار کی وجہ سے مکلفین پر واجب ہے کہ و ہ ( قلبی اور) زبانی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر اکتفا کریں اور جب طاقت کے استعمال کی ضرورت ہو تو مسئلے کو پولیس اور عدلیہ کے حوالے کر دیں لیکن جس جگہ اور جس وقت اسلامی حکومت نہیں ہے وہاں مکلفین پر واجب ہے کہ شرائط کے ہوتے ہوئے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل کی ترتیب کا خیال رکھتے ہوئے مقصد کے حصول تک تمام مراحل کو انجام دیں۔
          یہ جو کہا جاتا ہے کہ اسلامی نظام میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں لوگوں کی ذمہ داری قلبی اور زبانی امر ونہی پر اکتفا کرنا ہے اور دیگر مراحل متعلقہ عہدیداروں کے ذمے ہیں یہ فقہی فتوا ہے (حکومت کی طرف سے حکم نہیں ہے)
           
          امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل کے بارے میں چند نکات
          شرعاً مسلمان کے سلام کا جواب دینا واجب ہے لیکن اگر نہی عن المنکر کے ارادے سے فعل حرام کا ارتکاب کرنے والے کے سلام کا جواب نہ دینا عرف کے مطابق نہی عن المنکر کا مصداق ہو تو یہ کام جائز ہے۔
          جو لوگ حکومت کی طرف سے مفاسد اور منکرات کو روکنے پر مأمور ہیں اگر وہ اپنے فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی کریں تو دیگر لوگوں کیلئے ان امور میں مداخلت کرنا جائز نہیں ہے کہ جو پولیس اور عدلیہ کے فرائض میں آتے ہیں لیکن حدود اورشرائط کا خیال رکھتے ہوئے لوگوں کی جانب سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
          اگر ڈرائیور گاڑی میں حرام موسیقی اور گانے کے کیسٹ چلائے تو نہی از منکر کی شرائط کی شرائط موجود ہونے کی صورت میں اسے نہی عن المنکر کرنا ضروری ہے البتہ زبانی نہی عن المنکر سے زیادہ کچھ واجب نہیں ہے اور اگر اسے منع کرنے کا کوئی اثر نہ ہو تو واجب ہے کہ حرام موسیقی اور گانے کو سننے سے اجنتاب کرے اور اگر غیر ارادی طور پر حرام موسیقی اور گانے کی آواز کانوں میں پڑ جائے تو اس پر کچھ نہیں ہے۔
          ہسپتال میں نرسنگ کا مقدس فریضہ انجام دینے والی خاتون اگر دیکھے کہ ہسپتال میں بعض مریض رکیک اور حرام موسیقی سنتے ہیں اور ان پر نصیحت کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا چنانچہ اگر وہ اس حرام کو روکنے کیلئے کیسٹ کے باطل مواد کو مٹانا چاہے تو اس کیلئے یہ جائز ہے لیکن اس کام کیلئے مالک یا حاکم شرع سے اجازت لینا ضروری ہے۔
          امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی نیت سے لوگوں کے گھروں کے اندر مداخلت کرنا جائز نہیں ہے بنابراین اگر بعض گھروں سے موسیقی کی بلند آواز مؤمنین کے لئے اذیت کا باعث ہو تو ان کے گھر کے اندرمداخلت نہیں کرنا چاہئے۔ (بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی شرائط اور مراحل کی رعایت کرتے ہوئے قلبی اور زبانی نہی عن المنکر کرے اور اثر نہ ہو تو پولیس کو اطلاع دے)
          اگر انسان کا کوئی رشتہ دار گناہ کا ارتکاب کرے اوراس کے سلسلے میں لاپرواہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کے غیر شرعی کاموں سے نفرت کا اظہار کرے اور ہر برادرانہ طریقے سے جو مفید اور موثر ہو، اسے نصیحت کرے لیکن قطع رحمی کرنا جائز نہیں ہے ہاں اگر احتمال ہو کہ وقتی طور پر اس کے ساتھ معاشرت ترک کرنے سے وہ گناہوں کے ارتکاب سے باز آئے گا تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عنوان سے یہ کام واجب ہے۔
           
          توجہ
          ہر مکلف پر واجب ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی شرائط، مراتب اور واجب ہونے اور نہ ہونے کے مواردکو یاد کرےتاکہ امر و نہی کرتے وقت کہیں خود منکر اور خلاف ورزی میں مبتلا نہ ہوجائے ۔

           

          6۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے متفرق مسائل
          1۔ جو لوگ ماضی میں شراب نوشی جیسے حرام کاموں میں مرتکب ہوتے تھے، ان کا معیار ان کی آج کی حالت ہے اگر جو کچھ پہلے انجام دیتے تھے اس سے توبہ کی ہے تو ان کے ساتھ رہنا دوسرے مؤمنین کے ساتھ رہنے کی طرح ہے لیکن جو آج بھی حرام حرام میں مرتکب ہوتا ہے اس کو نہی عن المنکر کرتے ہوئے اس کام سے روکنا چاہئے اور اگر اس سے دوری اختیار کئے بغیر حرام کام سے اجتناب نہ کرے تو نہی عن المنکر کے عنوان سے اس سے تعلقات منقطع کرنا اور میل جول ختم کرنا واجب ہے۔
          2۔ سونا پہننا اور اس کو گلے میں ڈالنا مرد کے لئے بہ طور مطلق حرام ہے اور ایسے کپڑے پہننا جن کی سلائی یا رنگ وغیرہ عرف کی نظر میں غیرمسلموں کی جانب سے حملہ آور ثقافت کی تقلید اور ترویج شمار ہوجائیں تو جائز نہیں ہے اسی طرح ان زیورات کا استعمال جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی ثقافتی یلغار کی پیروی شمار کیا جائے تو جائز نہیں ہے اور دوسروں پر واجب ہے کہ اجنبیوں کی ثقافتی تقلید کے ان نمونوں کے مقابلے میں زبانی نہی عن المنکر کریں۔
          3۔ جو شخص بے نمازی سے معاشرت پر مجبور ہو اور بعض اوقات کچھ کاموں میں اس کی مددکرتا ہو، اس کا وظیفہ ہے کہ شرائط موجود ہوں تومسلسل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے اور اس کے علاوہ اس کا کوئی اور وظیفہ نہیں ہے اور اگر اس کی مدد کرنا اور اس کے ساتھ رہنا نماز ترک کرنے کی زیادہ حوصلہ افزائی کا سبب نہ بنے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
          4۔ جس عورت کا شوہر دینی مسائل کوزیادہ اہمیت نہیں دیتا ہے مثلاً نماز نہیں پڑھتا ہے تو اس کا فریضہ ہے کہ ہر ممکنہ طریقے سے اس کی اصلاح کیلئے کوشش کرے اوربد اخلاقی اور ناسازگاری پر مشتمل ہر قسم کے سخت رویے سے پرہیز کرے اور مطمئن رہے کہ دینی مجالس میں شرکت اور دیندار گھرانوں کے یہاں آنا جانا اس کی اصلاح کے سلسلے میں زیادہ موثر ہے۔
          5۔ اگر کوئی مسلمان مرد قرائن کے ذریعے مطلع ہوجائے کہ اس کی بیوی خفیہ طور پر غیر اخلاقی حرکتوں میں ملوث ہوتی ہے تو اس پر واجب ہے کہ بدگمانی اور گمان کا فائدہ دینے والے قرائن و شواہد سے پرہیز کرے اور اگر ایسے فعل کا ارتکاب ثابت ہوجائے کہ جو شرعاً حرام ہے تو واجب ہے کہ نصیحت اور نہی عن المنکر کے ذریعے اسے روکے اور اگر نہی عن المنکر کا اثر نہ ہو تو (حرام کام کو ) ثابت کرنے والے دلائل اس کے پاس موجود ہوں تو عدالت کی طرف رجوع کرسکتا ہے۔
          6۔ اگر علمائے کرام کیلئے ثابت ہوجائے کہ ظالم حکمرانوں کے ساتھ میل جول رکھنا انہیں ظلم سے باز رکھنے کا سبب بنتا ہے اور انہیں نہی عن المنکر کرنے میں مؤثر ہے یا ایسا اہم مسئلہ درپیش ہو جس کی پیروی کے سلسلے میں ظالم کے یہاں جانا ضروری ہو تو اس میں اشکال نہیں ہے۔
           
          تمرین
          1۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مراحل اور مراتب کو بیان کریں۔
          2۔ کیا فعل حرام کے مرتکب ہونے والے کے سلام کا جواب نہ دینا جائز ہے؟
          3۔ اگر حکومت کی طرف سے منکرات کو روکنے پر مأمور افراد اپنے فریضے کو انجام دینے میں کوتاہی کریں تو کیا عوام خود یہ کام کرسکتے ہیں؟
          4۔ اگر کوئی رشتہ دار گناہ کا ارتکاب کرے اور اس کے سلسلے میں لا پروائی کا مظاہرہ کرے تو اس سے تعلقات برقرار رکھنے کے حوالے سے ہمارا کیا وظیفہ ہے؟
          5۔ جو لوگ ماضی میں شراب خوری جیسے حرام کاموں کا ارتکاب کرتے رہے ہیں ،ان کے ساتھ رابطہ کیسا ہونا چاہیے؟
          6۔ اگر شوہر نماز اور دیگر دینی مسائل کو اہمیت نہ دیتا ہو تو اس کے بارے میں بیوی کا فریضہ کیا ہے؟
           
700 /