دریافت:
استفتاآت کے جوابات
- تقلید
- احکام طهارت
- احکام نماز
- احکام روزہ
- خمس کے احکام
- جہاد
جہاد
س1048: امام معصوم کی غیبت کے زمانہ میں ابتدائی جہاد کا حکم کیا ہے؟ اور کیا با اختیار جامع الشرائط فقیہ (ولی فقیہ)کے لئے جائز ہے کہ وہ اس کا حکم دے؟
ج: بعید نہیں ہے کہ جب مصلحت کا تقاضا ہو تو ولی فقیہ کیلئے جہاد ابتدائی کا حکم دینا جائز ہو بلکہ یہی اقویٰ ہے۔
س1049: جب اسلام خطرے میں ہو تو والدین کی اجازت کے بغیر اسلام کے دفاع کیلئے اٹھ کھڑے ہونے کا کیا حکم ہے؟
ج: اسلام اور مسلمانوں کا دفاع واجب ہے اور یہ والدین کی اجازت پر موقوف نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود سزاوار ہے کہ جہاں تک ممکن ہو والدین کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
س1050: کیاان اہل کتاب پر جو اسلامی ملکوں میں زندگی بسر کررہے ہیں، کافر ذمی کا حکم جاری ہوگا؟
ج: جب تک وہ اس اسلامی حکومت کے قوانین و احکام کے پابند ہیں کہ جس کی نگرانی میں وہ زندگی بسر کر رہے ہیں، اور امان کے خلاف کوئی کام بھی نہیں کرتے تو ان کا وہی حکم ہے جو معاہَد کا ہے۔
س1051: کیا کوئی مسلمان کسی کافر کو خواہ وہ اہل کتاب میں سے ہو یا غیر اہل کتاب سے، مردوں میں سے ہو یا عورتوں میں سے اور چاہے اسلامی ممالک میں ہو یا غیر اسلامی ممالک میں، اپنی ملکیت بنا سکتا ہے؟
ج: یہ کام جائز نہیں ہے، اور جب کفار اسلامی سرزمین پر حملہ کریں اور ان میں سے کچھ لوگ مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوجائیں تو اسراء کی تقدیر کا فیصلہ حاکم اسلامی کے ہاتھ میں ہے اور عام مسلمانوں کو ان کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔
س1052: اگر فرض کریں کہ حقیقی اسلام محمدی کی حفاظت ایک محترم النفس شخص کے قتل پر موقوف ہے تو کیا یہ عمل ہمارے لئے جائز ہے؟
ج: نفس محترم کا خون ناحق بہانا شرعی لحاظ سے حرام اور حقیقی اسلام محمدی کے احکام کے خلاف ہے، لہذا یہ بے معنی بات ہے کہ اسلام محمدی کا تحفظ ایک بے گناہ شخص کے قتل پر موقوف ہو، لیکن اگر اس سے مراد یہ ہو کہ انسان جہادفی سبیل اللہ اور اسلام محمدی سے دفاع کیلئے ان حالات میں قیام کرے کہ جن میں اسے اپنے قتل کا بھی احتمال ہو تو اسکی مختلف صورتیں ہیں، لہذا اگر انسان کی اپنی تشخیص یہ ہو کہ مرکز اسلام خطرے میں ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اسلام کا دفاع کرنے کیلئے قیام کرے، اگرچہ اس میں اسے قتل ہوجانے کا خوف ہی کیوں نہ ہو۔
- امر بالمعروف و نہی عن المنکر
- حرام معاملات
- شطرنج اور آلات قمار
- موسیقی اور غنا
موسیقی اور غنا
س 1128: حلال اورحرام موسیقی میں فرق کرنے کا معیار کیا ہے ؟ آیا کلاسیکی موسیقی حلال ہے؟ اگر ضابطہ بیان فرمادیں تو بہت اچھا ہوگا۔
ج: وہ موسیقی جو عرف عام میں راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہو، وہ حرام ہے اور حرام ہونے کے لحاظ سے کلاسیکی اور غیر کلاسیکی میں کوئی فرق نہیں ہے اور موضوع کی تشخیص کا معیار خود مکلف کی عرفی نظر ہے اور جو موسیقی اس طرح نہ ہو بذات خود اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س 1129: ایسی کیسٹوں کے سننے کا حکم کیا ہے جنہیں سازمان تبلیغات اسلامی یا کسی دوسرے اسلامی ادارے نے مجاز قراردیاہو؟ اور موسیقی کے آلات کے استعمال کا کیا حکم ہے جیسے، سارنگی ، ستار، بانسری وغیرہ؟
ج: کیسٹ کے سننے کا جواز خودمکلف کی تشخیص پر ہے لہذا اگر مکلّف کے نزدیک متعلقہ کیسٹ کے اندر لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی اور غنا نہ ہو اور نہ ہی اسکے اندر باطل مطالب پائے جاتے ہوں تو اسکے سننے میں کوئی حرج نہیں ہے لذا فقط سازمان تبلیغات اسلامی یا کسی اور اسلامی ادارے کی جانب سے مجاز قرار دینا اسکے مباح ہونے کی شرعی دلیل نہیں ہے ۔ اور لہوی حرام موسیقی کے لئے موسیقی کے آلات کا استعمال جائز نہیں ہے البتہ معقول مقاصد کے لئے مذکورہ آلات کا جائز استعمال اشکال نہیں رکھتا۔ اور مصادیق کی تعیین خود مکلف کی ذمہ داری ہے۔
س 1130: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی سے کیا مراد ہے؟ اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی اور غیر لہوی موسیقی کی تشخیص کا راستہ کیا ہے؟
ج: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی وہ ہے جواپنی خصوصیات کی وجہ سے انسان کو خداوند متعال اور اخلاقی فضائل سے دور کرتی ہے اور اسے گناہ اور بے قید و بند حرکات کی طرف دھکیلتی ہے۔ اورموضوع کی تشخیص کا معیار عرفِ عام ہے۔
س 1131: کیا آلات موسیقی بجانے والے کی شخصیت،بجانے کی جگہ یا اس کا ھدف و مقصد موسیقی کے حکم میں دخالت رکھتا ہے؟
ج: وہ موسیقی حرام ہے جو لہوی،راہ خدا سے منحرف کرنے والی ہو ۔
البتہ بعض اوقات آلاتِ موسیقی بجانے والے کی شخصیت ، اسکے ساتھ ترنّم سے پیش کیا جانے والا کلام،محل یا اس قسم کے دیگر امور ایک موسیقی کے حرام اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی یا کسی اور حرام عنوان کے تحت داخل ہونے میں مؤثر ہیں مثال کے طور پر ان چیزوں کی وجہ سے اس میں کوئی مفسدہ پیدا ہوجائے۔س 1132: کیا موسیقی کے حرام ہونے کامعیار فقط لہو ومطرب ہونا ہے یا یہ کہ ہیجان میں لانا بھی اس میں مؤثر ہے؟ اور اگر کوئی ساز،موسیقی سننے والے کے حزن اور گریہ کا باعث بنے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ اور ان غزلیات کے پڑھنے کا کیا حکم ہے جو راگوں سے پڑھی جاتی ہیں اور ان کے ساتھ موسیقی بھی ہوتی ہے۔
ج: معیار یہ ہے کہ موسیقی بجانے کی کیفیت اسکی تمام خصوصیات کے ساتھ ملاحظہ کی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ کیا یہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہے؟ چنانچہ جو موسیقی طبیعی طور پر لہوی راہ خدا سے منحرف کرنے والی ہو وہ حرام ہے چاہے جوش و ہیجان کا باعث بنے یا نہ ۔ نیز سا معین کے لئے موجب حزن و اندوہ و غیرہ ہو یا نہ ۔
غنا اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی کے ساتھ گائی جانے والی غزلوں کا گانا اور سننا بھی حرام ہے۔س1133: غنا کسے کہتے ہیں اور کیا فقط انسان کی آواز غنا ہے یا آلات موسیقی کے ذریعے حاصل ہونے والی آواز بھی غنا میں شامل ہے؟
ج: غنا انسان کی اس آواز کو کہتے ہیں کہ جسے گلے میں پھیرا جائے اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو اس صورت میں گانا اور اس کا سننا حرام ہے۔
س 1134: کیا عورتوں کے لئے شادی بیاہ کے دوران آلات موسیقی کے علاوہ برتن اور دیگر وسائل بجانا جائز ہے ؟ اگر اسکی آواز محفل سے باہر پہنچ کر مردوں کو سنائی دے رہی ہو تو اسکا کیا حکم ہے ؟
ج: جواز کا دارو مدار کیفیت عمل پر ہے کہ اگر وہ شادیوں میں رائج عام روایتی طریقے کے مطابق ہو اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی شمار نہ ہوتا ہو اور اس پر کوئی مفسدہ بھی مترتب نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س 1135: شادی بیاہ کے اندر عورتوں کے ڈفلی بجانے کا کیا حکم ہے؟
ج: آلاتِ موسیقی کا لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی بجانے کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
س 1136: کیا گھر میں غنا کاسننا جائز ہے؟ اور اگر گانے کا انسان پر اثر نہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی غنا کاسننا مطلقاً حرام ہے چاہے گھر میں تنہا سنے یا لوگوں کے سامنے ،متاثر ہو یا نہ ہو۔
س 1137: بعض نوجوان جو حال ہی میں بالغ ہوئے ہیں انہوں نے ایسے مجتہد کی تقلید کی ہے جو مطلقاً موسیقی کو حرام سمجھتا ہے چاہے یہ موسیقی اسلامی جمہوری (ایران)کے ریڈیو اور ٹیلیویژن سے ہی نشر ہوتی ہو۔ مذکورہ مسئلہ کا حکم کیا ہے؟کیا ولی فقیہ کا حلال موسیقی کے سننے کی اجازت دینا حکومتی احکام کے اعتبار سے مذکورہ موسیقی کے جائز ہونے کے لئے کافی نہیں ہے؟ یا ان پر اپنے مجتہد کے فتوی کے مطابق ہی عمل کرنا ضروری ہے؟
ج: موسیقی سننے کے بارے میں جواز اور عدم جواز کا فتوی حکومتی احکام میں سے نہیں ہے بلکہ یہ فقہی اور شرعی حکم ہے۔ اور ہر مکلف کو مذکورہ مسئلہ میں اپنے مرجع کی نظر کے مطابق عمل کرنا ہوگا ۔ہاں اگر موسیقی راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی نہ ہو اور نہ ہی اس پرمفسدہ مترتب ہو تا ہو تو ایسی موسیقی کے حرام ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
س1138: موسیقی اور غنا سے کیا مراد ہے؟
ج: آ واز کو اس طرح گلے میں گھمانا کہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو، غنا کہلاتا ہے ۔اسکا شمار گناہوں میں ہوتاہے یہ سننے اور گانے والے پر حرام ہے ۔ لیکن موسیقی، آلات موسیقی کا بجانا ہے۔ اگر یہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو تو بجانے اور سننے والے پر حرام ہے لیکن اگر مذکورہ صفات کے ساتھ نہ ہو تو بذات خود موسیقی جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س 1139: میں ایسی جگہ کام کرتا ہوں جس کا مالک ہمیشہ گانے کے کیسٹ سنتا ہے اور مجھے بھی مجبوراً سننا پڑتا ہے کیا یہ میرے لیے جائز ہے یا نہیں ؟
ج: اگر کیسٹوں میں موجودلہوی موسیقی اور غنا،راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہو تو انکا سننا جائز نہیں ہے ہاں اگر آپ مذکورہ جگہ میں حاضر ہونے پر مجبور ہیں تو آپ کے وہاں جانے اور کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن آپ پر واجب ہے کہ گانے کان لگا کر نہ سنیں اگرچہ آواز آپ کے کانوں میں پڑے اور سنائی دے۔
س1140: وہ موسیقی جو اسلامی جمہوریہ (ایران) کے ریڈیو اور ٹیلیوژن سے نشر ہوتی ہے کیا حکم رکھتی ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت امام خمینی (قدس سرہ )نے موسیقی کو مطلقاً حلال قرار دیا ہے کیا صحیح ہے؟
ج: حضرت امام خمینی (قدس سرہ) کی طرف موسیقی کومطلقاً حلال کرنے کی نسبت دینا جھوٹ اور افترا ہے چونکہ امام (قدس سرہ) ایسی موسیقی کو حرام سمجھتے تھے جو لہوی محافل سے مناسبت رکھتی ہو۔ موضوع کی تشخیص موسیقی کے نقطۂ نظر میں اختلاف کا سبب ہے ۔ کیونکہ موضوع کو تشخیص دینا خود مکلف کے اوپر چھوڑ دیا گیا ہے بعض اوقات بجانے والے کی رائے سننے والے سے مختلف ہوتی ہے لہذا جسے خود مکلف راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی کو تشخیص دے تو اسکا سننا اس پر حرام ہے البتہ جن آوازوں کے بارے میں مکلف کو شک ہو وہ حلال ہیں اورمحض ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہو جانا حلال اور مباح ہونے کی شرعی دلیل شمار نہیں ہوتا ۔
س 1141: ریڈیو اور ٹیلیویژن سے کبھی کبھی ایسی موسیقی نشر ہوتی ہے کہ جو میری نظر میں لہو اور فسق و فجور کی محافل سے مناسبت رکھتی ہے۔ کیا میرے لئے ایسی موسیقی سے اجتناب کرنا اور دوسروں کو بھی منع کرنا واجب ہے؟
ج: اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہے تو آپ کے لئے سننا جائز نہیں ہے لیکن دوسروں کو نہی عن المنکر کے عنوان سے روکنا اس بات پر موقوف ہے کہ وہ بھی مذکورہ موسیقی کو آپ کی طرح حرام موسیقی سمجھتے ہوں۔
س 1142: وہ لہوی موسیقی اور غنا کہ جسے مغربی ممالک میں ترتیب دیا جاتا ہے انکے سننے اور پھیلانے کا کیا حکم ہے؟
ج: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی کے سننے کے جائزنہ ہونے میں زبانوں اور ان ملکوں میں کوئی فرق نہیں ہے جہاں یہ ترتیب دی جاتی ہے لہذا ایسی کیسٹوں کی خرید و فروخت ،انکا سننا اور پھیلانا جائز نہیں ہے جو غنا اور حرام لہوی موسیقی پر مشتمل ہوں۔
س1143: مرد اورعورت میں سے ہر ایک کے غنا کی صورت میں گانے کا کیا حکم ہے؟ کیسٹ کے ذریعہ ہو یا ریڈیو کے ذریعہ؟موسیقی کے ساتھ ہو یا نہ؟
ج: راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی غنا حرام ہے اور غنا کی صورت میں گانا اوراس کا سننا جائز نہیں ہے چاہے مرد گائے یاعورت ، براہ راست ہو یا کیسٹ کے ذریعے چاہے گانے کے ہمراہ آلات لہو استعمال کئے جائیں یا نہ۔
س 1144: جائز اور معقول مقاصد کے لیے مسجد جیسے کسی مقدس مقام میں موسیقی بجانے کا کیا حکم ہے؟
ج: لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی مطلقاجائز نہیں ہے اگر چہ مسجد سے باہر اور حلال و معقول مقاصد کے لئے ہو۔ البتہ جن مواقع پر انقلابی ترانے پڑھنا مناسب ہے، مقدس مقامات میں موسیقی کے ساتھ انقلابی ترانے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اسکی شرط یہ ہے کہ یہ امر مذکورہ جگہ کے تقدس و احترام کے خلاف نہ ہو اور نہ ہی مسجد میں نمازیوں کے لئے باعث زحمت ہو۔
س 1145: آیا موسیقی سیکھنا جائز ہے خصوصاً ستار؟ اوردوسروں کواسکی ترغیب دلانے کا کیا حکم ہے؟
ج: غیر لہوی موسیقی بجانے کیلئے آ لات موسیقی کا استعمال جائز ہے اگر دینی یا انقلابی نغموں کیلئے ہو یا کسی مفیدثقافتی پروگرام کیلئے ہو اور اسی طرح جہاں بھی مباح عقلائی غرض موجود ہو مذکورہ موسیقی جائز ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ کوئی اورمفسدہ لازم نہ آئے اور اس طرح کی موسیقی کو سیکھنا اور تعلیم دینا بذات ِ خود جائز ہے لیکن موسیقی کو ترویج دینا جمہوری اسلامی ایران کے بلند اہداف کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔
س 1146: عورت جب خاص لحن کے ساتھ شعر و غیرہ پڑھے تو اس کی آواز سننے کا کیا حکم ہے ؟سننے والا جوان ہو یا نہ ہو ، مرد ہو یا عورت ،اور اگر عورت محارم میں سے ہو تو کیا حکم ہے؟
ج: اگر خاتون کی آواز راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی غنا ہو یا اس کا سننا لذت کے لیے اور ریبہ کے ساتھ ہو یا اس پر کوئی دوسرا مفسدہ مترتب ہوتا ہو تو جایز نہیں ہے اور اس سلسلے میں سوال میں مذکورہ صورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
س 1147: کیا ایران کی روایتی موسیقی کہ جو اس کا قومی ورثہ ہے حرام ہے یا نہیں ؟
ج: وہ موسیقی جو عرف عام میں راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہو تو وہ مطلقاً حرام ہے چاہے ایرانی ہو یا غیر ایرانی چاہے روایتی ہو یا غیر روایتی۔
س 1148: عربی ریڈیو سے بعض خاص لحن کی موسیقی نشر ہوتی ہے،آیا عربی زبان سننے کے شوق کی خاطر اسے سنا جاسکتا ہے؟
ج: اگر عرف میں راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی شمار ہوتا ہو تو مطلقاً حرام ہے اور عربی زبان کے سننے کا شوق شرعی جواز نہیں ہے ۔
س ١١٤۹: کیا بغیر موسیقی کے گانے کی طرز پر گائے جانے والے اشعار کا دہرانا جائز ہے؟
ج: غنا حرام ہے چاہے موسیقی کے آلات کے بغیر ہو اور غنا سے مراد یہ ہے کہ اس طرح آواز کو گلے میں گھمایا جائے کہ راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو ، البتہ فقط اشعار کے دہرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س1150: موسیقی کے آلات کی خریدو فروخت کا کیاحکم ہے اور ان کے استعمال کی حدود کیا ہیں؟
ج: مشترک آلات کی خرید و فروخت غیر لہوی موسیقی بجانے کے لئے اشکال نہیں رکھتی ۔
س 1151: کیا دعا ، قرآن اور اذان وغیرہ میں غنا جائز ہے؟
ج: غناء سے مراد ایسی آواز ہے جو ترجیع (آواز کو گلے میں گھمانا) پر مشتمل ہو اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو تو یہ مطلقاً حرام ہے حتی، دعا، قرآن ، اذان اور مرثیہ و غیرہ میں بھی۔
س1152: آج کل موسیقی بعض نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال کی جاتی ہے جیسے افسردگی، اضطراب ، جنسی مشکلات اور خواتین کی سرد مزاجی وغیرہ۔ یہ موسیقی کیا حکم رکھتی ہے؟
ج: اگر امین اور ماہرڈاکٹر کی رائے یہ ہو کہ مرض کا علاج موسیقی پر متوقف ہے تو مرض کے علاج کی حدّ تک موسیقی کا استعمال جائز ہے۔
س 1153: اگر حرام غنا سننے کی وجہ سے زوجہ کی طرف رغبت زیادہ ہوجاتی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: زوجہ کی جانب رغبت کا زیادہ ہونا،حرام غنا سننے کا شرعی جواز نہیں ہے۔
س1145: عورتوں کے جمع میں خاتون کا کنسرٹ اجرا کرناکیا حکم رکھتا ہے جبکہ موسیقی بجانے والی بھی خواتین ہوں ؟
ج: اگر کنسرٹ کا اجرا راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی، ترجیع کی صورت میں ہو یا اسکی موسیقی راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی ہو تو حرام ہے۔
س1155: اگر موسیقی کے حرام ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ لہوی ہو اور لہو و گناہ کی محافل سے مناسبت رکھتی ہو تو ایسے گانوں اور ترانوں کا کیا حکم ہے جو بعض لوگوں حتی کہ خوب و بد کو نہ سمجھنے والے بچوں میں بھی ہیجان پیدا کر دیتے ہیں؟ اور آیا ایسے فحش کیسٹ سننا حرام ہے جو عورتوں کے گانوں پر مشتمل ہوں لیکن ہیجان کا سبب نہ ہوں؟اور ان لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے جو ایسی عوامی بسوں میں سفر کرتے ہیں جنکے ڈرائیور مذکورہ کیسٹ استعمال کرتے ہیں؟
ج: موسیقی یا ہر وہ گانا جو ترجیع کے ہمراہ ہے اگر کیفیت و محتوا کے لحاظ سے یا گانے، بجانے کے دوران گانے یا بجانے والے کی خاص حالت کے اعتبار سے راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی ہو تو اس کا سننا حرام ہے حتی ایسے افراد کے لئے بھی کہ جنھیں یہ ہیجان میں نہ لائیں اور تحریک نہ کریں اور اگر عوامی بسوں یا دوسری گاڑیوں میں غنا یا حرام لہوی موسیقی نشر ہو تو ضروری ہے کہ سفر کرنے والے لوگ اسے کان لگا کر نہ سنیں اور نہی عن المنکرکریں۔
س1156: آیا شادی شدہ مرد اپنی بیوی سے لذت حاصل کرنے کے قصد سے نا محرم عورت کا گانا سن سکتا ہے؟ آیا زوجہ کا غنا اپنے شوہر یا شوہر کا اپنی زوجہ کے لے جایز ہے ؟ اور آیا یہ کہنا صحیح ہے کہ شارع مقدس نے غنا کو اس لئے حرام کیا ہے کہ غنا کے ہمراہ ہمیشہ محافل لہو و لعب ہوتی ہیں اور غنا کی حرمت ان محافل کی حرمت کا نتیجہ ہے۔
ج: حرام غنا(اس طرح ترجیع صوت پر مشتمل ہو کہ جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہو)کو سننا مطلقا حرام ہے حتی میاں بیوی کا ایک دوسرے کے لئے بھی اور بیوی سے لذت کا قصد، غنا کو مباح نہیں کرتا اور غنا وغیرہ کی حرمت شریعت مقدسہ میں تعبداً ثابت ہے اور شیعہ فقہ کے مسلمات میں سے ہے اور انکی حرمت کا دارو مدار فرضی معیارات اور نفسیاتی و اجتماعی اثرات کے اوپر نہیں ہے بلکہ یہ مطلقاً حرام ہیں اور ان سے مطلقاً اجتناب واجب ہے جب تک ان پر یہ عنوانِ حرام صادق ہے۔
س1157: بعض آرٹ کا لجزکے طلبا کے لئے اسپیشل دروس کے دوران انقلابی ترانوں اور نغموں کی کلاس میں شرکت لازمی ہے۔ جہاں وہ موسیقی کے آلات کی تعلیم لیتے ہیں اور مختصر طور پر موسیقی سے آشنا ہوتے ہیں اس درس کے پڑھنے کا اصلی آلہ اَرگن ہے۔ اس مضمون کی تعلیم کا کیا حکم ہے ؟جبکہ اس کی تعلیم لازمی ہے۔ مذکورہ آلہ کی خریدو فروخت اور اسکا استعمال ہمارے لئے کیا حکم رکھتا ہے؟ ان لڑکیوں کیلئے کیا حکم ہے جو مردوں کے سامنے پریکٹس کرتی ہیں؟
ج: انقلابی ترانوں، دینی پروگراموں اور مفید ثقافتی و تربیتی سرگرمیوں میں موسیقی کے آلات سے استفادہ کرنے میں بذات خود کوئی حرج نہیں ہے ۔ مذکورہ اغراض کے لئے موسیقی کے آلات کی خرید و فروخت نیز انکا سیکھنا اور سکھانا جائز ہے اسی طرح خواتین حجاب اور اسلامی آداب و رسوم کی مراعات کرتے ہوئے کلاس میں شرکت کرسکتی ہیں ۔
س1158: بعض نغمے ظاہری طور پر انقلابی ہیں اور عرف ِعام میں بھی انہیں انقلابی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ گانے والے نے انقلابی قصد سے نغمہ گایا ہے یا طرب اور لہو کے ارادے سے ، ایسے نغموں کے سننے کا کیا حکم ہے؟ جبکہ ان کے گانے والا مسلمان نہیں ہے ، لیکن اس کے نغمے ملی ہوتے ہیں اور انکے بول جبری تسلّط کے خلاف ہوتے ہیں اور استقامت پر ابھارتے ہیں۔
ج: اگر سامع کی نظر میں عرفاًگانے کی کیفیت اور راہ خدا سے منحرف کرنے والے گانے جیسی نہ ہو تو اس کے سننے میں کوئی حرج نہیں ہے اور گانے والے کے قصد، ارادے اورمحتوا کااس میں کوئی دخل نہیں ہے۔
س 1159: ایک جوان بعض کھیلوں میں بین الاقوامی کوچ اورریفری کے طور پر مشغول ہے اسکے کام کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بعض ایسے کلبوں میں بھی جائے جہاں حرام موسیقی اور غنا نشر ہو رہے ہوتے ہیں اس بات کو نظر میں رکھتے ہوئے کہ اس کام سے اسکی معیشت کا ایک حصہ حاصل ہوتاہے اورا سکے رہائشی علاقے میں کام کے مواقع بھی کم ہیں کیا اسکے لئے یہ کام جائز ہے ؟
ج: اس کے کام میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ لہوی موسیقی اور غنا کا سننا اس کے لئے حرام ہے اضطرار کی صورت میں حرام غنا اورموسیقی کی محفل میںجانا اس کے لئے جائز ہے البتہ توجہ سے موسیقی نہیں سن سکتا ،بلا اختیار جو چیز کان میں پڑے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
س 1160: آیا توجہ کے ساتھ موسیقی کا سننا حرام ہے یا کان میں آواز کا پڑنا بھی حرام ہے؟
ج: غنا اور لہوی حرام موسیقی کے کان میں پڑنے کا حکم اسے کان لگاکرسننے کی طرح نہیں ہے سوائے بعض ان مواقع کے جن میں عرف کے نزدیک کان میں پڑنا بھی کان لگا کر سننا شمار ہوتاہے۔
س 1161: کیا قرأت قرآن کے ہمراہ ایسے آلات کے ذریعے موسیقی بجانا کہ جن سے عام طور پر لہو و لعب کی محافل میں استفادہ نہیں کیا جاتا جائز ہے؟
ج: اچھی آواز اور قرآن کریم کے شایان شان صدا کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ ایک بہتر امر ہے بشرطیکہ حرام غنا کی حدّ تک نہ پہنچے البتہ تلاوت قرآن کے ساتھ موسیقی بجانے کا کوئی شرعی جواز اور دلیل موجود نہیں ہے۔
س1162: محفل میلاد و غیرہ میں طبلہ بجانے کا کیا حکم ہے؟
ج: آلات موسیقی کو اس طرح استعمال کرنا کہ جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہو ،مطلقاً حرام ہے ۔
س 1163: موسیقی کے ان آلات کا کیا حکم ہے کہ جن سے تعلیم و تربیت والے نغموں کے پڑھنے والی ٹیم کے رکن طلباء استفادہ کرتے ہیں ؟
ج: موسیقی کے ایسے آلات جو عرف عام کی نگاہ میں مشترک اور حلال کاموں میں استعمال کے قابل ہوں انہیں غیر لہوی جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا نہ ہو تو حلال مقاصد کے لئے استعمال کرنا جائز ہے لیکن ایسے آلات جو عرف کی نگاہ میں صرف لہو جو راہ خدا سے منحرف کرنے والے مخصوص آلات سمجھے جاتے ہوں، انکا استعمال جائز نہیں ہے۔
س 1164: کیا موسیقی کا وہ آلہ جسے ستار کہتے ہیں بنانا جائز ہے اور کیا پیشے کے طور پر اس سے کسبِ معاش کیا جاسکتا ہے ، اس کی صنعت کو ترقی دینے اور اسے بجانے والوں کی حوصلہ افزائی کے لئے سرمایہ کاری ومالی امداد کی جاسکتی ہے؟ اور اصل خالص موسیقی پھیلانے اور زندہ رکھنے کے لئے ایرانی روایتی موسیقی کی تعلیم دینا جائز ہے یا نہیں؟
ج: قومی یا انقلابی ترانوں یا ہر حلال اور مفید چیزمیں موسیقی کے آلات کا استعمال جب تک لہوی راہ خدا سے منحرف کرنے والا نہ ہو بلا اشکال ہے اسی طرح اس کے لئے آلات کا بنانا اور مذکورہ ہدف کے لئے تعلیم و تعلم بھی بذاتِ خود اشکال نہیں رکھتے۔
س 1165: کونسے آلات آلاتِ لہو شمار کئے جاتے ہیں کہ جن کا استعمال کسی بھی حال میں جائز نہیں ہے؟
ج: وہ آلات جو عام طور پر راہ خدا سے منحرف کرنے والی آواز میں استعمال ہوتا ہو جو فکر اور عقیدے میں انحراف کا سبب بنے یا گناہ کا سبب بنے اور جن کی کوئی حلال منفعت نہیں ہے ۔
س 1166: جو آڈیوکیسٹ حرام چیزوں پر مشتمل ہے کیا اس کی کاپی کرنا اور اس پر اجرت لینا جائز ہے؟
ج: جن کیسٹوں کا سننا حرام ہے ان کی کاپی کرنا اور اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔
- رقص
رقص
س 1167: آیا شادیوں میں علاقائی رقص جائز ہے؟ اور ایسی محافل میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: بنابر احتیاط واجب مرد کا رقص حرام ہے اور عورت کا عورتوں کے درمیان رقص تو اگر اس پر لہو کا عنوان صدق کرے جیسا کہ وہ زنانہ نشست محفل رقص بن جاءے تو یہ محل اشکال ہے اور احتیاط واجب اسے ترک کرنا ہے اس صورت کے علاوہ اگررقص میں ایسی کیفیت پائی جاتی ہو جو شہوت کو ابھارے یا کسی حرام فعل کے ہمراہ ہو (جیسے حرام موسیقی اور گانا) یا اس پر کوئی مفسدہ مترتب ہوتا ہو یا وہاں کوئی نا محرم مرد موجود ہو تو حرام ہے اور اس حکم میں شادی اور غیر شادی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ رقص کی محافل میں شرکت کرنا اگر دوسروں کے فعل حرام کی تائید شمار ہو یا فعل ِحرام کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے وگرنہ کوئی حرج نہیں ہے۔
س 1168: کیا خواتین کی محفل میں بغیر موسیقی کی دھن کے رقص کرنا حرام ہے یا حلال ؟ اور اگر حرام ہے توکیا شرکت کرنے والوں پر محفل کو ترک کرنا واجب ہے؟
ج: عورت کا عورتوں کیلئے رقص اگر اس پر لہو کا عنوان صدق کرے جیسا کہ وہ زنانہ محفل محفل رقص میں بدل جائے تو محل اشکال ہے اور احتیاط واجب اسے ترک کرنا ہے اس صورت کے علاوہ اگر رقص اس طرح ہو کہ شہوت کو ابھارے یا فعل حرام کا سبب بنے یا اس پر کوئی مفسدہ مترتب ہوتا ہو تو حرام ہے ۔ فعل حرام پر اعتراض کے طور پر محفل کو ترک کرنا اگر نہی عن المنکر کا مصداق ہو تو واجب ہے۔
س 1169: مرد کا مرد کے لئے اور عورت کا عورت کے لئے یا مرد کا خواتین کے درمیان یا عورت کا مردوں کے درمیان علاقائی رقص کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: بنابر احتیاط واجب مرد کا رقص کرنا حرام ہے اور عورت کا عورتوں کیلئے رقص تو اگر اس پر لہو کا عنوان صدق کرے جیسا کہ وہ زنانہ پروگرام محفل رقص میں تبدیل ہوجاءے تو یہ محل اشکال ہے اور احتیاط واجب اس کا ترک کرنا ہے اور اس صورت کے علاوہ اگر رقص میں ایسی کیفیت پاءی جاتی ہو کہ وہ شہوت کو ابھارے یا فعل ِحرام (جیسے حرام موسیقی اور گانا) کے ہمراہ ہو یا اس پر کوئی مفسدہ مترتب ہویا کوئی نا محرم مرد وہاں موجود ہو تو حرام ہے۔
س 1170: مردوں کے ایک ساتھ مل کر رقص کرنے کا حکم کیا ہے؟ ٹیلیویژن و غیرہ پر چھوٹی بچیوں کا رقص دیکھنے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر رقص شہوت کو ابھارے یا اس سے گناہ گار انسان کی تائید ہوتی ہو یا اسکے لئے مزید جرأت کا باعث ہو اور یا کوئی مفسدہ مترتب ہوتا ہو تو جائز نہیں ہے۔
س 1171: اگر شادی میں شرکت کرنا معاشرتی آداب کے احترام کی وجہ سے ہو تو کیا رقص کے احتمال کے ہوتے ہوئے اس میں شرکت کرنا شرعا اشکال رکھتا ہے ؟
ج: ایسی شادیوں میں شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جن میں رقص کا احتمال ہو جب تک کہ فعل حرام کو انجام دینے والے کی تائید شمار نہ ہو اور حرام میں مبتلا ہونے کا سبب نہ بنے۔
س 1172: آیا بیوی کا شوہر کے لئے اور شوہر کا بیوی کے لئے رقص کرنا حرام ہے؟
ج: بیوی کا شوہر کے لئے اور شوہر کا بیوی کے لئے رقص کرنا اگرکسی اور حرام کام کے ہمراہ نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س1173: آیا اولاد کی شادی میں رقص کرنا جائز ہے؟اگرچہ رقص کرنے والے ماں باپ ہوں۔
ج: اگر رقص حرام کا مصداق ہو تو جائز نہیں ہے اگرچہ ماں باپ اپنی اولاد کی شادی میں رقص کریں۔
س 1174: ایک شادی شدہ عورت شادیوں میں شوہر کی اطلاع کے بغیر نامحرم مردوں کے سامنے ناچتی ہے اور یہ عمل چند بار انجام دے چکی ہے اور شوہر کا امر بالمعروف و نہی عن المنکر اس پر اثر نہیں کرتا اس صورت میں کیا حکم ہے؟
ج: عورت کا نامحرم کے سامنے رقص کرنا مطلقاً حرام ہے اور عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جانا بھی بذات ِ خود حرام ہے اورنشوز کا سبب ہے جس کے نتیجے میں عورت نان و نفقہ کے حق سے محروم ہوجاتی ہے۔
س1175: دیہاتوں کے اندرہونے والی شادیوں میں عورتوں کا مردوں کے سامنے رقص کرنے کاکیاحکم ہے؟ جبکہ اس میں آلات ِموسیقی بھی استعمال ہوں؟ مذکورہ عمل کے مقابلے میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
ج: عورتوں کا نامحرم کے سامنے رقص کرنا اور ہر وہ رقص جو شہوت کو ابھارے اور مفسدے کا سبب بنے حرام ہے اور موسیقی کے آلات کا استعمال اور موسیقی کا سننا اگر راہ خدا سے منحرف کرنے والا لہوی ہو تو وہ بھی حرام ہے ، ان حالات میں مکلّفین کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نہی از منکر کریں۔
س 1176: ممیزبچے یا بچی کا زنانہ یا مردانہ محفل میں رقص کرنے کا کیا حکم ہے ؟
ج: نا بالغ بچہ چاہے لڑکی ہو یا لڑکا مکلف نہیں ہے لیکن بالغ افراد کیلئے سزاوار نہیں ہے کہ اسے رقص کی ترغیب دلائیں۔
س 1177: رقص کی تربیت کے مراکز قائم کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: رقص کی تعلیم و ترویج کے مراکز قائم کرنا حکومت اسلامی کے اہداف کے منافی ہے۔
س 1178: مردوں کا محرم خواتین کے سامنے اور خواتین کا محرم مردوں کے سامنے رقص کرنے کا کیا حکم ہے ؟ چاہے محرمیت سببی ہو یا نسبی ؟
ج: وہ رقص جو حرام ہے اس کا مرد اور عورت یا محرم اور نامحرم کے سامنے انجام دینے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
س 1179: آیا شادیوں میں ڈنڈوں سے لڑائی کی نمائش کرنا جائز ہے اور اگر اسکے ساتھ آلات موسیقی استعمال کئے جائیں تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر تفریحی اور ورزشی کھیل کی صورت میں ہو اور جان کا خطرہ بھی نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن لہوی اور راہ خدا سے منحرف کرنے کے طریقے سے آلات ِموسیقی کا استعمال بالکل جائز نہیں ہے۔
س 1180: دبکہ کا کیا حکم ہے؟ (دبکہ ایک طرح کا علاقائی رقص ہے جس میں افرادہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اچھل کر جسمانی حرکات کے ساتھ ملکر زمین پر پاؤں مارتے ہیں تا کہ ایک شدید اورمنظم آواز پیدا ہو)
ج: اگر یہ عرف میں رقص شمار ہو تو اس کا حکم وہی ہے جو رقص کا حکم ہے۔
- تالی بجانا
تالی بجانا
س1181: میلاد اور شادی و غیرہ جیسے زنانہ جشن میں خواتین کے تالیاں بجانے کا کیا حکم ہے؟ برفرض اگر جائز ہو تو محفل سے باہر نامحرم مردوں کو اگر تالیوں کی آواز پہنچے تو اسکا کیا حکم ہے ؟
ج: اگر اس پر کوئی مفسدہ مترتب نہ ہو تومروجہ انداز سے تالی بجانے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ نامحرم کے کانوں تک اس کی آواز پہنچے۔
س 1182: معصومین علیہم السلام کے میلاد یا یوم وحدت و یوم بعثت کے جشنوں میں خوشحالی کے طور پر قصیدہ یا رسول اکرمؐ اور آپ کی آل پر درود پڑھتے ہوئے تالی بجانے کا کیا حکم ہے ؟ اس قسم کے جشن کامساجد اورسرکاری اداروں میں قائم نماز خانوں اور امام بارگاہ جیسی عبادت گاہوں میں برپا کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: بطور کلی عید و غیرہ جیسے جشنوں میں داد و تحسین کے لئے تالی بجانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ دینی محفل کی فضا درود وتکبیر سے معطر ہو بالخصوص ان محافل میں جو مساجد، امام بارگاہوں ،نمازخانوں وغیرہ میں منعقد کی جائیں تاکہ تکبیر اور درود کا ثواب بھی حاصل کیا جاسکے۔
- نامحرم کی تصویر اور فلم
نامحرم کی تصویر اور فلم
س1183: بے پرد ہ نامحرم عورت کی تصویر دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ ٹیلی ویژن میں عورت کا چہرہ دیکھنے کا کیا حکم ہے؟کیا مسلمان اور غیر مسلم عورت میں فرق ہے؟کیا براہ راست نشر ہونے والی تصویر اور ریکارڈنگ دیکھنے میں فرق ہے؟
ج: نامحرم عورت کی تصویرکا حکم خود اسے دیکھنے کے حکم جیسا نہیں ہے لہذا مذکورہ تصویر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ لذت حاصل کرنے کے لئے نہ ہو اور گناہ میں پڑنے کا خوف نہ ہو اور تصویر بھی ایسی مسلمان عورت کی نہ ہو جسے دیکھنے والا پہچانتاہے۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ نا محرم عورت کی وہ تصویر جو براہ راست نشر کی جا رہی ہو نہ دیکھی جائے لیکن ٹیلی ویژن کے وہ پروگرام جو ریکارڈ شدہ ہوتے ہیں ان میں خاتون کی تصویر دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ ریبہ اور گناہ میں مبتلا ہونے کا خوف نہ ہو۔
س1184: ٹیلیویژن کے ایسے پروگرام دیکھنے کا کیا حکم ہے جو سیٹلائٹ کے ذریعہ حاصل کئے جاتے ہیں؟ خلیج فارس کے گردو نواح میں رہنے والوں کا خلیجی ممالک کے ٹیلیویژن دیکھنے کا کیا حکم ہے؟
ج: وہ پروگرام جو مغربی ممالک سے سیٹلائٹ کے ذریعہ نشر ہوتے ہیں اور اسی طرح اکثر ہمسایہ ممالک کے پروگرام چونکہ گمراہ کن، مسخ شدہ حقائق اور لہو و مفسدہ پر مشتمل ہوتے ہیں جن کا دیکھنا غالباً ، گمراہی ، مفاسد اور حرام میں مبتلا ہونے کا سبب بنتاہے لہذا ان کا دریافت کرنا اورمشاہدہ کرنا جائز نہیں ہے۔
س1185: کیا ریڈیو اور ٹیلیویژن کے ذریعہ طنز و مزاح کے پروگرام سننے اور دیکھنے میں کوئی حرج ہے؟
ج: طنزیہ اور مزاحیہ پروگرام سننے اور دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں کسی مؤمن کی توہین ہو۔
س1186: شادی کے جشن میں میری کچھ تصویریں اتاری گئیں جبکہ میں پورے پردے میں نہیں تھی وہ تصویریں حال حاضر میں میری سہیلیوں اور میرے رشتہ داروں کے پاس موجود ہیں کیا مجھ پر ان تصویروں کا واپس لینا واجب ہے؟
ج: اگر دوسروں کے پاس تصاویر موجود ہونے میں کوئی مفسدہ نہ ہو یا تصاویر واپس لینے میں آپ کے لئے زحمت و مشقّت ہو تو آپ پر کوئی شرعی ذمہ داری نہیں ہے۔
س 1187: ہم عورتوں کیلئے حضرت امام خمینی (قدس سرہ) اور شہداء کی تصویروں کو چومنے کا کیا حکم ہے جب کہ وہ ہمارے نامحرم ہیں۔
ج: بطور کلی نامحرم کی تصویر خود نامحرم والا حکم نہیں رکھتی لہذا احترام، تبرک اور اظہار محبت کے لئے نامحرم کی تصویر کو بوسہ دینا جائز ہے البتہ اگر قصد ریبہ اور حرام میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہو۔
س1188: کیا سینماکی فلموں وغیرہ میں برہنہ یا نیم برہنہ عورتوں کی تصاویر جنہیں ہم نہیں پہچانتے دیکھنا جائز ہے؟
ج: تصویر اور فلم دیکھنے کا حکم خود نامحرم کو دیکھنے کی طرح نہیں ہے لہذا شہوت، ربیہ (بری نیت) اور خوف مفسدہ کے بغیر ہو تو شرعاً اسے دیکھنے میں کوئی مانع نہیں ہے لیکن چونکہ شہوت کو ابھارنے والی برہنہ تصاویر کو دیکھنا عام طور پر شہوت کے بغیر نہیں ہوتا لہذا ارتکاب گناہ کا مقدمہ ہے پس حرام ہے ۔
س 1189: کیا شادی کی تقریبات میں شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے لیئے تصویر اتروانا جائز ہے؟ جواز کی صورت میں آیا مکمل حجاب کی مراعات کرنا اس پر واجب ہے ؟
ج: بذات خود تصویر اتروانے کے لئے شوہر کی اجازت ضروری نہیں ہے البتہ اگر یہ احتمال پایا جاتاہو کہ عورت کی تصویر کو کوئی نامحرم دیکھے گا اور عورت کی طرف سے مکمل حجاب کا خیال نہ رکھنا مفسدہ کا باعث بنے گا تو اس صورت میں حجاب کا خیال رکھنا واجب ہے ۔
س 1190: آیا عورت کے لئے مردوں کے کشتی کے مقابلے دیکھنا جائز ہے؟
ج: ان مقابلوں کو اگر کشتی کے میدان میں حاضر ہو کر دیکھا جائے یا پھرلذت وریبہ کے قصد سے دیکھا جائے اور یا مفسدے اور گناہ میں پڑنے کا خطرہ ہو تو جائزنہیں ہے اور اگر ٹی وی سے براہ راست نشر ہوتے ہوئے مشاہدہ کیا جائے تو بنابر احتیاط جائز نہیں ہےاس کے علاوہ دیگر صورتوں میں کوئی حرج نہیں۔
س 1191: اگر دلہن شادی کی محفل میں اپنے سر پر شفاف و باریک کپڑا اوڑھے تو کیا نامحرم مرد اس کی تصویر کھینچ سکتا ہے یانہیں؟
ج: اگر یہ نامحرم عورت پر حرام نگاہ کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے وگرنہ جائز ہے۔
س 1192: بے پردہ عورت کی اسکے محارم کے درمیان تصویر لینے کا کیا حکم ہے ؟ اور اگر احتمال ہو کہ نامحرم اسے دھوتے اور پرنٹ کرتے وقت دیکھے گا تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر تصویر کھینچنے والا مصور جو اسے دیکھ رہا ہے اس کے محارم میں سے ہو توتصویر لینا جائز ہے اوراسی طرح اگر مصور اسے نہ پہچانتا ہو تو اس سے تصویر دھلانے اور پرنٹ کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س1193: بعض جوان فحش تصاویر دیکھتے ہیں اور اس کے لئے خود ساختہ توجیہات پیش کرتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟ اور اگر اس طرح کی تصاویر کا دیکھنا انسان کی شہوت کوایک حدّ تک تسکین دیتا ہو کہ جو اسے حرام سے بچانے میں مؤثر ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر تصاویر کا دیکھنا بری نیت سے ہو یا یہ جانتا ہو کہ تصاویر کا دیکھنا شہوت کو بھڑکانے کا سبب بنے گا یا مفسدے اور گناہ کے ارتکاب کا خوف ہو تو حرام ہے اور ایک حرام عمل سے بچنا دوسرے حرام کے انجام دینے کا جواز فراہم نہیں کرتا ۔
س1194: ایسے جشن میں فلم بنانے کے لئے جانے کا کیا حکم ہے جہاں موسیقی بج رہی ہو اور رقص کیا جارہا ہو؟ مرد کا مردوں کی تصویر اور عورت کا خواتین کی تصویر کھینچنے کا کیا حکم ہے؟ مرد کا شادی کی فلم کو دھونے کا کیا حکم ہے چاہے اس خاندان کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو ؟ اور اگر عورت فلم کو دھوئے تو کیا حکم ہے؟ کیا ایسی فلموں میں موسیقی کا استعمال جائز ہے؟
ج: خوشی کے جشن میں جانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور مرد کا مردوں اور عورت کا خواتین کی فلم بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے جب تک غنا اورحرام موسیقی سننے کا سبب نہ بنے اور نہ ہی کسی اور حرام فعل کے ارتکاب کا باعث بنے۔ مردوں کا عورتوں اور عورتوں کا مردوں کی فلم بنانا اگرریبہ کے ساتھ نگاہ یا کسی دوسرے مفسدے کا باعث بنے تو جائز نہیں ہے اور اسی طرح راہ خدا سے منحرف کرنے والی لہوی موسیقی کا شادی کی فلموں میں استعمال حرام ہے۔
س1195: اسلامی جمہوریہ (ایران) کے ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی ملکی اور غیر ملکی فلموں اور موسیقی کی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں دیکھنے اور سننے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر سامعین اور ناظرین کی تشخیص یہ ہے کہ وہ موسیقی جو ریڈیو یا ٹیلی ویژن سے نشر ہو رہی ہے وہ ایسی لہوی موسیقی ہے جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہے اور وہ فلم جو ٹیلیویژن سے دکھائی جارہی ہے اس کے دیکھنے میں مفسدہ ہے تو انکے لئے ان کا سننا اور دیکھنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اور محض ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر ہونا جواز کی شرعی دلیل نہیں ہے۔
س1196: سرکاری مراکز میں آویزاں کرنے کی غرض سے رسول اکرمؐ ، امیر المؤمنین اور امام حسین سے منسوب تصاویر چھاپنے اور فروخت کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: مذکورہ تصاویر کے چھاپنے میں بذات ِخودکوئی مانع نہیں ہے، بشرطیکہ ایسی کسی چیز پر مشتمل نہ ہوں جو عرف عام کی نگاہ میں موجب ہتک اور اہانت ہے نیز ان عظیم ہستیوں کی شان سے منافات نہ رکھتی ہوں۔
س1197: ایسی فحش کتابیں اور اشعار پڑھنے کا کیا حکم ہے جو شہوت کو بھڑکانے کا سبب بنیں؟
ج: ان سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
س1198: بعض ٹی وی اسٹیشنز اور سیٹلائٹ چینلز کے ذریعے براہ راست سلسلہ وار پروگرام نشر کئے جاتے ہیں جو مغرب کے معاشرتی مسائل پیش کرتے ہیں لیکن ان پروگراموں میں مرد و عورت کے اختلاط اور ناجائز تعلقات کی ترویج جیسے فاسد افکار بھی پائے جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ پروگرام بعض مومنین پر بھی اثر انداز ہونے لگے ہیں ایسے شخص کا کیا حکم ہے جسے ان کو دیکھنے کے بعد اپنے متاثر ہونے کا احتمال ہو؟ اور اگر کوئی اس غرض سے دیکھے کہ دوسروں کے سامنے اس کے نقصان کو بیان کرسکے یا اس پر تنقید کرسکے اور لوگوں کو نہ دیکھنے کی نصیحت کرسکے تو کیا اس کا حکم دوسروں سے فرق کرتا ہے؟
ج: لذت کی نگاہ سے دیکھنا جائز نہیں ہے اور اگر دیکھنے سے متاثر ہونے اورمفسدے کا خطرہ ہو تو بھی جائز نہیں ہے ہاں تنقید کی غرض سے اور لوگوں کو اسکے خطرات سے آگاہ کرنے اور نقصانات بتانے کے لئے ایسے شخص کے لیئے دیکھنا جائز ہے جو تنقید کرنے کا اہل ہو اور اپنے بارے میں مطمئن ہو کہ ان سے متأثر ہوکر کسی مفسدہ میں نہیں پڑے گا اور اگراسکے لیئے کچھ قوانین ہوں تو انکی ضرور رعایت کی جائے ۔
س1199: ٹیلی ویژن پر آنے والی اناؤ نسر خاتون جو بے پردہ ہوتی ہے اور اسکا سر و سینہ بھی عریاں ہوتا ہے کے بالوں کی طرف نگاہ کرنا جائز ہے ؟
ج: اگرلذت کے ساتھ نہ ہو اور اس سے حرام میں پڑنے اورمفسدہ کا خوف نہ ہو اور نشریات بھی براہ راست نہ ہوں تو فقط دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س1200: شادی شدہ شخص کے لیئے شہوت انگیز فلمیں دیکھنا جائز ہے یا نہیں ؟
ج: اگر دیکھنے کا مقصد شہوت کو ابھارنا ہو یا ان کا دیکھنا شہوت کے بھڑکانے کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے۔
س 1201: شادی شدہ مردوں کیلئے ایسی فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جن میں حاملہ عورت سے مباشرت کرنے کا صحیح طریقہ سکھایا گیا ہے جبکہ اس بات کا علم ہے کہ مذکورہ عمل اسے حرام میں مبتلا نہیں کرے گا؟
ج: ایسی فلموں کا دیکھنا چونکہ ہمیشہ شہوت انگیز نگاہ کے ہمراہ ہوتا ہے لہذاجائز نہیں ہے ۔
س 1202: مذہبی امور کی وزارت میں کام کرنے والے فلموں ، مجلات اور کیسٹوں کی نظارت کرتے ہیں تاکہ جائز مواد کو ناجائز مواد سے جدا کریں اس چیز کے پیش نظر کہ نظارت کے لئے انہیں غور سے سننا اوردیکھنا پڑتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟
ج: کنٹرول کرنے والے افراد کے لیئے قانونی فریضہ انجام دیتے ہوئے بقدر ضرورت دیکھنے اور سننے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ان پر لازم ہے کہ لذت و ریبہ کے قصد سے پرہیز کریں نیز جن افراد کو مذکورہ مواد کے کنٹرول پر تعینات کیا جاتاہے ان کا فکری اور روحانی حوالے سے اعلی حکام کے زیر نظر اور زیر رہنمائی ہونا واجب ہے ۔
س1203: کنٹرول کرنے کے عنوان سے ایسی ویڈیو فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جو کبھی کبھی قابل اعتراض مناظر پر مشتمل ہوتی ہیں تاکہ ان مناظر کو حذف کرکے ان فلموں کو دوسرے افراد کے دیکھنے کے لئے پیش کیا جائے؟
ج: فلم کا اسکی اصلاح اور اسے فاسد و گمراہ کن مناظر کے حذف کرنے کے لئے مشاہدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اس شرط کے ساتھ کہ اصلاح کرنے والا شخص خود حرام میں مبتلا ہونے سے محفوظ ہو۔
س1204: آیا میاں بیوی کے لئے گھر میں جنسی فلمیں دیکھنا جائز ہے ؟ آیا وہ شخص جس کے حرام مغز کی رگ کٹ گئی ہو وہ مذکورہ فلمیں دیکھ سکتا ہے تاکہ اپنی شہوت کو ابھارے اور اس طرح اپنی زوجہ کے ساتھ مباشرت کے قابل ہوسکے؟
ج: جنسی ویڈیو فلموں کے ذریعہ شہوت ابھارنا جائز نہیں ہے۔
س1205: حکومت اسلامی کی طرف سے قانونی طور پر ممنوع فلمیں اور تصاویر دیکھنے کا کیا حکم ہے جبکہ ان میں کسی قسم کا مفسدہ نہ ہو؟ اور جو ان میاں بیوی کے لئے مذکورہ فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے؟
ج: ممنوع ہونے کی صورت میں انھیں دیکھنے میں اشکال ہے۔
س1206: ایسی فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جن میں کبھی کبھی اسلامی جمہوریہ (ایران)کے مقدسات یا رہبر محترم کی توہین کی گئی ہو؟
ج: ایسی فلموں سے اجتناب واجب ہے۔
س1207: ایسی ایرانی فلمیں دیکھنے کا کیا حکم ہے جو اسلامی انقلاب کے بعد بنائی گئی ہیں اور ان میں خواتین ناقص حجاب کے ساتھ ہوتی ہیں اور کبھی کبھی انسان کو بُری چیزیں سکھاتی ہیں؟
ج: اگرلذت اور ریبہ کے قصد سے نہ ہو اور مفسدہ میں مبتلا ہونے کا موجب بھی نہ ہو تو بذاتِ خود ایسی فلمیں دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن فلمیں بنانے والوں پر واجب ہے کہ ایسی فلمیں نہ بنائیں جو اسلام کی گرانقدر تعلیمات کے منافی ہوں۔
س١٢٠۸: ایسی فلموں کی نشر و اشاعت کا کیا حکم ہے جن کی تائید مذہبی اور ثقافتی امور کی وزارت نے کی ہو؟ اور یونیورسٹی میں موسیقی کی ایسی کیسٹوں کے نشر کرنے کا کیا حکم ہے جن کی تائید مذکورہ وزارت نے کی ہو؟
ج: اگر مذکورہ فلمیں اور کیسٹیں مکلف کی نظر میں عرفا غنا اور راہ خدا سے منحرف کرنے والی موسیقی پر مشتمل ہوں تو ان کا نشر کرنا، پیش کرنا ، سننا اور دیکھنا جائز نہیں ہے، اور بعض متعلقہ اداروں کا تائید کرنا مکلف کے لئے جواز کی شرعی دلیل نہیں ہے جب کہ موضوع کی تشخیص میں خود اس کی رائے تائید کرنے والوں کی نظر کے خلاف ہو۔
س 1209: زنانہ لباس کے ایسے مجلات کی خرید و فروخت اورانہیں محفوظ رکھنے کا کیا حکم ہے کہ جن میں نامحرم خواتین کی تصاویر ہوتی ہیں اور جن سے کپڑوں کے انتخاب کیلئے استفادہ کیا جاتا ہے؟
ج: ان مجلات میں صرف نامحرم کی تصاویرکا ہونا خرید و فروخت کو ناجائز نہیں کرتا اور نہ ہی لباس کو انتخاب کرنے کیلئے ان سے استفادہ کرنے سے روکتا ہے مگر یہ کہ مذکورہ تصاویر پر کوئی مفسدہ مترتب ہو ۔
س 1210: کیا ویڈیو کیمرے کی خریدو فروخت جائز ہے؟
ج: اگر حرام امور میں استعمال کی غرض سے نہ ہوتو ویڈیو کیمرے کی خرید و فروخت جائز ہے ۔
س 1211: فحش ویڈیو فلمیں اور وی سی آر کی فروخت اور کرائے پر دینے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر یہ فلمیں ایسی ہیجان آور تصاویر پر مشتمل ہوں جو شہوت کو ابھاریں اور انحراف اور مفسدے کا موجب بنیں یا غنا اور ایسی لہوی موسیقی پر مشتمل ہو کہ جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہو تو ایسی فلموں کا بنانا ،انکی خرید و فروخت ، کرایہ پر دینا اور اسی طرح وی سی آر کا مذکورہ مقصد کے لئے کرا ئے پر دینا جائز نہیں ہے۔
س 1212: غیر ملکی ریڈیو سے خبریں اور ثقافتی اور علمی پروگرام سننے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر مفسدے اور انحراف کا سبب نہ ہوں تو جائز ہے۔
- ڈش ا نٹینا
ڈش ا نٹینا
س 1213: کیا ڈش کے ذریعے ٹی وی پروگرام دیکھنا ، ڈش خریدنا اور رکھنا جائز ہے؟ اور اگر ڈش مفت میں حاصل ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
ج: چونکہ ڈش، ٹی وی پروگرام دیکھنے کے لئے محض ایک آلہ ہے اور ٹی وی پروگرام جائز بھی ہوتے ہیں اور ناجائز بھی لہذا ڈش کا حکم بھی دیگر مشترک آلات جیسا ہے کہ جنہیں حرام مقاصد کے لئے بیچنا ،خریدنا اور اپنے پاس رکھنا حرام ہے لیکن جائز مقاصد کے لئے جائز ہے البتہ چونکہ یہ آلہ جسکے پاس ہو اسے یہ حرام پروگراموں کے حاصل کرنے کے لئے کاملاًمیدان فراہم کرتاہے اور بعض اوقات اسے گھر میں رکھنے پر دیگر مفاسد بھی مترتب ہوتے ہیں لہذا اسکی خرید و فروخت اور رکھنا جائز نہیں ہے ہاں اس شخص کے لئے جائز ہے جسے اپنے اوپر اطمینان ہوکہ اس سے حرام استفادہ نہیں کرے گا اور نہ ہی اسے گھر میں رکھنے پر کوئی مفسدہ مترتب ہوگا اور اگر اس سلسلہ میں کوئی قانون ہو تو اسکی مراعات کرنا ضروری ہے۔
س1214: آیا جو شخص اسلامی جمہوریہ ایران سے باہر رہتا ہے اسکے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے ٹیلی ویژن پروگرام دیکھنے کے لیئے سیٹلائٹ چینلز دریافت کرنے والا ڈش انٹیناخریدنا جائز ہے؟
ج: مذکورہ آلہ اگرچہ مشترک آلات میں سے ہے اور اس بات کی قابلیت رکھتا ہے کہ اس سے حلال استفادہ کیا جائے لیکن چونکہ غالباً اس سے حرام استفادہ کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ اسے گھر میں رکھنے سے دوسرے مفاسد بھی پیدا ہوتے ہیں لہذا اسکا خریدنا اور گھر میں رکھنا جائز نہیں ہے ہاں اگر کسی کو اطمینان ہو کہ اسے حرام میں استعمال نہیں کرے گا اور اسکے نصب کرنے پر کوئی اور مفسدہ بھی مترتب نہیں ہوگا تو اسکے لئے جائز ہے ۔
س1215: ایسے ڈش انٹینا کا کیا حکم ہے جو اسلامی جمہوریہ کے چینلز کے علاوہ بعض خلیجی اور عرب ممالک کی خبریں اور انکے مفید پروگراموں کے ساتھ ساتھ تمام مغربی اور فاسد چینلز بھی دریافت کرتاہے؟
ج: مذکورہ آلہ کے ذریعے ٹیلیویژن پروگرام کے حصول اور استعمال کا معیار وہی ہے جو گذشتہ مسئلہ میں بیان کیا گیا ہے اورمغربی اور غیر مغربی چینلز میں کوئی فرق نہیں ہے۔
س1216: علمی اور قرآنی اور ان جیسے دیگر پروگراموں سے مطلع ہونے کے لئے کہ جنہیں مغربی ممالک اور خلیج فارس کے پڑوسی ممالک نشر کرتے ہیں ڈش کے استعمال کا حکم کیا ہے؟
ج: مذکورہ آلے کو علمی ، قرآنی وغیرہ پروگراموں کے مشاہدے کے لئے استعمال کرنا بذات ِ خود صحیح ہے۔ لیکن وہ پروگرام جو سیٹلائٹ کے ذریعہ مغربی یا اکثر ہمسایہ ممالک نشر کرتے ہیں غالباً گمراہ کن افکار، مسخ شدہ حقائق اور لہو ومفسدے پر مبنی ہوتے ہیں حتی کہ قرآنی ، علمی پروگرام دیکھنا بھی مفسدے اور حرام میں مبتلا ہونے کا سبب بنتا ہے لہذا ایسے پروگرام دیکھنے کیلئے ڈش کا استعمال شرعاً حرام ہے۔ ہاں اگر خالص علمی اور قرآنی پروگرام ہوں اور ان کے دیکھنے میں کوئی مفسدہ نہ ہو اور اس سے کسی حرام کام میں بھی مبتلا نہ ہو تو جائز ہے البتہ اس سلسلے میں اگر کوئی قانون ہو تو اسکی پابندی ضروری ہے۔
س1217: میرا کام ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرام دریافت کرنے والے آلات کی مرمت کرنا ہے اور گذشتہ کچھ عرصے سے ڈش لگانے اور مرمت کرانے والے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے مذکورہ مسئلہ میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ اور ڈش کے اسپئیر پارٹس کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر مذکورہ آلہ سے حرام امور میں استفادہ کیا جائے جیسا کہ غالباً ایسا ہی ہے یا آپ جانتے ہیں کہ جو شخص اسے حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اسے حرام میں استعمال کرے گا تو ایسی صورت میں اس کا فروخت کرنا، خریدنا ، نصب کرنا ، چالو کرنا، مرمت کرنا اور اس کے اسپئیر پارٹس فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔
- تھیٹر اور سینما
تھیٹر اور سینما
س1218: کیا فلموں میں ضرورت کے تحت علماء دین اور قاضی کے لباس سے استفادہ کرنا جائز ہے؟کیا ماضی اور حال کے علما پر دینی اور عرفانی پیرائے میں فلم بنانا جائز ہے؟ اس شرط کے ساتھ کہ ان کا احترام اور اسلام کی حرمت بھی محفوظ رہے ؟ اور انکی شان میں کسی قسم کی بے ادبی اور بے احترامی بھی نہ ہو بالخصوص جب ایسی فلمیں بنانے کا مقصد دین حنیف اسلام کی اعلی اقدار کو پیش کرنا اور عرفان اور ثقافت کے اس مفہوم کو بیان کرنا ہو جو ہماری اسلامی امت کا طرہ امتیاز ہے اور اس طرح سے دشمن کی گندی ثقافت کا مقابلہ کیا جائے اور اسے سینما کی زبان میں بیان کیا جائے کہ جو جوانوں کے لئے بالخصوص جذاب اور زیادہ موثر ہے ؟
ج: اس مطلب کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ سینما بیداری ، شعور پیدا کرنے اور تبلیغ کا ذریعہ ہے پس ہر اس چیز کی تصویر کشی کرنا یا پیش کرنا جو نوجوانوں کے فہم و شعور کو بڑھائے اور اسلامی ثقافت کی ترویج کرے، جائز ہے۔ انہیں چیزوں میں سے ایک علما ء دین کی شخصیت ، انکی ذاتی زندگی اور اسی طرح دیگر صاحبان علم و منصب کی شخصیت اور انکی شخصی زندگی کا تعارف کراناہے۔ لیکن ان کی ذاتی حیثیت اور ان کے احترام کی رعایت کرنا اور انکی ذاتی زندگی کے حریم کا پاس رکھنا واجب ہے اور یہ کہ ایسی فلموں سے اسلام کے منافی مفاہیم کو بیان کرنے کے لئے استفادہ نہ کیا جائے۔
س1219: ہم نے ایک ایسی داستانی اور حماسی فلم بنانے کا ارادہ کیا ہے کہ جو کربلا کے ہمیشہ زندہ رہنے والے واقعہ کی تصویر پیش کرے اور ان عظیم اہداف کو پیش کرے کہ جنکی خاطر امام حسین شہید ہوئے ہیں البتہ مذکورہ فلم میں امام حسین ـ کو ایک معمولی اور قابل رؤیت فرد کے طور پر نہیں دکھا یا جائے گا بلکہ انہیں فلم بندی ،اسکی ساخت اور نورپردازی کے تمام مراحل میں ایک نورانی شخصیت کی صورت میں پیش کیا جائے گا کیا ایسی فلم بنانا اور امام حسین علیہ السلام کو مذکورہ طریقے سے پیش کرنا جائز ہے ؟
ج: اگر فلم قابل اعتماد تاریخی شواہد کی روشنی میں بنائی جائے اور موضوع کا تقدس محفوظ رہے اور امام حسین اور ان کے اصحاب اور اہل بیت سلام اللہ علیہم اجمعین کا مقام و مرتبہ ملحوظ رہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن چونکہ موضوع کے تقدس کو اس طرح محفوظ رکھنا جیسے کہ محفوظ رکھنے کا حق ہے اور اسی طرح امام اور ان کے اصحاب کی حرمت کو باقی رکھنا بہت مشکل ہے لہذا اس میدان میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
س1220: اسٹیج یا فلمی اداکاری کے دوران مردوں کے لئے عورتوں کا لباس اور عورتوں کے لئے مردوں والا لباس پہننے کا کیا حکم ہے؟ اور عورتوں کے لئے مردوں کی آواز کی نقل اتارنے اور مردوں کیلئے عورتوں کی آواز کی نقل اتارنے کا کیا حکم ہے؟
ج: اداکاری کے دوران کسی حقیقی شخص کی خصوصیات بیان کرنے کی غرض سے جنس مخالف کے لئے ایک دوسرے کا لباس پہننا یا آواز کی نقل اتارنا اگر کسی مفسدے کا سبب نہ بنے تو اس کا جائز ہونا بعید نہیں ہے۔
س1221: اسٹیج شو یاتھیڑمیں خواتین کے لئے میک اپ کا سامان استعمال کرنے کا کیاحکم ہے؟ جبکہ انہیں مرد مشاہدہ کرتے ہوں؟
ج: اگر میک اپ کا عمل خود انجام دے یا خواتین کے ذریعے انجام پائے یا کوئی محرم انجام دے اور اس میں کوئی مفسدہ نہ ہو تو جائز ہے وگرنہ جائز نہیں ہے البتہ میک اپ شدہ چہرہ نامحرم سے چھپانا ضروری ہے ۔
- مصوری اور مجسمہ سازی
مصوری اور مجسمہ سازی
س1222: گڑیا ، مجسمے، ڈراءنگ اور ذی روح موجودات جیسے نباتات، حیوانات اور انسان کی تصویریں بنانے کا کیا حکم ہے؟ انکی خرید و فروخت ،گھر میں رکھنے یا انکے نمائش گاہ میں پیش کرنے کا کیا حکم ہے ؟
ج: موجودات کی مجسمہ سازی اور تصویریں اور ڈراءنگ بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے اگرچہ وہ ذی روح ہوں اسی طرح مجسموں اور ڈرائنگ کی خرید و فروخت ان کی حفاظت کرنے نیز انکے نمائش گاہ میں پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س1223: جدید طریقۂ تعلیم میں خود اعتمادی کے عنوان سے ایک درس شامل ہے جس کا ایک حصہ مجسمہ سازی پر مشتمل ہے بعض اساتید طالب علموں کو دستی مصنوعات کے عنوان سے کپڑے یا کسی اور چیز سے گڑیا یا کتّے ، خرگوش و غیرہ کا مجسمہ بنانے کا حکم دیتے ہیں ۔ مذکورہ اشیاء کے بنانے کا کیا حکم ہے ؟ استاد کے اس حکم دینے کا کیا حکم ہے؟کیا مذکورہ اشیاء کے اجزا کا مکمل اور نامکمل ہونا انکے حکم میں اثر رکھتا ہے؟
ج: مجمسہ سازی اور اس کا حکم دینا بلا مانع ہے۔
س1224: بچوں اورنوجوانوں کا قرآنی قصّوں کے خاکے اور ڈراءنگ بنانے کا کیا حکم ہے؟ مثلاً بچوں سے یہ کہا جائے کہ اصحاب فیل یا حضرت موسیٰ کے لئے دریا کے پھٹنے کے واقعہ کی تصویریں بنائیں؟
ج: بذات خود اس کام میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن ضروری ہے کہ حقیقت اور واقعیت پر مبنی ہواورغیر واقعی اور ہتک آمیزنہ ہو۔
س1225: کیا مخصوص مشین کے ذریعے گڑیا یا انسان و غیرہ جیسے ذی روح موجودات کا مجسمہ بنانا جائز ہے یا نہیں ؟
ج: اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س1226:مجسمے کی طرز کا زیور بنانے کا کیا حکم ہے؟کیا مجسمہ سازی کے لئے استعمال شدہ مواد بھی حرام ہونے میں مؤثر ہے؟
ج: مجمسہ بنانے میں اشکال نہیں ہے اور اس سلسلے میں اس مواد میں کوئی فرق نہیں ہے جس سے مجسمہ بنایا جاتاہے۔
س1227: آیا گڑیا کے اعضا مثلاً ہاتھ پاؤں یا سر دوبارہ جوڑنا مجسمہ سازی کے زمرے میں آتاہے؟ کیا اس پر بھی مجسمہ سازی کا عنوان صدق کرتاہے؟
ج: صرف اعضا بنانا یا انھیں دوبارہ جو ڑنا ، مجسمہ سازی نہیں کہلاتا اور ہر صورت میں مجسمہ بنانا اشکال نہیں رکھتا۔
س1228: جلد کو گودناــ (خالکوبی )جو کہ بعض لوگوں کے ہاں رائج ہے کہ جس سے انسانی جسم کے بعض اعضا پر اس طرح مختلف تصاویر بنائی جاتی ہیں کہ وہ محو نہیں ہوتیںــکیا حکم رکھتاہے؟اور کیا یہ ایسی رکاوٹ ہے کہ جس کی وجہ سے وضو یا غسل نہیں ہوسکتا ؟
ج: گودنے اور سوئی کے ذریعے جلد کے نیچے تصویر بنانا حرام نہیں ہے اور وہ اثر جو جلد کے نیچے باقی ہے وہ پانی کے پہنچنے سے مانع نہیں ہے لہذا غسل اور وضو صحیح ہے۔
س1229: ایک میاں بیوی معروف مصور ہیں۔ ان کا کام تصویری فن پاروں کی مرمت کرنا ہے۔ ان میں سے بہت سے عیسائی معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں ۔ بعض میں صلیب یا حضرت مریم یا حضرت عیسی کی شکل ہوتی ہے مذکورہ اشیا کو گرجا والے یا مختلف کمپنیاں ان کے پاس لے کر آتی ہیں تاکہ ان کی مرمت کی جائے جبکہ پرانے ہونے یا کسی اور وجہ سے ان کے بعض حصے ضایع ہوچکے ہوتے ہیں ۔ آیا ان کے لئے ان چیزوں کی مرمت کرنا اور اس عمل کے عوض اجرت لینا صحیح ہے؟ اکثر تصاویر اسی طرح کی ہوتی ہیں اور ان کا یہی واحد پیشہ ہے جس سے وہ اپنی زندگی گزارتے ہیں جبکہ وہ دونوں اسلامی تعلیمات کے پابند ہیں آیا مذکورہ تصاویر کی مرمت اور اس کا م کے بدلے اجرت لینا انکے لئے جائز ہے؟
ج: محض کسی فن پارے کی مرمت کرنا اگرچہ وہ عیسائی معاشرے کی عکاسی کرتے ہوں یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام و حضرت مریم علیہا السلام کی تصاویر پر مشتمل ہوں جائز ہے اور مذکورہ عمل کے عوض اجرت لینا بھی صحیح ہے اور اس قسم کے عمل کو پیشہ بنانے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے مگر یہ کہ یہ باطل اور گمراہی کی ترویج یا کسی اور مفسدے کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے۔
- جادو، شعبدہ بازی اور روح و جن کا حاضر کرنا
- قسمت آزمائی
قسمت آزمائی
س1237: قسمت آزمائی کے ٹکٹ خریدنے اور فروخت کرنے کا کیا حکم ہے اور مکلّف کے لئے اس سے حاصل شدہ انعام کا کیا حکم ہے؟
ج: قسمت آزمائی کے ٹکٹ خریدنا اور فروخت کرنا احتیاط واجب کی بنا پر حرام ہے اور جیتنے والا شخص انعام کا مالک نہیں بنتا اور اسے مذکورہ مال کے لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔
س1238: وہ ٹکٹ جو ایک ویلفیر پیکج (ارمغان بہزیستی)کے نام سے نشر کیئے جاتے ہیں انکی بابت پیسے دینا اور انکی قرعہ اندازی میں شرکت کا کیا حکم ہے ؟
ج: بھلائی کے کاموں کیلئے لوگوں سے ہدایا جمع کرنے اور اہل خیر حضرات کی ترغیب کی خاطر ٹکٹ چھاپنے اور تقسیم کرنے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے اسی طرح مذکورہ ٹکٹ بھلائی کے کاموںمیں شرکت کی نیت سے خرید نے میں بھی کوئی مانع نہیں ہے۔
س1239: ایک شخص کے پاس گاڑی ہے جسے وہ بخت آزمائی کیلئے پیش کرتا ہے اس طرح کہ مقابلے میں شرکت کرنے والے افراد ایک خاص ٹکٹ خریدتے ہیں اور ایک مقررہ تاریخ کو ایک معیّن قیمت کے تحت انکی قرعہ اندازی ہوگی معیّنہ مدت کے ختم ہونے پر اور لوگوں کی ایک تعداد کی شرکت کے بعد قرعہ اندازی کی جاتی ہے جس شخص کے نام قرعہ نکلتاہے وہ اس قیمتی گاڑی کو لے لیتا ہے تو کیا قرعہ اندازی کے ذریعے مذکورہ طریقے سے گاڑی کو عرضہ کرنا اور پیش کرنا شرعاً جائز ہے؟
ج: احتیاط کی بنا پر ان ٹکٹوں کی خرید و فروش حرام ہے اور جیتنے والا شخص انعام (گاڑی) کا مالک نہیں بنے گا بلکہ مالک بننے کیلئے ضروری ہے کہ انعام (گاڑی) کا مالک بیع، ہبہ یا صلح وغیرہ جیسے کسی شرعی عقد کے ذریعے اسے جیتنے والے کو تملیک کرے ۔
س1240: کیا رفاہ عامہ کیلئے ٹکٹ فروخت کرکے عام لوگوں سے چندہ جمع کرنا اور بعد میں حاصل شدہ مال میں سے ایک مقدار کو قرعہ اندازی کے ذریعے جیتنے والوں کو تحفہ کے طورپردینا جائزہے؟ جبکہ باقی مال رفاہ عامہ میں خرچ کردیا جائے؟
ج: مذکورہ عمل کو بیع کہنا صحیح نہیں ہے ہاں بھلائی کے کاموں کے لئے ٹکٹ جاری کرنا صحیح ہے۔ اور قرعہ اندازی کے ذریعہ لوگوں کو انعام دینے کے وعدے کے ذریعہ انہیں چندہ دینے پر آمادہ کرنا بھی جائز ہے۔البتہ اس شرط کے ساتھ کہ لوگ بھلائی کے کاموں میں شرکت کے قصدسے ٹکٹ حاصل کریں۔
س1241: کیا بخت آزمائی (lotto)کے ٹکٹ خریدنا جائز ہے؟جبکہ مذکورہ ٹکٹ ایک خاص کمپنی کی ملکیت ہیں اور ان ٹکٹوں کی صرف بیس فیصد منفعت عورتوں کے فلاحی ادارے کو دی جاتی ہے؟
ج: ان ٹکٹوں کی خرید و فروش احتیاط واجب کی بنا پر حرام ہے اور جیتنے والے جیتی ہوئی رقم کے مالک نہیں بنیں گے۔
- رشوت
- طبی مسائل
- تعلیم و تعلم اور ان کے آداب
تعلیم و تعلم اور ان کے آداب
س 1319: کیا پیش آنے والے مسائل شرعیہ کو نہ سیکھنا گنا ہ ہے ؟
ج: اگر نہ سیکھنے کی وجہ سے ترک واجب یا فعل حرام کامرتکب ہو تو گناہ گار ہوگا۔
س1320: اگر دینی طالب علم سطحیات تک کے مراحل طے کرلے اور وہ اپنے آپ کو درجہ اجتہاد تک کی تعلیم مکمل کرنے پر قادر سمجھتا ہو تو کیا ایسے شخص کے لئے تعلیم مکمل کرنا واجب عینی ہے؟
ج: بلا شک علوم دینی کی تحصیل اور درجہ اجتہادتک پہنچنے کیلئے اسے جاری رکھنا عظیم فضیلت ہے ، لیکن صرف درجہ اجتہاد پر فائز ہونے کی قدرت رکھنا اسکے واجب عینی ہونے کا باعث نہیں بنتا۔
س1321: اصول دین میں حصول یقین کا کیا طریقہ ہے؟
ج: عام طور پر یقین عقلی براہین و دلائل سے حاصل ہوتا ہے۔البتہ مکلفین کے ادراک و فہم میں اختلاف مراتب کی وجہ سے براہین و دلائل بھی مختلف ہیں۔ بہرحال اگر کسی شخص کو کسی دوسرے طریقے سے یقین حاصل ہوجائے تو کافی ہے۔
س1322: حصول علم میں سستی کرنے اور وقت ضائع کرنے کا کیا حکم ہے ؟ آیا یہ حرام ہے؟
ج: بے کار رہنے اور وقت ضائع کرنے میں اشکال ہے۔ اگر طالب علم، طلاب کے لئے مخصوص سہولیات سے استفادہ کرتا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ طلاب کیلئے مخصوص درسی پروگرام کی بھی رعایت کرے وگرنہ اس کے لئے مذکورہ سہولیات جیسے ماہانہ وظیفہ اور امدادی مخارج و غیرہ سے استفادہ کرنا جائز نہیں ہے۔
س1323: اکنامکس کی بعض کلاسوں میں استاد سودی قرض سے متعلق بعض مسائل پر گفتگو کرتا ہے اور تجارت و صنعت وغیرہ میں سود حاصل کرنے کے طریقوں کا مقایسہ کرتا ہے مذکورہ تدریس اور اس پر اجرت لینے کا کیا حکم ہے؟
ج: صرف سودی قرضے کے مسائل کا جائزہ لینا اور ان کی تدریس حرام نہیں ہے۔
س1324: اسلامی جمہوری (ایران) میں عہد کی پابندی کرنے والے اور ذمہ دار ماہرین تعلیم کیلئے دوسروں کو تعلیم دینے کیلئے کونسا صحیح طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے؟ اوراداروں میں کون لوگ حساس ٹیکنیکی علوم اور معلومات حاصل کرنے کے لائق ہیں؟
ج: کسی شخص کا کوئی بھی علم حاصل کرنا اگر جائز عقلائی مقصد کیلئے ہو اور اس میں فاسد ہونے یا فاسد کرنے کا خوف نہ ہو تو بلا مانع ہے سوائے ان علوم و معلومات کے کہ جنکے حاصل کرنے کیلئے حکومت اسلامی نے خاص قوانین اور ضوابط بنائے ہیں۔
س1325: آیا دینی مدارس میں فلسفہ پڑھنا اور پڑھانا جائز ہے؟
ج: جس شخص کو اطمینان ہے کہ فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے سے اسکے دینی اعتقادات میں تزلزل نہیں آئیگااس کیلئے فلسفہ پڑھنا اشکال نہیں رکھتابلکہ بعض موارد میں واجب ہے۔
س1326: گمراہ کن کتابوں کی خریدو فروخت کرنا کیسا ہے؟ مثلاً کتاب آیات شیطانی؟
ج: گمراہ کن کتابوں کا خریدنا، بیچنا اور رکھنا جائز نہیں ہے مگر اس کا جواب دینے کیلئے البتہ اگرعلمی لحاظ سے اس پر قادر ہو۔
س1327: حیوانات اور انسانوں کے بارے میں ایسے خیالی قصّوں کی تعلیم اور انہیں بیان کرنا کیا حکم رکھتا ہے جن کے بیان کرنے میں فائدہ ہو؟
ج: اگر قرائن سے معلوم ہورہاہو کہ داستان تخیلی ہے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
س1328: ایسی یونیورسٹی یا کالج میں پڑھنے کا کیا حکم ہے جہاں بے پردہ عورتوں کے ساتھ مخلوط ہونا پڑتاہے؟
ج: تعلیمی مراکز میں تعلیم و تعلم کے لئے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن خواتین اور لڑکیوں پر پردہ کرنا واجب ہے اور مردوں پر بھی واجب ہے کہ انکی طرف حرام نگاہ سے پرہیز کریں اور ایسے اختلاط سے اجتناب کریں کہ جس میں مفسدے اور فاسد ہونے کا خوف ہو۔
س1329: آیا خاتون کا غیر مرد سے ایسے مقام پر جو ڈرائیونگ سکھانے کے لئے مخصوص ہے ڈرائیونگ سیکھنا جائز ہے؟ جبکہ خاتون شرعی پردے اور عفت کی پابند ہو؟
ج: نامحرم سے ڈرائیونگ سیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ جب پردے اور عفت کا خیال رکھا جائے اورمفسدہ میں نہ پڑنے کا اطمینان ہوہاں اگر کوئی محرم بھی ساتھ ہو تو بہتر ہے بلکہ اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ نامحرم مرد کی بجائے کسی عورت یا اپنے کسی محرم سے ڈرائیونگ سیکھے۔
س1330: کالج ، یونیورسٹی میں جوان لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم کی وجہ سے آپس میں ملتے ہیں اور کلاس فیلو ہونے کی بنیاد پردرس وغیرہ کے مسائل پر گفتگو کرتے ہیں لیکن بعض اوقات لذت اوربرے قصد کے بغیر ہنسی مذاق بھی ہوجاتا ہے آیا مذکورہ عمل جائز ہے؟
ج: اگر پردے کی پابندی کی جائے بری نیت بھی نہ ہو اور مفسدے میں نہ پڑنے کا اطمینان ہو تو اشکال نہیں رکھتا ورنہ جائز نہیں ہے۔
س1331: حالیہ دور میں کس علم کا ماہر ہونا اسلام اور مسلمانوں کے لئے زیادہ مفید ہے؟
ج: بہتر یہ ہے کہ علماء ، اساتید اور یونیورسٹیوں کے طلباء ان تمام علوم میں ماہر ہونے کو اہمیت دیں جو مفید اور مسلمانوں کی ضرورت ہیں تا کہ غیروں سے اور بالخصوص اسلام و مسلمین کے دشمنوں سے بے نیاز ہو سکیں۔ ان میں سے مفید ترین کی تشخیص موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سے متعلقہ ذمہ دار لوگوں کا کام ہے ۔
س1332: گمراہ کن کتابوں اور دوسرے مذاہب کی کتابوں سے آگاہ ہونا کیسا ہے؟ تاکہ ان کے دین اور عقائد کے بارے میں زیادہ اطلاعات اور معرفت حاصل ہوسکے؟
ج: فقط معرفت اور زیادہ معلومات کے لئے انکے پڑھنے کے جواز کا حکم مشکل ہے ہاں اگر کوئی شخص گمراہ کنندہ مواد کی تشخیص دے سکے اور اسکے ابطال اور اس کا جواب دینے کیلئے مطالعہ کرے تو جائز ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ اپنے بارے میں مطمئن ہو کہ حق سے منحرف نہیں ہوگا۔
س1333: بچوں کو ایسے اسکولوں میں داخل کرانے کا کیا حکم ہے جہاں بعض فاسد عقائد کی تعلیم دی جاتی ہے اس فرض کے ساتھ کہ بچے ان سے متاثر نہیں ہوں گے؟
ج: اگر ان کے دینی عقائد کے بارے میں خوف نہ ہو اور باطل کی ترویج بھی نہ ہو اوران کیلئے فاسد اور گمراہ کن مطالب کو سیکھنے سے دوررہنا ممکن ہو تو اشکال نہیں رکھتا۔
س1334: میڈیکل کا طالب علم چار سال سے میڈیکل کالج میں زیر تعلیم ہے جبکہ اسے دینی علوم کا بہت شوق ہے ، آیا اس پر واجب ہے کہ تعلیم جاری رکھے یا اسے ترک کرکے علوم دینی حاصل کرسکتا ہے؟
ج: طالب علم اپنے لئے علمی شعبہ اختیار کرنے میں آزادہے لیکن یہاں پر ایک نکتہ قابل توجہ ہے وہ یہ کہ اگر اسلامی معاشرے کی خدمت پر قادر ہونے کیلئے دینی علوم کی اہمیت ہے تو امت اسلامی کو طبی خدمات پہنچانے ،انکی بیماریوں کا علاج کرنے اور انکی جانوں کو نجات دینے کیلئے آمادہ ہونے کے قصد سے میڈیکل کی تعلیم بھی امت اسلامی کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔
س1335: استاد نے کلاس میں ایک طالب علم کو سب کے سامنے بہت شدت سے ڈانٹا کیاطالب علم بھی ایسا کرنے کا حق رکھتا ہے یا نہیں ؟
ج: طالب علم کو اس طرح جواب دینے کا حق نہیں ہے جو استاد کے مقام کے لائق نہ ہو اور اس پر واجب ہے کہ استاد کی حرمت کا خیال رکھے اور کلاس کے نظم کی رعایت کرے البتہ شاگرد قانونی چارہ جوئی کرسکتاہے اسی طرح استاد پر واجب ہے کہ وہ بھی طالب علم کی حرمت کادوسرے طلّاب کے سامنے پاس رکھے اور تعلیم کے اسلامی آداب کی رعایت کرے۔
- حقِ طباعت ، تالیف اور ہنر
حقِ طباعت ، تالیف اور ہنر
س1336: وه کتب اور مقالات جو باہر سے آتے ہیں یا اسلامیه جمہوریہ(ایران) میں چھپتے ہیں ان کے ناشروں کی اجازت کے بغیر ان کی اشاعت کا کیا حکم ہے؟
ج: اسلامی جمہوریہ (ایران)سے باہر چھپنے والی کتب کی اشاعت مکرر یا افسیٹ مذکورہ کتب کے بارے میں اسلامی جمہوریہ(ایران) اور ان حکومتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تابع ہے لیکن ملک کے اندر چھپنے والی کتب میں احوط یہ ہے کہ ناشر سے انکی تجدید طباعت کے لئے اجازت لیکر اسکے حقوق کا خیال رکھا جائے ۔
س1337: آیا مؤلفین ، مترجمین اور کسی ہنرکے ماہرین کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی زحمت کے عوض یا اپنی کوشش ،وقت اور مال کے مقابلے میں کہ جو انہوں نے اس کام پرخرچ کیا ہے ( مثلاً ) حق تالیف کے عنوان سے رقم کا مطالبہ کریں؟
ج: انہیں حق پہنچتا ہے کہ اپنے علمی اورہنری کام کے پہلے یا اصلی نسخے کے بدلے میں ناشرین سے جتنا مال چاہیں دریافت کریں۔
س1338: اگر مؤلف ، مترجم یا صاحب ہنرپہلی اشاعت کے عوض مال کی کچھ مقدار وصول کرلے اور یہ شرط کرے کہ بعد کی اشاعت میں بھی میرا حق محفوظ رہے گا۔ تو آیا بعد والی اشاعتوں میں اسے مال کے مطالبہ کا حق ہے؟ اور اس مال کے وصول کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر پہلا نسخہ دیتے وقت ناشر کے ساتھ ہونے والے معاملے میں بعد والی اشاعتوں میں بھی رقم لینے کی شرط کی ہو یا قانون اس کا تقاضا کرے تو اس رقم کا لینا اشکال نہیں رکھتا اور ناشر پر شرط کی پابندی کرنا واجب ہے۔
س1339: اگر مصنف یا مؤلف نے پہلی اشاعت کی اجازت کے وقت اشاعت مکرر کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہو تو آیا ناشر کے لئے اسکی اجازت کے بغیر اور اسے مال دیئے بغیر اسکی اشاعت مکرر جائزہے؟
ج: چاپ کے سلسلے میں ہونے والا معاہدہ اگر صرف پہلی اشاعت کے لئے تھا تو احوط یہ ہے کہ مؤلف کے حق کی رعایت کی جائے اور بعد کی اشاعتوں کیلئے بھی اس سے اجازت لی جائے۔
س1340: اگر مصنف سفر یا موت و غیرہ کی وجہ سے غائب ہو تو اشاعت مکرر کے لئے کس سے اجازت لی جائے اور کسے رقم دی جائے؟
ج: احتیاط واجب کی بنا پر مصنف کے نمائندے یا شرعی سرپرست یا فوت ہونے کی صورت میں وارث کی طرف رجوع کیا جائے گا۔
س1341: آیا اس عبارت کے باوجود ( تمام حقوق مؤلف کے لئے محفوظ ہیں) بغیر اجازت کے کتاب چھاپنا صحیح ہے؟
ج: احوط یہ ہے کہ مؤلف اور ناشر کے حقوق کی رعایت کی جائے اور طبع جدید میں ان سے اجازت لی جائے البتہ اگر اس سلسلے میں کوئی قانون ہو تو اس کی رعایت کرنا ضروری ہےاور بعد والے مسائل میں بھی اس امر کی رعایت کرنا ضروری ہے۔
س1342: تواشیح اور قرآن کریم کی بعض کیسٹوں پر یہ عبارت لکھی ہوتی ہے ( کاپی کے حقوق محفوظ ہیں) آیا ایسی صورت میں اس کی کاپی کرکے دوسرے لوگوں کو دینا جائز ہے؟
ج: احوط یہ ہے کہ اصلی ناشر سے کاپی کرنے کی اجازت لی جائے۔
س1343: آیا کمپیوٹر کی ڈسک کاپی کرنا جائز ہے؟بر فرض حرمت آیا یہ حکم اس ڈسک کے ساتھ مختص ہے جوایران میں تیارکی گئی ہے یاباہر کی ڈسک کو بھی شامل ہے؟یہ چیز بھی مد نظر رہے کہ بعض کمپیوٹر ڈسکوں کی قیمت انکے محتوا کی اہمیت کی وجہ سے بہت زیادہ ہوتی ہے؟
ج: احوط یہ ہے کہ ملک کے اندر بننے والی ڈسک کی کاپی کرنے کیلئے مالکوں سے اجازت لی جائے اور انکے حقوق کی رعایت کی جائے اور بیرون ملک سے آنے والی ڈسکیں معاہدہ کے تحت ہیں۔
س1344: آیا دوکانوں اور کمپنیوں کے نام اور تجارتی مارک ان کے مالکوں سے مختص ہیں؟ اس طرح کہ دوسروں کو حق نہیں ہے کہ وہ اپنی دوکانوں یا کمپنیوں کو ان ناموں کے ساتھ موسوم کریں؟ مثلاً ایک شخص ایک دوکان کا مالک ہے اور اس دوکان کا نام اس نے اپنے خاندان کے نام پر رکھا ہوا ہے آیا اسی خاندان کے کسی دوسرے فرد کو مذکورہ نام سے دوکان کھولنے کی اجازت ہے؟ یا کسی اور خاندان کے شخص کواپنی دوکان کیلئے مذکورہ نام استعمال کرنے کی اجازت ہے؟
ج: اگر حکومت کی طرف سے دوکانوں اور کمپنیوں کے نام ملکی قوانین کے مطابق ایسے افراد کو عطا کیئے جاتے ہوں جو دوسروں سے پہلے مذکورہ عنوان کو اپنے نام کروانے کیلئے باقاعدہ طور پر درخواست دیتے ہیں اور سرکاری ریکارڈ میں ان کے نام رجسٹرڈ ہوجاتے ہیں تو ایسی صورت میں دوسروں کیلئے اس شخص کی اجازت کے بغیر اس نام سے استفادہ اور اقتباس کرنا جائز نہیں ہے کہ جس کی دوکان یا کمپنی کیلئے یہ رجسٹرڈ ہو چکا ہے اور اس حکم کے لحاظ سے فرق نہیں ہے کہ استعمال کرنے والا شخص اس نام والے کے خاندان سے تعلق رکھتا ہو یا نہ ۔ اور اگر مذکورہ صورت میں نہ ہو تو دوسروں کے لئے اس نام سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س1345: بعض افراد فوٹوکاپی کی دوکان پر آتے ہیں اور وہاں پر لائے گئے کاغذات اور کتابوں کی تصویر برداری کی درخواست کرتے ہیں اور دوکاندار جو کہ مومن ہے تشخیص دیتا ہے کہ یہ کتاب یا رسالہ یا کاغذات سب مومنین کے لئے مفید ہیں آیا اس کے لئے کتاب کے مالک سے اجازت لئے بغیر کتاب یا رسالے کی تصویر برداری جائز ہے؟ اور اگر دوکاندار کو علم ہو کہ صاحب کتاب راضی نہیں ہے تو آیا مسئلہ میں فرق پڑے گا؟
ج: احوط یہ ہے کہ کتاب یا اوراق کے مالک کی اجازت کے بغیر ان کی تصویر برداری نہ کی جائے۔
س1346: بعض مومنین ویڈیو کیسٹ کرائے پر لاتے ہیں اور جب ویڈیو کیسٹ مکمل طور پر انکی پسند کا ہو تو اس وجہ سے کہ بہت سارے علما کے نزدیک حقوق طبع محفوظ نہیں ہوتے دوکاندار کی اجازت کے بغیر اسکی کاپی کرلیتے ہیں کیاان کا یہ عمل جائز ہے؟ اور بر فرض عدم جواز ، اگر کوئی شخص ریکارڈ کرلے یا اس کی کاپی کرلے تو کیا اس پر لازم ہے کہ وہ دوکاندار کو اطلاع دے یاریکارڈشدہ مواد کو ختم کردینا کافی ہے؟
ج: احوط یہ ہے کہ بغیر اجازت ریکارڈ نہ کی جائے لیکن اگر بغیر اجازت کے ریکارڈ کرلے تو ختم کرنا کافی ہے۔
- غیر مسلموں کے ساتھ تجارت
غیر مسلموں کے ساتھ تجارت
س1347: آیا اسرائیلی مال کا درآمد کرنا اور اس کی ترویج کرنا جائز ہے؟ اور اگر یہ کام وقوع پذیر ہوجائے اگرچہ اضطرارکی وجہ سے تو آیا مذکورہ مال کو فروخت کرنا جائز ہے؟
ج: ایسے معاملات سے پرہیز کرنا ضروری ہے کہ جو غاصب اور اسلام و مسلمین کی دشمن اسرائیلی حکومت کے نفع میں ہوں اور کسی کے لئے بھی ان کے اس مال کو درآمد کرنا اور اس کی ترویج کرنا جائز نہیں ہے جس کے بنانے اور فروخت کرنے سے اسے فائدہ پہنچے ، اور مسلمانوں کے لئے ان اشیاء کا خریدنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کے لئے مفسدہ اور ضرر ہے۔
س1348: کیااس ملک کے تاجروں کے لئے جس نے اسرائیل سے اقتصادی بائیکات کو ختم کردیاہے اسرائیلی مال کا درآمد کرنا اور اس کی ترویج کرنا جائز ہے؟
ج: واجب ہے کہ اشخاص ایسی اشیاء کہ جن کے بنانے اور فروخت کرنے سے اسرائیل کی پست حکومت کو فائدہ پہنچتا ہو اجتناب کریں۔
س1349: آیا مسلمانوں کے لئے ان اسرائیلی مصنوعات کو خریدنا جائز ہے کہ جو اسلامی ممالک میں بکتی ہیں؟
ج: تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ ایسی مصنوعات کی خریداری اور ان سے استفادہ کرنے سے پرہیز کریں کہ جن کے بنانے اور بیچنے کا فائدہ اسلام و مسلمین کے ساتھ بر سر پیکار صیہونی دشمنوں کو پہنچے۔
س1350: آیا اسلامی ممالک میں اسرائیل کے سفر کے لئے دفاتر کھولنا جائز ہے؟ اور آیا مسلمانوں کے لئے ان دفاتر سے ٹکٹ خریدنا جائز ہے؟
ج: چونکہ اس کام میں اسلام اور مسلمانوں کا نقصان ہے لہذا جائز نہیں ہے اور اسی طرح کسی شخص کے لئے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ وہ ایسا کام کرے جو اسرائیل کی دشمن اور محارب حکومت سے مسلمانوں کے بائیکاٹ کے خلاف ہو۔
س1351: آیا ایسی یہودی،امریکی یا کینیڈین کمپنیوں کی مصنوعات خریدنا جائز ہے جن کے بارے میں یہ احتمال ہو کہ وہ اسرائیل کی مدد کرتی ہیں؟
ج: اگران مصنوعات کی خریدو فروخت اسرائیل کی گھٹیا اور غاصب حکومت کی تقویت کا سبب بنے یا یہ اسلام و مسلمین کے ساتھ دشمنی کیلئے کام میں لائی جاتی ہوں تو کسی فرد کے لئے ان کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے وگرنہ اشکال نہیں ہے۔
س1352: اگراسرائیلی مال اسلامی ممالک میں درآمد کیا جائے تو کیا جائز ہے کہ تجار اس کا کچھ حصہ خرید کر لوگوں کوبیچیں اور اس کی ترویج کریں؟
ج: چونکہ اس کام میں بہت مفاسد ہیں لہذا جائز نہیں ہے ۔
س1353: اگر کسی اسلامی ملک کی عام مارکیٹوں میں اسرائیلی مصنوعات پیش کی جائیں تو اگر ضرورت کی غیر اسرائیلی مصنوعات کو مہیا کرنا ممکن ہو کیا مسلمانوں کے لیے اسرائیلی مصنوعات خریدنا جائز ہے؟
ج: تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ایسی اشیاء کے خریدنے اور استعمال کرنے سے اجتناب کریں کہ جن کے بنانے اور خریدنے کا فائدہ اسلام ومسلمین سے برسر پیکار صہیونیوں کو پہنچتا ہو۔
س1354: اگر اس بات کا علم ہوجائے کہ اسرائیلی مصنوعات کو ان کی اسرائیلی مہر تبدیل کرنے کے بعد ترکی یا قبرص کے ذریعے دوبارہ برآمد کیا جاتا ہے تاکہ مسلمان خریداریہ سمجھیں کہ مذکورہ مصنوعات اسرائیلی نہیں ہیں اس لئے کہ اگر مسلمان اس امر کو جان لے کہ یہ مصنوعات اسرائیلی ہیں تو انہیں نہیں خریدے گا ایسی صورت حال میں مسلمان کی کیا ذمہ داری ہے؟
ج: مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ ایسی مصنوعات کے خریدنے، ان سے استفادہ کرنے اورانکی ترویج کرنے سے اجتناب کریں۔
س1355: امریکی مصنوعات کی خریدوفروخت کا کیا حکم ہے؟ آیا یہ حکم تمام مغربی ممالک جیسے فرانس، برطانیہ کو شامل ہے؟ آیا یہ حکم ایران کے لیے مخصوص ہے یا تما م ممالک میں جاری ہے؟
ج: اگر غیر اسلامی ممالک سے درآمد شدہ مصنوعات کی خریداری اوران سے استفادہ ان کافر استعماری حکومتوں کی تقویت کا باعث ہو کہ جو اسلام ومسلمین کی دشمن ہیں یا اس سے پوری دنیا میں اسلامی ممالک یا مسلمانوں کے اوپر حملے کرنے کیلئے انکی قوت مضبوط ہوتی ہو تو مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کی مصنوعات کی خریداری، ان سے استفادہ کرنے اور انکے استعمال سے اجتناب کریں۔ اور مذکورہ حکم تمام مصنوعات اور تمام کافر اور اسلام ومسلمین کی دشمن حکومتوں کے لیے ہے اور مذکورہ حکم ایران کے مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے۔
س1356: ان لوگوں کی ذمہ داری کیا ہے جو ایسے کارخانوں اور اداروں میں کام کرتے ہیں کہ جن کا فائدہ کافر حکومتوں کو پہنچتا ہے او ریہ امر ان کے استحکام کا سبب بنتا ہے؟
ج: جائز کاموں کے ذریعے کسب معاش کرنا بذات خوداشکال نہیں رکھتااگر چہ اس کی منفعت غیر اسلامی حکومت کوپہنچے مگر جب وہ حکومت اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہواور مسلمانوں کے کام کے نتیجے سے اس جنگ میں استفادہ کیا جائے تو جائز نہیں ہے۔
- ظالم حکومت میں کام کرنا
ظالم حکومت میں کام کرنا
س1357: آیا غیر اسلامی حکومت میں کوئی ذمہ داری انجام دینا جائز ہے؟
ج: یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ ذمہ داری بذات خود جائز ہو۔
س1358: ایک شخص کسی عرب ملک کی ٹریفک پولیس میں ملازم ہے اور اس کاکام ان لوگوں کی فائلوں پر دستخط کرنا ہے جو ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں تاکہ انھیں قید خانے میں ڈالا جائے وہ جس کی فائل پردستخط کردے توقانون کی مخالفت کرنے والے اس شخص کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے آیا یہ نوکری جائز ہے؟ اور اس کی تنخواہ کا کیا حکم ہے جووہ مذکورہ کام کے عوض حکومت سے لیتا ہے؟
ج: معاشرے کے نظم و نسق کے قوانین اگر چہ غیراسلامی حکومت کی طرف سے بنائے گئے ہوں ان کی رعایت کرناہر حال میں واجب ہے اور جائز کام کے بدلے میں تنخواہ لینا اشکال نہیں رکھتا۔
س1359: امریکہ یا کینیڈا کی شہریت لینے کے بعد آیا مسلمان شخص وہاں کی فوج یا پولیس میں شامل ہوسکتا ہے؟ اورکیا سرکاری اداروں جیسے بلدیہ اور دوسرے ادارے کہ جو حکومت کے تابع ہیں اُن میں نوکری کرسکتا ہے؟
ج: اگراس پر مفسدہ مترتب نہ ہو اور کسی حرام کو انجام دینے یا واجب کے ترک کا سبب نہ ہو تو اشکال نہیں رکھتا۔
س1360: آیا ظالم حاکم کی طرف سے منصوب قاضی کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟ تاکہ اس کی اطاعت کرنا واجب قرار پائے؟
ج: جامع الشرائط مجتہد کے علاوہ وہ شخص کہ جوایسے شخص کی طرف سے منصوب نہیں ہے جسے قاضی نصب کرنے کا حق ہے اس کیلئے منصب قضاوت کو سنبھالنا اور لوگوں کے درمیان قضاوت انجام دینا جائز نہیں ہے۔اور لوگوں کیلئے اسکی جانب رجوع کرنا جائز نہیں ہے اور نہ اس کا حکم نافذ ہے مگر ضرورت اور مجبوری کی حالت میں۔
- لباس کے احکام
لباس کے احکام
س1361: لباس شہرت کا معیار کیا ہے؟
ج: لباس شہرت ایسے لباس کو کہا جاتاہے جو رنگت، سلائی،بوسیدگی یا اس جیسے دیگر اسباب کی وجہ سے پہننے والے کے لئے مناسب نہ ہو اور لوگوں کے سامنے پہننے سے لوگوں کی توجہ کا سبب بنے اور انگشت نمائی کا باعث ہو۔
س1362: اس آواز کا کیا حکم ہے جو چلنے کے دوران خاتون کے جوتے کے زمین پر لگنے سے پیدا ہوتی ہے؟
ج: بذات خود جائز ہے جب تک لوگوں کی توجہ کو جذب نہ کرے اور موجب مفسدہ بھی نہ ہو۔
س1363: آیا لڑکی کے لئے گہرے نیلے رنگ کے کپڑے پہننا جائز ہے؟
ج: بذات خود جائز ہے بشرطیکہ لوگوں کی توجہ کو جذب نہ کرے اور موجب مفسدہ نہ ہو ۔
س1364: کیا خواتین کے لئے ایسا تنگ لباس پہننا جائز ہے جس سے بدن کا نشیب و فراز نمایاں ہو یا شادیوں میں عریاں اور ایسا باریک لباس پہننا جس سے بدن نمایاں ہو؟
ج: اگر نامحرم مردوں کی نظرسے اورمفسدے کے مترتب ہونے سے محفوظ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے وگرنہ جائز نہیں ہے۔
س1365: آیا مومنہ خاتون کے لئے چمکدار کالے جوتے پہننا جائز ہے؟
ج: اشکال نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا رنگ یا شکل نامحرم کی توجہ کو جذب کرنے یا اسکی طرف انگشت نمائی کا سبب بنے۔
س1366: آیا خاتون کے لئے واجب ہے کہ وہ اپنے لباس جیسے اسکارف ، شلوار اور قمیص کے لئے فقط سیاہ رنگ کا انتخاب کرے؟
ج: شکل، رنگ اور طرز سلائی کے اعتبار سے عورت کے کپڑوں کا وہی حکم ہے جو گزشتہ جواب میں جوتوں کے بارے میں گزر چکا ہے۔
س1367: آیا جائز ہے کہ عورت کا لباس اور پردہ ایسا ہو جو لوگوں کی نظروں کو اپنی طرف متوجہ کرے یا جنسی خواہشات کو ابھارے مثلاً اس طرح چادر پہنے جو لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرے یا کپڑے اور جوراب کا ایسا رنگ انتخاب کرے جو جنسی خواہشات کو ابھارنے کا سبب ہو ؟
ج: جو چیز بھی رنگ، ڈیزائن یا پہننے کے انداز کے اعتبار سے نامحرم کی توجہ جذب کرنے کا باعث ہو اور مفسدے اور حرام کے ارتکاب کا سبب بنے اس کا پہننا جائز نہیں ہے۔
س1368: آیا عورت اور مرد کے لئے جنس مخالف سے مشابہت کی نیت کے بغیر گھر کے اندر ایک دوسرے کی مخصوص اشیاء پہننا جائز ہے۔؟
ج: اگراسے اپنے لئے لباس کے طور پر انتخاب نہ کریں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
س1369: مردوں کیلئے خواتین کے مخصوص پوشیدہ لباس کا فروخت کرناکیا حکم رکھتا ہے؟
ج: اگر معاشرتی اور اخلاقی برائیوں کا موجب نہ بنے تو اشکال نہیں رکھتا۔
س1370: آیا باریک جورابیں بنانا، خریدنا اور فروخت کرنا شرعاً جائز ہے ؟
ج: اگرانہیں بنانا اور انکی خرید و فروخت اس قصد سے نہ ہو کہ خواتین انہیں نامحرم مردوں کے سامنے پہنیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
س1371: کیا غیر شادی شدہ افرادکیلئے شرعی قوانین اور اخلاقی آداب کا خیال رکھتے ہوئے زنانہ لباس اور میک اپ کا سامان فروخت کرنے کے مراکز میں کام کرنا جائز ہے؟
ج: کام کرنے کا جائز ہونا اور کسب حلا ل شرعاً کسی خاص صنف سے مخصوص نہیں ہے بلکہ جو بھی شرعی قوانین اور اسلامی آداب کی رعایت کرتا ہو اسے اس کا حق ہے لیکن اگر تجارتی یا کام کا لائسنس دینے کیلئے بعض اداروں کی جانب سے عمومی مصالح کی خاطر بعض کاموں کے لئے خاص شرائط ہوں تو ان کی رعایت کرنا ضروری ہے۔
س1372: مردوں کے لیے زنجیر پہننے کا کیا حکم ہے ؟
ج: اگر زنجیرسونے کا ہو یا ایسی چیز کا ہو کہ جس سے استفادہ کرناخواتین کے لیئے مخصوص ہو تو مردوں کے لئے اسے پہننا جائز نہیں ہے۔
- مغربی ثقافت کی پیروی
- جاسوسی، چغلخوری اور اسرار کا فاش کرنا
جاسوسی، چغلخوری اور اسرار کا فاش کرنا
س1388: ہمیں مکتوب طور پر ایک شخص کی طرف سے حکومت کا مال غبن کرنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں تحقیقات کے بعد بعض جرائم کا صحیح ہونا ثابت ہوگیا لیکن جب اس شخص سے تحقیقات کی گئیں تو اس نے جرائم سے انکار کردیا آیا ہمارے لئے ان معلومات کو کورٹ میں پیش کرنا جائز ہے؟ کیونکہ مذکورہ عمل اس کی عزت کو ختم کردے گا ؟ اور اگر جائز نہیں ہے تو ایسے افراد کی کیا ذمہ داری ہے جو اس مسئلے سے مطلع ہیں؟
ج: بیت المال اور سرکاری اموال کی حفاظت پر مامور افسر کو جب اطلاع ہوجائے کہ انکے ملازم یا کسی دوسرے شخص نے سرکاری مال و دولت کا غبن کیا ہے تو اس شخص کی شرعی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ اس کیس کو متعلقہ ادارے کے سامنے پیش کرے تاکہ حق ثابت ہوسکے اورملزم کی آبرو کی پائمالی کا خوف بیت المال کی حفاظت کیلئے حق کو ثابت کرنے میں کوتاہی کا جواز شمار نہیں ہوتا اور دیگر افراداپنی معلومات کو مستند طور پر متعلقہ حکام تک پہنچائیں تا کہ وہ تحقیق و تفحص اور ان کے اثبات کے بعد اقدام کرسکیں۔
س1389: بعض اخبارات آئے دن چوروں ، دھوکا بازوں ، اداروں کے اندر رشوت خور گروہوں، بے حیائی کا مظاہرہ کرنے والوں نیز فسادو فحشاکے مراکز اور نائٹ کلبوں کی خبریں چھاپتے ہیں کیا اس قسم کی خبریں چھاپنا اور منتشر کرنا ایک طرح سے ترویج فحشا کے زمرے میں نہیں آتا؟
ج: اخبارات میں محض واقعات شائع کرنا فحشا کو پھیلانا شمار نہیں ہوتا۔
س1390: کیا کسی تعلیمی ادارے کے طالب علموں کیلئے جائز ہے کہ وہ جن منکرات اور برائیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں انکی اطلاع تعلیم و تربیت کے ذمہ دار افراد تک پہنچائیں تاکہ ان کی روک تھام کی جاسکے؟
ج: اگر رپورٹ علنی اور ایسے امور کے بارے میں ہو جو ظاہر ہیں اور اس پر جاسوسی اور غیبت کا عنوان صدق نہ کرے تو کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اگر یہ نہی از منکر کا پیش خیمہ ہو تو واجب ہے۔
س1391: آیا اداروں کے بعض افسروں کی خیانت اور ظلم کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا جائز ہے؟
ج: ظلم کی تحقیق اور اطمینان کے بعد ایسے معاملات کی چھان بین اور پیچھا کرنے کیلئے متعلقہ مراکز کو اطلاع دینا اشکال نہیں رکھتا بلکہ اگرنہی از منکر کا پیش خیمہ ہو تو واجب ہے البتہ لوگوں کے سامنے انکو بیان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ اگر یہ حکومت اسلامی کوکمزور کرنے اور فتنہ و فساد کا باعث ہو تو حرام ہے۔
س1392: مومنین کے اموال کے بارے میں تحقیق کرنا اور اسکی رپورٹ ظالم حکومت اور ظالم حکمرانوں کودینا کیا حکم رکھتا ہے ؟ بالخصوص اگر ان کے لئے نقصان اور تکلیف کا باعث ہو؟
ج: ایسے کام شرعاً حرام ہیں اوراگر نقصان کا سبب ظالم کے سامنے مؤمنین کے خلاف رپورٹ پیش کرنا ہو تو یہ ضامن ہونے کا سبب ہے۔
س1393: کیاامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خاطر مومنین کے ذاتی وغیرذاتی امور کی جاسوسی کرناجائز ہے؟البتہ جب ان سے منکر کا انجام دینا اورمعروف کا ترک کرنا مشاہدہ کیا گیا ہو؟ اور ایسے اشخاص کا کیا حکم ہے جو لوگوں کی خلاف ورزیوں کی جاسوسی میں لگے رہتے ہیں جبکہ یہ کام ان کی ذمہ داری نہیں ہے؟
ج: تحقیق و تفحص کے باقاعدہ طور پر ذمہ دار افراد کیلئے اداروں کے ملازمین اور دوسرے لوگوں کے کام کے بارے میں قوانین و ضوابط کے اندر رہتے ہوئے قانونی تحقیق و تفتیش کرنا اشکال نہیں رکھتا لیکن اسرار فاش کرنے کیلئے قوانین و ضوابط کی حدود سے باہر دوسروں کے کاموں کی جاسوسی کرنا یا ملازمین کے اعمال و کردار کی تحقیق کرنا ان ذمہ دار لوگوں کیلئے بھی جائز نہیں ہے۔
س1394: کیالوگوں کے سامنے اپنے ذاتی اسرار اور ذاتی پوشیدہ امور کو بیان کرنا جائز ہے؟
ج: دوسروں کے سامنے اپنے ان ذاتی اور خصوصی امور کو بیان کرنا جائز نہیں ہے جو کسی طرح سے دوسروں سے بھی مربوط ہوں یا کسی مفسدے کے مترتب ہونے کا موجب ہوں۔
س1395: نفسیاتی ڈاکٹرعام طور پر مریض کے ذاتی اور خاندانی امور کے بارے میں سوال کرتے ہیں تاکہ اس کے مرض کے اسباب اورپھر علاج کے طریقے معلوم کیے جاسکیں آیا بیمار کے لئے ان سوالات کاجواب دینا جائز ہے؟
ج: اگر کسی تیسرے شخص کی غیبت یا اہانت نہ ہو اور کوئی مفسدہ بھی مترتب نہ ہوتا ہو تو جائز ہے۔
س1396: سکیورٹی کے بعض افراد بے حیائی و فحشا کے مراکز اور دہشت گرد گروہوں کو کشف کرنے کیلئے بعض مراکز میں داخل ہونا اور بعض گروہوں میں نفوذ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ تحقیق اور تجسس کا تقاضا ہے۔ مذکورہ عمل کا شرعاً کیا حکم ہے؟
ج: اگر یہ کام متعلقہ افسر کی اجازت سے ہو اور قوانین و ضوابط کی رعایت کی جائے اور گناہ کے ساتھ آلودہ ہونے اور فعل حرام کے ارتکاب سے اجتناب کیا جائے تو اشکال نہیں رکھتا اور افسروں پر بھی واجب ہے کہ اس لحاظ سے ان کے کاموں پر پوری توجہ اور کڑی نگاہ رکھیں ۔
س1397: بعض لوگ دوسروں کے سامنے اسلامی جمہوریہ (ایران) میں موجود بعض کمزوریوں کو بیان کرتے ہیں ان باتوں کو سننے اور پھر انہیں نقل کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: واضح ہے کہ کسی بھی ایسے کام کو انجام دینا جو اسلامی جمہوریہ (ایران) جو کہ عالمی کفر و استکبار سے برسر پیکار ہے کوبدنام کرے وہ اسلام اور مسلمانوں کے فائدہ میں نہیں ہے پس اگر یہ باتیں اسلامی جمہوری (ایران) کے نظام کو کمزور کرنے کا سبب ہوں تو جائز نہیں ہے۔
- سگریٹ نوشی اور نشہ آور اشیاء کا استعمال
سگریٹ نوشی اور نشہ آور اشیاء کا استعمال
س1398: عمومی مقامات اور سرکاری دفاتر میں دخانیات کے استعمال کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر عمومی مقامات اور دفاتر کے داخلی قوانین کے خلاف ہو یا دوسروں کے لئے اذیت و آزار یا ضرر کا باعث ہو تو جائز نہیں ہے۔
س1399: میرا بھائی منشیات کے استعمال کا عادی ہے اور منشیات کا سمگلر بھی ہے آیا مجھ پر واجب ہے کہ اس کی اطلاع متعلقہ ادارے کو دوں تاکہ اسے اس عمل سے روکا جاسکے؟
ج: آپ پر نہی از منکر واجب ہے اور ضروری ہے کہ نشہ کو ترک کرنے میں اسکی مدد کریں اور اسی طرح اسے منشیات کی سمگلنگ، انکے فروخت کرنے اور پھیلانے سے منع کریں اور اگر متعلقہ ادارے کو اطلاع دینا مذکورہ امر میں اس کا معاون ہویا نہی از منکر کا پیش خیمہ شمار ہو تو یہ واجب ہے۔
س1400: آیا انفیه کا استعمال جائز ہے؟ اس کے عادی بننے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر قابل اعتنا ضرر رکھتا ہو توا س کا استعمال اور اس کا عادی ہونا جائز نہیں ہے۔
س1401: تنباکو کی خرید و فروخت اور استعمال کا کیا حکم ہے؟
ج: تنباکو کی خرید و فروخت اور استعمال بذات خود جائز ہے۔ ہاں اگر اس کے استعمال میں شخص کیلئے قابل اعتنا ضرر ہو تو اس کی خرید و فروخت اور استعمال جائز نہیں ہے۔
س 1402: آیا بھنگ پاک ہے؟ اور کیا اس کا استعمال کرنا حرام ہے؟
ج: بھنگ پاک ہے ۔ لیکن اس کا استعمال کرنا حرام ہے۔
س1403: نشہ آور اشیاء جیسے بھنگ، چرس، افیون، ہیروئین، مارفین ، میری جوانا …کے کھانے، پینے، کھینچنے، انجکشن لگانے یا حقنہ کرنے کے ذریعے استعمال کا کیا حکم ہے؟ اور ان کی خرید و فروخت اور انکے ذریعے کمانے کے دوسرے طریقوں جیسے انکا حمل ونقل، انکی حفاظت اور اسمگلنگ کا کیا حکم ہے؟
ج: منشیات کا استعمال اور ان سے استفادہ کرنا ، انکے برے اثرات جیسے انکے استعمال کے قابل توجہ معاشرتی اور فردی مضرات کے پیش نظر حرام ہے اور اسی بنا پر ان کے حمل و نقل، انکو محفوظ کرنے اور انکی خریدوفروخت و غیرہ کے ذریعے کسب معاش کرنا بھی حرام ہے۔
س1404: کیا منشیات کے استعمال سے مرض کا علاج کرنا جائز ہے؟ اور برفرض جواز آیا مطلقاً جائز ہے یا علاج کے اسی پر موقوف ہونے کی صورت میں جائز ہے ؟
ج: اگر مرض کا علاج کسی طرح منشیات کے استعمال پر موقوف ہو اور یہ امر قابل اطمینان ڈاکٹر کی تجویز سے انجام پائے تو اشکال نہیں رکھتا۔
س1405: خشخاش اور کویی و غیرہ کہ جن سے افیون، ہیروئن، مارفین ، بھنگ اور کوکین وغیرہ حاصل کی جاتی ہیں کی کاشت اور دیکھ بھال کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: اس قسم کی فصلوں کی کاشت اور نگہداری جو اسلامی جمہوریہ (ایران)کے قانون کے خلاف ہے جائز نہیں ہے۔
س1406: منشیات کے تیار کرنے کا کیا حکم ہے چاہے اسے قدرتی اور طبیعی مواد سے تیار کیا جائے جیسے مارفین، ہیروئن، بھنگ، میری جوانا وغیرہ یامصنوعی مواد سے جیسے I.S.D و غیرہ ؟
ج: جائز نہیں ہے۔
س1407: آیا ایسا تنباکو استعمال کرنا جائز ہے جس پربعض قسم کی شراب چھڑکی گئی ہو ؟ آیا اس کے دھوئیں کو سونگھنا جائز ہے؟
ج: اگر عرف کی نگاہ میں یہ تنباکو پینا شراب پینا نہ کہلائے اور نشہ آور نہ ہو اور قابل توجہ ضرر کا سبب نہ ہو تو جائز ہے۔ اگرچہ احوط اس کا ترک کرنا ہے ۔
س1408: آیا دخانیات کے استعمال کو شروع کرنا حرام ہے ؟اور اگر عادی شخص دخانیات کے استعمال کو چند ہفتوں یا اس سے زیادہ مدت تک ترک کردے تو ان کا دوبارہ استعمال کرنا حرام ہے؟
ج: دخانیات کے استعمال کے ضرر کے درجے کے مختلف ہونے سے اس کا حکم بھی مختلف ہوجاتا ہے کلی طور پر اس مقدار میں دخانیات کا استعمال کہ جس سے بدن کو قابل توجہ ضرر پہنچتاہے جائز نہیں ہے اور اگر انسان کو معلوم ہو کہ دخانیات کا استعمال شروع کرنے سے اس مرحلہ تک پہنچ جائے گا تو بھی جائز نہیں ہے۔
س1409: ایسے مال کا کیا حکم ہے جس کا بعینہ خود حرام ہونا معلوم ہو مثلاً نشہ آور اشیاء کی تجارت سے حاصل شدہ مال ؟ اور اگر اس کے مالک کا علم نہ ہو تو آیایہ مال مجہول المالک کے حکم میں ہے؟ اور اگر مجہول المالک کے حکم میں ہو تو کیا حاکم شرعی یا اس کے وکیل عام کی اجازت سے اس میں تصرف کرنا جائز ہے؟
ج: عین مال کی حرمت کے علم کی صورت میں اگرانسان مال کے شرعی مالک کو جانتا ہو اگرچہ محدود افراد کے درمیان تو مال کو اس کے مالک تک پہنچنانا واجب ہے ورنہ اسے اسکے شرعی مالک کی طرف سے فقرا کو صدقہ دے اور اگر حرام مال اسکے حلال مال سے مل گیا ہو اور اس کی مقداراور شرعی مالک کو نہ جانتا ہو تو واجب ہے کہ اس کا خمس متولی خمس کو دے۔
- داڑھی مونڈنا
داڑھی مونڈنا
س1410: نیچے والا جبڑا۔ کہ جس کے بالوں کو رکھنا واجب ہے۔ سے کیا مراد ہے اور کیا یہ دو رخساروں کو بھی شامل ہے؟
ج: معیار یہ ہے کہ عرفاً کہا جائے کہ اس شخص نے داڑھی رکھی ہوئی ہے۔
س1411: لمبی اور چھوٹی ہونے کے اعتبار سے ریش کے کیا حدود ہیں؟
ج: اس کے لئے کوئی حد معین نہیں ہے؟ بلکہ معیار یہ ہے کہ عرف کی نظر میں داڑھی کہلائے ، ہاں ایک مٹھی سے زیادہ لمبی ہونا مکروہ ہے۔
س1412: مونچھ کو بڑھانے اور داڑھی کو چھوٹا کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: بذات خود اس کام میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س1413: بعض لوگ اپنی ٹھوڑی کے بال نہیں مونڈتے اور باقی بال مونڈ دیتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟
ج: داڑھی کے بعض حصے کے مونڈنے کا حکم پوری داڑھی مونڈنے جیسا ہے۔
س1414: کیا داڑھی مونڈنا فسق شمار ہوتا ہے؟
ج: احتیاط کی بنا پر داڑھی مونڈنا حرام ہے اور احوط یہ ہے کہ اس پر فسق کے احکام جاری ہوں گے۔
س1415: مونچھوں کے مونڈ نے کا کیا حکم ہے؟ کیا ان کا بہت لمبا کرنا جائز ہے؟
ج: مونچھیں مونڈ نا، رکھنا اور انہیں بڑھانا بذات خود اشکال نہیں رکھتا ہاں انہیں اتنا لمبا کرنا کہ کھانے اور پینے کے دوران طعام یا پانی کے ساتھ لگیں تو مکروہ ہے۔
س1416: ایسے فنکار کیلئے بلیڈیا داڑھی مونڈنے والی مشین سے داڑھی مونڈنے کا کیا حکم ہے کہ جس کا شغل مذکورہ عمل کا تقاضا کرتا ہو؟
ج: اگر اس پر داڑھی مونڈنا صادق آتا ہو تو احتیاط کی بناپر حرام ہے۔ ہاں اگر اس کا یہ کام اسلامی معاشرے کی لازمی ضرورت شمار ہوتا ہو تواس ضرورت کی مقدار مونڈ نے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س1417: میں اسلامی جمہوریہ (ایران )کی ایک کمپنی میں تعلقات عامہ کا افسر ہوں اور مجھے مہمانوں کے لئے شیو کے آلات خرید کر انہیں دینا ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنی داڑھی مونڈسکیں میری ذمہ داری کیا ہے؟
ج: داڑھی مونڈنے کے آلات کی خریداری اور دوسروں کو پیش کرنا احتیاط کی بناپرجائز نہیں ہے مگر ضرورت کے مقام میں۔
س1418: اگر داڑھی رکھنا اہانت کا باعث ہو تو داڑھی مونڈنے کا کیا حکم ہے؟
ج: جو مسلمان اپنے دین کو اہمیت دیتا ہے اس کے لئے داڑھی رکھنے میں کوئی اہانت نہیں ہے اوراحتیاط کی بنا پرداڑھی کا مونڈنا جائز نہیں ہے ۔ مگر یہ کہ اس کے رکھنے میں ضرر یا حرج ہو ۔
س1419: اگر داڑھی رکھنا جائز مقاصد کے حصول میں رکاوٹ ہو تو کیا داڑھی مونڈنا جائز ہے ؟
ج: مکلفین پر حکم الہی کی اطاعت کرنا واجب ہے مگر یہ کہ قابل توجہ ضرریا حرج رکھتا ہو۔
س1420 :کیا شیونگ کریم کہ جس کا اصل استعمال داڑھی مونڈنے میں ہوتا ہے کا خریدنا ، فروخت کرنا اور بنانا جائز ہے؟ جبکہ یہ کبھی کبھی اس کے علاوہ بھی استعمال کی جاتی ہے؟
ج: اگر کریم داڑھی مونڈنے کے علاوہ دیگرحلال فوائد رکھتی ہو تو اس مقصد سے اس کا بنانا ،اور فروخت کرنا اشکال نہیں رکھتا۔
س1421:کیاداڑھی مونڈنے کے حرام ہونے سے مرادیہ ہے کہ چہرے کے بال کامل طور پر اگے ہوئے ہوں اورپھرانہیں مونڈا جائے یا یہ اس صورت کو بھی شامل ہے کہ جہاں چہرے پر کچھ بال اگے ہوئے ہوں۔
ج: کلی طور پر چہرے کے اتنے بال مونڈنا کہ جس پر داڑھی مونڈنا صادق آئے احتیاط کی بنا پر حرام ہے۔ ہاں اتنی مقدار مونڈنا کہ جس پر مذکورہ عنوان صادق نہ آئے اشکال نہیں رکھتا۔
س1422: کیا وہ اجرت جو نائی داڑھی مونڈنے کے عوض لیتا ہے حرام ہے؟ برفرض حرمت اگر وہ مال مالِ حلال سے مخلوط ہوجائے تو کیا خمس نکالتے وقت اس کا دودفعہ خمس نکالنا واجب ہے یا نہیں؟
ج: داڑھی مونڈنے کے عوض اجرت لینا بنابر احتیاط حرام ہے لیکن وہ مال جو حرام سے مخلوط ہوگیا ہے اگر حرام مال کی مقدار معلوم ہو اور اسکا مالک بھی معلوم ہو تو اس پر واجب ہے کہ مال کو اس کے مالک تک پہنچائے یا اسکی رضامندی حاصل کرے اور اگرمالک کو نہ پہچانتا ہو حتی کہ محدود افراد میں بھی تو واجب ہے کہ اس کی طرف سے فقرا کو صدقہ دے اور اگر حرام مال کی مقدار کا علم نہ ہو لیکن مالک کو جانتا ہو تو واجب ہے کہ کسی طرح اس کی رضایت رضامندی حاصل کرے اور اگر نہ مال کی مقدار کا علم ہو اور نہ ہی مالک کا تو اس صورت میں مال کا خمس نکالنا واجب ہے تاکہ مال ،حرام سے پاک ہوجائے۔ اب اگر خمس نکالنے کے بعد باقیماندہ مقدار کا کچھ حصہ سالانہ اخراجات کے بعد بچ جائے تو سالانہ بچت کے عنوان سے بھی اس کا خمس نکالنا واجب ہے۔
س1423 :بعض اوقات لوگ میرے پاس شیونگ مشین کی مرمت کرانے آتے ہیں اور چونکہ داڑھی مونڈنا شرعاً حرام ہے کیا میرے لئے مرمت کرنا جائز ہے؟
ج: مذکورہ آلہ چونکہ داڑھی مونڈنے کے علاوہ بھی استعمال ہوتا ہے ، لہذا اس کی مرمت کرنا اور اجرت لینا اشکال نہیں رکھتا بشرطیکہ یہ داڑھی مونڈنے کیلئے استعمال کرنے کے مقصد سے نہ ہو۔
س1424: کیا رخسارکے ابھرے ہوئے حصے سے دھاگے یا چمٹی کے ذریعے بال کاٹنا حرام نہیں ہے؟
ج: اس حصّے کے بال کاٹنا مونڈنے کی صورت میں بھی جائز ہے۔
- محفل گناہ میں شرکت کرنا
محفل گناہ میں شرکت کرنا
س1425: بعض اوقات غیر ملکی یونیورسٹی یا اساتذہ کی طرف سے اجتماعی محفل کا اہتمام کیا جاتا ہے اور پہلے سے معلوم ہوتاہے کہ ایسی محافل میں شراب ہوتی ہے۔ایسے جشن میں شرکت کا ارادہ رکھنے والے یونیورسٹی کے طلبا کی شرعی ذمہ داری کیا ہے؟
ج: کسی کیلئے بھی ایسی محفل میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے کہ جس میں شراب پی جاتی ہے ایسی محفلوں میں شرکت نہ کیجئے تا کہ انہیں پتا چلے کہ آپ نے مسلمان ہونے کی وجہ سے شراب نوشی کی محفل میں شرکت نہیں کی اور آپ شراب نہیں پیتے۔
س1426:شادی کے جشن میں شرکت کا کیا حکم ہے؟کیا شادی کی ایسی محفل کہ جس میں رقص ہے میں شرکت پر یہ عنوان(الداخل فی عمل قوم فہو منہم) "کسی قوم کے کام میں شریک ہونے والا انہیں میں سے ہے "صادق آتاہے پس ایسی محفل کو ترک کرنا واجب ہے؟ یا رقص اور ایسی دوسری رسومات میں شرکت کئے بغیر شادی میں جانا اشکال نہیں رکھتا؟
ج: اگر محفل ایسی نہ ہو کہ اس پر، لہو ولعب اور گناہ کی محفل کا عنوان صدق کرے اور نہ ہی وہاں جانے میں کوئی مفسدہ ہو تو اس میں شرکت کرنے اور بیٹھنے میںکوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ اسے عرفا اسکی عملی تائید شمار نہ کیا جائے جو کہ جائز نہیں ہے۔
س1427:
١۔ ایسی محافل میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے جہاں مرد اور خواتین جداگانہ طور پر رقص کرتے ہیں اور موسیقی بجاتے ہیں؟
٢۔ آیا ایسی شادی میں شرکت کرنا جہاں رقص و موسیقی ہو جائز ہے؟
٣ ۔ آیا ایسی محافل میں نہی عن المنکر کرنا واجب ہے جہاں پر رقص ہو رہاہو جبکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکرکاان پر کوئی اثر نہ ہو؟
٤ ۔ مرد اور خواتین کے ایک ساتھ مل کر رقص کرنے کا کیا حکم ہے؟ج: کلی طور پر رقص اگرشہوت کو ابھارنے کا سبب ہو یا حرام عمل کے ہمراہ انجام پائے یا اس کا سبب ہو یا نامحرم مرد اور خواتین ایک ساتھ انجام دیں تو جائز نہیں ہے اور کوئی فرق نہیں ہے کہ یہ شادی کے جشن میں ہو یا کسی اور پروگرام میں اور گناہ کی محفل میں شرکت کرنا اگر عمل حرام کے ارتکاب کا سبب ہو جیسے ایسی لہوی موسیقی کا سننا کہ جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہو یا اس میں شرکت گناہ کی تائید شمار ہوتی ہو تو جائزنہیں ہے۔ اور اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اثر کرنے کا احتمال نہ ہو تو انکا وجوب ساقط ہے
س1428:اگر نامحرم مرد شادی کی محفل میں داخل ہو اور اس محفل میں بے پردہ عورت ہو اور مذکورہ شخص اس بات کا علم رکھتا ہے کہ اس خاتون پر نہی از منکر کا کوئی اثر نہیں ہوگا تو کیا اس مرد پر محفل کو ترک کرنا واجب ہے؟
ج: اعتراض کے طور پر محفل گناہ کو ترک کرنا اگر نہی عن المنکر کا مصداق ہو تو واجب ہے۔
س1429: آیا ایسی محافل میں شرکت کرنا جائز ہے جہاں فحش غنا کے کیسٹ سنے جا رہے ہوں؟ اور اگر اسکے غنا ہونے میں شک ہو جبکہ کیسٹ کو روک بھی نہ سکتا ہو تو حکم کیا ہے؟
ج: غنا اور لہوی موسیقی کی ایسی محفل میں جانا کہ جو راہ خدا سے منحرف کرنے والا ہو اگر اسکے سننے کا باعث ہو یا اسکی تائید شمار ہو تو جائز نہیں ہے لیکن موضوع میں شک کی صورت میں اس محفل میں شرکت کرنے اور اسکے سننے میں بذات خود کوئی حرج نہیں ہے۔
س1430: ایسی محفل میں شرکت کرنے کا کیا حکم ہے کہ جہاں انسان کو بعض اوقات غیر مناسب کلام سننا پڑتا ہے؟ مثلاً دینی شخصیات یا اسلامی جمہوریہ کے عہدے داروں یادوسرے مومنین پر بہتان باندھنا؟
ج: صرف جانا اگر فعل حرام میں مبتلا ہونے ــمثلاً غیبت کا سنناــ اور برے کام کی ترویج و تائید کا سبب نہ بنے تو بذات خود جائز ہے۔ ہاں شرائط کے ہوتے ہوئے نہی عن المنکر واجب ہے۔
س1431: بعض غیر اسلامی ممالک کی میٹنگوں اور نشستوں میں روایتی طور پر مہمانوں کی ضیافت کے لئے شراب استعمال کی جاتی ہے۔ آیا ایسی میٹنگوں اور نشستوں میں شرکت کرنا جائز ہے؟
ج: ایسی محفل میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے کہ جہاں شراب پی جاتی ہو اور مجبوری کی صورت میں قدر ضرورت پر اکتفا کرنا واجب ہے۔
- دعا لکھنا اور استخارہ
دعا لکھنا اور استخارہ
س1432: آیا دعا لکھنے کے عوض پیسے دینا اور لینا جائز ہے؟
ج: منقول دعاؤں کے لکھنے کی اجرت کے طور پر پیسے دینے ا ور لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س1433: ایسی دعاؤں کا کیا حکم ہے جن کے لکھنے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ دعاؤں کی قدیم کتابوں سے لی گئی ہیں؟ آیا مذکورہ دعائیں شرعاً معتبر ہیں؟ اور ان کی طرف رجوع کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: اگر مذکورہ دعائیں ائمہ (علیھم السلام )سے منقول اور مروی ہوں یا ان کا محتوا حق ہو تو ان سے برکت حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اسی طرح مشکوک دعاؤں سے اس امید کے ساتھ کہ یہ معصومین علیھم السلام کی طرف سے ہوں گی طلب برکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س1434: آیا استخارے پر عمل کرنا واجب ہے؟
ج: استخارے پر عمل کرنا شرعاً واجب نہیں ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ استخارے کے خلاف عمل نہ کیا جائے۔
س1435: یہ جو کہا جاتا ہے کہ عمل خیر کے انجام دینے میں استخارے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسکی بنا پر آیا انکے انجام دینے کی کیفیت یا دوران عمل ممکنہ طور پر پیش آنے والی غیر متوقع مشکلات کے بارے میں استخارہ کرنا جائز ہے؟ اور آیا استخارہ غیب کی معرفت کا ذریعہ ہے یا اس سے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی آگاہ نہیں ہے؟
ج: استخارہ مباح کاموں میں تردد اورحیرت دور کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ چاہے یہ تردد خود عمل میں ہو یا کیفیت عمل میں لہذا اعمال نیک کہ جن میں کوئی تردد نہیں ہے ان میں استخارہ ضروری نہیں ہے اسی طرح استخارہ کسی عمل اور شخص کے مستقبل کو جاننے کیلئے نہیں ہے۔
س1436: آیا طلاق کے مطالبے اور طلاق نہ دینے جیسے مواردکے لئے قرآن سے استخارہ کرنا صحیح ہے؟ اور اگر کوئی شخص استخارہ کرے اور اس کے مطابق عمل نہ کرے تو کیا حکم ہے؟
ج: قرآن اور تسبیح سے استخارے کا جواز کسی خاص موردسے مختص نہیں ہے بلکہ ہر مباح کام کہ جس میں انسان کو اس طرح تردد اور حیرت ہو کہ اس میں تعمیم نہ کرسکتا ہو اس کیلئے استخارہ کیا جاسکتا ہے اور استخارے پر شرعاً عمل کرنا واجب نہیں ہے اگرچہ بہتر یہ ہے کہ انسان اس کی مخالفت نہ کرے۔
س1437: آیا تسبیح اور قرآن کے ذریعہ شادی جیسے زندگی کے بنیادی مسائل کیلئے استخارہ کرنا جائز ہے ؟
ج: بہتر یہ ہے کہ جن مسائل میں انسان کوئی فیصلہ کرنا چاہے سب سے پہلے انکے بارے میں غور و فکر کرے یا پھر تجربہ کاراور بااعتماد افراد سے مشورہ کرے اگر مذکورہ امور سے اسکی حیرت ختم نہ ہو تو استخارہ کرسکتاہے۔
س1438: آیا ایک کام کیلئے ایک سے زیادہ مرتبہ استخارہ کرنا صحیح ہے؟
ج: استخارہ چونکہ تردد اور حیرت کو برطرف کرنے کے لئے ہے لہذا پہلے استخارے کے ساتھ تردد برطرف ہونے کے بعد دوبارہ استخارے کا کوئی مطلب نہیں ہے مگر یہ کہ موضوع تبدیل ہوجائے۔
س1439: بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ امام رضا کے معجزات پر مشتمل نوشتہ جات مساجد اور اہلبیت علیھم السلام کے حرموں میں موجود زیارت کی کتابوں کے صفحات کے درمیان رکھ کر لوگوں کے درمیان پھیلائے جاتے ہیں اور ان کے پھیلانے والے نے آخر میں لکھا ہوتا ہے کہ جو بھی اسے پڑھے اس پر واجب ہے کہ اسے اتنی تعداد میں تحریر کر کے لوگوں کے درمیان تقسیم کرے تاکہ اس کی حاجت پوری ہوجائے ؟ آیا یہ امر صحیح ہے؟ اور آیا پڑھنے والے پر لکھنے والے کی درخواست پر عمل کرنا واجب ہے؟
ج: شرعی نقطہ نظر سے ایسی چیزوں کے معتبر ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے اور جو شخص انہیں پڑھتا ہے وہ لکھنے والے کی طرف سے اسے مزید لکھنے کی درخواست پر عمل کرنے کا پابند نہیں۔
- دینی رسومات کا احیاء
- ذخیرہ اندوزی اور اسراف
ذخیرہ اندوزی اور اسراف
س1468: کن چیزوں کی ذخیرہ اندوزی شرعاً حرام ہے ؟ اور آیا آپ کی نظر میں ذخیرہ اندوزی کرنے والوں پر مالی تعزیر (مالی جرمانہ) لگانا جائز ہے؟
ج: ذخیرہ اندوزی کا حرام ہونا اسکے مطابق جو روایات میں وارد ہوا ہے اور مشہور فقہا کی بھی یہی رائے ہے صرف چارغلوں اور سمن و زیت (گھی اور تیل) میں ہے کہ جن کی معاشرے کے مختلف طبقات کو ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن اسلامی حکومت مفاد عامہ کے تحت لوگوں کی تمام ضروریات زندگی کی ذخیرہ اندوزی کو ممنوع قرار دے سکتی ہے، اور اگر حاکم شرع مناسب سمجھے تو ذخیرہ اندوزوں پر مالی تعزیرات لگانے میں اشکال نہیں ہے ۔
س1469: کہا جاتاہے کہ ضرورت سے زیادہ روشنی کی خاطر بجلی استعمال کرنا اسراف کے زمرے میں شمار نہیں ہوتا کیا یہ بات درست ہے؟
ج: بلا شک ہر چیز کا ضرورت سے زیادہ استعمال اور خرچ کرنا حتی بجلی اور بلب کی روشنی اسراف شمار هوتا ہے، جو بات صحیح ہے وہ رسول اللہؐ(صلی الله علیه و آله و سلم) سے منقول یہ کلام ہے کہ آپ فرماتے هیں«لاسَرَف فی خیر» کار خیر میں اسراف نہیں ہے۔
- تجارت و معاملات
- سود کے احکام
سود کے احکام
س1619: ایک ڈرائیور نے ٹرک خریدنے کے ارادے سے ا یک دوسرے شخص سے پیسے لئے تا کہ اس کے وکیل کی حیثیت سے اس کے لئے ٹرک خریدے اور پھر پیسے دینے والا شخص وہی ٹرک ڈرائیور کو قسطوں پر فروخت کردے اس معاملہ کا کیا حکم ہے؟
ج: اگرڈرائیور صاحب مال کے وکیل کی حیثیت سے اس معاملے کو انجام دے اور پھر وہ خود اسے ڈرائیور کو قسطوں پر بیچ دے تو اگر اس کام سے ان کا قصد سود سے بچنے کے لئے حیلہ کرنا نہ ہو اور دونوں معاملوں میں خرید و فروخت کا حقیقی قصد و ارادہ رکھتے ہوں تو اشکال نہیں ہے۔
س1620: قرض والاسود کیا ہے اور آیا وہ چند فیصد مقدار جو بینک سے اپنی رقم کے منافع کے عنوان سے لی جاتی ہے سود شمار کی جائے گی؟
ج: قرض والا سود قرض کی رقم پر وہ اضافی مقدار ہے جو قرض لینے والا قرض دینے والے کو دیتا ہے لیکن جو رقم بینک میں اس غرض سے رکھی جاتی ہے کہ صاحب مال کے وکیل کی حیثیت سے اسے کسی صحیح شرعی معاملے میں استعمال کیا جائے تو اس کے استعمال سے حاصل ہونے والا نفع سود نہیں ہے اور اس میں اشکال نہیں ہے۔
س1621: سودی معاملے﴿لین دین﴾ کا معیار کیاہے؟ اورکیا یہ صحیح ہے کہ سود فقط قرض میں ہوتا ہےجبکہ کسی دوسرے معاملے میں نہیں ہوتا؟
ج: سود جیسے قرض میں ہوسکتا ہے اسی طرح معاملے ﴿لین دین﴾ میں بھی ہوسکتا ہے اور معاملے میں سود سے مراد ہے وزن یا پیمانے والی شے کو اس کی ہم جنس شے کے بدلے میں زیادہ مقدار کے ساتھ بیچنا۔
س1622: اگر بھوک کی وجہ سے انسان کی جان خطرے میں ہو اور اس کے پاس مردار کے علاوہ کوئی چیز نہ ہو کہ جسے کھا کر وہ جان بچا سکے تو جس طرح اس کے لئے ایسی مجبوری کے وقت مردار کھانا جائز ہوتا ہے ،اسی طرح کیا مجبوری کی حالت میں ایسے شخص کیلئے سود کھانا جائز ہے کہ جو کام نہیں کرسکتا لیکن اس کے پاس تھوڑا سا سرمایہ ہے اور ناچار ہے کہ اسے سودی معاملات میں استعمال کرے تا کہ اس کے منافع سے اپنی گزر بسر کرے۔
ج: سود حرام ہے اوراسے اضطرار کی حالت میں مردار کھانے کے ساتھ قیاس کرنا صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ مردار کھانے پر مجبور شخص کے پاس مردار کے علاوہ کوئی شے نہیں ہوتی کہ جس سے وہ اپنی جان بچا سکے لیکن جو شخص کام نہیں کرسکتا وہ اپنے سرمایہ کو مضاربہ جیسے کسی اسلامی معاملہ کے ضمن میں کام میں لاسکتا ہے۔
س1623: بعض اوقات تجارتی معاملات میں ڈاک کے ٹکٹ معین شدہ قیمت سے زیادہ قیمت میں فروخت کئے جاتے ہیں،مثلاً ایک ٹکٹ جس کی قیمت بیس ریال ہے اسے پچیس ریال میں فروخت کیا جاتا ہے کیا یہ معاملہ صحیح ہے؟
ج: اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور ایسے اضافے کوسود شمارنہیں کیا جاتا۔ کیونکہ سودی معاملہ وہ ہوتا ہے کہ جس میں پیمانے یا وزن کے ساتھ بکنے والی دو ہم جنس چیزوں کا آپس میں معاملہ کیا جائے اور ایک دوسری سے زیادہ ہو اور ایسا معاملہ باطل ہوتا ہے ۔
س1624: کیا سود کا حرام ہونا تمام حقیقی ﴿ذاتی حیثیت رکھنے والے﴾ اور حقوقی ﴿بحیثیت منصب یا عہدہ﴾ افراد کے لئے ایک جیسا ہے یا بعض خاص موارد میں استثنا بھی پایا جاتا ہے؟
ج: سود کلی طور پر حرام ہے سوائے اس سود کے کہ جو باپ اور اولاد اورمیاں بیوی کے درمیان اور اسی طرح سوائے اس سود کے جو مسلمان کافر غیر ذمی سے لیتا ہے۔
س1625: اگرکسی معاملے میں خرید و فروخت معین قیمت پر انجام پا جائے لیکن طرفین اس پر اتفاق کریں کہ اگر خریدار نے قیمت کے طور پر مدت والاچیک دیا تو خریدار معین قیمت کے علاوہ کچھ مزید رقم فروخت کرنے والے کو ادا کرے گا۔ آیا ان کے لئے ایسا کرناجائز ہے؟
ج: اگرمعاملہ معین قیمت پرانجام پایاہو اور اضافی قیمت اصلی رقم کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے ہو تو یہ وہی سود ہے جو شرعاً حرام ہے اور دونوں کے اضافی مقدار کے ادا کرنے پر اتفاق کر لینے سے وہ پیسہ حلال نہیں ہوگا۔
س1626: اگر کسی شخص کوکچھ رقم کی ضرورت ہو اور کوئی اسے قرض حسنہ دینے والا نہ ہو تو کیا وہ مندرجہ ذیل طریقے سے اس رقم کو حاصل کر سکتا ہے کہ کسی چیز کوادھار پر اس کی واقعی قیمت سے زیادہ قیمت پر خریدے اور پھر اسی جگہ پر وہی چیزفروخت کرنے والے کو کم قیمت پر فروخت کر دے مثلاً ایک کلو زعفران ایک سال کے ادھار پر ایک معین قیمت کے ساتھ خریدے اور اسی وقت اسی فروخت کرنے والے کو کم قیمت پر مثلا قیمت خرید کے ۶۶ فیصد کے ساتھ بطور نقد فروخت کر دے؟
ج: ایسا معاملہ کہ جو در حقیقت قرض والے سود سے فرار کے لئے ایک حیلہ ہے شرعاً حرام اور باطل ہے۔
س1627: میں نے منافع حاصل کرنے اور سود سے بچنے کے لئے مندرجہ ذیل معاملہ انجام دیا:
میں نے ایک گھر پانچ لاکھ تومان کا خریدا جبکہ اس کی قیمت اس سے زیادہ تھی اور معاملے کے دوران ہم نے یہ شرط لگائی کہ فروخت کرنے والے کو پانچ مہینے تک معاملہ فسخ کرنے کاحق ہوگا لیکن اس شرط پر کہ فسخ کرنے کی صورت میں وہ لی ہوئی قیمت واپس کردے گا ۔ معاملے کے انجام پانے کے بعد میں نے وہی گھر فروخت کرنیوالے کو پندرہ ہزار تومان ماہانہ کرایہ پر دے دیا۔ اب معاملہ کرنے سے چار مہینے گذرنے کے بعد مجھے حضرت امام خمینی کا یہ فتویٰ معلوم ہوا کہ سود سے فرار کرنے کے لئے حیلہ کرنا جائز نہیں ہے۔آپ کی نظر میں مسئلہ کا حکم کیا ہے؟ج: اگر یہ معاملہ حقیقی قصد کے ساتھ انجام نہیں پایا بلکہ صرف ظاہری اور بناوٹی تھا اور مقصد یہ تھا کہ فروخت کرنے والے کو قرض مل جائے اور خریدار کو نفع تو ایسا معاملہ سود والے قرض سے بچنے کا ایک حیلہ ہے کہ جو حرام اور باطل ہے۔ایسے معاملات میں خریدار کو صرف وہ رقم واپس لینے کا حق ہے جو اس نے فروخت کرنے والے کو گھر کی قیمت کے طور پر دی تھی۔
س1628:سود سے بچنے کے لئے کسی شے کا مال کے ساتھ ضمیمہ کرنے کا کیا حکم ہے؟
ج: اس کا م کا سودی قرض کے جائز ہونے میں کوئی اثر نہیں ہے اور کسی شے کے ضم کرنے سے مال حلال نہیں ہوتا۔
س1629: ملازم اپنی نوکری کے دوران ہر ماہ اپنی تنخواہ کا ایک حصہ پنشن فنڈ یا جی پی فنڈ میں ڈالتا ہے تاکہ بڑھاپے میں اس کے کام آئے اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت کی طرف سے اس میں کچھ اضافی رقم ڈال دی جاتی ہے کیا اس کا لینا جائز ہے ؟
ج: اصل رقم لینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور وہ اضافی رقم جو اس کی ہر ماہ کاٹی گئی رقم کے علاوہ حکومت اسے دیتی ہے وہ اس کی رقم کا منافع نہیں ہوتا اور سود شمار نہیں ہوگا۔
س1630: بعض بینک رجسٹری والے گھر کی تعمیر کے لئے جُعالہ کے عنوان سے قرض دیتے ہیں لیکن شرط یہ ہوتی ہے کہ قرض لینے والا اپنے قرض کو چند فیصد اضافے کے ساتھ معین مدت میں قسطوں کی صورت میں ادا کرے گا کیا اس صورت میں قرض لینا جائزہے؟ اوراس میں جعالہ کیسے متصور ہوگا؟
ج: اگر یہ رقم گھر کے مالک کو گھر کی تعمیر کے لئے قرض کے عنوان سے دی گئی ہے تو اس کا جعالہ ہونا بے معنی ہے اور قرض میں زائد رقم کی شرط لگانا جائز نہیں ہے۔ اگرچہ اصل قرض بہرحال صحیح ہے لیکن کوئی مانع نہیں ہے کہ گھر کا مالک گھر کی تعمیر میں بینک کیلئے انعام یا جُعل (عوض) قرار دے اور اس صورت میں انعام یا جُعل(عوض) صرف وہ نہیں ہوگا جو بینک نے گھر کی تعمیر میں خرچ کیا ہے بلکہ وہ سب کچھ ہے کہ جس کا بینک گھر کی تعمیر کے مقابلے میں مطالبہ کرر ہا ہے۔
س1631: آیا کوئی شے نقد قیمت سے زیادہ قیمت پر بطور ادھار خریدنا جائز ہے ؟ اور آیا یہ سود کہلائے گا ؟
ج: کسی شے کا بطورادھارنقد قیمت سے زیادہ قیمت پر خرید و فروخت کرنا جائز ہے اور نقد و ادھار کے درمیان اختلاف سود شمار نہیں ہوگا۔
س1632: ایک شخص نے اپنا گھر خیار والے معاملے کے تحت فروخت کیا لیکن وہ مقررہ وقت پر خریدار کو قیمت واپس نہ کرسکا لہذا ایک تیسرے شخص نے خریدار کو معاملے والی قیمت ادا کردی تاکہ فروخت کرنے والا معاملہ فسخ کر سکے البتہ اس شرط پر کہ اپنی رقم لینے کے علاوہ کچھ رقم اپنے کام کی مزدوری کے طور پر لے گا اس مسئلہ کا شرعاً کیا حکم ہے؟
ج: اگر وہ تیسرا شخص بیچنے والے کی طرف سے قیمت واپس کرنے اور فسخ کرنے کے لئے وکیل ہو اس طرح کہ پہلے فروخت کرنے والے کووہ رقم قرض دے اور پھر اس کی وکالت کے طور پر وہ رقم خریدار کو ادا کرے اور اس کے بعد معاملے کو فسخ کردے تو اس کا یہ کام اور وکالت کی اجرت لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر اس نے خریدارکو جو قیمت ادا کی ہے وہ فروخت کرنے والے کیلئے بعنوان قرض ہو تو اس صورت میں اسے فروخت کرنے والے سے فقط اس رقم کے مطالبے کا حق ہے جو اس نے اس کی طرف سے قیمت کے طور پر ادا کی ہے ۔
- حقِ شفعہ
حقِ شفعہ
س1633: اگر ایک چیز دو اشخاص کے نام پر وقف ہو جبکہ ان میں سے ایک شخص اپنے حصے کو بیچنے کا حق بھی رکھتا ہو اور کسی تیسرے شخص کو اپنا حصہ بیچنا چاہے تو کیا پہلا شخص شفعہ کا حق رکھتا ہے؟ اسی طرح اگر دو اشخاص مل کر کسی جائیداد یا وقف شدہ جگہ کو کرائے پر لیں پھر ان میں سے ایک شخص صلح یا کرائے کے ذریعے اپنا حق کسی تیسرے شخص کو دے دے تو کیا کرائے پر لی گئی جائیداد پر شفعہ کا حق بنتا ہے؟
ج: حق شفعہ وہاں ہوتا ہے جہاں عین(خارجی اشیاء) کی ملکیت میں شراکت ہو اور دو میں سے ایک شریک اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کر دے۔ لہذا اگر دو اشخاص کے لئے کوئی شئے وقف ہو اور ایک شخص اپنا حصہ تیسرے شخص کو فروخت کر دے جبکہ اس کا فروخت کرنا جائز بھی ہو تو اس صورت میں حق شفعہ نہیں ہے اوراسی طرح کرایہ پر لی ہوئی شئے میں اگر ایک شخص اپنا حق کسی تیسرے شخص کو منتقل کر دے تو بھی شفعہ کا حق نہیں ہے۔
س1634: شفعہ کے باب میں فقہی متون کی عبارتوں اور شہری قوانین سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دو میں سے ایک شریک اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کر دے تو دوسرے شریک کو شفعہ کا حق ہے بنابرایں اگر ایک شریک کسی خریدار کو اس بات پر ابھارے کہ وہ دوسرے شریک کا حصہ خرید لے یا واضح طور پر کہے کہ اگر وہ خریدار اسکے شریک کا حصہ خریدے تو وہ اپنا حق شفعہ استعمال نہیں کر ے گا تو کیا یہ عمل حق شفعہ کا ساقط ہونا شمار ہوگا؟
ج: محض ایک شریک کا کسی تیسرے شخص کو اپنے شریک کا حصہ خریدنے پر ابھارنا اس کیلئے حق شفعہ کے ثابت ہونے سے ٹکراؤ نہیں رکھتا۔بلکہ اگروہ وعدہ کرے کہ اسکے شریک اور اس شخص کے درمیان معاملہ ہوجانے کی صورت میں وہ حق شفعہ استعمال نہیں کریگا تو اس سے بھی معاملہ انجام پانے کے بعد حق شفعہ ساقط نہیں ہوگا۔
س1635:کیا شریک کے اپنا حصہ فروخت کرنے سے پہلے حق شفعہ کو ساقط کرنا صحیح ہے کیونکہ یہ ایسی چیز کا اسقاط ہے جو ابھی واقع نہیں ہوئی (اسقاط ما لم یجب)ہے۔
ج: جب تک حق شفعہ واقع نہ ہوجائے اور دو میں سے ایک شریک کے اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کرنے کے ساتھ یہ مرحلہ عملی نہ ہو جائے اسے ساقط کرنا صحیح نہیں ہے۔ ہاں اگر ایک شریک عقد لازم کے تحت اپنے آپ کو اس بات کا پابند بنائے کہ اگر اسکے شریک نے اپنا حصہ کسی تیسرے شخص کو فروخت کیا تو وہ شفعہ نہیں کریگا تو اشکال نہیں ہے۔
س1636: ایک شخص نے ایک ایسے دو منزلہ گھر کی ایک منزل کرایہ پرلی کہ جس کے مالک دو بھائی ہیں اور وہ کرایہ دار کے مقروض ہیں اور دو سال سے مسلسل اصرار کے باوجود اس کا قرض ادا نہیں کر رہے اس طرح کہ کرایہ دار کے لئے حق تقاص(ادھار کے بدلے کوئی چیز قبضے میں لینا) ثابت ہوجاتا ہے۔ گھر کی قیمت قرض کی رقم سے زیادہ ہے۔ اب اگر وہ اپنے قرض کی مقدار کے برابر اس گھرکا کچھ حصہ اپنی ملکیت میں لے لے اور ان کے ساتھ گھر میں شریک ہوجائے تو کیا باقی ماندہ مقدار کی نسبت اسے حق شفعہ حاصل ہوگا ؟
ج: سوال کی مفروضہ صورت میں حق شفعہ کا موضوع نہیں ہے اس لئے کہ حق شفعہ اس جگہ ہوتا ہے جہاں کسی شریک نے اپنا حصہ ایک تیسرے شخص کو فروخت کیا ہو اورخرید و فروخت سے پہلے شراکت ہو، تاہم اس شخص کو حق شفعہ حاصل نہیں جو دو میں سے ایک کا حصہ خرید کر یا تقاص کی وجہ سے اس کا مالک بن کر دوسرے کے ساتھ شریک ہو جائے۔ علاوہ از ایں اگر ایک شریک اپنا حصہ بیچ دے تو اس صورت میں حق شفعہ ثابت ہوتا ہے کہ جب اس ملک میں زیادہ افراد شریک نہ ہوں بلکہ صرف دو شخص شریک ہوں۔
س1637: ایک جائیدا د دو افراد کے درمیان مشترکہ ہے اور ہر ایک آدھے حصے کا مالک ہے اور اسکی رجسٹری بھی دونوں کے نام ہے۔ تقسیم کے ایک ،سادہ اشٹام کی بنیاد پر کہ جو انکے اپنے ہاتھوں کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے مذکورہ جائیداد معین حدود کے ساتھ ان کے درمیان دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ اگر ایک شریک تقسیم کے بعد اپنا حصہ تیسرے شحص کو فروخت کر دے تو کیادوسرے شریک کوصرف اس بنیاد پر کہ اس جائیداد کی رجسٹری ان کے درمیان مشترکہ ہے حق شفعہ حاصل ہے؟
ج: فروخت شدہ حصہ اگر معاملے کے وقت دوسرے شریک کے حصے سے علیحدہ اور معین حدود کے ساتھ جدا کردیا گیا ہو تو صرف دو زمینوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ہونا یا سابقہ شراکت یا رجسٹری کا مشترکہ ہونا حق شفعہ کے ثبوت کا باعث نہیں ہوگا۔
- اجارہ
- ضمانت
ضمانت
س 1682: جس شخص کے بینک اکاؤنٹ میں کوئی رقم موجود نہ ہو۔ کیا وہ کسی دوسرے شخص کی ضمانت کے طور پر اپنا چیک دے سکتاہے؟
ج: اس قسم کے امور کا معیار اسلامی جمہوریہ ایران کا قانون ہے۔
س 1683: ایک شخص میرا مقروض تھا جو قرضہ ادا کرنے میں پس و پیش کررہا تھا، چنانچہ اس کے ایک رشتہ دار نے میرے قرض کی رقم کے برابر معینہ مدت والاایک چیک مجھے دیا ،اس شرط پر کہ میں مقروض کوکچھ مہلت دوں۔ اس طرح وہ ضامن بن گیا کہ اگر مقروض شخص نے چیک کی مقررہ مدت تک قرض ادا نہ کیا تو وہ ادا کرے گا۔ اسی دوران مقروض کہیں روپوش ہوگیا اور اس وقت مجھے اس کا کوئی پتہ نہیں ہے ۔کیا شرعا جائز ہے کہ میں اپناپورا قرض ضامن سے وصول کروں؟
ج: اگر وہ صحیح اور شرعی طریقے سے ضامن ہوا ہے تو جائز ہے کہ آپ اس سے مقررہ مدت تمام ہونے پر اپنے قرض کا مطالبہ کریں ا ور اپنا تمام قرض اس سے وصول کریں۔
- رہن
رہن
س 1684: ایک شخص نے اپنا گھر بینک سے قرض لے کر اس کے پاس گروی رکھا پھر وہ اپنا قرض ادا کرنے سے پہلے انتقال کرگیا اور اس کے نابالغ ورثاء پورا قرض ادا نہ کرسکے۔ نتیجتاً بینک نے مذکورہ گھر اپنے قبضے میں لے لیا جبکہ اس گھر کی قیمت قرض والی رقم سے کئی گنا زیادہ ہے ۔گھر کی اضافی رقم کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور نابالغ ورثاء اور ان کے حق کے متعلق کیا حکم ہے ؟
ج: جن مقامات میں مرتہن (جس کے پاس وہ چیز گروی رکھی گئی ہے ) کے لئے گروی رکھی ہوئی چیز کو اپنا قرض وصول کرنے کے لئے فروخت کرنا جائز ہے، وہاں اس پر واجب ہے کہ وہ اس چیز کو جتنا ممکن ہو زیادہ سے زیادہ قیمت پر فروخت کرے۔ اگر وہ اس شے کو اپنے قرض کی مقدار سے زیادہ پر فروخت کرے تو ضروری ہے کہ اپنا حق وصول کرنے کے بعد باقیماندہ رقم اس کے شرعی مالک کو لوٹا دے لہذا مذکورہ سوال کی روشنی میں اضافی رقم ورثاء کو ملے گی۔
س1685: کیا جائز ہے کہ بالغ و عاقل شخص کسی دوسرے سے معین مدت کے لئے کچھ رقم قرض پر لے اور اپنا گھر قرض کے بدلے اس کے پاس گروی رکھ دے اور پھر اسی گھر کومرتہن سے معین رقم کے ساتھ معینہ مدت کے لئے کرایہ پر لے لے؟
ج: اس میں ایک اشکال تو یہ ہے کہ مالک اپنی ہی ملک کو کیسے کرائے پر لے سکتا ہے، اس کے علاوہ اس قسم کے معاملات، سودی قرض حاصل کرنے کے لئے ایک حیلے کے طور پر کئے جاتے ہیں جو شرعی طور پر حرام اور باطل ہے۔
س 1686: ایک شخص نے قرض کے بدلے میں اپنی ایک زمین دوسرے شخص کے پاس گروی رکھی۔ اس بات کو چالیس سال سے زیادہ ہوچکے ہیں یہاں تک کہ راہن(گروی رکھوانے والا) اور مرتہن(گروی لینے والا) دونوں انتقال کرگئے ہیں اور راہن کے وارثوں نے کئی مرتبہ مرتہن کے وارثوں سے زمین واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن انہوں نے ان کے مطالبے کو قبول نہیں کیا بلکہ وہ اس بات کے مدعی ہیں کہ یہ زمین انہیں ان کے باپ سے وراثت میں ملی ہے ۔کیا راہن کے ورثاء یہ زمین ان سے واپس لے سکتے ہیں؟
ج: اگر ثابت ہوجائے کہ مرتہن اس بات کا مجاز تھا کہ وہ اپنا حق وصول کرنے کیلئے زمین کو اپنی ملکیت میں لے لے اور اسکی قیمت بھی قرض کے برابر یا اس سے کمتر ہو اور اس کے مرنے تک زمین اسکے قبضہ میں رہی ہو تو بظاہر اسکی ملکیت ہے اور اسکے انتقال کے بعد اسکا ترکہ شمار ہوگی اور اسکے ورثاء اسکے وارث ہونگے . ورنہ زمین راہن کے ورثا کی میراث ہوگی اور وہ اس کا مطالبہ کرسکتے ہیں اورراہن کے ورثاء کیلئے ضروری ہے کہ اسکے ترکہ سے مرتہن کے ورثاء کو اس کا قرض ادا کریں۔
س 1687: کیا جائز ہے کہ جس شخص نے مکان کرایہ پر لیا ہے وہ اپنے قرض کے مقابلے میں یہ مکان کسی دوسرے شخص کے پاس گروی رکھ دے یا یہ کہ رہن کے صحیح ہونے میں شرط ہے کہ رہن پر رکھی جانے والی شے راہن کی ملکیت ہو؟
ج: اگر گھر کے مالک کی اجازت ہے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
س1688: میں نے ایک شخص سے قرض لے کر ایک سال کےلئے اپنا مکان اس کے پاس گروی رکھ دیااور ہم نے اس سلسلے میں دستاویز بھی لکھ لی لیکن معاملے سے علیحدہ طور پر میں نے اسے وعدہ دیا کہ یہ مکان اس کے پاس تین سال تک رہے گا۔ کیا اب رہن کی وہ مدت معیار ہے جو دستاویز میں لکھی گئی ہے یا وہ مدت کہ جس کا میں نے باتوں میں اسے وعدہ دیا ہے اور رہن کے باطل ہونے کی صورت میں راہن اور مرتہن کے لئے کیا حکم ہے ؟
ج: رہن کی مدت کے سلسلے میں تحریر ی دستاویزیا وعدہ یا اس جیسی کوئی اور چیز معیار نہیں ہے بلکہ اصلی معیار قرض والا معاملہ ہے پس اگر یہ معاملہ معینہ مدت کے ساتھ مشروط ہو تو اس مدت کے ختم ہونے پر یہ بھی ختم ہوجائے گا ورنہ رہن کی صورت میں باقی رہے گایہاں تک کہ قرض ادا کردینے یاقرض خواہ کے اپنے قرض سے چشم پوشی کر لینے کی وجہ سے یہ گھر گروی ہونے سے نکل جائے اور اگر وہ مکان رہن سے آزاد ہوجائے یا یہ پتہ چل جائے کہ رہن ابتدا ہی سے باطل تھا تو راہن اپنے اس مال کا مرتہن سے مطالبہ کرسکتاہے اورمرتہن کو حق نہیں ہے کہ وہ اس کے لوٹانے سے انکار کرے اوراس پر صحیح رہن کے آثار مترتب کرے۔
س1689: میرے والد نے تقریباً دوسال یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ پہلے، سونے کے کچھ سکے اپنے قرض کے مقابلے میں گروی رکھے تھے اور پھر اپنی وفات سے کچھ دن پہلے مرتہن کو اجازت دے دی کہ وہ انہیں بیچ دے لیکن انہوں نے اس بات سے مرتہن کو آگاہ نہیں کیا ۔پھر میں نے اپنے والد کی رحلت کے بعد اس قرض کے برابر رقم کسی سے قرض لے کر مرتہن کو دے دی لیکن میرا ارادہ والد کے قرض کو ادا کرنا یا انہیں برئ الذمہ کرنا نہیں تھا بلکہ میں چاہتا تھا کہ گروی رکھا ہوا مال اس سے لے کر کسی اور کے پاس گروی رکھ دوں لیکن مرتہن نے اس میں تمام ورثاء کے متفق ہونے کی شرط لگادی اور ان میں سے بعض نے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی پس میں نے اسے لینے کے لئے مرتہن سے رجوع کیا لیکن اس نے یہ کہا کہ میں نے اسے اپنے قرض کے مقابلے میں رکھ لیا ہے اور اس طرح اسے تحویل دینے سے انکار کردیا ۔اس مسئلہ کا شرعی لحاظ سے کیا حکم ہے ؟ کیا جائز ہے کہ مرتہن اپنا قرض وصول کرنے کے بعد گروی رکھا ہوا مال واپس کرنے سے انکار کردے؟ اور باوجود اس کے کہ میں قرض ادا کرنے کا ذمہ دار نہیں تھا اور جو کچھ میں نے اسے دیا تھا وہ والد کا قرض ادا کرنے کے عنوان سے نہیں تھا، کیا اسے حق ہے کہ وہ اس رقم کو اپنے قرض کے مقابلے میں رکھ لے اور واپس نہ لوٹائے؟ اور کیا وہ گروی رکھے ہوئے مال کو واپس لوٹانے میں تمام ورثاء کی موافقت کی شرط لگا سکتاہے؟
ج: اگر وہ رقم میت کا قرض ادا کرنے کی نیت سے مرتہن کو دی گئی تھی تو اس سے میت بری الذمہ ہوجائے گی اور گروی رکھی ہوئی چیز آزاد ہوکر مرتہن کے پاس امانت بن جائے گی لیکن چونکہ اس کا تعلق تمام ورثاء سے ہے لہذا سب کی رضامندی کے بغیر بعض ورثاء کے حوالے نہیں کر سکتا اور اگر یہ بات ثابت نہ ہو کہ مذکورہ رقم میت کا قرض ادا کرنے کی نیت سے دی گئی تھی بالخصوص جب مرتہن اس کا اقرار بھی کر رہاہو تو وہ اس رقم کو اپنے قرض کے مقابلے میں نہیں لے سکتا بلکہ اس پر واجب ہے کہ جس نے اسے یہ رقم دی ہے اسے واپس لوٹادے بالخصوص جب اس کا دینے والا اس کا مطالبہ کررہا ہو اور سونے کے سکے اس کے پاس رہن کے عنوان سے باقی رہیں گے یہاں تک کہ ورثا، میت کاقرض ادا کرکے رہن کو چھڑوا لیں یا مرتہن کو اجازت دے دیں کہ وہ اسے بیچ کر اپنا قرض وصول کرلے۔
س1690: راہن نے جو مال گروی رکھاہے کیا اسے چھڑوانے سے پہلے اپنے قرض کے مقابلے میں کسی دوسرے شخص کے پاس رہن کے طور پر رکھ سکتاہے؟
ج: جب تک پہلا رہن چھڑوا نہ لیا جائے راہن کی طرف سے مرتہن کی اجازت کے بغیر دوسرا رہن فضولی کے حکم میں ہے اور مرتہن کی اجازت پر موقوف ہے۔
س1691: ایک شخص نے اپنی زمین دوسرے کے پاس رہن رکھی تاکہ اس سے کچھ رقم قرض لے سکے لیکن مرتہن نے یہ عذر پیش کیا کہ مذکورہ رقم اس کے پاس نہیں ہے اور اس کے بجائے دس عدد بھیڑیں زمین کے مالک کو دے دیں اور اب دونوں چاہتے ہیں کہ رہن آزاد ہوجائے اور راہن اور مرتہن دونوں اپنا اپنا مال لے لیں لیکن مرتہن اس بات پر مصر ہے کہ وہی دس بھیڑیں اسے واپس دی جائیں کیا شرعاً اسے ایسا کرنے کا حق ہے؟
ج: رہن کے لئے ضروری ہے کہ ایسے قرضے کے ج: رہن کے لئے ضروری ہے کہ ایسے قرضے کے مقابلے میں ہو جو ثابت ہوچکا ہو نہ ایسا قرض جو بعد میں ہوگا اور وجود میں آئے گا لہذا مذکورہ سوال کی روشنی میں زمین اور بھیڑیں ان کے مالکوں کو واپس کرنا ضروری ہے۔میں ہو جو ثابت ہوچکا ہو نہ ایسا قرض جو بعد میں ہوگا اور وجود میں آئے گا مذکورہ سوال کی روشنی میں زمین اور بھیڑیں انکے مالکوں کو واپس کرنا ضروری ہیں۔
- شراکت
شراکت
س1692: میں نے ایک کمپنی کے مالک کو سرمایہ دیا اور یوں اس کے ساتھ سرمایہ میں اس طرح شریک ہوگیاکہ وہ میرے سرمایے کوکام میں لانے میں میری طرف سے وکیل ہوگا اورہر ماہ حصص کے منافع سے مجھے پانچ ہزار روپے دے گا۔ ایک سال گزرنے کے بعد میں نے اس مال اور منافع کے بدلے میں اس سے زمین کا ایک ٹکڑا لے لیا مذکورہ زمین کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج: مفروضہ صورت میں کہ جہاں شراکت سرمایہ لگانے میں ہے اور کمپنی کے مالک کو اسے کام میں لانے کی اجازت ہے اگر نفع شرعاً حلال طریقے سے حاصل ہوا ہو تو اس کے لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س1693: کچھ لوگوں نے مشترکہ طور پر ایک چیز کو اس شرط پر خریدا کہ وہ اپنے درمیان قرعہ ڈالیں گے اور جس کے نام قرعہ نکلے گا یہ چیز اس کی ہوگی اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: اگر قرعہ ڈالنے میں مدنظریہ ہو کہ جس کے نام قرعہ نکلے گا دیگر شرکاء اپنی مرضی کے ساتھ اپنا اپنا حصہ اسے ہبہ کردیں گے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگرمقصود یہ ہو کہ مالِ مشترک قرعہ کے ذریعہ اس شخص کی ملکیت ہوجائے گا کہ جس کے نام قرعہ نکلے گا تو یہ شرعی طور پر صحیح نہیں ہے اور یہی حکم ہے اگر ان کا اصلی مقصود ہار جیت ہو۔
س1694: دو افراد نے مل کر زمین خریدی اور وہ اس میں بیس سال سے مشترکہ طور پر کاشت کاری کررہے ہیں اب ان میں سے ایک نے اپنا حصہ کسی دوسرے کو فروخت کردیا ہے۔ کیا اسے ایسا کرنے کا حق ہے یا صرف اس کے شریک کو اس کا حصہ خریدنے کا حق ہے ؟ اور اگر وہ اپنے شریک کو زمین بیچنے سے انکار کرے تو کیا اس کا شریک اعتراض کا حق رکھتاہے؟
ج: ایک شریک کو حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے شریک کو مجبور کرے کہ وہ اپنا حصہ اسے فروخت کرے اور اگر شریک اپنا حصہ کسی دوسرے کو فروخت کردے تو بھی دوسرے شریک کو اعتراض کا حق نہیں ہے لیکن معاملہ بیع انجام پانے کے بعد اگر اس مورد میں حق شفعہ کے تمام شرائط موجود ہوں تو وہ شفعہ کر سکتاہے۔
س 1695: صنعتی یا تجارتی کمپنیوں یا بعض بینکوں کے حصص کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے ؟ ہوتاایسے ہے کہ ایک شخص کچھ حصص میں سے ایک خریدتا ہے اور پھر انہیں بازار حصص میں خرید و فروخت کے لئے پیش کردیتاہے، در نتیجہ اس کی قیمت ، قیمت خرید سے کم یا زیادہ ہوجاتی ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ خودحصص کی خرید و فروخت ہوتی ہے نہ سرمایہ کی۔ اسی طرح اگر مذکورہ کمپنیوں میں سودی کارو بار ہویا اس سلسلے میں ہمیں شک ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: اگر ان کمپنیوں ، کارخانوں اور بینکوں کے حصص کی مالیت خود حصص کی قدر و قیمت کی بنیاد پر اور ان کی قدر و قیمت کا تعین ایسے شخص کے ذریعے انجام پایا ہو جو یہ کام کرنے کا مجاز ہو تو ان کے خریدنے اور بیچنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اسی طرح اگر ان حصص کی مالیت خود کارخانے، کمپنی اور بینک کی قیمت یا ان کے سرمایہ کی بنیاد پر ہو، چونکہ حصص میں سے ہر ایک اس قیمت کی ایک مقدار (جزء) کو نمایاں کرتا ہے لہذا ان حصص کی خرید و فروخت میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ حصص کے ہر حصے کی مالیت معلوم اور معین ہو۔ نیز اس کمپنی، کارخانے یا بینک کا کاروبار شرعی طور پر حلال ہو۔
س1696: ہم تین آدمی مرغیوں کے ایک ذبح خانہ اور اس کے تحت آنے والی املاک میں باہمی طور پر شریک ہیں اورہم آہنگی نہ ہونے کی بناپر ہم نے شراکت ختم کرنے اور ایک دوسرے سے الگ ہونے کا ارادہ کرلیا چنانچہ مذکورہ ذبح خانہ اور اس کی املاک کو ہم نے شرکاء کے درمیان نیلامی کے لئے پیش کیا اور ہم میں سے ایک اسے خریدنے میں کامیاب ہوگیا لیکن اس و قت سے لے کر آج تک اس نے ہمیں کچھ بھی نہیں دیا ہے کیا اس معاملہ نے اپنا اعتبار کھودیا ہے ؟
ج: صرف نیلامی کا اعلان کر نا اور کسی شریک یا دوسرے کی جانب سے زیادہ قیمت کی پیشکش کرنا معاملہ ہو جانے اور انتقال ملکیت کےلئے کافی نہیں ہے اور جب تک حصص کی فروخت صحیح اور شرعی طور پر انجام نہ پائے شراکت باقی ہے لیکن اگر بیع صحیح صورت میں واقع ہو تو خریدار کے قیمت کی ادائیگی میں تاخیر کرنے سے معاملہ باطل نہیں ہوگا۔
س 1697: ایک کمپنی کی بنیاد ڈالنے اور رجسٹریشن کرانے کے بعد میں نے اپنا حصہ دوسرے شرکاء کی رضامندی سے ایک اور شخص کو فروخت کردیا اور خریدار نے اس کی قیمت چیک کی صورت میں مجھے ادا کردی لیکن (اکاؤنٹ میں رقم نہ ہونے کی وجہ سے ) چیک کیش نہیں ہوئے ۔میں خریدار کے پاس گیا تو اس نے وہ چیک مجھ سے لے لئے اور کمپنی کا میرا حصہ مجھے واپس کردیا لیکن اس کی قانونی دستاویزاسی کے نام رہی۔پھر مجھے معلوم ہوا کہ اس نے وہ حصہ کسی دوسرے کو فروخت کردیا ہے ،کیا اس کا یہ معاملہ صحیح ہے یا مجھے اپنے حصے کے مطالبے کا حق ہے؟
ج: اگر آپ کے ساتھ کئے گئے معاملے کے ختم ہونے کے بعد اس نے کسی دوسرے کو بیچنے کا اقدام کیا ہے تو یہ بیع ( خرید و فروخت ) فضولی ہے کہ جس کا صحیح ہونا آپ کی اجازت پر منحصر ہے لیکن اگر معاملہ فسخ ہونے سے پہلے اس نے وہ حصہ کسی دوسرے شخص کو فروخت کردیا ہو تووہ معاملہ صحیح ہے۔
س1698: دو بھائیوں کو اپنے باپ کی میراث سے ایک مکان ملا ہے ۔ان میں سے ایک اس مکان کو تقسیم یا فروخت کرکے دوسرے بھائی سے الگ ہونا چاہتا ہے لیکن دوسرا بھائی اس کی کوئی بات قبول نہیں کرتا۔ نہ وہ مکان کی تقسیم پر راضی ہے نہ بھائی کا حصہ خریدنے پر اور نہ ہی اپنا حصہ اسے بیچنے پر ۔ در نتیجہ پہلے بھائی نے معاملہ عدالت میں پیش کیا ۔ عدالت نے بھی مکان کے معاملہ کو اپنے ماہر کی رپورٹ اور تحقیق سے منسلک کردیا ۔عدالت کے ماہر نے رپورٹ پیش کی کہ گھر نا قابل تقسیم ہے اور شراکت ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ یا دو بھائیوں میں سے ایک اپنا حصہ دوسرے کو فروخت کرے یا مکان کسی تیسرے شخص کو فروخت کر کے اس کی قیمت دونوں میں تقسیم کردی جائے ۔ عدالت نے اپنے ماہر کی بات قبول کر لی اور مکان کو نیلامی کے لئے پیش کردیا اور مکان بیچنے کے بعد اس کی رقم دونوں کے حوالے کردی۔ کیا یہ بیع صحیح اور معتبر ہے ؟ اور ان میں سے ہر ایک اپنا حصہ مکان کی قیمت سے وصول کرسکتا ہے؟
ج: اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س 1699:کمپنی کے ایک شریک نے کمپنی کے پیسے سے ایک ملک خریدکر اپنی بیوی کے نام کردی۔ کیا یہ خریدی ہوئی ملک تمام شرکاء سے متعلق ہے اور زمین بھی ان سب کی ہے ؟ اور کیا شرعی طور پر اس شخص کی بیوی اس بات کی پابند ہے کہ وہ مذکورہ ملک کو تمام شرکاء کے نام کردے اگرچہ اسکا شوہر اسے ایسا کرنے کی اجازت نہ دے؟
ج: اگر اس شخص نے مذکورہ ملک کو اپنے لئے یا اپنی بیوی کے لئے خریدا ہو اور اس کی قیمت کلی در ذمہ کی صورت میں ہو اور پھر اس نے کمپنی کے اموال سے اس کی قیمت ادا کی ہو تو وہ ملک خود اس کی یا اس کی بیوی کی ہے اوروہ صرف دیگرشرکاء کے اموال کی مقدار میں ان کا مقروض ہے لیکن اگر اس ملک کو کمپنی کے عین مال سے خریدا ہو تو دوسرے شرکاء کے سہم کی نسبت معاملہ فضولی ہے کہ جس کا صحیح ہونا ان کی اجازت پر منحصر ہے۔
س 1700: کیا جائز ہے کہ بعض ورثاء یا ان کے وکیل دوسرے ورثاء کی رضامندی کے بغیر ملک مشاع میں کوئی تصرف یا معاملہ انجام دیں؟
ج: جائز نہیں ہے کہ شرکاء میں سے کوئی بھی مشترکہ ملکیت میں تصرف کرے مگر یہ کہ اس میں دوسرے شرکاء کا اذن یا اجازت شامل ہو اور اسی طرح مشترکہ ملک میں کوئی معاملہ بھی صحیح نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں تمام شرکاء کی اجازت یا اذن ہو۔
س1701: اگر بعض شرکاء ملک مشاع کو فروخت کردیں یا کوئی دوسرا شخص اسے فروخت کردے اور شرکاء میں سے بعض اس معاملہ کی اجازت دے دیں؟ توکیا دوسرے شرکاء کی رضامندی کے بغیر یہ معاملہ ان سب کی طرف سے صحیح اور معتبر ہے یا یہ کہ ان کی طرف سے وہ اسی وقت صحیح ہوگا جب ان سب کی رضامندی اور موافقت حاصل ہوجائے؟ اور اگر تمام شرکاء کی رضامندی شرط ہو تو کیا اس میں کوئی فرق ہے کہ اس ملک میں شراکت ایک تجارتی کمپنی کی صورت میں ہو یا غیر تجارتی کمپنی کی صورت میں اس طرح کہ تمام شرکاء کی رضامندی دوسری صورت میں شرط ہو اور پہلی میں شرط نہ ہو۔
ج: یہ معاملہ فقط اس شخص کے اپنے حصے کی نسبت صحیح ہے کہ جو اس نے فروخت کیا ہے اور معاملہ کا دوسرے شرکاء کے حصہ میں صحیح ہونا ان کی اجازت پر منحصر ہے اور شراکت چاہے جیسی بھی ہو اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔
س 1702: ایک شخص نے بینک سے اس بنیاد پر قرضہ لیا کہ وہ اس کے ساتھ مکان کی تعمیر میں شریک ہوگا۔ مکان تعمیر کرنے کے بعد حادثات کے سلسلے میں اسے بینک کے پاس بیمہ کردیا ۔ اب مکان کا ایک حصہ بارش یا کنویں کا پانی آجانے کی وجہ سے خراب ہوگیا ہے اور اس کی تعمیر کیلئے رقم کی ضرورت ہے لیکن بینک اس سلسلے میں کوئی ذمہ داری قبول نہیں کررہا اور بیمہ کمپنی بھی اس نقصان کو اپنی بیمہ پالیسی کے دائرے سے باہر سمجھتی ہے، اس سلسلے میں کون اس چیز کا ذمہ دار اور ضامن ہے ؟
ج: بیمہ کمپنی طے شدہ اور قوانین سے باہر کے نقصانات کی ضامن نہیں ہے ۔ عمارت کی تعمیرکے اخراجات اور اس کے وہ نقصانات جنہیں ادا کرنے کا کوئی دوسرا ضامن نہیں بنا وہ مالک کے ذمہ ہیں اور اگر عمارت میں بینک کی شراکت مدنی ہو تو وہ اپنے حصے کی مقدار میں اخراجات ادا کرے مگر یہ کہ وہ نقصان کسی خاص شخص نے کیا ہو۔
س 1703: تین آدمیوں نے مشترکہ طور پر چند تجارتی دوکانیں خریدیں تا کہ باہمی طور پر ان میں کارو بار کریں لیکن ان میں سے ایک شریک ان دوکانوں سے استفادہ کرنے حتی کہ انہیں کرایہ پر دینے اور بیچنے پر بھی دوسروں کے ساتھ موافق نہیں ہے۔
سوال یہ ہے :
١ ۔ کیا جائز ہے ایک شریک دوسرے دو شرکاء کی اجازت کے بغیر اپنا حصہ فروخت کردے یا کرایہ پر دیدے؟
٢۔کیا جائز ہے کہ وہ دوسرے دو شرکاء کی اجازت کے بغیر ان دوکانوں میں کاروبارشروع کردے؟
٣ ۔ کیا جائزہے کہ ان دوکانوں میں سے ایک کو خود رکھ لے اور دیگر دوکانیں دوسرے دو شرکاء کو دیدے۔ج: ١ ۔ شرکاء میں سے ہر ایک اپنے مشترکہ حصے(مشاع) کو بیچ سکتاہے اور اس میں دوسروں کی اجازت ضروری نہیں ہے۔
٢۔شرکاء میں سے کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ دوسروں کی رضامندی کے بغیر مشترکہ مال میں تصرف کرے۔
٣۔ شرکاء میں سے کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ یک طرفہ طور پر دوسروں کی موافقت کے بغیر مشترکہ مال سے اپنا حصہ جدا کرلے۔س 1704: ایک علاقہ کے بعض لوگ ایسی زمین میں امام بارگاہ بنانا چاہتے ہیں جس میں درخت ہیں لیکن ان میں سے بعض لوگ جو مذکورہ زمین میں حصہ دار ہیں اس کام پر راضی نہیں ہیں لہٰذااس میں امام بارگاہ بنانے کا کیا حکم ہے ؟ اور اگر یہ احتمال ہو کہ مذکورہ زمین انفال میں سے یا شہر کے عمومی مقامات میں سے ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: اگر وہ زمین علاقہ کے لوگوں کی مشترکہ (ملک مشاع)ہے تو اس میں تصرف کے لئے تمام شرکاء کی رضامندی ضروری ہے لیکن اگر انفال میں سے ہو تو اس کا اختیار حکومت اسلامی کے ہاتھ میں ہے اور حکومت کی اجازت کے بغیر اس میں تصرف جائز نہیں ہے اور یہی حکم ہے جب وہ جگہ شہر کے عمومی مقامات میں سے ہو۔
س1705: اگر ورثاء میں سے کوئی وارث مشترکہ باغ میں سے اپنا حصہ فروخت کرنے پر راضی نہ ہوتو کیا جائزہے کہ دوسرے شرکاء یا حکومتی اداروں میں سے کوئی ادارہ اسے اس کام پر مجبور کرے؟
ج: اگر اپنے اپنے حصوں کی تقسیم اور ان کا علیحدہ کرنا ممکن ہو تو شرکاء یا دوسرے افراد کے لئے کسی شریک کو اس کا حصہ بیچنے پر مجبور کرنے کا حق نہیں ہے اور اس سلسلے میں ہر شریک کو فقط یہ حق ہے کہ وہ دوسروں سے اپنا حصہ الگ کرنے کا مطالبہ کرے مگر یہ کہ حکومت اسلامی کی طرف سے درختوں والے باغ کی تقسیم اور حصوں کو الگ کرنے کے سلسلے میں خاص قوانین و ضوابط ہوں تواس صورت میں ان قوانین کی پابندی واجب ہے لیکن اگر مشترکہ جائیداد تقسیم اور جدا کرنے کے قابل نہ ہو تو اس صورت میں شرکا ء میں سے ہرایک حاکم شرع کے پاس جاسکتا ہے تا کہ وہ دوسرے شریک کو اس کا حصہ خریدنے یا اسے اپنا حصہ بیچنے پر مجبور کرسکے۔
س 1706: چار بھائی اپنے مشترکہ اموال کے ساتھ اکٹھے زندگی بسر کر رہے ہیں، چند سال بعد ان میں سے دو بھائی شادی کرلیتے ہیں اور یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں میں سے ایک ایک کی کفالت کریں گے اور ان کی شادی کے اسباب فراہم کریں گے ۔ لیکن انہوں نے اپنے عہد پر عمل نہیں کیا ، در نتیجہ دونوں چھوٹے بھائیوں نے ان سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا اور مشترکہ مال کی تقسیم کا مطالبہ کردیا۔ شرعی لحاظ سے ان کا مشترکہ مال ان کے مابین کس طرح تقسیم ہوگا؟
ج: اگر کسی نے مشترکہ مال میں سے اپنے اوپر خرچ کیا ہے تو وہ اس مقدار میں دوسرے ان شرکا کا مقروض ہے کہ جنہوں نے مشترکہ مال سے اپنے حصے کے بدلے اس مقدار کے برابر اپنے اوپر خرچ نہیں کیا ۔ در نتیجہ انہیں یہ مطالبہ کرنے کا حق ہے کہ وہ اپنے مال سے اس کا عوض ادا کرے اور باقیماندہ مشترکہ مال اپنے درمیان مساوی طور پر تقسیم کریں یا پہلے جن شرکاء نے مشترکہ مال سے استفادہ نہیں کیا یا دوسروں سے کم استفادہ کیا ہے تو انہیں اتنی مقدار دی جائے کہ مشترکہ مال سے استفادہ کرنے میں سب شرکا برابر ہوجائیں اور پھر باقیماندہ مال کو اپنے درمیان مساوی طور پر تقسیم کرلیں۔
س1707: چائے کی کمپنی شہروں میں چائے بیچنے والوں کو اپنی کمپنی کے ساتھ شراکت یا اس کا ممبر بننے پر مجبور کرتی ہے کیا مذکورہ کمپنی کے لئے چائے بیچنے والوں کو اپنی شراکت پر مجبورکرنا جائز ہے؟ اور کیا یہ جبری شراکت صحیح ہے؟
ج: جس وقت چائے کی کمپنی شہروں میں چائے بیچنے والوں کو سہولیات مہیا کرتی ہے اور تقسیم کرنے کے لئے چائے ان کی تحویل میں دیتی ہے اورانہیں اس طرح کی خدمات فراہم کرتی ہے اگر ان کے ساتھ شرط لگاتی ہے کہ وہ کمپنی میں شراکت اختیار کریں اور فقط اسی کمپنی کے ساتھ معاملہ کریں تو یہ شرط صحیح ہے اور مذکورہ شراکت میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے۔
س1708: کیا کسی کمپنی کے مینیجر کے لئے کمپنی کی آمدنی کو شیئر ہولڈرز کی اجازت کے بغیر کار خیر میں خرچ کرنا جائز ہے؟
ج: شرکاء میں سے ہر ایک مشترکہ مال کے منافع سے اپنے حصہ کا مالک و مختار ہے اور اس کے خرچ کرنے کا اختیار خود اس کے ہاتھ میں ہے اوراگر کوئی دوسرا شخص اس کی طرف سے اجازت اور وکالت لئے بغیر اسے خرچ کرے تو وہ ضامن ہے اگر چہ اس نے کار خیر میں ہی کیوں نہ خرچ کیا ہو۔
س 1709: تین آدمی ایک تجارتی جگہ میں با ہم شریک ہیں لیکن پہلے شریک نے آدھا سرمایہ اور دوسرے دوشرکاء میں سے ہر ایک نے اس کا ایک چوتھائی سرمایہ دیا ہے اور باہمی طور پر یہ طے کیا ہے کہ اس سے حاصل شدہ منافع اور آمدنی ان کے مابین مساوی طور پر تقسیم ہوگی۔ لیکن دوسرا اور تیسرا شریک اس تجارتی جگہ میں مسلسل کام کرتے ہیں جبکہ پہلا شریک بہت کم کام کرتاہے کیا مذکورہ شرط کے ساتھ یہ شراکت صحیح ہے؟
ج: شراکت میں یہ شرط نہیں ہے کہ سرمایہ میں شرکاء میں سے ہرایک کاحصہ مساوی ہو اور شرکاء کے درمیان منافع کے مساوی طورپرتقسیم کرنے کی شرط میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے ۔ اگر چہ سرمایہ میں ان کے حصے برابر نہ بھی ہوں۔ لیکن اس جگہ میں کام کرنے کے سلسلے میں اگر عقد شراکت میں کوئی چیز ذکر نہ ہوئی ہو تو ان میں سے ہر ایک اپنے کام کی مقدار کے عوض اجرة المثل کا مستحق ہوگا۔
س 1710: ایسی کمپنی جو بعض افراد کے خصوصی سرمائے اور مختلف لوگوں کے عمومی سرمائے سے وجود میں آئی ہے اور شیئرز ہولڈرزکے نمائندے اس کے امور کی نگرانی کرتے ہیں کیا اس کمپنی کے مینیجر اور دیگر ملازمین کے لئے اس کے ذرائع حمل و نقل کو متعارف حد تک اپنے ذاتی کاموں کے لئے استعمال کرنا جائز ہے؟
ج: کمپنی کے حمل و نقل اوردیگر وسائل سے ذاتی کاموں میں استفادہ کرنا اسی صورت میں جائز ہے جب شیئر ہولڈرز یا ان کے نمائندے اس کی اجازت دیں۔
س 1711: کمپنی کے قوانین و ضوابط کے مطابق اختلافات کو حل کرنے کے لئے فیصلہ کمیٹی کی تشکیل ضروری ہے لیکن مذکورہ کمیٹی جب تک ممبران کی طرف سے تشکیل نہ دی جائے اپنے فرائض کو انجام نہیں دے سکتی اور اس وقت چونکہ حصص کے مالکان اور شرکاء میں سے 51 فیصد نے اپنے حقوق سے صرف نظر کر لیا ہے اس لئے وہ اس کمیٹی کو تشکیل نہیں دے رہے ۔کیا جنہوں نے صرف نظر کر لیا ہے ان پر واجب ہے کہ وہ ان حصص کے مالکان کے حقوق کی حفاظت کے لئے کہ جنہوں نے اپنے حقوق سے صرف نظر نہیں کیا اس کمیٹی کے تشکیل دینے میں حصہ ڈالیں۔
ج: اگر کمپنی کے ممبران نے کمپنی کے قواعد و ضوابط کے مطابق یہ عہد کیا ہو کہ وہ ضروری مواقع میں فیصلہ کمیٹی کی تشکیل میں حصہ لیں گے تو ان پر واجب ہے کہ وہ اپنے عہد پر عمل کریں اور بعض ممبران کا اپنے حق سے صرف نظر کرلینا اس بات کا جوازفراہم نہیں کرتا کہ وہ فیصلہ کمیٹی کی تشکیل کے سلسلے میں اپنے عہد کو پورا نہ کریں۔
س 1712: دو آدمی مشترکہ سرمایہ کے ساتھ ایسی جگہ تجارت کرتے ہیں جس کی پگڑی میں بھی وہ شریک ہیں اور سال کے آخر میں نفع و نقصان کا حساب کرکے اپنے درمیان تقسیم کرتے ہیں ۔حال ہی میں ان میں سے ایک نے اپنا روزانہ کا کام چھوڑ کر اپنا سرمایہ واپس لے لیا ہے جبکہ دوسرا شریک بدستور اس جگہ معاملات انجام دے رہاہے اور اس وقت وہ پہلاشریک مدعی ہے کہ وہ خاص معاملات جو اس کے شریک نے اپنے لئے انجام دیئے ہیں ان میں وہ بھی شریک ہے اس مسئلہ کاکیا حکم ہے ؟
ج: صرف کسی ملک یا تجارتی جگہ کی پگڑی میں شراکت تجارت اور اس سے حاصل ہونے والے منافع میں شراکت کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ اس کا معیار تجارتی سرمایہ میں اشتراک ہے۔ لہذا جب دونوں شرکاء نے مشترکہ سرمایہ کو صحیح طور پر تقسیم کرلیا ہے اور ان میں سے ایک نے اپنا حصہ واپس لے لیاہے اور دوسرا شریک اس جگہ تجارت کررہاہے تو جس شخص نے اپنا سرمایہ واپس لے لیا ہے اس کا دوسرے شخص کی تجارت میں کوئی حق نہیں ہے بلکہ وہ صرف اس جگہ سے اپنے حصے کے کرائے یا اجرة المثل کا مطالبہ کرسکتاہے۔ لیکن اگر اس کی تجارت کو وہاں جاری رکھنا مشترکہ سرمایہ کی تقسیم سے پہلے ہو تو دوسرا شریک اپنے سرمایہ کے تناسب سے پہلے شریک کی تجارت میں حق رکھتاہے۔
س 1713: اس بات کے پیش نظر کہ ممکن ہے میری بہن اپنے مال کو غلط اور منحرف افکار کی نشر و اشاعت میں خرچ کرے ، کیا مجھ پر واجب ہے کہ میں اسے اس کے مال تک رسائی حاصل نہ کرنے دوں اور کمپنی سے اس کا حصہ الگ کرنے اور اسے ادا کرنے میں رکاوٹ کھڑی کروں؟
ج: شرکاء میں سے کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اگر دوسرا شریک الگ ہونا چاہے تو وہ اس کے لئے رکاوٹ پیدا کرے اور اس خوف کے پیش نظر کہ وہ اپنے مال کو غلط اور گمراہی کے راستوں میں خرچ کرے گا اس کے مال کو روک نہیں سکتا بلکہ واجب ہے کہ اس سلسلے میں اس کا مطالبہ پورا کیا جائے، اگر چہ جس طرح خود اس پر اپنے مال کو حرام کاموں میں استعمال کرنا حرام ہے اسی طرح دوسروں پر بھی واجب ہے کہ اگر وہ اپنے مال کو غلط راستے میں استعمال کرے تو وہ اسے نہی عن المنکر کریں اور اسے ایسا کرنے سے منع کریں۔
س ۱۷۱۴: یہ سوال چونکہ ایران کے ساتھ مختص تھا اس لیے اردو ترجمہ میں اسے حذف کردیا گیا ہے۔
- ہبہ
ہبہ
سوال 1715:کیا نابالغ یتیم کی طرف سے ہدیہ کردہ مال میں تصرف کرنا شرعا جائز ہے؟
جواب: اس کے شرعی ولی کی اجازت پر موقوف ہے۔
سوال 1716: دو بھائی زمین کے ایک قطعے میں برابر شریک ہیں اور ان میں سے کسی ایک نے اپنا حصہ بڑے بھائی کے بیٹے کو ہبہ معوضہ کے طور پر بخشا اور تحویل میں دے دیا ؛ کیا ہبہ کرنے والے کے بچے اپنے باپ کی وفات کے بعد زمین کے مذکورہ حصے میں ارث کا دعوی کرسکتے ہیں؟
جواب: اگر ثابت ہوجائے کہ مرنے والے بھائی نے اپنی حیات میں اس زمین میں سے اپنا حصہ اپنے بھتیجے کو بخشا اور تحویل میں دے کر اس کے اختیار میں دے دیا ہے تو اس کی موت کے بعد اس کے ورثاء اس میں کوئی حق نہیں رکھتے ہیں۔
سوال 1717: اگر کوئی شخص اپنے باپ کی زمین پر اس کے لئے کوئی گھر بنائے اور اس کی حیات میں ہی اس کی اجازت سے اپنے لئے ایک منزل تعمیر کرے؛ اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ باپ کی وفات کے کئی سال بعد وہ شخص بھی مرجائے اور ہبہ یا اس میں تصرف کی کیفیت پر دلیل کے طور کوئی سند یا وصیت نامہ موجود نہ ہو؛ کیا دوسری منزل اس کی ملکیت ہوگی اور مرنے کے بعد اس کے ورثاء کی ملکیت میں منتقل ہوجائے گی؟
جواب: اگر بیٹے نے اپنے تصرف میں موجود دوسری منزل بنانے کے اخراجات ادا کئے ہوں اور باپ کی حیات میں کسی تنازع کے بغیر اس کے اختیار میں رہی ہو تو شرعی طور پر اس کی ملکیت کے حکم میں ہوگی اور وفات کے بعد بھی اس کا ترکہ شمار کیا جائے گا اور ورثاء کا ہوگا۔
سوال 1718: جب میں گیارہ سال کا تھا تو میرے باپ نے رسمی طور پر ایک گھر کو میرے نام پر کردیا؛ ایک زمین اور ایک مکان کا آدھا حصہ میرے بھائی کے نام اور دوسرا آدھا حصہ میری ماں کے نام کردیا۔ میرے باپ کی وفات کے بعد دوسرے ورثاء نے دعوی کیا کہ جو مکان والد نے میرے نام کردیا ہے وہ شرعا میرا نہیں ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ باپ نے قبضے سے بچانے کے لئے گھر میرے نام پر کردیا ہے حالانکہ جن املاک کو میرے بھائی اور ماں کے نام پر کردیا ہے ان پر ان کی ملکیت کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ میرے باپ نے کوئی وصیت نہیں کی اور اس بات پر کوئی ثبوت بھی نہیں ہے؛ اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: باپ نے اپنی حیات میں جن املاک کو بعض ورثاء کو ہبہ کرکے تحویل دیا ہو اور اس کے لئے ثبوت کے طور پر رسمی سند بھی اس کے نام پر کردی ہو تو شرعا اس کی ملکیت ہوگی اور دوسرے ورثاء اس کے ساتھ تنازع کا حق نہیں رکھتے، مگر یہ کہ معتبر طریقے سے ثابت کریں کہ ان کے باپ نے املاک کو اسے نہیں بخشا ہے اور رسمی سند (حقیقی نہ ہو بلکہ صرف) دفتری ہو۔
سوال 1719: جب میرا شوہر گھر کی تعمیر میں مصروف تھا تو میں بھی اس کی مدد کرتی تھی اور یہی تعمیراتی اخراجات میں کمی اور گھر کی تکمیل کا باعث بنی۔ اس نے خود کئی مرتبہ کہا کہ میں بھی گھر میں اس کے ساتھ شریک ہوں اور کام مکمل ہونے کے بعد اس کا ایک تہائی حصہ میرے نام پر کردے گا لیکن وہ اس کام کے انجام سے پہلے فوت ہوگیا اور میرا دعوی ثابت کرنے کے لئے اس وقت کوئی سند اور وصیت نامہ میرے پاس نہیں ہے؛ اس مسئلے کا کیا حکم ہے؟
جواب: گھر میں شریک کرنے کے فقط وعدے پر اس کی تعمیر میں صرف مدد کرنا ملکیت میں شراکت کا باعث نہیں ہےاس بنا پر جب تک معتبر طریقے سے یہ ثابت نہ ہوجائے کہ آپ کے شوہر نے اپنی حیات میں گھر کا ایک حصہ آپ کو بخش دیا ہے ،اپنے ارث کے علاوہ آپ کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
سوال1720: میرے شوہر نے جب اس کی عقل صحیح و سالم تھی، بینک کے ذمہ دار شخص کو بلایا اور اپنے اکاونٹ میں موجود پیسے مجھے ہبہ کیا اور سند پر دستخط بھی کیا کہ پیسے نکالنے کا حق مجھے ہوگا جس پر ہسپتال کے سربراہ اور بینک کا مسئول گواہ بھی تھے۔ اسی بنیاد پر بینک نے مجھے چیک جاری کیا اور پورے مہینے میں، میں نے کچھ رقم نکال لی۔ ڈیڑھ مہینہ گزرنے کے بعد شوہر کو اس کے بیٹے نے بینک لے گیا جب کہ اس کا دماغ کام نہیں کررہا تھا۔ انہوں نے (شوہر سے) پوچھا کہ کیا یہ مال تیری بیوی کا ہے؟ اس نے سر کے ذریعے ہاں میں جواب دیا۔ دوبارہ سوال کیا کہ کیا یہ تیرے بچوں کا نہیں ہے؟ اسی طرح اثبات میں جواب دیا۔ کیا یہ مال میرا ہے یا میرے شوہر کے بچوں کا ہے؟
جواب: چونکہ ہبہ میں ملکیت حاصل ہونے کے لئے قبضہ شرط ہے اور فقط سند پر دستخط کرنا اور پیسے نکالنے کے لئے متعلقہ بینک سے چیک ملنا کافی نہیں ہے لہذا صرف دستخط اور چیک دریافت کرنا اس ہبہ کے صحیح ہونے کا باعث نہیں ہے لذا جو رقم شوہر کی ذہنی سلامتی کے دوران اس کی اجازت سے بینک سے نکالی ہے وہ آپ کا مال ہے اور بینک میں آپ کے شوہر کا باقی ماندہ مال اس کی وفات کے بعد ترکہ اور ورثاء کا ہوجائے گا اور اس اقرار کی کوئی حیثیت نہیں ہے جو اس نے بے شعوری کے عالم میں کیا ہے اور اگر اس میں کوئی قانون موجود ہے تو اس کی رعایت کی جائے گی۔
سوال 1721: ماں کی حیات میں بچے اس کے استعمال کے لئے جو اشیاء خریدتے ہیں کیا اس کے ذاتی اموال ہوں گے کہ اس کی وفات کے بعد ترکہ شمار کیا جائے؟
جواب: اگر بچوں نے مذکورہ اشیاء ماں کو بخش دیا اور اس کے اختیار میں رکھا ہو تو ماں کی ملکیت ہوگی اور اس کی وفات کے بعد ترکہ شمار ہو گا۔
سوال 1722: شوہر اپنی بیوی کے لئے طلائی زیورات خریدے تو کیا شوہر کا مال شمار ہوگا کہ وفات کے بعد اس کا ترکہ سمجھا جائے اس طرح ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے اور بیوی بھی اس سے اپنا حصہ لے لے یا بیوی کا مال شمار ہوگا؟
جواب: اگر جواہرات بیوی کے اختیار اور تصرف میں ہوں اس طرح کہ مالک کی حیثیت سے تصرف کا حق رکھتی ہو تو جواہرات کی ملکیت بیوی کو مل جائے گی مگر یہ کہ اس کے برخلاف ثابت ہوجائے۔
سوال1723: ازدواجی زندگی کے دوران میاں بیوی کو ملنے والے تحفے کیا شوہر کے ہوں گے یا بیوی کے یا دونوں کے؟
جواب: مذکورہ تحفے شوہر کے ہیں یا بیوی کے یا دونوں کے، تحفے مختلف ہوتے ہیں اسی وجہ سے مسئلہ بھی فرق کرتا ہے۔ جو تحفہ دونوں میں سے کسی کے لئے خصوصی طور پر ملا ہو تو اسی شخص کا ہوگا اور جو تحفہ دونوں کے لئے مشترک ملا ہو وہ دونوں میں مشترک ہوگا۔
سوال 1724: اگر مرد بیوی کو طلاق دے تو کیا بیوی شادی کے دوران ماں باپ کے گھر سے ساتھ لایے ہوے اموال (مثلا قالین، بیڈ، لباس وغیرہ) کا شوہر سے مطالبہ کرسکتی ہے؟
جواب: اگر ایسی چیزیں ہوں جو بیوی نے اپنے گھر والوں سے لی ہوں یا ذاتی ہوں جس کو اپنے لئے خریدا ہو یا ذاتی طور پر اس کے لئے ہبہ کیا گیا ہو تو اس کی ملکیت ہوگی اور اگر موجود ہو تو شوہر سے مطالبہ کرسکتی ہے لیکن ایسی اشیاء جو بیوی کے خاندان یا قبیلے والوں نے داماد کو ہدیہ کردیا ہو تو شوہر سے ان کا مطالبہ نہیں کرسکتی ہے بلکہ ایسے اموال پر ہدیہ کرنے والے کا اختیار ہوگا کہ اگر وہ ہدیہ باقی ہو اور شوہر اس کا رشتہ دار نہ ہوتو ہدیہ کرنے والا ہبہ کو فسخ کرکے واپس لے سکتا ہے۔
سوال 1725: میں نےاپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد سونا،زیورات اور ان چیزوں کو اس سے واپس لے لیا جو میں نے ازدواجی زندگی کے دوران اس کو دی تھیں؛ کیا اب میرے لئے ان میں تصرف کرنا جائز ہے؟
جواب: اگر ان چیزوں کو عاریہ کے طور پر بیوی کو دیا ہو تاکہ وہ استعمال کرے یا اس کو ہبہ کردیا ہو اور اسی حالت میں اب بھی اس کے پاس موجود ہوں اور وہ عورت اس کی رشتہ دار بھی نہ ہو تو ہبہ کو فسخ کرکے مال واپس لے سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں جائز ہے کہ مذکورہ چیزوں میں تصرف کرےجن کو اس سے واپس لیا ہے وگرنہ جائز نہیں ہے۔
سوال 1726: میرے باپ نے زمین کا ایک قطعہ مجھے بخش دیا اور رسمی طور پر اس کی سند بھی میرے نام کردیا لیکن ایک سال کے بعد پشیمان ہوا؛ کیا اس زمین میں تصرف کرنا میرے لئے جائز ہے؟
جواب: اگر زمین کو آپ نے تحویل میں لے کر قبضہ کرلیا اس کے بعد باپ ہبہ سے پیشمان ہوا اور رجوع کرے تو اس کا رجوع صحیح نہیں ہے اور شرعی طور زمین آپ کی ہے لیکن آپ کی طرف سے زمین کو قبضے میں لینے سے پہلے وہ پشیمان ہوجائے تو ہبہ سے منصرف ہونے کا حق رکھتا ہے اور اس کے بعد آپ زمین پر کوئی حق نہیں رکھتے اور فقط سند کا آپ کے نام پر اندراج ہونا ہبہ میں معتبر قبضہ ثابت ہونے کے لئے کافی نہیں ہے۔
سوال 1727: میں نے کسی شخص کو زمین بخش دی اور اس نے زمین کے ایک گوشے میں رہائشی گھر بنا لیا؛ کیا میرے لئے جائز ہے کہ مذکورہ زمین یا بخشے جانے والے حصے کی قیمت کا مطالبہ کروں؟ اور کیا جائز ہے کہ جس حصے میں عمارت تعمیر نہیں کی ہے اس کو واپس لے لوں؟
جواب: جب اس شخص نے آپ کی اجازت سے زمین پرقبضہ کیا اور عمارت تعمیر کرکے اس میں تصرف کیا تو اس کے بعد ہبہ کو فسخ کرنےاور زمین یا اس کی قیمت لینے کا آپ کو حق نہیں ہے اور زمین کی مساحت اتنی ہو کہ اس کے ایک حصے میں گھر بنانا محلے والوں کی نظر میں عرفا پوری زمین پر تصرف سمجھا جاتا ہو تو اس کا کچھ بھی حصہ واپس لینے کا آپ کو حق نہیں ہے۔
سوال 1728: کیا جائز ہے کہ کوئی شخص اپنے تمام اموال کو اپنی اولاد میں سے کسی ایک کے لئے ہبہ کرے اور دوسروں کو اس سے محروم کردے؟
جواب: اگر یہ کام فتنے اور بچوں کے درمیان اختلاف پیدا ہونے کا باعث بنے تو جائز نہیں ہے۔
سوال 1729: کسی شخص نے اپنے گھر کو ہبہ معوضہ کے طور پر رسمی سند کے ساتھ پانچ افراد کو ہبہ کردیا تاکہ اس کی زمین پر حسینیہ (عزاخانہ) تعمیر کریں اس شرط کے ساتھ کہ تعمیر کے بعد دس سال تک حبس رکھیں اور اس کے بعد اگر چاہیں تو وقف کریں اس کے نتیجے میں انہوں نے عوام کی مدد سے حسینیہ کی تعمیر شروع کی اور مذکورہ مدت گزرنے اور متولی اور نگران کی تعییناتی کے بعد انتظامات اور نگرانی اور وقف کی شرائط سے مربوط امور کا اختیار اپنے پاس رکھا اور اس سے متعلق سند کا بھی اہتمام کرلیا؛ کیا اس صورت میں جب محبوس حسینیہ کو وقف کرنے کا قصد رکھتے ہوں، نگران اور متولی کے انتخاب میں ان لوگوں کی رائے کی پیروی واجب ہے؟ اور کیا ان شرائط پر کاربند نہ رہنا شرعامشکل ہے(یعنی ان کی رعایت ضروری ہے)؟ اگر مذکورہ پانچ افراد حسینیہ کو وقف کرنے کی مخالفت کریں تو کیا حکم ہے؟
جواب: ان پر واجب ہے کہ ہبہ کرنے والے نے عقد ہبہ معوضہ کے ضمن میں جو شرائط رکھی ہیں ان پر عمل کریں اور اگر اس کی حفاظت یا وقف کی کیفیت کے بارے میں عائد شرائط کی مخالفت کریں تو ہبہ کرنے والا یا اس کے ورثاء ہبہ معوضہ کو فسخ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔لیکن جو شرائط ان پانچ افراد نے حفاظت اور اس کی نگرانی کے بارے میں رکھی ہیں اور اسی طرح وقف اور متولی و نگران کے بارے میں مقرر کرکے اندراج کی ہیں اگر ہبہ کرنے والے کے ساتھ عقد ہبہ میں ہماہنگی کے ساتھ یہ کام انجام دیا ہو اس طرح کہ اس کے تمام امور کو ان افراد کے حوالے کردیا ہو تو اس صورت میں ان کی پابندی اور عمل کرنا واجب ہے اور ان میں سے بعض حسینیہ کو وقف کرنے سے اجتناب کریں چنانچہ ہبہ کرنے والے کی رائے یہ ہو کہ وقف کے حوالے سے یہ لوگ مل کر وقف کے معاملے میں فیصلہ کریں تو باقی افراد وقف کرنے میں پہل اور اقدام نہیں کرسکتے ہیں۔
سوال 1730:کسی شخص نے اپنے گھر کا ایک تہائی حصہ اپنی بیوی کو بخش دیا ہے اور ایک سال کے بعد پورے گھر کو پندرہ سالوں کے لئے کرائے پر دے دیا اس کے بعد مرگیا؛ اس کی اولاد بھی نہیں ہے۔ کیا یہ ہبہ حالانکہ ہبہ کرنے کے بعد گھر کو کرائے پر دیا ہے، صحیح ہے اور اگر مقروض ہو تو کیا اس کو پورے گھر سے ادا کرنا ضروری ہے یا دو تہائی حصے سےاور اس کے بعد باقی حصے کو ارث کے قانون کے مطابق ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے گا؟ اور کیا قرض خواہوں پر کرائے کی مدت پوری ہونے تک صبر کرنا واجب ہے؟
جواب: اگر ہبہ کرنے والے نے جو حصہ اپنی بیوی کو بخش دیا ہے پورا گھر کرائے پر دینے سے پہلے اپنی بیوی کے قبضے میں دیا ہو اگرچہ پورے گھر کو تحویل میں دینے کے ضمن میں ہی کیوں نہ ہو، اور بیوی اس کی رشتہ دار ہو یا ہبہ معوضہ ہو تو اس حصے کا ہبہ صحیح اور نافذ العمل ہے اور اجارہ فقط باقی حصے کی نسبت صحیح ہے اس صورت کے علاوہ چونکہ پورا گھر اس کے بعد کرائے پر دیا گیا ہے لہذا ہبہ باطل ہےالبتہ کرائے پر دینا ہبہ سے پلٹنے کی نیت سے ہو تو فقط وہ اجارہ صحیح ہے کہ جو ہبہ کے بعد وقوع پذیر ہوا ہے۔ میت کا قرض بھی اس مال سے ادا کرنا ضروری ہے جس کا وفات کے وقت تک وہ مالک تھا اور جس چیز کو اس کی حیات میں ایک مدت کے لئے کرائے پر دیا گیا ہو اس مدت کے دوران اس کا فائدہ کرائے دار کو ملے گا اور وہ چیز ترکہ شمار کی جائے گی اور اس کا قرضہ اسی سے منہا کیا جائے گا اور باقی ماندہ حصہ ورثاء کی میراث ہے اور اجارے کی مدت پوری ہونے تک اس سے استفادہ نہیں کرسکتے ہیں۔
سوال 1731۔ کسی شخص نے وصیت نامے میں لکھا ہے کہ اس کے تمام غیر منقولہ اموال اولاد میں سے کسی ایک کے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ جب تک زندہ ہو ہر سال ان اموال کے بدلے میں چاول کی ایک خاص مقدار وہ (وصیت کرنے والے) اور اس کے گھر والوں کو دے۔ایک سال کے بعد تمام اموال اس کو بخش دیا؛چونکہ وصیت پہلے ہے لہذا کیا وصیت اب بھی معتبر ہے جس کے نتیجے میں ایک تہائی حصے میں صحیح اور اس کے مرنے کے بعد باقی ماندہ اموال ورثاء کو ارث میں ملیں گے؟ یا ہبہ وقوع پذیر ہونے کے بعد وصیت باطل ہوگی؟ (یاد رہے کہ مذکورہ اموال اس شخص کے قبضے میں ہیں جس کو ہبہ کیا گیا ہے)
جواب: اگر وصیت کے بعد ہبہ کیا جائے تو چونکہ ہبہ کرنے والے کی حیات میں ہی اس کی اجازت سے اس مال پر قبضہ اور تسلط قطعی اور یقینی ہوگیا تھا لہذا وصیت جوکہ ہبہ سے پہلے کی گئی ہے، باطل ہے کیونکہ ہبہ وصیت سے انحراف شمار ہوتا ہے نتیجے میں ہبہ کیا ہوا مال فرزند کا ہوگا اور دوسرے ورثاء اس میں کوئی حق نہیں رکھتے، اس صورت کے علاوہ جب تک وصیت کرنے والے کی طرف سے وصیت سے انحراف ثابت نہ ہوجائے وصیت کا اعتبار برقرار رہے گا۔
سوال 1732: جس وارث نے باپ سے ملنے والی ارث سے اپنا حصہ اپنے دو بھائیوں کو بخش دیا ہو کئی سال کے بعد کیا اس کو ان سے طلب کرسکتا ہے؟ اور اگر دونوں بھائی اس کے حصے کو واپس کرنے سے گریز کریں تو کیا حکم ہے؟
جواب: اگر قبضے میں لینے کی وجہ سے ہبہ ثابت ہونے کے بعد اس سے پلٹنا چاہے تو اس کا حق نہیں ہے لیکن اگر قبضہ مکمل ہونے سے پہلے پلٹے تو صحیح ہے اور کوئی اشکال نہیں ہے۔
سوال 1733: میرے ایک بھائی نے رضایت کے ساتھ ارث میں سے اپنا حصہ مجھے بخش دیا لیکن ایک عرصہ گزرنے کے بعد ارث کو ورثاء کے درمیان تقسیم کرنے سے پہلے ہبہ سے پلٹ گیا؛ اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: اگر ارث میں سے اپنا حصہ آپ کے حوالے کرنے سے پہلے ہبہ سے پلٹ جائے تو صحیح ہے اور آپ کو اس حصے میں کوئی حق نہیں ہے لیکن اگر اس حصے کو آپ نے قبضے میں لینے کے بعد ہبہ سے پلٹ جائے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور جو حصہ آپ کو بخش دیا ہے اس میں اس کو کوئی حق نہیں ہے۔
سوال 1734: ایک عورت نے اپنی زرعی زمین کسی شخص کو بخش دیا تاکہ اس کے مرنے کے بعد اس کی نیابت میں حج کا فریضہ ادا کرے اس گمان کے ساتھ کہ اس پر حج واجب ہوا ہے لیکن اس کے قبیلے والے اس کے ساتھ متفق نہیں ہیں اس کے بعد دوسری مرتبہ زمین کو اپنے بچوں کی اولاد میں سے کسی کو ہبہ کردیا اور دوسری مرتبہ ہبہ کرنے کے ایک ہفتے کے بعد مرگئی؛ پہلا ہبہ صحیح ہے یا دوسرا؟ پہلی مرتبہ جس کو ہبہ کیا گیا تھا حج کی ادائیگی کے بارے میں اس کا کیا وظیفہ ہے؟
جواب: اگر پہلا شخص ہبہ کرنے والے کا رشتہ دار ہو اور اس کی اجازت سے مذکورہ مال کو قبضے میں لیا ہو تو پہلا ہبہ صحیح اور نافذ العمل ہے اور اس عورت کی نیابت میں حج کرنا واجب ہے اور دوسرا ہبہ فضولی ہے اور پہلے جس شخص کو ہبہ کیا گیا ہے اس کی اجازت پر موقوف ہے لیکن اگروہ شخص اس عورت کے قبیلے سے تعلق نہیں رکھتا ہو یا مذکورہ مال کو قبضے میں نہیں لیا ہو تو دوسرا ہبہ صحیح ہے اور ایسا سمجھا جائے گا کہ پہلے ہبہ سے پلٹ گئی ہے جس کے نتیجے میں پہلا ہبہ باطل ہوگا لذا پہلے شخص کو زمین میں کوئی حق نہیں اور ہبہ کرنے والی عورت کی طرف سے حج انجام دینا بھی واجب نہیں ہے۔
سوال 1735: کیا حق ثابت ہونے سے پہلے ہبہ کرسکتے ہیں؟ اگرعورت مستقبل میں خود کو ملنے والے مالی حقوق (تنخواہ) کو عقد کے دوران اپنے شوہر کو بخش دے تو صحیح ہے؟
جواب: اس طرح کا ہبہ صحیح ہونے میں اشکال بلکہ منع ہے اس کے نتیجے میں اگر مستقبل میں عورت کے حقوق (تنخواہ) کا شوہر کو ہبہ کرنا صلح یا ثابت ہونے کے بعد ان کو ساقط کرنے کی طرف پلٹتا ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ورنہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔
سوال 1736: کافروں کو تحفہ دینے یا ان سے لینے کا کیا حکم ہے؟
ج: ذاتا اشکال نہیں رکھتا ہے۔
سوال 1737: کسی شخص نے اپنی حیات میں اپنے تمام اموال اپنے بچوں کی اولاد میں سے کسی کو بخش دیا تو کیا یہ ہبہ اس کے تمام اموال حتی مرنے کے بعد کفن اور دفن وغیرہ کے امور کی نسبت بھی نافذ العمل ہوگا؟
جواب: اگر ہبہ کرنے والے کی طرف سے ہبہ کرنے کے بعد اس کی حیات میں ہی مذکورہ اموال کو اس کی اجازت سے قبضے میں لیا ہو تو جتنے اموال قبضے میں لیا ہے ان میں ہبہ نافذ العمل ہوگا۔
سوال 1738: جو اموال جنگ میں زخمی ہونے والوں کو دئے جاتے ہیں ان کو تحفہ شمار کیا جائے گا؟
جواب: ہاں؛ مگر جو کسی کام کے بدلے بعض لوگوں کو ادا کیا جاتا ہے وہ اس کام کی اجرت شمار کی جائے گی۔
سوال 1739: اگر کسی شہید کے گھر والوں کو کوئی تحفہ دیا جائے تو ورثاء کا مال شمار ہوگا یا کفیل یا ان کے ولی کا؟
جواب: ہبہ کرنے والے کی نیت سے وابستہ ہے۔
سوال 1740: بعض کمپنیوں یا افراد کی طرف سے وکیلوں اور ایجنٹوں کو اشیاء کی خرید و فروخت یا صنعتی معاہدوں کے دوران تحفے دیئے جاتے ہیں اس احتمال کے ساتھ کہ تحفہ لینے والا تحفہ دینے والے کے فائدے میں کام کرے یا اس کے حق میں فیصلے کرے تو کیا ان تحفوں کو اس سے قبول کرنا شرعا جائز ہے؟
جواب: خرید و فروخت یا معاملے میں بننے والے ایجنٹ یا وکیل کو معاملے کے بدلے طرف مقابل سے کوئی ہدیہ نہیں لینا چاہئے۔
سوال 1741: جو ہدیہ کمپنیوں اور لوگوں کی طرف سے دیا جاتا ہےاس ہدیہ کے مقابلے میں ہو جو بیت المال سے ان کو دیئے جاتے ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟
جواب: اگر بیت المال سے ملنے والے تحفے کے بدلے میں دیا جائے تو بیت المال کو ہی دینا چاہئے۔
سوال 1742: اگر تحفہ وصول کرنے والے پر اس تحفے کا اثر پڑجائے اور غیر مناسب تعلقات یا امن و امان کے لحاظ سے مشکوک روابط کا باعث بنے تو کیا ایسا تحفہ لینا اور اس میں تصرف کرنا جائز ہے؟
جواب: ایسے تحفے وصول کرنا جائز نہیں بلکہ ان کو قبول کرنے سے اجتناب کرنا واجب ہے۔
سوال 1743: اگر احتمال ہو کہ تحفہ دینے کا مقصد تحفہ وصول کرنے والے کو تحفہ دینے والے کے حق میں تبلیغ کرنے پر تشویق اور ترغیب دینا ہے تو اس کو وصول کرنا جائز ہے؟
جواب: اگر مذکورہ تبلیغات شرعی اور قانونی اعتبار سے جائز ہوں تو کوئی اشکال نہیں اور ان تبلیغات کے بدلے تحفہ وصول کرنے میں کوئی منع نہیں ہے البتہ دفتری دائرہ کار میں ایسا کام متعلقہ قوانین و ضوابط کا تابع ہے۔
سوال 1744: اگر کسی کام کو انجام دینے کے لئے افسر کو تیار کرنے یا مخالفت سے باز رکھنے یا تغافل اور چشم پوشی کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے تحفہ دیا جائے تو تحفہ قبول کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: اس طرح کے تحفے قبول کرنے میں اشکال ہے بلکہ ممنوع ہے کلی طور پر اگر شریعت اور قانون کے مخالف ہدف تک رسائی یا قانونی افسر کو ایسے کام سے اتفاق کرنے پر مائل کرنے کے لئے جس سے اتفاق کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا ہو، تحفہ پیش کیا جائے تو اس تحفے کو وصول کرنا جائز نہیں بلکہ واجب ہے کہ اس کو قبول کرنے سے اجتناب کرے اور متعلقہ افسران پر واجب ہے ایسے کاموں کی روک تھام کریں۔
سوال 1745: کیا دادا کی طرف سے اپنی حیات میں اپنے تمام یا بعض اموال کو اپنے مرحوم بیٹے کی بیوی اور بچوں کو بخش دینا جائز ہے؟ کیا اس کی اپنی بیٹیاں اس کام میں اعتراض کرنے کا حق رکھتی ہیں؟
جواب: اس کو حق حاصل ہے کہ اپنی حیات میں جتنا چاہے اپنی اولاد کے بچوں یا بہو کو بخش دے اور اس کی بیٹیوں کو اس کام میں اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
سوال 1746: کسی شخص کی نہ اولاد ہے نہ بھائی نہ بہن اور نہ ماں باپ ہیں اور اپنے اموال کو اپنی بیوی یا اس کے قبیلے والوں کو ہبہ کرنا چاہتا ہے؛ کیا شرعا اس کے لئے یہ کام جائز ہے؟ کیا اس ہبہ کی مقدار مشخص اور معین ہے یا تمام اموال کو ہبہ کرسکتا ہے؟
جواب: مالک اپنی حیات میں اپنے تمام اموال یا کچھ مقدار کو اپنے ورثاء اور غیر ورثاء میں سے جس کو چاہے بخش سکتا ہے۔
سوال 1747: شہید فاونڈیشن کی طرف سے میرے شہید بیٹے کی برسی اور مجلس ترحیم کے لئے کچھ پیسے اور غذائی اجناس میرے حوالے کیا ہے؛ کیا ان اشیاء کو وصول کرنے کے اخروی اثرات ہیں؟ کیا یہ شہید کے ثواب اور اجر میں کمی کا باعث بنے گا ؟
جواب: شہداء کے خاندان کی طرف سے اس طرح کے امدادی سامان کو قبول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور شہید اور اس کے خاندان کے اجر و ثواب میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
سوال 1748: ہوٹل کے ملازمین اور چوکیداروں نے ایک مشترکہ فنڈ قائم کیا تاکہ ان کو انعام کے طور پر ملنے والی چیزوں کو اس میں جمع کریں اور آپس میں مساوی تقسیم کریں لیکن ان میں سے بعض افراد جو صدر یا نائب صدر کا عہدہ رکھتے ہیں، دوسروں سے زیادہ حصہ مانگتے ہیں یہ امر ہمیشہ سے فنڈ کے ممبران کے درمیان اختلافات کا باعث بنا ہوا ہے؛ اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: یہ مسئلہ اس شخص کے قصد سے وابستہ ہے جس نے مال کو انعام کے طور پر انہیں دیا ہے اس کے نتیجے میں جو انعام کسی مخصوص فرد کو دیا گیا ہے اس کا اپنا مال ہے اور جو سب کواجتماعی دیا گیا ہے ان کے درمیان مساوی تقسیم کرنا چاہئے۔
سوال 1749: جو چیز مثلا چھوٹے بچے کو عیدی کے طور پر تحفے میں ملتی ہے کیا بچے کی شمار کی جائے گی یا اس کے ماں باپ کی ہوگی؟
جواب: اگر باپ چھوٹے بچے کا ولی ہونے کے طور پر اس چیز کو قبضے میں لے تو بچے کی ہوگی۔
سوال 1750: کسی عورت کی دو بیٹیاں ہیں اور اپنی پراپرٹی کو جو کہ زرعی زمین کا ایک قطعہ ہے، بیٹیوں کی اولاد (یعنی بیٹیوں میں سےایک کے بیٹے) کو ہبہ کرنا چاہتی ہے اس کے نتیجے میں دوسری بیٹی ارث سے محروم ہوجائے گی کیا اس کا یہ ہبہ صحیح ہے یا دوسری بیٹی ماں کی وفات کے بعد زمین میں سے اپنے حصے کا مطالبہ کرسکتی ہے؟
جواب: اگر ماں نے اپنی حیات میں اپنے نواسے کو اپنی پراپرٹی بخشی اور تحویل میں دی ہو تو اس صورت میں اس کا مال شمار ہوگا اور کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے لیکن اگر وصیت کی ہو کہ اس کے بعد مذکورہ پراپرٹی نواسے کو دی جائے تو ایک تہائی کے برابر اس کی وصیت نافذ العمل ہوگی اور اضافی مقدار میں ورثاء کی اجازت سے وابستہ ہے۔
سوال 1751: کسی شخص نے اپنی زرعی زمین کا کچھ حصہ اپنے بھتیجے کو اس شرط پر ہبہ کردیا کہ اپنی دو ربیبہ ( زیر پرورش لڑکی جو بیوی کے پہلے شوہر سے ہو) کی شادی ہبہ کرنے والے کے دونوں بیٹوں سے کردے۔ لیکن بھتیجے نے ایک ربیبہ کی شادی ایک بیٹے سے کرادی لیکن دوسری ربیبہ کی شادی سے گریز کیا تو کیا مذکورہ شرائط کے ساتھ انجام پانے والا ہبہ صحیح اور نافذ العمل ہے یا نہیں؟
جواب: یہ ہبہ صحیح اور نافذ العمل ہے لیکن شرط باطل ہے کیونکہ غیر حقیقی باپ ربیبہ پر ولایت نہیں رکھتا بلکہ باپ اور دادا نہ ہونے کی صورت میں ان کی شادی ان کی اپنی مرضی سے وابستہ ہے۔
ہاں اگر مذکورہ شرط کا مطلب یہ ہو کہ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے بھتیجا اس شخص کے بچوں سے شادی کرنے کے لئے لڑکیوں کی رضایت حاصل کرے تو یہ شرط صحیح اور پورا کرنا لازم ہے اگر اس شرط پر عمل نہ کرے تو ہبہ کرنے والا اس کو فسخ کرنے کا حق رکھتا ہے۔سوال 1752: میرا ایک رہائشی اپارٹمنٹ ہے جس کو میں نے اپنی چھوٹی بچی کے نام کردیا۔ اس کی ماں کو طلاق دینے کے بعد میں ہبہ سے پلٹ گیا اور اس لڑکی کے اٹھارہ سال پورے ہونے سے پہلےاس کو اپنی دوسری بیوی سے ہونے والے بیٹے کے نام پر کردیا؛ اس مسئلے کا کیا حکم ہے؟
جواب: اگر پراپرٹی کو حقیقت میں ہی اپنی بیٹی کو ہبہ کردیا ہو اور اس کی ولایت میں اس پر قبضہ کیا ہو تو ہبہ نافذ العمل ہے اور قابل فسخ نہیں ہے لیکن حقیقی معنوں میں ہبہ وقوع پذیر نہ ہوا ہو بلکہ فقط اس کی سند اپنی بیٹی کے نام کردی ہو تو یہ ہبہ ثابت ہونے اور اس بیٹی کو ملکیت ملنے کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ وہ اپارٹمنٹ آپ کا ہے اور اس کا اختیار بھی آپ کے پاس ہوگا۔
سوال 1753: میں نے ایک سخت بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد اپنی پوری جائیداد اپنے بچوں میں تقسیم کردی اور اس کے متعلق سند بھی ان کے لئے لکھ دی اور ٹھیک ہونے کے بعد ان سے رجوع کیا اور درخواست کی کہ میرے اموال میں سے کچھ حصہ مجھے دیں لیکن انہوں نے اس سے اجتناب کیا اس مسئلے کا کیا حکم ہے؟
جواب: صرف سند لکھنا بچوں کو ملکیت ملنے کے لئے کافی نہیں ہے نتیجے میں اگر اپنے اموال اور جائیداد ان کو ہبہ کیا ہو اور اس طرح تحویل میں دیا ہو کہ ان کے اختیار اور مالکانہ تصرف میں ہوں تو رجوع کرنے کا آپ کو حق نہیں ہے لیکن اگر بالکل ہبہ واقع نہ ہوا ہو یا ہبہ کرنے کے بعد قبضے میں نہیں دیا گیا ہو یا قبضے میں نہیں لیا گیا ہو تو وہ اموال آپ کی ملکیت اور اختیار میں باقی ہیں ۔
سوال 1754: کسی شخص نے اپنے وصیت نامے میں گھر میں موجود اشیاء اپنی بیوی کو بخش دیا اور گھر میں وصیت کرنے والے کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک کتاب ہے کیا اس کی بیوی اس کتاب کی ملکیت کے علاوہ طباعت اور نشر یاتی حقوق وغیرہ کی بھی مالک ہوگی یا باقی ورثاء بھی اس میں حصہ دار ہوں گے؟
جواب: تالیف شدہ کتاب کی طباعت اور نشر کا حق اس کی ملکیت کا تابع ہے لذامولف نے اپنی حیات میں جس کو کتاب ہبہ کرکے تحویل دی ہے یا جس کے لئے وصیت کی ہے، مولف کی وفات کے بعد کتاب اس شخص کی ہوگی اور تمام حقوق اور امتیازات بھی اسی شخص سے مخصوص ہوں گے۔
سوال 1755: بعض ادارے اور دفاتر مختلف مواقع پر اپنے ملازمین کو تحفے دیتے ہیں جس کی وجہ معلوم نہیں ہوتی ہے؛ کیا ملازمین کے لئے ان کو قبول کرنا اور تصرف کرنا جائز ہے؟
جواب: اگر تحفہ دینے والا حکومتی قوانین کے مطابق اس کی صلاحیت اور اختیارات کا حامل ہو تو اس صورت میں حکومتی اموال میں سے تحفہ دینے میں کوئی مانع نہیں ہے اور اگر وصول کرنے والے کو احتمال ہو کہ تحفہ دینے والا ان صلاحیتوں اور اختیارات کا حامل ہے یہ احتمال قابل توجہ ہو تو اس سے تحفہ قبول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
سوال1756: ہبہ کرنے والے سے قبضے میں لینے میں صرف وصول کرنا کافی ہے یا اس کے علاوہ ہبہ کو خصوصی طور پر بعض موارد میں مثلا گاڑی، گھر اور زمین وغیرہ میں اس شخص کے نام اندراج کرنا بھی ضروری ہے؟
جواب: ہبہ میں قبضہ، شرط ہونے سے مراد معاہدے کو لکھنا اور دستخط کرنا نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ مذکورہ مال حقیقت میں ہی اس کے اختیار اور تصرف میں چلا جائے اور ہبہ واقع ہونے اور ملکیت حاصل ہونے کے لئے یہی کافی ہے اور ہبہ کئے جانے والے اموال میں اس حوالے سے کوئی فرق نہیں ہے۔
سوال 1757: ایک شخص نے شادی، ولادت یا دیگر امور کی مناسبت سے کسی کو مال ہبہ کردیا اور تین یا چارسال گزرنے کے بعد اس کو واپس لینا چاہے تو ہبہ وصول کرنے والے پر اس کو واپس کرنا واجب ہے؟ اور اگر کسی نے عزاداری یا میلاد کی محفل کے لئے کوئی مال دیا تو اس کے بعد کیا مذکورہ مال کو واپس لے سکتا ہے؟
جواب: جب تک وہ ہدیہ اس شخص کے پاس موجود ہے، ہبہ کرنے والا اس کا مطالبہ کرکے واپس لے سکتا ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ وہ شخص ہبہ کرنے والے کا رشتہ دار نہ ہو اور ہبہ بھی معوضہ نہ ہو لیکن اگر ہدیہ تلف ہوا ہو یا پہلے کی نسبت جس وقت اس کو ہبہ کیا گیا تھا، اس میں تبدیلی رونما ہوچکی ہو تو اس صورت میں ہدیہ یا اس کا متبادل طلب کرنے کا حق نہیں ہے اسی طرح جس پیسے کو انسان نے قصد قربت اور اللہ کی خوشنودی کے لئے دیا ہو، واپس لینے کا حق نہیں رکھتا ہے۔
- دین و قرض
دین و قرض
س 1758: ایک کارخانہ کے مالک نے خام مال خریدنے کےلئے مجھ سے کچھ رقم قرض کے طور پر لی اور کچھ عرصہ کے بعد اضافی رقم کے ساتھ اس نے مجھے وہ رقم واپس کردی، اور اس نے وہ اضافی رقم پوری طرح اپنی رضامندی کے ساتھ مجھے دی ہے اور اس میں نہ تو پہلے کسی قسم کی کوئی شرط طے پائی تھی اور نہ ہی مجھے اس کی توقع تھی کیا میرے لئے اس اضافی رقم کا لینا جائز ہے ؟
ج: مذکورہ سوال کی روشنی میں چونکہ قرض ادا کرنے میں اضافی رقم لینے کی شرط طے نہیں ہوئی اور وہ اضافی رقم قرض لینے والے نے اپنی خوشی سے دی ہے لہذآپ اس میں تصرف کرسکتے ہیں۔
س 1759: اگر مقروض اپنا قرض ادا کرنے سے انکار کردے اور قرض دینے والا چیک کی رقم وصول کرنے کےلئے اس کے خلاف عدالت میں شکایت کردے اور اس کی وجہ سے وہ شخص اس بات پر مجبور ہوجائے کہ اصل قرض کے علاوہ عدالتی فیصلہ کے اجرا کے سلسلے میں حکومت کو ٹیکس بھی ادا کرے تو کیا قرض دینے والا شرعاً اس کا ذمہ دار ہے؟
ج: جو مقروض اپنا قرض اداکرنے میں کوتاہی کرتاہے اگر اجراء حکم کے سلسلے میں اس پر حکومت کو ٹیکس ادا کرنا لازم ہو جاتا ہے تو اس میں قرض دینے والے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔
س 1760: میرا بھائی میرا کچھ مقروض ہے جب میں نے گھر خریدا تو اس نے مجھے ایک قالین دی جسے میں نے ہدیہ تصور کیا لیکن بعد میں جب میں نے اس سے اپنے قرض کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا وہ قالین میں نے قرض کی جگہ دی ہے۔ اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس نے اس سلسلے میں مجھ سے کوئی بات چیت نہیں کی تھی کیا اس کے لئے صحیح ہے کہ وہ اس قالین کو قرض کی ادائیگی کے عنوان سے حساب کرلے؟ اور اگر میں قرض کی ادائیگی کے عنوان سے اسے قبول نہ کروں تو کیا وہ قالین میں اسے واپس کردوں؟ اور پیسے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے کیا میں اصل قرض کے علاوہ اضافی رقم کا مطالبہ کر سکتا ہوں کیونکہ اس زمانے میں اس پیسے کی قیمت اب سے کہیں زیادہ تھی؟
ج: قالین یا اس کے علاوہ ایسی چیزوں کا قرض کے عوض میں دینا جو قرض کی گئی جنس میں سے نہیں ہیں قرض خواہ کی موافقت کے بغیر کافی نہیں ہے اور اگر آپ اس قالین کو قرض کی ادائیگی کے طور پر قبول نہیں کرتے تو اسے واپس کر دیجئے کیونکہ اس صورت میں وہ قالین ابھی تک اسی کی ملکیت ہے اور پیسے کی قیمت مختلف ہو جانے کی صورت میں احتیاط یہ ہے کہ آپس میں صلح کرلیں۔
س 1761: حرام مال کے ذریعہ قرض ادا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج: دوسرے کے مال سے قرض ادا کرنے سے قرض ادا نہیں ہوتا اور نہ ہی مقروض اس سے بری الذمہ ہوسکتاہے۔
س 1762: ایک عورت مکان خریدنا چاہتی تھی اور اس مکان کی قیمت کا تیسرا حصہ اس نے قرض لیا اور اس نے قرض دینے والے سے یہ طے کیا کہ مالی حالت بہتر ہونے کے بعد وہ مال اسے لوٹا دے گی اور اسی وقت اس کے بیٹے نے قرض کی رقم کے مساوی ایک ضمانت کے طور پر اسے ایک چیک دے دیا۔ اب جبکہ فریقین کو فوت ہوئے چار سال گذر چکے ہیں اور ان کے ورثاء اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں تو کیا اس عورت کے ورثاء گھر کا تیسرا حصہ جو قرض کی رقم سے خریدا گیا ہے اس شخص کے ورثاء کو دیں یا اسی چیک کی رقم کو ادا کردینا کافی ہے؟
ج: قرض دینے والے کے ورثاء گھر سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرسکتے وہ صرف اس رقم کا مطالبہ کرسکتے ہیں جو اس عورت نے قرض دینے والے سے مکان خریدنے کےلئے بطور قرض لی تھی اور اس میں یہ شرط ہے کہ جو مال اس نے میراث کے طور پر چھوڑا ہے وہ اس کا قرض ادا کرنے کےلئے کافی ہو اور احتیاط یہ ہے کہ رقم کی قیمت کے اختلاف کی صورت میں باہمی طور پر مصالحت کریں۔
س 1763: ہم نے ایک شخص سے کچھ رقم ادھار لی کچھ عرصہ کے بعد وہ شخص غائب ہوگیا اور اب وہ نہیں مل رہا اس کے قرض کے متعلق ہماری ذمہ داری کیا ہے ؟
ج: آپ پر واجب ہے کہ اس کا انتظار کریں اور اپنا قرض ادا کرنے کیلئے اسے تلاش کریں تا کہ وہ رقم اسے یا اس کے ورثاء کو واپس کر سکیں۔ اور اگر اس کے ملنے کی امید نہ ہو تو آپ اس سلسلے میں حاکم شرعی کی طرف رجوع کریں یا مالک کی طرف سے صدقہ دے دیں۔
س 1764: قرض دینے والا عدالت میں اپنا قرض ثابت کرنے کےلئے جو اخراجات برداشت کرتاہے کیا مقروض سے ان کا مطالبہ کر سکتا ہے؟
ج: شرعی طور پر مقروض وہ اخراجات ادا کرنے کا ذمہ دار نہیں ہے جو قرض دینے والے نے عدالت میں کئے ہیں ۔ بہرحال ایسے امور میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قوانین کی پابندی ضروری ہے۔
س1765: اگر مقروض اپنا قرض ادا نہ کرے یا اس کے ادا کرنے میں کوتاہی کرے تو کیا قرض دینے والا اس کا مال بطور تقاص لے سکتا ہے مثلا اپنا حق مخفی طور پر یا کسی دوسرے طریقے سے اس کے مال سے وصول کرلے؟
ج: اگر مقروض اپنا قرض ادا کرنے سے انکار کرے یا بغیر کسی عذر کے ادا کرنے میں کوتاہی کرے تو قرض دینے والا اس کے مال سے تقاص لے سکتا ہے لیکن اگر وہ شخص خود کو مقروض نہیں سمجھتا یا وہ نہیں جانتا کہ واقعا قرض دینے والا کا کوئی حق اس کے ذمے ہے یا نہیں تو اس صورت میں قرض دینے والا کا اس سے تقاص لینا محل اشکال ہے بلکہ جائز نہیں ہے۔
س 1766: کیا میت کا مقروض ہونا حق الناس میں سے ہے کہ ورثاء پر اس کی میراث سے اس کا ادا کرنا واجب ہو؟
ج: کلی طور پر قرض چاہے کسی شخص کا ہو یا کسی ادارے و غیرہ سے لیا گیا ہو حق الناس میں سے ہے اور مقروض کے ورثاء پر واجب ہے کہ میت کی میراث سے اس کا قرض خود قرض دینے والے یا اس کے ورثاء کو ادا کریں اور جب تک اس کا قرض ادا نہ کردیں انہیں اس کے ترکہ میں تصرف کا حق نہیں ہے۔
س 1767: ایک شخص کی ایک زمین ہے لیکن اس میں موجود عمارت کسی دوسرے شخص کی ہے زمین کا مالک دو افراد کا مقروض ہے کیا قرض دینے والوں کےلئے جائز ہے کہ وہ اس زمین اور اس میں موجود عمارت کو اپنا قرض وصول کرنے کےلئے ضبط ﴿قرق﴾ کرلیں یا انہیں صرف زمین کے متعلق ایسا کرنے کا حق ہے؟
ج: انہیں اس چیز کی ضبطی ﴿قرقی﴾ کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے جو مقروض کی ملکیت نہیں ہے۔
س 1768: کیا وہ مکان کہ جس کی مقروض اور اس کے اہل و عیال کو رہائش کے لئے ضرورت ہے وہ مقروض کے اموال کی قرقی سے مستثنی ہے؟
ج: مقروض اپنی زندگی کو جاری رکھنے کےلئے جن چیزوں کا محتاج ہے جیسے گھر اور اس کا سامان،گاڑی ،ٹیلیفون اور تمام وہ چیزیں جو اس کی زندگی کا جزء اور اس کی شان کے مطابق ہو وہ بیچنے کے ضروری ہونے کے حکم سے مستثنا ہیں۔
س 1769: اگر ایک تاجر اپنے قرضوں کے بوجھ سے دیوالیہ ہوجائے اور ایک عمارت کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور چیز نہ ہو اور اسے بھی اس نے بیچنے کےلئے پیش کردیا ہو لیکن اس کے بیچنے سے صرف آدھا قرض ادا ہوسکتا ہو اور وہ اپنا باقی قرض ادا نہ کرسکتا ہو توکیا قرض دینے والوں کےلئے جائز ہے کہ اسے عمارت بیچنے پر مجبور کریں یا یہ کہ وہ اسے مہلت دیں تا کہ وہ اپنا قرض آہستہ آہستہ ادا کرے؟
ج: اگر وہ عمارت اس کا اور اس کے اہل و عیال کا رہائشی گھر نہیں ہے تو قرض ادا کرنے کےلئے اسے اس کے بیچنے پر مجبور کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اگر چہ وہ تمام قرض ادا کرنے کےلئے کافی نہ ہو اور واجب نہیں ہے کہ قرض دینے والے اسے اس کےلئے مہلت دیں ، بلکہ باقی قرض کےلئے صبر کریں تاکہ وہ اس کے ادا کرنے کی قدرت حاصل کرلے۔
س 1770: کیا اس رقم کا ادا کرنا واجب ہے جو ایک سرکاری ادارہ دوسرے سرکاری ادارے سے بطور قرض لیتا ہے ؟
ج : اس قرض کے ادا کرنے کا وجوب بھی دیگر قرضوں کی طرح ہے ۔
س 1771: اگر کوئی شخص مقروض کی درخواست کے بغیر اس کا قرض ادا کردے تو کیا مقروض پر واجب ہے کہ وہ قرض ادا کرنے والے کو اس کا عوض دے؟
ج: جو شخص مقروض کی درخواست کے بغیر اس کا قرض ادا کردے اسے اس کا عوض طلب کرنے کا حق نہیں ہے اور مقروض پر واجب نہیں ہے کہ وہ اس کی ادا کردہ رقم اسے دے۔
س 1772: اگر مقروض قرض کو مقررہ وقت پر ادا کرنے میں تاخیر کرے تو کیا قرض دینے والا قرض کی مقدار سے زیادہ رقم کا مطالبہ کرسکتا ہے ؟
ج: قرض دینے والا شرعی طور پر قرض کی رقم سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کرسکتا ۔
س 1773: میرے والد صاحب نے ایک بناوٹی معاملہ کی شکل میں کہ جو در حقیقت قرض تھاایک شخص کو کچھ رقم دی اور مقروض بھی ہر ماہ کچھ رقم اس کے منافع کے طور پر ادا کرتارہا اور قرض خواہ (میرے والد) کی وفات کے بعد بھی مقروض منافع کی رقم ادا کرتارہا یہاں تک کہ اس کا بھی انتقال ہوگیا۔ کیا وہ رقم جو منافع کے طور پر ادا کی گئی ہے سود شمار ہوگی اور قرض خواہ کے ورثاء پر واجب ہے کہ وہ رقم مقروض کے ورثاء کو واپس کریں؟
ج: اس فرض کے پیش نظر کہ حقیقت میں اسے یہ رقم قرض کے طور پر دی گئی تھی لذا جو منافع ادا کیا گیا ہے وہ پیسے کی قیمت میں آنے والی گراوٹ کے برابر ہو تو اشکال نہیں رکھتا ہے اس کے علاوہ جو رقم بھی پیسے کی قیمت میں آنے والی گراوٹ سے ذیادہ منافع کے طور پر ادا کیا گیا یے وہ سود شمار ہوگا اور شرعی طور پر حرام ہے لہذا باقی رقم، قیمت میں آنے والی گراوٹ کو حساب کرکے قرض خواہ کی میراث میں سے خود مقروض یا اس کے ورثاء کو ادا کرنا ضروری ہے۔
س 1774: کیا جائز ہے کہ کوئی شخص اپنا مال دوسرے کے پاس بطور امانت رکھے اور ہر ماہ اس سے منافع دریافت کرے؟
ج: اگر فائدہ اٹھانے کی غرض سے مال کسی دوسرے کو سپرد کرنا کسی صحیح عقد کے ذریعہ انجام پائے تو کوئی اشکال نہیں ہے اور اس سے حاصل ہونے والے منافع میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے ۔ لیکن اگر قرض کے عنوان سے ہو تو اگر چہ اصل قرض صحیح ہے لیکن اس میں منافع کی شرط لگانا شرعی طور پر باطل ہے اور اس سے لیا جانے والا منافع ، سود اور حرام ہے۔
س 1775: ایک شخص نے کسی معاشی منصوبے کےلئے کچھ رقم قرض پرلی اگر وہ منصوبہ اس کےلئے نفع بخش ہو تو کیا اس کےلئے جائز ہے کہ اس منافع سے کچھ رقم اس قرض دینے والے کو دے دے ؟ اور کیا جائز ہے کہ قرض دینے والا اس کا مطالبہ کرے ؟
ج: قرض دینے والا اس تجارت کے منافع میں جو مقروض نے قرض والے مال کے ذریعہ حاصل کیا ہے؛ کوئی حق نہیں رکھتا اور نہ وہ اس حاصل شدہ منافع سے کچھ مطالبہ کرسکتا ہے لیکن اگر مقروض پہلے سے طے کئے بغیر اپنی مرضی سے اصل قرض کے علاوہ کچھ اضافی رقم قرض دینے والے کو دے کر اس کے ساتھ نیکی کرنا چاہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے بلکہ یہ مستحب ہے ۔
س 1776: ایک شخص نے تین مہینے کےلئے کچھ سامان ادھار پر لیا ہے اور مقررہ وقت پہنچنے پر اس نے بیچنے والے سے درخواست کی کہ وہ اسے تین مہینے کی مزید مہلت اس شرط پر دے دے کہ وہ سامان کی قیمت سے زائد رقم اسے ادا کرےگا کیا ان دونوں کےلئے یہ جائز ہے ؟
ج: یہ زائد رقم سود ہے اور حرام ہے ۔
س 1777: اگر زید نے خالد سے سود پر قرض لیا ہو اور ایک تیسرا شخص قرض کی دستاویز اور اس کی شرائط کو ان کےلئے تحریر کرے اور چوتھا شخص جو دفتر میں منشی اور اکاؤنٹنٹ ہے اور جس کا کام معاملات کا اندراج کرنا ہے وہ ان کے اس معاملہ کو حساب کے رجسٹر میں اندراج کرے تو کیا اکاؤنٹنٹ بھی ان کے اس سودی معاملے میں شریک ہے اور اس سلسلے میں اس کا کام اور اجرت لینا بھی حرام ہے ؟ پانچواں شخص بھی ہے جس کی ذمہ داری آڈٹ کرنا ہے وہ رجسٹر میں کچھ لکھے بغیر صرف اس کی چھان بین کرتا ہے کہ کیا سودی معاملات کے حساب میں کسی قسم کی غلطی تو نہیں ہوئی اور پھر وہ اکاؤنٹنٹ کو اس کے نتیجے کی اطلاع دیتا ہے کیا اس کا کام بھی حرام ہے ؟
ج: ہر کام جو سودی قرض کے معاملے یا اس کی انجام دہی یا تکمیل یا مقروض سے سود کی وصولی میں دخالت رکھتا ہو شرعاً حرام ہے اور اس کا انجام دینے والا اجرت کا حقدار نہیں ہے ۔
س 1778: بعض مسلمان سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے کفار سے سرمایہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں جس پر انہیں سود دینا پڑتا ہے کیا کفار یا غیر اسلامی حکومتوں کے بینکوں سے سودی قرض لینا جائز ہے؟
ج: سودی قرض حکم تکلیفی کے اعتبار سے بطور مطلق حرام ہے اگرچہ غیر مسلم سے لیا جائے لیکن اگر کوئی شخص ایسا قرض لے لے تو اصل قرض صحیح ہے ۔
س1779: ایک شخص نے کچھ رقم تھوڑے عرصہ کےلئے اس شرط پر بطور قرض لی کہ وہ قرض خواہ کے حج و غیرہ جیسے سفر کے اخراجات بھی ادا کرےگا کیا ان کےلئے یہ کام جائز ہے ؟
ج: عقد قرض کے ضمن میں قرض خواہ کے سفرکے اخراجات کی ادائیگی یا اس جیسی کوئی اور شرط لگانا درحقیقت وہی قرض پر منافع وصول کرنے کی شرط ہے جو شرعی طور پر حرام اور باطل ہے لیکن اصل قرض صحیح ہے ۔
س 1780: قرض الحسنہ دینے والے ادارے قرض دیتے وقت شرط لگاتے ہیں کہ اگر مقروض نے دو یا زیادہ اقساط مقررہ وقت پر ادا نہ کیں تو ادارے کو حق ہوگا کہ اس شخص سے پورا قرض ایک ہی مرتبہ وصول کرے کیا اس شرط پر قرض دینا جائز ہے ؟
ج: کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س 1781: ایک کو آپریٹو کمپنی کے ممبران کمپنی کو کچھ رقم سرمایہ کے عنوان سے دیتے ہیں اور وہ کمپنی اپنے ممبران کو قرض دیتی ہے اور ان سے کسی قسم کا منافع یا اجرت وصول نہیں کرتی بلکہ اس کا مقصد مدد فراہم کرنا ہے اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے جسے ممبران نیک ارادے اور صلہ رحمی کی غرض سے انجام دیتے ہیں ؟
ج: مومنین کو قرض فراہم کرنے کےلئے باہمی تعاون اور ایک دوسرے کو مدد بہم پہنچانے کے جواز بلکہ رجحان میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے اگر چہ یہ اسی صورت میں انجام پائے جس کی سوال میں وضاحت کی گئی ہے لیکن اگر کمپنی میں رقم جمع کرانا قرض کے عنوان سے ہو کہ جس میں شرط لگائی گئی ہو کہ رقم جمع کرانے والے کو آئندہ قرض دیا جائے گا تو یہ کام شرعاً جائز نہیں ہے اگرچہ اصل قرض حکمِ وضعی کے لحاظ سے صحیح ہے ۔
س 1782: قرض دینے والے بعض ادارے ان پیسوں سے کہ جو لوگوں نے ان کے پاس امانت کے طور پر جمع کئے ہوتے ہیں، زمینیں اور دوسری چیزیں خریدتے ہیں۔ ان معاملات کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جبکہ پیسہ جمع کرانے والے بعض لوگ ان کاموں سے متفق نہیں ہوتے، کیا ادارے کے ذمہ دار کو یہ حق ہے کہ وہ ان اموال میں تصرف کرے مثلاً ان سے خرید و فروخت کا کام انجام دے؟ کیا یہ کام شرعی طور پر جائز ہے ؟
ج: اگر لوگوں کی جمع کرائی ہوئی رقوم بطور امانت ادارے کے پاس اس لئے ہیں کہ ادارہ جسے چاہے گا قرض دے دیے گا تو اس صورت میں جائیداد یا دوسری چیزیں خریدنے میں ان کا استعمال کرنا فضولی اور ان کے مالکوں کی اجازت پر منحصر ہے لیکن اگر جمع کرائی ہوئی رقم اس ادارے کو قرض الحسنہ کے عنوان سے دی گئی ہو چنانچہ اس کے ذمہ دار افراد ان اختیارات کی بنیاد پر جو انہیں دئیے گئے ہیں جائیداد اور دوسری چیزیں خریدنے کا اقدام کریں تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س1783:بعض لوگ دوسروں سے کچھ مقدار پیسے لیتے ہیں اور اس کے عوض ہر مہینے ان کو منافع ادا کرتے ہیں اوریہ کام کسی شرعی عقد کے تحت انجام نہیں دیتے بلکہ یہ کام صرف دوطرفہ توافق کی بنیاد پر انجام پاتا ہے ، اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: اس قسم کے معاملات سودی قرض شمار ہوتے ہیں اورقرض میں نفع اور سود کی شرط لگانا باطل ہے اور یہ اضافی رقم سود اور شرعاً حرام ہے اور اس کا لینا جائز نہیں ہے ۔
س 1784: جس شخص نے قرض الحسنہ دینے والے ادارے سے قرض لیا ہے اگر وہ قرض ادا کرتے وقت اپنی طرف سے بغیر کسی سابقہ شرط کے اصل قرض سے کچھ زیادہ رقم ادا کرتا ہے توکیا اس اضافی رقم کا لینا اور اسے تعمیراتی کاموں میں خرچ کرنا جائز ہے ؟
ج : اگر قرضہ لینے والا وہ اضافی رقم اپنی مرضی سے اور اس عنوان سے دے کہ قرضہ ادا کرتے وقت یہ کام مستحب ہے تو اس کےلنے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ لیکن ادارے کے ذمہ دار افراد کا اسے تعمیراتی یا دوسرے کاموں میں خرچ کرنا اس سلسلے میں ان کے اختیارات کی حدود کے تابع ہے ۔
س 1785: قرض الحسنہ دینے والے ایک ادارے کے ملازمین نے اس رقم سے جو ایک شخص سے قرض لی گئی تھی ایک عمارت خرید لی اور ایک مہینے کے بعد اس شخص کی رقم لوگوں کی جمع کرائی گئی رقم سے ان کی مرضی کے بغیر واپس کردی ، کیا یہ معاملہ شرعی ہے ؟ اور اس عمارت کا مالک کون ہے؟
ج: ادارے کےلئے اس رقم سے عمارت خریدنا جو اسے قرض دی گئی ہے اگر ادارے کے ملازمین کی صلاحیت اور اختیارات کے مطابق انجام پائے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے اور خریدی گئی عمارت ادارہ اور ان لوگوں کی ملکیت ہے جن کا اس ادارے میں پیسہ ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو معاملہ فضولی ہوگا اور اس رقم کے مالکان کی اجازت پر موقوف ہے ۔
س 1786: بینک سے قرض لیتے وقت اسے اجرت ادا کرنے کا کیا حکم ہے ؟
ج: اگر مذکورہ اجرت قرض کے امور انجام دینے کے سلسلے میں ہو جیسے رجسٹر میں درج کرنا، دستاویز تیار کرنا یا ادارے کے دیگر اخراجات جیسے پانی بجلی وغیرہ اور اس کی بازگشت قرض کے نفع کی طرف نہ ہو تو اس کے لینے اور دینے اور اسی طرح قرض لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س 1787: ایک رفاہی ادارہ اپنے ممبران کو قرض دیتا ہے لیکن قرض دینے کےلئے شرط لگاتا ہے کہ قرض لینے والا تین یا چھ مہینے تک کےلئے اس میں رقم جمع کرائے اور یہ مدت گزرنے کے بعد اس نے جتنی رقم جمع کرائی ہے اس کے دو برابر اسے قرض ملے گا اور جب قرض کی تمام قسطیں ادا ہوجاتی ہیں تو وہ رقم جو قرض لینے والے نے ابتدا میں جمع کرائی تھی اسے لوٹا دی جاتی ہے اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: اگر ادارے میں رقم جمع کرانا اس عنوان سے ہو کہ وہ رقم ایک مدت تک ادارے کے پاس قرض کے عنوان سے اس شرط کے ساتھ رہے گی کہ ادارہ اس مدت کے ختم ہونے پر اسے قرض دے گا یا ادارے کا قرض دینا اس شرط کے ساتھ ہو کہ وہ شخص پہلے کچھ رقم ادارے میں جمع کرائے تویہ شرط سود کے حکم میں ہے جو حرام اور باطل ہے البتہ اصل قرضہ دونوں طرف کےلئے صحیح ہے۔
س 1788: قرض الحسنہ دینے والے ادارے قرض دینے کےلئے بعض امور کی شرط لگاتے ہیں ان میں سے ایک شرط یہ ہوتی ہے کہ قرض لینے والا اس ادارے کا ممبر ہو اور اس کی کچھ رقم ادارے میں موجود ہو یا یہ کہ قرض لینے والا اسی محلے کا رہنے والا ہوکہ جس میں یہ ادارہ قائم ہے اور بعض دیگر شرائط کیا یہ شرائط سود کے حکم میں ہیں؟
ج: ممبر ہونے یا محلہ میں سکونت یا اس طرح کی دیگر شرطیں اگر محدود پیمانے پر افراد کو قرض دینے کےلئے ہوں تو کوئی اشکال نہیں ہے اور ادارے میں اکاؤنٹ کھولنے کی شرط کا مقصد بھی اگر یہ ہو کہ قرض صرف انہیں افراد کو دیا جائے تو اس میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر اس کا مقصد یہ ہو کہ مستقبل میں قرض لینا اس کے ساتھ مشروط ہو کہ قرض لینے والا کچھ رقم بینک میں جمع کرائے تو یہ شرط قرض میں منفعتِ حکمی ہے کہ جو باطل ہے ۔
س 1789: کیا بینک کے معاملات میں سود سے بچنے کےلئے کوئی راستہ ہے ؟
ج: اس کا راہ حل یہ ہے کہ اس سلسلے میں شرعی عقود سے ان کی شرائط کی مکمل مراعات کے ساتھ استفادہ کیا جائے ۔
س 1790 :وہ قرض جو بینک کسی خاص کام پر خرچ کرنے کےلئے مختلف افراد کو دیتا ہے کیا اسے کسی اور کام میں خرچ کرنا جائز ہے؟
ج: بینک افراد کو جو پیسہ دیتا ہے اگر وہ واقعاً قرض ہو اور بینک شرط کرے کہ اسے حتمی طور پر خاص مورد میں استعمال کیا جائے تو اس شرط کی مخالفت جائز نہیں ہے اور اسی طرح وہ رقم جو بینک سے شراکت یا مضاربہ و غیرہ کے سرمایہ کے طور پر لیتا ہے اسے بھی اس کے علاوہ کسی اور کام میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے ۔
س 1791:اگر دفاع مقدس کے مجروحین میں سے کوئی شخص قرضہ لینے کےلئے بینک سے رجوع کرے ، اور اپنے بارے میں مجاہد فاؤنڈیشن کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ بھی بینک کو پیش کردے تا کہ اس طرح وہ اس کے ذریعے مسلط کردہ جنگ کے مجروحین کےلئے مخصوص ان سہولیات اور قرضوں سے استفادہ کر سکے جو مجروحین کے کام سے معذور ہونے کے مختلف درجوں کے مطابق انہیں دیئے جاتے ہیں اور وہ خود جانتا ہے کہ اس کا درجہ اس سے کم تر ہے جو اس سرٹیفکیٹ میں لکھا ہوا ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ اس کے بارے میں ڈاکٹروں اور ماہرین کی تشخیص درست نہیں ہے کیا وہ ان کے دیئے ہوئے سرٹیفکیٹ کے ذریعہ بینک کی خصوصی سہولیات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ؟
ج: اگر اس کے درجے کا تعین ان ماہر ڈاکٹروں کے ذریعہ ہوا ہو جو ڈاکٹری معائنات اپنی تشخیص و رائے کی بنیاد پر انجام دیتے ہیں اور سہولیات دینے کےلئے قانونی لحاظ سے بینک کے نزدیک انکی رائے معیار ہے تو اس مجاہد کیلئے اس درجے کی سہولیات سے فائدہ اٹھانے میں کہ جس کا سرٹیفکیٹ اسے ان ڈاکٹروں نے دیا ہے کوئی اشکال نہیں ہے اگر چہ خود اس کی نظر میں اس کا درجہ کمتر ہو ۔
- صلح
صلح
س 1792: ایک شخص نے اپنی تمام جائیدادکہ جس میں مکان ، گاڑی ،قالین اور اس کے گھر کا سارا سامان شامل ہے صلح کے ساتھ اپنی بیوی کو دے دیا ہے اور اسی طرح اسے اپنا وصی اور اپنے نابالغ بچوں کا سرپرست بھی قرار دیا ہے کیا اس کے مرنے کے بعد اس کے ماں باپ، کو اس کے ترکہ سے کسی چیز کے مطالبہ کا حق ہے؟
ج: اگر ثابت ہوجائے کہ میت نے اپنی زندگی میں اپنی تمام جائیداد صلح کے ساتھ اپنی بیوی یا کسی دوسرے کو دے دی تھی اس طرح سے کہ کوئی چیز اپنی وفات تک اپنے لئے باقی نہ چھوڑی ہو ، تو ماں باپ یا دوسرے ورثاء کےلئے اس کا کوئی ترکہ ہی نہیں ہے جو ان کی وراثت ہو لہٰذا انہیں اس مال کے مطالبہ کا کوئی حق نہیں ہے جو اس کی زندگی میں اس کی بیوی کی ملکیت بن چکا ہے ۔
س 1793: ایک شخص نے اپنے اموال کا کچھ حصہ صلح کے ساتھ اپنے بیٹے کو دے دیا لیکن کچھ سال گزرنے کے بعد وہی اموال اپنے اسی بیٹے کو فروخت کردیئے اور اس وقت اس کے ورثا ڈاکٹری سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر دعویٰ کرتے ہیں کہ گھر بیچنے سے کچھ عرصہ پہلے سے لیکر معاملہ انجام دینے تک ان کے باپ کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا کیا یہ مال اسے بیچنا کہ جسے یہ بطور صلح پہلے ہی دے چکا ہے اس صلح سے عدول شمار ہوگا اور معاملہ بیع صحیح ہے ؟ اور بالفرض اگر صلح صحت پر باقی ہو تو کیا یہ اس مال کے تیسرے حصے میں صحیح ہے کہ جس پر صلح کی گئی ہے یا پورے مال میں ؟
ج: پہلی صلح صحیح اور نافذ ہے اور جب تک اس میں صلح کرنے والے ( مصالح ) کےلئے حق فسخ ثابت نہ ہو یہ لازم بھی ہے لہٰذا صلح کرنے والے کا اس مال کو بیچنا صحیح نہیں ہے اگر چہ فروخت کے وقت اس کا ذہنی توازن ٹھیک ہو اور یہ صلح جو صحیح اور لازم ہے اس پورے مال میں نافذ ہے کہ جس پر یہ واقع ہوئی ہے۔
س 1794: ایک شخص اپنے تمام اموال یہاں تک کہ محکمہ صحت میں جو اس کے حقوق ہیں صلح کے ساتھ اپنی بیوی کو دے دیتا ہے لیکن مذکورہ محکمہ اعلان کرتا ہے کہ اس شخص کو ان حقوق پر صلح کرنے کا قانونی حق نہیں ہے ، جس کے نتیجے میں محکمہ صحت اس کے ساتھ موافقت کرنے سے انکار کردیتا ہے خود صلح کرنے والا بھی اس چیز کا اعتراف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے دوسروں کا قرض ادا کرنے سے بچنے کےلئے یہ کام انجام دیا ہے۔ اس صلح کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: دوسروں کے مال یا ایسے مال پر صلح کہ جس کے ساتھ دوسروں کے حق کا تعلق ہوچکا ہے صلح فضولی ہے اور اس کا انحصار مالک یا صاحب حق کی اجازت پر ہے اور اگر صلح، صلح کرنے والے کی خالص ملکیت پر انجام پائی ہو لیکن اس صلح کا مقصد قرض خواہوں کے قرض کی ادائیگی سے بچنا ہو تو ایسی صلح کا صحیح اور نافذ ہونا محل اشکال ہے بالخصوص جب اسے کسی اور ذریعے سے مال حاصل کرکے اپنے قرض ادا کرنے کی کوئی امید نہ ہو ۔
س 1795: ایک صلح کی دستاویز میں یوں لکھا ہے کہ باپ نے اپنے کچھ اموال صلح کے ساتھ اپنے بیٹے کو دے دیئے ہیں کیا یہ دستاویز قانونی اور شرعی لحاظ سے معتبر ہے ؟
ج: جب تک دستاویز کے محتوا کے صحیح ہونے کا اطمینان نہ ہو اس وقت تک یہ دستاویز ،عقد صلح کے انشاء اور اس کی کیفیت پر شرعی دلیل اور حجت شمار نہیں ہوگی، البتہ اگر مالک کی طرف سے صلح کے ثابت ہونے کے بعد ہمیں اس کے شرعی طور پر صحیح واقع ہونے میں شک ہو تو عقد صلح شرعاً صحیح ہے اور وہ مال اس شخص کی ملکیت ہوگا جس کے ساتھ صلح کی گئی ہے۔
س 1796: میرے سسر نے اپنے بیٹے کے ساتھ میری شادی کے وقت زمین کا ایک قطعہ کچھ رقم کے عوض صلح کے ساتھ مجھے دے دیا اور چند گواہوں کے سامنے اس سے متعلق ایک دستاویز بھی تحریر کردی لیکن اب وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ معاملہ فقط ظاہری اور بناوٹی تھا۔ اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: مذکورہ صلح شرعی طور پر صحیح ہے اور اس کے ظاہری اور بناوٹی ہونے کا دعویٰ جب تک مدعی کی طرف سے ثابت نہ ہوجائے کوئی اثر نہیں رکھتا ۔
س 1797: میرے والد نے اپنی زندگی میں اپنے تمام منقولہ اور غیر منقولہ اموال صلح کے ساتھ مجھے دے دیئے اس شرط پر کہ ان کی وفات کے بعد میں اپنی بہنوں میں سے ہر ایک کو کچھ رقم ادا کروں ۔میری بہنیں بھی اس چیز پر راضی ہوگئیں اور وصیت والی دستاویز پر دستخط کردیئے، باپ کی وفات کے بعد میں نے ان کا حق ادا کردیا اور باقی اموال خود لے لیئے۔ کیا اس مال میں میرے لیئے تصرف کرنا جائز ہے ؟ اور اگر وہ اس امر پر راضی نہ ہوں تو اس مسئلہ کا حکم کیا ہے ؟
ج: اس صلح میں کوئی اشکال نہیں ہے اور مذکورہ صورت میں جس مال پر صلح ہوئی ہے وہ آپ کاہے اور دیگر ورثاء کے راضی نہ ہونے کا کوئی اثر نہیں ہے ۔
س 1798: اگر ایک شخص اپنے بعض بچوں کی عدم موجودگی میں اور جو موجود ہیں ان کی موافقت کے بغیر صلح کے ساتھ اپنے اموال ایک بیٹے کو دے دیتا ہے تو کیا یہ صلح صحیح ہے؟
ج: اگر مالک اپنی زندگی میں اپنے اموال صلح کے ساتھ کسی ایک وارث کو دے دے تو اس میں دیگر ورثاء کی موافقت ضروری نہیں ہے اور انہیں اس پر اعتراض کا حق نہیں ہے ہاں اگر یہ کام اس کی اولاد کے درمیان فتنہ و فساد اور نزاع کا سبب بنے تو جائز نہیں ہے ۔
س 1799:اگر ایک شخص صلح کے ساتھ اپنا کچھ مال دوسرے کو اس شرط پر دے کہ فقط وہ خود اس مال سے استفادہ کرے گا تو کیا یہ شخص جسے صلح کے ساتھ مال دیا گیا ہے وہ یہ مال اسی استفادے کےلئے صلح کرنے والے کی رضامندی کے بغیر کسی تیسرے شخص کو دے سکتا ہے یا کسی شخص کو صلح کرنے والے کی رضامندی کے بغیر استفادہ کرنے میں شریک کر سکتا ہے؟اور صحیح ہونے کی صورت میں کیا صلح کرنے والا اس صلح سے عدول کر سکتا ہے؟
ج : متصالح (جسے صلح کے ساتھ مال دیا گیا ہے) عقد صلح میں جن شرطوں پر عمل کرنے کا پابند ہوا ہے ان کی مخالفت نہیں کر سکتا اور اگر وہ ان شروط کی مخالفت کرے تو مصالح (جس نے صلح کے ساتھ مال دیا ہے)عقد صلح کو ختم اور فسخ کرسکتا ہے ۔
س 1800:کیا عقد صلح ہو جانے کے بعدمُصالح اس سے عدول کرسکتا ہے اور پہلے متصالح کو بتائے بغیر وہی مال دوبارہ صلح کے ساتھ کسی دوسرے شخص کو دے سکتا ہے؟
ج : اگر صلح صحیح طور پرمنعقد ہوئی ہو، تو یہ مُصالح کی نسبت لازم ہے اور جب تک اس نے اپنے لئے حق فسخ قرار نہیں دیا اسے عدول کرنے کا حق نہیں ہے لہذا اگر وہ وہی مال صلح کے ساتھ کسی دوسرے شخص کو دے دے تو یہ صلح فضولی ہوگی جس کا صحیح ہونا پہلے متصالح کی اجازت پرموقوف ہے ۔
س 1801: ماں کی جائیداد اس کے بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان تقسیم ہونے ،قانونی مراحل طے کرنے ، حصر وراثت (یعنی یہ کہ ان کے علاوہ اس کا اور کوئی وارث نہیں ہے) کا سرٹیفکیٹ لینے اور ورثاء میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا حصہ لے لینے کے بہت عرصے کے بعد اس کی ایک بیٹی یہ دعوی کرتی ہے کہ اس کی ماں نے اپنی زندگی میں اپنے تمام اموال صلح کے ساتھ اسے دے دیئے تھے اور اس سلسلے میں ایک معمولی دستاویز بھی ہے کہ جس پر اس کے اور اس کے شوہر کے دستخط موجود ہیں اور اس پر انگوٹھے کا نشان بھی ہے جو اس کی ماں کی طرف منسوب ہے اور وہ بیٹی اس وقت ماں کا پورا ترکہ لینا چاہتی ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: جب تک یہ ثابت نہ ہوکہ ماں نے اپنی زندگی میں اپنا مال صلح کے ساتھ اس بیٹی کو دے دیا تھا اسے اس چیز کے بارے میں کوئی حق نہیں ہے جس کا وہ دعوی کرتی ہے اور صرف صلح کی دستاویز اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک واقع کے ساتھ اس کی مطابقت ثابت نہ ہوجائے ۔
س 1802: ایک باپ نے اپنی جائیداد صلح کے ساتھ اپنی اولاد کو اس شرط پردی کہ جب تک وہ زندہ ہے اسے اس میں تصرف کا اختیار ہو گا اس چیز کے پیش نظر مندرجہ ذیل موارد کے بارے میں کیا حکم ہے؟
الف : کیا یہ صلح اس شرط کے ساتھ صحیح اور نافذ ہے ؟
ب: صحیح اور نافذ ہونے کی صورت میں کیا جائز ہے کہ مُصالح اس صلح سے عدول کرے؟ جائز ہونے کی صورت میں اگر اس مال کا کچھ حصہ بیچ دے کہ جس پر صلح ہوئی تھی توکیا اسکا یہ کام صلح سے عدول شمار کیا جائے گا ؟ اور اگر بالفرض یہ صلح سے عدول ہے تو کیا تمام اموال کی نسبت عدول سمجھا جائے گا یا صرف بیچے گئے مال کی نسبت؟
ج : یہ عبارت " زندگی میں تصرف کا اختیار " جو صلح کی دستاویز میں بیان ہوئی ہے کیا حق فسخ کے معنیٰ میں ہے یا کسی دوسرے کو اپنے اموال منتقل کرنے کے حق کے معنیٰ میں یا اپنی زندگی میں ان اموال میں حق تصرف و استعمال کے معنیٰ میں؟ج:
الف: مذکورہ صلح اس شرط کے ساتھ صحیح اور نافذ ہے ۔
ب: عقد صلح ، عقود لازم میں سے ہے لہذا جب تک صلح کے ساتھ دینے والا اس میں حق فسخ نہ رکھتا ہو اسے فسخ اور ختم نہیں کر سکتا لذا اگر صلح کرنے کے بعد اوراس میں حق فسخ کے بغیر اس مال کا کچھ حصہ ان میں سے کسی کو فروخت کردے کہ جن کے ساتھ صلح کی گئی تھی، تو یہ معاملہ خریدار کے اپنے حصے میں باطل ہے اور دوسروں کے حصوں کی نسبت فضولی ہے جس کا صحیح ہونا ان کی اجازت پر موقوف ہے۔
ج: ظاہری طور پر اس عبارت " زندگی میں تصرف کا اختیار " سے مقصود حق تصرف و استعمال ہے نہ حق فسخ اور نہ کسی دوسرے کو اموال منتقل کرنے کا حق۔ - وکالت
- صدقہ
صدقہ
س 1820: امام خمینی ویلفیئرٹرسٹ (کمیتہ امداد امام خمینی)نے صدقات اور خیرات جمع کرنے کےلئے جو مخصوص ڈبے گھروں میں رکھے ہوئے ہیں یا سڑکوں اورشہر و دیہات کے عمومی مقامات پر نصب کر رکھے ہیں تا کہ ان میں جمع ہونے والی رقم فقرا اور مستحقین تک پہنچا سکیں کیا جائز ہے کہ اس ٹرسٹ کے ملازمین کو اس ماہانہ تنخواہ اور سہولیات کے علاوہ جو انہیں ٹرسٹ کی طرف سے ملتی ہیں ان ڈبوں سے حاصل ہونے والی رقم کا کچھ فیصد انعام (Reward) کے طور پر دیا جائے ؟اور کیا جائز ہے کہ اس سے کچھ مقدار رقم ان لوگوں کو دی جائے جو اس رقم کو جمع کرنے میں مدد کرتے ہیں لیکن وہ ٹرسٹ کے ملازم نہیں ہیں؟
ج: ٹرسٹ کے ملازمین کو اس ماہانہ تنخواہ کے علاوہ جو وہ لیتے ہیں صدقات کے ڈبوں سے کچھ مقدار رقم انعام (Reward) کے طور پر دینے میں اشکال ہے بلکہ جب تک صاحبان مال کی رضامندی ثابت نہ ہوجائے یہ کام جائز نہیں ہے تاہم ان لوگوں کو جو ڈبوں کی رقم جمع کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں، اجرۃ المثل (اس جیسے کاموں کے لئے دی جانے والی اجرت)کے طور پر اس میں سے کچھ رقم دینے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ صدقات جمع کرنے اور مستحق تک پہنچانے میں ان کی امداد کی ضرورت ہو، اور ظاہری علامات صاحبان اموال کے اس کام پر راضی ہونے پر دلالت کرے ورنہ ان رقوم کو فقرا ء پر خرچ کرنے کے علاوہ کسی بھی دوسرے کام میں مصرف میں لانا اشکال سے خالی نہیں ہے۔
س 1821: کیا ان گدا گروں کوجو گھروں پر آتے ہیں یا سڑکوں کے کنارے بیٹھتے ہیں صدقہ دینا جائز ہے یا یتیموں اور مسکینوں کو دینا بہتر ہے یا صدقات کے ڈبوں میں ڈالے جائیں تا کہ وہ رقم ویلفیئرٹرسٹ کے پاس پہنچ جائے ؟
ج: بہتر یہ ہے کہ مستحبی صدقات دیندار اور پاکدامن فقراء کو دیئے جائیں ، اسی طرح انہیں ویلفیئر ٹرسٹ کو دینے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے اگرچہ یہ صدقات کے ڈبوں میں ڈالنے کی صورت میں ہو ، لیکن واجب صدقات میں ضروری ہے کہ انہیں انسان خود یا اس کا وکیل مستحق فقرا تک پہنچائے اور اگر انسان کو علم ہو کہ ویلفیئر ٹرسٹ کے ملازمین ڈبوں سے جمع ہونے والی رقم مستحق فقیروں تک پہنچاتے ہیں تو صدقات کے ڈبوں میں ڈالنے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س 1822: ان گداگروں کے بارے میں انسان کی ذمہ داری کیا ہے جو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں او رگدائی کے ذریعہ اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اور اسلامی معاشرے کے چہرے کو بدنما بناتے ہیں خصوصاً اب جبکہ حکومت نے ان سب کو پکڑنے کا اقدام کیا ہے ؟ کیا ان کی مدد کرنا جائز ہے ؟
ج: کوشش کریں کہ صدقات متدین اور پاکدامن فقرا کو دیں ۔
س1823: میں مسجد کاخادم ہوں اور میرا کام رمضان المبارک کے مہینے میں زیادہ ہوجاتا ہے اسی وجہ سے بعض نیک اور مخیر لوگ مجھے مدد کے طور پر کچھ رقم دے دیتے ہیں کیا میرے لئے اس کا لینا جائز ہے ؟
ج: جو کچھ وہ لوگ آپ کو دیتے ہیں وہ ان کی طرف سے آپ پر ایک نیکی ہے لہذا آپ کے لئے حلال ہے اور اس کے لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
- عاریہ اور ودیعہ
عاریہ اور ودیعہ
س 1824: ایک کارخانہ اپنے تمام وسائل و آلات، خام مال اور ان چیزوں سمیت جو بعض افراد نے امانت کے طور پر اس کے سپرد کر رکھی تھیں جَل گیا ہے کیا کارخانے کا مالک ان کا ضامن ہے یا مینیجر ؟
ج : اگر آگ لگنے میں کوئی شخص ملوث نہ ہو اور کسی نے ان چیزوں کی حفاظت اور نگہداشت میں بھی کوتاہی نہ کی ہو تو کوئی شخص ان کا ضامن نہیں ہے ۔
س 1825: ایک شخص نے اپنا تحریری وصیت نامہ کسی دوسرے کے حوالے کیا تا کہ اس کی وفات کے بعد اس کے بڑے بیٹے کی تحویل میں دیدے لیکن وہ اسے بڑے بیٹے کی تحویل میں دینے سے انکار کرتا ہے کیا اس کا یہ کام امانت میں خیانت شمار ہوگا ؟
ج: امانت رکھنے والے کی طرف سے معین کردہ شخص کو امانت واپس نہ کرنا ایک قسم کی خیانت ہے ۔
س1826: فوجی ٹریننگ کی مدت کے دوران میں نے فوج سے اپنے ذاتی استفادے کے لئے کچھ اشیاء لیں لیکن ٹریننگ کی مدت ختم ہونے کے بعد میں نے وہ چیزیں واپس نہیں کیں، اس وقت ان کے سلسلے میں میری ذمہ داری کیا ہے ؟ کیا ان کی قیمت مرکزی بینک کے عمومی خزانے میں جمع کرادینا کافی ہے ؟
ج: وہ اشیا جو آپ نے فوج سے لی تھیں اگر بطور عاریہ تھیں تو اگر وہ موجود ہوں خود ان کا فوج کے اسی مرکز میں لوٹانا واجب ہے اور اگر ان کی نگہداشت و حفاظت میں آپ کی کوتاہی کی وجہ سے تلف ہوگئی ہوں اگرچہ ایسا واپس کرنے میں تاخیر کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہوا ہو تو فوج کو ان کی قیمت یا مثل ادا کرناضروری ہے ورنہ آپ کے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے ۔
س 1827: ایک امین شخص کو ایک شہر سے دوسرے میں منتقل کرنے کے لئے کچھ رقم دی گئی لیکن وہ راستے میں چوری ہوگئی کیا وہ شخص اس رقم کا ضامن ہے ؟
ج : جب تک یہ ثابت نہ ہوکہ اس شخص نے مال کی حفاظت میں کوتاہی کی تھی اس وقت تک وہ ضامن نہیں۔
س 1828: میں نے اہل محلہ کی طرف سے مسجد کے لئے دی گئی رقومات میں سے مسجد کی تعمیر اور اس کے لئے بعض وسائل جیسے لوہا و غیرہ ،خریدنے کی خاطر مسجد کے ٹرسٹ سے کچھ رقم لی لیکن راستے میں وہ میری ذاتی چیزوں سمیت گم ہوگئی اب میری ذمہ داری کیا ہے ؟
ج : اگر آپ نے اس کی حفاظت او رنگہداشت میں افراط و تفریط اور کوتاہی نہ کی ہو تو آپ ضامن نہیں ہیں۔
- وصیّت
وصیّت
س1829: بعض شہداء نے یہ وصیت کی ہے کہ ان کے ترکہ میں سے ایک تہائی دفاع مقدس کے محاذوں کی تقویت کے لئے صرف کیا جائے اب جبکہ ان وصیتوں کا موضوع ہی ختم ہوچکا ہے ان کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج : اگر وصیت کے عمل کا مورد ختم ہوجائے تو وہ مال ان کے ورثاء کی میراث قرار پائے گا اور احوط یہ ہے کہ ورثاء کی اجازت سے اسے کارخیر میں خرچ کیا جائے ۔
س1830: میرے بھائی نے وصیت کی کہ اس کے مال کا ایک تہائی حصہ ایک خاص شہر کے جنگ زدہ مہاجرین کے لئے صرف کیا جائے لیکن اس وقت مذکورہ شہر میں کوئی بھی جنگ زدہ مہاجر موجود نہیں ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج : اگر ثابت ہوجائے کہ جنگ زدہ مہاجرین سے موصی(وصیت کرنے والا) کی مراد وہ لوگ ہیں جو فی الحال اس شہر میں زندگی بسر کر رہے ہیں تو اس صورت میں چونکہ اس وقت اس شہر میں کوئی مہاجر نہیں ہے اس کا مال ورثاء کو ملے گا ۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو ضروری ہے کہ وہ رقم ان جنگ زدہ مہاجرین کو دی جائے جو اس شہر میں زندگی بسر کرتے تھے اگر چہ فی الحال وہ وہاں سے جاچکے ہوں ۔
س 1831: کیا کسی شخص کے لئے یہ وصیت کرنا جائز ہے کہ اس کے انتقال کے بعد اس کا آدھا مال اس کے ایصال ثواب کی مجلس میں خرچ کیا جائے یا یہ کہ اس مقدار کا معین کرنا جائز نہیں ہے ، کیونکہ اسلام نے ان موارد کے لئے خاص حدود کو معین کردیا ہے ؟
ج: وصیت کرنے والے کا اپنے اموال اپنے لئے ایصال ثواب کے کاموں میں خرچ کرنے کی وصیت کرنا کوئی اشکال نہیں رکھتا اور شرعی طور پر اس کے لئے کوئی خاص حد معین نہیں ہے لیکن میت کی وصیت اس کے ترکہ کے صرف ایک تہائی حصے میں نافذ ہے اور اس سے زیادہ میں تصرف کرنا ورثاء کی اجازت پرموقوف ہے۔
س 1832: کیا وصیت کرنا واجب ہے یعنی اگر انسان اسے ترک کرے تو گناہ کا مرتکب ہوگا ؟
ج : اگر اس کے پاس دوسروں کی امانتیں ہوں اور اس کے ذمے حقوق العباد اورحقوق اللہ ہوں اور اپنی زندگی کے دوران انہیں ادا کرنے کی توانائی نہ رکھتا ہو تو ان کے متعلق وصیت کرنا واجب ہے بصورت دیگر واجب نہیں ہے ۔
س1833: ایک شخص نے اپنے اموال کا ایک تہائی سے کم حصہ اپنی بیوی کو دینے کی وصیت کی اور اپنے بڑے بیٹے کو اپنا وصی قرار دیا لیکن دیگر ورثا اس وصیت پر معترض ہیں اس صورت میں وصی کی کیا ذمہ داری ہے ؟
ج : اگر وصیت ترکہ کے ایک تہائی یا اس سے کم حصے میں ہو تو ورثاء کا اعتراض صحیح نہیں ہے بلکہ ان پر واجب ہے کہ وہ وصیت کے مطابق عمل کریں ۔
س1834: اگر ورثاء ، وصیت کا سرے سے ہی انکار کردیں تو اس صورت میں کیا ذمہ داری ہے ؟
ج : وصیت کا دعوی کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ اسے شرعی طریقے سے ثابت کرے اور ثابت کردینے کی صورت میں اگر وصیت ترکہ کے ایک تہائی یا اس سے کمتر حصے میں ہو تو اس کے مطابق عمل کرنا واجب ہے اور ورثاء کا انکار اور اعتراض کوئی اثر نہیں رکھتا۔
س 1835: ایک شخص نے اپنے قابل اطمینان افراد کہ جن میں سے ایک خود اس کا بیٹا ہے کے سامنے وصیت کی کہ اس کے ذمہ جو شرعی حقوق ہیں جیسے خمس، زکوٰة ، کفارات اور اسی طرح اس کے ذمے جو بدنی واجبات ہیں جیسے نماز ، روزہ ، حج وغیرہ ان کی ادائیگی کے لئے اس کی بعض املاک اس کے ترکہ سے الگ کر لی جائیں لیکن اس کے بعض ورثاء اسے قبول نہیں کرتے بلکہ وہ بغیر کسی استثناء کے تمام املاک ورثاء کے درمیان تقسیم کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس سلسلے میں کیا حکم ہے ؟
ج : وصیت کے شرعی دلیل یا ورثاء کے اقرار کے ذریعہ ثابت ہوجانے کی صورت میں وہ املاک جن کی وصیت کی گئی ہے اگر پورے ترکہ کے ایک تہائی سے زیادہ نہ ہوں تو ورثا کو اس کی تقسیم کے مطالبے کا حق نہیں ہے بلکہ ان پر واجب ہے کہ وہ وصیت کے مطابق عمل کریں اور میت کے ذمہ جو مالی حقوق اور دیگر بدنی واجبات ہیں کہ جن کی میت نے وصیت کی ہے ان کی ادائیگی میں خرچ کریں بلکہ اگر شرعی طریقہ سے یا ورثاء کے اقرار کے ذریعہ ثابت ہوجائے کہ متوفی لوگوں کا مقروض ہے یا اس کے ذمہ خدا تعالیٰ کے مالی حقوق ہیں جیسے خمس، زکوٰة، کفارات یا اس کے ذمہ مالی و بدنی حقوق ہیں جیسے حج تو بھی ان پر واجب ہے کہ وہ اس کے پورے واجب الاداء امور اس کے اصل ترکہ سے ادا کریں اور پھر باقیماندہ ترکہ اپنے درمیان تقسیم کریں اگر چہ ان کے متعلق کوئی وصیت نہ بھی کی ہو ۔
س1836: ایک شخص جو ایک زرعی زمین کا مالک ہے، نے وصیت کی ہے کہ اس زمین کو مسجد کی تعمیر کے لئے استعمال کیا جائے لیکن اس کے ورثاء نے اسے فروخت کردیا ہے۔ کیا متوفیٰ کی وصیت نافذ ہے ؟ اور کیا ورثاء اس زمین کو بیچنے کا حق رکھتے ہیں ؟
ج: اگر وصیّت کا مضمون یہ ہو کہ خود زرعی زمین کو بیچ کر اس کی قیمت مسجد کی تعمیر میں صرف کی جائے اور زمین کی قیمت بھی ترکہ کے ایک تہائی حصہ سے زیادہ نہ ہو تو وصیت نافذ ہے اور زمین فروخت کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وصیت کرنے والے کی مراد یہ ہو کہ زمین کی آمدنی مسجد کی تعمیر میں خرچ کی جائے تو اس صورت میں ورثاء کو زمین فروخت کرنے کا حق نہیں ہے ۔
س1837: ایک شخص نے وصیت کی کہ اس کی اراضی میں سے ایک ٹکڑا اس کی طرف سے نماز و روزہ اور دوسرے نیک کام انجام دینے کے لئے استعمال کیا جائے۔ کیا اس زمین کا فروخت کرنا جائز ہے یا اسے وقف شمار کیا جائے گا ؟
ج : اگر جائیداد بیٹے کی تحویل میں دینے اور بیٹیوں کو معین رقم دینے کی وصیت صحیح اور شرعی طریقے سے انجام پائی ہو تو بہنوں میں سے ہرا یک اسی رقم کی مستحق ہے جس کی وصیت کی گئی ہے لیکن اگر ادا کرتے وقت رقم کی قیمت اس قیمت سے کم ہوگئی ہو جو وصیت کرنے والے کے فوت ہونے کے وقت تھی تو لازم ہے کرنسی کی قدر میں ہونے والی کمی کا حساب بھی کریں اور یہ سود کے حکم میں نہیں ہے ۔
س 1838: کیا جائز ہے کہ کچھ مال کو ترکہ کے ایک تہائی حصہ کے عنوان سے علیحدہ کر دیا جائے یا کسی شخص کے پاس امانت کے طور پر رکھ دیا جائے تا کہ اس کی وفات کے بعد خود اسی کے مصرف میں خرچ کیا جائے ؟
ج : اس کام میں اشکال نہیں ہے بشرطیکہ اس کی وفات کے بعد اس کے ورثاء کے لئے اس کے دوبرابر مال باقی رہے۔
س 1839: ایک شخص نے اپنے باپ کو وصیّت کی کہ کچھ مہینوں کی جو قضا نمازیں اور روزے اس کے ذمہ ہیں ان کی ادائیگی کے لئے کسی کو اجیر بنا دے، اس وقت خود وہ شخص لاپتہ ہوگیا ہے کیا اس کے باپ پر واجب ہے کہ وہ اس کی قضا نما زوں اور روزوں کے لئے کسی کو اجیر بنائے؟
ج: جب تک وصیت کرنے والے کی موت ،شرعی دلیل یا وصی کے علم کے ذریعہ ثابت نہ ہوجائے اس کی طرف سے اس کی قضا نمازوں اورروزوں کی ادائیگی کے لئے کسی کو اجیر بنانا صحیح نہیں ہے ۔
س1840: میرے والد نے اپنی زمین کے ایک تہائی حصے میں مسجد بنانے کی وصیت کی ہے لیکن اس زمین کے پڑوس میں دو مسجدیں موجود ہیں اور وہاں سکول کی سخت ضرورت ہے کیا جائز ہے کہ ہم مسجد کی جگہ وہاں سکول قائم کردیں؟
ج: مسجد کی جگہ سکول بنا کر وصیت کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر ان کا ارادہ خود اس زمین میں مسجد بنانا نہ ہو تو اسے فروخت کرکے اس کی رقم سے کسی ایسی جگہ مسجد بنانے میں حرج نہیں ہے کہ جہاں مسجد کی ضرورت ہے۔
س 1841: کیا جائز ہے کہ کوئی شخص یہ وصیت کرے کہ اس کی وفات کے بعد اس کا جسم میڈیکل کالج کے طالب علموں کو دے دیا جائے تا کہ اسے چیر کر اس سے تعلیم و تعلم کے لئے استفادہ کیا جائے یا چونکہ یہ کام مسلمان میت کے جسم کو مُثلہ کرنے کا موجب بنتا ہے لہذا حرام ہے؟
ج : ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مُثلہ اوراس جیسے دیگر امور کی حرمت پر جو دلیلیں ہیں وہ کسی اور چیز کی طرف ناظر ہیں اور جس چیز کے متعلق سوال کیا گیا ہے اس جیسے امور سے کہ جن میں میت کے بدن کو چیرنے میں اہم مصلحت موجود ہے، منصرف ہیں اور اگر مسلمان میت کے احترام کی شرط کہ جو اس جیسے مسائل میں اصل مسلّم ہے حاصل ہو تو ظاہراً بدن کے چیرنے میں اشکال نہیں ہے۔
س 1842: اگر کوئی شخص وصیت کرے کہ اس کے انتقال کے بعد اس کے بدن کے بعض اعضاء کسی ہسپتال یا کسی دوسرے شخص کو ہدیے کے طور پر دے دیئے جائیں تو کیا یہ وصیت صحیح ہے اور اس پر عمل کرنا واجب ہے؟
ج : اس قسم کی وصیتوں کا ان اعضاء کے متعلق صحیح اور نافذ ہونا بعید نہیں ہے کہ جنہیں میت کے بدن سے جدا کرنا اس کی بے حرمتی شمار نہ کیا جاتا ہو اور ایسے موارد میں وصیت پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
س 1843: اگر ورثاء ،وصیت کرنے والے کی زندگی میں ایک تہائی سے زیادہ میں اس کی وصیت کی اجازت دے دیں تو کیا یہ اس کے نافذ ہونے کے لئے کافی ہے؟ اور کافی ہونے کی صورت میں، کیا جائز ہے کہ وصیت کرنے والے کے انتقال کے بعد ورثاء اپنی اجازت سے عدول کرلیں؟
ج :وصیت کرنے والے کی زندگی میں ورثاء کا ایک تہائی سے زیادہ کی نسبت اجازت دینا وصیت کے نافذ اور صحیح ہونے کے لئے کافی ہے اور اس کی وفات کے بعد انہیں اس سے عدول کرنے کاحق نہیں ہے اور ان کے عدول کا کوئی اثر نہیں ہے۔
س 1844: ایک شہید نے اپنی قضا نمازوں اور روزوں کے بارے میں وصیت کی ہے لیکن اس کا کوئی ترکہ نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو صرف گھر اور گھریلو سامان کہ جنہیں فروخت کرنے کی صورت میں اس کے نابالغ بچوں کے لئے عسر و حرج لازم آتا ہے۔ اس وصیت کے بارے میں اس کے ورثاء کی کیا ذمہ داری ہے؟
ج: اگر اس شہید کا ترکہ اور میراث نہیں ہے تو اس کی وصیت پر عمل کرنا واجب نہیں ہے ، لیکن اس کے بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ بالغ ہونے کے بعد باپ کی قضا نمازوں اور روزوں کو بجالائے لیکن اگر اس کا ترکہ موجود ہے تو واجب ہے کہ اس کا تیسرا حصہ اس کی وصیت کے سلسلے میں خرچ کیا جائے اور فقط ورثاء کا ضرورت مند اور صغیر ہونا وصیت پر عمل نہ کرنے کا عذر شرعی نہیں بن سکتا ۔
س 1845: کیا مال کے بارے میں وصیت کے صحیح اور نافذ ہونے کے لئے موصیٰ لہ(جس کے لئے وصیت کی گئی ہے) کا وصیت کے وقت موجود ہونا شرط ہے؟
ج : کسی شے کی تملیک کی وصیت میں موصیٰ لہ کاوصیت کے وقت وجود شرط ہے اگر چہ وہ جنین کی صورت میں ماں کے رحم میں ہو حتی اگر اس جنین میں ابھی روح پھونکی نہ گئی ہو لیکن شرط یہ ہے کہ وہ زندہ دنیا میں آئے۔
س1846: وصیت کرنے والے نے اپنی وصیتوں کو عملی جامہ پہنا نے کے لئے اپنی تحریری وصیت میں وصی منصوب کرنے کے علاوہ ایک شخص کو نگراں کے طور پر منتخب کیا ہے لیکن اس کے اختیارات کے سلسلے میں وضاحت نہیں کی یعنی معلوم نہیں ہے کہ اس کی نگرانی سے مراد صرف وصی کے کاموں سے مطلع ہونا ہے تا کہ وہ وصیت کرنے والے کے مقرر کردہ طریقہ کے خلاف عمل نہ کرے یا یہ کہ وصیت کرنے والے کے کاموں کے سلسلے میں رائے کا مالک ہے اور وصی کے کاموں کا اس نگراں کی رائے اور صوابدید کے مطابق انجام پانا ضروری ہے اس صورت میں نگراں کے اختیارات کیا ہیں؟
ج : اگر وصیت مطلق ہے تو وصی پر واجب نہیں ہے کہ وہ اس کے امور میں نگراں کے ساتھ مشاورت کرے ، اگرچہ احوط یہی ہے اور نگراں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ وصی کے کاموں سے مطلع ہونے کے لئے نگرانی کرے۔
س 1847: ایک شخص اپنے بڑے بیٹے کو وصی اور مجھے اس پر نگراں بناکر فوت ہو گیا پھر اس کا بیٹا بھی وفات پاگیا اور اس کی وصیت کو عملی جامہ پہنانے کا واحد ذمہ دار میں بن گیا لیکن اس وقت اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے میرے لئے اس کے وصیت کردہ امور کو انجام دینا مشکل ہوگیا ہے۔ کیا میرے لئے وصیت کردہ امور کو تبدیل کرنا جائز ہے کہ میں اس کے ترکہ کے تیسرے حصے سے حاصل ہونے والی آمدنی محکمہ حفظان صحت کو دے دوں تا کہ وہ اسے بھلائی کے کاموں اور اپنے زیر کفالت ضرورتمند افراد پر کہ جو مدد اور تعاون کے مستحق ہیں خرچ کر دے؟
ج : نگراں بطور مستقل میت کی وصیتوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا حتی کہ وصی کی موت کے بعدبھی مگر یہ کہ وصیت کرنے والے نے وصی کی موت کے بعد نگراں کووصی قرار دیا ہو اور اگر ایسا نہیں ہے تو وصی کی موت کے بعد ضروری ہے کہ وہ حاکم شرع کی طرف رجوع کرے تا کہ وہ کسی دوسرے شخص کو اسکی جگہ مقرر کرے بہرحال میت کی وصیت سے تجاوز اور اس میں رد و بدل کرنا جائز نہیں ہے ۔
س 1848: اگر ایک شخص وصیت کرے کہ اس کے اموال کا کچھ حصہ نجف اشرف میں تلاوت قرآن کی غرض سے خرچ کیا جائے یا وہ اپنا کچھ مال اس کام کیلئے وقف کردے اور وصی یا وقف کے متولی کیلئے نجف اشرف میں کسی کو تلاوت قرآن کیلئے اجیر بناکر وہاں مال بھیجنا ممکن نہ ہو تو اس سلسلے میں اس کی ذمہ داری کیا ہے؟
ج: اگر مستقبل میں بھی اس مال کا نجف اشرف میں تلاوت قرآن کے لئے خرچ کرنا ممکن ہو تو واجب ہے کہ وصیت کے مطابق عمل کیا جائے۔
س1849: میری والدہ نے اپنی وفات سے پہلے وصیت کی کہ میں ان کا سونا جمعراتوں میں نیک کاموں میں صرف کروں اور میں اب تک اس کام کو انجام دیتا رہا ہوں لیکن بیرون ممالک کے سفر کے دوران کہ جن کے باشندوں کے بارے میں زیادہ احتمال یہ ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں میری ذمہ داری کیا ہے؟
ج: جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ صرف کرنے سے ان کی مراد مسلم اور غیر مسلم دونوں پر خرچ کرنا تھا تو واجب ہے کہ وہ مال صرف مسلمانوں پر بھلائی کے کاموں میں خرچ کیا جائے اگر چہ اس کے لئے یہ مال کسی اسلامی سرزمین میں ایک امین شخص کے پاس رکھناپڑے جو اسے مسلمانوں پر صرف کرے۔
س 1850: ایک شخص نے وصیت کی کہ اس کی کچھ زمین بیچ کر اسکی رقم عزاداری اور نیکی کے کاموں میں خرچ کی جائے لیکن ورثاء کے علاوہ کسی دوسرے کو بیچنا ورثا کیلئے مشکل اور زحمت کا سبب بنے گا کیونکہ مذکورہ زمین اور دوسری زمینوں کو علیحدہ کرنے میں بہت سی مشکلات ہیں۔ کیا جائز ہے کہ خود ورثاء اس زمین کو قسطوں پر خریدلیں اور ہر سال اس کی کچھ قیمت ادا کرتے رہیں تاکہ اسے وصی اور نگراں کی نگرانی میں وصیت کے مورد میں خرچ کیا جائے؟
ج: ورثاء کے لئے وہ زمین اپنے لئے خریدنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اوراسے قسطوں پر اور عادلانہ قیمت کے ساتھ خرید نے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب یہ بات ثابت نہ ہوکہ وصیت کرنے والے کی مراد یہ تھی کہ اس کی زمین کو نقد بیچ کر اسی سال اس کی قیمت مورد وصیت میں خرچ کی جائے نیز اس کی شرط یہ ہے کہ وصی اور نگراں بھی اس کام میں مصلحت سمجھتے ہوں اور قسطیں بھی اس طرح نہ ہوں کہ وصیت نظر انداز ہوجائے اور اس پرعمل نہ ہو پائے۔
س1851: ایک شخص نے جان لیوا بیماری کی حالت میں دو آدمیوں سے وصی اور نائب وصی کے طور پر وصیت کی لیکن بعد میں اپنی رائے تبدیل کر کے وصیت کو باطل کر دیا اور وصی اور اس کے نائب کو اس سے آگاہ کردیا اور ایک دوسرا وصیت نامہ لکھا کہ جس میں اپنے ایک ایسے رشتہ دار کو اپنا وصی قرار دیا جو غائب ہے، کیا اس عدول اور تبدیلی کے بعد بھی پہلی وصیت اپنی حالت پر باقی اور معتبر ہے؟ اور اگر دوسری وصیت صحیح ہے اور وہ غائب شخص وصی ہے تو اگر معزول وصی اور اس کا نائب وصیت کرنے والے کی باطل کردہ وصیت کا سہارا لے کر اس پر عمل کریں تو کیا ان کا یہ عمل اور تصرف ظالمانہ شمار ہوگا اور کیا ان پر واجب ہے کہ جو کچھ انہوں نے میت کے مال سے خرچ کیا ہے وہ دوسرے وصی کو لوٹائیں؟
ج: اگر میت نے اپنی زندگی میں پہلی وصیت سے عدول کر لیا ہو اور اس نے پہلے وصی کو بھی معزول کردیا ہو تو معزول ہونے والا وصی اپنے معزول ہونے سے آگاہ ہونے کے بعد پہلی وصیت کا سہارا لے کر اس پر عمل کرنے کا حق نہیں رکھتا لہذا وصیت سے متعلق مال کے سلسلے میں اس کے تصرفات فضولی شمار ہونگے اور وصی کی اجازت پر موقوف ہونگے اور اگر وصی انکی اجازت نہ دے تو معزول ہونے والا وصی ان اموال کا ضامن ہوگا جو اس نے خرچ کئے ہیں۔
س1852: ایک شخص نے وصیت کی ہے کہ اس کی جائیداد میں سے ایک ملک اس کے بیٹے کی ہے پھر دو سال کے بعد اس نے اپنی وصیت کو مکمل طور پر بدل دیا۔ کیا اس کا پہلی وصیت سے دوسری وصیت کی طرف عدول کرنا شرعی طور پر صحیح ہے؟ اس صورت میں کہ جب یہ شخص بیمار ہو اور اسے خدمت و نگہداری کی ضرورت ہو ، کیا یہ ذمہ داری اس کے مقرر کردہ وصی یعنی اس کے بڑے بیٹے کی ہے یا یہ کہ یہ ذمہ داری اس کے تمام بچوں پر مساوی طور پر عائد ہوتی ہے؟
ج: جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اور اس کا ذہنی توازن صحیح و سالم ہے تو شرعی طور پر اس کا اپنی وصیت سے عدول کرنا کوئی اشکال نہیں رکھتا اور شرعی لحاظ سے صحیح اور معتبر بعد والی وصیت ہوگی اور اگر بیمار اپنی خدمت کے لئے کوئی نوکر رکھنے پر قادر نہ ہو تو بیمار کی خدمت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری اس کے ان تمام بچوں پر بطور مساوی ہے جو اس کی نگہداری کی قدرت رکھتے ہیں اور یہ صرف وصی کی ذمہ داری نہیں ہے۔
س1853: ایک باپ نے اپنے ایک تہائی اموال کی اپنے لئے وصیت کی ہے اور مجھے اپنا وصی بنایا ہے، میراث تقسیم کرنے کے بعد ایک تہائی مال الگ رکھ دیا ہے. کیا میں اس کی وصیت کو پورا کرنے کے لئے ایک تہائی مال سے کچھ مقدار کو بیچ سکتا ہوں؟
ج: اگر اس نے وصیت کی ہو کہ اس کا ایک تہائی مال اس کی وصیت کو پورا کرنے کیلئے خرچ کیا جائے تو ترکہ سے جدا کرنے کے بعد اس کے بیچنے اور وصیت نامہ میں ذکر کئے گئے موارد میں خرچ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وصیت یہ کی ہو کہ ایک تہائی اموال سے حاصل ہونے والی آمدنی کے ذریعہ اس کی وصیت کو پورا کیا جائے تو اس صورت میں خود ایک تہائی مال کو فروخت کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ یہ وصیت کے موارد میں خرچ کیلئے ہو۔
س1854: اگر وصیت کرنے والا، وصی اور نگراں کو معین کرے، لیکن ان کے اختیارات اور فرائض کو ذکر نہ کرے اور اسی طرح اپنے ایک تہائی اموال اور ان کے مصارف کا بھی ذکر نہ کرے تو اس صورت میں وصی کی ذمہ داری کیا ہے؟ کیا جائز ہے کہ وصی اس کے ترکہ سے ایک تہائی اموال الگ کر کے نیکی کے کاموں میں خرچ کردے؟ کیا صرف وصیت کرنے اور وصی کے معین کرنے سے وصی کو یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ وصیت کرنے والے کے ترکہ سے ایک تہائی اموال کو جدا کرے تا کہ اس پر ایک تہائی اموال الگ کر کے انہیں وصیت کرنے والے کیلئے خرچ کرنا واجب ہو؟
ج: اگر قرائن و شواہد یا وہاں کے مقامی عرف کے ذریعہ وصیت کرنے والے کا مقصود معلوم ہوجائے تو واجب ہے کہ وصی وصیت کے مورد کی تشخیص اور وصیت کرنے والے کے مقصود کہ جسے وہ ان ذرائع سے سمجھا ہے کے مطابق عمل کرے ورنہ وصیت مبہم اور متعلقِ وصیت کے ذکر نہ کرنے کی بناپر باطل اور لغو قرار پائے گی۔
س 1855: ایک شخص نے اس طرح وصیت کی ہے کہ : " تمام سلائی شدہ اور غیر سلائی شدہ کپڑے و غیرہ میری بیوی کے ہیں" کیا کلمہ ' 'و غیرہ " سے مراد اس کے منقولہ اموال ہیں یا وہ چیزیں مراد ہیں جو لباس اور کپڑے سے کمتر ہیں جیسے جوتے اور اس جیسی چیزیں؟
ج: جب تک وصیت نامہ میں مذکور کلمہ " وغیرہ " سے اس کی مراد معلوم نہ ہوجائے اور کسی دوسرے قرینے سے بھی وصیت کرنے والے کی مراد سمجھ میں نہ آئے تو وصیت نامہ کا یہ جملہ مبہم ہونے کی بنا پر قابل عمل نہیں ہے اور سوال میں بیان کئے گئے احتمالات پر اس کی تطبیق کرنا ورثاء کی رضامندی اور موافقت پر موقوف ہے۔
س1856: ایک عورت نے وصیت کی کہ اس کے ترکے کے ایک تہائی مال سے اس کی آٹھ سال کی قضا نمازیں پڑھائی جائیں اور باقی مال رد مظالم ، خمس اور دوسرے نیک کاموں میں خرچ کیا جائے۔ چونکہ اس وصیت پر عمل کرنے کا زمانہ دفاع مقدس کا زمانہ تھا کہ جس میں محاذ جنگ پر مدد پہنچانا بہت ضروری تھا اور وصی کو یہ یقین ہے کہ عورت کے ذمہ ایک بھی قضا نماز نہیں ہے لیکن پھر بھی اس نے دو سال کی نمازوں کے لئے ایک شخص کو اجیر بنایا اور ایک تہائی مال کا کچھ حصہ محاذ جنگ پر مدد کیلئے بھیج دیا اور باقی مال خمس ادا کرنے اور رد مظالم میں خرچ کردیا ۔کیا وصیت پر عمل کرنے کے سلسلے میں وصی کے ذمہ کوئی چیز باقی ہے؟
ج: وصیت پر اسی طرح عمل کرنا واجب ہے جس طرح میت نے کی ہے اور کسی ایک مورد میں بھی وصی کے لئے وصیت پر عمل کو ترک کرنا جائز نہیں ہے لہذا اگر کچھ مال وصیت کے علاوہ کسی اور جگہ میں خرچ کیا ہو تو وہ اس مقدار کاضامن ہے ۔
س 1857: ایک شخص نے دو آدمیوں کو وصیت کی کہ اس کی وفات کے بعد جو کچھ وصیت نامہ میں ذکر ہوا ہے اس کے مطابق عمل کریں اور وصیت نامہ کی تیسری شق میں یوں لکھا ہے کہ وصیت کرنے والے کا تمام ترکہ ۔چاہے وہ منقولہ ہو یا غیر منقولہ ، نقد رقم ہو یا لوگوں کے پاس قرض کی صورت میں ۔ جمع کیا جائے اور اس کا قرض اس کے اصل ترکہ سے ادا کرنے کے بعد ، اس کا ایک تہائی حصہ جدا کر کے وصیت نامہ کی شق نمبر٤، ٥ اور ٦ کے مطابق خرچ کیا جائے، اور سترہ سال کے بعد اس ایک تہائی حصے کاباقی ماندہ اس کے فقیر ورثاء پر خرچ کیا جائے لیکن وصیت کرنے والے کے دونوں وصی اس کی وفات سے لے کر اس مدت کے ختم ہونے تک اس کے مال کا ایک تہائی حصہ جدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور ان کے لئے مذکورہ شقوق پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ورثاء مدعی ہیں کہ مذکورہ مدت ختم ہونے کے بعد وصیت نامہ باطل ہوچکا ہے اور اب وہ دونوں و صی وصیت کرنے والے کے اموال میں مداخلت کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ اس مسئلہ کا حکم کیا ہے؟ اور ان دونوں وصیوں کی کیا ذمہ داری ہے ؟
ج : وصیت پر عمل کرنے میں تاخیر سے وصیت اور وصی کی وصایت ( وصی کا وصی ہونا) باطل نہیں ہوتا بلکہ ان دو وصیوں پر واجب ہے کہ وہ وصیت پر عمل کریں اگر چہ اس کی مدت طولانی ہوجائے اور جب تک ان کی وصایت ایسی خاص مدت تک نہ ہو جو ختم ہوگئی ہو اس وقت تک ورثاء کو حق نہیں ہے کہ وہ ان دونوں کیلئے وصیت پر عمل کرنے میں رکاوٹ بنیں۔
س 1858: میت کے ورثاء کے درمیان ترکہ تقسیم ہونے اور ان کے نام ملکیت کی دستاویز جاری ہونے کے چھ سال گزرنے کے بعد ورثاء میں سے ایک یہ دعویٰ کرتا ہے کہ متوفیٰ نے زبانی طور پر اسے وصیت کی تھی کہ گھر کا کچھ حصہ اس کے ایک بیٹے کو دیا جائے اور بعض عورتیں بھی اس امر کی گواہی دیتی ہیں۔ کیا مذکورہ مدت گزرنے کے بعد اس کا یہ دعویٰ قابل قبول ہے ؟
ج: اگر شرعی دلیل سے وصیت ثابت ہوجائے تو وقت گزرنے اور ترکہ کی تقسیم کے قانونی مراحل طے ہوجانے سے وصیت کے قابل قبول ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔نتیجةً اگر مدعی اپنے دعوے کو شرعی طریقے سے ثابت کردے تو سب پر واجب ہے کہ اس کے مطابق عمل کریں اور اگر ایسا نہ ہو تو جس شخص نے اسکے صحیح ہونے کا اقرار کیا ہے اس پر واجب ہے کہ وہ اس کے وصیت کے مطابق اور ترکہ میں سے اپنے حصے کی مقدار میں اس پر عمل کرے ۔
س 1859 : ایک شخص نے دوآدمیوں کو وصیت کی کہ اس کی اراضی میں سے ایک ٹکڑا فروخت کر کے اس کی نیابت میں حج بجالائیں اور اپنے وصیت نامہ میں اس نے ان میں سے ایک کو اپنا وصی اور دوسرے کو اس پر نگران مقرر کیا ہے۔ اس دوران ایک تیسرا شخص سامنے آیا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے وصی اور نگران کی اجازت کے بغیر اس کی نیابت میں حج انجام دے دیا ہے۔ اب وصی فوت ہوچکا ہے اور نگران زندہ ہے کیا نگران کے لئے ضروری ہے کہ وہ زمین کی رقم سے میت کی طرف سے دوبارہ فریضہ حج بجا لائے؟ یا اس پر واجب ہے کہ زمین کی رقم اس شخص کو دے دے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے میت کی نیابت میں فریضۂ حج ادا کردیا ہے یا اس سلسلے میں اس پر کچھ واجب نہیں ہے ؟
ج: اگر میت پر حج واجب ہو او وہ نائب کے ذریعے حج کی انجام دہی کی وصیت کر کے بریٴ الذمہ ہونا چاہتا ہو تو اگر تیسرا شخص میت کی نیابت میں حج بجا لے آئے تو اس کے لئے کافی ہے لیکن اس شخص کو کسی سے اجرت طلب کرنے کا حق نہیں ہے بصورت دیگر نگران اور وصی کیلئے ضروری ہے کہ وہ وصیت پر عمل کریں اور زمین کی رقم سے اس کی طرف سے فریضۂ حج کو بجالائیں اور اگر وصی، وصیت پر عمل کرنے سے پہلے مرجائے تو نگراں پر واجب ہے کہ وصیت کو عملی جامہ پہنانے کیلئے حاکم شرع کی طرف رجوع کرے ۔
س 1860: کیا ورثاء، وصی کو میت کی قضا نمازوں اور روزوں کے ادا کرنے کے لئے کوئی مخصوص رقم ادا کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں ؟ اور اس سلسلے میں وصی کی کیا ذمہ داری ہے ؟
ج: میت کی وصیتوں پر عمل کرنا وصی کی ذمہ داریوں کا حصہ ہے اور ضروری ہے کہ جس مصلحت کو تشخیص دے اسی کی بنیاد پر عمل کرے اور ورثاء کو اس میں مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے ۔
س 1861: تیل کے ذخائر پر بمباری کے موقع پر وصیت کرنے والے کی شہادت ہوجاتی ہے اور تحریری وصیت جو اس کے ہمراہ تھی وہ بھی اس حادثے میں جل جاتی ہے یا گم ہوجاتی ہے اور کوئی بھی اس کے متن اور مضمون سے آگاہ نہیں ہے۔ اس وقت وصی نہیں جانتا کہ کیا وہ اکیلا اس کا وصی ہے یا کوئی دوسرا شخص بھی ہے ، اس صورت میں اس کی ذمہ داری کیا ہے ؟
ج: اصل وصیت کے ثابت ہونے کے بعد، وصی پر واجب ہے کہ جن موارد میں اسے تبدیلی کا یقین نہیں ہے ان میں وصیت کے مطابق عمل کرے اور اس احتمال کی پروا نہ کرے کہ ممکن ہے کوئی دوسرا وصی بھی ہو ۔
س 1862: کیا جائز ہے کہ وصیت کرنے والا اپنے ورثاء کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنے وصی کے طور پر منتخب کرے؟ اور کیا کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کے اس کام کی مخالفت کرے ؟
ج : ان افراد کے درمیان میں سے وصی کو منتخب اور مقرر کرنے کا دار و مدار کہ جنہیں وصیت کرنے والا اس کام کے لائق سمجھتا ہے خود اس کی رائے پر ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ وہ اپنے ورثاء کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا وصی بنائے اور اس کے ورثاء کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے ۔
س 1863: کیا جائز ہے کہ بعض ورثاء دوسروں کے ساتھ مشورہ کئے بغیر یا وصی کی موافقت حاصل کرنے کیلئے میت کے اموال سے وصی کی دعوت کے طور پر اس کے لئے انفاق کریں ؟
ج: اگر اس کام سے ان کی نیت وصیت پر عمل کرنا ہے تو اسکا انجام دینا میت کے وصی کے ذمہ ہے اور انہیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وصی کی موافقت کے بغیر اپنے طور پر یہ کام کریں اور اگر ان کا ارادہ یہ ہے کہ میت کے ورثاء کی میراث میں سے خرچ کریں تو اس کے لئے بھی تمام ورثاء کی اجازت ضروری ہے اور اگر وہ راضی نہ ہوں تو دوسرے ورثاء کے حصے کی نسبت یہ کام غصب کے حکم میں ہے۔
س 1864: وصیت کرنے والے نے اپنے وصیت نامہ میں ذکر کیا ہے کہ فلاں شخص اس کا پہلا وصی ، زید دوسرا وصی اور خالد تیسرا وصی ہے کیا تینوں اشخاص باہمی طور پر اس کے وصی ہیں یا یہ کہ صرف پہلا شخص اس کا وصی ہے؟
ج: یہ چیز وصیت کرنے والے کی نظر اور اس کے قصد کے تابع ہے اورجب تک قرائن و شواہد کے ذریعہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس کی مراد تین اشخاص کی اجتماعی وصایت ہے یا ترتیبی وصایت ، ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس پر اجتماعی طور پر عمل کریں ۔
س1865: اگر وصیت کرنے والا تین افراد کو اجتماعی طور پر اپنا وصی مقرر کرے لیکن وہ لوگ وصیت پر عمل کرنے کے طریقہ کار پر متفق نہ ہوں تو ان کے درمیان اس اختلاف کو کیسے حل کیا جائے ؟
ج : اگر وصی متعدد ہوں اور وصیت پر عمل کرنے کے طریقے میں اختلاف ہوجائے تو ان پر واجب ہے کہ حاکم شرع کی طرف رجوع کریں ۔
س 1866: میں اپنے باپ کا بڑا بیٹاہوں اور شرعی طور پر ان کی قضا نمازوں اور روزوں کو بجا لانے کا ذمہ دار ہوں اگر میرے باپ کے ذمہ کئی سال کی قضا نمازیں اور روزے ہوں لیکن انہوں نے وصیت کی ہو کہ ان کے لیے صرف ایک سال کی قضا نمازیں اور روزے ادا کئے جائیں تواس صورت میں میری ذمہ داری کیا ہے ؟
ج: اگر میت نے وصیت کی ہو کہ اس کی قضا نمازوں اور روزوں کی اجرت اس کے ایک تہائی ترکہ سے ادا کی جائے تو ایک تہائی ترکہ سے کسی شخص کو اسکی نمازوں اور روزوں کیلئے اجیر بنانا جائز ہے اور اگر اس کے ذمہ قضا نمازیں اور روزے اس مقدار سے زیادہ ہوں کہ جس کی اس نے وصیت کی ہے تو آپ پر ان کا بجالانا واجب ہے اگر چہ اس کے لئے آپ اپنے اموال سے کسی کو اجیر بنائیں۔
س 1867: ایک شخص نے اپنے بڑے بیٹے کو وصیت کی ہے کہ اس کی اراضی میں سے ایک مخصوص ٹکڑا فروخت کر کے اس کی رقم سے اس کی طرف سے حج بجالائے اور اس نے بھی یہ عہد کیا کہ باپ کی طرف سے حج بجا لائے گا لیکن ادارہ حج و زیارات کی طرف سے سفرِ حج کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے وہ حج انجام نہیں دے سکا اور اس وقت چونکہ حج کے اخراجات بڑھ گئے ہیں اس لئے اس زمین کی رقم سے حج پر جانا ممکن نہیں ہے لہذا باپ کی وصیت پر بڑے بیٹے کا عمل کرنا اس وقت ناممکن ہوگیا ہے او وہ کسی دوسرے کو حج انجام دینے کیلئے نائب بنا نے پر مجبور ہے لیکن زمین کی رقم نیابت کی اجرت کیلئے کافی نہیں ہے کیا باقی ورثاء پر واجب ہے کہ باپ کی وصیت پر عمل کرنے کے لئے اس کے ساتھ تعاون کریں یا یہ کہ صرف بڑے بیٹے پر اس کا انجام دینا واجب ہے کیوں کہ بہرحال بڑے بیٹے کیلئے باپ کی طرف سے فریضہ حج کو انجام دینا ضروری ہے؟
ج : سوال کی روشنی میں حج کے اخراجات دیگرورثاء پر واجب نہیں ہیں لیکن اگر وصیت کرنے والے کے ذمے میں حج مستقر ہوچکاہے اور زمین کی وہ رقم جو نیابتی حج انجام دینے کیلئے معین کی گئی ہے وہ میقات سے نیابتی حج کے اخراجات ادا کرنے کیلئے بھی کافی نہ ہو تو اس صورت میں واجب ہے کہ حج میقاتی کے اخراجات اصل ترکے سے پورے کئے جائیں ۔
س1868: اگر ایسی رسید موجود ہو جس سے یہ معلوم ہو کہ میت نے اپنے شرعی حقوق ادا کئے ہیں یا کچھ لوگ گواہی دیں کہ وہ اپنے حقوق ادا کرتا تھا تو کیا ورثاء پر اس کے ترکہ سے اس کے شرعی حقوق ادا کرنا واجب ہے ؟
ج : محض رسید کا موجود ہونا اور گواہوں کا گواہی دینا کہ وہ اپنے حقوقِ شرعی ادا کرتا تھا میت کے بری الذمہ ہونے پر حجت شرعی نہیں ہے اور اسی طرح اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہوگا کہ اس کے مال میں حقوق شرعی نہیں تھے لہذا اگر اس نے اپنی حیات کے دوران یا وصیت نامہ میں اس بات کا اعتراف کیا ہو کہ وہ کچھ مقدار میں حقوق شرعی کا مقروض ہے یا اس کے ترکہ میں حقوق شرعی موجود ہیں یا ورثاء کو اس کا یقین حاصل ہوجائے تو ان پرواجب ہے کہ جس مقدار کا میت نے اقرار کیا ہے یا جس مقدار کا انہیں یقین حاصل ہوگیا ہے اسے میت کے اصل ترکہ سے ادا کریں ورنہ ان پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔
س 1869: ایک شخص نے اپنے ایک تہائی اموال کی اپنے لئے وصیت کی اور اپنے وصیت نامہ کے حاشیہ پر قید لگادی کہ باغ میں جو گھر ہے وہ ایک تہائی حصہ کے مصارف کیلئے ہے اور اس کی وفات کے بیس سال گزرنے کے بعد وصی کیلئے ضروری ہے کہ وہ اسے بیچ کر اس کی رقم اس کے لئے خرچ کرے کیا ایک تہائی حصہ اس کے پورے ترکہ یعنی گھر اور اسکے دیگر اموال سے حساب کیا جائیگا تاکہ اگر گھر کی قیمت ایک تہائی مقدار سے کمتر ہو تو اسے اس کے دیگر اموال سے پورا کیا جائے یا یہ کہ ایک تہائی حصہ صرف اس کا گھر ہے اور ورثاء سے تہائی حصہ کے عنوان سے دوسرے اموال نہیں لیئے جائیں گے ؟
ج : جو کچھ میت نے وصیت نامے اور اس کے حاشیہ میں ذکر کیا ہے اگر اس سے اس کا مقصود صرف اپنے گھر کو ایک تہائی کے عنوان سے اپنے لئے معین کرنا ہو اور وہ گھر بھی میت کا قرض ادا کرنے کے بعد اس کے مجموعی ترکہ کے ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو تو اس صورت میں صرف گھر ایک تہائی ہے اور وہ میت سے مختص ہے اور یہی حکم اس صورت میں بھی ہے کہ جب ا س نے اپنے لئے ترکہ کے ایک تہائی کی وصیت کے بعد گھر کو اس کے مصارف کیلئے معین کیا ہو اور اس گھر کی قیمت میت کے قرض کو ادا کرنے کے بعد باقی بچنے والے ترکہ کا ایک تہائی ہواوراگر ایسا نہ ہو تو ضروری ہے کہ ترکے کے دوسرے اموال میں سے اتنی مقدار گھر کی قیمت کے ساتھ ملائی جائے کہ انکی مجموعی مقدار ترکے کے ایک تہائی کے برابر ہوجائے؟
س 1870: ترکہ کو تقسیم کئے ہوئے بیس سال گزر گئے ہیں اور چار سال پہلے میت کی بیٹی اپنا حصہ فروخت کرچکی ہے اب ماں نے ایک وصیت نامہ ظاہر کیا ہے جس کی بنیاد پر شوہر کے تمام اموال اس کی بیوی کے متعلق ہیں اور اسی طرح اس نے اعتراف کیا ہے کہ یہ وصیت نامہ اس کے شوہر کی وفات کے وقت سے اس کے پاس تھا لیکن اس نے ابھی تک کسی کو اس سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ کیا اسکی بنا پر میراث کی تقسیم اور میت کی بیٹی کا اپنے حصے کو فروخت کرنا باطل ہوجائے گا ؟ اور باطل ہونے کی صورت میں ، کیا اس ملک کی قانونی دستاویز کو جسے تیسرے شخص نے میت کی بیٹی سے خریدا ہے ، میت کی بیٹی اور اس کی ماں کے درمیان اختلاف کی وجہ سے باطل کرنا صحیح ہے ؟
ج: مذکورہ وصیت کے صحیح ہونے اور دلیل معتبر کے ذریعہ اس کے ثابت ہونے کی صورت میں، چونکہ ماں کو اپنے شوہر کی وفات سے لے کر ترکہ کی تقسیم تک اس وصیت کے بارے میں علم تھا اور بیٹی کو اس کا حصہ دیتے وقت اور اس کا اپنے حصے کو کسی دوسرے کو فروخت کے وقت ، وصیت نامہ ماں کے پاس تھا لیکن اس کے باوجود اس نے وصیت کے بارے میں خاموشی اختیار کی اور بیٹی کو اس کا حصہ دینے پرکوئی اعتراض نہیں کیا جبکہ وہ اعتراض کر سکتی تھی اور اعتراض کرنے سے کوئی چیز مانع بھی نہ تھی اور اسی طرح جب بیٹی نے اپنا حصہ فروخت کیا تب بھی اس نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا یہ تمام چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ماں لڑکی کے میراث کا حصہ لینے اور پھر اسکے فروخت کرنے پر راضی تھی ۔ اس کے بعد ماں کو حق حاصل نہیں ہے کہ جو کچھ اس نے لڑکی کو دیا ہے اس کا مطالبہ کرے اسی طرح و ہ خریدار سے بھی کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرسکتی اور اسکی لڑکی نے جو معاملہ کیا ہے وہ صحیح ہے اور بیچی گئی چیز بھی خریدار کی ملکیت ہے۔
س 1871: ایک شہید نے اپنے باپ کو وصیت کی کہ اگر اس کے قرض کی ادائیگی اس کا مکان فروخت کئے بغیر ممکن نہ ہو تو مکان بیچ دے اور اس کی رقم سے قرض ادا کرے۔ اسی طرح اس نے یہ بھی وصیت کی کہ کچھ رقم نیک کاموں میں خرچ کی جائے اور زمین کی قیمت اس کے ماموں کو دی جائے اور اس کی ماں کو حج پر بھیجے اور کچھ سالوں کی قضا نمازیں اور روزے اس کی طرف سے بجالائے جائیں پھر اس کے بعد اس کے بھائی نے اس کی بیوی سے شادی کرلی اور اس بات سے آگاہ ہونے کے ساتھ کہ گھر کا ایک حصہ شہید کی بیوی نے خرید لیا ہے وہ اس گھر میں رہائش پذیر ہوگیا اور اس نے مکان کی تعمیر کیلئے کچھ رقم بھی خرچ کردی اور شہید کے بیٹے سے سونے کا ایک سکہ بھی لے لیا تا کہ اسے گھر کی تعمیر کیلئے خرچ کرے۔ شہید کے گھر اور اسکے بیٹے کے اموال میں اسکے تصرفات کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ اس امر کے پیش نظر کہ اس نے شہید کے بیٹے کی تربیت کی ہے اور اسکے اخراجات پورے کئے ہیں اس کا اس ماہانہ وظیفہ سے استفادہ کرنا جو شہید کے بیٹے سے مخصوص ہے کیا حکم رکھتاہے؟
ج : واجب ہے کہ اس شہید عزیز کے تمام اموال کا حساب کیا جا ئے اور اس کے تمام مالی واجب الاداء امور اسی سے ادا کرنے کے بعد ، اس کے باقیماندہ ترکہ کا ایک تہائی حصہ اس کی وصیت پر عمل کرنے کیلئے خرچ کیا جائے چنانچہ قضا نمازوں اور روزوں کے سلسلے میں اس کی وصیتوں کو پورا کیا جائے ،اس کی ماں کو سفرحج کے لئے اخراجات فراہم کئے جائیں اور اسی طرح دوسرے کام اور پھر دیگر دو حصوں اور مذکورہ ایک تہائی کے باقیماندہ مال کو شہید کے ورثا یعنی باپ ماں اولاد اور اس کی بیوی کے درمیان کتاب و سنت کے مطابق تقسیم کیا جائے ۔اور اسکے گھر اور باقی اموال میں ہر قسم کے تصرفات کیلئے شہید کے ورثاء اور اس کے بچے کے شرعی ولی کی اجازت لینا ضروری ہے اور شہید کے بھائی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اس نے گھر کی تعمیرکیلئے نابالغ بچے کے ولی کی اجازت کے بغیر جو اخراجات کئے ہیں انہیں وہ نابالغ کے مال سے وصول کرے اور اسی طرح اسے یہ بھی حق نہیں ہے کہ نابالغ بچے کا سونے کا سکہ اور اس کا ماہانہ وظیفہ گھر کی تعمیر اور اپنے مخارج میں خرچ کرے بلکہ وہ انہیں خود بچے پر بھی خرچ نہیں کرسکتا البتہ اسکے شرعی ولی کی اجاز ت سے ایسا کرسکتا ہے بصورت دیگر وہ اس مال کا ضامن ہوگا اور اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ یہ مال بچے کو واپس لوٹا دے اور اسی طرح ضروری ہے کہ گھر کی خرید بھی بچے کے شرعی ولی کی اجازت سے ہو۔
س1872: وصیت کرنے والے نے اپنے وصیت نامہ میں تحریر کیا ہے کہ اس کے تمام اموال جو تین ایکڑ پھلوں کے باغ پر مشتمل ہیں ان میں اس طرح مصالحت ہوئی ہے کہ اس کی وفات کے بعد ان میں سے دو ایکڑ اسکی اولاد میں سے بعض کیلئے ہو اور تیسرا ایکڑ خود اس کیلئے رہے تا کہ اسے اسکی وصیت کے مطابق خرچ کیا جائے لیکن اسکی وفات کے بعد معلوم ہوا کہ اس کے تمام باغات کا رقبہ دوایکڑ سے بھی کم ہے لہذا اولاً تو یہ بتائیے کہ جو کچھ اس نے وصیت نامہ میں لکھا ہے کیا وہ اسکے اموال پر اسی طرح مصالحہ شمار کیاجائے گا جیسے اس نے لکھا ہے یا یہ کہ اسکی وفات کے بعد اسکے اموال کے سلسلے میں وصیت شمار ہوگی ؟ ثانیاً جب یہ معلوم ہوگیا کہ اسکے باغات کا رقبہ دو ایکڑ سے کمتر ہے تو کیا یہ سب اسکی اولاد سے مخصوص ہوگا اور ایک ایکڑ جو اس نے اپنے لیئے مخصوص کیاتھا منتفی ہوجائے گا یا یہ کہ کسی اور طرح سے عمل کیا جائے؟
ج : جب تک اس کی طرف سے اس کی زندگی میں صحیح اورشرعی صورت پر صلح کا ہونا ثابت نہ ہوجائے -کہ جو اس بات پر موقوف ہے کہ جس سے صلح کی گئی ہے (مصالح لہ ) وہ صلح کرنے والے (مصالح) کی زندگی میں صلح کو قبول کرلے- اس وقت تک جو کچھ اس نے ذکر کیا ہے اسے وصیت شمار کیا جائے گا چنانچہ اس کی وصیت جو اس نے پھلوں کے باغات کے متعلق اپنی بعض اولاد اور خود اپنے لئے کی ہے وہ اسکے پورے ترکہ کے ایک تہائی میں نافذ ہوگی اور اس سے زائد میں ورثاء کی اجازت پر موقوف ہے اور اجازت نہ دینے کی صورت میں ایک تہائی سے زائد حصہ انکی میراث ہے ۔
س 1873: ایک شخص نے اپنے تمام اموال اس شرط پر اپنے بیٹے کے نام کردیئے کہ باپ کی وفات کے بعد اپنی ہر بہن کو میراث سے اسکے حصے کی بجائے نقد رقم کی ایک معین مقدار دے گا لیکن باپ کی وفات کے وقت اس کی بہنوں میں سے ایک بہن موجود نہیں تھی لہذا وہ اپنا حق نہ لے سکی۔ جب وہ اس شہر میں واپس آئی تو اس نے بھائی سے اپنا حق طلب کیا لیکن اس کے بھائی نے اس وقت اسے کچھ نہیں دیا۔ اب جب کہ اس واقعہ کو کئی سال گزر چکے ہیں اور جس رقم کی وصیت کی گئی تھی اس کی قیمت کافی کم ہو گئی ہے اس وقت اس کے بھائی نے وصیت شدہ رقم ادا کرنے کیلئے آمادگی کا اظہار کیا ہے لیکن اس کی بہن وہ رقم موجودہ قیمت کے مطابق طلب کرتی ہے اور اس کا بھائی اسے ادا کرنے سے انکار کرتا ہے اور بہن پر سود مانگنے کا الزام لگاتاہے اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج : اگر جائیداد بیٹے کی تحویل میں دینے اور بیٹیوں کو معین رقم دینے کی وصیت صحیح اور شرعی طریقے سے انجام پائی ہو تو بہنوں میں سے ہرا یک اسی رقم کی مستحق ہے جس کی وصیت کی گئی ہے لیکن اگر ادا کرتے وقت رقم کی قیمت اس قیمت سے کم ہوگئی ہو جو وصیت کرنے والے کے فوت ہونے کے وقت تھی تو احوط یہ ہے کہ دونوں اس مقدار کے تفاوت کےسلسلے میں با ہمی طور پر مصالحت کریں اور یہ سود کے حکم میں نہیں ہے ۔
س 1874: میرے ماں باپ نے اپنی زندگی میں اپنے سب بچوں کے سامنے اپنے اموال کے ایک تہائی حصے کے عنوان سے اپنی زرعی زمین کا ایک ٹکڑا مختص کیا تا کہ انکی وفات کے بعد اس سے کفن ، دفن اور قضا نمازوں اور روزوں وغیرہ کے اخراجات میں استفادہ کیا جائے چونکہ میں انکا تنہا بیٹاہوں لہذا اس کے متعلق انہوں نے مجھے وصیت کی اور چونکہ ان کی وفات کے بعد ان کے پاس نقد رقم نہیں تھی لہذا ان تمام امور کو انجام دینے کیلئے میں نے اپنی طرف سے رقم خرچ کی۔ کیا اب میں وہ رقم مذکورہ ایک تہائی حصے سے لے سکتا ہوں۔
ج: جو کچھ آپ نے میت کے لئے خرچ کیا ہے اگر وہ اس نیت سے خرچ کیا ہو کہ اسے وصیت نامہ کے مطابق اس کے ایک تہائی اموال سے لے لوں گا تو آپ لے سکتے ہیں ورنہ جائز نہیں ہے۔
س 1875: ایک شخص نے وصیت کی کہ اگر اس کی بیوی اس کے مرنے کے بعد شادی نہ کرے تو جس گھر میں وہ رہتی ہے اسکا تیسرا حصہ اس کی ملکیت ہے اور اس بات کے پیش نظر کہ اس کی عدت کی مدت گزر گئی ہے اور اس نے شادی نہیں کی اور مستقبل میں بھی اسکے شادی کرنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تو وصیت کرنے والے کی وصیت پر عمل کے سلسلے میں وصی اور دیگر ورثا کی ذمہ داری کیا ہے؟
ج: ان پر واجب ہے کہ فی الحال جس کی وصیت کی گئی ہے وہ ملک اس کی بیوی کو دے دیں لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ وہ دوسری شادی نہ کرے چنانچہ اگر بعد میں وہ شادی کرلے تو ورثاء کو فسخ کرنے اور ملک واپس لینے کا حق ہوگا۔
س1876: جب ہم نے باپ کی وہ میراث تقسیم کرنے کا ارادہ کیا جو انہیں اپنے باپ سے ملی تھی اور جو ہمارے ،ہمارے چچا اور ہماری دادی کے درمیان مشترک تھی اور انہیں بھی وہ مال ہمارے دادا کی طرف سے وراثت میں ملاتھا تو انھوں نے دادا کا تیس سال پرانا وصیت نامہ پیش کیا جس میں دادی اور چچا میں سے ہر ایک کو میراث سے انکے حصے کے علاوہ ، معین مقدار میں نقد رقم کی بھی وصیت کی گئی تھی لیکن ان دونوں نے مذکورہ رقم کو اس کی موجودہ قیمت میں تبدیل کرکے مشترکہ اموال سے وصیت شدہ رقم سے کئی گنا زیادہ اپنے لئے مخصوص کرلیا ہے۔ کیا ان کا یہ کام شرعی طور پر صحیح ہے؟
ج: مفروضہ صورت میں لازم ہے کرنسی کی قدر میں ہونے والی کمی کا حساب کریں۔
س 1877: ایک شہید عزیز نے وصیت کی ہے کہ جو قالین اس نے اپنے گھر کیلئے خریدا ہے اسے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے حرم کو ہدیہ کردیا جائے ، اس وقت اگر اس کی وصیت پر عمل کے ممکن ہونے تک اس قالین کو ہم اپنے گھر میں رکھنا چاہیں تو اس کے تلف ہونے کا خوف ہے۔ کیا نقصان سے بچنے کیلئے اس سے محلہ کی مسجد یا امام بارگاہ میں استفادہ کر سکتے ہیں؟
ج: اگر وصیت پر عمل کرنے کا امکان پیدا ہونے تک قالین کی حفاظت اس بات پر موقوف ہو کہ اسے وقتی طور پر مسجد یا امام بارگاہ میں استعمال کیا جائے تو اس میں اشکال نہیں ہے۔
س 1878: ایک شخص نے وصیت کی کہ اس کی بعض جائیدادوں کی آمدنی کی ایک مقدار مسجد، امام بارگاہ ، دینی مجالس اور نیکی کے دیگر کاموں میں خرچ کی جائے لیکن اسکی مذکورہ ملک اور دوسری جائیدادیں غصب ہوگئی ہیں اور ان کے غاصب سے واپس لینے کے لئے بہت سے اخراجات ہوئے ہیں۔ کیا ان اخراجات کا اس کی وصیت کردہ مقدار سے وصول کرنا جائز ہے؟ اور کیا صرف ملک کے غصب سے آزاد ہونے کا امکان وصیت کے صحیح ہونے کیلئے کافی ہے؟
ج: غاصب کے قبضہ سے املاک واپس لینے کے اخراجات وصیت شدہ ملک سے وصول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور کسی ملک کے بارے میں وصیت کے صحیح ہونے کیلئے اس کا وصیت کے مورد میں قابل استفادہ ہونا کافی ہے اگر چہ یہ غاصب کے ہاتھ سے مال واپس لینے اور اس کے لئے خرچ کرنے کے بعد ہی ممکن ہو۔
س1879: ایک شخص نے اپنے تمام منقولہ اور غیر منقولہ اموال کی اپنے بیٹے کے لئے وصیت کی اور یوں اس نے چھ بیٹیوں کو میراث سے محروم کردیا کیا یہ وصیت نافذ اور قابل عمل ہے؟ اور اگر قابل عمل نہیں ہے تو ان اموال کو چھ بیٹیوں اور ایک بیٹے کے درمیان کیسے تقسیم کیا جائے؟
ج: اجمالی طور پر مذکورہ وصیت کے صحیح ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن وہ میراث کے صرف تیسرے حصے میں نافذ ہے اور اس سے زائد مقدار میں تمام ورثاء کی اجازت پرموقوف ہے ۔ نتیجتاً اگر بیٹیاں اس کی اجازت سے انکار کریں تو ان میں سے ہر ایک ترکہ کے باقیماندہ دو تہائی میں سے اپنا حصہ لے گی لہذا اس صورت میں باپ کا مال چو بیس حصوں میں تقسیم ہوگا اور اس میں سے بیٹے کا حصہ وصیت شدہ مال کے ایک تہائی کے عنوان سے ٢٤/٨اور باقی ماندہ دو تہائی (٢٤/١٦)میں سے بیٹے کا حصہ ٢٤/٤ہوگا اور بیٹیوں میں سے ہرایک کا حصہ ٢٤/٢ ہوگا اور باالفاظ دیگر پورے ترکے کا آدھا حصہ بیٹے کا ہے اور دوسرا آدھا حصہ چھ بیٹیوں کے درمیان تقسیم ہوگا۔
- غصب کے احکام
غصب کے احکام
س 1880: ایک شخص نے زمین کا ایک قطعہ اپنے نابالغ بیٹے کے نام پر خرید کر ایک معمولی دستاویز اس کے نام پر یوں مرتب کی:" فروخت کرنے والا فلاں شخص ہے اور خریدنے والا بھی اسکا فلاں بیٹا ہے" بچے نے بالغ ہونے کے بعد وہ زمین دوسرے شخص کو فروخت کردی لیکن باپ کے ورثاء دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ان کے باپ کی میراث ہے اور باوجود اس کے کہ ان کے باپ کا اس دستاویز میں نام ہی نہیں ہے انہوں نے اس زمین پر قبضہ کر لیا ہے۔ کیا اس صورت میں ورثا دوسرے خریدار کے لئے مزاحمت پیدا کرسکتے ہیں؟
ج: صرف معاملہ کی دستاویز میں نابالغ بچے کا نام خریدار کے طور پر ذکر ہونا اس کی ملکیت کی دلیل نہیں ہے اس لئے اگر ثابت ہو جائے کہ باپ نے جو زمین اپنے پیسے سے خریدی ہے اسے اپنے بیٹے کو ہبہ کردیا ہے یا اس کے ساتھ صلح کرلی ہے تو اس صورت میں زمین بیٹے کی ملکیت ہے اور بالغ ہونے کے بعد اگروہ زمین صحیح شرعی طور پر دوسرے خریدار کو فروخت کردے تو کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس کےلئے رکاوٹ پیدا کرے یا اس سے زمین چھینے۔
س 1881: زمین کا ایک قطعہ جسے چند خریداروں نے خریدا اور بیچا ہے میں نے اسے خرید کر اس میں مکان بنالیاہے اب ایک شخص دعویٰ کرتا ہے کہ اس زمین کا مالک وہ ہے اور اس کی رجسٹری بھی انقلاب اسلامی سے پہلے قانونی طور پر اس کے نام ثبت ہوچکی ہے اور اسی وجہ سے اس نے میرے اور میرے بعض پڑوسیوں کے خلاف عدالت میں شکایت کی ہے کیا اس کے دعویٰ کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس زمین میں میرے تصرفات غصب شمار ہونگے؟
ج: پہلے جس شخص کے قبضے میں یہ زمین تھی اسے اس سے خریدنا ظاہر شریعت کے مطابق صحیح ہے اور زمین خریدار کی ملکیت ہے اور جب تک وہ شخص جو زمین کی پہلی ملکیت کا مدعی ہے عدالت میں اپنی شرعی ملکیت ثابت نہ کردے اسے موجودہ مالک اورتصرف کرنے والے کےلئے رکاوٹ پیدا کرنے کا حق نہیں ہے۔
س 1882: ایک زمین ایک معمولی دستاویز میں باپ کے نام ہے اور کچھ عرصے کے بعد اس کی قانونی دستاویز اسکے نابالغ بچے کے نام صادر ہوتی ہے لیکن ابھی زمین باپ کے قبضے میں ہے اب بچہ بالغ ہوگیا ہے اور وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ زمین اس کی ملکیت ہے کیونکہ سرکاری رجسٹری اس کے نام ہے لیکن اسکا باپ یہ کہتا ہے کہ اس نے یہ زمین اپنی رقم سے خود اپنے لیئے خریدی ہے اور صرف ٹیکس سے بچنے کےلئے اسے اپنے بیٹے کے نام کیا ہے کیا اگر اسکا بیٹا اس زمین میں اپنے باپ کی مرضی کے خلاف تصرف کرے تو وہ غاصب شمار ہوگا؟
ج: اگر باپ نے وہ زمین اپنی رقم سے خریدی ہے اوربیٹے کے بالغ ہونے کے بعد تک اس میں تصرف کررہا تھا توجب تک بیٹا یہ ثابت نہ کردے کہ باپ نے وہ زمین اسے ہبہ کی ہے اور اس کی ملکیت اسے منتقل کردی ہے اس وقت تک اسے حق نہیں ہے کہ وہ صرف رجسٹری اپنے نام ہونے کی بنا پر باپ کو زمین میں تصرف کرنے سے منع کرے اور اس کے لیئے رکاوٹ پیدا کرے۔
س1883: ایک شخص نے پچاس سال پہلے زمین کا ایک قطعہ خریدا اور اب وہ ایک اونچے پہاڑ کے نام کا سہارا لیکر کہ جس کا ذکر رجسٹری میں زمین کی حدود کے طور پر آیا ہے ،دعویٰ کرتا ہے کہ وہ دسیوں لاکھ میٹر عمومی زمین اور ان دسیوں پرانے گھروں کا مالک ہے جو اس کی خریدی ہوئی زمین اور اس پہاڑ کے درمیان واقع ہیں اسی طرح وہ اس بات کا بھی مدعی ہے کہ اس علاقہ کے لوگوں کی ان گھروں اور مذکورہ زمینوں میں نماز غصب کی بناپر باطل ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ دور میں ان زمینوں اور پرانے مکانوں میں اس نے کسی قسم کا تصرف نہیں کیا جو اس جگہ واقع ہیں اور ایسے دلائل بھی موجود نہیں ہیں جو اس زمین کی سینکڑوں سالہ پرانی صورت حال کو واضح کریں اس صورت میں مسئلہ کا کیا حکم ہے؟
ج: جو زمین خریدی گئی زمین اور اس پہاڑ کے درمیان ہے کہ جو اسکی حدود کے طور پر اس کی دستاویز میں مذکور ہے اگر وہ غیر آباد زمین ہو کہ جو پہلے کسی خاص شخص کی ملکیت نہیں تھی یا ان زمینوں میں سے ہو کہ جو گذشتہ لوگوں کے تصرف میں تھیں اور اب ان سے منتقل ہو کر دوسروں کے تصرف میں آگئی ہیں تو اس صورت میں جس شخص کے پاس جتنی مقدارزمین یا مکان ہے اوروہ اس کے مالکانہ تصرف میں ہے شرعی طور پر وہ اس کا مالک ہے اور جب تک مدعی اپنی مالکیت کو شرعی طور پر عدالت میں ثابت نہ کردے اس وقت تک اس ملک میں ان کے تصرفات مباح اور حلال ہیں۔
س 1884: قاضی نے جس زمین کے ضبط کرنے کا حکم دیا ہو کیا اس میں اس کے پچھلے مالک کی اجازت کے بغیر مسجد بنانا جائز ہے؟ کیا اس قسم کی مساجد میں نماز پڑھنا اور دوسرے دینی امور انجام دینا جائز ہے؟
ج : اگر مذکورہ زمین حاکم شرع کے حکم سے یا حکومت اسلامی کے موجودہ قانون کی بناپر پہلے مالک سے ضبط کی گئی ہو یا اس کی ملکیت کے مدعی کےلئے شرعی ملکیت ثابت نہ ہوتو اس پر تصرف کےلئے ملکیت کے مدعی یا پہلے مالک کی اجازت لازمی نہیں ہے پس اس میں مسجد بنانا ، نماز پڑھنا اور دوسرے دینی امور انجام دینا اشکال نہیں رکھتا۔
س 1885: ایک زمین نسل بہ نسل میراث کے ذریعہ ورثاء تک پہنچی پھر ایک غاصب نے اسے غصب کرکے اپنے قبضہ میں لے لیا انقلاب اسلامی کی کامیابی اور حکومت اسلامی کے قائم ہونے کے بعد ورثا نے غاصب سے اس زمین کو واپس لینے کا اقدام کیا ۔ کیا شرعی طور پر یہ ورثاء کی ملکیت ہے یا انہیں صرف اس کے حکومت سے خریدنے میں حق تقدم حاصل ہے؟
ج: ارث کے ذریعہ فقط گذشتہ تصرفات کا لازمہ اس کی ملکیت یا اس کے خریدنے میں حق تقدم نہیں ہے لیکن جب تک اس کے برخلاف ثابت نہ ہو جائے تب تک شرعی طور پر ملکیت ثابت ہے لہذا اگر ثابت ہوجائے کہ ورثاء زمین کے مالک نہیں ہیں یا زمین پر کسی اور کی ملکیت ثابت ہوجائے تو ورثاء کو زمین یا اس کے عوض کے مطالبہ کا حق نہیں ہے ورنہ ذو الید (قبضے والا) ہونے کے اعتبارسے انہیں اصل زمین یا اس کے عوض کے مطالبہ کا حق ہے۔
- بالغ ہونے کے علائم اور حَجر
بالغ ہونے کے علائم اور حَجر
س 1886:ایک شخص کی ایک بیٹی اور ایک بالغ سفیہ بیٹا ہے جو اس کے زیر سرپرستی ہے ، کیا باپ کے مرنے کے بعد جائز ہے کہ بہن اپنے سفیہ بھائی کے اموال میں ولایت اورسرپرستی کے عنوان سے تصرف کرے؟
ج: بھائی اور بہن کو اپنے سفیہ بھائی پر ولایت حاصل نہیں ہے اوراگر اس کا دادا موجود نہ ہو اور باپ نے بھی اس پر ولایت اور سرپرستی کے سلسلے میں کسی کو وصیت نہ کی ہو تو سفیہ بھائی اور اسکے اموال پر حاکم شرع کو ولایت حاصل ہو گی۔
س 1887: کیا لڑکے اور لڑکی کے سن بلوغ میں شمسی سال معیار ہے یا قمری ؟
ج : قمری سال معیار ہے۔
س 1888 : اس امر کو تشخیص دینے کےلئے کہ ایک شخص بالغ ہونے کے سن کو پہنچا ہے یا نہیں کس طرح قمری سال کی بنیاد پر اسکی تاریخ ولادت کو سال اور مہینے کے اعتبار سے حاصل کرسکتے ہیں؟
ج: اگر شمسی سال کی بنیاد پر اس کی ولادت کی تاریخ معلوم ہو تو اسے قمری اور شمسی سال کے درمیان فرق کا حساب کرکے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
س 1889: جو لڑکا پندرہ سال سے پہلے محتلم ہوجائے کیا اسے بالغ سمجھا جائیگا؟
ج: احتلام ہو جانے سے وہ بالغ سمجھا جائے گا کیونکہ شرعی طورپر احتلام بلوغ کی علامات میں سے ہے۔
س1890: اگر دس فیصد احتمال ہوکہ بلوغ کی دوسری دو علامتیں ( مکلف ہونے کے سن کے علاوہ) جلدی ظاہر ہوگئی ہیں تو اس صورت میں حکم کیا ہے؟
ج: محض یہ احتمال دینا کہ وہ دو علامتیں جلدی ظاہر ہوگئی ہیں بلوغ کا حکم ثابت ہونے کےلئے کافی نہیں ہے۔
س 1891: کیا جماع کرنا بالغ ہونے کی علامات میں سے شمار ہوتا ہے اور اس کے انجام دینے سے شرعی فرائض واجب ہو جاتے ہیں؟اور اگر کوئی شخص اس کے حکم سے واقفیت نہ رکھتا ہو اور اس طرح کئی سال گزر جائیں تو کیا اس پر غسل جنابت واجب ہوتا ہے؟ اور وہ اعمال جن میں طہارت شرط ہے جیسے نماز ، روزہ اگر انہیں غسل جنابت کرنے سے پہلے انجام دے تو کیا وہ باطل ہیں؟ اور انکی قضا واجب ہے؟
ج: انزال اور منی خارج ہوئے بغیر صرف جماع ، بالغ ہونے کی علامت نہیں ہے لیکن یہ جنابت کا باعث بن جاتا ہے لہذا بلوغ کے وقت غسل کرنا واجب ہوگا اور جب تک بلوغ کی کوئی علامت انسان میں نہ پائی جائے شرعی طور پر وہ بالغ نہیں ہے اور اس کےلئے احکام شرعی کا بجالانا ضروری نہیں ہے اور جو شخص بچپن میں جماع کی وجہ سے مجنب ہوا ہو اور بالغ ہونے کے بعد غسل جنابت انجام دیئے بغیر اس نے نمازیں پڑھی اور روزے رکھے ہوں تو اس پر واجب ہے کہ وہ اپنی نمازوں کا اعادہ کرے لیکن اگر وہ جنابت کے بارے میں جاہل تھا تو اس پر روزوں کی قضا بجالانا واجب نہیں ہے۔
س 1892: ہمارے اسکول کے بعض طالب علم لڑکے اور لڑکیاں اپنی ولادت کی تاریخ کے اعتبار سے بالغ ہوگئے ہیں لیکن ان کے حافظہ میں خلل اور کمزوری کی وجہ سے ان کا طبّی معائنہ کیا گیا تا کہ ان کی ذہنی صلاحیت اور حافظہ چیک کیا جائے معائنہ کے نتیجے میں ثابت ہوا کہ وہ گذشتہ ایک سال یا اس سے زیادہ عرصہ سے ذہنی طور پر پسماندہ ہیں لیکن ان میں سے بعض کو پاگل شمار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ اس قابل ہیں کہ دینی اور معاشرتی مسائل کو سمجھ سکتے ہیں کیا اس مرکز کی تشخیص ڈاکٹروں کی تشخیص کی طرح معتبر ہے اور ان طالب علموں کےلئے ایک معیار ہے؟
ج : انسان پر شرعی ذمہ داریاں عائد ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ شرعی طور پر بالغ ہو اور عرف کے اعتبار سے عاقل ہو لیکن ہوش و فہم کے درجات معتبر نہیں ہیں اور اس میں ان کا کوئی اثر نہیں ہے۔
س 1893: بعض احکام میں خاص طورپر ممیّز بچے کے سلسلے میں آیا ہے :" جو بچہ اچھے اور برے کو پہچانتا ہو " اچھے اور برے سے کیا مراد ہے؟ اور تمیز کا سن کونسا سن ہے؟
ج: اچھے اور برے سے مراد وہ چیز ہے جسے عرف اچھا اور برا سمجھتا ہے اور اس سلسلے میں بچے کی زندگی کے حالات ، عادات و آداب اور مقامی رسم و رواج کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے اور سن تمیز ، افراد کی استعداد اور درک و فہم کے اختلاف کی بنیاد پر مختلف ہے۔
س 1894: کیا لڑکی کےلئے نو سال پورے ہونے سے پہلے ایسے خون کا دیکھنا جس میں حیض کی نشانیاں موجود ہوں ، اس کے بالغ ہونے کی علامت ہے؟
ج: یہ خون لڑکی کے بالغ ہونے کی شرعی علامت نہیں ہے اور حیض کا حکم نہیں رکھتا ہے اگر چہ اس میں حیض کی علامات موجود ہوں۔
س 1895 جو شخص کسی وجہ سے عدالت کی طرف سے اپنے مال میں تصرف کرنے سے ممنوع ہوجائے اگر وہ اپنی وفات سے پہلے اپنے اموال میں سے کچھ مقدار اپنے بھتیجے کو خدمت کے شکریے اور قدردانی کے عنوان سے اسے دے اور وہ بھتیجا اپنے چچاکی وفات کے بعد مذکورہ اموال اس کی تجہیز و تکفین اور دوسری خاص ضرورتوں کو پورا کرنے پر خرچ کردے ، تو کیاجائز ہے کہ عدالت اس سے اس مال کا مطالبہ کرے؟
ج: اگر وہ مال جو اس نے اپنے بھتیجے کو دیا ہے حجر کے دائرے میں ہو یا کسی دوسرے کی ملکیت ہو تو شرعی طور پر اسے حق نہیں ہے کہ وہ مال بھتیجے کو دے اور اسکا بھتیجا بھی اس میں تصرف کرنے کا حق نہیں رکھتا اور عدالت کےلئے جائز ہے کہ وہ اس مال کااس سے مطالبہ کرے ورنہ کسی کو اس سے وہ مال واپس لینے کا حق نہیں ہے ۔
- مضاربہ کے احکام
مضاربہ کے احکام
س 1896: کیا سونے اور چاندی کے غیرکے ساتھ مضاربہ جائز ہے ؟
ج : جو کرنسی آج کل رائج ہے اس کے ساتھ مضاربہ میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اجناس اور سامان کے ساتھ مضاربہ جائز نہیں ہے ۔
س 1897: کیا تجارت ، سپلائی ، سرویس فراہم کرنے اور پیداوار کے سلسلے میں عقد مضاربہ سے استفادہ کرنا صحیح ہے ؟ اور کیا وہ عقود جومضاربہ کے عنوان سے غیر تجارتی کاموں میں آج کل متعارف ہوگئے ہیں شرعی طور پر صحیح ہیں یا نہیں؟
ج : عقد مضاربہ صرف خرید و فروش کے ذریعہ تجارت میں سرمایہ کاری کرنے سے مخصوص ہے اور اس سے سپلائی ،سرویس فراہم کرنے ،پیداواری کاموں اور اس جیسے دیگر امور میں استفادہ کرنا صحیح نہیں ہے لیکن ان امور کو دیگر شرعی عقود کے ساتھ انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے جعالہ ، صلح و غیرہ ۔
س 1898: میں نے اپنے دوست سے مضاربہ کے طور پر ایک مقدار رقم اس شرط پر لی ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد اصل رقم کچھ اضافے کے ساتھ اسے واپس لوٹا دوں گا اور میں نے رقم میں سے کچھ مقدار اپنے ایک ضرورتمند دوست کو دے دی اور یہ طے پایا کہ منافع کا ایک تہائی وہ ادا کرے گا۔ کیا یہ کام صحیح ہے ؟
ج : اس شرط پر کسی سے رقم لینا کہ کچھ عرصے کے بعد اصل رقم کچھ اضافے کے ساتھ واپس کریں گے مضاربہ نہیں ہے بلکہ سودی قرض ہے جو کہ حرام ہے۔ تاہم اس رقم کا مضاربہ کے عنوان سے لینا، اس کی جانب سے قرض شمار نہیں ہوگا لہٰذا یہ رقم لینے والے کی ملکیت قرار نہیں پائے گی بلکہ وہ اصل مالک کی ملکیت پر باقی ہے اور رقم لینے والے اور عامل کو صرف اس سے تجارت کرنے کا حق ہے اور دونوں نے باہمی طور پرجو توافق کیا ہے اس کی روشنی میں یہ اس کے منافع میں شریک ہیں اور عامل کو حق نہیں ہے کہ وہ مال کے مالک کی اجازت کے بغیر اس میں سے کچھ رقم کسی دوسرے کو قرض کے طور پر دے یامضاربہ کے عنوان سے کسی دوسرے کے اختیار میں قرار دے ۔
س 1899: ان لوگوں سے مضاربہ کے نام پر رقم قرض لینا ۔ جو مضاربہ کے عنوان سے رقم دیتے ہیں تاکہ طے شدہ معاہدے کے تحت ہر مہینہ ایک لاکھ تومان کے عوض تقریباً چار یا پانچ ہزار تومان منافع حاصل کریں۔ کیا حکم رکھتاہے ؟
ج : مذکورہ صورت میں قرض لینا مضاربہ نہیں ہے بلکہ یہ وہی سودی قرض ہے جو حکم تکلیفی کے لحاظ سے حرام ہے اور عنوان میں ظاہری تبدیلی لانے سے حلال نہیں ہوگا ۔ اگرچہ اصل قرض صحیح ہے اور قرض لینے والا مال کا مالک بن جاتا ہے ۔
س1900: ایک شخص نے کچھ رقم دوسرے کو دی تا کہ وہ اس سے تجارت کرے اور ہر مہینہ کچھ رقم منافع کے طور پر اسے ادا کرے اور اس کے تمام نقصانات بھی اسی کے ذمہ ہوں کیا یہ معاملہ صحیح ہے ؟
ج: اگر یوں طے کریں کہ اس کے مال کے ساتھ صحیح شرعی طور پر مضاربہ عمل میں آئے اور عامل پر شرط لگائے کہ ہر مہینہ اس کے منافع میں سے اس کے حصے سے کچھ مقدار اسے دیتا رہے اور اگر سرمایہ میں کوئی خسارہ ہوا تو عامل اس کا ضامن ہے تو ایسا معاملہ صحیح ہے۔
س 1901: میں نے ایک شخص کو وسائل حمل و نقل کے خریدنے ، ان کے درآمد کرنے اور پھر بیچنے کیلئے کچھ رقم دی اور اس میں یہ شرط لگائی کہ ان کو فروخت کرنے سے جو منافع حاصل ہوگا وہ ہمارے درمیان مساوی طور پر تقسیم ہوگا اور اس نے ایک مدت گزرنے کے بعد کچھ رقم مجھے دی اور کہا : یہ تمہارا منافع ہے کیا وہ رقم میرے لیئے جائز ہے ؟
ج: اگرآپ نے سرمایہ مضاربہ کے عنوان سے اسے دیا ہے اور اس نے بھی اس سے وسائل حمل و نقل کو خریدا اور بیچاہو اور پھر اس کے منافع سے آپ کا حصہ دے تو وہ منافع آپ کے لئے حلال ہے۔
س1902: ایک شخص نے دوسرے کے پاس کچھ رقم تجارت کے لئے رکھی ہے اور ہر مہینہ اس سے علی الحساب کچھ رقم لیتا ہے اور سال کے آخر میں نفع و نقصان کا حساب کرتے ہیں اگر رقم کا مالک اور وہ شخص با ہمی رضامندی کے ساتھ ایک دوسرے کو نفع و نقصان بخش دیں تو کیا ان کیلئے اس کام کا انجام دینا صحیح ہے؟
ج: اگر یہ مال صحیح طور پر مضاربہ انجام دینے کے عنوان سے اسے دیا ہے تو مال کے مالک کیلئے ہر مہینہ عامل سے منافع کی رقم کی کچھ مقدار لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور اسی طرح ان دونوں کے لئے ان چیزوں کی نسبت مصالحت کرنا بھی صحیح ہے جو شرعی طور پر وہ ایک دوسرے سے لینے کے مستحق ہیں لیکن اگر وہ مال قرض کے طور پر ہو اور اس میں یہ شرط رکھی گئی ہو کہ مقروض قرض خواہ کوہر مہینہ کچھ منافع ادا کرے اور پھر سال کے آخر میں جو مال وہ ایک دوسرے سے لینے کے مستحق ہیں اس کے بارے میں صلح کرلیں تو یہ وہی سودی قرض ہے جو حرام ہے اور اس کے ضمن میں شرط کرنا بھی باطل ہے اگر چہ اصل قرض صحیح ہے اور یہ کام محض دونوں کے ایک دوسرے کو نفع و نقصان ھبہ کرنے سے حلال نہیں ہوسکتا لہذا قرض خواہ کسی قسم کا منافع نہیں لے سکتا جیسا کہ وہ کسی قسم کے نقصان کا بھی ضامن نہیں ہے ۔
س 1903: ایک شخص نے مضاربہ کے عنوان سے دوسرے سے مال لیا اور اس میں یہ شرط لگائی کہ اس کے منافع کا دو تہائی حصہ اس کا ہوگا اور ایک تہائی مالک کا ہوگا اس مال سے اس نے کچھ سامان خرید کر اپنے شہر کی طرف بھیجا جو راستے میں چوری ہوگیا یہ نقصان کس کے ذمہ ہے ؟
ج: تجارت کے مال یا سرمایہ کے تمام یا بعض حصے کا تلف اور ضائع ہوجانا اگر عامل یا کسی دوسرے شخص کی کوتاہی کی وجہ سے نہ ہو تو سرمایہ لگانے والے کے ذمہ ہے اور مال کے منافع سے اس نقصان کو پورا کیا جائے گا مگر یہ کہ اس میں شرط ہو کہ سرمایہ لگانے والے کانقصان عامل کے ذمہ ہوگا ۔
س1904: کیاجائز ہے کہ جو مال کاروبار یا تجارت کیلئے کسی کو دیا جائے یا کسی سے لیا جائے اس میں یہ شرط لگائیں کہ اس سے حاصل شدہ منافع بغیر اس کے کہ یہ سود ہو ان دونوں کے درمیان ان کی رضامندی سے تقسیم کیاجائے ؟
ج: اگر تجارت کیلئے مال کا دینا یا لینا قرض کے عنوان سے ہو تو اس کا تمام منافع قرض لینے والے کا ہے جس طرح کہ اگر مال تلف ہوجائے تو وہ بھی اسی کے ذمہ ہے اور مال کا مالک مقروض سے صرف اس مال کا عوض لینے کا مستحق ہے اور جائز نہیں ہے کہ وہ اس سے کسی قسم کا منافع وصول کرے اور اگر مضاربہ کے عنوان سے ہو تو اس کے نتائج حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ عقد مضاربہ ان کے درمیان صحیح طور پر منعقد ہواہو اور اسی طرح ان شرائط کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے جو اس کے صحیح ہونے کیلئے لازمی ہیں اوران میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ دونوں منافع سے اپنا اپنا حصہ کسر مشاع کی صورت میں معین کریں ورنہ وہ مال اور اس سے حاصل شدہ تمام آمدنی مالک کی ہوگی اور عامل صرف اپنے کام کی اجرة المثل (مناسب اجرت) لینے کا مستحق ہوگا۔
س 1905: اس امر کے پیش نظر کہ بینک کے معاملات واقعی طور پر مضاربہ نہیں ہیں کیونکہ بینک کسی قسم کے نقصان کو اپنے ذمہ نہیں لیتا۔ کیا وہ رقم جو پیسہ جمع کرانے والے ہر مہینہ بینک سے منافع کے طور پر لیتے ہیں حلال ہے؟
ج: صرف نقصان کا بینک کی طرف سے قبول نہ کرنا مضاربہ کے باطل ہونے کا سبب نہیں بنتا اور اسی طرح یہ چیز اس عقد کے صرف ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے مضاربہ ہونے کی بھی دلیل نہیں ہے کیونکہ شرعی طور پر اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مالک یا اس کا وکیل عقد مضاربہ کے ضمن میں شرط کرے کہ عامل، سرمایہ کے مالک کے ضرر اور نقصانات کا ضامن ہوگا لہذا جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ مضاربہ جو بینک سرمایہ جمع کرانے والوں کے وکیل کے عنوان سے انجام دینے کا مدعی ہے وہ صرف ظاہری ہے اور کسی سبب سے باطل ہے تب تک وہ مضاربہ صحیح ہے اور اس سے حاصل ہونے والا منافع جو سرمایہ جمع کرانے والوں کو دیا جاتاہے حلال ہے۔
س1906: میں نے رقم کی ایک معین مقدار ایک زرگر کو دی تا کہ وہ اسے خرید و فروش کے کام میں لائے اور چونکہ وہ ہمیشہ منافع حاصل کرتا ہے اور نقصان نہیں اٹھاتا، کیا جائز ہے کہ ہر مہینہ، میں اس کے منافع سے خاص رقم کا اس سے مطالبہ کروں؟ اگر اس میں کوئی اشکال ہو تو کیا جائز ہے اس مقدار کے بدلے میں سونا چاندی لے لوں؟ اور اگر وہ رقم اس شخص کے ذریعہ جو ہمارے درمیان واسطہ ہے ادا ہو تو کیا اشکال ختم ہوجائے گا؟ اور اگر وہ اس رقم کے عوض کچھ رقم ہدیہ کے عنوان سے مجھے دے دے تو کیا پھر بھی اشکال ہے؟
ج: مضاربہ میں شرط ہے کہ منافع میں سے سرمائے کے مالک اور عامل ہر ایک کا حصہ نصف، تہائی یا چوتھائی و غیرہ کی صورت میں معین ہو لہذا کسی خاص رقم کو ماہانہ منافع کے طورپر سرمائے کے مالک کیلئے معین کرنے سے مضاربہ صحیح نہیں ہوگا چاہے وہ ماہانہ منافع جو مقرر ہوا ہے نقد ہو یا سونا چاندی یا کسی سامان کی شکل میں اور چاہے اسے براہ راست وصول کرے یا کسی دوسرے شخص کے ذریعہ سے اور چاہے اسے منافع میں سے اپنے حصہ کے عنوان سے وصول کرے یا عامل وہ رقم اس تجارت کے بدلے میں جو اس نے اس کے پیسے کے ساتھ کی ہے ، ہدیہ کے عنوان سے اسے دے ۔ہاں یہ شرط لگا سکتے ہیں کہ سرمائے کا مالک اسکے منافع کے حاصل ہونے کے بعد ہر مہینے اندازے کے ساتھ اس سے کچھ مقدار لیتا رہے گا تا کہ عقد مضاربہ کی مدت ختم ہونے کے بعد اس کا حساب کرلیں۔
س1907: ایک شخص نے کچھ لوگوں سے مضاربہ کے عنوان سے تجارت کیلئے کچھ رقم لی ہے اور اس میں یہ شرط کی ہے کہ اس کا منافع اس کے اور صاحبان اموال کے درمیان ان کی رقم کے تناسب سے تقسیم ہو گا اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج : اگر رقم کا باہمی طور پر تجارت کیلئے خرچ کرنا اس کے مالکان کی اجازت کے ساتھ ہو تواس میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س1908: کیا عقد لازم کے ضمن میں یہ شرط لگانا جائز ہے کہ عامل ہرماہ صاحب سرمایہ کو منافع میں سے اس کے حصہ سے کچھ رقم دیتار ہے اور کمی اور زیادتی کی نسبت مصالحت کرلیں ؟ دوسرے لفظوں میں کیا صحیح ہے کہ عقد لازم کے ضمن میں ایسی شرط لگائیں جو احکام مضاربہ کے خلاف ہو ؟
ج : اگر شرط وہی صلح ہو یعنی صاحب سرمایہ اس کے منافع میں سے اپنے حصے کا کہ جو کسر مشاع کے طور پر معین کیا گیا ہے عامل کی اس رقم ساتھ مصالحت کرے جو وہ اسے ہر مہینہ دے رہا ہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر شرط یہ ہو کہ منافع میں سے مالک کے حصہ کا تعین اس رقم کی صورت میں ہوگا کہ جو عامل ہر ماہ اسے ادا کریگا تو یہ شرط، عقدِمضاربہ کے مقتضیٰ کے خلاف ہے پس باطل ہے۔
س1909: ایک تاجر نے کسی شخص سے مضاربہ کے سرمایہ کے طور پر اس شرط پر کچھ رقم لی کہ تجارت کے منافع سے چند معین فیصد رقم اسے دے گا۔ در نتیجہ اس نے وہ رقم اور اپنا سرمایہ اکٹھا کر کے تجارت میں لگادیا اور دونوں ابتدا ہی سے جانتے تھے کہ اس رقم کے ماہانہ منافع کی مقدار کو تشخیص دینا مشکل ہے اسی بنا پر انھوں نے مصالحت کرنے پراتفاق کرلیا،کیا شرعی طور پر اس صورت میں مضاربہ صحیح ہے ؟
ج : مالک کے سرمایہ کے منافع کی ماہانہ مقدار کی تشخیص کے ممکن نہ ہونے سے عقد مضاربہ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔شرط یہ ہے کہ مضاربہ کی صحت کے دیگر شرائط کی رعایت کی گئی ہو لہذا اگر عقد مضاربہ اس کی شرعی شرائط کی روشنی میں منعقد کریں اور پھر اتفاق کرلیں کہ حاصل ہونے والے منافع کے سلسلے میں مصالحت کریں اس طرح کہ منافع حاصل ہونے کے بعد سرمایہ کا مالک اس میں سے اپنے حصے پر معین رقم کے بدلے میں صلح کرلے تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س 1910: ایک شخص نے کچھ رقم مضاربہ کے طور پر کسی دوسرے کو اس شرط پر دی کہ تیسرا شخص اس مال کی ضمانت اٹھائے اس صورت میں اگر عامل وہ رقم لے کر بھاگ جائے تو کیا پیسے کے مالک کو حق ہے کہ اپنی رقم لینے کے لئے ضامن کے پاس جائے؟
ج :مذکورہ صورت میں مضاربہ والے مال کو ضمانت کی شرط کے ساتھ دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے لہذا وہ رقم جو عامل نے مضاربہ کے طور پر لی تھی اگر اسے لے کر بھاگ جائے یا کوتاہی کرتے ہوئے اسے تلف کردے تو صاحب سرمایہ کو حق ہے کہ وہ اس کا عوض لینے کے لئے ضامن کے پاس جائے ۔
س 1911: اگر عامل مضاربہ کی اس رقم کی کچھ مقدار جو اس نے متعدد افراد سے لے رکھی ہے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو قرض کے طور پر دے دے چاہے یہ رقم مجموعی سرمایہ میں سے ہو یا کسی خاص شخص کے سرمایہ سے تو کیا اسے (اس کے ید کو) دوسروں کے اموال کی نسبت جو انھوں نے اس کے پاس مضاربہ کے طور پر رکھے ہیں خیانت کار (ید عُدوانی) شمار کیا جائے گا ؟
ج: جو مال اس نے مالک کی اجازت کے بغیر قرض کے طور پر کسی دوسرے کو دیا ہے اس کی نسبت اس کی امانتداری (ید امانی) خیانت کاری (ید عدوانی) میں بدل جائے گی۔ نتیجہ کے طور پر وہ اس مال کا ضامن ہے لیکن دیگر اموال کی نسبت جب تک وہ افراط و تفریط نہ کرے امانتدار کے طور پر باقی رہے گا ۔
- بینک
- بیمہ (انشورنس)
بیمہ (انشورنس)
س 1952:زندگی کے بیمہ ( لائف انشورنس)کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: شرعا کوئی اشکال نہیں ہے۔
س 1953: کیا علاج معالجے کے بیمہ کارڈ سے اس شخص کیلئے استفادہ کرنا جائز ہے جو صاحب کارڈ کے اہل و عیال میں سے نہیں ہے؟ اور کیا مالک اس کارڈ کو دوسروں کے اختیار میں دے سکتاہے؟
ج: علاج معالجہ کے بیمہ کارڈ سے صرف وہی شخص استفادہ کرسکتاہے کہ جس کے ساتھ بیمہ کمپنی نے اپنی بیمہ سہولیات فراہم کرنے کا معاہدہ کیا ہے اور اس سے دوسروں کا استفادہ کرنا ضامن ہونے کا موجب ہے۔
س1954: زندگی کے بیمہ کی تحریری دستاویز میں بیمہ کمپنی بیمہ کرانے والے سے یہ عہد کرتی ہے کہ اس کی وفات کے بعد وہ کچھ رقم ان لوگوں کو ادا کرے گی جنہیں بیمہ کرانے والا معین کرتا ہے اگر یہ شخص مقروض ہو اور اس کا قرض ادا کرنے کیلئے اس کا مال کافی نہ ہو توکیا اس کے قرض خواہوں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے قرض اس رقم سے وصول کرلیں جو بیمہ کمپنی ادا کرتی ہے ؟
ج: یہ چیز اس باہمی توافق کے تابع ہے جو بیمہ کی دستاویز میں لکھا گیا ہے اگر اس میں انہوں نے یہ طے کیا ہے کہ بیمہ کرانے والے شخص کی وفات کے بعد بیمہ کمپنی مقررہ رقم اس شخص یا اشخاص کو ادا کرے جنہیں اس نے معین کیا ہے تو اس صورت میں جو چیز کمپنی ادا کرتی ہے وہ میت کے ترکہ کا حکم نہیں رکھتی بلکہ وہ ان لوگوں سے مخصوص ہے جنہیں متوفی نے وہ رقم وصول کرنے کیلئے معین کیا ہے۔
- سرکاری اموال
- وقف
- وقف کے احکام
وقف کے احکام
س 1995: کیا وقف کے صحیح ہونے کے لئے اس کے صیغہ کا جاری کرنا شرط ہے ؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا اس کا عربی میں ہونا شرط ہے ؟
ج: وقف میں انشاء لفظی شرط نہیں ہے کیونکہ یہ معاطات کے ذریعہ بھی ممکن ہے۔ اسی طرح وقف کو لفظ کے ساتھ انشاء کرنے میں بھی صیغہ کا عربی میں ہونا شرط نہیں ہے۔
س 1996: ایک شخص نے اپنے باغ کو اس صورت میں وقف کیا کہ اس کے منافع سے پچاس سال تک واقف (وقف کرنے والا)کی قضا نمازیں اور روزے ادا کئے جائیں اور پچاس سال کے بعد اس کے منافع کو قدر کی راتوں میں خرچ کیا جائے اور اس نے اپنے چاربیٹوں کو وقف کا متولی بنایا ہے۔ اس وقت باغ برباد ہورہاہے اور بالکل استفادے کے قابل نہیں ہے لیکن اگر اسے بیچ دیا جائے تو اس کے پیسے سے واقف کیلئے دو سو سال تک نمازیں پڑھوائی اور روزے رکھوائے جاسکتے ہیں اور اسکے چاروں بیٹے اس کام پر راضی ہیں کیا ایسی صورت میں مذکورہ باغ کو فروخت کرنا جائز ہے اور اسکے پیسے کو اس کام میں خرچ کیا جاسکتاہے؟
ج: اگر مذکورہ صورت میں وقف سے واقف کا ارادہ یہ تھا کہ باغ کو بالترتیب اپنے اور دوسروں کیلئے وقف کرے تو اس کا اپنی نسبت وقف باطل ہے اور دوسروں کی نسبت وقف منقطع الاول ہے کہ جس کا صحیح ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے اور اگر واقف کا قصد یہ ہو کہ اس باغ کے منافع کو پچاس سال تک اپنے لئے مستثنیٰ کرے تو اس کے صحیح ہونے میں شرعاً کوئی اشکال نہیں ہے لہذا مذکورہ وقف کے صحیح ہونے کی بناپر جب تک باغ کو محفوظ رکھ کے اس کے منافع کووصیت اور وقف میں خرچ کرنا ممکن ہو اگر چہ باغ کے منافع کو بڑھانے اور اسکی حفاظت کے لئے اس کی آمدنی کا کچھ حصہ خرچ کرنے کے ساتھ یا اس طرح کہ اس کی زمین کو عمارت و غیرہ بنانے کیلئے کرایہ پر دے دے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو وقف اور وصیت کے مطابق خرچ کرے تو اس کا بیچنایا تبدیل کرنا جائز نہیں ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر اسے فروخت کرکے اسکی رقم سے وقف اور وصیت پر عمل کرنے کی نیت سے اچھی زمین خریدلینے میں کوئی اشکال نہیں ہے ؟
س1997: خداوند عالم کی توفیق اور اس کے فضل سے میں نے اپنے گاؤں میں مسجد کی نیت سے ایک عمارت تعمیر کی ہے لیکن چونکہ اس گاؤں میں دو مسجدیں موجود ہیں اور اس میں کوئی تعلیمی ادارہ نہیں ہے لہذا مذکورہ گاؤں کو فی الحال مسجد کی ضرورت نہیں ہے اور ابھی تک مسجد کے عنوان سے وقف کا صیغہ بھی جاری نہیں کیا گیااور "مسجد میں نماز "کے طور پر ابھی تک دو رکعت نماز بھی ادا نہیں کی گئی اگر کوئی شرعی اشکال نہ ہو تو میں نیت تبدیل کرکے وہ عمارت وزارت تعلیم کے اختیار میں دینا چاہتاہوں۔اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج: اگر کوئی شخص صرف مسجد کی نیت سے عمارت تعمیر کرے تو جب تک وقف کا صیغہ جاری نہ کرے یا اسے نماز پڑھنے کیلئے نمازگزاروں کی تحویل میں نہ دے دے اس وقت تک وقف مکمل نہیں ہوگا بلکہ وہ عمارت مالک کی ملکیت میں باقی رہے گی اور اسے ہر قسم کے تصرف کا حق حاصل ہے لہذا اس عمارت کو وزارت تعلیم کی تحویل میں دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س 1998: کیا وہ مال جو امام بارگاہ کا سامان خریدنے کیلئے بخش دیا جاتاہے وقف کا حکم رکھتاہے یا وہ سامان جو اس مال سے خریدا جاتاہے اس کے لئے صیغہ وقف کا جاری کرنا ضروری ہے؟
ج: فقط مال کا جمع کرنا وقف شمار نہیں ہوگا لیکن ان اموال سے امام بارگاہ کا سامان خریدنے اورپھر اسے امام بارگاہ میں استعمال کیلئے رکھنے سے معاطاتی وقف ہوجاتاہے اور اس میں صیغہ وقف جاری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
- وقف کے شرائط
وقف کے شرائط
س 1999: کیا ایسے شخص کی جانب سے وقف صحیح ہے جسے مجبور کیا گیا ہو؟
ج: اگر وقف کرنے والے کو وقف پر مجبور کیا گیا ہو جب تک اس کی اجازت اس میں شامل نہ ہو وقف صحیح نہیں ہے۔
س 2000: کچھ زرتشتیوں نے ایک ہسپتال تعمیر کیا اور ایک ہزار سال کے لئے بھلائی کی راہ میں وقف کردیا ہے۔ فقہ امامیہ میں وقف کے قوانین و ضوابط کے پیش نظر کیا جائز ہے کہ وقف کا موجودہ متولی وقف نامے کی شرائط کے برخلاف عمل کرے کہ جس میں واضح طور پر درج ہے کہ «اگر ہسپتال کی آمدنی اس کے اخراجات سے زیادہ ہوجائے تو لازم ہے کہ اس سے کچھ بیڈ خریدے جائیں اور ہسپتال میں موجود بیڈز کی تعداد بڑھائی جائے»و
ج: جن موارد میں مسلمانوں سے وقف صحیح ہے ان میں غیر مسلمانوں - چاہے کتابی ہوں یا غیر کتابی- سے بھی صحیح ہے، در نتیجہ ہسپتال کا ایک ہزار سال تک بھلائی کی راہ میں وقف اگرچہ وقف منقطع الآخر ہے تاہم شرعی لحاظ سے اس کا صحیح ہونا بلا اشکال ہے۔ لہذا موقوفہ کے متولی کے پر وقف کرنے والے کی شرائط پر عمل کرنا واجب ہے اور ان کو پس پشت ڈالنے اور ان سے تجاوز کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
- متولی وقف کے شرائط
متولی وقف کے شرائط
س 2001: جو متولی وقف ، واقف یا حاکم کی طرف سے منصوب ہوا ہے کیا اس کیلئے جائز ہے کہ وہ جو کام وقف کے امور کو چلانے کیلئے انجام دیتاہے ان کی اجرت لے یا کسی دوسرے کو کام کرنے کی اجرت دے تا کہ وہ اسکی نیابت میں اس کام کو انجام دے؟
ج: متولی چاہے واقف کی طرف سے منصوب ہوا ہو یا حاکم کی طرف سے اگر وقف کے امور کو چلانے کے بدلے میں واقف کی طرف سے اس کی کوئی خاص اجرت معین نہیں کی گئی تو وہ وقف کی آمدنی سے اجرة المثل (مناسب اجرت )لے سکتاہے۔
س 2002:سیشن کورٹ نے ایک شخص کو متولی کے ہمراہ وقف کے امور پر نظارت اور دیکھ بھال کی غرض سے امین کے طور پر منصوب کیا ہے اس قسم کے موارد میں اگر متولی اپنے بعد والے متولی کو معین کرنے کا حق رکھتاہو تو کیا وہ اس شخص کے مشورے کے بغیر متولی معین کرسکتاہے جسے عدالت نے منصوب کیا ہے ؟
ج: اگر عدالت کی طرف سے شرعی متولی کے ہمراہ امین کے رکھنے کا حکم عام ہو اور اس کے تمام کاموں پر نظارت کی غرض سے ہو کہ جو وقف سے متعلق تمام امور حتی کہ اپنے بعد متولی معین کرنے کو بھی شامل ہے تو اسے حق نہیں ہے کہ وہ ناظر کے مشورے کے بغیر اپنے طور پر کسی کو متولی مقرر کرے۔
س 2003: مسجد کے پڑوس میں رہنے والے لوگوں نے مفت میں اپنی زمینیں اورگھر مسجد کی توسیع کی غرض سے دے دیئے ہیں تا کہ اس کے ساتھ ملحق ہوجائیں اور علماء کے ساتھ مشورے کے بعد امام جمعہ ان کے وقف کیلئے علیحدہ طور پر دستاویز تیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ان تمام لوگوں نے اس امر پر موافقت کی جنہوں نے مسجد کو وہ زمینیں بخشی ہیں لیکن مسجد کا پرانا بانی اس امر کی مخالفت کرتاہے اور اس کا یہ مطالبہ ہے کہ نئی زمین کاوقف ،وقف کی پہلی دستاویز میں ہی درج ہو اور وہ خود اس پورے وقف کا متولی ہو کیا اسے ایسا کرنے کا حق ہے ؟ اور کیا اس کے مطالبہ کا مثبت جواب دینا ہم پر واجب ہے ؟
ج: نئی زمینیں جو مسجد کے نام وقف ہوئی ہیں ان کے وقف اور وقف نامہ کے مرتب کرنے اور خاص متولی کو مقرر کرنے کا اختیار ان زمینوں کے وقف کرنے والوں کے ہاتھ میں ہے اورسابقہ مسجد کے بانی کو ان کی مخالفت کرنے کا حق نہیں ہے۔
س 2004: اگر امام بارگاہ کے متولی وقف نامہ مکمل ہونے کے بعد اس کے لئے ایک اندرونی نظام اور لائحہ عمل مرتب کریں لیکن اس کے بعض ضوابط وقف کی غرض و غایت کے ساتھ ٹکرارہے ہوں تو کیا شرعی طور پر ان ضوابط پر عمل جائز ہے؟
ج: موقوفہ امام بارگاہ کے متولی کو حق نہیں ہے کہ وہ ایسے ضوابط بنائے جن کا وقف کی غرض و غایت کے ساتھ ٹکراؤ ہو اور شرعاً ان پر عمل کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
س 2005: اگر چند افراد وقف کے متولی کے طور پر منصوب ہوئے ہوں تو کیا شرعی طور پر صحیح ہے کہ ان میں سے بعض دوسروں کی رائے لیئے بغیر انفرادی طور پر وقف کے امور کے س 2005: اگر چند افراد وقف کے متولی کے طور پر منصوب ہوئے ہوں تو کیا شرعی طور پر صحیح ہے کہ ان میں سے بعض دوسروں کی رائے لیے بغیر انفرادی طور پر وقف کے امور کے ذمہ داربن جائیں اور اگر انکے درمیان وقف کے امور میں اختلاف ہوجائے تو کیا ان میں سے ہر ایک کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق عمل کرے یا یہ کہ واجب ہے کہ وہ اس سلسلے کو روک کرحاکم کی طرف رجوع کریں؟ذمہ داربن جائیں اور اگر انکے درمیان وقف کے امور میں اختلاف ہوجائے تو کیا ان میں سے ہر ایک کے لیئے جائز ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق عمل کرے یا یہ کہ واجب ہے کہ وہ اس سلسلے کوروک کرحاکم کی طرف رجوع کریں؟
ج: اگر واقف نے ان کی تولیت کو مطلق طور پر بیان کیا ہے اور کوئی ایسا قرینہ بھی موجود نہیں ہے جو ان میں سے بعض یا حتی اکثریت کے استقلال پر دلالت کرے تو ان میں سے کسی کو بھی وقف کے امور میں مستقل طور پر عمل کرنے کاحق حاصل نہیں ہے بلکہ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مشورے کے ساتھ مل کر وقف کے امور کو چلائیں اور اگر انکے درمیان اختلاف پید ا ہوجائے تو واجب ہے کہ وہ حاکم شرع سے رجوع کریں تا کہ وہ انہیں مل کر کام کرنے کا پابند بنائے۔
س2006: کیا وقف کے بعض متولیوں کا دوسرے بعض کو معزول کرنا شرعی طور پر صحیح ہے؟
ج: صحیح نہیں ہے مگر یہ کہ واقف کی طرف سے اسے یہ حق دیا گیا ہو ۔
س 2007: اگر بعض متولی دعویٰ کریں کہ دوسرے متولی خائن ہیں اور وہ ان کے معزول کرنے پر اصرار کریں تو اس سلسلے میں حکم شرعی کیا ہے؟
ج: وہ لوگ جن پر خیانت کا الزام ہے ان کے الزام کی تحقیق کے لئے حاکم شرع کی طرف رجوع کرنا واجب ہے۔
س2008: اگر ایک شخص اپنی زمین کو وقف عام کردے اور جب تک زندہ ہے اس کی تولیت اپنے پاس رکھے اور اپنے مرنے کے بعد بڑے بیٹے کو اس کا متولی بنائے اور اس کے امور کو چلانے کیلئے اسے مخصوص اختیارات بھی دے تو کیا محکمہ اوقاف کے افسران کو یہ حق ہے کہ اس سے ان میں سے بعض اختیارات چھیں لیں؟
ج: جب تک واقف کی طرف سے منصوب متولی ،وقف کی تولیت کے اختیارات سے باہر عمل نہ کرے وقف کے امور کی دیکھ بھال اسی کے اختیار میں رہے گی جیسا کہ واقف نے اس کے لئے انشاء وقف میں مقرر کیا ہے اور شرعی لحاظ سے اس کے اختیارات جو واقف کی طرف سے صیغہ وقف کے ضمن میں قرار دیئے گئے ہیں میں تبدیلی کرنا صحیح نہیں ہے۔
س 2009: کسی شخص نے زمین کا ایک حصہ مسجد کیلئے وقف کیا ہے اور اس کی تولیت اپنی اولاد کیلئے نسل در نسل قرار دی ہے اور ان کے ختم ہوجانے کے بعد اس کی تولیت اس پیش نماز کے ہاتھ میں قرار دی ہے جو اس مسجد میں پانچ وقت کی نماز پڑھاتا ہے اور اسی بنیاد پر متولی کی نسل کے ختم ہوجانے کے بعد اس مسجد کی تولیت اس پیش نماز کے ہاتھ میں آگئی جو اس میں کچھ عرصہ پانچ وقت کی نماز پڑھاتاتھا لیکن اسے بھی اٹیک ہوگیا ہے اور وہ نماز باجماعت پڑھانے کی قدرت نہیں رکھتااور پیشنمازوں کی شوریٰ نے اس پیش نماز کی جگہ ایک دوسرے عالم دین کو اس مسجد میں امام جماعت مقرر کیا ہے کیا اس کام کے ذریعے پہلا عالم تولیت سے معزول ہوجائے گا یا اسے حق ہے کہ وہ کسی کو نماز جماعت پڑھانے کیلئے اپنا وکیل یا نائب مقرر کردے اور خود متولی کے عنوان سے باقی رہے؟
ج: اگر فرض یہ ہو کہ اس عالم کی تولیت اس عنوان سے ہے کہ وہ پنجگانہ نمازوں میں مسجد کا امام جماعت ہے تو اگر بیماری یا کسی اور وجہ سے وہ مسجد میں امام جماعت ہونے اور نماز پڑھانے سے معذور ہوجائے تو اسکی تولیت ساقط ہوجائے گی۔
س 2010: ایک شخص نے اپنی جائیداد کو وقف کیا ہے تا کہ اس کی آمدنی کچھ خاص نیک کاموں میں خرچ کی جائے جیسے سادات کی مدد کرنا اور عزاداری قائم کرنااور اس وقت اس کے کرائے میں کہ جو وقف کے منافع کا حصہ ہے اضافہ ہوگیا ہے اور بعض افراد یا ادارے اس وجہ سے کہ انکے پاس وسائل نہیں ہیں یا ثقافتی ، سیاسی، اجتماعی اور دینی وجوہات کی بناپر اس موقوفہ ملک کو بہت ہی کم کرائے پر لینا چاہتے ہیں کیا اوقاف کے ادارے کے لئے جائز ہے کہ اسے موجودہ قیمت سے کم کے ساتھ کرائے پر دے؟
ج: وقف کے امور کے نگران اور شرعی متولی پر واجب ہے کہ وہ وقف کو کرایہ پر دینے اور اس کے کرایہ کو معین کرنے میں اسکی منفعت اور مصلحت کو مدنظر رکھے لہٰذا کرایہ دار کے مخصوص حالات کی وجہ سے یا اس امر کی اہمیت کی وجہ سے کہ جس کے لئے وقف کوکرایہ پر دیا جارہاہے کرایہ کی قیمت میں کمی کرنے میں اگر وقف کی مصلحت اورفائدہ ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے اوراگر ایسا نہ ہو تو جائز نہیں ہے۔
س 2011: امام راحل (قدس سرہ) کے نظریے کے مطابق مسجد کا متولی نہیں ہوتا کیا یہ حکم ان املاک کو بھی شامل ہے جنہیں مسجد کیلئے وقف کیا گیا ہے مثلا وہ املاک جو مسجد میں وعظ و نصیحت اور احکام اسلام کی تبلیغ کیلئے وقف ہوئی ہیں ؟ بالفرض اگر شامل ہے تو اس وقت بہت سی مسجدوں کی ایسی موقوفہ املاک ہیں کہ جن کے قانونی اور شرعی طور پر دائمی متولی بھی ہیں اور محکمہ اوقاف بھی ان کے ساتھ متولی جیسا سلوک کرتاہے تو کیا ان متولیوں کیلئے جائز ہے کہ وہ ان املاک سے دست بردار ہوجائیں اور ان سے متعلق اپنی ذمہ داریاں انجام دینے سے اجتناب کریں جبکہ امام راحل (قدس سرہ) کے استفتاء ات میں یہ نقل ہوا ہے کہ متولی کو وقف کی تولیت سے اعراض کرنے اور دست بردار ہونے کا حق نہیں ہے بلکہ اس پر واجب ہے کہ وہ واقف کی وصیت کے مطابق عمل کرے اور اس سلسلے میں کوتاہی نہ کرے؟
ج: یہ حکم مسجد سے مخصوص ہے کہ مسجد کا کوئی متولی نہیں ہوسکتا اور ان موقوفات کو شامل نہیں ہے جو مسجد کے لئے وقف کی گئی ہیں لہذا بہ طریق اولیٰ یہ حکم ان موقوفات کو بھی شامل نہیں ہے جو مسجد میں اسلام کی تبلیغ اور وعظ و نصیحت کی خاطر وقف کی گئی ہیں لہذاوقف خاص یا عام میں متولی کا مقرر کرنا ،حتی اس ملک میں بھی کہ جو مسجد کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے وقف کی گئی ہے جیسے مسجدکے اندر روشنی ، پانی ، صفائی اور دوسرے لوازمات، کوئی اشکال نہیں رکھتا اور وہ متولی جو ان اوقاف کی نگرانی کیلئے منصوب ہے اسے تولیت سے اعراض کرنے کا حق نہیں ہے بلکہ اس پر واجب ہے کہ وہ وقف کے امور کو اسی طرح چلائے جس طرح واقف نے وقف کے صیغہ میں بیان کیا ہے اگرچہ ان امور کو انجام دینے کیلئے نائب مقرر کرکے اور کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس کے لئے وقف کے امور کو چلانے میں رکاوٹ یا مشکلات پیدا کرے۔
س 2012: کیا وقف کے شرعی متولی کے علاوہ کسی اور شخص کیلئے وقف کے امور میں مداخلت ، اس میں تصرف اور اس کے ان شرائط میں کہ جو وقف کے صیغہ میں ذکر ہوئے ہیں تبدیلی کرکے شرعی متولی کیلئے رکاوٹ پیدا کرنا جائز ہے اور کیا اس کے لئے جائز ہے کہ متولی سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ موقوفہ زمین ایسے شخص کی تحویل میں دے جسے متولی اس کام کے لائق نہیں سمجھتا؟
ج: واقف کی ان شرائط کے مطابق جو وقف کے صیغہ میں ذکر ہوئی ہیں وقف کے امور کو چلانا فقط شرعی متولی کے ساتھ مخصوص ہے اور اگر واقف کی طرف سے وقف کیلئے کوئی خاص متولی منصوب نہ ہوا ہو تو وقف کے امور کوچلانے کی ذمہ داری مسلمانوں کے حاکم کی ہے اور کسی کو اس میں مداخلت کا حق نہیں ہے اور اسی طرح وقف کی جہت اور اس کی ان شرائط میں تبدیلی کرنے کا بھی کسی کو حق نہیں ہے جو وقف کے صیغہ میں ذکر ہوئے ہیں حتی خود متولی شرعی کو بھی یہ حق نہیں ہے۔
س 2013: اگر واقف کسی شخص کو وقف کے نگران اور ناظر کے عنوان سے مقر رکرے اس شرط کے ساتھ کہ اسے فقط ولی فقیہ وقف کی نگرانی اور نظارت سے معزول کرسکتاہے کیا اس شخص کی لئے جائز ہے کہ وہ خود کو اس کام سے معزول کردے؟
ج: بنابر احتیاط واجب وقف کی نظارت قبول کرنے کے بعد ناظر کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ خود کو وقف کی نظارت سے معزول کردے جیسا کہ وقف کے متولی کی لئے بھی جائز نہیں ہے کہ وہ خود کو تولیت سے معزول کردے۔
س 2014: ایک ایسا وقف ہے کہ جس کا ایک حصہ خاص اور دوسرا عام ہے اور واقف نے اس کی تولیت کیلئے اس طرح کہا ہے " ہر ایک کی وفات کے بعد وقف کی تولیت سب سے بڑے اور لائق ترین بیٹے کے ذمہ نسل در نسل ہے اس طرح کہ پہلی نسل دوسری نسل پر مقدم ہے" اس صورت میں اگر ایک نسل کے افراد کے درمیان ایسا شخص موجود ہو جو جامع الشرائط ہے لیکن وہ وقف کی تولیت قبول کرنے سے انکار کرے اوراس چھوٹے بیٹے کی تولیت پر اتفاق کرے جو اس کی نظر میں اس کام کیلئے موزوں اورلائق ترین ہے تو کیا چھوٹے بیٹے کیلئے جائز ہے کہ تمام شرائط موجود ہونے کی صورت میں وہ اس وقف کی تولیت کو قبول کرے؟
ج: وہ شخص جس کے اندر تولیت کے شرائط پائے جاتے ہیں وہ تولیت قبول کرنے سے انکار کرسکتاہے لیکن اگر وہ تولیت کو قبول کرلے تو بنابر احتیاط اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ خود کو تولیت سے معزول کرے لیکن اگر خود بلا واسطہ طور پر وقف کے امور کو چلانے کی شرط نہ لگائی گئی ہو تو اس امر میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے دوسرے شخص کو وقف کے امور کو چلانے کیلئے وکیل بنا دے جو امین اور لائق ہو اور اسی طرح اگر پہلی نسل میں ایسا فرد موجود ہو جس میں تولیت قبول کرنے کی شرائط ہوں اور اس نے تولیت کو قبول کرلیا ہوتو بعد والی نسل کے فرد کیلئے تولیت کو قبول کرنا جائز نہیں ہے۔
س2015: جن لوگوں پر وقف کیا گیا ہے اگر ان میں سے وہ افراد کہ جو شرائط کے حامل ہونے کی صورت میں تولیت کا حق رکھتے ہیں حاکم شرع کے پاس رجوع کریں اور اس سے مطالبہ کریں کہ وہ انہیں متولی کے عنوان سے منصوب کردے اور حاکم شرع ان کی درخواست کو اس بناپر مسترد کردے کہ ان میں شرائط موجود نہیں ہیں تو کیا ان کے لئے جائز ہے کہ وہ اس شخص کے مقرر کرنے کی مخالفت کریں جس میں شرائط پائے جاتے ہیں صرف اس بنا پر کہ اسکی عمر کم ہے؟
ج: جس شخص میں شرائط موجود نہیں ہیں اسے وقف کی تولیت لینے اور جس شخص میں شرائط پائے جاتے ہیں اس کی مخالفت کرنے کا حق نہیں ہے۔
س 2016: جو متولی وقف کے امور کو چلانے کیلئے منصوب ہوا ہے اگر وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں میں کوتاہی یا غفلت سے کام لے تو کیا اسے تولیت سے برطرف کرنا اور اس کی جگہ کسی دوسرے فرد کو وقف کی تولیت کیلئے منصوب کرنا جائز ہے؟
ج: وقف کے امور کو چلانے میں محض غفلت یا کوتاہی کرنا نصب شدہ متولی کو معزول اور برطرف کرنے اور اس کی جگہ کسی دوسرے کو منصوب کرنے کا شرعی جواز فراہم نہیں کرتا بلکہ اس کے بارے میں حاکم شرع کے پاس رجوع کرنا ضروری ہے تا کہ وہ اسے وقف کے امور انجام دینے کا پابند بنائے اور اگر اس کیلئے اسے پابند کرنا ممکن نہ ہو تو اس سے مطالبہ کرے کہ وہ اپنی طرف سے وقف کے امور کو انجام دینے کیلئے کسی لائق شخص کو منتخب کرے یا خود حاکم شرع کسی امین شخص کو اسکے ہمراہ کردے۔
س 2017: ائمہ معصومین (ع) کے فرزندوں (امامزادوں) کے ایران کے شہروں اور دیہاتوں میں جو مزارات ہیں کہ جن کو سالہا سال گزر گذر گئے ہیں اور یہ نہ وقف خاص ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی مخصوص متولّی ہے ، توان کی نذورات و خیرات کی جمع آوری اور انکی تعمیر اور حفاظت کے لئے ان میں تصرف کرنے کی ولایت کس کے پاس ہے ؟کیا کسی کو یہ حق ہے کہ وہ امامزادوں کے حرم کی اس زمین کی ملکیت کا دعویٰ کرے جو قدیم زمانے سے جنازوں کے دفن کرنے کی جگہ ہے؟
ج: امامزادوں کے مزارات مبارکہ اور وقف عام جن کا کوئی خاص متولی نہیں ہے کی تولیت ولی فقیہ کے ہاتھ میں ہے اور موجودہ دور میں یہ تولیت محکمہ اوقاف میں ولی فقیہ کے نمائندے کو سپرد کی گئی ہے اور امامزادوں کے حرم اور صحن کی وہ زمین کہ جسے قدیم زمانے سے مسلمانوں کے جنازے دفن کرنے کیلئے قرار دیا گیا ہے وقف عام کے حکم میں ہے مگر یہ کہ حاکم کے پاس شرعی طریقے سے اسکے برخلاف کوئی چیزثابت ہوجائے۔
س2018:جو لوگ وقف سے استفادہ کرتے ہیں اور سب مسلمان ہیں کیا ان کے لئے جائز ہے کہ ہ ایک غیر مسلم کو محکمہ اوقاف کے یہاں متعارف کرائیں تا کہ وہ اس کے متولی ہونے کا حکم صادر کرے؟
ج: مسلمانوں کے وقف کی تولیت غیر مسلم کے ذریعہ جائز نہیں ہے۔
س 2019: واقف کی طرف سے منصوب متولی اور غیر منصوب متولی کون ہوتاہے ؟ اور اگر واقف کسی خاص شخص کو وقف کے متولی کے عنوان سے معین کرے اور بعد والے متولی کی تعیین کا حق اس متولی کو سونپ دے تو کیا وہ دوسرا شخص بھی منصوب متولی شمار ہوگا جسے پہلے متولی نے معین کیا ہے؟
ج: منصوب متولی وہ شخص ہے کہ جسے واقف ،وقف کا صیغہ انشاء کرتے وقت متولی کے طور پر معین کرے اور اگر وقف کا صیغہ انشاء کرتے وقت بعد والے متولی کی تعیین کا حق اس متولی کو سونپ دے کہ جسے اس نے منصوب کیا ہے اور وہ کسی کو متولی بنادے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے اور جس شخص کو وہ وقف کی تولیت کیلئے معین کرتاہے وہ بھی واقف کی طرف سے منصوب متولی کے حکم میں ہے۔
س 2020: کیا اسلامی جمہوریہ (ایران)کا محکمہ اوقاف وقف کے متولی کو برطرف کرسکتا ہے؟ اور اگر یہ جائز ہو تو اس کے شرائط کیا ہیں ؟
ج: محکمہ اوقاف اتنی مقدار کہ جتنی قانونی ضوابط اسے اجازت دیتے ہیں ان اوقاف میں مداخلت کرسکتاہے جنکے متولی خاص ہیں ۔
س 2021: کیا جائز ہے کہ وقف کا متولی اپنی تولیت محکمہ اوقاف کے حوالے کردے؟
ج: وقف کے متولی کو ایسا کرنے کا حق نہیں ہے لیکن اگر وہ محکمہ اوقاف یا کسی دوسرے شخص کو وقف کے امور انجام دینے کیلئے وکیل بنائے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س 2022: عدالت نے ایک شخص کو وقف کے اس متولی کے کاموں پر نگرانی کے لئے نگران کے طور پر معین کیا جس پر الزام ہے کہ اس نے وقف کے امور کو چلانے میں کوتاہی کی ہے اور پھر متولی ان الزامات سے بری ہونے کے بعد انتقال کرگیا۔ کیا مذکورہ نگران کو حق حاصل ہے کہ وہ اس متولی کے ان فیصلوں میں ۔ کہ جو اس کے نگران منتخب ہونے سے پہلے انجام پائے ہیں انہیں بر قرار رکھنے اور نافذ کرنے یا انہیں فسخ اور ختم کرنے کے ذریعہ۔مداخلت کرے اور اظہار رائے کرے یا یہ کہ اسکی نظارت اور ذمہ داری صرف اسکے نگران کے طور پر معین ہونے کے وقت سے متولی کی وفات کی تاریخ تک ہے ؟اوراس چیز کے پیش نظر کہ متولی کے الزامات سے بری ہونے کی تاریخ سے لے کر اب تک نگران کو برطرف نہیں کیا گیا کیا نگران کے اختیارات اور اس کی ذمہ داری متولی کے الزامات سے بری ہوجانے کے فیصلے کے بعد ختم ہوجاتی ہے یا یہ کہ اسکے اختیارات کا ختم ہونا عدالت کی طرف سے اسے برطرف کرنے پرموقوف ہے؟
ج: اگر نگران کا شرعی متولی کے ہمراہ تعین ،وقف کے امور کوچلانے کے سلسلے میں اس پر الزامات کی بناپر ہو تو وہ صرف انہیں امور میں اظہار رائے اور مداخلت کرنے کا حق رکھتاہے جن پر اسے تعینات کیا گیا ہے اورجس متولی پر الزام ہے اس کے امور پر اس کی نگرانی کی صلاحیت اسکے الزامات سے بری ہوجانے کے بعد ختم ہوجاتی ہے اور اسی طرح پہلے متولی کی وفات کے بعد جب تولیت دوسرے شخص کو منتقل ہوجائے تو مذکورہ نگران کو نئے متولی کے کاموں اور وقف کے امور میں مداخلت کا حق نہیں ہے۔
- عین موقوفہ کے شرائط
عین موقوفہ کے شرائط
س 2023: اگر کچھ افراد مخیّرلوگوں سے اس نیت کے ساتھ رقم جمع کریں کہ وہ اس سے ایک مکان خرید کر وہاں امام بارگاہ بنائیں گے کیا ان کا رقم جمع کرنے کا یہ اقدام اس کام کیلئے کافی ہے کہ وہ اس گھر کو امام بارگاہ کے عنوان سے وقف کرنے کا حق رکھتے ہوں یا یہ کہ ان کی لئے ضروری ہے کہ وہ اس کام کیلئے رقم کے مالکوں کی طرف سے وکالت حاصل کریں؟ اور اس چیز کے پیش نظر کہ واقف کیلئے شرط ہے کہ وہ یا مالک ہو یا مالک کے حکم میں ہو اور یہ افراد اس رقم کے مالک نہیں ہیں کیا صرف رقم جمع کرنے سے ان پر مالک کا حکم صادق آتاہے تا کہ یہ وقف کرنے کا حق رکھتے ہوں؟
ج: اگر وہ مخیّرلوگوں کی طرف سے وکیل ہوں تا کہ ایک مکان کو خرید کر اسے امام بارگاہ کے عنوان سے وقف کریں تو مالکوں کی طرف سے وکالت کے طور پر انکا وقف صحیح ہے۔
س 2024: وہ جنگل اور قدرتی سبزہ زار جن کی تشکیل میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور جیسا کہ اسلامی جمہوریہ (ایران) کے بنیادی قانون کی شق٤٥ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ یہ انفال میں شمار ہوتے ہیں کیا ان کا وقف کرنا جائز ہے ؟
ج: وقف کے صحیح ہونے میں واقف کی خاص شرعی ملکیت کا ہونا شرط ہے اور چونکہ جنگل اور سبزہ زار انفال اور عمومی اموال میں شامل ہیں اور کسی کی خاص ملک نہیں ہیں لہذا کسی شخص کے ذریعہ ان کا وقف صحیح نہیں ہے۔
س 2025: ایک شخص نے زرعی زمین کا ایک مشترکہ (مشاع) حصہ خریدکر اسے قانونی طور پر اپنے بیٹے کے نام کردیا ہے کیا اس کیلئے جائز ہے کہ جو زمین اس نے اپنے بیٹے کیلئے خریدی ہے اسے وقف کر دے؟
ج: فقط ملک کا کسی کے نام کرنا اس شخص کی شرعی ملکیت کا معیار نہیں ہے لہذا اگر باپ اس زمین کو خریدنے اور اپنے بیٹے کے نام کرنے کے بعد اسے ہبہ کردے اور اس زمین کا قبضہ بھی صحیح طور پرواقع ہوجائے تو باپ کو وہ زمین وقف کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ وہ اس کا مالک نہیں ہے لیکن اگر اس نے صرف زمین کی دستاویز اس کے نام کی ہے اور زمین اسی کی ملکیت میں باقی ہو تو اس صورت میں وہ اس زمین کا شرعی لحاظ سے مالک ہے اور اسے اس کے وقف کا حق حاصل ہے۔
س 2026: اگر تیل کی کمپنی کے ذمہ دار افراد اور شہری زمین کا ادارہ اپنے زیر کنٹرول زمینوں میں سے بعض کو مساجد اور مدرسے تعمیر کرنے کے لئے مخصوص کرے اور صیغہ وقف جاری کرنے کے علاوہ قبضہ دینا اور لینا بھی مکمل ہوجائے تو کیا یہ زمینیں موقوفہ شمار ہونگی اوران پر وقف کے احکام جاری ہونگے؟
ج: اگر یہ زمینیں حکومت کے عمومی اموال میں سے ہوں اور ان کے لئے مخصوص مصرف معین کیا گیا ہو تو وہ قابل وقف نہیں ہیں لیکن اگر وہ ایسی بنجر(موات) زمینیں ہوں جو کسی کی ملکیت نہیں ہیں اور شہری ادارے ، تیل کی کمپنی یا حکومت کے اختیار میں ہوں تو متعلقہ افسران کی اجازت سے انہیں مساجد اور مدرسے کے عنوان سے احیا کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س 2027: کیا بلدیہ کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی بعض املاک کو رفاہ عامہ کیلئے وقف کردے؟
ج: یہ چیز بلدیہ کے قانونی حدود و اختیارات اور اس ملک کی خصوصیت پر منحصر ہے لہذا اگر وہ ایسی املاک میں سے ہے کہ جن کے بارے میں بلدیہ قانونی طورپر حق رکھتی ہے کہ انہیں رفاہ عامہ جیسے ہسپتال ،ڈسپنسری، مسجد یا دوسرے امورمیں استعمال کرے تو اس صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر ایسی املاک ہوں جو بلدیہ سے متعلقہ امور میں استفادے کے لئے مخصوص ہیں تو اسے انکے وقف کرنے کا حق نہیں ہے۔
- موقوف علیہ کے شرائط
موقوف علیہ کے شرائط
س 2028: ایک علاقہ کے باشندوں نے شہری زمین کے ادارے سے زمین کا ایک قطعہ لے کر اس میں ایک مسجد بنائی لیکن اس کے وقف کرنے کی کیفیت میں ان کے درمیان اختلاف ہوگیا کہ یہ وقف عام ہو یا وقف خاص، ان میں سے بعض کا خیال یہ ہے کہ اس کا اندراج وقف خاص کے عنوان سے ہونا چاہیے اور بعض کا خیال یہ ہے کہ چونکہ اس علاقہ کے تمام باشندے اس کے بنانے میں شریک ہوئے ہیں لہذا اسے وقف عام ہونا چاہیے اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج: مسجد وقفِ عام ہوتی ہے اور اسے کسی خاص گروہ اور کسی خاص قبیلہ کیلئے وقف نہیں کیا جاسکتا لیکن نام رکھنے میں اسے کسی مناسبت سے کسی شخص یا اشخاص کے نام منسوب کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن جن مومنین نے مسجد کی تعمیر میں شرکت کی ہے ان کیلئے اس امر میں اختلاف کرنا مناسب نہیں ہے ۔
س 2029: ایک گمراہ فرقہ کے رہنمانے اپنی املاک اس فرقہ کی لئے وقف کی ہیں اور اس امر کے پیش نظر کہ وقف کے صحیح ہونے میں وقف کی جہت کا مشروع ہونا شرط ہے اور دوسری جانب اس فرقہ کے اعتقادات ، اعمال اور اہداف گمراہی پر مبنی اور باطل ہیں ۔کیا یہ وقف صحیح ہے اور کیا ان اموال سے مذکورہ فرقہ کے حق میں استفادہ کرنا جائز ہے؟
ج: اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ وہ امر جس کیلئے ملک وقف کی گئی ہے حرام اور گناہ و معصیت پر تعاون کے مصادیق میں سے ہے تو ایسا وقف باطل ہے اور ان اموال کا ان امور میں استعمال کرنا جو شرعا حرام ہیں صحیح نہیں ہے۔
- وقف کی عبارات
وقف کی عبارات
س 2030: کیا مجالس عزاداری میں شرکت کرنے والوں اور علاقے کے ان افراد کو کہ جن کیلئے امام بارگاہ تعمیر گئی ہے اس کے وقفنامہ کے جملوں کی تشریح کرنے میں مداخلت کا حق ہے ؟
ج: اگر وقف نامہ کے متن میں کوئی ابہام یا اجمال ہو تو اسے سمجھنے کیلئے قرائن و شواہد حالیہ و مقالیہ اور یا پھر عرف کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے اور کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے کے مطابق اسکی تشریح کرے۔
س 2031: اگر کوئی جگہ علوم دینی کی تعلیم و تعلّم کیلئے وقف ہوئی ہو تو کیا اس میں مشغول دینی طلاب کے موجود ہوتے ہوئے دوسرے عام لوگوں اور مسافروں کیلئے جائز ہے کہ وہ اس کے وسائل اور سہولیات سے استفادہ کریں؟
ج: اگر وہ جگہ صرف دینی طلاب کیلئے یا فقط تدریس اور تحصیل علوم دینی کیلئے وقف ہو تو دوسروں کیلئے اس سے استفادہ کرنا جائز نہیں ہے۔
س 2032: ایک وقفنامہ میں مندرجہ ذیل عبارت آئی ہے " صیغہ وقف میں شرط طے پائی ہے کہ وہاں کے عام باشندوں کا ایک گروہ ٹرسٹ کے ممبران کے عنوان سے منتخب کیا جائے" کیا یہ عبارت انتخاب کرنے والوں کو معین کرنے پر دلالت کرتی ہے ؟ اور بالفرض اگر انتخاب کرنے والوں کو معین کرنے پر دلالت نہ کرتی ہو تو ٹرسٹیز کے انتخاب کا حق کن لوگوں کے پاس ہے؟
ج: مذکورہ عبارت سے ظاہر یہ ہوتاہے کہ ٹرسٹ کے ممبران کے انتخاب میں وہاں کے تمام باشندوں کی شرکت ضروری ہے۔ بہرحال اگر واقف نے ٹرسٹیز کو انتخاب کرنے والے یا کرنے والوں کو معین نہ کیا ہو تو اگر وقف کا خاص متولی ہو تو ٹرسٹیز کے انتخاب کا حق اسے او اگر اس کے متعدد خاص متولی ہوں اور ان کا آپس میں اختلاف ہو یا واقف کی طرف سے متولی معین ہی نہ کیا گیا ہو تو ضروری ہے کہ اس مسئلہ میں حاکم شرع کی طرف رجوع کریں۔
س 2033: جن پر وقف کیا گیا ہے اگر ان میں سے سب سے بڑے بیٹے کی تولیت کیلئے اس کا " ارشد و اصلح" ہونا شرط ہو تو کیا اس کے رشید اور با صلاحیت ہونے کا اثبات بھی واجب ہے یا یہ کہ محض اس کا عمر کے لحاظ سے بڑا ہونا اس کے اصلح اور ارشد ہونے پر بنا رکھنے کا باعث ہوگا؟
ج: تولیت کے سنبھالنے کے تمام شرائط کا اثبات ضروری ہے۔
س 2034: ایک شخص نے اپنی ذاتی املاک محرم اور غیر محرم میں امام حسین علیہ السلام کی مجالس عزاداری قائم کرنے کیلئے وقف کی ہیں اور اپنے بعد اپنی اولاد کو ہمیشہ کیلئے اس کا متولی قرار دیا ہے اور املاک کے منافع کا ایک تہائی حصہ متولی کیلئے قرار دیاہے۔ اگر کسی زمانے میں واقف کے پہلے ، دوسرے اور تیسرے طبقے کے لڑکے اور لڑکیاں موجود ہوں تو کیا وقف کی تولیت ان سب کیلئے مشترکہ طور پر ہے اور تولیت کا حق ان کے درمیان تقسیم ہوجائے گا؟ اوراگر ان سب کے درمیان تقسیم ہوگا تو کیا لڑکے اور لڑکی کے درمیان برابر تقسیم ہوگا یا فرق کے ساتھ تقسیم ہوگا ؟
ج: اگر کوئی ایسا قرینہ موجود نہ ہو جو میراث کے طبقات کے مطابق ترتیب اور سابقہ نسل کے بعد والی نسل پر مقدم کرنے پر دلالت کرے تو ہر زمانے میں موجود تمام طبقات وقف کے مساوی اور مشترک طور پر متولی ہیں اور حق تولیت لڑکے اور لڑکی کے درمیان بغیر کسی فرق کے بطور مساوی تقسیم ہوگا۔
س 2035: اگر واقف اپنے بعد وقف کی تولیت کو مطلق طور پر علماء و مجتہدین کے لئے قرار دے تو کیا وہ عالم جو مجتہد نہیں ہے اسے حق ہے کہ وہ تولیت کے امور کو اپنے اختیار میں لے لے؟
ج: جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ واقف کی علماء سے مراد فقط مجتہدین ہیں تو عالم دین کے لئے وقف کی تولیت سبنھالنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اگر چہ وہ اجتہاد کے درجے تک نہ پہنچا ہو۔
- احکام وقف
احکام وقف
س 2036: کچھ افراد نے متولی خاص کی اجازت کے بغیر جامع مسجد کے مدرسے کے کمرے اور مسجد کے ساتھ متصل امام بارگاہ کے باورچی خانہ کے درمیان واقع لائبریری کو مسمار کر کے اسے مسجد میں شامل کردیا ہے کیا ان کا یہ کام صحیح ہے؟ اور کیا اس جگہ نماز پڑھنا جائز ہے؟
ج: اگر یہ ثابت ہوجائے کہ لائبریری کی زمین صرف لائبریری کیلئے وقف کی گئی ہے تو اسے مسجد میں تبدیل کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے اور اس میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اور جس شخص نے اس عمارت کو مسمار کیا ہے اس پر واجب ہے کہ وہ اسے پہلی حالت پر لائے۔ لیکن اگر صرف لائبریری کیلئے اس کا وقف ہونا ثابت نہ ہو تو اس میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س 2037: کیا جائز ہے کسی جگہ کو کچھ مدت مثلا دس سال کیلئے مسجد کے عنوان سے وقف کریں اور اس مدت کے تمام ہونے کے بعد وہ دوبارہ واقف یا اس کے ورثاء کی ملکیت میں لوٹ آئے؟
ج: یہ کام وقف موقت کے طور پر صحیح نہیں ہے اور اس سے مسجد کا عنوان بھی محقق نہیں ہوتا لیکن اس جگہ کو معینہ مدت تک نماز گزاروں کیلئے مخصوص کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔
س 2038: ایک موقوفہ زمین ایسے قبرستان کے پاس موجود ہے جو وہاں کے مردوں کے دفن کرنے کیلئے کافی نہیں ہے اور اسے قبرستان میں تبدیل کرنا مناسب ہے کیا اس کا قبرستان میں تبدیل کرنا جائز ہے؟
ج: جوزمین مردوں کو دفن کرنے کے علاوہ کسی اور کام کیلئے وقف کی گئی ہو اسے بغیر کسی قیمت ادا کئے قبرستان میں تبدیل کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر اس کا وقف ، وقف منفعت ہو تو اس کا شرعی متولی وقف کی مصلحت اور فائدے کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے قبرستان کیلئے کرایہ پر دے سکتاہے۔
س 2039: سرکاری عمارتوں، عمومی پار ک اور سڑکوں کی تعمیر اور ترقیاتی منصوبوں کی حدود میں بعض موقوفہ زمینیں آرہی ہیں اور بعض سرکاری ادارے شرعی متولی کی اجازت کے بغیر اور ان کا کرایہ اورقیمت ادا کئے بغیر انہیں اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں کیا ان کے لئے ایسا کرنا جائز ہے؟ کیا وہ شخص جو ان موقوفہ زمینوں میں تصرف کرتاہے اس کیلئے ان کی قیمت یا ان کا عوض ادا کرنا ضروری ہے اور کیا اس کیلئے ضروری ہے کہ جس وقت سے اس نے ان میں تصرف کیا ہے اپنے تصرف کی اجرة المثل ادا کرے؟ اور کیا ادارے کے ذریعہ موقوفہ زمین کی قیمت ادا کرنے یا اس کے عوض دوسری زمین دینے میں حاکم شرع سے اجازت لینا واجب ہے یا جائز ہے کہ محکمہ اوقاف یا وقف کا متولی وقف کے فائدے اور مصلحت کی رعایت کرتے ہوئے انکے ساتھ عوض یا قیمت کے سلسلے میں توافق کرلے؟
ج: متولی شرعی کی اجازت اور اذن کے بغیر جائز نہیں ہے کہ کوئی شخص وقف میں تصرف کرے جیسا کہ اگر وقف، وقف منفعت ہو تو اس میں بھی صرف متولی سے کرایہ پر لینے کے بعد تصرف جائز ہے اور اسی طرح اس وقف کا فروخت یا تبدیل کرنا ۔ کہ جس سے وہ انتفاع اور فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے کہ جس کیلئے اسے وقف کیا گیا ہے۔ جائز نہیں ہے اور اگر کوئی شخص اسے تلف کردے تو وہ اس کا ضامن ہے اور اگر اس کے شرعی متولی کی اجازت کے بغیر اس میں تصرف کرے تو وہ اس کی اجرة المثل کا ضامن ہے اور ضروری ہے کہ وہ اجرة المثل وقف کے شرعی متولی کو ادا کرے تا کہ وہ اسے وقف کی جہت میں خرچ کرے اور اس مسئلہ میں اشخاص اور نجی و سرکاری اداروں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور وقف کے متولی کے لئے جائز ہے کہ وہ حاکم شرع کی طرف رجوع کئے بغیر تصرف کرنے والے یا تلف کرنے والے کے ساتھ وقف کی مصلحت کی رعایت کرتے ہوئے اسکی اجرت یا عوض پر توافق کرلے۔
س 2040: ایک موقوفہ زمین میں ایسا راستہ ہے کہ جو فقط مویشیوں کے گزرنے کیلئے مناسب ہے اور اس وقت اس کے اطراف میں گھروں کی تعمیر کی وجہ سے مذکورہ راستے کو چوڑا اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے کیا دونوں طرف سے موقوفہ اور ذاتی زمینوں کو بطور مساوی شامل کرکے اسے وسیع اور چوڑا کرنا جائز ہے اور جائز نہ ہونے کی صورت میں کیا اس کے شرعی متولی سے موقوفہ زمین کی اس مقدار کو کرایہ پر لینا جائز ہے؟
ج: وقف کی زمین کو گزرنے کے راستے اور سڑک میں تبدیل کرنا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ ایسا کرنا ضروری ہوجائے یاخود موقوفہ زمین سے استفادہ کرنے کیلئے اس راستہ کی ضرورت ہو لیکن وقف کی مصلحت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسی زمین کو کرایہ پر دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ جس کا وقف، وقف منفعت ہے۔
س 2041: ایک علاقے کے باشندوں کیلئے بیس سال پہلے ایک زمین وقف ہوئی تا کہ وہ اپنے جنازوں کو وہاں دفن کریں۔ واقف نے اس کی تولیت اپنے پاس رکھی اور اپنے بعد شہر کے ایک عالم دین جس کا نام وقف نامہ میں ہے کو سونپ دی اور مذکورہ عالم دین کے بعد متولی کے انتخاب کا طریقہ کار بھی معین کردیا۔کیا وقف کے موجودہ متولی کو وقف یا اس کے بعض شرائط کو تبدیل کرنے یابعض شرائط کے اضافہ کرنے کا حق ہے ؟ اور اگر یہ تبدیلی اس امر پر اثر انداز ہو جس کے لئے زمین وقف کی گئی ہے مثلا اسے گاڑیوں کا سٹینڈ بنا دے توکیا اس صورت میں وقف کا موضوع اپنی حالت پر باقی رہے گا؟
ج: اس فرض کے ساتھ وقف ،قبضہ ہونے کے ساتھ شرعی لحاظ سے نافذ اور واقع ہوگیا ہے لہذا واقف یا متولی کی طرف سے خود اسے یا اس کے بعض شرائط کو تبدیل کرنا یا بعض نئی شرائط کا اضافہ کرنا جائز نہیں ہے اور وقف کو پہلی حالت سے تبدیل کرنے سے اس کا وقف ہونا زائل نہیں ہوتا۔
س 2042: ایک شخص نے اپنی دوکان ،مسجد سے وابستہ قرض الحسنہ کا ایک ادارہ قائم کرنے کیلئے وقف کی ہے وہ شخص دنیا سے رحلت کرگیا ہے۔ کئی سال ہوگئے ہیں کہ وہ جگہ بند پڑی ہے اور اب وہ خراب ہونے لگی ہے کیا اس سے دوسرے کاموں میں استفادہ کرنا جائز ہے؟
ج: اگر دوکان کا وقف قرض الحسنہ کا ادارہ قائم کرنے کیلئے ہو اور اس وقت اس مسجد میں قرض الحسنہ کا ادارہ قائم کرنے کی ضرورت نہ ہو تو اس جگہ سے دوسری مساجد سے وابستہ قرض الحسنہ کے اداروں کیلئے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہوتو اس سے کسی بھی نیک کام میں استفادہ کرنا جائز ہے۔
س 2043: ایک شخص نے زمین کا ایک قطعہ اسکے پانی کے حصے سمیت امام حسین کی اس عزاداری کیلئے وقف کیا ہے جو محرم یا صفر کی کسی ایک رات اور امیر المؤمنین کی شہادت کی شب مسجد "الحی" میں منعقد ہوتی ہے اور بعد میں اپنے ایک وارث کو وصیت کی کہ اس زمین کو وزارت صحت کے اختیار میں دے دے تا کہ اس میں ہسپتال بنایا جائے تو اس کام کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: وقف کو وقف منفعت سے وقف انتفاع میں تبدیل کرنا جائز نہیں ہے لیکن ہسپتال بنانے کیلئے اسے کرایہ پر دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے بشرطیکہ اس میں وقف کی مصلحت ہو۔
س 2044: کیا موقوفہ زمینوں میں امام بارگاہ یا نماز پڑھنے کی جگہ بنا سکتے ہیں؟
ج: موقوفہ زمینیں مسجد یا امام بارگاہ و غیرہ کے عنوان سے دوبارہ وقف نہیں ہوسکتیں اور کسی کیلئے انہیں مسجد بنانے یا کوئی اور ایسا عمومی ادارہ قائم کرنے کیلئے مفت میں دینا جائز نہیں ہے کہ جس کی لوگوں کو ضرورت ہو۔ لیکن ان کا شرعی متولی انہیں مدرسہ ،نماز کی جگہ یا امام بارگاہ بنانے کیلئے کرایہ پر دے سکتاہے اور مذکورہ زمینوں کے کرایہ کی رقم ان امور میں خرچ کی جائیگی جو وقف کیلئے معین ہوئے ہیں ۔
س 2045: وقف خاص اور وقف عام سے کیا مراد ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں : وقف خاص کو واقف کی نیت کے برخلاف تبدیل کرنا اور اسے خاص ملکیت میں تبدیل کرنا جائز ہے کیا یہ بات صحیح ہے ؟
ج: وقف کا خاص اور عام ہونا موقوف علیہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہے لہذا وقف خاص وہ وقف ہے جو شخص یا اشخاص کے لئے ہو جیسے اولاد پر وقف کرنا یا زید اور اس کی اولاد پر وقف کرنا جبکہ وقف عام وہ وقف ہے جو عمومی مصالح اور عمومی جہات کے لئے ہو جیسے مساجد، مدارس اور آرام کرنے کی جگہیں اور ان کے مانند دیگر امور،یا کلی عناوین پر وقف ہو جیسے فقراء ، یتیم ، بیمار اور وہ لوگ جن کا زاد راہ ختم ہوگیا ہو ۔ان تین قسموں میں اصل وقف کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے اگرچہ ان میں احکام اور آثار کے لحاظ سے فرق ہے مثلاً عمومی مصالح اورجہات کے لئے یا کلی عناوین کے لئے وقف میں صیغہ وقف جاری کرنے کے وقت موقوف علیہم کے کسی مصداق یا فرد کا خارج میں موجود ہونا شرط نہیں ہے جبکہ وقف خاص میں یہ امر شرط ہے۔ اسی طرح عمومی مصالح اور جہات کے لئے وقف کہ جو وقفِ انتفاع کی صورت میں ہوتے ہیں جیسے مساجد، مدارس، قبرستان اورپل و غیرہ انہیں کسی بھی صورت میں فروخت کرنا جائز نہیں ہے حتی اگر وہ خراب بھی ہوجائیں جبکہ وقف خاص اور کلی عناوین پر وقف جو وقف منفعت کی شکل میں ہے انہیں بعض خاص اور استثنائی حالات میں فروخت یا تبدیل کرنا جائز ہے۔
س 2046: قرآن مجید کا ایک خطی نسخہ جو سن 1263 ھ ش سے متعلق ہے ایک مسجد کیلئے وقف ہوا ہے اور اس وقت وہ ضائع ہو رہا ہے کیا اس گرانقدر اور مقدس و نفیس نسخہ کی حفاظت اور جلد کرانے کیلئے شرعی اجازت کی ضرورت ہے؟
ج: قرآن مجید کی جلد کرانے اور اس کے اوراق اور جلد کو ٹھیک کرانے اور مسجد میں اس کی حفاظت کیلئے حاکم شرع سے کسی خاص اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
س 2047: کیا وقف کو غصب کرنا اور اس میں وقف کے امور کے علاوہ تصرف کرنا اجرة المثل کے ضامن ہونے کا سبب بنتاہے؟ اور کیا وقف کو تلف کرنا جیسے اس کی عمارت کو مسمار کر دینا یا موقوفہ زمین کو سڑک میں تبدیل کردینا،اس کی قیمت یا مثل کے ضامن ہونے کا سبب بنتاہے؟
ج: وقف خاص جیسے اولاد پر وقف اور اسی طرح وہ وقف عام جو وقف منفعت کی صورت میں ہے کو غصب کرنا یا اس میں وقف کے امور کے علاوہ تصرف کرنا یا وقف خاص میں موقوف علیہ کی اجازت کے بغیر اور وقف عام میں شرعی متولی کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا عین اور منفعت کے ضامن ہونے کا سبب بنتاہے اور ان منافع کا عوض دینا بھی ضروری ہے کہ جن کا اس نے اس سے استفادہ کیا ہے یا جن کا استفادہ نہیں کیا۔ اسی طرح اگرخو د وہی مال موجود ہو تو اسکا واپس کرنا اور اگر وہ اسکے ہاتھ میں یا اسکے کسی فعل کے نتیجے میں تلف ہوگیا ہو تو اسکے عوض کو لوٹانا واجب ہے اور منافع کا عوض وقف کے امور میں خرچ کیا جائیگااور خود موقوفہ شے کا عوض اس وقف کے بدلے میں صرف کیا جائے جو تلف ہوگیا ہے اور وہ وقف عام جو وقف انتفاع کی صورت میں ہے جیسے مساجد، سکول،مسافرخانے ،پل ، قبرستان و غیرہ کہ جو عام عناوین اورجہات پر وقف ہیں تا کہ موقوف علیہ ان سے انتفاع حاصل کریں اگر انہیں کوئی غصب کرلے یا انہیں ان اموراور منافع کے علاہ میں صرف کرے جنکے لیئے وہ وقف کئے گئے ہیں تو ضروری ہے کہ سکول، مسافرخانوں اور حماموں میں تصرف کرنے کی اجرة المثل ادا کرے البتہ مسجدوں، پلوں ، قبرستانوں اور زیارتگاہوں میں تصرف کرنے کی اجرة المثل کا ضامن نہیں ہے اور اگر خود ان موقوفات کو تلف کردے تو انکی قیمت یا مثل ادا کرے تا کہ انہیں تلف شدہ وقف کے بدلے میں خرچ کیا جائے۔
س 2048: ایک شخص نے اپنی ملک گاؤں میں سید الشہداء کی عزاداری قائم کرنے کیلئے وقف کی ہے لیکن اس وقت وقف کا متولی مذکورہ گاؤں میں عزاداری قائم کرنے کی توانائی نہیں رکھتاکیا اس کیلئے جائز ہے کہ جس شہر میں وہ رہتاہے وہاں مجالس عزاداری برپا کرے؟
ج: اگر اسی گاؤں میں عزاداری برپا کرنے کے لئے وقف مخصوص ہو توجب تک وقف کے مطابق عمل کرنا ممکن ہو اگر چہ اس کام کیلئے کسی کو وکیل بنانا پڑے تو اسے ان مجالس عزاداری کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا حق نہیں ہے بلکہ اس پر واجب ہے کہ وہ کسی شخص کو نائب بنائے تا کہ وہ اس گاؤں میں مجالس عزاداری برپاکرے۔
س2049: کیا مسجد کے ہمسایوں کیلئے جائز ہے کہ وہ اپنی عمارتوں کے لوہے کی ویلڈنگ کرنے کے لئے مسجد کی بجلی سے استفادہ کریں اور خرچ شدہ بجلی کی قیمت بلکہ اس سے زیادہ مسجد کی انتظامیہ کو ادا کردیں؟ اور کیا مسجد کی انتظامیہ کے لئے جائز ہے کہ وہ اس کی بجلی سے استفادہ کرنے کی اجازت دے؟
ج: مسجد کی بجلی سے ذاتی کاموں میں استفادہ کرنا جائز نہیں ہے اور مسجد کی انتظامیہ کی لئے بھی جائز نہیں ہے کہ وہ اس قسم کی اجازت دے۔
س 2050: پانی کا ایک موقوفہ چشمہ ہے جس سے لوگ کئی سالوں سے استفادہ کررہے ہیں کیا اس سے مختلف جگہوں یا ذاتی گھروں میں پائپ لے جانا جائز ہے؟
ج: اگر اس میں پائپ لگانے سے وقف میں تبدیلی یا اس سے وقف کے امور کے علاوہ میں انتفاع نہ ہو اور اسکے پانی سے دیگر موقوف علیہ محروم نہ ہوں تو کوئی اشکال نہیں ہے ورنہ جائز نہیں ہے۔
س 2051: ایک زمین عزاداری اور دینی طلبا کیلئے وقف ہوئی ہے یہ زمین گاؤں کے اصلی راستے کے کنارے واقع ہے اس وقت بعض گاؤں والے یہ چاہتے ہیں کہ اس میں دوسرا راستہ بنائیں جو مذکورہ زمین کے دوسری طرف میں واقع ہوگا بالفرض اگر یہ راستہ بنانے سے زمین کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہو تو کیا یہ کام انجام دینا جائز ہے ؟
ج: موقوفہ زمین میں راستہ بنانے کی وجہ سے اس کی قیمت میں اضافہ ہوجانا اس زمین میں تصرف یا اسے راستہ میں تبدیل کرنے کا شرعی جواز فراہم نہیں کرتا۔
س 2052: مسجد کے پاس ایک گھر ہے اور اس کے مالک نے اسے مسجد کے امام جماعت کیلئے وقف کیا ہے لیکن وہ گھر اس وقت فیملی کے بڑا ہونے اور رجوع کرنے والوں کی کثرت اور دیگر وجوہات کی بنا پر امام جماعت کے رہنے کیلئے مناسب نہیں ہے اور امام جماعت کا اپنا مکان بھی ہے جس میں وہ رہتا ہے لیکن اسکی تعمیر کی ضرورت ہے اور اس نے اس کی تعمیر کیلئے کچھ قرضہ لیاہے۔ کیا جائز ہے کہ وہ موقوفہ گھر کو کرایہ پر دے کر اس کے کرایہ کی رقم سے اپنے مکان کی تعمیر اور اس کی خاطر لیے گئے قرض کو ادا کرے؟
ج: اگر وہ گھر وقف انتفاع کی صورت میں مسجد کے امام جماعت کے رہنے کیلئے وقف ہوا ہے تو امام جماعت کو وہ گھر کرایہ پر دینے کا حق حاصل نہیں ہے اگر چہ اس کی نیت یہ ہو کہ وہ اس کے کرایہ سے اپنے گھر کی تعمیر اور اس کا قرض ادا کرے اور اگر وہ گھر چھوٹا ہونے کی وجہ سے انکے رہنے کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتا تو اس سے شب و روز کے بعض اوقات میں استفادہ کریں مثلا اس سے رجوع کرنے والوں سے ملاقات کیلئے استفادہ کریں یا یہ کہ مذکور ہ گھر کسی دوسرے پیش نماز کو دے دیں تا کہ وہ اس میں رہے۔
س 2053: ایک مسافرخانے کی عمارت جو قافلوں کے قیام کے لئے کرایہ پر دی جاتی ہے وقف ہے اور اس کی تولیت اس مسافرخانے کے سامنے واقع مسجد کے موجودہ امام جماعت کے پاس ہے اورچونکہ مسئلہ صحیح انداز سے مراجع عظام کے سامنے پیش نہیں ہوا اس لئے مسافرخانے کی عمارت مسمار کر کے اس کی جگہ ایک امام بارگاہ تعمیر کی گئی ہے کیا اس جگہ کے منافع، تبدیل کرنے سے پہلے والی صورت پر باقی رہیں گے؟
ج: وہ مسافرخانہ جو وقف منفعت ہے اسے امام بارگاہ میں تبدیل کرنا جو کہ وقف انتفاع ہے جائز نہیں ہے بلکہ مسافرخانے کی عمارت کو پہلی حالت پر پلٹا دینا ضروری ہے تا کہ وہ مسافروں اور کاروانوں کو کرایہ پر دی جائے اور اس کے کرایہ کی رقم انھیں امور میں خرچ کی جائے جنہیں واقف نے معین کیا ہے لیکن اگر اسکا شرعی متولی تشخیص دے کہ وقف کی مختصر مدت اور طولانی مدت کی مصلحت اس بات کی مقتضی ہے کہ اس جگہ کو موجودہ صورت میں دینی امور کو بر پا کرنے کیلئے کرایہ پر دیا جائے اور اسکا کرایہ وقف کے امور میں خرچ کیا جائے تو یہ کام جائز ہے۔
س 2054: کیا اس دوکان کی پگڑی کو فروخت کرنا جائز ہے جو مسجد کے صحن کی زمین میں بنائی گئی ہے؟
ج: اگر مسجد کے صحن میں دوکان بنانا شرعی طور پر جائز تھا تو وقف کی مصلحت اور اس کے منافع کے پیش نظر اور وقف کے شرعی متولی کی اجازت سے اس کی پگڑی کو فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگرایسا نہ ہو تو واجب ہے کہ دوکان کو گرادیا جائے اور اس کی زمین کو پہلے کی طرح مسجد کے صحن میں شامل کر دیا جائے۔
س 2055: بعض اوقات سرکاری اور غیر سرکاری ادارے ڈیم ،پاورسٹیشن اور عمومی پارک و غیرہ بنانے کیلئے منصوبہ بندی اور دیگر فنی امور کے پیش نظر موقوفہ زمینوں میں تصرف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کیا ان منصوبوں کو عملی کرنے والے پر وقف کی اجرت یا اس کا عوض ادا کرنا شرعاً لازم ہے؟
ج: وقف خاص میں وقف کو خریدنے یا اسے کرایہ پر لینے کیلئے ان لوگوں کی طرف رجوع کرناضروری ہے جن کے نام وقف کیا گیا ہے اور وہ وقف عام جو عمومی عناوین کیلئے وقف منفعت کی صورت میں وقف ہو تاکہ اس کے منافع وقف کے امور میں صرف کئے جائیں اس میں تصرف کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اسے اس کے شرعی متولی سے کرائے پر لیا جائے اور کرایہ کی رقم بھی اسی کو ادا کرنا ضروری ہے تا کہ وہ اسے وقف کے امور میں خرچ کرے اور اگر اس قسم کے وقف میں تصرف خود اس شے کے تلف اور ضائع کرنے کے حکم میں ہو تو یہ ضامن ہونے کا سبب ہے اور تصرف کرنے والے پر واجب ہے کہ وہ عین موقوفہ کا عوض وقف کے متولی کی تحویل میں دے تا کہ وہ اس سے کوئی دوسری ملک خریدے اور اسے پہلے وقف کے بدلے میں وقف کرے تا کہ اس کی آمدنی وقف کے امور میں خرچ کی جائے۔
س 2056: ایک شخص نے چند سال پہلے ایک دوکان کو اس کے مکمل طور پر تعمیر ہونے سے پہلے کرایہ پر لیا اور اس کی پگڑی کی رقم اسی وقت ادا کردی اور پھر مالک کی اجازت سے اس دوکان کی تعمیر کو اس کے کرایہ کی رقم سے مکمل کیا اور پھر کرایہ کی مدت کے دوران اس عمارت کے آدھے حصے کوقانونی دستاویز کے ساتھ مالک سے خرید لیا اور اس وقت وہ دعویٰ کرتاہے کہ مذکورہ عمارت وقف ہے اور تولیت کا قائم مقام بھی یہ دعویٰ کرتاہے کہ اس کی پگڑی دوبارہ ادا کی جائے۔ اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
ج: اگر اس عمارت کی زمین کا وقف ہونا ثابت ہوجا ئے یا کرایہ دار اس کا اعتراف کرلے تو اس صورت میں وہ تمام خصوصیات اور حقوق جو اس نے موقوفہ عمارت کے سلسلے میں اس کی زمین کی ملکیت کے مدعی سے لئے ہیں فاقد اعتبار ہیں بلکہ مذکورہ عمارت میں تصرف جاری رکھنے کے لئے وقف کے شرعی متولی کے ساتھ نیا معاملہ کرنا ضروری ہے اور وہ اپنی رقم کو اس شخص سے واپس لے سکتاہے جو اسکی ملکیت کا دعویدار تھا۔
س 2057: اگر زمین کا وقف ہونا ثابت ہوجائے لیکن وقف کی جہت معلوم نہ ہوتو اس زمین میں رہنے والوں اور زراعت کرنے والوں کی ذمہ داری کیاہے؟
ج: اگر اس موقوفہ زمین کا کوئی خاص متولی ہو تو تصرف کرنے والوں پر واجب ہے کہ وہ اس کی طرف رجوع کریں اور زمین کو اس سے کرایہ پر لیں اور اگر اس کا کوئی خاص متولی نہ ہو تو اس کی ولایت حاکم شرع کے ہاتھ میں ہے اور تصرف کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ اس کی طرف رجوع کریں لیکن وقف کی آمدنی کو خرچ کرنے میں جو مختلف احتمالات پائے جاتے ہیں اگر وہ متماثل اور غیر متبائن ہوں جیسے سادات ، فقراء ، علماء اور فلاں شہر کے باشندے تو اس صورت میں واجب ہے کہ وقف کی آمدنی ان احتمالات میں سے قدر متیقن میں خرچ کی جائے اور اگر اس کے احتمالات متبائن اور غیر متصادق ہوں تو اس صورت میں اگر احتمالات،چند معین امور میں محصور ہوں تووقف کے مصرف کو قرعہ کے ذریعہ معین کرنا واجب ہے۔ اور اگر احتمال ،غیر محصورہ امور کے درمیان ہو پھر اگر وہ غیر محصور عناوین یا اشخاص کے درمیان ہو جیسے ہم جانتے ہوں کہ موقوفہ زمین اولاد پر وقف ہے لیکن یہ معلوم نہ ہو کہ غیر محصورہ اشخاص میں سے کس شخص کی اولاد مراد ہے تو اس صورت میں وقف کے منافع مجہول المالک کے حکم میں ہیں اور واجب ہے کہ یہ فقراء کو صدقہ کے طور پر دیئے جائیں لیکن اگر یہ احتمال غیر محصورہ جہات میں ہو مثلا مسجد یا زیارتگاہ یا پل یا زائرین و غیرہ کی مدد کیلئے وقف کرنے کے درمیان احتمال ہو تو اس صورت میں واجب ہے کہ ان احتمالات سے خارج نہ ہونے کی شرط کے ساتھ اسے نیکی کے کاموں میں خرچ کرے۔
س2058:ایک زمین کہ جس میں عرصہ دراز سے مُردوں کو دفن کیا جاتاہے اور اس میں ایک امامزادہ بھی مدفون ہے اور تیس سال قبل مُردوں کو غسل دینے کیلئے اس میں ایک غسل خانہ بھی بنایا گیاہے لیکن معلوم نہیں ہے کہ یہ زمین مردوں کو دفن کرنے کیلئے وقف کی گئی ہے یا اس امامزادے کیلئے وقف کی گئی ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ مردوں کو غسل دینے کیلئے اس غسل خانہ کا بنانا جائز ہے یا نہیں ؟ لہذا کیا وہاں کے باشندوں کیلئے اپنے مردوں کو اس غسل خانے میں غسل دینا جائز ہے؟
ج: اس غسل خانہ میں حسب سابق مردوں کو غسل دینا جائز ہے اور وہ زمین جو امامزادے کے صحن کے ساتھ ہے اس میں مرد وں کو دفن کرنا بھی جائز ہے مگر جب معلوم ہوجائے کہ ایسا کرنا وقف کی جہت کے منافی ہے۔
س 2059: ہمارے علاقہ میں ایسی زمینیں موجود ہیں کہ جن میں لوگ زراعت کرتے ہیں اور درخت لگاتے ہیں اور وہاں کے باشندوں کے درمیان مشہور ہے کہ یہ زمینیں اس علاقہ میں مدفون ایک امامزاد ے کے حرم کیلئے وقف ہیں اور اس وقف کے متولی بھی وہاں کے رہنے والے سادات ہیں لیکن ان زمینوں کے وقف ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے البتہ کہا جاتاہے کہ پہلے ایک وقف نامہ موجود تھا جو آگ لگنے کے ایک حادثے میں جل گیا ہے اور سابقہ حکومت میں ان زمینوں کی تقسیم کو روکنے کیلئے لوگوں نے ان کے وقف ہونے پر گواہی دی ہے اور کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس علاقہ کے ایک حاکم نے کہ جو سادات سے محبت رکھتا تھا ٹیکس سے بچنے کیلئے یہ زمینیں انہیں وقف کردیں تھیں اب ان زمینوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج: وقف کو ثابت کرنے کیلئے وقف نامہ کاموجود ہونا شرط نہیں ہے بلکہ وہ لوگ کہ جن کے تصرف اور ہاتھ میں (ذوالید)یہ ہے یا ان کی وفات کے بعد ان کے ورثاء کے ہاتھ میں ہے اگر وہ اس امر کا اعتراف کریں تو اس جگہ کے وقف ہونے کیلئے کافی ہے اور اسی طرح اس جگہ کے ساتھ ماضی میں وقف جیسا سلوک یا وقف ہونے پر دو عادل مردوں کی گواہی یا اس کے وقف ہونے کی ایسی شہرت جو مفید علم یا اطمینان ہو بھی اس کے وقف ہونے کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے لہذا اگر وقف کے ان دلائل میں سے کوئی موجود ہوتو اس سے اس کے وقف ہونے کا حکم ثابت ہوجاتاہے اور اگر ایسا نہ ہو تو جس کے تصرف میں ہے اسی کی ملکیت تصور کی جائیگی ۔
س 2060: ایک زمین کا وقف نامہ ملاہے جو پانچ سو سال پرانا ہے تو کیا اب اس ملک کے وقف ہونے کا حکم لگایا جائے گا؟
ج: صرف دستاویز کا مل جانا اس وقت تک وقف کی شرعی دلیل اور حجت نہیں ہے جب تک اس کے مضمون کے صحیح ہونے کا اطمینان نہ ہو جائے لیکن اگر اس ملک کا وقف ہونا لوگوں بالخصوص بوڑھوں کے درمیان اس طرح مشہور ہو کہ اس سے اس کے وقف ہونے کا علم یا اطمینان ہوجائے یا وہ شخص کہ جس کے اختیار اور ہاتھ (ذوالید)میں یہ ہے وہ اس کے وقف ہونے کا اقرار کرے یا یہ ثابت ہوجائے کہ ماضی میں اس کے ساتھ وقف جیسا معاملہ کیا جاتا تھا تو مذکورہ ملک وقف کے حکم میں ہے بہر حال زمانہ کتنا ہی گزر جائے موقوفہ ملک وقف ہونے سے خارج نہیں ہوسکتی۔
س 2061: میں نے اپنے باپ سے نہر کے پانی کے تین حصے میراث میں پائے ہیں اور اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ تین حصے جو میرے باپ نے خریدے تھے ان سو حصوں میں سے ہیں کہ جن میں سے پندرہ حصے وقف ہیں اور اب یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ تین حصے آیا وقف کا حصہ ہیں یا بیچنے والے کی ملکیت کا ؟اس سلسلے میں میری ذمہ داری کیاہے ؟ کیا ان تین حصوں کا خریدنا باطل تھا۔ اور میں اس پہلے بیچنے والے شخص سے کہ جو ابھی زندہ ہے انکی رقم کے مطالبہ کا حق رکھتا ہوں؟
ج: اگر بیچنے والا شخص پانی بیچتے وقت مشترکہ پانی کی اس مقدار کا شرعی طور پر مالک تھا کہ جو بیچی گئی ہے اور یہ معلوم نہ ہو کہ آیا اس نے وہ مقدار فروخت کی ہے جس کا وہ مالک تھا یا ملک اور وقف کے درمیان مشترکہ حصہ(مشاع) فروخت کیا ہے تو اس صورت میں معاملہ صحیح ہے اور مشتری اس ملک کا مالک ہے اور اسکے بعد یہ اسکے ورثا کی طرف منتقل ہوگی۔
س 2062: ایک عالم نے اپنے مال کا کچھ حصہ ـ جیسے کھیت اور باغ و غیرہ ـ وقف خاص کے طور پر وقف کیا ہے اور اس کے متعلق ایک وقف نامہ بھی لکھ دیا ہے اور اس میں وضاحت کی ہے کہ اس نے وقف کے تمام شرائط پر عمل کیا ہے اور وقف کاشرعی صیغہ بھی جاری کیا ہے ۔دس علماء نے اس پر دستخط بھی کئے ہیں کیا اس وقف نامہ کی بناپر ان اموال کے وقف ہونے کا حکم لگایا جائے گا؟
ج: اگر ثابت ہوجائے کہ صیغہ وقف جاری کرنے کے علاوہ اس نے موقوفہ شے وقف کے شرعی متولی یا جن لوگوں کے نام اسے وقف کیا ہے کی تحویل میں دے دی ہے تو مذکورہ وقف،وقف لازم اور صحیح ہے۔
س 2063: ایک زمین محکمہ صحت کو ہدیہ کی گئی ہے تا کہ وہ اس میں ہسپتال یا مرکزصحت قائم کرے لیکن محکمہ صحت کے افسران نے ابھی تک نہ وہاں ہسپتال بنایا ہے اور نہ ہی مرکز صحت تعمیر کیا ہے کیا جائز ہے کہ واقف اس زمین کو واپس لے لے؟ اور کیا صرف زمین کا محکمہ صحت کے افسران کی تحویل میں دے دینا وقف کے واقع ہونے کیلئے کافی ہے یا یہ کہ اس میں عمارت تعمیر کرنا بھی شرط ہے؟
ج: اگر مالک نے شرعی طریقے سے انشاء وقف کے بعد وہ زمین محکمہ صحت کے افسران کواس عنوان سے سپرد کر دی ہو کہ وہ اس زمین کو وقف کے شرعی متولی کی تحویل میں دے رہاہے تو پھر اسے وہ زمین واپس لینے کا حق نہیں ہے لیکن اگر مذکورہ دو باتوں میں سے کوئی ایک نہ ہو تو مالک کو حق ہے کہ وہ اپنی زمین ان سے واپس لے لے؟
س 2064: ایک زمین کہ جسے اس کے مالک نے علاقہ کے عالم دین اور دو عادل گواہوں کے سامنے مسجد بنانے کیلئے وقف کیا ہے کچھ عرصہ کے بعد بعض اشخاص نے اس پر قبضہ کرکے اس میں رہائشی مکان تعمیر کرلیے ہیں اس سلسلے میں ان اشخاص اور متولی کی ذمہ داری کیا ہے؟
ج: اگرزمین کے وقف کے انشا کے بعدوہ زمین واقف کی اجازت سے قبضے میں لے لی گئی ہے تو اس پر وقف کے تمام احکام جاری ہونگے اور دوسروں کیلئے اس میں مکان تعمیر کرنا غصب شمار ہوگا اور ان پر واجب ہے کہ اپنے گھروں کو گرا کرزمین خالی کردیں اور اسے اس کے شرعی متولی کی تحویل میں دے دیں اور اگر ایسا نہ ہو تو زمین اپنے شرعی مالک کی ملکیت پر باقی رہے گی اور اس میں دوسروں کا تصرف اسکے مالک کی اجازت پر موقوف ہوگا۔
س 2065: ایک شخص نے اَسّی سال قبل ایک زمین خریدی اور اس کی وفات کے بعد اس کے ورثاء نے اس پر کئی معاملات انجام دیئے ہیں وہ خریدار جنہوں نے یہ زمین پہلے خریدار کے ورثاء سے خریدی ہے سب فوت ہوچکے ہیں اوراب وہ زمین ان کے ورثاء کے پاس ہے اور آخری گروہ نے تقریبا چالیس سال سے زمین کو سرکاری طور پر اپنے نام کرالیا ہے اور ملکیت کی قانونی رجسٹری لینے کے بعد انہوں نے اس میں رہائشی مکان تعمیر کرلیے ہیں اور اب ایک شخص مدعی ہے کہ یہ زمین مالک کی اولاد پر وقف تھی اور انھیں اس کے بیچنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ اس امر کے پیش نظر کہ اَسّی سال تک کسی نے ایسا دعویٰ نہیں کیا اور کوئی ایسی تحریری دستاویز بھی موجود نہیں ہے جو اس کے وقف ہونے پر دلالت کرے اور کسی نے اس پر گواہی بھی نہیں دی ہے اسکے موجودہ مالکوں کی شرعی ذمہ داری کیا ہے ؟
ج: جو شخص اس کے وقف ہونے اور اس کی فروخت کے صحیح نہ ہونے کا دعویٰ کرتاہے جب تک وہ اپنے دعویٰ کو معتبر طریقے سے ثابت نہ کرلے اس وقت تک جو معاملات اس زمین پر انجام دیئے گئے ہیں ان کو صحیح سمجھا جائے گا اور اسی طرح ا س وقت یہ زمین جن افراد کے اختیار اور تصرف میں ہے وہ اس کے مالک شمار ہوں گے۔
س2066: ایک موقوفہ زمین ہے کہ جس میں تین چھوٹی نہریں ہیں اور چند سال مسلسل خشک سالی کی وجہ سے بلدیہ نے علاقہ کے لوگوں کو پینے کا پانی فراہم کرنے کیلئے ان میں سے دو نہریں کرائے پر لے لی ہیں اور تیسری نہر جو علاقہ کے طلاب اور واقف کی اولادپر وقف تھی اس زمین میں دھنس کر خشک ہوگئی ہے جس کے نتیجہ میں وہ زمین کہ جواس کے پانی سے سیراب ہوتی تھی بنجر ہوگئی ہے اور اس وقت شہری زمین کا ادارہ مدعی ہے کہ یہ زمین موات ہے کیا یہ زمین کئی سال تک زراعت نہ کرنے کی وجہ سے موات زمینوں سے ملحق ہوجائے گی؟
ج: موقوفہ زمین کئی سال تک زراعت نہ کرنے کی وجہ سے وقف ہونے سے خارج نہیں ہوتی ۔
س 2067: ایسی زمینیں جو امام رضا علیہ السلام کے حرم مقدس کیلئے وقف ہیں اور ان میں سے بعض زمینوں کے اطراف میں سبزہ زار اور جنگل بھی ہیں لیکن بعض متعلقہ اداروں نے جنگلات کے قانون کا حوالہ دیکر ان سبزہ زاروں اور جنگلوں پر انفال کا حکم جاری کیا ہے کیا وہ سبزہ زار اور جنگل جو موقوفہ املاک کے حریم میں واقع ہیں ان کا حکم بھی دیگر انہیں زمینوں کی طرح وقف والا ہوگا کہ جو موقوفہ زمینوں کے حریم میں واقع ہیں اور واجب ہے کہ ان کے سلسلے میں وقف کے مطابق عمل کیا جائے؟
ج: وہ سبزہ زار اور جنگل جو موقوفہ اراضی کے جوار میں واقع ہیں اگر وہ انکا اطراف (حریم )شمار ہوں توموقوفہ کے حکم میں اور ان کے تابع ہیں اور انکے لیئے انفال اور املاک عمومی کا حکم جاری نہیں ہوگا اور حریم اور اسکی مقدار کی تشخیص مقامی عرف اور ان افرادکا کام ہے جو اس امر کے ماہر ہیں۔
س 2068: چالیس سال قبل کچھ زمینیں یتیموں کے دیکھ بھال اور ان کی کفالت و سرپرستی کے لئے گھر بنانے کیلئے وقف ہوئی ہیں اور اب تک اسی وقف کے مطابق عمل ہوتا رہاہے اور ان کا متولی بھی معین اور مشخص ہے کہ جس کی محکمہ اوقاف نے بھی تائید کی ہے لیکن حال ہی میں ایک ایسی معمولی دستاویز سامنے آئی ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتاہے کہ یہ پرانی دستاویز ہی کا ایک نسخہ ہے اور اس میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ یہ زمینیں تین سو سال پہلے سے اب تک وقف تھیں ۔وقف کی اصلی دستاویز ﴿کہ جس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتاہے کہ وہ زیادہ پرانی ہے﴾کے مفقود ہونے اور موجودہ دستاویز کے ناقص ہونے کے پیش نظر کہ جس میں متولی بھی معین نہیں ہے اور ان زمینوں کے سلسلے میں یہ بھی ثابت نہیں ہے کہ ان کے ساتھ پہلے وقف والا معاملہ ہوتا تھا اور بالخصوص وہ لوگ بھی کہ جن کے تصرف اور قبضہ میں یہ زمینیں ہیں اس دعویٰ کا انکار کرتے ہیں اور انکے سابق وقف کی شہرت بھی نہیں ہے ۔کیا یہ دستاویز وقف جدید پر عمل کرنے سے مانع ہوسکتی ہے کہ جس کے مطابق اس وقت ان زمینوں سے یتیموں کو رکھنے اور ان کی دیکھ بھال و سرپرستی کے سلسلے میں استفادہ کیا جاتاہے؟
ج: فقط وقف کی دستاویز کا ہونا چاہے اصلی ہو یا اس کا نسخہ ہو وقف کی شرعی دلیل اور حجت نہیں ہے پس جب تک پہلا وقف معتبر دلیل کے ذریعہ ثابت نہ ہوجائے اس وقت تک اسی جدید وقف پر عمل کیا جائے گا جس پر اس وقت عمل ہورہاہے اور وقف جدید پر عمل صحیح اور نافذ ہے۔
س 2069: ایک شخص نے سید الشہداء ( علیہ السلام) کی امام بارگاہ بنانے کیلئے ایک زمین وقف کی ہے لیکن مذکورہ زمین گاؤں والوں کیلئے عام راستے میں تبدیل ہوگئی ہے اور اس وقت امام بارگاہ کی کل زمین سے تقریبا ٤٢مربع میٹر زمین باقی ہے اس زمین کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا واقف کیلئے جائز ہے کہ وہ اسے اپنی ملکیت میں واپس پلٹا لے ؟
ج: اگر یہ کام شرعی طور پر وقف کے انشاء کرنے اور موقوفہ زمین متولی کو یا جہت وقف میں تحویل دینے کے بعد انجام پایا ہو تو وہ باقیماندہ زمین وقف پر باقی رہے گی اور واقف کیلئے جائز نہیں ہے کہ اسے واپس لے اور اگر ایسا نہیں ہے تو وہ زمین اسکی ملکیت میں باقی ہے اور اس کا اختیار اسکے ہاتھ میں ہے۔
س 2070: کیا جائز ہے کہ بعض ورثاء جو ترکہ میں حصہ دار ہیں پورے ترکے کو وقف کردیں؟ اور کیا ان کے نام سے وقف کے صیغہ کاجاری کرنا صحیح ہے؟
ج: ان کا وقف صرف اپنے حصہ میں صحیح ہے لیکن دیگر ورثاء کے حصوں میں وقف فضولی اوران کی اجازت پرموقوف ہوگا۔
س 2071: ایک شخص نے اپنی زمین اپنے بیٹوں پر وقف کی اور اس کی وفات کے بعد محکمہ اوقاف نے اس کی کیفیت سے آگاہی کے بغیر مذکورہ زمین متوفی کے بیٹے اور بیٹیوں کے نام ثبت کردی ۔کیا یہ چیز اس زمین سے انتفاع میں بیٹے اور بیٹیوں کی شراکت کا موجب بنے گی؟
ج: فقط محکمہ اوقاف کے ذریعے اس زمین کا بیٹیوں کے نام ثبت ہوجانا وقف میں بیٹوں کے ساتھ ان کی شراکت کا موجب نہیں بنے گا پس اگر ثابت ہوجائے کہ وقف کی زمین بیٹوں کیلئے مخصوص ہے تو وہ صرف ان ہی سے مختص رہے گی۔
س 2072: ایک ایسی زمین جو نہر کے راستے میں واقع ہے سو سال پہلے وقف عام ہوئی ہے اور موقوفہ زمینوں کی خرید و فروخت کے باطل ہونے والے قانون کی بناپر اس کے لئے وقف کے عنوان سے قانونی دستاویز بھی صادر ہوچکی ہے لیکن اس وقت اس زمین سے حکومت معدنی پتھر نکال رہی ہے کیا اب وہ انفال کا جز شمار ہوگی یا وقف ہے؟
ج: اگر شرعی صورت میں اس کا اصل وقف ثابت ہوجائے تو کسی شخص یا حکومت کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ اسے اپنی ملکیت میں لے لے بلکہ وہ وقف ہونے پر باقی رہے گی اوراس پر وقف کے تمام احکام جاری ہونگے۔
س 2073: تعلیمی مرکز کی عمارت میں ایک کمرہ ہے کہ جس سے اس وقت لیبارٹری کے طور پر کام لیا جاتاہے اور اس کی زمین اس کے پڑوس میں واقع قبرستان کا حصہ ہے لیکن گزشتہ چند سالوں سے اس سے جدا ہوگئی ہے اورچونکہ قبرستان سے اس وقت بھی استفادہ ہورہا ہے لہذا وہ معلم اور طالب علم جو اس لیبارٹری میں نماز پڑھتے ہیں ان کیلئے کیا حکم ہے؟
ج: جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ لیبارٹری کی زمین مردوں کو دفن کرنے کیلئے وقف ہوئی ہے اس میں نماز پڑھنے اور دوسرے امور انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر معتبر دلیل کے ذریعہ ثابت ہوجائے کہ وہ زمین صرف مردوں کو دفن کرنے کیلئے وقف کی گئی تھی تو اسے اپنی پہلی حالت پر لوٹانا واجب ہے اور اسے مردے دفن کرنے کیلئے خالی کرنا ضروری ہے اور اس میں تعمیر کی گئی تمام چیزیں غصب کے حکم میں ہیں۔
س 2074: دو دوکانیں ایک دوسرے کے پڑوس میں واقع ہیں اور ہر ایک کا واقف اور مصرف ، علیحدہ ہے اور ہر ایک دوسری سے الگ ہے کیا ان دونوں دوکانوں کے کرایہ دار کو ایک دوکان سے دوسری دوکان یا اس کے مخصوص راستے کی طرف دروازہ نکالنے کا حق ہے؟
ج: وقف سے انتفاع اور اس میں تصرف اگر چہ دوسرے وقف کی مصلحت کیلئے ہو ضروری ہے کہ وقف کے شرائط کے مطابق اور متولی کی اجازت سے ہواور ان دونوں دوکانوں کے کرایہ دار کو حق نہیں ہے کہ وہ اس بنا پر کہ دوسری دوکان بھی وقف ہے ایک دوکان سے دوسری میں دروازہ نکال کر یا راستہ بنا کر وقف میں تصرف کرے۔
س ٢٠۷٥: اس بات کے پیش نظر کہ بعض مراکز اور گھروں میں موجود نفیس کتابوں کے ضائع ہوجانے کا خطرہ ہے اور وہاں پر ان کی دیکھ بھال مشکل ہے بعض لوگوں نے یہ مشورہ دیاہے کہ شہر کی مرکزی لائبریری کا ایک حصہ ان مراکز کے اختیار میں دے دیا جائے تا کہ ان کتابوں کے وقف کو برقرار رکھتے ہوئے انہیں اسی صورت میں کہ جس میں یہ پہلی جگہ تھیں اس حصہ میں منتقل کیا جائے کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟
ج: اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ان نفیس موقوفہ کتابوں سے استفادہ کرنا کسی خاص جگہ سے مشروط ہے تو جب تک کتابوں کو ضائع ہونے سے بچانے کے ساتھ شرط کی رعایت بھی ممکن ہو ان کا اس خاص جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا جائز نہیں ہے ورنہ ان کتابوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کی خاطر انہیں ایسی قابل اطمینان جگہ لے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے جہاں ان کی صحیح حفاظت ہوسکے۔
س 2076: ایک ایسی زمین ہے جس سے صرف چراگاہ کے طور پر استفادہ کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے مالک نے اسے مقدس مقامات کیلئے وقف کیا ہے اور اس کے متولی نے اس کا ایک حصہ کچھ لوگوں کو کرایہ پردے دیا ہے اور کرایہ داروں نے اس کے اس حصے میں کہ جو چراگاہ ہونے کے قابل نہیں ہے بتدریج اپنی رہائش کیلئے مکان تعمیر کرنا شروع کردیئے ہیں اور اسی طرح اس کے جو حصے زراعت کیلئے مناسب تھے انہیں زمین اور باغ میں تبدیل کردیاہے۔
اولاً: چونکہ چراگاہ انفال اور عمومی اموال میں سے ہیں کیا اس کا وقف ہونا صحیح ہے اور اس وقت اس پر وقف ہونے کا حکم جاری ہوگا۔
ثانیاً: چونکہ کرایہ داروں نے اس میں اصلاحات اور تبدیلیاں کرکے اسے پہلے سے بہتر اور مرغوب بنادیا ہے توانہیں کتنی اجرت دینا ضروری ہے؟
ثالثاً: اس بات کے پیش نظر کہ کرایہ داروں کی کوششوں سے وہ جگہ زرعی زمین اور باغ میں تبدیل ہوگئی ہے ۔اس قسم کی زمینوں کو کیسے کرایہ پر دیا جائے گا؟ کیا ان کا کرایہ چراگاہ کے کرائے کی مقدار کے برابر ادا کیا جائے یا زرعی اور باغ کی زمیں کے کرایہ کی مقدارکے برابر؟ج: اصل وقف ثابت ہونے کے بعد جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ زمینیں وقف کے وقت انفال تھیں اور واقف کی شرعی ملکیت میں نہیں تھیں، شرعی لحاظ سے ان کا وقف صحیح ہے اور کرایہ داروں کی کوششوں سے ان کے کھیتی ، باغ یا گھر میں تبدیل ہونے سے یہ وقف ہونے سے خارج نہیں ہوں گی بلکہ انہوں نے موقوفہ زمین میں جو تصرفات کئے ہیں اگر وہ انہیں ان کے شرعی متولی سے کرایہ پر لینے کے بعد ہوں تو ان پر واجب ہے کہ وہ ان زمینوں کا کرایہ کہ جو عقد اجارہ میں معین کیا گیا ہے انکے شرعی متولی کو اداکریں تا کہ وہ اسے وقف کے امور میں خرچ کرے لیکن اگر انہوں نے ان زمینوں کو ان کے شرعی متولی سے کرایہ پر لئے بغیر ان میں تصرف کیا ہو تو ان پر واجب ہے کہ وہ مدت تصرف کی عادلانہ قیمت کے برابر اجرة المثل ادا کریں اور اگر ثابت ہوجائے کہ وہ زمینیں وقف کے وقت در اصل موات اور انفال میں سے تھیں اور واقف کی شرعی ملکیت نہیں تھیں تو اس صورت میں وقف شرعی طور پر باطل ہے اور زمین کے وہ حصے جو تصرف کرنے والوں نے قوانین و ضوابط کے مطابق احیاء کئے ہیں اور انہیں اپنے لئے باغ ،کھیتی اور مکان میں تبدیل کیا ہے خود انہی کیلئے ہیں اور زمین کے دوسرے حصے جو پہلی حالت پر باقی ہیں اور ہمیشہ موات رہے ہیں قدرتی ثروت اور انفال کا حصہ ہیں اور ان کا اختیار اسلامی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔
س2077: ایک عورت نے وہ تمام ملک مشاع وقف کردی جو اس کے اور دیگر مزارعین کے درمیان مشترک ہے اور یہ اس کے صرف چھٹے حصے کی مالک ہے اور یہ چیز محکمہ اوقاف کی مداخلت کی وجہ سے وہاں کے باشندوں کیلئے بہت سی مشکلات کا باعث بن گئی ہے مثلا محکمہ اوقاف وہاں کے باشندوں کے گھروں کیلئے ملکیت کی دستاویز جاری کرنے میں رکاوٹ پیدا کررہاہے کیا یہ وقف تمام مشترکہ ملک میں نافذ ہے یا صرف اس کے اپنے حصے میں نافذ ہے؟اور اگر وقف صرف اس کے اپنے حصے میں صحیح ہو تو کیا تقسیم کرنے سے پہلے مشاع زمین کو وقف کرنا صحیح ہے ؟ اور اگرمشاع حصے کا وقف اسکے جدا کرنے سے پہلے صحیح ہو تو اس سلسلے میں دیگر شرکا کی شرعی ذمہ داری کیا ہے؟
ج: مشاع ملک کے حصے کوجدا کرنے سے پہلے وقف کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے بشرطیکہ اس سے وقف کی جہت میں استفادہ کرنا ممکن ہو اگر چہ اسے جدا اورتقسیم کرنے کے بعد ہی لیکن جو شخص صرف ایک حصے کا مالک ہے اسکا تمام ملک کو وقف کرنا دیگر شرکاء کے حصوں کی نسبت فضولی اورباطل ہے اور شرکاء کو حق حاصل ہے کہ وہ اس ملک کی تقسیم اور وقف سے اپنے حصوں کے جدا کرنے کا مطالبہ کریں۔
س2078: کیا وقف کے شرائط سے عدول کرنا جائز ہے اور جواز کی صورت میں اس کی حدود کیا ہیں اور کیا وقت کا طولانی ہوجانا وقف کے شرائط پر عمل کرنے میں اثر انداز ہوتاہے؟
ج: ان صحیح شرائط سے عدول کرنا جائز نہیں ہے جو واقف نے وقف کے عقد میں لگائی ہیں مگر یہ کہ ان پر عمل کرنا نا ممکن ہو یا اس میں کوئی حرج لازم آتاہو البتہ زمانے کے گزرنے سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
س 2079: بعض موقوفہ زمینوں میں ایسی نہریں اور نالے ہیں کہ جن میں معدنی پتھر اور سنگریزے پائے جاتے ہیں کیا یہ سنگریزے اور معدنی پتھر جو موقوفہ زمین میں پائے جاتے ہیں وقف کے تابع ہیں؟
ج: بڑی اور عمومی نہریں اور اسی طرح عمومی نالے جو موقوفہ زمین کے قریب سے یا خود موقوفہ زمین سے گزرتے ہیں اس وقف کا حصہ نہیں ہیں مگر وہ مقدار جو عرف عام میں موقوفہ زمین کے اطراف ( حریم) میں سے شمار ہوتی ہو تو اس مقدار کے ساتھ وقف والا معاملہ کیا جائے گا لیکن وہ چھوٹی نہریں جو موقوفہ ہیں ان کے معدنی پتھروں اور سنگریزوں کے ساتھ بھی وقف جیسامعاملہ کیا جائے گا۔
س 2080: ایک دینی مدرسے کی عمارت پرانی ہونے اور اس میں رطوبت آجانے کی وجہ سے استفادہ کے قابل نہیں رہی اور اس کی املاک کی آمدنی جمع کرکے امانت کے طور پر بینک میں رکھ دی گئی ہے اور اب ہم اس رقم سے اسے دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں لیکن عمارت بنانے کی اجازت حاصل کرنے اور مذکورہ اموال کو نئی عمارت کی تعمیر کے سلسلے میں خرچ کرنے پر بہت وقت لگے گا کیا اس مدت کے دوران مذکورہ اموال کو کسی بینک میں سرمایہ کی شکل میں رکھنا اور بینک کے عام اور متعارف معاملات کے مطابق وقف کیلئے کچھ فیصد منافع حاصل کرنا جائز ہے؟
ج: ان اموال کی نسبت وقف کے شرعی متولی پر جو چیز واجب ہے وہ یہ ہے کہ وہ انہیں وقف کے امور میں خرچ کرے لیکن اگر وقف کی آمدنی کا وقف کے امور میں خرچ کرنا ممکن نہ ہو مگر اس پر کچھ مدت گزرنے کے بعد ۔اور ان اموال کی ،وقف کے امور میں خرچ کرنے کا وقت آنے تک حفاظت کرنا انکے بینک میں رکھنے سے ممکن ہو اور بینک میں ان اموال کا رکھنا انکے اپنے مصرف میں بر وقت خرچ کرنے میں تاخیر کا باعث نہ ہو توانہیں کسی شرعی عقد کے ضمن میں بینک کے حوالے کردینے اور اسکے منافع سے وقف کی مصلحت میں استفادہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س 2081: جو زمین ایک مسلمان نے دوسرے مسلمانوں کیلئے وقف کی ہے کیا اسے کسی غیر مسلم کو کرایہ پر دینا جائز ہے؟
ج: اگر زمین کا وقف وقفِ منفعت کی صورت میں ہو تو اسے غیر مسلم کو کرائے پر دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے بشرطیکہ اس صورت میں منفعت وقف محفوظ رہے۔
س 2082: چند مہینے پہلے ایک عالم دین کو موقوفہ زمین میں وقف کرنے والوں کی اجازت سے دفن کیا گیا ہے اور اب ایک گروہ اس کام پر معترض ہے اور دعویٰ کرتاہے کہ موقوفہ زمین میں دفن کرنا جائز نہیں ہے اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور جائز نہ ہونے کی صورت میں اگر اس موقوفہ زمین کہ جس میں عالم دین دفن ہوا ہے کے عوض کچھ رقم دی جائے تو کیا یہ اشکال ختم جائے گا؟
ج: اگر موقوفہ زمین میں میت کا دفن کرناجہت وقف کے منافی نہ ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر اس کا دفن کرنا جہت وقف کے منافی ہو تو وہاں دفن کرنا جائز نہیں ہے اور اگر کوئی شخص ایسی موقوفہ زمین میں دفن ہوجائے تو احوط یہ ہے کہ جب تک اس کا بدن منتشر نہ ہوا ہو اسے قبر سے نکال کر دوسری جگہ دفن کیا جائے مگر یہ کہ قبر کھودنے میں حرج ہو یا اس سے مؤمن کی بے احترامی ہوتی ہوبہر حال اس زمین کے عوض مال یا دوسری زمین دینے سے یہ اشکال ختم نہیں ہوگا۔
س 2083: اگر کوئی جائیداد بیٹوں پر نسل در نسل وقف ہوئی ہو اور بیٹے ( موقوف علیہم) کسی بھی وجہ سے اپنے حقوق سے صرف نظر کرلیں تو کیا وقف زائل ہوجائے گا؟ اور اگر پہلی نسل والے اپنے حقوق سے صرف نظر کرلیں توبعد والی نسل کی کیا ذمہ داری ہے؟ اور اسی طرح موقوفہ املاک کے شرعی متولی کی آنے والی نسلوں کے حقوق کے بارے میں کیا ذمہ داری ہے؟
ج: جن کے لئے وقف کیا گیا ہے ان کے اپنے حقوق سے صرف نظر کرنے سے وقف زائل نہیں ہوتا اور پہلی نسل کا موقوفہ میں اپنے حق سے صرف نظر کرلینا بعد والی نسل کے حق کے سلسلے میں کوئی اثر نہیں رکھتا اور ان کے صرف نظر کرنے سے وقف ختم نہیں ہوگا بلکہ بعد کی نسل والے ۔جب وقف سے استفادہ کرنے کے سلسلے میں ان کی باری آجائے ۔ اپنے پورے حق کا مطالبہ کرسکتے ہیں بلکہ اگر پہلی نسل کے زمانے میں وقف کو فروخت کرنے کا شرعی جوازہو تو بھی واجب ہے کہ وقف کوفروخت کرنے کے بعد اس کی رقم سے موقوفہ شے کی جگہ دوسری ملک خریدی جائے تا کہ اس سے آنے والی نسلیں استفادہ کرسکیں اور وقف کے متولی پر بھی واجب ہے کہ جن کیلئے یہ وقف کی گئی ہے وہ ان کی تمام نسلوں کیلئے وقف کی حفاظت کرے۔
س 2084: اگر اولاد پر وقف کے سلسلے میں یہ معلوم نہ ہو کہ وقف کے منافع ان کے درمیان کیسے تقسیم کئے جائیں توکیا اس قسم کے موارد میں واجب ہے کہ تقسیم ،میراث کے قانون کی بنیاد پر ہو یا مساوی طور پر؟
ج: اگر اولاد پر وقف کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ اسے اولاد پر بطور مساوی تقسیم کرنا ہے یا مذکر و مونث کے درمیان قانونِ ارث کے فرق کی بنیاد پر تو اس وقف کو تمام افراد پر بطور مساوی تقسیم کرنے پر حمل کیا جائے گا لہذا اس کی آمدنی بھی ہر نسل کے مذکرو مونث کے درمیان مساوی طور پر تقسیم ہوگی۔
س 2085: کئی سالوں سے ایک خاص شہر کے حوزہ علمیہ کے وقف کی آمدنی کا اس کے اس شہر میں بھیجنا ممکن نہ ہونے کی وجہ سے خرچ کرنا ممکن نہیں ہے جس کی وجہ سے اب تک آمدنی کی ایک بڑی مقدار جمع ہوگئی ہے ۔کیا اس کا دوسرے شہروں میں واقع حوزات علمیہ پر خرچ کرنا جائز ہے ؟ یا یہ کہ انہیں محفوظ رکھا جائے یہاں تک کہ ان کے اس شہر میں ارسال کرنے کا امکان فراہم ہوجائے؟
ج: محکمہ اوقاف یا شرعی متولی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ وقف کی آمدنی کو جمع کر کے اسے وقف کی جہت میں خرچ کریں اور اگر وقتی طور پر آمدنی کا اس شہر کی طرف ارسال کرنا ممکن نہ ہو کہ جس میں اسے خرچ کرنا ہے تو واجب ہے کہ اس آمدنی کی حفاظت کریں اور منتظر رہیں یہاں تک کہ اس کا اس شہر میں پہچانا ممکن ہوجائے بشرطیکہ یہ وقف کے بے فائدہ ہونے کا سبب نہ بنے اور اگر مستقبل میں بھی اس آمدنی کو اس خاص حوزہ علمیہ تک پہنچا سکنے کی امید نہ ہو تو اسے دیگر علاقوں کے حوزات علمیہ میں خرچ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
- حبس کے احکام
حبس کے احکام
س 2086: اگر کوئی شخص اپنی زمین کو معینہ مدت کیلئے ایسی چیز کیلئے حبس کرے کہ جس کیلئے وقف کرنا صحیح ہے اور اس کی امید یہ ہو کہ حبس کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ زمین اسے واپس مل جائے گی تو کیا مدت ختم ہونے کے بعد وہ زمین اسے واپس مل جائے گی اور اس سے اسے اپنی دیگر املاک کی مانند استفادہ کرنے کا حق ہے۔
ج: اگر زمین حبس کرنے والے کی شرعی ملکیت ہے اور اس نے زمین کو شرعی ضوابط کے مطابق حبس کیا ہو تو حبس صحیح ہے اور زمین پر اسکے شرعی آثار مترتب ہونگے اور حبس کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ ملک حبس کرنے والے کی ملکیت میں واپس آجائیگی اور وہ بھی اسکی دیگر املاک کی مانند ہوگی لہذا اس کے منافع اوردیگر فوائد بھی اسی کیلئے ہوں گے۔
س 2087: وہ ملک جسے مالک نے ایسی چیز کیلئے حبس دائم کیا ہے کہ جس پر وقف صحیح ہے یا میت کا وہ ایک تہائی حصہ کہ جس کی عین کو اس نے ہمیشہ کیلئے محفوظ رکھنے کی وصیت کی ہے تا کہ اس کی آمدنی اس کی طرف سے معین کردہ امور میں خرچ کی جائے اگر وہ ملک ورثاء کے درمیان میراث کے طور پر بانٹ دی جائے اورورثاء اسے قانونی دستاویز میں اپنے نام کرلیں یا اسے شرعی جواز کے بغیر کسی دوسرے کو فروخت کردیں تو کیا موقوفہ زمینوں ،املاک اور پانی کی خرید و فروخت اور انہیں اپنی ملکیت میں لانے کی حرمت اسے بھی شامل ہوگی؟
ج: وہ ملک اور وہ تیسرا حصہ جو حبس دائم ہوئے ہیں خرید و فروخت اور ملکیت میں لینے کی حرمت کے لحاظ سے وقف کے حکم میں ہیں اوران کی وراثت کے طور پر ورثاء کے درمیان تقسیم اور اسی طرح ان کی خرید و فروخت باطل ہے۔
- وقف کا بیچنا اور اسے تبدیل کرنا
وقف کا بیچنا اور اسے تبدیل کرنا
س2088: ایک شخص نے اپنی زمین کا کچھ حصہ امام بارگاہ کی تعمیر کے لئے وقف کیا ہے اور اس میں امام بارگاہ کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے لیکن وہاں کے بعض لوگوں نے امام بارگاہ کے ایک حصے کو مسجد میں تبدیل کردیا ہے اور اس وقت اس حصے میں مسجد کے عنوان سے نماز جماعت ادا کرتے ہیں کیا ان کا امام بارگاہ کو مسجد میں تبدیل کرنا صحیح ہے ؟ اور کیا اس پر مسجد کے احکام جاری ہونگے؟
ج: واقف یا کسی دوسرے شخص کے لئے ایسی امام بارگاہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا حق نہیں ہے جو امام بارگاہ کے عنوان سے وقف کی گئی ہو اور ایسا کرنے سے وہ مسجد میں تبدیل نہیں ہوگی اور اس پر مسجد کے احکام و آثار بھی مرتب نہیں ہوں گے لیکن اس میں نماز جماعت ادا کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س 2089: اگر کوئی شخص ایسی زمین کو بیع لازم کے طور پر فروخت کردے جو چند سال پہلے اسے میراث میں ملی ہو اور بعد میں معلوم ہوکہ وہ زمین وقف تھی تو کیا یہ خرید و فروش باطل ہے ؟ اور اگر باطل ہے تو کیا اسے خریدار کو اس کی موجودہ قیمت ادا کرنا ہوگی یا وہی رقم جو بیچنے کے وقت اس سے لی تھی؟
ج: جب معلوم ہوجائے کہ بیچی گئی زمین در حقیقت وقف تھی اور بیچنے والے کو اسے فروخت کرنے کا حق نہیں تھا تو وہ خرید و فروخت اور معاملہ باطل ہے اور واجب ہے کہ اس زمین کو اسی وقف کی حالت پر پلٹا دیاجائے اور زمین بیچنے والے پر لازم ہے کہ خریدار کو (کرنسی کی قدر میں ہونے والی کمی کا حساب کرتے ہوے) وہ رقم واپس کرے جو اس نے زمین کے عوض حاصل کی تھی۔
س 2090: ایک شخص نے تقریباً سو سال سے اپنی ایک ملک اپنے بیٹوں پر وقف کی ہے اور اس نے وقفنامہ میں ذکر کیا ہے کہ اگر اس کا کوئی بیٹا فقیر ہوجائے تو اسے شرعا حق ہے کہ وہ اپنا حصہ دوسرے وارث کو بیچ دے لہذا اس کے بعض بیٹوں نے کچھ عرصہ پہلے اپنا حصہ ان لوگوں کو فروخت کر دیا ہے کہ جن کے لئے یہ وقف ہوئی ہے اور اب یہ کہا جاتاہے کہ چونکہ عبارت میں کلمہ وقف ہے لہذا وہ شرائط جو واقف نے ذکر کئے ہیں صحیح نہیں ہیں اور اس ملک کی خرید و فروخت باطل ہے چنانچہ اس بات کے پیش نظر کہ وہ زمین وقف خاص ہے نہ عام، کیا واقف کے وقف نامہ کے مطابق اس زمین کی خرید و فروخت جائز ہے؟
ج: اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ واقف نے عقد وقف کے ضمن میں یہ شرط رکھی ہے کہ اگر اس کے ان بیٹوں میں سے کہ جن کے لئے اس نے زمین وقف کی ہے کوئی فقیر اور محتاج ہوجائے تو وہ اپنا حصہ انہی بیٹوں میں سے کسی دوسرے کو فروخت کرسکتا ہے تواس شخص کا معاملہ اور خرید و فروخت اشکال نہیں رکھتا کہ جس نے اپنا حصہ فقر و نیازمندی کی بناپر فروخت کیا ہے اور اس کا معاملہ صحیح ہے۔
س 2091: میں نے زمین کا ایک ٹکڑا محکمہ تعلیم کو اسکول بنانے کیلئے ہدیہ کے طور پر دیا لیکن مشورے اور یہ اطلاع حاصل کرنے کے بعد کہ اس زمین کی رقم سے شہر کے دوسرے محلوں میں ایسے کئی اسکول بنائے جاسکتے ہیں میں نے اس زمین کو وزارت تعلیم کی نگرانی میں بیچنے اور اس کی رقم سے شہر کے جنوب یا محروم علاقوں میں کئی سکول تعمیر کرنے کیلئے اس وزارت کے دفتر میں رجوع کیا،کیا میرے لئے اس کام کو انجام دینا جائز ہے؟
ج: اگر سکول کی زمین انشاء وقف کے ساتھ اس عنوان سے وزارت تعلیم کی تحویل میں دی ہو کہ وزارت تعلیم اس کی سرپرست اور متولی ہے تو اس کے بعد آپ کو اس میں دخالت ، تصرف اور رجوع کرنے کا حق نہیں ہے لیکن اگر وقف حتی فارسی زبان میں بھی انشا نہ ہوا ہو یا زمین وقف کے قبضے کے عنوان سے وزارت تعلیم کی تحویل میں نہ دی گئی ہو تو اس صورت میں زمین پر آپ کی ملکیت باقی ہے اور اس کا اختیار آپ کے ہاتھ میں ہے۔
س2092: ایک امامزادے کی زیارت گاہ کے گنبد مبارک پر تین متصل قبوّں کی شکل میں تین کلوگرام سونا موجود ہے اس سے پہلے یہ سونا دو مرتبہ چوری ہوا لیکن واپس آگیا اور پھر اسے اسی جگہ پر لگادیا گیا اس بات کے پیش نظر کہ مذکورہ سونے کے چوری یا تلف ہوجانے کا خطرہ ہے کیا اس کا فروخت کرنا اوراس کے پیسے کو روضے کی تعمیر و توسیع کیلئے خرچ کرنا جائز ہے؟
ج: صرف چوری ہونے اور اس کے ضائع ہونے کے خطرے کے پیش نظر اسے بیچنا یا تبدیل کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر شرعی متولی قرائن و شواہد کے ذریعہ اس بات کا قابل اعتنا احتمال دے کہ وہ سونا روضے کی ضروریات کو پورا کرنے اور اس کی تعمیر میں صرف کرنے کیلئے ذخیرے کے طور پر رکھا گیا ہے یا یہ کہ اس بقعہ مبارکہ کی تعمیر اور اس کی مرمت نہایت ضروری ہے اور اس کی رقم کسی اور طریقے سے فراہم کرنا ممکن نہیں ہے تو اس صورت میں سونے کو بیچنا اور اس کی رقم کو اس بقعہ مبارکہ کی ضروری تعمیر اور مرمت کیلئے خرچ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور مناسب ہے کہ محکمہ اوقاف اس کام کی نگرانی کرے۔
س 2093: ایک شخص نے اپنی زرعی زمین اور پانی کی کچھ مقدار اپنے بیٹوں پر وقف کی ہے لیکن اولاد کی کثرت ،ذراعت کی دشوار ی اور پیداوار کی کمی کی وجہ سے کوئی بھی زمین میں زراعت کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا، لہذا مستقبل قریب میں یہ وقف استعمال کے قابل نہیں رہے گا اور خراب ہوجائے گا کیا اس بناپر جائز ہے کہ مذکورہ زمین اور پانی بیچ دیئے جائیں اور انکی رقم کو نیک کاموں میں خرچ کیا جائے۔
ج: جب تک وقف سے اس جہت میں استفادہ کرنا ممکن ہے کہ جس کیلئے اسے وقف کیا گیا ہے ۔اگر چہ اس طرح کہ اسے ان افراد میں سے بعض کو کہ جن پر اسے وقف کیا گیا ہے یا کسی دوسرے شخص کو کرایہ پر دے دیں اور اس کے کرایہ کو جہت وقف میں خرچ کریں یا اس سے استفادہ کرنے کی نوعیت کو تبدیل کردیں ۔تو اسکا فروخت کرنا اور تبدیل کرنا جائز نہیں ہے اور اگر اس سے کسی بھی صورت میں فائدہ اٹھانا ممکن نہیں ہے تو پھر اسکا بیچنا جائز ہے لیکن اس صورت میں واجب ہے کہ اسکی رقم سے کوئی دوسری ملک خریدی جائے تا کہ اسکے منافع جہت وقف میں خرچ کئے جائیں۔
س 2094: ایک منبر مسجد کےلئے وقف ہوا ہے لیکن بہت زیادہ اونچا ہونے کی وجہ سے عملاً استعمال کے قابل نہیں ہے کیا اسے دوسرے مناسب منبر میں تبدیل کرنا جائز ہوتا ہے؟
ج: اگر منبر اپنی اس موجودہ شکل میں اس مسجد یا دوسری مساجد میں استعمال کے قابل نہیں ہے تو اس کی شکل بدلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
س 2095: کیا ان زمینوں کا فروخت کرنا جائز ہے جو وقف خاص ہیں اور واقف نے انہیں اراضی کی اصلاحات کے قانون کے تحت حاصل کیا ہے؟
ج: اگر واقف وقف کرتے وقت اس چیز کا شرعی مالک ہو جسے اس نے وقف کیا ہے اور اس کی جانب سے وقف بھی شرعی طور پر واقع ہوا ہو تو خود اس کے یا کسی دوسرے کے ذریعے وقف کی خرید و فروخت یا اس میں تبدیلی صحیح نہیں ہے اگرچہ وہ وقف خاص ہو مگر خاص استثنائی موارد میں کہ جن میں اس کا فروخت کرنا یا تبدیل کرنا شرعی طور پر جائز ہوتاہے۔
س2096: میرے والد صاحب نے زمین کا ایک حصہ جس میں کھجور کے درخت ہیں محرم کے پہلے دس دنوں اور قدر کی راتوں میں نیاز دینے کیلئے وقف کیا ہے اور اب ان درختوں کی عمر سو سال سے زیادہ ہوگئی ہے اور استفادہ کرنے کے قابل نہیں رہے ہیں اس بات کے پیش نظر کہ میں بڑا بیٹا ہوں اور باپ کی طرف سے وکیل و وصی ہوں کیا جائز ہے کہ میں اس زمین کو فروخت کرکے اس کی رقم سے مدرسہ یا امام بارگاہ تعمیر کروں تا کہ وہ میرے باپ کیلئے صدقہ جاریہ ہوں؟
ج: اگر زمین بھی وقف ہو تو صرف وقف شدہ درختوں کے قابل استعمال نہ رہنے کی بناپر اس کا بیچنا اور تبدیل کرنا جائز نہیں ہے بلکہ ممکنہ صورت میں واجب ہے کہ ان درختوں کی جگہ نئے درخت لگائے جائیں اگرچہ اس کے لئے قابل استعمال نہ رہنے والے درختوں کی رقم خرچ کرنی پڑے تا کہ ان کا منافع وقف کے امور میں صرف کیا جائے اور اگر ایسا نہ ہو تو زمین سے کسی دوسری شکل میں استفادہ کیا جائے مثلا اسے زراعت یا گھر بنانے و غیرہ کیلئے کرایہ پر دینا اور پھر اس کی آمدنی کو وقف کے امور میں خرچ کرنا ، کلی طور پر جب تک وقف کی زمین سے کسی طرح استفادہ کرنا ممکن ہو اس وقت تک اس کا فروخت یا تبدیل کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر کھجور کے درخت قابل استعمال نہیں ہیں تو ان کے بیچنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور امکان کی صورت میں ان کی رقم کو نئے درخت لگانے میں خرچ کرنا ضروری ہے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تواسے وقف کے امور میں خرچ کیا جائے۔
س2097: کسی شخص نے ایک جگہ پر مسجد بنانے کیلئے لو ہے اور ویلڈنگ کا کچھ سامان ہدیہ کیا اور مسجد کی تعمیر کا کام مکمل ہونے کے بعد کچھ سامان بچ گیا ہے اور دیگر اخراجات کی وجہ سے مسجد مقروض ہے کیا اس بچے ہوئے سامان کو فروخت کرکے اس کی رقم سے مسجد کا قرض ادا کرنا اور اس کی دوسری ضروریات کو پورا کرنا جائز ہے؟
ج: اگر دینے والے شخص نے وہ آلات اور سامان مسجد بنانے کیلئے دیا ہو اور انہیں اسی کام کیلئے اپنی ملکیت سے خارج کیا ہو تو اس صورت میں ان میں سے جو چیز بھی قابل استعمال ہو اگرچہ دوسری مساجد میں، تو اس کا فروخت کرنا جائز نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ اس سے دوسری مسجد کی تعمیر کیلئے استعمال کیا جائے لیکن اگر دینے والے نے وہ سامان صرف مسجد میں استعمال کیلئے دیا ہو تو اس صورت میں بچا ہوا مال اس کی اپنی ملکیت ہے اور اس کا اختیار بھی خود اس کے ہاتھ میں ہے۔
س2098: ایک شخص نے اپنی لائبریری اپنے بیٹوں کیلئے وقف کی ہے لیکن اس کی اولاد اور پوتوں میں سے کسی نے بھی دینی تعلیم حاصل نہیں کی اور وہ لائبریری سے استفادہ نہیں کرتے اور دیمک نے اس کی بعض کتابوں کو ضائع کردیا ہے اور باقی کتابیں بھی ضائع ہورہی ہیں کیا انہیں بیچنا جائز ہے؟
ج: اگر اس کی اولاد پر لائبریری کا وقف کرنا اس بات سے مشروط ہو کہ وہ علوم دینی حاصل کریں اور علماء دین بنیں تو تعلیق کی بناپر یہ وقف ابتدا ہی سے باطل ہے اور اگر اس سے استفادہ کرنے کیلئے اولاد پر وقف کیا ہے اور اس وقت ان میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں ہے جو اس سے استفادہ کرسکے اور آئندہ بھی کوئی امید نہیں ہے تو اس صورت میں مذکورہ وقف صحیح ہے اور ان کے لئے جائز ہے کہ وہ لائبریری ایسے افراد کے اختیار میں دے دیں جو اس سے استفادہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور اسی طرح اگر لائبریری ایسے افراد کے استفادے کیلئے وقف ہوئی ہو جو اس سے استفادہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن وقف کے متولی اس کے بیٹے ہوں تو بیٹوں پر واجب ہے کہ وہ مذکورہ افراد کے استفادہ کیلئے اسے ان کے اختیار میں دے دیں بہر حال انہیں اس کے فروخت کرنے کا حق نہیں ہے اور شرعی متولی پر واجب ہے کہ وہ مناسب طریقے سے ان کتابوں کو ضائع ہونے سے بچائے ۔
س2099: ایک موقوفہ زرعی زمین کی سطح اطراف کی زمینوں سے بلند ہے کہ جس کی وجہ سے اس تک پانی پہنچانا ممکن نہیں ہے اور کچھ عرصہ سے اسے دوسری زمینوں کے ہم سطح بنانے کا کام بھی ختم ہوگیا ہے اور اضافی مٹی اس کے وسط میں پڑی ہے جو اس میں زراعت میں رکاوٹ ہے کیا اضافی مٹی کو فروخت کر کے اس کی رقم اس امامزادے کے حرم میں خرچ کرنا جائز ہے جو مذکورہ زمین کے قریب واقع ہے۔
ج: اگر اضافی مٹی موقوفہ زمین سے استفادہ کرنے میں مانع ہے تو اسے زمین سے ہٹانے اور فروخت کرکے اس کی رقم کو وقف کے امور میں خرچ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س 2100: بعض موقوفہ تجارتی دوکانیں جو موقوفہ زمین میں بنائی گئی ہیں اور کرایہ داروں سے پگڑی لئے بغیر کرائے پر دے دی گئی ہیں کیا ان کے کرایہ داروں کیلئے جائز ہے کہ وہ دوکانوں کی پگڑی کسی دوسرے کو بیچ کر اس سے رقم لے لیں ؟ اور اگر جائز ہے تو کیا پگڑی کی رقم کرایہ دار کی ہے یا وہ وقف کی آمدنی شمار ہوگی اور اسے وقف کے امور میں خرچ کیا جائیگا؟
ج: اگر وقف کا متولی اس کی مصلحت کی رعایت کرتے ہوئے پگڑی فروخت کرنے کی اجازت دے تو جو مال اس کے بدلے میں حاصل ہوگا وہ وقف کی آمدنی شمار ہوگا اور واجب ہے کہ اسے وقف کے امور میں خرچ کیا جائے لیکن اگر وہ اس معاملہ کی اجازت نہ دے تو معاملہ باطل ہے اور بیچنے والے کیلئے ضروری ہے کہ جو رقم اس نے خریدار سے لی ہے اسے واپس کر دے بہر حال جس کرایہ دار کے پاس پگڑی کا حق نہیں ہے اگر اس نے اسے کسی دوسرے کرایہ دارکو بیچا ہے تو اس کے مال میں اس کا کوئی حق نہیں ہے۔
-
- قبرستان کے احکام
قبرستان کے احکام
س 2101: مسلمانوں کے عمومی قبرستان کو اپنی ملکیت میں لانے اور اس میں ذاتی عمارتیں بنانے اور اسے بعض اشخاص کے نام پر ملک کے عنوان سے ثبت کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ اور کیا مسلمانوں کا عمومی قبرستان وقف شمار ہوگا؟ اور کیا اس میں ذاتی تصرف کرنا غصب ہے ؟ اور کیا اس میں تصرف کرنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے تصرفات کے سلسلے میں اجرة المثل ادا کریں ؟ اور اجرة المثل کا ضامن ہونے کی صورت میں اس مال کو کس جگہ خرچ کیا جائےگا؟ اور اس میں تعمیر کی گئی عمارتوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج: مسلمانوں کے عمومی قبرستان کی ملکیت کی محض دستاویز اپنے نام کرا لینا نہ تو اس کی شرعی ملکیت کی حجت ہے اور نہ ہی غصب کرنے کی دلیل جیسا کہ عمومی قبرستان میں مردوں کو دفن کرنا بھی اس کے وقف ہونے کی شرعی دلیل نہیں ہے ۔ بلکہ اگر قبرستان عرف کی نظر میں اس شہر کے تابع شمار ہو تاکہ اس شہر کے باشندے اپنے مردوں کو دفن کرنے یا کسی دوسرے کام کے لئے اس سے استفادہ کریں یا کوئی ایسی شرعی دلیل ہو جس سے ثابت ہو کہ وہ قبرستان مسلمان مردوں کو دفن کرنے کے لئے وقف ہوا ہے تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قبرستان کی زمین سے ہاتھ اٹھالیں اور اس میں جو عمارتیں و غیرہ تعمیر کی ہیں انہیں گرا کر اپنی سابقہ حالت پر لوٹا دیں لیکن تصرفات کی اجرة المثل کا ضامن ہونا ثابت نہیں ہے۔
س 2102: ایک ایسا قبرستان ہے جسکی قبروں کو تقریبا پینتیس سال ہوچکے ہیں اور بلدیہ نے اسے عمومی پارک میں تبدیل کردیا ہے اور پچھلی حکومت کے زمانے میں اس کے بعض حصوں میں کچھ عمارتیں بنائی گئی ہیں کیا متعلقہ ادارہ بھی اپنی ضرورت کے مطابق اس زمین میں دوبارہ عمارتیں بناسکتاہے؟
ج: اگر قبرستان کی زمین مسلمان مردوں کو دفن کرنے کےلئے وقف ہوئی ہو یا اس میں عمارتیں بنانے سے علما، صلحاء اور مؤمنین کی قبروں کی توہین یا ان کے کھودنے کا سبب ہو یا زمین عام شہریوں کے استفادہ کےلئے ہو تو اس میں کسی قسم کی تبدیلی کرنا اور ذاتی تصرفات اور عمارتیں بنانا جائز نہیں ہے ورنہ اس کام میں بذات خود کوئی اشکال نہیں ہے۔ لیکن اس سلسلے میں قوانین کی رعایت کرنا ضروری ہے۔
س 2103: ایک زمین مردوں کو دفن کرنے کےلئے وقف کی گئی ہے اور اس کے بیچ میں ایک امامزادے کی ضریح واقع ہے اور پچھلے چند سالوں میں بعض شہدا کے جنازے بھی وہاں دفن کئے گئے ہیں اور اس بات کے پیش نظر کہ جوانوں کی ورزش اور کھیل کود کےلئے کوئی مناسب جگہ نہیں ہے کیا اس قبرستان میں آداب اسلامی کی رعایت کرتے ہوئے کھیلنا جائز ہے؟
ج: قبرستان کو ورزش اور کھیل کود کی جگہ میں تبدیل کرنا اور موقوفہ زمین میں جہت وقف کے علاوہ تصرف کرنا جائز نہیں ہے اور اسی طرح مومنین اور شہدا کی قبروں کی توہین کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
س 2104: کیا جائز ہے کہ ایک امامزادے کے زائرین اپنی گاڑیوں کو اس پرانے قبرستان میں پارک کریں کہ جسے تقریبا سو سال ہوچکے ہیں اور معلوم ہے کہ پہلے اس دیہات کے باشندے اسی جگہ مردے دفن کرتے تھے اور اب انھوں نے مردوں کو دفن کرنے کےلئے دوسری جگہ منتخب کرلی ہے؟
ج: اگر یہ کام عرف میں مسلمانوں کی قبروں کی توہین شمار نہ ہو اور اس کام سے امامزادے کے زائرین کی لئے کوئی رکاوٹ بھی پیدا نہ ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س 2105: بعض افراد عمومی قبرستان میں بعض قبروں کے پاس مردے دفن کرنے سے منع کرتے ہیں کیا وہاں دفن کرنے میں کوئی شرعی رکاوٹ ہے اور کیا انھیں روکنے اور منع کرنے کا حق ہے ؟
ج: اگر قبرستان وقف ہو یا اس میں ہر شخص کی لئے مردے دفن کرنا مباح ہو تو کسی کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ عمومی قبرستان میں اپنی میت کی قبر کے اطراف میں حریم بناکر اس میں مردہ مؤمنین کو دفن کرنے سے منع کرے۔
س 2106: ایک قبرستان کہ جس میں قبروں کی جگہ پر ہوگئی ہے اس کے قریب ایسی زمین ہے جسے عدالت نے اس کے مالک سے ضبط کر کے اس وقت ایک دوسرے شخص کو دے دی ہے کیا اس زمین میں موجودہ مالک کی اجازت سے مردے دفن کرنا جائز ہے؟
ج: اگر اس زمین کا موجودہ مالک اس کا شرعی مالک شمار ہوتا ہے تو اس میں اس کی اجازت اور رضامندی سے تصرف کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س 2107: ایک شخص نے مردوں کو دفن کرنے کےلئے زمین وقف کی اور اسے مسلمانوں کےلئے عمومی قبرستان قرار دے دیا۔کیا جائز ہے کہ اس کی انتظامیہ ان لوگوں سے پیسے وصول کرے جو اپنے مردوں کو وہاں دفن کرتے ہیں؟
ج: انہیں موقوفہ عمومی قبرستان میں مردوں کو دفن کرنے کے عوض کسی چیز کے مانگنے کا حق نہیں ہے لیکن اگر وہ قبرستان میں دوسرے کام انجام دیتے ہوں یا صاحبان اموات کی لئے اپنی خدمات پیش کرتے ہوں تو ان خدمات کے عوض اجرت لینے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س 2108: ہم ایک دیہات میں ٹیلیفون ایکسچینج بنانا چاہتے ہیں لہذا ہم نے دیہات کے باشندوں سے کہا کہ وہ اس کام کےلئے ہمیں کوئی زمین دیں ۔اگر اس کام کےلئے دیہات کے وسط میں کوئی زمین نہ ملے تو کیا اس ایکسچینج کو قدیمی قبرستان کے متروکہ حصے میں بنانا جائز ہے؟
ج: اگر وہ عمومی قبرستان مردوں کو دفن کرنے کےلئے وقف ہو یا اس میں ٹیلیفون ایکسچینج بنانا مسلمانوں کی قبریں کھودنے یا ان کی توہین کا سبب ہو تو جائز نہیں ہے ورنہ اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س 2109: ہم نے دیہات میں مدفون شہدا کی قبروں کے پاس اس دیہات کے ان شہیدوں کی یاد میں پتھر نصب کرنے کا عزم کیا ہے جو دوسرے مقامات میں دفن ہوئے ہیں تا کہ مستقبل میں یہ انکا مزار ہو۔کیا یہ کام جائز ہے؟
ج: شہدا کے نام سے قبر کی یادگار بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وہ جگہ مردوں کو دفن کرنے کےلئے وقف ہو تو دوسروں کےلئے مردے دفن کرنے میں رکاوٹ پیدا کرنا جائز نہیں ہے۔
س 2110: ہم قبرستان کے قریب ایک بنجر زمین میں مرکز صحت قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن وہاں کے بعض باشندے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ جگہ قبرستان کا حصہ ہے اورذمہ دار افراد کےلئے اس کی تشخیص مشکل ہے کہ یہ جگہ قبرستان کا حصہ ہے یا نہیں اور اس علاقہ کے بعض بوڑھے گواہی دیتے ہیں کہ جس زمین میں بعض لوگ قبر کے وجود کا دعویٰ کرتے ہیں اس میں کوئی قبر موجود نہیں تھی البتہ دونوں گروہ یہ گواہی دیتے ہیں کہ جو زمین مرکز صحت قائم کرنے کےلئے منتخب کی گئی ہے اس کے اطراف میں قبریں موجود ہیں ۔ اب ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
ج: جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ زمین مسلمان مردوں کے دفن کےلئے وقف ہے اور مذکورہ زمین ان عام جگہوں میں سے بھی نہ ہو جو وہاں کے باشندوں کی ضرورت کےلئے ہیں اور اس میں مرکز صحت قائم کرنے سے قبریں کھودنا لازم نہ آتا ہوا ور مومنین کی قبروں کی اہانت بھی نہ ہوتی ہو تو مذکورہ زمین میں مرکز صحت قائم کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے ورنہ جائز نہیں ہے۔
س 2111: کیا جائز ہے کہ قبرستان کا ایک حصہ کہ جس میں ابھی کوئی مردہ دفن نہیں ہوا اور وہ قبرستان وسیع و عریض ہے اور اس کے وقف کی کیفیت بھی صحیح طور پر معلوم نہیں ہے اسے رفاہ عامہ جیسے مسجد یا مرکز صحت کی تعمیر میں استفادہ کےلئے کرایہ پر دیا جائے اس شرط کے ساتھ کہ کرایہ کی رقم خود قبرستان کے فائدے کےلئے خرچ کی جائے ؟ ( قابل توجہ ہے کہ اس علاقہ میں چونکہ رفاہ عامہ کے مراکز قائم کرنے کےلئے کوئی خالی زمین نہیں ہے لہذا اس علاقے میں ایسے کام کی ضرورت ہے)؟
ج: اگر وہ زمین بالخصوص مردے دفن کرنے کےلئے وقف انتفاع کے طور پر وقف ہوئی ہو تو اسے کرایہ پر دینا یا اس میں مسجد و مرکز صحت و غیرہ بنانا جائز نہیں ہے لیکن اگر ایسے شواہد موجود نہ ہوں کہ وہ زمین مردوں کو دفن کرنے کےلئے وقف ہوئی ہے اور علاقہ کے لوگوں کو اپنے مردے دفن کرنے اور اس جیسے دیگر کاموں کی خاطر اس جگہ کی احتیاج نہ ہو اور اس میں قبریں بھی نہ ہوں اور اسکا کوئی خاص مالک بھی نہ ہو تو اس صورت میں اس زمین سے وہاں کے باشندوں کے رفاہ عامہ کےلئے استفادہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س 2112: بجلی کی وزارت بجلی پیدا کرنے کےلئے کچھ ڈیم بنانا چاہتی ہے ان میں سے ایک ڈیم دریائے کارون کے راستے میں بجلی گھر بنانے کےلئے ہے۔ پروجیکٹ کی ابتدائی تعمیرات اور کام مکمل ہوچکے ہیں اور اس کا بجٹ بھی فراہم کردیا گیا ہے لیکن اس پروجیکٹ والے علاقہ میں ایک قدیمی قبرستان ہے کہ جس میں پرانی اور نئی قبریں موجود ہیں اور اس پروجیکٹ کو عملی جامہ پہنانا ان قبروں کو منہدم کرنے پر موقوف ہے اس مسئلہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج: وہ پرانی قبریں کہ جن کے مردے خاک بن چکے ہیں ان کے منہدم کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن ان قبروں کو منہدم کرنا اور ان کے ان مردوں کو آشکار کرنا کہ جو ابھی خاک میں تبدیل نہیں ہوئے جائز نہیں ہے البتہ اگر اس جگہ ان بجلی گھروں کی تعمیر اقتصادی اور سماجی لحاظ سے ضروری ہو اور اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو اور انہیں اس جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا یا قبرستان سے ہٹانا سخت اور مشکل یا طاقت فرساکام ہو تو اس جگہ ڈیم بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن واجب ہے کہ جو قبریں ابھی خاک میں تبدیل نہیں ہوئی ہیں انہیں کھودے بغیر کسی دوسری جگہ منتقل کیا جائے اگر چہ اس طرح کہ قبر کے اطراف کو کھودکر پوری قبر کو دوسری جگہ منتقل کردیا جائے اور اگر اس دوران کوئی بدن ظاہر ہوجائے تو اسے فوراً کسی دوسری جگہ دفن کرنا واجب ہے۔
س 2113: قبرستان کے قریب ایک زمین ہے کہ جس میں قبر کا کوئی نشان موجود نہیں ہے لیکن یہ احتمال ہے کہ وہ ایک پرانا قبرستان ہو کیا اس زمین میں تصرف کرنا اور اس میں اجتماعی کاموں کےلئے عمارتیں بنانا جائز ہے ؟
ج: اگر ثابت ہوجائے کہ وہ زمین اس موقوفہ قبرستان کا حصہ ہے جو مردوں کو دفن کرنے کےلئے مخصوص ہے یا عرف کی نظر اس کا اطراف (حریم) ہو تو وہ قبرستان کے حکم میں ہے اور اس میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔
س 2114: کیا جائز ہے کہ انسان اپنی زندگی کے دوران قبر کو ملکیت کے ارادے سے خریدلے؟
ج: اگر قبر کی جگہ کسی دوسرے کی شرعی ملکیت ہو تو اس کے خریدنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر وہ ایسی زمین کا حصہ ہے جو مؤمنین کے دفن کےلئے وقف ہے تو انسان کا اسے خرید کر اپنے لئے محفوظ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ اقدام دوسروں کو اس میں مردے دفن کرنے سے روکنے کا موجب بنتا ہے۔
س 2115: اگر ایک سڑک کے ساتھ پیدل چلنے کا راستہ بنانا ان مؤمنین کی بعض قبروں کو منہدم کرنے پر موقوف ہو جو بیس سال پہلے اس سڑک کے پاس قبرستان میں دفن ہوئے تھے توکیا یہ کام جائز ہے ؟
ج: اگر مذکورہ قبرستان وقف نہ ہو تو جب تک یہ کام مسلمان کی قبر کھودنے یا اس کی اہانت کا موجب نہ ہو اس میں پیدل راستہ بنانے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
س 2116: شہر کے وسط میں ایک متروکہ قبرستان ہے کہ جس کا وقف ہونا معلوم نہیں ہے کیا اس میں مسجد کا بنانا جائز ہے؟
ج: اگر مذکورہ قبرستان موقوفہ زمین اور کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو اور اسی طرح مختلف مواقع پر وہاں کے باشندوں کی عام ضرورت کےلئے بھی نہ ہو اور اس میں مسجد بنانا مسلمانوں کی قبروں کی بے حرمتی اور انہیں کھودنے کا سبب بھی نہ ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
س 2117: زمین کا ایک حصہ جو تقریبا سو سال سے اب تک عمومی قبرستان ہے اور کچھ سال پہلے کھدائی کے نتیجے میں وہاں پر کچھ قبریں ملی ہیں اس کے کھودنے کا کام مکمل ہونے اور وہاں سے مٹی اٹھانے کے بعد بعض قبریں آشکار ہوگئی ہیں اور ان کے اندر ہڈیاں بھی دیکھی گئی ہیں کیا بلدیہ کےلئے اس زمین کا فروخت کرنا جائز ہے ؟
ج: اگر مذکورہ قبرستان وقف ہو تو اس کا فروخت کرنا جائز نہیں ہے بہرحال اگر کھدائی قبروں کے کھودنے کا سبب ہو تو وہ بھی حرام ہے۔
س 2118: وزارت تعلیم نے ایک پرانے قبرستان پر وہاں کے باشندوں کی اجازت حاصل کئے بغیر قبضہ کیا اور وہاں پر ایک سکول بنادیا کہ جس میں طالب علم نماز بھی پڑھتے ہیں اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج: جب تک کوئی ایسی معتبر دلیل موجود نہ ہو جس سے یہ ثابت ہو کہ اسکول کی زمین مردوں کے دفن کےلئے وقف ہوئی ہے اور ایسی عمومی جگہوں میں سے نہ ہو کہ جس کی شہریوں کو اپنے مردوں کو دفن کرنے یا اس جیسے دیگر کاموں کےلئے ضرورت ہوتی ہے اوریہ کسی کی ذاتی ملکیت بھی نہ ہو تو قوانین و ضوابط کی رعایت کرتے ہوئے اس سے اسکول بنانے اور اس میں نماز پڑھنے کےلئے استفادہ کرنے میں کو ئی اشکال نہیں ہے۔