ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا بجنورد کے عوام کےعظیم الشان اجتماع سے خطاب

بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌
الحمدللّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و حبيبنا ابى‌ القاسم المصطفى محمّد و على ءاله الأطيبين الأطهرين و صحبه المنتجبين و السّلام على عباد اللّه الصّالحين.
اللّهمّ صلّ على علىّ ‌بن ‌موسى ‌الرّضا المرتضى الامام التّقىّ النّقىّ و حجّتك على من فوق الأرض و من تحت الثّرى الصّدّيق الشّهيد صلاة كثيرة تامّة نامية زاكية متواصلة مترادفة كأفضل ما صلّيت على احد من عبادك و اوليائك.

میں آپ لوگوں سے ملاقات پر دل کی گہرائی سے اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں  آپ کا شہر اور صوبہ باب الرضا کے نام سے معروف ہے اورصوبہ خراسان شمالی کے عوام سے میری ملاقات بھی امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے مخصوص دن پر انجام پا رہی ہے۔ اگرچہ آج ہمیں یہ توفیق حاصل  نہیں کہ ہم آٹھویں امام (ع) کے حرم مطہر کی قریب سے زیارت کرتے لیکن ہم اسی خطے سے جو حضرت امام رضا (ع) کے نام  سے متعلق خطہ ہے امام (ع)کی بارگاہ میں سلام و درود پیش کرتے ہیں۔
یہ علاقہ جو آج خراسان شمالی کے نام سے معروف ہے خراسان کا بہت اہم علاقہ رہا ہے۔ جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے بھی اور قدرتی وسائل کے اعتبار سے بھی اہم ہے۔ اسی طرح لوگوں کی انسانی خصوصیتوں، اخلاقیات، باہمی سلوک اور ثقافت کے لحاظ سے بھی اہم ہے۔ قدیم زمانے سے ہی اس علاقے کی یہ خصوصیات ممتاز اور نمایاں رہی ہیں۔ یہ علاقہ بڑے دلکش اور جذاب قدرتی مناظر سے آراستہ، گوناگوں اور قیمتی قدرتی ذخائر سے مالامال، نمایاں اور ممتاز ثقافتی ماضی سے مزین، زراعتوں اور چراگاہوں کے لحاظ سے انتہائی غنی، ناشناختہ سیاحتی مراکز سے سرشار، بد قسمتی سے اس علاقے کے بہت سے سیاحتی مراکز ہابھی تک ملک کے عوام کے لئے آشنا نہیں ہیں۔ اسی طرح اس علاقہ کی  ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ہر سال کروڑوں مسافر حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ آلاف التحیۃ و الثناء کی زیارت کے شوق میں اس علاقے سے گزرتے ہیں۔ اس جغرافیائی اور علاقائی انفرادیت کا مالک خراسان شمالی کا صوبہ خاص اور اہم پوزیشن کا مالک ہے۔ تا ہم ان سب سے بڑھ کر یہاں کے عوام کے صفات و خصوصیات کی ایک الگ اہمیت ہے۔ ہم نے یہاں کے عوام کو قدیم ایام سے ہی ان کے جوش و جذبے اور امید و نشاط سے پہچانا ہے۔ جن میدانوں میں بھی عوامی شرکت و حضور کی ضرورت ہوتی ہے ان میں صوبہ خراسان شمالی کے عوام نے، بجنورد کے شہریوں نے اور دیگر علاقوں میں بسنے والوں نے ہمیشہ جوش و خروش اور مستعدی کا مظاہرہ کیا ہے۔
میں سڑکوں پر موجود عوام کے اس عظيم اجتماع اوراس کثیر تعداد پر بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس ڈیڑھ دو گھنٹے کی مدت میں جو سڑک کو عبور کرنے میں صرف ہوئی میں نے عوام کے جوش و خروش اور شوق ونشاط و شادابی کا نمایاں طور پر مشاہدہ کیا۔ میں گاڑی کے اندر بیٹھا ہوا تھا، میں نے
سڑک پر عزیز نوجوانوں کے اس سیلاب کو دیکھا تو حقیقت میں مجھے سخت تشویش لاحق ہوئی کہ لوگوں کو کتنی زحمت ہو رہی ہے۔ میں آپ تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اس کےساتھ ہی معذرت بھی چاہتا ہوں۔
ہم نے زندگی کے مختلف اور گوناگوں شعبوں میں عوام کے اس جوش و خروش کو ہمیشہ نمایاں پایا ہے۔ اٹھائیس سفر حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی تاریخ شہادت کے دن پورے صوبے سے لوگ حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کے روضے کی جانب روانہ ہوتے ہیں تو دیگر تمام خطوں کے مقابلے میں بجنورد کے زائرین اور گاڑیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اہل مشہد اس بات سے واقف ہیں۔ میں بھی مشہدی ہوں لہذا مجھے بھی اس کا اچھی طرح علم ہے۔ زیارت کا شوق و عقیدت بالکل نمایاں رہتا ہے۔
مقدس دفاع کے دور میں بھی یہاں کے لوگوں کا کارنامہ نمایاں رہا ہےتو دور میں بھی یہ خصوصیت بالکل نمایاں رہی۔ خراسان کی جواد الآئمہ سے موسوم بٹالین کے پچاس کمانڈر خراسان شمالی کے رہنے والے تھے۔ اس علاقے نے راہ خدا میں 2772شہیدوں کی قربانی پیش کی ہے۔ یہاں کے چھ ہزار سے زائد جانباز اور جنگ میں معذور ہونے والے سپاہی ہیں۔ اسی طرح دشمن کی قید سے آزاد ہونے والے افراد اور ایثار گروں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے۔ یہ اسی جوش و خروش اور نشاط و شادابی اور شوق کا ثبوت ہے۔
اس صوبے کے لوگ ہر میدان میں بڑے زندہ دل اور ممتاز و نمایاں خصوصیات کے حامل رہے ہیں۔ کشتی کے مقابلوں کا معاملہ ہو تب بھی اس اسٹیڈیم میں دسیوں ہزار کا مجمع اکٹھا ہو جاتا ہے اور لوگ کشتی کے مقابلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، یہ بڑی اہم خصوصیات ہیں، وطن کےدفاع کے سلسلے میں غیرت و حمیت کا جذبہ بھی یہاں کے لوگوں کی نمایاں خصوصیات میں شامل ہے۔ اس صوبے کے عوام کی دوسری بھی بڑی اہم خصوصیات ہیں۔
اس صوبے کے اندر بڑی درخشاں اور قابل قدر صلاحیتیں موجود ہیں۔ جیسا کہ مجھے رپورٹ ملی ہے اس کے مطابق یہ صوبہ علمی توانائی و صلاحیت کے اعتبار سے ملک کے دس بہترین صوبوں میں شامل ہے۔ طلبہ کی شرکت سے منعقد ہونے والے اولمپیاڈمقابلوں میں اس صوبےکا نام سر فہرست صوبوں میں رہتا ہے۔ یہ اہم صلاحیتیں ہیں۔ میں نے خود بھی طالب علمی کے زمانے میں مشہد میں ان درخشاں اور نمایاں صلاحیتوں کے نمونے دیکھے ہیں، البتہ یہاں ان کے تذکرے کا موقع نہیں ہے، انشاء اللہ علماء و طلاب دینی سے اپنی ملاقات میں اس بارے میں گفتگو کروں گا۔ اس علاقے کے عوام بڑے غیور  اور بہادر ہیں، سرحدوں کی حفاظت کا جذبہ ان میں موجزن رہتا ہے، زند دل اور شجاع ہیں۔ یہ یہاں کی اہم اور نمایاں خصوصیات ہیں۔
میں یہ خصوصیات کیوں بیان کر رہا ہوں؟ اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ ہمارے ملک کے مختلف خطوں کے عوام اپنے علاقے کی خصوصیات سے آگاہ رہیں اور ان ممتاز اور نمایاں صفات پر فخر کریں۔ بجنورد کے نوجوان کو فخر ہونا چاہیے کہ اس کا تعلق اس شہر سے ہے۔ اس صوبے کے نوجوان کو خواہ وہ کسی بھی قومیت سے تعلق رکھتا ہو اسے اپنے اس علاقہ پر فخر ہونا چاہیے۔ اس صوبے کی ایک بڑی خصوصیت مختلف قومیتوں کے اندر پائی جانے والی گہری دوستی اور باہمی تعاون کا جذبہ ہے۔ کرد، فارس، ترک، تات اور ترکمن قومیں اخوت و محبت کے ساتھ آپس میں مل جل کر زندگی بسر کر رہی ہیں، یہ چیز اس صوبے کی منفرد خصوصیت ہے، اس کی قدر کرنا چاہیے۔
اب میں یہاں سے اپنی گفتگو کے اصلی موضوع کی جانب آتا ہوں۔ میرے عزیزو! بھائیو! بہنو! آپ نے اپنی ان خصوصیات اور امتیازی صفات کے بارے میں سنا۔ انقلاب کے بعد زندہ دلی، شادابی اور ساتھ ہی مستعدی کا جذبہ پورے ملک میں موجزن ہو گیا۔ یہ پیشرفت کے لئے پرعزم قوم اور ترقی و سربلندی کے لئے آمادہ رہنے والی قوم اور حیات طیبہ کے لئے محنت و جد وجہد کرنے والی قوم کی آغوش میں اللہ کی بہت بڑی نعمت و عنایت ہے۔ لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ بلند چوٹیوں تک پہنچنے کے لئے کچھ اور لازمی شرائط بھی ہیں۔ سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ ایک نقشہ راہ یا روڈ میپ کا موجود ہو۔ یعنی ہر اقدام اور ہر حرکت نپی تلی ہو، پیشرفت کا افق اور مستقبل کا افق واضح ہو، سفر کے راستے طے شدہ ہوں، اس سفر کا صحیح اور مکمل ادراک ہو اور ساتھ ہی اس پر مستقل نظر رکھی جائے۔ ہر قوم کے لئے یہ چیزیں بہت ضروری ہوتی ہیں۔ آج یہ چیزیں ہمارے بنیادی مسائل کا حصہ ہیں۔
میرا اس بات اصرار اورتاکید ہے کہ عوام اور خاص طور پر نوجوان نسل اور دانشور طبقہ ملک کے اصلی اور بنیادی مسائل پر اپنی پوری توجہ مبذول کرے۔ آج ہمیں اس کی سخت ضرورت ہے۔ ہمارے اس سفر کے اہداف کا تعین اوائل انقلاب میں ہو گیا تھا۔ عوامی نعروں کی صورت میں بھی اور حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بیانوں کے ذریعہ بھی نقشہ راہ کا اجمالی تعین انجام پا گیا تھا۔ اس کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تیس برسوں میں نقشہ راہ باقاعدہ تدوین ہو گیا، اس کی تکمیل انجام پائی اور آج ایرانی قوم کے سامنے یہ بالکل واضح ہے کہ اس کا ہدف کیا ہے اور وہ کس منزل تک پہنچنے کے لئے رواں دواں ہے۔
اگر ہم ایرانی قوم کے اہداف کو خلاصے کے طور پر پیش کرنا چاہیں جو ملک اور قوم کے تقریبا جملہ عمومی مطالبات کا آئينہ دار ہو تو ہم "پیشرفت" کا نام لیں گے۔ لیکن وہ پیشرفت جسے اسلام نے پیشرفت قرار دیا ہے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے پیشرفت کی الگ تعریف ہے جو مغرب کی مادی تہذیب میں رائج پیشرفت کے مفہوم سے مختلف اورمتفاوت ہے۔ اہل مغرب کی نظر صرف ایک پہلو پر مرکوز ہے، وہ صرف مادی جہت سے پیشرفت کو دیکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں سب سے اہم پیشرفت سے مراد ہے، دولت و ثروت میں اضافہ، سائنس و ٹکنالوجی میں پیشرفت، فوجی میدان میں استحکام۔ مغربی مکتب فکر میں اسی کو پیشرفت کہتے ہیں لیکن اسلامی مکتب فکر میں پیشرفت کے اور بھی کئی پہلو ہیں۔ جیسے علم و دانش کے میدان میں پیشرفت، اخلاقیات کے میدان میں پیشرفت، انصاف و مساوات کے میدان میں پیشرفت، رفاہ عامہ کے شعبہ میں پیشرفت، اقتصاد و معیشت میں پیشرفت، عالمی وقار و اعتبار میں پیشرفت، سیاسی خود مختاری کے میدان میں پیشرفت۔ یہ تمام  چیزیں اسلام کے مد نظر پیشرفت میں شامل ہیں۔ عبودیت و بندگی میں پیشرفت، قرب الہی کے حصول میں پیشرفت، یعنی روحانی و معنوی پہلوؤں کے اعتبار سے پیشرفت، یہ سب اس پیشرفت کا اٹوٹ حصہ ہیں جو اسلام کو مطلوب ہے۔ ہمارے انقلاب میں قرب الہی کا حصول حتمی اور آخری ہدف ہے ۔ اس پیشرفت میں دنیا کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے اور آخرت پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ اسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ «ليس منّا من ترك دنياه لأخرته و لا ءاخرته لدنياه»؛(1) دنیا کو آخرت کے لئے ترک نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی آخرت کو دنیا پر قربان کر دینا درست ہے۔ ایک روایت میں معصوم (ع)کا ارشاد ہے کہ ؛ «اعمل لدنياك كأنّك تعيش ابدا»؛ يعنى دنیا کی منصوبہ بندی بس اپنی اسی چند روزہ زندگی کو مد نظر رکھ کر نہ کرو، محض پچاس سال کی منصوبہ بندی نہ کرو۔ ملک کے حکام اور عوام الناس کے عمومی مسائل کی منصوبہ بندی کرنے والے عہدیدار اس نکتے پر خوب توجہ دیں۔ یہ نہ کہیں کہ کیا معلوم پچاس سال بعد ہم زندہ رہتے بھی ہیں یا نہیں! تو پھر اس کی منصوبہ بندی سے کیا فائدہ؟! جی نہیں، منصوبہ بندی تو آپ کی ایسی ہونی چاہیے کہ گویا آپ کو رہتی دنیا تک زندہ رہنا ہے۔ جس طرح آپ اپنے لئے، اپنے مفادات کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں تو کتنی باریک بینی اور سنجیدگی کے ساتھ عمل کرتے ہیں، اسی طرح آئندہ نسلوں کے لئے بھی، جب آپ اس دنیا میں نہیں ہوں گے، منصوبہ بندی کریں۔«اعمل لدنياك كأنّك تعيش ابدا». ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ «و اعمل لأخرتك كأنّك تموت غدا»؛(2) اپنی آخرت کی تیاری ایسے کرو کہ گویا کل ہی تمہیں اس دنیا سے کوچ کرنا ہے۔ یعنی دنیا کے سلسلے میں بھی کوئی کوتاہی نہ ہونے دیجئے اور آخرت کے لئے بھی کہیں کوئی کمی اور خامی نہ رہنے دیجئے۔ اسلام میں اور ہمارے اسلامی انقلاب میں اس کو پیشرفت کہتے ہیں ۔ یعنی ایشی پیشرفت جو ہمہ جہت اور ہمہ گیر پیشرفت ہو۔
ہدف و مقصد ، پیشرفت ہے لیکن ترقی کے سفر کے ہر مرحلے پر گہری نظر رکھنا بھی ضروری ہے اور یہ کام دانشور طبقے کا ہے۔ اس وقت ہمارے حالات کس نہج پر جا رہے ہیں، در پیش رکاوٹیں کیا ہیں، مثبت پہلو کون سے ہیں، خامیاں کہاں پر ہیں، مواقع کیا ہیں، خطرات اور اندیشے کیا ہیں، ہمیں کیا کرنا چاہیے، مواقع سے استفادہ کرنے اور خطرات کو برطرف کرنے کے لئے منصوبندی کیسے کی جائے؟ یہ سارے کام مفکرین اور دانشور حضرات کے ہیں جو ہر مرحلے میں انجام دیں، منصوبہ بندی کے عمل میں ان باتوں کا خیال رکھیں اور عوام الناس کو بھی آگاہ کرتے رہیں، کیونکہ عوام کھلی آنکھوں کے ساتھ اور بصیرت کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کیا اقدام انجام پا رہے ہیں اور کس سمت بڑھ رہے ہیں؟ جب یہ شرط پوری ہو جائے گی  توعوام پوری ہمت و دلچسپی سے دشوار گزار میدانوں میں بھی شوق و نشاط کے ساتھ اتر جائیں گے۔
اب اگر میں اس ہدف کے سلسلے میں اپنی رائے ظاہر کرنا چاہوں تو یہی کہوں گا کہ میری رائے مثبت ہے۔ انقلاب کے ان تیس برسوں میں ہم مسلسل آگے ہی بڑھتے رہے ہیں۔ البتہ اس میں نشیب و فراز بھی آئے، تیز رفتاری اور سست روی کی کیفیت بھی پیدا ہوئی، شدت و ضعف بھی نظر آیا، لیکن مطلوبہ بلندیوں کی سمت ملک و قوم کی پیش قدمی کا سلسلہ کہیں رکا نہیں۔ کمزوریاں بھی موجود رہی ہیں، چنانچہ قوم، حکام، ممتاز شخصیات، سیاسی شخصیات، علمی افراد، مذہبی رہنماؤں ، سب کو چاہیے کہ ان خامیوں کو دور کرنے کے لئے غور و فکر کریں۔ ملک کی ترقی کے عمل کو مہمیز کرنا ہے، آج کون سی باتیں ہیں جو ہمیں کامیابی سے ہمکنار کر سکتی ہیں اور کون سی چیزیں ایسی ہیں جو ہماری مشکلات میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں؟ میں ایک مثال دینا چاہتا ہوں۔ آپ کوہ پیمائی کرنے والی ایک ٹیم کو نظر میں رکھئے جو خود کو پہاڑ کی فلک بوس چوٹی پر پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس چوٹی تک پہنچان اس کے لئے متعدد فوائد کی راہ ہموار کر سکتا ہے، وہاں تک پہنچانا قابل فخر کامیابی ہے۔ اس ٹیم کے لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ جانفشانی کرے، محنت کرے، حرکت کرتی رہے، اپنا ارادہ مستحکم رکھے، امید کی شمع روشن رکھے، اہداف کے حصول کی طرف سے کبھی مایوس نہ ہو، پائداری و مستقل مزاجی کا ثبوت دے، درست لائحہ عمل اس کے پاس ضرور موجود ہو اور مشکلات سے نمٹنے کے لئے پوری طرح تیار اور ہوشیار بھی ہو۔ ہر راستے پر کچھ مشکلات سے سامنا ہو سکتا ہے، میں اشارہ کے طور پر بعض چیزوں کا ذکر کروں گا کہ انقلاب کے ان تیس برسوں میں ہمارے عزیز عوام کو کیسی کیسی مشکلات پیش آئیں اور عوام نے ان مشکلات کو عبور کیا۔ مختصر یہ کہ عزم محکم، سعی پیہم، بہترین لائحہ عمل، بھرپور امید و نشاط، مستعدی و ہوشیاری اس عظیم اور قابل قدر ارتقائی سفر کے بنیادی عوامل ہیں؛  اگر یہ اصلی اور بنیادی عوامل و اسباب فراہم رہے تو یہ ٹیم جو حرکت کر رہی ہے، ہماری مثال میں یہ کوہ پیمائی کرنے والی ٹیم ہے جبکہ حقیقت میں مراد ایرانی قوم ہے، تمام مشکلات پر غالب آتی جائے گی اور اپنے دشمنوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیگی۔ یہ بنیادی ستون ہیں۔ اگر یہ عوامل و اسباب مہیا ہوں تو در پیش آنے والی کوئی بھی مشکل حقیقت میں مشکل نہیں رہےگی، کوئی بھی خطرہ حقیقت میں خطرہ نہیں رہ جائے گا۔ حقیقی خطرہ کیا ہوتا ہے؟ حقیقی خطرہ یہ ہے کہ قوم ان بنیادی عوامل و اسباب کو گنوا دے ، بھول جائے۔ یعنی سعی و کوشش کا جذبہ ماند پڑ جائے، غفلت اور سستی کی کیفیت پیدا ہو جائے، امید مر جائے اور مایوسی و ناامیدی طاری ہو جائے، صبر و پائداری کا جذبہ باقی نہ رہے بلکہ عجلت پسندی کی کیفیت پیدا ہو جائے، منصوبہ بندی ترک کرکے بے مقصد ہاتھ پاؤں مارنے کی عادت پڑ جائے، یہ اصلی خطرات ہیں ۔ اگر کوئی قوم اپنے اس نمایاں جذبے کو جو امید و عزم و ایمان و سعی پیہم سے سرشارہے، قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کے سامنے مشکلیں پھر مشکلیں باقی نہیں رہتی وہ تمام مشکلات پر غالب ہوجاتی ہے۔

آئیے اب ہم  ایک نظر اپنی قوم اور اپنے عزیز وطن  پرڈالتے ہیں میری خواہش یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ بیان کروں اور جس بارے میں فکر کروں وہ عقل و منطق کے دائرے میں ہو۔ نعرے بازی والی باتیں کرنا مجھے پسند نہیں ہے۔ کسی بھی مسئلے میں اور خاص طور پر انقلاب کے معاملے میں، میں لاف و گزاف بیان کرنے اور مبالغہ آرائی سے متفق نہیں ہوں۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ حقائق کیا ہیں، عقل و منطق کی رو سے کون سی بات درست ہے۔
ایرانی قوم دشمنوں کے ایک گروہ سے بر سر پیکار ہے، دشمنی کا آغاز اسی گروہ کی جانب سے ہوا ہے، دشمنوں میں سر فہرست خطرناک خبیث صیہونی نیٹ ورک ہے اور افسوس کا مقام ہے کہ بعض مغربی حکومتیں اور خاص طور پر امریکی انتظامیہ اسی نیٹ ورک کے زیر اثر ہیں۔ اس نے شروع ہی سے اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کی مخالفت کی۔ انقلاب لانے والے عوام کے بارے میں ان کے دل میں کینہ بیٹھا ہوا ہے جو اب تک ختم نہیں ہوا ہے۔ اس مقابلہ آرائی میں ایک طرف ایرانی قوم ہے اور دوسری جانب اس سے کینہ رکھنے والی کچھ طاقتیں ہیں جو دشمنی و عناد پر کمر بستہ ہیں۔ جب ہم میدان کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک نظر ایرانی قوم پر ڈالتے ہیں اور اسے عزم و ارادے سے آراستہ پاتے ہیں، اس کے اندر امید کی روشن شعمیں دیکھتے ہیں، اس میں صلاحیتوں اور توانائیوں کے خروشاں چشمہ نظر آتے ہیں، پرعزم اور محنتی نوجوان نسل کو آنکھوں کے سامنے پاتے ہیں۔ تمام میدانوں میں نوجوان نسل کی موجودگی اور حضور نمایاں ہے۔ سائنس کے میدان میں بھی، جیسا کہ متعلقہ افراد اس کا اعتراف کرتے ہیں، ٹکنالوجی کے میدان میں بھی، دیگر گوناگوں سماجی میدانوں میں بھی جوان موجود ہیں، اور جب موقعہ پڑا تو مقدس دفاع کے میدان میں بھی وہ حاضر ہوئے، اور اس وقت مختلف انداز سے ہر میدان میں موجود ہیں۔ آج یہ نعمتیں ایرانی قوم کے پاس موجود ہیں۔ بیس سالہ ترقیاتی منصوبہ بھی ہے اور پیشرفت کے لازمی وسائل و امکانات بھی دستیاب ہیں، قدرتی ذخائر بھی ہیں اور قیمتی معدنیات بھی اس کے پاس موجود ہیں۔
ہمارے پاس جو بنیادی ذخائر موجود ہیں ان کی مقدار دنیا کے ذخائر کی اوسط شرح سے زیادہ ہے۔ میں متعدد بار اس بات کی طرف اشارہ کر چکا ہوں کہ ہماری آبادی دنیا کی کل آبادی کا تقریبا ایک فیصد ہے اور ہمارا رقبہ بھی دنیا کے کل رقبے کا تقریبا ایک فیصد ہی ہے، لیکن قدرتی ذخائر جو ہمارے پاس موجود ہیں وہ ایک فیصدی سے زیادہ ہیں۔ بعض ذخائر کے سلسلے میں تو ہم دنیا کے ملکوں میں پہلا مقام رکھتے ہیں۔ مثلا تیل اور گیس کے ذخائر کو یکجا طور پر دیکھا جائے تو ہمارا ملک دنیا میں سر فہرست ہے۔ یہ ہماری خصوصیتیں ہیں۔
ہماری آب و ہوا میں تنوع ہے۔ ہمارا ملک جغرافیائی لحاظ سے وسیع ملک ہے۔ ہماری ضرورت کی تمام اشیاء ہمارے پاس موجود ہیں، بہترین قدرتی وسائل ہمارے پاس ہیں ، معدنیات ہیں، بڑے اچھے عوام ہیں، بہترین صلاحیتیں موجود ہیں، قوم سے گہری ہمدردی رکھنے والے حکام تینوں قوا مجریہ، مقننہ، عدلیہ میں موجود ہیں۔ مستعد، شجاع اور پوری طرح تیار مسلح فورسز ہمارے پاس ہیں، سنجیدہ اور انتہائی باصلاحیت مذہبی رہنما موجود ہیں، طلبہ سے آباد یونیورسٹیاں اور دینی مدارس موجود ہیں، چالیس لاکھ یونیورسٹی اسٹوڈنٹس اور اسی طرح اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم دسیوں لاکھ طالب علم ،یہ ہمارے پاس موجود اہم وسائل ہیں۔ ہماری قوم کے اندر عزم و ارادہ بھی بہت ہی مضبوط اور مستحکم ہے۔
ہم نے انقلاب کے آغاز سے اب تک ارتقائی مراحل طے کئے ہیں۔ ان ارتقائی مراحل کے ثمرات بھی دائمی طور پر ہمیں حاصل ہوتے رہے ہیں ۔ ان گزرے برسوں میں ہمیں جو کامیابیاں ملی ہیں وہ ہمارے ساتھ برتی جا رہی دشمنی کو مد نظر رکھا جائے تو بہت نمایاں ہیں۔ ہماری ترقی و پیشرفت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ بنیادی تنصیبات کے شعبے میں ملک نے قابل لحاظ ترقی کی ہے، عوامی خدمات کے شعبے میں ترقی حاصل ہوئی ہے، روحانیت و معنویت کے میدان میں بھی ترقی ملی ہے، سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے میں بھی ترقی و پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔ ہمارے ملک کے اندر جو نمایاں خصوصیات ہیں ان میں سر فہرست ملک کا سیاسی استحکام ہے۔ مختلف حکومتیں تشکیل پائیں، جن کے الگ الگ سیاسی رجحانات تھے، لیکن ملک کا ثبات و استحکام اوائل انقلاب سے اب تک ہمیشہ قائم رہا اور وطن عزیز بلند اہداف کی جانب رواں دواں رہا۔ حزبی اور سیاسی اختلافات اور تنازعات سے ملک کا سیاسی استحکام کمزورنہیں ہونے پایا، یہ بڑی بنیادی خصوصیت ہے۔
ہمارے پاس اقتصادی بنیادیں، نافذ قوانین کے لحاظ سے بھی اور علمی و حقیقی تصویر کے لحاظ سے بھی، بہت نمایاں ہیں۔ بنیادی آئین کی دفعہ 44 کے تحت وضع کی گئی پالیسیاں بہترین قانونی بنیاد اور فریم ورک کا درجہ رکھتی ہیں۔ مواصلاتی بنیادیں، نقل و حمل، شاہراہیں، ریل اور فضائی ٹرانسپورٹ کا انفراسٹرکچر، بجلی گھر، ڈیم، یہ سارے وہ کام ہیں جو انقلاب کے اوائل سے لیکر اب تک مستقل بنیادوں پر انجام پذیر ہوئے ہیں۔ تقریبا یہ ساری کامیابیاں ملک کے با استعداد اور با صلاحیت اور لائق نوجوانوں کی محنتوں سے حاصل ہوئی ہیں۔ یہ معمولی کامیابیاں نہیں ہیں جو ہمیں حاصل ہو چکی ہیں۔
ہمارا ایک اہم ترین سرمایہ یہی تعلیم یافتہ نوجوان نسل ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان نسل کے پاس شجاعت بھی ہوتی ہے، ان کے پاس امید و نشاط کا جذبہ بھی ہوتا ہے اور آگے بڑھنے کی تلاش بھی ہوتی ہے۔ میں ضمنی طور پر یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ ایک غلطی جو ہم سے سرزد ہوئی ہے، جس میں خود میں بھی شریک ہوں، یہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے منصوبے پر عملدرآمد کا سلسلہ انیس سو نوے کے عشرے کے وسط سے روک دیا جانا چاہیے تھا۔ ہم نے اسے نہیں روکا، یہ ہم سے غلطی ہوئی۔ میں نے عرض کیا کہ اس غلطی میں ملک کے حکام شریک ہیں اور خود میں بھی اس میں شامل ہے۔ اللہ تعالی اور تاریخ ہمیں معاف کرے! نوجوان نسل کی حفاظت ہونا چاہیے! آج ہمارے پاس جو نوجوان نسل ہے اگرہم آئندہ دس سال، بیس سال اور اس کے بعد کے مراحل و ادوار میں نوجوان نسل کی اسی تعداد کو قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائیں تو وطن عزیز کی تمام مشکلات کا ازالہ ہو جائے گا۔ نوجوان نسل کے اندر جو جوش و جذبہ ہوتا ہے، جو شوق و تجسس ہوتا ہے اور ایرانیوں میں جو صلاحیت پائی جاتی ہے اس کی وجہ سے ہمارے سامنے پیشرفت کے راستے کی مشکلات باقی نہیں رہیں گی۔
البتہ ابھی کچھ مشکلات موجود ہیں جن کی طرف میں اشارہ کروں گا۔ کچھ مشکلات ملکی سطح کی اور کچھ علاقائی سطح کی ہیں ۔ ان میں سب سے اہم مسئلہ گرانی اور بے روزگاری کا مسئلہ ہے۔ یہ عوام کی بڑی مشکلات ہیں، یہ کسی ایک خطے میں نہیں بلکہ پورے ملک میں ہیں۔ میرے سفر سے پہلے دوستوں نے یہاں عوام سے مشکلات کے بارے میں استفسار کیا تو نتیجہ یہی نکلا کہ یہاں بھی وہی مشکلات ہیں جو دیگر خطوں میں پائی جاتی ہیں۔ گرانی اور بے روزگاری سب سے بنیادی تشویش ہے۔ یہ مشکلات بیشک موجود ہیں لیکن یہ ایسی مشکلات نہیں ہیں جنہیں ہماری یہ قوم اور ہمارے حکام حل کرنے سے قاصر ہوں۔
انقلاب کے ان 33 برسوں میں اس سے بڑے بڑے خطرات اور مشکلات کا سامنا ہوا اور ملک ان خطرات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آگے بڑھتا رہا۔ دشمنوں نے آگ لگا دینے کی بڑی کوششیں کیں لیکن وہ اپنا مقصود حاصل نہ کر سکے۔ سب سے پہلے تو انقلاب کی فتح کے انہی ابتدائی مہینوں میں ملک بھر میں مختلف قومیتوں کے درمیان اختلاف ڈالنے اور انھیں آپس میں لڑانے کی سازش ہوئی۔ ہمارے ملک میں مختلف قومیتیں زندگی بسر کرتی ہیں۔ یہ کوشش کی گئی کہ ان قومیتوں کو ایک دوسرے سے دست و گریباں کر دیں۔ آپ کے اسی علاقے میں کمیونسٹوں کے ایک گروہ نے جسے دین اور وطن عزیز سے ذرہ برابر بھی دلچسپی نہیں تھی شریف و نجیب ترکمن قومیت کے لوگوں کو انقلاب مخالف بنانے کی کوشش کی۔ اس گروہ کا مقابلہ کس نے کیا؟ سب سے پہلے تو اسی شریف و نجیب ترکمن قوم کے افراد مقابلے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ترکمن علمائے کرام نے جن میں بعض انتقال فرما چکے ہیں اور بعض بحمد اللہ بقید حیات ہیں، اس گروہ کو للکارا۔ ملک کے دیگر علاقوں کے نوجوان بھی، یہاں بھی اور دوسرے خطوں میں بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہیں ورغلانے کی کوشش کی جا رہی تھی، آگ لگائی جاتی تھی اور پھر آگ کو ہوا دی جاتی تھی، اختلاف کی اس آگ کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنے کی کوشش کی جاتی تھی لیکن ایرانی قوم نے اور خاص طور پر انہیں افراد نے، جنہیں مذکورہ گروہ اسلامی انقلاب کے مقابل لا کھڑا کرنا چاہتا تھا، فتنہ کی اس آگ کو ٹھنڈا دیا۔ کردستان کے علاقے میں بھی خود کردوں نے، مسلمان کرد جوانوں نے، صاحب ایمان کرد علماء نے آگے بڑھ کر اختلاف کی آگ بجھائی۔ دوسرے علاقوں میں بھی یہی عمل دہرایا گیا۔ یہ سب سے پہلی مشکل تھی جو سامنے آئی۔ اس کے بعد مسلط کردہ جنگ شروع ہو گئی۔ آٹھ سال تک جنگ کوئی مذاق ہے؟ انقلاب کو اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی گئی، انقلاب کو تسلیم کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ساری کوششیں بے نتیجہ ثابت ہوئیں۔ ایرانی قوم اس مرحلے سے بھی کامیابی کے ساتھ گزر گئی۔
مسلط کردہ جنگ کے بعد اقتصادی پابندیوں کا مسئلہ پیش آیا۔ آج ہمارے دشمن، نشریاتی ادارے اور انہی کی حمایت کرنے والے کچھ دیگر افراد پابندیوں کے موضوع کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، بڑی مبالغہ آرائي کرتے ہیں۔ پابندیاں آج اور کل کی چیز نہیں ہیں۔ ہمیں شروع سے ہی پابندیوں کا سامنا رہا ہے۔ البتہ انہوں نے ان پابندیوں میں شدت پیدا کی لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا، بڑی تدبیریں سوچیں ان کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ پابندیاں شروع سے ہی لگی ہوئی ہیں۔ آج ہمارے دشمنوں نے خواہ وہ امریکہ ہو یا بعض یورپی حکومتیں، پابندیوں کو جوہری توانائی کے مسئلے سے منسلک کر دیا ہے جبکہ یہ ان کا کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ جس زمانے میں انہوں نے پابندیاں شروع کی تھیں، ملک میں ایٹمی توانائی نہیں تھی اور اس کا کوئی ذکر تک نہیں تھا۔ تو ایرانی قوم سے ان کی برہمی اور ان کے ان معاندانہ فیصلوں کی وجہ ایرانی قوم کی سربلندی و سرفرازی ہے۔ یہ خود مختاری کا جذبہ، یہ خود شناسی کی خصوصیت اور تسلیم نہ ہونے کی جرئت جو اسلام کی برکت سے اور قرآن کی برکت سے ایرانی قوم کے اندر پیدا ہوئی ہے، یہی دشمنوں کی برہمی و ناراضگی کی وجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسلام کے دشمن بن گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کر رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ جب کسی ملک میں اسلام اپنی جڑیں پھیلا لیتا ہے تو اس ملک میں خود مختاری کا جذبہ اس طرح پروان چڑھتا ہے کہ پھر اسے کوئی دبانے کی جرئت نہیں کر سکتا۔ وہ دنیا کے ملکوں میں کمزور اور زبوں حال افراد کو اقتدار میں پہنچاتے ہیں یا بطور حاکم منصوب کر دیتے ہیں تا کہ یہ حکمراں ان کے غلام بنے رہیں۔ لیکن ہمارے وطن عزیز جیسے ملک میں جہاں عوام خود اپنے عہدیداروں کا انتخاب کرتے ہیں، جہاں ہر شعبے میں عوام کی شراکت اور کردار بالکل نمایاں رہتا ہے وہاں یہ دشمن کیا کر سکتے ہیں؟ صاحب ایمان عوام، اسلامی اصولوں کے پابند عوام، اسلام سے جوش و جذبہ حاصل کرنے والے عوام ہرگز دبنے یا پسپا ہونے پر تیار نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ یہ طاقتیں چراغ پا رہتی ہیں۔ آج وہ ایٹمی توانائی کی بات کرتی ہیں اور یہ تاثر دینا چاہتی ہیں کہ اگر ایرانی قوم جوہری توانائی سے صرف نظر کر لے تو پابندیاں اٹھا لی جائیں گی۔ جبکہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ وہ اپنے بغض و کینے کی وجہ سے غیر منصفانہ اور غیر منطقی پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ ان پابندیوں کو جب بھی کوئی عقلمند اور انصاف پسند انسان دیکھتا ہے تو یہی نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ یہ بالکل غیر منصفانہ اور در حقیقت ان کی درندگی کا مظہر ہیں۔ یہ ایک قوم کے خلاف باقاعدہ جنگ ہے۔ البتہ اس جنگ میں بھی ایرانی قوم اللہ تعالی کی مدد سےدشمنوں پر غالب آئے گی۔
بیشک وہ مسائل و مشکلات ضرور پیدا کر دیتے ہیں اور  بعض غیر مدبرانہ  اقدامات کے باعث بھی ان مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے، یہ سب کچھ ہے۔ لیکن یہ ایسے مسائل نہیں ہیں جنہیں حل کرنے سے اسلامی جمہوریہ قاصر ہو۔ اللہ کی مدد سے ایرانی قوم ان تمام مشکلات کو عبور کر جائے گی۔ ایرانی قوم اور ملک کے حکام نے اس سے زیادہ بڑی اور سخت مشکلات کو برطرف کیا ہے۔ یہ تو کچھ بھی نہیں ہیں۔ ذرا سی کوئی مشکل پیدا ہوئی دشمن شادیانے بجانے لگتے ہیں۔ انہی چند دنوں کے دوران جب زر مبادلہ اور ریال کی قیمتوں میں نشیب و فراز دیکھنے میں آیا، ان کی خبر رساں ایجنسیوں میں یہی خبر شہ سرخی کے طور پر نظر آتی تھی، دشمن کھلے عام بغلیں بجا رہے تھے۔ انہوں نے سفارتی آداب و متانت کو بھی بالائے طاق رکھ دیا، بالکل بچکانہ اور نادان انداز میں خوش ہو رہے تھے کہ ایرانی عوام کے سامنے مشکلات کھڑی ہو گئی ہیں، اسلامی جمہوریہ کو ہم نے مشکل میں ڈال دیا ہے، یہ باتیں وہ کھلے عام کہتے ہیں! تہران کی دو سڑکوں پر مٹھی بھر افراد نے دو تین گھنٹے آکر چند کوڑے دانوں کو آگ لگا دی، تو سمندر پار ان لوگوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ ہاں آشوب برپا ہو گیا ہے۔ ہماری حالت خراب ہے یا آپ کی؟ تقریبا ایک سال ہونے کو آیا یورپ کے اہم ممالک کی سڑکیں شب و روز مظاہروں کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔ فرانس میں احتجاج ہو رہا ہے، اٹلی میں مظاہرے ہو رہے ہیں، اسپین میں ریلیاں نکل رہی ہیں، برطانیہ میں جلوس نکالے جا رہے ہیں، یونان میں عوام سڑکوں پر جمع ہیں۔ آپ کی مشکلات بدرجہا پیچیدہ اور لا ینحل ہیں۔ آپ کی معیشت جمود کا شکار ہو گئی ہے اور آپ خوش ہو رہے ہیں کہ ایران کی معیشت کمزور ہو رہی ہے؟! آپ بدبختی کا شکار ہیں، آپ جمود، تباہی اور زوال کا شکار ہیں، اسلامی جمہوریہ ان مشکلات سے زیر ہونے والی نہیں ہے۔
آج بنیادی مشکلات خود مغربی ممالک کے دامنگیر ہیں۔ آج امریکہ کے صدارتی انتخابات کا ایک اہم ایشو اقتصادی مشکلات ہیں، عوام  بے بسی اور مشکلات کا شکار ہیں، مشکلات سے دست و گریباں ہیں۔ کمزور طبقے کچل کر رہ گئے ہیں۔ ننانوے فیصدی کی تحریک کی جو بات سامنے آئی ہے یہ عین حقیقت ہے۔ البتہ اس تحریک کو کچلا جا رہا ہے۔ اقتصادی بحران سے دوچار وہ خود ہیں اور ہمارے یہاں معمولی سی چیز پر خوشی منا رہے ہیں۔
انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی کے فضل سے اسلامی جمہوریہ ان تمام مشکلات پر غالب آ جائے گی اور ایرانی قوم کو شکست دینے کی حسرت ان کے دل میں ہی باقی رہ جائے گی۔ اللہ کی نصرت و مدد سے، عوام کی ہوشیاری و دانشمندی اور حکام کی مدبرانہ کوششوں سے مشکلات برطرف ہو جائیں گی۔ عوام الناس کا بھی فریضہ ہے، حکام کا بھی فریضہ ہے، سب کو اپنے اپنے فریضے پر عمل کرنا چاہیے۔ جب ہم اپنے فریضے پورے کریں گے تو تمام امور حسن و خوبی کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ عوام الناس کی ہوشیاری و بیداری کا بڑا اہم کردار ہے۔ آپ غور کیجئے! تہران میں کچھ لوگوں نے بازار کے تجار کے نام پر سڑکوں پر آکر آشوب برپا کیا، محترم تاجر برادری نے فورا موقعہ شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک بیان جاری کرکے اعلان کر دیا کہ یہ افراد جھوٹ بول رہے ہیں۔ تاجر برادری سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے! یہ بہت اچھا اقدام تھا۔ اگر لوگوں کے مختلف طبقات کی ہوشیاری اور موقعہ شناسی بروقت کام کر جائے تو اس کی بڑی قیمت ہے۔ یہ بڑا اہم اقدام تھا جو انہوں نے انجام دیا۔ سنہ دو ہزار نو کے  صدارتی انتخابات کے بعد رونما ہونے والے فتنے کے سلسلے میں بھی میرا مؤقف یہی ہے۔ سنہ دو ہزار نو کے فتنہ میں یہ ہوا کہ پرشکوہ انتخابات کے چند روز بعد کچھ لوگوں نے سامنے آکر اعتراض کیا، جبکہ کچھ لوگوں نے اس موقعہ کا فائدہ اٹھایا، ہتھیار اٹھا لیا اور آشوب و کشیدگی کا ماحول پیدا کر دیا، بسیج ورضاکار فورس کی چھاونی پر فائرنگ کر دی۔ ہمارا مؤقف یہ تھا کہ وہ افراد جن کے نام پر یہ سارا کارنامہ انجام پا رہا تھا فورا اعلامیہ جاری کرتے اور اپنی بیزاری کا اعلان کرتے، دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیتے کہ ان افراد کا ہم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اگر انہوں نے یہ دانشندانہ اقدام انجام دے دیا ہوتا تو فتنے کی بہت جلد بیخ کنی ہو جاتی اور بعد میں پیش آنے والے متعدد مسائل پیش نہ آتے۔ یہ ہوشیاری، موقعہ شناسی، ہر ہر لمحے کا محاسبہ، بہت اہم اور نمایاں خصوصیت ہے، ہمارے عوام کو تمام امور میں ہوشیار رہنا چاہیے، جیسے ہی دشمن کی سازش اور معاندانہ حرکت نظر آئے اسی لمحہ محتاط ہو جائیں۔ یہ لوگوں کی ذمہ داری ہے۔
ملک کے حکام کا جہاں تک تعلق ہے تو انہیں باہم متحد رہنے کی ضرورت ہے، دوستانہ ماحول قائم رکھنے کی ضرورت ہے، اچھی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، فرض شناسی اور فریضے پر عمل کرنے کی ضروری ہے، غلطیوں اور کوتاہیوں کو ایک دوسرے کے سر ڈالنے سے گریز کریں، اپنی کارکردگی کے سلسلے میں آئینی حدود کی پاسداری کریں۔ ہمارے آئین میں نقص اور خامی نہیں ہے۔ اس میں پارلیمنٹ کا کردار واضح کر دیا گیا ہے، حکومت کا دائرہ کار معین ہے، صدر جمہوریہ کا کردار طے شدہ ہے، عدلیہ کا کردار معین ہے۔ سب کے اپنے اپنے فرائض ہیں اور سب کو ان پر عمل کرنا ہے۔ انہیں چاہیے کہ آپس میں دوستانہ ماحول رکھیں، ایک دوسرے سے تعاون کریں، ایک دوسرے کی آواز سے آواز ملانے کی کوشش کریں۔
«پس زبان همدلى خود ديگر است / همدلى از همزبانى بهتر است».
ہمیں اس سلسلے میں الحمد للہ کوئی مشکل در پیش نہیں ہے۔ ملک کے حکام جذبہ ہمدردی سے سرشار ہیں۔ ہم سب انسان ہیں، ہم سے کبھی غلطیاں بھی ہوتی ہیں، خطائیں سرزد ہوتی ہیں، لیکن ان غلطیوں کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ الحمد للہ حکام کے اندر ہمدردی و دلسوزی ہے، تینوں قوا عدلیہ، مقننہ اور مجریہ کے سربراہوں  اور ان کے ما تحت اداروں میں ہمدردانہ جذبے کی کمی نہیں ہے، اسلامی نظام کی سرنوشت سے دلچسپی اور لگاؤ کی کمی نہیں ہے، سب ہمدردی رکھتے ہیں، سب کو لگاؤ ہے، انشاء اللہ وہ امور کو آگے بڑھائیں گے، وہ سب بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں۔
میری سفارش بھی یہی ہے کہ ہمیں ہرگز یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ محنت، لگن، امید، صبر و پائداری اور درست منصوبہ بندی اس راستے پر چلنے کی لازمی شرطیں ہیں جسے ہم نے منتخب کیا ہے۔ جس راستے پر ہم چل رہے ہیں وہ بڑا اہم راستہ ہے، ایسا راستہ ہے جو تاریخ عالم کو دگرگوں کر سکتا ہے، چنانچہ وہ علاقے کی تاریخ کو تبدیل کر رہا ہے، جس کا آپ خود مشاہدہ کر رہے ہیں۔ کون سوچ سکتا تھا کہ شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا کے اس حساس علاقے میں، اسی علاقے میں جسے یورپ والے مشرق وسطی کہنا زیادہ پسند کرتے ہیں، اتنے اہم تغیرات رونما ہوں گے؟ لیکن یہ واقعات رونما ہوئے اور ان کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ یہ واقعات جو رونما ہو رہے ہیں وہ مغرب اور خاص طور پر امریکہ کے لئے نقصان کا باعث اور صیہونی حکومت کے لئے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ صیہونی حکومت کے عہدیدار جو مہمل بیانی کر رہے ہیں اس کی اتنی اہمیت نہیں ہے کہ اس کا کوئی جواب دیا جائے۔ کچھ باتیں وہ کہہ رہے ہیں اور کچھ باتیں مغربی حکام بیان کر رہے ہیں۔ بنیادی طور پر ان میں امریکی اور ان کے مطیع افراد ہی ہیں، یورپی حکام کو زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ اس معاملےمیں امریکہ کا تعاون و ہمراہی یورپی حکومتوں کے لئے دانشمندانہ اور عاقلانہ فعل نہیں ہے۔ وہ اس معاملے میں خود کو امریکہ پر قربان کر رہے ہیں، یہ ان کا احمقانہ فعل ہے۔ ہمارے عوام بہت سے یورپی ملکوں کے سلسلے میں کوئی بدگمانی نہیں رکھتے۔ فرانس، اٹلی اور اسپین کے سلسلے میں ہمارے برے تاثرات نہیں ہیں۔ بیشک برطانیہ کے سلسلے میں ہمارا تجربہ بہت خراب رہا ہے، ہم برطانیہ کو کہتے ہیں کہ "خبیث برطانیہ" لیکن دیگر یورپی ممالک کے سلسلے میں یہ تاثرات نہیں ہیں۔ تاہم وہ اب جو کام کر رہے ہیں یعنی امریکہ کی پیروی جو ہماری نظر میں سراسر غیر دانشمندانہ فعل ہے، اس سے وہ ایرانی قوم کی دشمنی مول لے رہے ہیں، خود کو ایرانی عوام کی نظر میں نفرت انگیز بنا رہے ہیں۔
ہم اس مرحلےکو بھی عبور کر لیں گے۔ ہماری قوم ایسی شجاع، توانا اور ہوشیار قوم ہے کہ ان راستوں سے آسانی کے ساتھ گزر جائے گی۔ ہم تینتیس سال سے انہی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنا سفر طے کر رہے ہیں، روز بروز ہمارا بدن اور ہمارے اعضاء قوی تر ہوتے جا رہے ہیں، ہم زیادہ مستعد اور زیادہ تجربہ کار ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم تعطل کا شکار ہونے والے نہیں ہیں، تعطل کا شکار تو آپ ہیں۔ آپ ایرانی قوم کی نفرت مول لیکر اپنی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ آپ کی بہت بڑی غلطی ہے۔ ایرانی قوم اس مرحلے کو عبور کر جائے گی۔ البتہ اس کی لازمی شرط یہی ہے کہ قوم اور عوام کی استقامت، ان کا جذبہ عمل، ان کا ثبات، ان کی ہوشیاری، ان کی موقعہ شناسی، انقلاب کے بعد کے تمام ادوار کی مانند موجودہ دور میں بھی اسی طرح قائم رہے۔ حکام بھی اپنے فرائض پر عمل کریں۔ یہ یقین رکھنا چاہیے کہ جملہ امور لوگوں کی مرضی و خواہش کے مطابق طے پائیں گے اور اقتصادی مشکلات کا ازالہ ہو جائے گا۔
البتہ آج سب سے بنیادی چیز قومی پیداوار کا مسئلہ ہے۔ تمام مشکلات کا بنیادی اور اصلی حل قومی پیداوار کا فروغ ہے، جس پر ہم نے اس سال کے نعرے میں بھی تاکید کی، "قومی پیداوار، ایرانی سرمایہ اور کام"۔ اس سے گرانی بھی دور ہو جائے گی، پیداوار میں اضافہ ہوگا، روزگار کے مواقع فراہم ہوں گے، بے روگاری دور ہوگی، قومی سرمایہ صحیح انداز میں استعمال ہوگا، قوم کے اندر اسغناء اور بے نیازی کا جذبہ پیدا ہوگا۔ مختلف سطح کے حکام کو چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو قومی پیداوار کو فروغ دینے کی کوشش کریں۔ البتہ بنیادی طور پر تو ہمارا خطاب اعلی حکام سے ہی ہے، خواہ وہ پارلیمنٹ کے حکام ہوں یا مجریہ سے تعلق رکھتے ہوں لیکن صوبائی سطح کے حکام اور نچلی سطح کے عہدیداروں کو بھی اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
دیگر صوبوں کی طرح اس صوبے میں بھی حکام کی توجہ عوام کی مشکلات دور کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ ان میں سر فہرست پیداوار کا موضوع اور مقامی وسائل کے بروئے کار لائے جانا کا مسئلہ ہے۔ یقینی طور پر اس صوبے میں پانی کی فراوانی، زرخیز زمین، زراعت کے لئے سازگار حالات، مویشیوں کی صنعت جس نے صوبے ہی نہیں بلکہ باہر کی ضروریات بھی پوری کی ہیں، صنعتوں کی موجودگی، بڑی صنعتیں موجود ہیں لہذا ضمنی اور ذیلی صنعتوں پر توجہ دی جا سکتی ہے، ان وسائل کو دیکھتے ہوئے روزگار، قومی پیداوار اور عوام کے اندر امید و نشاط میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن پر صوبے کے حکام کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
میں اس دھوپ میں آپ برادران و خواہران عزیز کو اتنی دیر تک نہیں بٹھانا چاہتا تھا لیکن پھر بھی گفتگو طولانی ہو گئی۔ بہت سی باتیں ہیں، میں ابھی ساری باتیں بیان نہیں کر سکا ہوں۔ تاہم آئندہ چند دنوں تک میں آپ عزیزوں کا مہمان ہوں، مختلف جگہوں اور مواقع پر اپنے نظریات پیش کروں گا۔ نوجوانوں، علماء، علمی شعبے کے حکام، رضاکار فورس اور دیگر طبقات سے اپنی ملاقاتوں میں نیز بعض شہروں کے دوروں کے موقع پر انشاء اللہ بہت سی باتیں بیان کروں گا۔ اللہ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ اپنی برکتیں و رحمتیں آپ کے شامل حال فرمائے۔
پروردگارا! محمد و آل محمد کا صدقہ اس صوبے کے عوام پر اپنی برکتیں، اپنی رحمتیں اور اپنا فضل و کرم نازل فرما۔ پروردگارا! نوجوانوں کی حفاظت فرما! پروردگارا! دشمنوں کے ہاتھ منقطع کر دے! خداوندا! محمد و آل محمد کا صدقہ ہمیں اس راستے پر ثابت قدم رکھ جو تیری خوشنودی اور تیرے اولیائے خاص کی رضاو خوشنودی کا باعث ہے۔ ہمارے عزیز شہیدوں اور حضرت  امام خمینی (رہ) کی ارواح مطہرہ کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔

والسّلام عليكم و رحمة اللّه و بركاته‌

1) من لا يحضره الفقيه، ج 3، ص 156
2) مذکورہ بالا مآخذ