ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا ادارہ حج کے اہلکاروں اور کارکنوں سے خطاب

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں نہایت ہی خضوع و خشوع اور تضرع و زاری  کے ساتھ دعا کرتاہوں کہ وہ  حج کا فریضہ انجام دینے والوں اور اللہ تعالی کے مبارک گھر کے مہمانوں کا حج اپنی بارگاہ میں مقبول اور منظورقرار پائے اور حج بیت اللہ الحرام ، اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی اور  اسلامی سماج و  معاشرے پر اس کی برکتیں نازل ہونے کا سبب قرار پائے۔

میں حج و زيارت کے امور میں سرگرم تمام اہلکاروں اور کارکنوں کا شکریہ اداکرتا ہوں  چاہے وہ بعثہ سے متعلق ہوں یا ادارۂ حج و زيارت  سے منسلک ہوں یا اس ادارہ حج سے تعاون کرنے والے کسی بھی شعبہ سے وابستہ ہوں، کوئی اساسی و بنیادی کام انجام دیتے ہوں یا کو فرعی کام کرتے ہوں میں سب کا شکرگزار ہوں اور ان تمام زحمت کش اہلکاروں اور کارکنوں کے لئے اللہ تعالی کی بارگاہ  سے اجر و ثواب کی دعا کرتا ہوں۔

یہاں جن نکتوں کا جناب قاضي عسگر نے یا ادارہ حج و زیارت کے سربراہ نے ذکر کیا اور انھوں نے جو اقدامات انجام دئیے ہيں یا وہ جو اقدام انجام دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ تمام اقدامات اچھے اور لازمی ہیں، کوشش کی جائے کہ وہ سب کچھ جو ان فرض شناس منتظمین کی آرزو ہے پوری نگرانی کے ساتھ عملی جامہ پہنے تا کہ ہم حج کو اسی انداز میں انجام دے سکیں جس طرح اللہ تعالی نے ہم سے چاہا اور طلب کیا ہے اسی شکل و صورت اور اسی قالب و مطالب ی؛روشنی میں انجام دیں جیسا خداواند عالم نے ہم سے چاہا ہے ۔ ہم اس عظیم واجب اور اس حیاتی اہمیت رکھنے والے فریضے کو، جو ایسےخصوصیات کا مالک ہے کہ کسی بھی دوسرے اسلامی فریضے میں یہ خصوصیات نہیں پائے جاتے، اس میں مسلمانوں کو بحیثیت امت مسلمہ کے مد نظر رکھا گیا ہے اور ساتھ ہی دنیا کو بھی اس میں ملحوظ رکھا گیا ہے، اسے ہم بالکل اسی انداز سے سرانجام دیں جس انداز سے خداوند متعال ہم سے چاہتا ہے۔

حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں، اس سال حج خاص حالات میں انجام پا رہا ہے۔ دوستوں، عقیدتمندوں اور اسی طرح دشمنوں کی نگاہوں میں حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی عظمت کا ظہور اور جلوہ نمائی اس سال کے حج کی خصوصیات میں شامل ہے۔ یہ مسئلہ کہ امریکہ میں کچھ ناپاک ہاتھوں نے اس عظیم اور ملکوتی ہستی کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا ہے، اس کے دو پہلو اور دو رخ ہیں۔ ایک طرف تو یہ قابل مذمت اورقبیح حرکت، پیغمبر رحمت کے ساتھ، پیغمبر عظمت کے ساتھ، پیغمبر کرامت کے ساتھ اور انسانی حیات کی طویل تاریخ میں عالم وجود کے سب سے اعلی اور سب سے گرانقدر انسانی صفات کی حامل ہستی کے ساتھ دشمنوں، مستکبروں اور ان کے آلہ کاروں کے کینہ وبغض کی گہرائی کی غمازی کرتی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ  ہمارے پیغمبر (ص) کے ساتھ ان لوگوں کی دشمنی کس قدر عمیق اور گہری ہے۔ اس قدر گھٹیا انداز میں گستاخانہ حرکت انجام دی جاتی ہے اور دوسری طرف ان کے سیاستداں اس مسئلے میں وہ مؤقف اختیار کرتے ہیں جو دشمنانہ مؤقف جیسا ہے ان کےمؤقف میں اور دشمن کے مؤقف میں کوئی فرق نہیں! یہ مسئلے کا ایک رخ ہے۔ بیشک اس کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ جو افراد، گروہ اور جماعتیں اس حقیقت کو باور کرنے میں بہت پس و پیش کا مظاہرہ  کرتی تھیں اب  وہ بھی سمجھ گئی ہیں کہ آج اصل مقابلہ آرائی کن محاذوں کے درمیان اور کیوں ہے؟ حق و باطل کے محاذوں پر جاری جنگوں کا محور کیا ہے؟ معلوم ہو گیا کہ اس کا اصل محور اسلام ہے۔ ان کا اصل محور خاتم الانبیاء  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم  کا وجود پاک ہے۔ یہ ایک عظیم سانحہ تھا جو دشمن نے انجام دیا لیکن دنیائے اسلام کو اس سے فائدہ حاصل ہوا۔ کیونکہ اس واقعہ نے دشمن کی پہچان کرا دی، دشمنی کی وجہ سمجھ میں آ گئی، حق و باطل میں اختلاف کے اصل محور کو پہچان لیا گیا؛ آج اصل اختلافات یہ ہیں؛ بقیہ باتیں جو دنیا کے مستکبرین یا سامراجی طاقتیں مسلمان قوموں کے خلاف فہرست وار رکھتے اور بیان کرتے ہیں وہ دوسرے نمبر کی باتیں ہیں، جھوٹ اور بہانہ ہیں؛ بات صاف ہو گئی کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟! یہ اس مسئلے کا ایک رخ ہے ؛ مسئلے کا دوسرا رخ مسلمانوں کی یہ عظیم تحریک ہے۔ آپ دیکھیں آج دنیائے اسلام میں کیا لہر برپا ہے؟

مسلمان قومیں اپنی طرف سے کس جوش و جذبے کا مظاہرہ کر رہی ہیں! اکثر نے تو یہ فلمیں بھی نہیں دیکھی ہیں صرف اسی قدر جانتی ہیں کہ اس طرح کی اہانت اور توہین کی گئی ہے۔ آپ دیکھ لیجئے عالم اسلام میں کیسا شور اور ہیجان برپا ہے۔ مسلمان ممالک، مسلمان قومیں کسی کی کال اور اپیل کے بغیر، کسی کی ترغیب اور تشویق کے بغیر، میدان عمل میں نکل پڑی ہیں۔  پورے وجود کے ساتھ ، دل کی گہرائیوں کے ساتھ اپنے پیغمبر (ص) کے  لئے عقیدت و محبت سے بھرپور نعرے لگاتی ہیں۔ اس کی بڑی اہمیت ہے۔ ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملا ہے۔ خود مغربی ملکوں میں جہاں بڑے بڑے سرکش طاغوتوں اور مستکبروں کا گڑ ہے بیٹھ کر اسلام اور اسلامی امت کے خلاف مسلسل طور پر سازشیں رچا کرتے ہیں۔ یورپ میں، امریکہ میں، مختلف غیر اسلامی ملکوں میں مسلمان اور بعض جگہ غیر مسلمین بھی میدان میں نکل آئے ہیں اور اس شرمناک حرکت کی مذمت کر رہے ہیں، یہ مسئلہ کا دوسرا رخ ہے۔ یہ مسئلہ بہت زيادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے واضح ہوگيا کہ عالم اسلام میں بیداری کی بھر پور صلاحیت موجود ہے۔

ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) کا وجود مبارک مسلمانوں کا نقطۂ اتفاق و اجتماع ہے۔ یعنی وہ جگہ جہاں تمام مسلمان، مختلف فرقے، مختلف مسالک، مختلف مذاہب و عقائد کے پیرو ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہوتے ہیں اور سب کے سب ایک حقیقت کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں، خاتم الانبیاء (ص) کا وجود مقدس ہے۔ اس منزل میں آکر، سنی ،شیعہ ، فرقوں اور مسلکوں کی بات، اعتدال پسندی اور انتہا پسندی جیسے خیالات کا کوئی معنی و مفہوم نہیں رہ جاتا۔ اس مرکزی وجود، اس محور اور دینی و اسلامی عقائد و نظریات کی اس آخری منزل کی نسبت سب کے سب دل وجان سے متفق و متحد ہیں۔ آج یہ چیز دنیائے اسلام میں پوری طرح جلوہ گر ہے، اس حقیقت کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔

یہی وہ مقام ہے جہاں حج میں "مشرکین سے برائت " و بیزاری کا مطلب سمجھ میں آتا ہے۔ حج وہ منزل ہے جہاں پوری اسلامی دنیا کے مسلمانوں کا اجتماع ہوتا ہے۔ مختلف تہذیبوں، مختلف نسلوں ، مختلف زبانوں، مشغلوں اور گوناگوں لہجوں کے افراد یہاں جمع ہوتے ہیں، جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنی بابرکت دعائے عرفہ میں فرمایا ہے، سب وہاں جمع اور اکٹھا ہوتے ہیں، یہ اتحاد جو ان کی جسمانی اور مادی شکلوں میں، حج کے عظیم اجتماعات میں قابل مشاہدہ ہیں اس میں گہرائي پیدا ہونا چاہیے؛ سبھی لوگ محسوس کریں کہ وہ ایک زبردست خطرے کی زد پر ہیں، ایک دشمن ان کے سامنے کھڑا ہے۔ ہر ایک کو اپنے وجود کی گہرائیوں کے ساتھ اس دشمن سے برائت و بیزاری کا اظہار کرنا چاہیے۔ حج میں مشرکین سے برائت کا مطلب یہاں ظاہر ہوتا ہے۔

پیغمبر اکرم (ص) کا مقدس وجود اور مقام و مرتبہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ ہم انسان اپنی قاصر و ناقص زبانوں سے اور اپنی کم فکری کےذریعہ ان کو مجسم کر سکیں اور تصویر میں ڈھال سکیں۔ ہم صرف عشق کا اظہار اور اخلاص و خاکساری کا اقرار کرتے ہیں۔ اس سے زيادہ کوئی کام ہمارے بس میں نہیں ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) کی ذات مبارک وہ ذات ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

"انّ اللہ و ملائکتہ یصلّون علی النّبی" (1)

" بیشک اللہ اور اس کے ملائکہ نبی (ص) پر درود و سلام بھیجتے ہیں"

اللہ تعالی ان کی ذات مقدس پر درود اور سلام بھیجتاہے خداوند متعال کے فرشتے ان پر صلوات بھیجتے ہیں، ہم کیا ہیں کہ ان کے مقام کو سمجھ سکیں اور ان کے مرتبے کو جان سکیں، لیکن ان سے محبت رکھتے ہیں، ان سے عشق کرتے ہیں، ان کی بات پر عمل کرتے ہیں، یہ چیز ہمارے لئے ایک اصول کے عنوان سے باقی و محفوظ رہنی چاہیے۔ اپنے پیغمبر (ص) کے پیغام پر ہمیں قائم رہنا چاہیے وہ پیغام " توحید " کا پیغام ہے، وہ پیغام " اسلام " کا پیغام ہے، وہ پیغام قرآن کا پیغام ہے۔  حج کو اس کا آئینہ قرار پانا چاہیے۔

دشمن کی ایک بہت بڑی سازش مسلمانوں کی صفوں میں اختلاف اور تفرقہ پیدا کرنےکی سازش ہے ، ویسے یقینی طور پر بحمد اللہ دشمن کی اس سازش کو ناکام بنایا جا چکا ہے تاہم اب بھی بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، ۔ دشمن کا مقصد اختلاف پیدا کرنا ہے۔ ہم لوگ جو اپنی بنیادوں، اپنے اصولوں اور اسلام کے بنیادی ترین مسائل میں سب کے سب ایک نقطے پر جمع ہیں، بعض نظریاتی، اعتقادی اور عملی اختلافات کی خاطر ہم کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اسلامی فرقے اور اسلامی مذاہب گوناگوں مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن ہم اعلان کر رہے ہیں: تمہارے مقابلے میں ، تم جو اسلام کے دشمن ہو، تمہارے مقابلے میں جو ہمارے پیغمبر(ص) کے وجود مقدس کے سلسلے میں ایسی ناروا حرکتیں کر رہے ہو، ہم سب کے سب تمہارے مقابلے میں متفق اور متحد ہیں۔ دشمنان دین کو اور اسلام مخالف محاذوں کی قیادت کرنے والے مستکبرین کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے مقابلے میں پوری امت اسلامیہ ایک آواز اور متحد و متفق ہے۔ اختلاف ایجاد کرنے کا گمان اپنے ذہنوں سے نکال دیں۔ وہ ہمارے درمیان اختلاف پیدا کریں گے اس سلسلے میں وہ پرامید نہ رہیں۔ ہمارے مبلغین ہمارے عوام کی ایک ایک فرد، ہمارے حکام اور ذمہ دار افراد مختلف مذاہب کے پیرو کار، ہمارے سنی، ہمارے شیعہ ہر ایک اپنے ہوش و حواس بجا رکھے، ہوشیار و خبردار رہے تاکہ دشمن ہمارے درمیان اختلاف ایجاد نہ کر سکے کہ ہم لوگ اپنا غم و غصہ اور اپنا غیظ و غضب خود اپنوں کے خلاف اور خود اپنی صفوں کے اندر استعمال کریں اور دشمن خود کو امت اسلامیہ کے غیظ و غضب سے بچا لے جائے؛ یہ بہت بڑی غلطی ہوگی۔ حج، خصوصا" اس سال کے حج، سے متعلق یہ ایک اہم نکتہ ہے ۔

ایک اور اہم نکتہ جس پر متعدد بار تاکید کر چکا ہوں اور اب بھی اس کے بارے میں عرض کرنا لازمی سمجھتا ہوں یہ ہے کہ حج سیاسی حقیقت وماہیت کا حامل ایک دینی واجب ہے، سماجی ماہیت رکھنے والا ایک واجب ہے، اتحاد کا مظہر ہے، مسلمانوں کے اجتماع کی جلوہ گاہ  ہے اور اظہار برائت کے لئے بہترین موقع ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن یہ ایک ایسا مجموعہ ہے جو معنوی احساسات سے لبریز ہے۔ یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ حج کے اعمال و مناسک کے آغاز سے ہی، اس احرام کے وقت سے جو آپ عمرہ کے لئے میقات میں باندھتے ہیں بالکل آخری واجبات و فرائض تک، جو حج میں انجام پاتے ہیں، خدا کا ذکر موجیں مارتا نظر آتا ہے۔ اس بات کو یاد رکھنا چاہیے، خدائے متعال کا ذکر ہم کو پاک کرتا ہے، ہماری تطہیر کرتا ہے، ہمارے دلوں پر لگے ہوئے زنگ کو صاف کر دیتا ہے، ہماری غفلتیں دور کر دیتا ہے، دنیا سے عشق اور مادی آسائش جاہ و منصب، دولت و ثروت، جنسی اور غیرجنسی شہوت، لذتوں کی طرف جھکاؤ اور رجحان کی خصلت کمزور پڑجاتی ہے۔ ہم کو آج بھی اور ہمیشہ اس کی ضرورت ہے اور رہے گی۔ انسانوں کوچاہیے کہ وہ  راہ حق قائم و دائم رہنے اور صراط مستقیم پر چلنے کے لئے اللہ تعالی کے ذکر سے اپنے دلوں کو معمور رکھیں اور اس سلسلے میں "حج" ایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ حج کئي جہات سے بے نظیر ہے، میں چاہتا ہوں اعمال اور فرائض و مناسک جو آپ انجام دیں وہ لبیک جو آپ حج کے اعمال شروع کرتے وقت کہتے ہیں، اسی وقت سے متوجہ رہیں کہ آپ کیا کام انجام دے رہے ہیں اور کس سے ہم کلام ہو رہے ہیں۔ طواف میں، سعی میں، میقات میں، "وقوف" کے مقامات " عرفات اور مزدلفہ"  میں حج کے ایک ایک عمل میں خیال رہے کہ آپ کس ذات سے محو کلام ہیں، کس ہستی سے ہمکلام ہیں کس کی بارگآہ میں اپنے اعمال انجام دے رہے ہیں، ساری کوششیں کس کے لئے ہیں ان یادوں، ان اذکار، اس خشوع و خضوع اور اس گریہ و زاری کو ایک لمحے کے لئے اپنے آپ سے جدا نہ ہونے دیں؛ یہ بہت ہی اہم کاموں میں سے ایک ہے؛ علمائے محترم خصوصا" کاروانوں کے ذمہ دار اشخاص اور ان سے منسلک افراد اس بات پر پوری توجہ مرکوز رکھیں۔

ایک آخری بات یہ ہے کہ عالم اسلام میں پھیلے مسلمان بھائیوں کے ساتھ باہمی تعلقات اس اہم مرکز میں از سرنو بحال ہونا چاہییں تعلقات حکومتوں کے تعلقات نہیں ہیں، حکومتوں کے تعلقات تو سرکاری تعلقات ہوتے ہیں، زبانی تعلقات ہوتے ہیں، یہ دوسرے مسائل سے تعلق رکھتے ہیں، امت اسلامیہ کی ایک ایک فرد کے درمیان تعلقات، قلبی رشتے اور تعلقات ہیں اور یہ مختلف قوموں کے افراد کے درمیان ایک دوسرے کے ارتباط سے وجود میں آتے ہیں۔ دوسرے ملکوں کے مسلمان بھائیوں سے ملاقات کے وقت وہ لوگ جو ہم زبان ہوں، آپس میں گفتگو کر سکتے ہیں، لہذا زبان سے اظہار محبت کریں ایک دوسرے سے متعارف ہونے اور دوستی و محبت بڑھانے کی کوشش کریں اور باہمی گفتگو و عمل میں مشترک نقطوں کو بنیاد بنائیں اور وہ لوگ جو آپ کے ہم زبان نہیں ہیں عمل کے ذریعہ ان کو راہ دیں، اپنی جگہ بٹھائیں، مہر و محبت کا اظہار کریں، بعض زحمتیں اور مشقتیں برداشت کریں کوئی ممکن ہے اکڑ دکھائے اور کندھا ٹکرائے، آپ اس کا مسکرا کر جواب دیں۔ اپنے عمل کے ذریعہ کوشش کریں کہ یہ تعلق پیدا ہو، صرف اس مقصد کے لئے نہیں کہ اس طرح ایران اور ایرانی قوم کی عزت و آبرو کی حفاظت ہوگی، یہ بھی یقینا خود اپنی جگہ بہت اہم بات ہے، کتنی اچھی بات ہے کہ ایک قوم اپنی کرامت و متانت، اپنی قدر و قیمت، اپنی اسلامی اور انسانی خصوصیات اور اخلاق و آداب کی پابندی کا مظاہرہ کرے۔ تا ہم اس عمل کا اصلی مقصد یہ ہے کہ مسلمان قوموں کے درمیان یہ قلبی رشتہ اور رابطہ برقرار ہونا چاہیے۔ کسی بھی نسل سے ہو، کسی بھی زبان کا بولنے والا ہو، کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتا ہو، آخر وہ مسلمان ہے، وہ بھی آپ کی طرح کعبہ کے عشق میں آیا ہے، پیغمبر اسلام کے عشق میں آیا ہے، وہ بھی اسی راہ پر گامزن ہے، وہ بھی خداوند متعال سے محو گفتگو ہے، جس قدر بھی ممکن ہو اس وجہ اشتراک کو ایک دوسرے کے سامنے نمایاں کریں اور عمل کے ذریعہ اس حقیقت کو لوگوں کی نگاہوں میں اجاگر کریں، لوگ سمجھیں کہ ان میں یہ مشترک صورت موجود ہے۔ جس وقت دنیا کے مختلف حصوں کے مسلمانوں نے محسوس کیا کہ دوسرے ملکوں میں، دوسری قوموں میں ان کے بھائی موجود ہیں، ان میں اسلامی روح اور جذبہ پیدا ہوگا ان میں خود اعتمادی کا قوی اور مضبوط جذبہ پیدا ہوگا، کمزوری و ناتوانی کا وہ احساس جو عالمی استکبار کے خبیث و پلید ہاتھوں نے مسلمانوں کے دل و دماغ پر مسلط کر دیا ہے اس سے وہ خود کو رہائی اور نجات عطا کر سکیں گے۔ اس تصور کو مضبوط بنانا ضروری اور لازمی ہے۔

 ہم اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنی برکتیں اور رحمتیں ہمارے حاجیوں پر اور دنیائے اسلام کے تمام حاجیوں پر نازل فرمائے۔ حضرت بقیۃ اللہ ( ارواحنا فداہ ) کی پاکیزہ دعائیں آپ سب کے شامل حال ہوں اور اولیائے کرام کی ارواح مطہرہ ، شہدائے اسلام کی ارواح مطہرہ اور ہمارے عظیم راہنما حضرت امام خمینی (رہ) کی روح پاک کے طفیل، ہم کو اس راہ پر گامزن رکھے جو اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی کا باعث ہو ۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1: سورہ احزاب/ 56