ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا مشہد مقدس میں نئےہجری شمسی سال کے آغاز کے موقع پر قوم سے اہم خطاب

بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

الحمدللّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على ءاله‌ الأطيبين الأطهرين المنتجبين سيّما بقيّةاللّه فى الأرضين.

میں اللہ تعالی کا دل کی گہرائیوں سے شکر ادا کرتا ہوں کہ جس نے ایک بار پھر مجھے یہ موقعہ اور توفیق عنایت فرمائی کہ نئےسال کی آمد کے موقع پر پیغمبر اسلام (ص) کے فرزند حضرت ابو الحسن علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کی روحانی اور ملکوتی بارگاہ میں آپ عزیز عوام، مشہد کے شہریوں، دیگر مقامات سے آنے والے محترم زائرین اور روضہ اقدس کے خادمین اور آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں سے اس عظیم ہستی اور روضہ مبارک کے سائے میں ملاقات کا شرف حاصل کرسکوں۔
میں عید نوروز اور نئےسال کی آمد کے موقع پرمبارکباد پیش کرتا ہوں اور یہ امید کرتا ہوں کہ یہ نیا سال جس میں ہم داخل ہوئے ہیں یہ پوری ایرانی قوم کے لئے مسرت، خوشی ،شادمانی، نشاط و مسائل و مشکلات کی گرہ  کشائی، امور کی صحیح انجام دہی اور معارف و تقوائے الہی کے حصول کا سال قرار پائے گا۔
آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کے سامنے اس ملاقات میں چند باتیں پیش کروں گا۔ سب سے پہلے جو حالات ہم پر، ہماری قوم پر، ہمارے ملک پر گزرے اور دنیا و علاقے میں ہمارے متعلق پیش آئے ان کا سرسری جائزہ لوں گا،سنہ 1390 جری شمسی (مطابق 21 مارچ سنہ 2011 تا 19 مارچ سنہ 2012) میں ایرانی کو حاصل ہونے والی کامیابیوں کا خصوصیت سے ذکر کرنے کی وجہ ہمارے دشمنوں اور بدخواہوں کی وہ رجزخوانیاں ہیں جو وہ ہمارے خلاف پیش کرتے رہے ہیں۔ استکباری محاذ کے رہنما، زر و زور کی مسندوں پر بیٹھے عناصر اور ہمارے اس علاقے میں ان کے آلہ کار اور غلام  اپنی پوری طاقت کے ذریعہ، اپنی مالی توانائی، اپنی تبلیغاتی توانائی اور اپنے سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کرکے ایرانی قوم کو مرعوب اور م غلوب کرنے کے لئے کوشاں ہیں، وہ ایرانی  قومکو مایوس ب ن ا ن ےکی تلاشو  وک ش ش میں ہیں ۔ ایرانی قوم کے معاندین کے سیاسی پروپیگنڈوں پر جس کی بھی نظر ہو وہ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ یہ ساری جد وجہد، یہ اقتصادی پابندیاں، یہ سیاسی طاقت کا اظہار، یہ فوجی دھمکیاں سب کچھ صرف اس لئے ہیں تاکہ سرگرم عمل، بلند ہمت، جذبہ امید سے سرشار اور پختہ عزم کی مالک ایرانی قوم کی  پیشر فت وترقی کو روک دیں جو میدان میں استقامت، شجاعت اور  دلیری کے ساتھ موجود ہے اور باوقار انداز میں آگے بڑھتی جا رہی ہے، اس پر مایوسی کے بادل چھا جائیں، اسے میدان عمل سے ڈرا کر اور خوفزدہ کرکے باہر نکالدیا جائے در حقیقت اس نعرے کے مقابل کہ "ہم کر سکتے ہیں" جس کی تعلیم ہمیں حضرت امام خمینی (رہ) نے دی اور اسلامی انقلاب نے اسی ضمن میں ہمیں "ہم کر سکتے ہیں" کا نعرہ بلند کرنے کی جرئت عطا کی، دشمن ایرانی قوم کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ تمہارے بس میں کچھ بھی نہیں ہے، دشمن یہ ہدف پورا کرنے کے لئے اپنی ساری توانائی صرف کر رہا ہے۔ سنہ 1390 ہجری شمسی کا سال دشمن کی ان سرگرمیوں کے اوج کا سال تھا۔ میں یہاں اس نکتے پر تاکید کرنا چاہوں گا کہ دشمن کی تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود اسکی بد قسمتی یہ ہے کہ ایرانی قوم نے سنہ 1390 ہجری شمسی کے دوران اپنے اقدامات سے، اپنی پیشرفت سے اور اپنے صحیح اور درست فیصلوں سے تمام دنیا منجملہ دشمنوں اور معاندین پر ثابت کر دیا کہ وہ سب کچھ کر سکتی ہے۔
آج اگر ہم اپنے مضبوط پہلوؤں ، توانائیوں اور صلاحیتوں کا بار بار ذکر کرتے ہیں تو اس کا مقصد یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ایرانی قوم نے اپنی ان صلاحیتوں کو بروئے کار لایا اور معاندین کی مرضی و منشاء کے برخلاف دنیا کو دکھا دیا کہ وہ صلاحیتوں سے سرشار ہے۔ ہم اپنی کمزوریوں سے بے خبر نہیں ہیں۔ ان کی بھی ہمیں خبر ہے لیکن جب ہم مجموعی طور پر جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں کامیابیاں اور مثبت اقدامات کمزوریوں کے مقابلے میں بہت زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ ہم نے سنہ 1390ہجری شمسی کو اقتصادی جہاد کا سال قرار دیا تھا لہذا میں اپنی گفتگو کا آغاز اقتصادی مسائل سے ہی کرنا چاہوں گا۔ سنہ 1390 کے دوران عوام کے مثالی اور تحسین آمیز تعاون کے ذریعہ ملک کے حکام کی اقتصادی سرگرمیاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس سلسلے میں جن امور کا ذکر کیا جا سکتا ہے ان میں ایک سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم کے منصوبے پر عملدرآمد کا مسئلہ ہے۔ تمام اقتصادی ماہرین خواہ ان کا تعلق سابقہ گذشتہ حکومتوں سے ہو یا موجودہ حکومت کے ساتھ وہ مصروف کار ہوں، سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم کے منصوبے پر عملدرآمد ایک بنیادی اور اہم ترین ضرورت ہے۔ اس بات کے سبھی معترف ہیں۔ یہ مسئلہ سب کی نظر میں متفق علیہ تھا لیکن پھر بھی یہ ضروری منصوبہ اپنی دشواریوں اور پیچیدگیوں کی وجہ سے  سرد خانہ میں پڑا ہوا تھا۔ قوہ مجریہ اور مقننہ نے سنہ 1390 ہجری شمسی  میں ایسے حالات میں کہ جب ہم پر پابندیاں لگی ہوئی ہیں، ایک ایسے وقت جب اس منصوبے کی دشواریاں اور پیچیدگیاں ہمیشہ سے زیادہ تھیں ہمت و شجاعت کا مظاہرہ کیا اور عملدرآمد کا آغاز کر دیا، اس حیاتی مہم کے اہم ترین مراحل پورے کئے۔ ابھی کام ختم نہیں ہوا ہے لیکن حکام نے خواہ وہ مجریہ سے تعلق رکھتے ہوں یا مقننہ سے، سب نے عملی اقدامات کئے ہیں اور قوم کی پشتپناہی اور تعاون کے نتیجے میں انہیں کامیابی بھی ملی ہے۔ یہ بہت اہم اور قابل توجہ نکتہ ہے۔ اس منصوبے کے بنیادی اہداف در حقیقت کچھ انتہائی اہم قسم کے امور ہیں جن کا میں ذکر کرنا مناسبت سمجھتا ہوں۔ ہمارے عزیز عوام نے ان امور کے بارے میں سنا ہے لیکن انہیں مزید ان پر غور و خوض کرنے اور توجہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بہت بڑا کارنامہ ہے، بہت اہم منصوبہ ہے۔ اس کے متعلق قانون کا ایک بنیادی ہدف اسلامی نظام اور حکومت کی طرف سے لوگوں کو دی جانے والی سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم ہے۔ میں نے اس سے قبل بھی ایک گفتگو کے دوران اس کی تشریح کی تھی کہ سبسیڈی ہمیشہ غیر متوازن انداز میں اور مساوات کے بغیرلوگوں میں تقسیم ہو رہی تھی لیکن اس منصوبے پر عملدرآمد کے بعد سے در حقیقت سبسیڈی کی تقسیم میں ایک طرح کا توازن اور انصاف دیکھنے میں آ رہا ہے۔ میرے پاس ملک بھر کی مصدقہ اطلاعات ہیں کہ اس قانون پر عملدرآمد سے معاشرے کے کمزور اور پسماندہ طبقات کی حالت میں بہتری آئی ہے۔ یہ ایک ہدف ہے اور اس قانون کا سب سے اہم ہدف یہی ہے۔
ایک اور ہدف ملک کے پیداواری ڈھانچے اور معاشی نظام کی اصلاح ہے۔ ملک میں پیداواری سسٹم میں کچھ خامیاں تھیں۔ ہم ملک کی مجموعی پیداوار سے جو کچھ حاصل کرتے تھے اس کے لئے ہمیں کافی بجٹ صرف کرنا پڑتا تھا اور نتیجہ بہت کم ملتا تھا۔ اقتصادی امور کے ماہرین کے مطابق سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم سے اس خامی کو دور کیا جا سکتا ہے اور وہ سب کے سب اس نکتے پر متفق ہیں، ۔ ملک کے پیداواری سسٹم میں زیادہ اخراجات اور کم پیداوار کی مشکل کو اس راستے سے ختم کیا جا سکتا ہے اور اخراجات اور پیداوار کے درمیان اعتدال اور توازن قائم کیا جا سکتا ہے۔
ایک اور مقصد انرجی کے استعمال کو منظم بنانا ہے۔ ہمارا ملک تیل کی دولت سے مالامال ملک ہے تو شروع ہی سے ہماری یہ عادت ہو گئی کہ پٹرول، گیس، ڈیزل اور کیروسین کو حد سے  زیادہ استعمال کریں۔ ہمارے یہاں انرجی کا استعمال بہت سے ممالک بلکہ ایک طرح سے تمام ممالک سے زیادہ اور بے حساب کتاب ہے۔ سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم کے منصوبے نے ملک کو انرجی کے استعمال میں کفایت شعاری سے کام لینے کا راستہ دکھایا۔ شائع ہونے والے اعداد و شمار جو مسلمہ اعداد و شمار ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم کا منصوبہ نافذ نہ کیا گيا ہوتا تو منصوبے کے نفاذ سے اب تک ملک میں جس مقدار میں پیٹرول استعمال ہوا ہے اس کی دگنی مقدار میں پیٹرول خرچ ہو چکا ہوتا۔ جب ملک کے اندر پیٹرول کی پیداوار، خرچ کی مقدار سے کم ہوگی تو ہم کس بات پر مجبور ہوں گے؟ ہم پیٹرول وارد کرنے پر مجبور ہوں گے۔ یعنی قوم دشمنوں اور معاندین کی محتاج ہوگی۔ اس منصوبے کی وجہ سے بچت کی عادت عام ہو گئی۔ آج ملک کے اندر پیٹرول کا استعمال، پیٹرول کی داخلی پیداوار کے تقریبا برابر ہے۔ اب پیٹرول درآمد کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ یہ ملک کے لئے بہت بڑے امتیاز کی بات ہے۔ یہ کام سنہ 1390 ہجری شمسی میں انجام پایا۔ یعنی عین اس وقت جب دشمنوں نے ہم پر پابندیاں عائد کیں کہ ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں لیکن قوم کے نوجوانوں نے ہمت کا مظاہرہ کیا اور اپنے اقدامات سے دشمن کی سازش اور منصوبے کو نقش بر آب بنادیا۔
اقتصادی میدان میں سنہ 1390 ہجری شمسی کے دوران قوم کی بلند ہمتی کی بنا پر ایک اور اہم کارنامہ جو انجام پایا وہ سائنس و ٹکنالوجی کے شعبہ سے متعلق ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی در حقیقت کسی بھی قوم کی اقتصادی قوت و طاقت کا ایک بنیادی ستون ہے۔ قوم کے پاس اگر پیشرفتہ ٹکنالوجی ہو، سائنسی طاقت ہو تو اسے دولت بھی حاصل ہوتی ہے، سیاسی بے نیازی بھی پیدا ہوتی ہے، اس کا قد بھی اونچا ہوتا ہے اور اس کی قوت بازو میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی کی پیشرفت کی کلیدی حیثیت کی وجہ سے میں اس مسئلے کے متعلق بہت حساس ہوں۔ مختلف طریقوں سے، مختلف ذریعوں سے تقریبا پیہم اور مسلسل مختلف رپورٹیں حاصل کرتا ہوں۔ میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ملک کی ترقی کی سطح اس سے کہیں زیادہ بلند ہے جس کی اطلاعات عام لوگوں تک پہنچی ہیں۔
دنیا کے معتبر علمی مراکز کی رپورٹ یعنی ہمارے علمی مراکز کی رپورٹ نہیں، بلکہ عالمی معتبر مراکز کی رپورٹ اس بات کی غماز ہے کہ دنیا میں سب سے تیز رفتار سائنسی ترقی ایران میں ہو رہی ہے۔ سنہ دو ہزار گيارہ عیسوی کی معتبر علمی مراکز کی رپورٹ یہ ہے کہ اس سال کے دوران ایرانی قوم نے گذشتہ سال یعنی سنہ دو ہزار دس کی نسبت بیس فیصدی زیادہ علمی ترقی حاصل کی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ ایسے حالات میں جب ایرانی قوم کے دشمن آپس میں ایرانی قوم کے زوال کا منصوبہ بنا رہے تھے اور کہتے تھے کہ ہم نے ایران پر کمر توڑ پابندیاں لگائی ہیں، ایرانی قوم نے یہ حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا۔
معتبر عالمی تحقیقاتی مراکز کی یہ رپورٹ بھی ہے کہ علاقے میں ایران علمی سطح کے لحاظ سے پہلے مقام پر جبکہ دنیا میں سترہویں مقام پر ہے۔ یہ رپورٹ ان لوگوں کی تیار کردہ ہے جنہیں ہمارے خلاف رپورٹ پیش کرنے کا موقعہ ملے تو ایسا کرنے میں ہرگز تامل نہیں کریں گے۔ لیکن وہی یہ اعتراف کر رہے ہیں۔ 1390 ہجری شمسی میں ہم نے بایو ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی کی، نینو ٹکنالوجی میں پیشرفت حاصل کی، ایرو اسپیس کے شعبے میں نئی بلندیاں طے کیں۔ نوید سیٹلائٹ خلا میں روانہ کیا، جوہری ٹکنالوجی کے میدان میں ہم کافی آگے بڑھے اور سنہ 1390 ہجری شمسی میں ہم نے یورینیم کو بیس فیصد کے گریڈ تک افزودہ کرلیا۔ بیس فیصدی کے گریڈ تک یورینیم کی افزودگی وہی چیز ہے جسے انجام دینے کے لئے سنہ تیرہ سو نواسی ہجری شمسی میں امریکی اور کچھ دوسرے لوگ ہمارے سامنے شرطیں لگا رہے تھے۔ ہمیں تہران کے تحقیقاتی ایٹمی مرکز کے لئے جس میں نیوکلیئر میڈیسن تیار کی جاتی ہیں، بیس فیصد کے گریڈ تک افزودہ یورینیم کی ضرورت تھی کیونکہ بیس فیصد گریڈ تک افزودہ یورینیم ہمارے پاس ختم ہو چکا تھا۔ انہوں نے یہ کام انجام دینے کے لئے شرطیں رکھ دیں۔ کہنے لگے کہ آپ نے جو ساڑھے تین فیصد کے گریڈ کا یورینیم افزودہ کیا ہے اسے ملک سے باہر بھیجئے۔ ہم نے یہ بات نہیں مانی۔ امریکیوں نے برازیل اور ترکی کی حکومتوں کے توسط سے ہم سے بات کرنے کی کوشش کی، یہ راستہ اختیار کیا کہ کوئی سمجھوتا ہو جائے۔ ہم نے سمجھوتے کی بات قبول کرلی۔ ترکی اور برازیل کے حکام یہاں آئے اور انہوں نے ہمارے صدر جمہوریہ سے مذاکرات کئے، گفتگو ہوئی اور ایک معاہدے پردستخط ہوئے۔ دستخط ہو جانے کے بعد امریکی اپنے وعدے سے پھر گئے۔ وہ اس معاہدے پر دستخط نہیں چاہتے تھے۔ وہ صرف مراعات حاصل کرنے کی کوشش میں تھے، باج خواہی کی فکر میں تھے۔ امریکیوں نے جو وعدہ خلافی کی اس سے ترکی اور برازیل کی حکومتیں بھی ہمارے سامنے شرمندہ ہو گئیں۔ اور اس طرح  بیس فیصد گریڈ تک یورینیم افزودہ کرنے کا عمل انجام پذیر ہوا ۔
ان تمام مشکلات کے باوجود، ان رکاوٹوں کے باوجود ہمارے نوجوانوں نے کہا کہ ہم خود تیار کریں گے اور سنہ 1390  ہجری شمسی میں انہوں نے تہران کی ایٹمی سائٹ کے لئے بیس فیصد کے گریڈ تک افزودہ یورینیم تیار کر لیا اور دنیا کو اس سے آگاہ بھی کر دیا۔ ہمارے دشمن مبہوت رہ گئے، وہ یہ جانتے ہیں کہ تہران کا ایٹمی مرکز نیوکلیئر میڈیسن تیار کرنے سے مخصوص ہے، یعنی ملک میں اسپتالوں، تجربہ گاہوں اور ہزاروں بیماروں کو اس کی ضرورت ہے لیکن پھر بھی انہوں نے نہیں دیا، فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ شرائط عائد کر دیں۔ باج خواہی کی کوششیں شروع کر دیں۔ ہمارے نوجوانوں نے اسے خود ہی تیار کر لیا۔ حالانکہ یہ بہت پیچیدہ عمل تھا، بہت دشوار کام تھا لیکن وہ اس میں کامیاب ہو گئے۔ آج مختلف اقسام کی نیوکلیئر میڈیسن تہران کے اسی ایٹمی مرکز میں مقامی طور پر تیار کئے گئے ایندھن کے استعمال سے تیار ہو رہی ہیں۔ تو یہ سنہ 1390 ہجری شمسی میں حاصل ہونے والی اہم کامیابیاں ہیں۔
سنہ 1390 ہجری شمسی میں جوہری صنعت میں ملک کے اندر ایٹمی فیول پلیٹس تیار کی گئیں۔ اس کی اگر میں تشریح کروں تو بات بہت طویل ہو جائے گی۔ مختصر یہ کہ جب ملک کے اندر تیار کئے گئے یورینیم کے تبادلے کی بات ہو رہی تھی اس وقت کہہ رہے تھے کہ آپ اپنا ساڑھے تین فصید کے گریڈ تک افزودہ یورینیم روس کو دیجئے، روس اسے بیس فیصدی تک افزودہ کرے گا اور فرانس کے حوالے کر دے گا، فرانس فیول پلیٹس تیار کرے گا اور آپ کو لوٹا دے گا۔ ہمارے سائنسدانوں نے، ہمارے نوجوانوں نے کہا کہ ہم فیول پلیٹس خود ہی تیار کر لیں گے۔ انہوں نے ہمت سے کام لیا اور تیار کر لیا، اس کی رپورٹ دی اور سامنے پیش کردیا۔ یہ سنہ 1390 ہجری شمسی کی بات ہے۔
نئے فارمولے کے تحت تیار کی جانے والی دواؤں کی پیداوار میں چھ گنا اضافہ، سائنس و ٹکنالوجی پر استوار مصنوعات اور سروسیز کی برآمدات میں اضافہ، یہ سب 1390 کی کامیابیاں ہیں۔ یہ اقتصادی جہاد کے سال میں حاصل ہونے والی کامیابیاں ہیں۔ یہ سائنس و ٹکنالوجی کے شعبہ کی ترقی ملک کے علمی اقتدار کا مظہر ہے اور اس کا ملکی معیشت پر بھی براہ راست اثر پڑتا ہے۔ اقتصادی جہاد کا یہی مطلب ہے۔
سنہ 1390 ہجری شمسی کے آخری ایام میں، ابھی گذشتہ ہفتہ ہم نے پیٹرولیم انڈسٹری کے تحقیقاتی سینٹر کا دورہ کیا۔ وہاں ایسی چیزیں دیکھنے کو ملیں جن کے مثل چیزیں ملک کے مختلف علمی مراکز کے دوروں میں نظر آتی ہیں۔ اس سے انسان یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ یہ استثنائات نہیں ہیں بلکہ یہ باقاعدہ ایک سلسلہ ہے۔ یہ اہم ترین آلات جن کا ایک زمانے میں ایرانی قوم تصور بھی نہیں کر سکتی تھی آج تیار کر لئے گئے ہیں اور باقاعدہ معمول کی مصنوعات میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ میں نے وہاں جو خاص باتیں اور حالات دیکھے ان میں سے چند کے بارے میں بتانا چاہوں گا۔ سب سے پہلی خصوصیت جو نظر آئی وہ پورے گروپ میں جہادی فکر و جذبہ تھا۔ سائنسدانوں کی یہ ٹیم مجاہدانہ جذبے کے ساتھ کام کرتی نظر آئی۔ اس انداز سے اپنا کام انجام دے رہے تھے کہ گویا جہاد کر رہے ہوں، گویا جہاد فی سبیل اللہ کے کسی محاذ پر محو کارزار ہوں۔ بہت فرق ہے کہ ایک شخص پیسے کے لئے، عہدے کے لئے، شہرت کے لئے یا خود اپنے علم کے لئے کام کر رہا ہو جبکہ دوسرا شخص جہاد فی سبیل اللہ کی نیت کے ساتھ راہ خدا میں سعی و کوشش کے ارادے کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہو۔ ہمارے ملک کی اس ٹیم اور دیگر علمی گروہوں میں یہی جذبہ نمایاں نظر آتا ہے، اور یہ بہت ہی اہم بات ہے۔
دوسری خاص بات یہ نظر آئی کہ ہمارے یہ سائنسداں ہماری قوم پر عائد کی جانے والی پابندیوں کو ایک سنہری موقعہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسی ماحول میں کام آگے بڑھ رہا ہے اور بہتے ہوئے چشمے کی مانند اس کے ثمرات جاری ہیں۔
تیسری اہم خصوصیت ان میں خود اعتمادی کا عظیم جذبہ تھا۔ پیٹرولیم کی صنعت کے کچھ شعبے ایسے ہیں جو دنیا کے صرف تین چار ممالک کے پاس ہیں۔ وہ کسی کو اس ٹکنالوجی کے دائرے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ برسوں سے ہمارا ملک بھی اس پیچیدہ اور اہم ٹیکنالوجی کے لئے ہمیشہ ان سے مدد لیتا تھا اور اس کے بدلے انہیں رقم ادا کرتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے یہ سائنسداں کمر ہمت باندھے ہوئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ہم اسے تیار کر لیں گے، ہم خود یہ کام انجام دے سکتے ہیں۔ کسی بھی قوم کے لئے، قوم کے سائنسدانوں کے لئے اور قوم کے نوجوانوں کے لئے خود اعتمادی کا جذبہ بے پناہ اہمیت رکھتا ہے۔
ایک اور اہم خصوصیت نوجوانوں کا بنیادی کردارتھا۔ امور، نوجوانوں کے ہاتھ میں ہیں، کام نوجوانوں کے ذریعہ انجام پارہا ہے۔ نوجوان، ایجادات واختراعات کا سرچشمہ ہیں، اور وہ خلاقیت و نوآوری کا مرکز ہے۔
اس کے علاوہ ایک اہم خصوصیت صنعتی شعبہ اور یونیورسٹی کا آپسی رابطہ تھا۔ یہ میری بڑی دیرینہ خواہش تھی۔ میں نے گذشتہ حکومتوں کے متعلقہ شعبوں کے حکام سے ہمیشہ یہ سفارش کی کہ انڈسٹری اور یونیورسٹی کے درمیان باہمی رابطہ قائم کرنے کی کوشش کیجئے۔ میں نےاس مرکز میں  دیکھا کہ یہ رابطہ قائم ہو چکا ہے۔ یہ چیز عام ہونی چاہیے۔ تمام صنعتوں کو یونیورسٹیوں سے منسلک ہونا چاہیے، یونیورسٹیوں سے مربوط کرنا چاہیے۔ اس سے علم و دانش کا شعبہ بھی ترقی کرے گا اور صنعتی شعبہ کی بھی ترقی ہوگی۔ میں نے اس مرکز میں یہ خصوصیات مشاہدہ کیں۔ یہ خصوصیات اسی علمی مرکز اور آئل انڈسٹری سے مخصوص نہیں ہیں۔ میں نے یہ چیز دوسرے مراکز کے دوروں میں بھی دیکھی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں یہ چیز عام ہوتی جا رہی ہے، اور اسی سمت میں حرکت جاری ہے۔
سنہ 1390 ہجری شمسی میں معاشی شعبہ کی یہ صورت حال رہی۔ اس پورے سال میں ایرانی قوم کے بد نیت دشمنوں کی صدا گونجتی رہی، کبھی دھمکیاں دیتے تھے، کبھی سیاسی دباؤ ڈالتے تھے اور کبھی پابندیاں عائد کرتے تھے۔ آج پوری دنیا میں امریکی حکومت کے عناصر پابندیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سرگرم عمل ہیں تا کہ اپنے خیال میں ایرانی قوم پر ضرب لگا سکیں اور ایرانی عوام کو اسلامی نظام سے الگ  اور جدا کردیں۔
سنہ 1390 ہجری شمسی میں اور بھی اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ ایک مثال اس سال کے دوران علاقائی مسائل میں سرگرم سفارتی مشن کی ہے۔ اسلامی بیداری اجلاس کا انعقاد، فلسطین کانفرنس، ترک اسلحہ کانفرنس، دہشت گردی سے پاک دنیا کانفرنس، اسلامی بیداری اور نوجوان کانفرنس، اہم سفارتی سرگرمیاں تھیں جو تہران میں انجام پائیں اور اسلامی جمہوری نظام عالم اسلام  میں جاری اسلامی بیداری کی توجہ کا مرکزبن گیا۔
اقتصادی اور تعمیراتی امور میں دیکھا جائے تو دسیوں ہزار رہائشی مکانات تعمیر کرکے عوام کے حوالے کئے گئے۔ یہ اعداد و شمار بہت بڑے اعداد و شمار ہیں۔ دیہی مکانات بنائے گئے، سڑکیں بنائی گئيں، ہائی وے اور ایکسپریس وے بنائے گئے۔ یہ ترقی و انصاف سے موسوم عشرے کا طلوع ہے۔ ہم نے کہا ہے کہ اسلامی انقلاب کی فتح کے تین عشرے گزر جانے کے بعد شروع ہونے والا چوتھاعشرہ ترقی و انصاف کا عشرہ ہوگا اور یہ اس کے طلوع کے آثار ہیں۔ اس عشرے کے تین سال گزر چکے ہیں۔ ان دشمنوں کے مقابلے میں، ان بد نیت معاندین کے مقابلے میں جوش وجذبہ اور ولولہ سے سرشار اور فعال قوم یہ کارنامے انجام دینے میں کامیاب رہی ہے۔
سنہ 1390 ہجری شمسی میں ایرانی قوم نے جو قابل تعریف کارنامے انجام دیئے ہیں ان میں ایک کارنامہ دو مارچ کو ہونے والا پارلیمنٹ کا الیکشن تھا۔ البتہ میں یہیں پر یہ بھی عرض کر دوں کہ انتخابات ابھی مکمل نہیں ہوئے ہیں۔ انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بھی ہمارے عوام کو چاہیے کہ اسی شکوہ و عظمت کا مظاہرہ کریں۔ یہ انتخابات بہت اہم ہیں۔ میں آپ کی خدمت میں عرض کر دوں، البتہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ہمارے دشمنوں نے تقریبا چھے مہینے سے بڑی کوشش کی اور شد و مد کے ساتھ پروپیگنڈہ کیا کہ عوام کو انتخابات کے بارے میں  مایوسی میں مبتلا کر دیں۔ کبھی کہا کہ انتخابات میں گڑبڑ ہونا یقینی ہے، کبھی کہہ دیا کہ عوام اگر انتخابات میں شرکت نہ کریں تو دشمنوں کی جانب سے جاری معاندانہ کارروائيوں کی شدت کم ہو جائے گی۔ عوام کو حق رائے دہی کے استعمال اور پولنگ مراکز سے دور رکھنے کے لئے مختلف حربے اپنائے گئے۔ کبھی ہمارے سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔ چھ ماہ سے بھی کم عرصے میں تین سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گيا۔ وہ عوام کو ہراساں کرنا چاہتے تھے، عوام کو مایوس اور نظام سے دور کرنا چاہتے تھے۔ اس طرح کے حالات میں انتخابات کا انعقاد ہوا لیکن کیسی شاندار عوامی شرکت ہوئی، چونسٹھ فیصدی سے زیادہ کی شرکت بہت بڑی بات ہے۔ میں آپ کو بتا دوں کہ دنیا میں پارلیمانی انتخابات میں عوامی شراکت کی اوسط شرح سے یہ بہت زیادہ ہے۔ امریکہ میں کانگریس کے انتخابات میں عوامی شرکت کی اوسط شرح پینتیس فیصد ہے۔ گذشتہ دس برسوں میں ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے انتخابات میں عوامی شرکت کی شرح چالیس فیصدی تک پہنچی ہے۔ آپ اس کا ذرا ایرانی قوم کی ولولہ انگيز اور جوش و جذبہ سے سرشار شرکت سے موازنہ کیجئے ۔ تب آپ کو اس کی اہمیت کا بہتر طور پر انداز ہوگا۔ دشمن کی کوشش تھی کہ دباؤ بنا کر، نفسیاتی حربے اپنا کر، دھمکیاں دیکر، ٹارگٹ کلنگ کرواکر دو مارچ کی تاریخ کو ایرانی قوم اور اسلامی نظام کی رسوائی اور شرمساری کے دن میں تبدیل کردیں لیکن دشمن کی بد قسمتی کہئے کہ یہ دن اسلامی نظام اور ایرانی قوم کی سربلندی و سرفرازی کا دن بن گیا۔ انتخابات نے سچے اور باثر میڈیا کا کام کیا۔ ذرائع ابلاغ ایران سے متعلق خبروں میں تحریف کرتے ہیں، ایران کے اندر ایسے واقعات رونما ہونے کی بات کرتے ہیں جو ہرگز رونما نہیں ہوئے، سچی خبروں پر پردہ ڈال دیتے ہیں لیکن ان انتخابات کا انکار کر دینا ان کے بس سے باہر ہے، کیونکہ یہ تمام لوگوں کی نگاہوں کے سامنے انجام پائے ہیں۔ انتخابات نے مضبوط اور باثر میڈیا کی طرح ایرانی قوم  اور اسلامی نظام کی طاقت کو دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔
یہ سنہ 1390 ہجری شمسی میں رونما ہونے والے واقعات تھے۔ اس سال کے دوران دشمن نے ایرانی قوم اور اسلامی نظام پر ضرب لگانے کے لئے بڑی سرمایہ کاری کی لیکن سنہ 1390 ہجری شمسی میں حاصل ہونے والی کامیابیاں آپ دیکھ رہے ہیں۔ دشمن عداوت اور کینہ کیوں کر رہا ہے؟ میں اس نکتے کی وضاحت کروں گا۔ مختلف ادوار میں دشمنی کے مختلف بہانے دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ جب سے ایٹمی مسئلہ اٹھا ہے اس وقت سے دشمنیوں اور عداوتوں کا سب سے اہم بہانہ یہی مسئلہ ہے۔ البتہ انہیں حقیقت کا علم ہے اور وہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ایران جوہری ہتھیار کے لئے کوشاں نہیں ہے۔ اور یہ حقیقت بھی ہے۔ ہم اپنی خاص وجوہات کی بنا پر کسی بھی صورت میں ایٹمی ہتھیاروں کی طرف جانا پسند نہیں کریں گے۔ ہم نے نہ تو جوہری ہتھیار بنایا ہے اور نہ بنائیں گے۔ اسے دشمن بھی جانتے ہیں لیکن انہوں نے اسے بہانہ بنا رکھا ہے۔ تو کبھی اس مسئلے کو بہانہ بنا لیتے ہیں کبھی انسانی حقوق کا مسئلہ پیش کردیتے ہیں، کبھی کسی داخلی مسئلے کو ہوا دیتے ہیں۔ یہ سب صرف بہانے ہیں۔ اصلی مسئلہ کیا ہے؟ اصلی مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی نطام ملک کی تیل اور گیس کی دولت کی مقتدرانہ انداز میں حفاظت و پاسداری کر رہا ہے۔ ماضی کی مانند اس وقت بھی اور مستقبل میں بھی اقتصادی و سیاسی اقتدار اور اس کے ساتھ علمی و دفاعی قوت کا انحصار انرجی اور گیس پر ہے۔ آئندہ دسیوں سال تک دنیا کو تیل اور گیس کی شدید احتیاج رہے گی۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے۔ استکبار اور سامراجی طاقتوں کو معلوم ہے کہ تیل اور گیس کے ذخائر ان کی رگ حیات ہیں۔ جب سستے داموں تیل کا حصول ان کے لئے ممکن نہ رہے گا، جب انہیں تیل اور گیس حاصل کرنے کے لئے مراعات دینے پر مجبور ہونا پڑےگا، جب انہیں اپنی غرور اور تکبرچھوڑنا پڑےگا، وہ دن ان کی بدبختی کا دن ہوگا۔
دوسری طرف مغربی ممالک تیل کے ذخائر کے بارے میں شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ روز بروز ان کی مشکلات میں اضافہ ہو تا جارہا ہے۔ یورپی ممالک بلکہ تمام مغربی ممالک کے تیل کے ذحائر کا یہ عالم ہے کہ کچھ ذخائر چار سال میں، کچھ چھ سال میں اور کچھ نو سال میں ختم ہو جانے والے ہیں۔ چنانچہ وہ دوسرے ملکوں کے ذخائر سے تیل حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ امریکہ جس کے پاس تیس ارب بیرل سے زیادہ تیل کا ذخیرہ ہے، ہمارے ملک کے ماہرین کے اندازوں کے مطابق جو خود امریکیوں کے اعداد و شمار پر استوار ہیں، امریکہ کا تیل سنہ دو ہزار اکیس یعنی نو سال کے بعد ختم ہو جائے گا۔ آج دنیا کی ضرورت کا پچاس فیصد سے زیادہ تیل خلیج فارس سے نکل رہا ہے۔ مغربی ممالک کے ذخائر ختم ہو جانے کے بعد یہ ملک ہمارے علاقے میں اس خلیج فارس کے خطے میں تیل کے تین اہم ذخائر کے محتاج ہوں گے، ان میں ایک اہم ترین ذخیرہ ایران کا ہے۔ اس بارے میں میں چند باتیں ابھی عرض کروں گا۔ تیل اور گیس کے ذخائر کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دنیا بھر کے ممالک کے درمیان، یعنی یہ صرف خلیج فارس کی بات نہیں ہے، سب سے بڑے ذخائر کا مالک اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔ بعض ممالک ہیں جن کی گیس ہم سے زیادہ ہے اور بعص ممالک ایسے ہیں جن کے تیل کے ذخائر ہم سے زیادہ ہیں۔ گیس کے ذخائر کے لحاظ سے ہم دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں، پہلے نمبر پر روس ہے، اس کے بعد ہمارا نمبر  ہے۔ تیل کے ذخائر کے لحاظ سے ایران دنیا کا چوتھا ملک ہے۔ تین ملک ایسے ہیں جن کے تیل کے ذخائر ہم سے زیادہ ہیں۔ لیکن اگر تیل اور گیس کے ذخائر کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھا جائے تو اسلامی جمہوریہ ایران آپ کا عزیز وطن  اس دولت سےسب سے زیادہ مالامال ملک ہے۔ ایران دنیا مین تیل کے صارف ملکوں کے لئے بہت پرکشش مقام ہے، استکباری مراکز کے لئے یہ ملک بہت اہم ہے کیونکہ انرجی ان کی شہہ رگ حیات ہے۔ ایران اس عظیم دولت کا مالک بھی ہے۔ ان سامراجی ملکوں کا تیل چار سال، دس سال یا پندرہ سال میں ختم ہو جانے والا ہے لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کے ذخائر جو اب تک تلاش کئے گئے ہیں 80 سال تک تیل اور گیس پیدا کرتے رہیں گے۔ یہ بڑی دلچسپ چیز ہے۔ ایران تیل اور گیس کے لحاظ سے انتہائی بلندی پر کھڑا ہے۔ اس صورت حال میں استکباری طاقتوں کا منصوبہ کیا ہے؟ ان کی مرضی یہ ہے کہ ایسا ملک ایک ایسی حکومت کے اختیار میں ہونا چاہیے جو ان کے ہاتھ میں موم کے پتلے کی مانند ہو۔ وہی حکم دیں کہ پیداوار کی مقدار اتنی ہو، حکومت کا جواب ہو آپ کا حکم سر آنکھوں پر، فلاں کو فروخت کیجئے، فلاں مت  فروخت کیجئے، جواب ہو جیسا حکم۔ اگر دولت و ثروت سے مالامال ملک ایران میں جو تیل اور گیس کی عظیم دولت کا مالک ہے، کوئی ایسا نظام تشکیل پا جاتا ہے جو قومی حمیت کے جذبے کے ساتھ قومی دولت کی حفاظت کرے، انہیں لوٹ کھسوٹ کی اجازت نہ دے، انھیں من مانی کرنے کا موقعہ نہ دے، دشمنوں کی پالیسیوں کے آگے نہ جھکے تو اس نظام کے وہ دشمن بن جائیں گے۔ در حقیقت ایران سے دشمنی کی اصلی وجہ یہی ہے۔
جو لوگ اس خیال میں ہیں کہ اگر ہم ایٹمی مسئلے میں پسپائی اختیار کر لیں تو امریکہ کی دشمنی بند ہو جائے گی وہ حقیقت سے غافل ہیں۔ مغربی ممالک کی مشکل ایٹمی مسئلہ نہیں ہے۔ بہت سے ممالک ہیں جن کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں اور خود ہمارے علاقے میں موجود ہیں، ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ تو مسئلہ ایٹمی ہتھیاروں کا یا ایٹمی صنعت کا مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ انسانی حقوق کا نہیں ہے۔ ان کی سب سے بڑی مشکل اسلامی جمہوری نظام ہے جو ان کے مقابل شیر کی مانند کھڑا ہے۔ اگر اسلامی جمہوری نظام بھی علاقے کی بعض حکومتوں کی مانند اپنی قوم سے خیانت کرنے پر تیار ہو جاتا اور مغربی طاقتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنا گوارا کر لیتا تو پھر انہیں کوئی اعتراض نہ رہتا۔ ان کی مشکل ان کی استکباری پالیسیاں ہیں۔ ایرانی قوم سے ان کی دشمنی کی وجہ یہ ہے۔
امریکیوں کی یہ بہت بڑی غلط فہمی اور بھول ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ دشمنی، لڑائی اور دھمکی سے وہ اسلامی جمہوریہ ایران کو پسپائي اختیار کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں، یا اسلامی جمہوریہ کو مٹا سکتے ہیں۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے اور اس بھول کا نتیجہ بھی انہیں بھگتنا پڑے گا۔ ان کے لئے بہتر ہے کہ ایرانی قوم سے مودبانہ رویہ اختیار کریں، اپنے حق پر قانع رہیں، جو المیہ ان کے انتظار میں ہے اسے محسوس کریں اور پہچانیں۔ مغربی ممالک اپنے عوام کو تیل کے اس بحران کی بھنک نہیں لگنے دے رہے ہیں  جو پیش آنے والا ہے۔ وہ اپنے عوام کو اس کی خبر نہیں لگنے دینا چاہتے کہ تیل اور انرجی کے ذرائع کے بارے میں جو صورت حال انہیں پیش آنے والی ہے وہ کیا ہے؟ وہ اس گمان میں ہیں کہ ایرانی قوم سے دشمنی نکال کر اپنے کچھ مسائل حل کر لیں گے لیکن یہ ان کی بہت بڑی غلطی اور ان کا بہت بڑا اشتباہ ہے۔
میرے عزیز بھائیو اور بہنو! میر ی عزیز ایرانی قوم! میں آپ کویقین دلاتا ہوں کہ امریکہ اپنی ان تمام ہنگامہ آرائیوں کے باوجود، طاقت کی اس نمائش کے باوجود آج کمزور پڑ چکا ہے، اس کے قدم لڑکھڑا رہے ہیں۔ میں خفیہ اطلاعات یا ظاہری باتوں کی بنیاد پر ایسا نہیں کہہ رہا ہوں۔ میری بات دو اور دو چار کے حساب کی طرح بالکل واضح ہے۔ آپ خود دیکھئے! موجودہ امریکی صدر تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئے۔ تبدیلی سے کیا مراد ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری موجودہ حالت بہت خراب ہے جسے میں بدل دینا چاہتا ہوں۔ وہ اس نعرے کے ساتھ میدان میں اترے۔ عوام نے تبدیلی کا نعرہ سنا تو انہیں ووٹ دیا ورنہ نسل پرست لوگ کبھی بھی ایک سیاہ فام کو ووٹ نہ دیتے۔ انہوں نے تبدیلی کی امید پر انہیں ووٹ دیا۔ تبدیلی کا نعرہ اگر عوام میں اتنا مقبول ہے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ حالت بہت خراب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حالات جن میں امریکی صدر منتخب ہوکر اقتدار میں پہنچے خود امریکی عوام کے نقطہ نگاہ سے بھی ناگوار حالات تھے۔ انہوں نے ان حالات کو بدل دینے کا وعدہ کیا۔ یعنی حالات کا خراب ہونا مسلمہ حقیقت ہے۔ یہ بات ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ خود امریکی عوام کہہ رہے ہیں کہ ان کی حالت خراب ہے۔ اب یہ صاحب اقتدار میں پہنچے تو کیا انہوں نے تبدیلی پیدا کی؟ کیا وہ حالات کو بدلنے میں کامیاب ہوئے؟ کیا وہ خراب حالات کی اصلاح کر سکے؟ آج امریکہ پر پندرہ ہزار ارب ڈالر کا قرضہ ہے۔ یہ قرضہ ان کی قومی پیداوار سے یا تو زیادہ ہے یا اس کے برابر ہے۔ یہ صورت حال کسی بھی ملک کے لئے سب سے بڑی بدبختی ہے۔ ان کی سیاسی حالت یہ ہے کہ انھیں عراق سے شرمندگی کے ساتھ اورخالی ہاتھ انخلاء کرنا پڑا ۔ افغانستان میں ان کی حالت روز بروز ناگفتہ بہ ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں جو ان کا حلیف ملک شمار کیا جاتا تھا وہ روز بروز زیادہ بدنام ہوتے جا رہے ہیں۔ اسلامی ممالک میں، مصر میں، شمالی افریقا میں، تیونس وغیرہ میں امریکیوں کا سارا دبدبہ ریت کی دیوار ثابت ہوا ہے۔ یہ سب تو اپنی جگہ خود امریکہ کے شہروں میں وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو تحریک پھیل چکی ہے۔ یہ صورت حال کیا کوئی بہتر صورت حال ہے؟ یہ دو دو چار والی بات ہے۔ اس کو سمجھنے میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ امریکی عوام نے تبدیلی کی حمایت کی یعنی موجوہ حالت بری ہے۔ یہ بری حالت اب تک بدلی نہیں ہے۔ لہذا امریکی عوام مشکلات میں اب بھی گرفتار ہیں۔
ممکن ہے کہ امریکہ دوسرے ممالک کے لئے خطرے پیدا کرے، ممکن ہے کہ کوئی جنونی کارروائی کرے تو میں یہیں پر اعلان کرتا ہوں کہ ہمارے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہیں اور ہم ایٹمی ہتھیار بنائیں گے بھی نہیں لیکن دشمنوں کے حملے کے جواب میں خواہ وہ امریکہ کی جانب سے کیا گیا ہو یا صیہونی حکومت کی جانب سے، اپنے دفاع کے لئے ہم حملے کی سطح کے مطابق ہی جوابی کارروائي کریں گے۔ ہم ان پر حملہ کر دیں گے۔
قرآن نے ہمیں خوش خبری دی ہے کہ : «و لو قاتلكم الّذين كفروا لولّوا الأدبار ثمّ لا يجدون وليّا و لا نصيرا. سنّة اللّه الّتى قد خلت من قبل و لن تجد لسنّة اللّه تبديلا» (1) قرآن میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گيا ہے کہ اگر تم نے جنگ شروع کی، حملے کا آغاز کیا تو حتمی طور پر تمہیں فتح حاصل ہوگی، ممکن ہے کہ آپ فتحیاب ہوں اور یہ بھی امکان ہے کہ آپ کو شکست کا سامنا ہو۔ چنانچہ صدر اسلام کی جنگوں میں آپ دیکھئے! جن میں مسلمانوں نے حملے کا آغاز کیا ہے، ان میں کبھی تو انہیں شکست ہوئی اور کبھی فتح ملی۔ تاہم قرآن نے یہ وعدہ کیا ہے کہ اگر دشمن نے حملے کی شروعات کی تو دشمن کی شکست یقینی ہوگی۔ اب آپ یہ نہ کہئے کہ یہ چیز صدر اسلام سے مخصوص ہے۔ کیونکہ «سنّة اللّه الّتى قد خلت من قبل و لن تجد لسنّة اللّه تبديلا» یہ الہی قانون ہےجو بدلتا نہیں۔ ایرانی قوم  پرعزم ہے، جوش و جذبے سے سرشار ہے۔ یہ قوم کسی پر حملہ کرنے یا جارحیت کی فکر میں نہیں ہے لیکن اپنے وجود، اپنے تشخص، اپنے ذخائر، اپنے دین اسلام اور اسلامی جمہوری نظام سے قلبی طور پر وابستہ ہے اور ان کا ہر لحاظ سے دفاع کرےگی۔
ہم نے اس سال کے لئے "قومی پیداوار" کے نعرے کا انتخاب کیا، جس کی تشریح کی جا چکی۔ "ایرانی سرمائے اور کام کی حمایت" کا جہاں تک سوال ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اگر آپ مقامی طور پر تیار کی جانے والی مصنوعات کا استعمال کریں گے تو در حقیقت آپ ایرانی محنت کش طبقے کے مددگار ثابت ہوں گے، آپ اپنے اس عمل سے روزگار کے مواقع فراہم کریں گے، آپ ایرانی سرمائے کی مدد کریں گے، رشد و ترقی کی راہ ہموار کریں گے۔ یہ بڑی غلط عادت ہے جو ہمارے ہاں کچھ جگہوں پر عام ہو گئی ہے کہ بس غیر ملکی سامان ہی استعمال کیا جائے! اس سے ملک کو نقصان پہنچے گا، اس سے ہماری ترقی متاثر ہوگی، ہمارے مستقبل پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ لہذا اس سلسلے میں سب پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، حکومت کی بھی ذمہ داری ہے، اسے چاہیے کہ قومی پیداوار کی حمایت کرے، قومی پیداوار کو مضبوط اور قو ی بنائے۔
خوش قسمتی سے اقتصادی ترقیاتی فنڈ کو منظوری مل گئی ہے، پارلیمنٹ نے اس کا قانون بھی پاس کر دیا ہے۔ آج حکام کے پاس ایک عظیم سرمایہ ہے جسے وہ قومی پیداوار کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ کام میں آسانی پیدا کریں، پارلیمنٹ بھی تعاون کرے، مجریہ بھی ہمت و شجاعت کا مظاہرہ کرے تا کہ سب مل کر قومی پیداوار کو رونق عطا کر سکیں۔ عوام بھی جن میں بعض کے پاس سرمایہ ہے اور کچھ کے پاس افرادی قوت ہے، انہیں چاہیے کہ تعاون کریں، کام کو اچھے طریقہ سے انجام دیں۔ مقامی مصنوعات کو معیاری، پائیدار اور پسندیدہ بنائيں۔ جہاں تک ہو سکے اشیاء کی قیمتوں کو کم رکھا جائے۔ اس کے لئے تمام متعلقہ شعبوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ سرکاری اداروں کو چاہیے کہ مدد کریں، خواہ وہ مالیاتی ادارے ہوں یا دیگر اقتصادی شعبہ۔ پارلیمنٹ بھی تعاون فراہم کرے تا کہ ہمارے ملک میں یہ کام با حسن و خوبی انجام پا سکے۔
عوام کا درجہ اس سلسلے میں ستون کا درجہ ہے۔ آپ خود ایرانی مصنوعات کا مطالبہ کیجئے۔ یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے کہ ہم اپنے لباس میں، گھر کے سامان میں، فرنیچر میں، روز مرہ کے استعمال کی اشیاء میں، اشیائے خورد و نوش میں غیر ملکی کمپنیوں کی مصنوعات کو مقامی کمپنیوں  کی مصنوعات پر ترجیح دیں جبکہ مقامی طور پر تیار کی جانے والی اشیاء اکثر غیر م لکی اشیاء سے زیادہ معیاری ہوتی ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ ملک کے اندر بعض صوبوں میں تیار ہونے والے لباس کو لے جاکر غیر ملکی ٹریڈ مارک لگاتے ہیں اور پھر اسے واپس لاتے ہیں، اگر ایسا نہ کریں تو ممکن ہے کہ ایرانی صارف اسے پسند نہ کرے۔ لیکن جب اس پر فرانسیسی کمپنی کا مارک اور  نشان لگ جاتا ہے تو ایرانی خریدار اسی لباس کو، اسی سوٹ کو، اسی سلائی کو پسند کرتا ہے۔ یہ غلط بات ہے۔
قومی پیداوار بہت اہم ہے، آپ پہلے دیکھئے کہ ایرانی محنت کش نے کیا چیز تیار کی ہے، ایرانی سرمایہ کار نے کتنی بڑی سرمایہ کاری کی ہے؟ استعمال کے سلسلے میں مرکزی اور محوری پوزیشن عوام کی ہے۔ یہ "معیار مصرف کی اصلاح" کا حصہ ہے جس کے بارے میں دو سال قبل میں نے یہیں پر ایرانی عوام سے گفتگو کی تھی، اسی طرح یہ اقتصادی جہاد کا بھی حصہ ہے جس کے بارے میں ایک سال قبل میں نے بات کی تھی۔ قومی پیداوار بہت اہم ہے، اسے نصب العین بنانا چاہیے۔
میں سیاسی شعبے کے بارے میں بھی ایک سفارش کرنا چاہتا ہوں۔ بھائیو اور بہنو! آج پورے ملک میں اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ہے۔ اختلاف کی بہت سی شکلیں نکل آتی ہیں، کبھی کسی مسئلے میں دو لوگوں کے نظریات الگ الگ ہوتے ہیں لیکن اسے تنازعے کا باعث نہیں بناناچاہیے۔ کبھی کسی شخص میں ایک رجحان ہوتا ہے لیکن دوسرے شخص میں وہ رجحان نہیں پایا جاتا تو اسے جھگڑے کا باعث نہیں بنانا چاہیے۔ سب کے نظریات قابل احترام ہیں، لیکن اگراندرونی صفوں میں اختلاف اور تفرقہ شروع ہو جائے گا تو وہ ناکامی اور شکست کا باعث بنے گا۔ قرآن ہمیں ہدایت دیتا ہے کہ :و لا تنازعوا فتفشلوا و تذهب ريحكم (2) اگر ہم مختلف مسائل کے بارے میں ایک دوسرے سے اختلاف کریں گے، سیاسی مسائل میں، اقتصادی مسائل میں، ذاتی مسائل میں آپس میں دست گریباں ہو جائیں گے تو ہمارے دشمن کی جرئت بڑھے گی۔ گذشتہ برسوں کے دوران دشمن کی جرئت جو تھوڑی بڑھی تو اس کی وجہ ہمارے اختلافات تھے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ : «ليس من طلب الحقّ فاخطأه كمن طلب الباطل فأصابه» مخالفین دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک مخالف وہ ہے جو حق کا متلاشی ہے، اسے بھی اسلامی جمہوریہ کی فکر ہے، اسے بھی انقلاب کی فکر ہے، وہ دین و خدا سے انس و محبت رکھتا ہے لیکن غلط طرز فکر اختیار کر بیٹھا ہے۔ ایسے شخص سے دشمنوں جیسا سلوک  نہیں کرناچاہیے۔ اس انسان میں اور اس شخص میں بہت بڑافرق ہے جو اسلامی نظام سے دشمنی کے جذبے کے ساتھ اس نظام کی مخالف سمت میں حرکت کر رہا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اپنائیےاختیار کیجئے اور اپنےدلوں میں ایک دوسرے کے لئے نرمی کا گوشہ پیدا کیجئے۔
یہ الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ اس بات کا سبب بنا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے خلاف آزادانہ اظہار خیال کریں، ایک دوسرے کو برا بھلا کہیں۔ ملک کے حکام کی طرف سے اس کا بھی کوئی حل نکالا جانا چاہیے تاہم سب سے بنیادی راہ حل یہ ہے کہ ہم خود عوام کو اسلامی اخلاقیات کا پابند بنائیں، قانون کے سامنے سر جھکائیں۔ اب میری اس بات کو کچھ لوگ بہانہ بنا کر انقلابی نوجوانوں کی ملامت شروع نہ کردیں، بالکل نہیں، میں ملک کے تمام غیور نوجوانوں کو اپنے مؤمن اور انقلابی فرزندوں کی حیثیت سے دیکھتا ہوں اور ان کا حامی اورپشتپناہ ہوں۔ میں انقلابی، مؤمن و غیور نوجوانوں کی حمایت کرتا ہوں لیکن سب کے لئے میری سفارش یہ ہے کہ وہ اپنے طرز عمل کو اسلامی اخلاقیات کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں، قانون پر عمل اور اسکی پاسداری کریں۔ قانون کے سب پابند رہیں۔ اسلامی انقلاب، اسلامی جمہوریہ کے قوانین کے قالب میں موجود ہے۔ ملک کے حکام کا طرز عمل بھی یہی ہونا چاہیے۔ مجریہ کو چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ کے وقار کا خیال رکھے اور پارلیمنٹ کو چاہیے کہ حکومت اور صدر کا احترام کرے۔ آپس میں متحد رہیں، ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلیں۔ یہ مراد نہیں ہے کہ سب کے سب ایک ہی نہج پر فکر کریں، مراد یہ ہے کہ اگر دو الگ الگ نظریئے ہیں تو آپس میں  دست وگریباں نہ ہو ں کیونکہ ہمارا آپسی تنازعہ و تفرقہ اور ہمارا آپسی جھگڑا دشمن کی خوشحالی اور مسرت کا باعث بنے گا۔
میں امید کرتا ہوں کہ سنہ 1391 ہجری شمسی کا سال جو آج سے شروع ہوا ہے ایرانی قوم  کے لئے امید و نشاط، کام اور محنت اور کامیابی اور کامرانی کا سال ثابت ہوگا۔
پروردگارا! محمد و آل محمد کے طفیل، ہمارے عزیز نوجوانوں کو، عزیز قوم کو صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھ۔ پروردگارا! اس قوم کے دشمنوں کو مغلوب کر۔ پروردگارا! اس مجاہد، ثابت قدم اور با وقار قوم کو اس کے اعلی اہداف میں کامیابی عطا فرما۔ حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود فرما اور ان کی دعاؤں کو ہمارے شامل حال فرما۔

والسّلام عليكم و رحمةاللّه و بركاته

‌1) فتح: 22 و 23
2) انفال: 46