ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا 73 اسلامی ممالک کے جوانوں اوراسلامی بیداری کانفرنس کے شرکاء سے خطاب

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّد المرسلين و سيّد الخلق اجمعين سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على ءاله الطّيّبين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.

میں آپ تمام محترم اور معزز مہمانوں، عزیز نوجوانوں اور امت اسلامی کے مستقبل کے بارے میں عظیم  بشارتوں کے حامل لوگوں کو خوش آمدید پیش کرتاہوں۔ آپ میں سے ہر فرد ایک عظیم بشارت کا حامل ہے۔ جب کسی ملک میں نوجوان بیدار ہو جاتتے ہیں تو اس ملک میں عوامی بیداری کی امیدیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ہمارے نوجوان بیدار ہو چکے ہیں۔ دشمن نے مسلم نوجوانوں کے لئے کتنے جال بچھائے لیکن اس کے باوجود امت مسلمہ کے غیور اور بلند ہمت نوجوان نے خود کو دشمن ہر جال سے محفوظ رکھا۔ آپ نےتیونس میں، مصر میں، لیبیا میں، یمن میں، بحرین میں مشاہدہ کیا کہ کیسے واقعات رونما ہوئے ؛ دوسرے اسلامی ممالک میں اسلامی تحریکیں  وجود میں آئیں ۔ یہ سب خوش خبری اور بشارت کا مظہر ہیں۔
میں آپ عزیز نوجوانوں، اپنے فرزندوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں  کہ آپ یقین جان لیجئے کہ آج  عالمی تاریخ اور تاریخ بشریت ایک عظیم تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پوری دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس دور کی واضح اور بڑی نشانیوں میں اللہ تعالی کی طرف توجہات کا مرکوز ہو جانا، اللہ تعالی کی لا زوال  قدرت سے مدد طلب کرنا اور وحی الہی پر اعتماد اور توکل کرنا ہے۔ انسانیت آج مادی مکاتب فکر اور مادی عقیدسے عبور کرکے آگے بڑھ چکی ہے۔ اب نہ مارکسزم میں کشش باقی رہ گئی ہے، نہ ہی  مغرب کی لیبرل ڈیموکریسی میں جاذبیت باقی رہ گئی ہے۔ آپ خود مشاہدہ کر رہے ہیں کہ امریکہ اور یورپ جو لیبرل ڈیموکریسی کا مرکز ہیں وہاں اس وقت حالات کیا رخ اختیار کئے ہوئے ہیں ؛ وہ شکست کا اعتراف کررہے ہیں ، اسی طرح سیکولر نیشنلزم میں بھی کوئی جاذبیت نہیں رہ گئی ہے۔ اس وقت امت اسلامی میں سب سے زیادہ کشش اسلام میں پائی جاتی ہے، سب سے زیادہ  جذابیت قرآن اور مکتب وحی میں پائی جاتی ہے، اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے اور یقین دلایا ہے کہ الہی مکتب فکر اور دین مبین اسلام انسان کو سعادت و فلاح  اور کامیابی  کی منزل تک پہنچا سکتے ہیں ۔یہ ایک نہایت اہم، مبارک اور بامعنی راستہ ہے۔

 آج اسلامی ممالک میں اغیار سے وابستہ ڈکٹیٹروں کےخلاف لوگ کھڑے ہوگئے ہیں۔ یہ اس عالمی اور بین الاقوامی ڈکٹیٹروں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کا مقدمہ ہے جو سامراجی طاقتوں اور صیہونیوں کے ڈکٹیٹر ،خبیث اور بدعنوان نیٹ ورک پر مشتمل ہے۔ آج بین الاقوامی استبداد اور بین الاقوامی ڈکٹیٹر شپ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ڈکٹیٹر شپ اور صیہونیوں کے خطرناک شیطانی نیٹ ورک کی صورت میں مجسم ہو گئي ہے۔ اس وقت یہ عناصر مختلف سازشوں اور گوناگوں حربوں کے ذریعہ پوری دنیا میں اپنی آمریت چلا رہے ہیں۔ آپ نے جو کارنامہ مصر میں انجام دیا، تیونس میں انجام دیا، لیبیا میں انجام دیا، اور جو کچھ یمن میں انجام دے رہے ہیں، بحرین میں انجام دے رہے ہیں،اس کے اثرات، جذبات اور احساسات دیگر ممالک میں ابھر رہے ہیں  اور عالمی سامراجی طاقتوں اور ڈکٹیٹروں کے خطرناک نیٹ ورک کےخلاف عوام کی جد وجہد کا یہ ایک حصہ ہے سامراجی طاقتیں  دو صدیوں سے انسانیت کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ میں نے جس تاریخی موڑ کی بات کی ہے وہ، اسی آمریت کے تسلط سے قوموں کی آزادی اور الہی و معنوی اقدار کی بالادستی کی صورت میں رونما ہونے والی تبدیلی پر مشتمل ہے۔ یہ تبدیلی آکر رہے گی؛اور آپ اسے بعید اور دور نہ سمجھیں ۔
یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے: «ولينصرنّ اللَّه من ينصره»(1) اللہ تعالی تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ اللہ تعالی  کی مدد کریں گے تو وہ بھی آپ کی ضرور مدد کرے گا۔ ممکن ہے کہ عام نظر سے دیکھا جائے اور مادی اندازوں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو یہ چیز بعید دکھائی دے لیکن بہت سی چیزیں تھیں جو بعید معلوم ہوتی تھیں لیکن واقع اور رونما ہو گئیں۔ کیا آپ ایک سال اور دو تین مہینے قبل یہ سوچ سکتے تھے کہ مصر کا طاغوت اورڈکٹیٹر حسنی مبارک اقتدار سے اس طرح ذلت و رسوائی کے ساتھ الگ ہو جائے گا؟ اگر اس وقت لوگوں سے کہا جاتا کہ مصر کے ڈکٹیٹر حسنی مبارک کی اغیار سے  وابستہ بد عنواں حکومت ختم جائے گی تو بہت سے لوگ اس بات کا یقین نہ کرتے، لیکن ایسا ہوا۔ اگر کوئی دو سال قبل یہ دعوی کرتا کہ شمالی افریقا میں یہ عجیب قسم کے واقعات رونما ہونے والے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو یقین نہ آتا۔ اگر کوئی لبنان جیسے ملک کے بارے میں کہتا کہ لبنان کےمؤمن نوجوانوں کی ایک تنظیم، صیہونی حکومت اور پوری طرح مسلح صیہونی فوج کو شکست دیدے گی تو کوئی بھی اس بات پر یقین نہ کرتا، لیکن یہ سب ہوا۔ اگر کوئی کہتا کہ اسلامی جمہوری نظام مشرق و مغرب سے جاری عداوتوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں بتیس سال تک ڈٹا رہے گا اور روز بروز زیادہ طاقتور اور زیادہ پیشرفتہ ہوتا جائے گا تو کوئی بھی یقین نہ کرتا، لیکن ایسا ہوا۔ «وعدكم اللَّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما»(2) یہ کامیابیاں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب پر غالب رہنے والی حق کی طاقت ہے جس سے اللہ تعالی ہمیں روشناس کروا رہا ہے۔ جب عوام میدان میں آ جائيں اور ہم اپنا سب کچھ لیکر میدان میں اتر پڑیں تو اللہ تعالی کی مدد و نصرت کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں راستہ بھی دکھاتا ہے، «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(3) اللہ تعالی ہدایت بھی کرتا ہے، مدد بھی کرتا ہے، بلند مقامات تک بھی پہنچاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ ہم میدان میں ثابت قدم اور استواررہیں۔
اب تک جو کچھ رونما ہوا ہے وہ بہت عظیم امر ہے۔ مغربی طاقتوں نے اپنی سائنسی ترقی کی مدد سے دو سو سال تک امت مسلمہ پر حکومت کی ہے، اسلامی ممالک پر قبضہ کیا، بعض پر براہ راست اور بعض دیگر اسلامی ممالک پر مقامی ڈکٹیٹروں کے ذریعہ تسلط پیدا کیا۔ برطانیہ، فرانس اور سب سے بڑھ کر امریکہ جو بڑا شیطان ہے، انہوں نے امت اسلامی پر تسلط قائم کیا۔ جہاں تک ہو سکا انھوں نے امت اسلامی کی تحقیر کی، مشرق وسطی کے اس حساس علاقہ کے وسط اور درمیان میں غاصب صیہونی حکومت قائم کردی جو امت اسلامی کے لئے مہلک کینسر ہے اور پھر ہر لحاظ سے اسے قوی اور مضبوط کیا اور مطمئن ہو گئے کہ اب دنیا کے اس اہم ترین خطے میں ان کی پالیسیوں اور مقاصد کو مکمل تحفظ مل گیا ہے۔ لیکن جذبہ ایمانی ، اسلامی ہمت و شجاعت اور عوام کی موجودگی نے ان کےتمام باطل خوابوں کو چکناچور کر دیا اور ان کے تمام  اہداف کو تہہ و بالا کردیا۔
آج عالمی سامراجی طاقتوں کو اسلامی بیداری کے مقابلے میں اپنی کمزوری اور ناتوانی کا احساس پیدا ہوگيا ہے۔ آپ غالب آ گئے ہیں، آپ کامیاب ہوگئے ہیں، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جو کام انجام پایا ہے وہ بہت ہی عظیم  اور اہم ہے، لیکن یہ عظیم کام یہیں ختم نہیں ہوا ہے۔ بہت اہم نکتہ یہ ہے۔ ابھی کام شروع ہوا ہے، یہ نقطہ آغاز ہے۔ مسلم اقوام کو چاہیے کہ وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں اوردشمن کو مختلف میدانوں سے باہر نکال دیں ۔
یہ مقابلہ ، ہمت اور عزم و ارادے کا مقابلہ ہے اور ہمت و حوصلے کی طاقت کا مقابلہ ہے۔ جس فریق کا ارادہ قوی اور مضبوط ہوگا وہ غالب آ جائے گا۔ جو دل اللہ تعالی پر اعتماد اور توکل کرےگا اسے غلبہ حاصل ہوگا۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(4) اگر آپ کو نصرت الہی کا شرف حاصل ہو گیا تو پھر کوئی طاقت  بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گی، آپ کو پیشرفت حاصل ہوگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسلم اقوام جو عظیم امت اسلامی کا مجموعہ ہیں وہ آزاد و سرافراز رہیں، خود مختار رہیں، باوقار رہیں، کوئی ان کی تحقیر و تذلیل نہ کرے، اسلام کی اعلی تعلیمات و احکامات سے اپنی زندگی کو سنواریں۔ اسلام میں یہ توانائی موجود ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں نے کئی برسوں سے ہمیں علمی میدان میں پیچھے رکھا، انھوں نےہماری ثقافت کو پامال کیا، ہماری خود مختاری کو ختم کیا۔اب ہم بیدار ہوئے ہیں۔ ہم علم کے میدانوں میں بھی یکے بعد دیگر اپنی بالادستی قائم کرتے جائیں گے۔
تیس سال قبل جب اسلامی جمہوریہ ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو دشمن کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب تو کامیاب ہو گیا لیکن وہ یکے بعد دیگرے تمام شعبہ ہائے زندگی کو سنبھالنے میں ناکام ہو جائےگا اور آخرکار شکست سے دوچار ہو کرپیچھے ہٹ جائے گا۔ آج ہمارے نوجوانوں نے اسلام کی برکت سے علم و دانش کے میدان  میں ایسے نمایاں کام انجام ہیں، جو خود ان کے بھی تصور میں بھی نہیں تھے۔ آج اللہ تعالی کی ذات پر توکل کی برکت سے ایرانی نوجوان عظیم علمی سرگرمیوں میں مشغول و مصروف ہیں۔ ایرانی جوان یورینیم افزودہ کر رہا ہے، اسٹیم سیلز پیدا کرکے اسے نشونما کے مراحل سے گزار رہا ہے، حیاتیات کے شعبے میں بڑے قدم اٹھا رہا ہے، خلائی شعبے میں سرگرم عمل ہے، یہ سب اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور نعرہ تکبیر کے ثمرات ہیں۔(5)
ہمیں اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ مغربی ثقافت نے اسلامی ممالک پر سب سے بڑی مصیبت جو نازل کی وہ دو غلط اور گمراہ کن خیالات کی ترویج تھی۔ ان میں ایک، مسلمان قوموں کی ناتوانی اور عدم صلاحیت کی غلط سوچ تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کے دماغ میں بٹھا دیا کہ آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ سیاست کے میدان میں، نہ معیشت کے میدان میں اور نہ ہی علم و دانش کے میدان میں۔ اور یہ پروپیگنڈہ کردیا کہ "آپ تو کمزور ہیں، اسلامی ممالک دسیوں سال کے اس طویل عرصے میں اسی غلط فہمی کا شکار رہے اور علمی پسماندگی میں مبتلا ہوگئے۔ دوسرا غلط تاثر جو دشمن نے ہمارے اندر پھیلایا وہ یہ تھا کہ ہمارے دشمنوں کی طاقت بہت زیادہ ہے  اور وہ  ناقابل شکست ہیں۔ ہمیں یہ سمجھا دیا گيا کہ امریکہ کو شکست دینا محال ہے، مغربی ممالک کو شکست دینا ممکن ہی نہیں ، اور ان کے مقابلے میں سب کچھ برداشت کرنے میں ہی ہماری خیریت ہے۔
آج یہ حقیقت مسلم اقوام کے سامنے آشکار ہوچکی ہے کہ یہ دونوں ہی خیالات بالکل غلط تھے۔ مسلمان قوموں میں  ترقی اور پیشرفت کرنے کی صلاحیت موجود ہے، اسلامی عظمت و جلالت کو جو کسی زمانے میں علمی و سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنے اوج پر تھی،اسے دوبارہ حاصل کرنے پر قادر ہیں اور دشمن تمام میدانوں میں شکست اور پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوجائےگآ۔
یہ صدی اسلام کی صدی ہے۔ یہ صدی معنویت کی صدی ہے۔ اسلام نے عقلانیت، معنویت اور انصاف کو ایک جگہ قوموں کے لئے پیش کر دیا ہے۔ عقل و خرد پر استوار اسلام، تدبر و تفکر کی تعلیم دینے والا اسلام، روحانیت و معنویت کا درس دینے والا اسلام، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کا راستہ دکھانے والا اسلام، جد وجہد کا سبق سیکھانے والا اسلام، جذبہ عمل کا سرچشمہ اسلام، عملی اقدام پر تاکید کرنے والا اسلام۔ یہ سب تعلیمات ،اللہ تعالی اور اسلام سے ہمیں ملی ہیں۔
آج جو چیز سب سے اہم ہے، وہ یہ ہے کہ دشمن کو مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور علاقے کے دیگر ممالک میں کم و بیش جو شکست و ناکامی اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی کے لئے وہ سازش اور منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ دشمن کی سازشوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ دشمن کہیں عوامی انقلابات کو منحرف نہ کردے ختم نہ کردے، اسے راستے سے نہ ہٹا دے۔ دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیجئے! دشمن، انقلابوں کو غلط سمت میں موڑنے، تحریکوں کو بے اثر بنانے اور جد وجہد اور انقلابات لانے کے سلسلے میں بہنے والے خون کو بے نتیجہ بنانے کی بڑی کوشش کر رہا ہے۔ بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ نوجوان اس تحریک کے علمبردار ہیں، آپ ہوشیار رہیے، آپ محتاط رہیے۔
پچھلے بتیس برسوں میں ہمیں بڑے تجربات حاصل ہوئے ہیں، بتیس سال سے ہم نے دشمنیوں اور عداوتوں کا سامنا کیا ہے، استقامت کی ہے اور عداوتوں پر غلبہ پایا ہے ۔۔۔۔ (6) کوئي بھی ایسی سازش نہیں ہے جو مغربی ممالک  اور امریکہ، ایران کے خلاف کر سکتے تھے اور انہوں نے نہ کی ہو۔ اگر کوئی اقدام انہوں نے نہیں کیا تو صرف اس وجہ سے کہ وہ اقدام ان کے بس میں نہیں تھا۔ جو کچھ ان کے بس میں تھا، انہوں نے اسے انجام دیا اور ہر دفعہ انہیں شکست و ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، ہزیمت اٹھانی پڑی۔۔۔۔۔۔(7) اور آئندہ بھی یہ ان کی شکست کا سلسلہ جاری رہے گا۔ آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ کے خلاف تمام سازشوں میں انہیں شکست و ناکامی ہوگی۔ یہ اللہ کا ہم سے وعدہ ہے جس کے بارے میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
ہمیں اللہ تعالی کے وعدے کی صداقت پر مکمل یقین ہے۔اور اس کے وعدے پر کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں، ہمیں اللہ تعالی کے وعدے پر مکمل اعتماد اور بھروسہ ہے۔ اللہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو اس کے بارے میں  اطمینان نہیں رکھتے ۔ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»(8)
اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ہم چونکہ میدان میں موجود ہیں، مجاہدت کے میدان میں وارد ہو چکے ہیں، ایرانی قوم اپنے تمام وسائل و امکانات کے ساتھ میدان میں وارد ہو چکی ہے لہذا نصرت الہی کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے تاہم بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہیے، ہم سب کو دشمنوں کے مکر و فریب کے بارے میں ہوشیار اور چوکنا رہنا چاہیے۔ دشمن، تحریکوں کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اختلافات اور تفرقہ پیدا کرنےکی کوشش کر رہا ہے۔
آج ‏عالم اسلام میں جاری اسلامی تحریکیں شیعہ اور سنی کو نہیں پہچانتی ہیں۔ شافعی، حنفی، جعفری، مالکی، حنبلی اور زیدی کو نہیں پہچانتی ہیں۔ عرب، فارس اور دیگر قومیتوں کے اختلاف کو قبول نہیں کرتیں۔ اس عظیم وادی میں سب کے سب موجود ہیں۔ ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ دشمن ہمارے اندر تفرقہ نہ ڈال سکے۔ ہمیں اپنے اندر باہمی اخوت و برادری کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے، ہدف کا تعین کر لینا چاہیے۔ ہدف اسلام ہے، ہدف قرآنی اور اسلامی حکومت ہے۔ البتہ اسلامی ممالک کے درمیان جہاں اشتراکات موجود ہیں، وہیں کچھ فرق بھی پائے جاتے ہیں ۔ تمام اسلامی ممالک کے لئے کوئی واحد نمونہ نہیں ہے۔ مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، تاریخی حالات اور سماجی حالات الگ الگ ہیں تاہم مشترکہ اصول بھی پائے جاتے ہیں۔ استکبار کے سب مخالف ہیں، مغرب کے خباثت آمیز تسلط کے ہم سب مخالف ہیں، اسرائیلی کینسر اور اس کے وجود کےسب مخالف ہیں۔۔۔۔۔ (9)
جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی کام اسرائیل کے مفاد میں انجام پا رہا ہے، امریکہ کے مفاد میں انجام پا رہا ہےہے، ہمیں وہاں ہوشیار ہو جانا چاہیے، یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ  کام اور یہ حرکت اغیار کی ہے، یہ سرگرمیاں غیروں کی ہیں، یہ اپنوں کی مہم نہیں ہو سکتی۔ جب صیہونیت مخالف، استکبار مخالف اور استبداد و ظلم و فساد کے خلاف کام ہوتا نظر آئے تو وہ بالکل درست عمل ہے۔ وہاں سبھی اپنے افراد ہیں ۔ وہاں نہ کوئي شیعہ ہے نہ سنی، وہاں  نہ قومیت کا فرق ہے نہ شہریت کا۔ وہاں سب کو ایک ہی نہج پر غور و فکر کرنی ہے۔
آپ توجہ کریں ؛ اس وقت بالکل سامنے کی ایک مثال موجود ہے۔ دنیا کے تمام نشریاتی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بحرین کے عوام اور وہاں کی عوامی تحریک کو الگ تھلگ کردیں۔ یہ کام کرنے کا مقصد کیا ہے؟ وہ اس کام کے ذریعہ شیعہ سنی اختلاف بھڑکانا چاہتے ہیں۔ تفرقہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، خلیج پیدا کرنے کی تلاش  میں ہیں۔ حالانکہ ان مسلمانوں اور مؤمنین کے درمیان  کوئی فرق نہیں جن میں بعض کسی مسلک سے اور بعض کسی دوسرےمسلک سے وابستہ ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام نے سب کو ایک ہی زنجیر میں پرو دیا ہے۔ سب امت مسلمہ سے وابستہ ہیں، اسلامی امت کا حصہ ہیں۔۔۔۔ (10) فتح و کامیابی کا راز، تحریک کو جاری رکھنے کا راز، اللہ تعالی کی ذات پر توکل، اللہ کے بارے میں حسن ظن، اللہ تعالی کی ذات پر اعتماد اور اتحاد اور مسلسل تلاش و جد وجہد میں مضمر ہے۔
میرے عزیزو! میرے فرزندو ! آپ بہت ہی محتاط  اور ہوشیاررہیں ، اپنی تحریک کو متوقف نہ کریں۔ اللہ تعالی نے قرآن میں دو جگہوں پر اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کو مخاطب کرکے فرمایا ہے؛ «فاستقم كما امرت»،(11) «و استقم كما امرت»؛(12) استقامت کا مظاہرہ کیجئے۔ استقامت یعنی پائداری، یعنی راستے پر ثابت قدم  رہنا، حق کے راستے پر آگے بڑھتے رہنا، قدم نہ رکنے دینا۔ اسی میں کامیابی کا راز ہے۔
ہمیں آگے کی سمت گامزن رہنا چاہیے ، یہ تحریک ایک کامیاب تحریک ہے، اس کا مستقبل  روشن اور تابناک ہے، اس کا افق درخشاں ہے۔ مستقبل بالکل واضح ہے۔ وہ دن ضرور آئے گا جب امت مسلمہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے قوت و آزادی کی بلندیوں تک پہنچ جائےگی۔۔۔۔۔(13) مسلمان اقوام اپنی خصوصیات اور تنوع کو باقی رکھتے ہوئے اللہ تعالی اور اسلام کے سائے میں جمع ہو جائیں، سب آپس میں متحد رہیں۔ اگرایسا ہو گيا تو امت اسلامی اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کر لےگی۔
ہمارے ممالک زیر زمین ذخائر سے مالامال ہیں، ہمارے پاس  اہم اور اسٹراٹیجک علاقہ موجود ہیں، ہمارے پاس بیشمار قدرتی وسائل موجود ہیں، بہترین دانشور اور بہترین ماہر شخصیات ہمارے درمیان موجود ہیں ، ہمارے پاس کثیر افرادی قوت موجود  ہے، ہمیں ہمت سے کام لینا چاہیے۔ اللہ تعالی ہماری ہمتوں میں مزید اضافہ فرمائے گا۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل آپ کا ہے۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آپ نوجوان وہ دن ضرور مشاہدہ کریں گے اور انشاء اللہ اپنے مایہ ناز اور قابل فخر کارناموں کو  آنے والی نسلوں کے حوالے کریں گے۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1) حج: 40
2) فتح:  20 
3) عنكبوت: 69،
4) آل‌عمران: 160،
5) اللہ اکبر کے نعرے
6) « اللہ اکبر اور لبيك ياخامنه‌اى کے نعرے
7) «امریکہ مردہ باد کے نعرے
8) فتح: 6،
9) «اسرائيل مردہ باد کے نعرے»
10) اسلامی اتحاد کے حق میں نعرہ «وحدة وحدة اسلامية»
11) هود: 112،
12) شورى: 15،
13) «هيهات منّا الذّلة کے نعرے»