ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا 19 دی کے موقع پرقم کے علماء، طلاب اور عوام کے مختلف طبقات سے خطاب

بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم‌

 

ہم اللہ تعالی کے شکرگزار اور سپاس گزار ہیں  کہ قم کے جوانوں کے بانشاط اور ولولہ انگیز دلوں اور گرم سانسوں نےانیس دی مطابق نو جنوری کی مناسبت سے حسینیہ امام خمینی (رہ)  کی فضا کو ایک بار پھر معطر کردیا ہے۔ یقینی طور پر قم کے عزیز عوام کی آگاہی و بیداری اور بصیرت، اسی طرح حوزات علمیہ  اور علماء کرام کی آواز پر ان کا مثبت اور تاریخی جواب ہمیشہ تاریخ کے صفحات پر باقی رہےگا۔
اگر ہم 19 دی مطابق 9  جنوری کے واقعہ کو دنیا کے جدید تحولات اور انقلابات کا سرآغاز قرار دیں تو کوئی تعجب آور اور حیرت انگيزبات نہیں ہوگی اور نہ ہی اسے لاف و گزاف بات کہا جا سکتا ہے۔ انسانی معاشرے اور اس عظیم دنیا میں رونما ہونے والے واقعات قانون تاثیر کے مطابق ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں ، حوادث و واقعات ایکدوسرے پر اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں واقعات کا ایک دوسرے پر اثر پڑتا ہے اور تاریخی واقعات کا سلسلہ عظیم تبدیلیوں کے باعث رونما ہوتا ہے۔ ہم اس امر کی اس طرح تشریح کر سکتے ہیں کہ 19 دی سن 1356 ہجری شمسی مطابق نو جنوری سنہ انیس سو اٹھہتر عیسوی کو قم کے عوام نے ایک عظیم اور تاریخی کارنامہ انجام دیا، اس زمانے کے تاریک اور گھٹن ماحول میں قم کے چہار مردان علاقہ میں لوگوں نے ظلم اور ظالم کے خلاف آواز بلند کی اس دور میں ہمارے ملک پر ظلم و ستم کی عظیم فضا چھائی ہوئی تھی اور آزادی کے نام نہاد حامی بھی ظالم شاہی حکومت کی پشت پناہی کر رہے تھے،اور دنیا کے تسلط پسند اور مستبد حکمراں بھی ان کی بھر پور حمایت کررہے تھے ، جسے اگر تفصیل سے بیان کیا جائے تو کئی کتابیں تیار ہو جائیں گی، اس گھٹن کےماحول میں قم کے "چہارمردان" علاقے میں جو پاکیزہ خون زمین پر جاری ہوا جس کی بدولت انیس دی مطابق نو جنوری کی اہل قم کی عظیم تحریک معرض وجود میں آئی وہ گویا ایک شعلہ تھا جس نے لوگوں کے ایمانی آتشفشاں کو شعلہ ور کر دیا اور ناگہاں فضا میں انقلاب پیدا ہوگیا۔

اگرقم میں انیس دی کا واقعہ رونما نہ ہوتا تو مختلف اضلاع میں اس واقعہ کے شہداء کا چہلم منانے کا سلسلہ شروع نہ ہوتا اور عوام اس طرح میدان میں نہ آتے۔ اگر یہ تغیرات و واقعات رونما نہ ہوتے تو 22 بہمن مطابق گیارہ فروری، اورانقلاب کی کامیابی کی تاریخ وجود میں نہ آتی اور اسلامی انقلاب کامیابی و کامرانی سے ہمکنار نہ ہوتا۔ اسلامی انقلاب کامیاب ہوا اور سامراجی طاقتوں کے ساتھ اس کی پیکار شروع ہو گئی ۔ سامراجی طاقتوں کی ہیبت شیشے کی طرح چکناچور ہو گئی اور امریکہ و صیہونزم کا رعب و دبدبہ ختم ہو گیا۔ حقیقت سے کہیں زیادہ بڑھ چڑھ کر اپنی قوت کا رعب و دبدبہ قائم کرنے والی طاقتوں کی کھوکھلی ہیبت ختم ہوگئی تو مختلف ملکوں میں مسلمانوں کی تحریکیں شروع ہوگئیں اور وہ نئے انداز سے سوچنے لگیں۔ مختلف واقعات منجملہ آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے زمانے میں، مقدس دفاع اور اقتصادی پابندیوں کے دور میں ایرانی قوم کی مظلومیت اور بے مثال استقامت کو دیکھ کر، اور ایرانی قوم کو ثابت قدمی سے آگے بڑھتے دیکھ کر پوری دنیا میں تحریکیں شروع ہوگئیں۔ اگر ایرانی قوم کی یہ ا ستقامت نہ ہوتی، اگر ایرانی قوم نےسپر پاور طاقتوں کو للکارنے کا اقدام نہ کیا ہوتا،اور ایرانی قوم کی یہ ثابت قدمی نہ ہوتی تو دیگر قومیں میدان میں حاضر نہ ہوتیں، اسلامی بیداری کی لہر پیدا نہ ہو پاتی، آج جو واقعات علاقہ کو دگرگوں کئے ہوئے ہیں یہ رونما نہ ہوتے۔ واقعات کسی ایک نقطہ سے شروع ہوتے ہیں اور سلسلہ وار آگے بڑھتے ہیں۔ اگر کام میں استقامت ہو، اگر صبر و تحمل کا مظاہرہ ہو، اگر پائداری کا عنصر موجود ہو تو اس وقت اس پرتمام خیرات اور برکات کے اثرات مرتب ہونگے۔
ثابت قدمی اور استقامت پہلی شرط ہے۔ قومیں جب کسی راہ پر گامزن ہوں تو انہیں ثابت قدمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ "فلذالک فادع و استقم کما امرت " (1) قرآن میں نبی مکرم کو مختلف مواقع پر ثابت قدمی اور استقامت کی جو تلقین کی گئي ہے اس کا راز یہی ہے۔ استقامت سے کام لینا پڑتا ہے، ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے، راستہ گم نہ ہو یہ اہم شرط ہوتی ہے، ہدف کو ہمیشہ مد نظر رکھنا پڑتا ہے اور مسلسل و پیہم  اس کی جانب گامزن رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر یہ شرط پوری ہو گئی تو لگاتار و مسلسل کامیابیاں حاصل ہونے لگتی ہیں، جیسا کہ ایرانی قوم کے لئے پیش آیا ہے۔
ایرانی قوم  نے آج اپنا عظیم تجربہ دوسری اقوام کےسامنے پیش کر دیا ہے۔ اس تجربہ میں بصیرت و صبر کےدو اہم عوامل شامل ہیں جن کی بدولت یہ کامیابی اور کامرانی حاصل ہوئی ہے، بصیرت کا مطلب یہ ہے کہ راستے پر نگاہیں بالکل جمی رہی ، اس کی تشخیص میں کوئي غلطی نہ ہونے پائے، غلط راستے پر قدم نہ پڑنے پائيں، وسوسہ پیدا کرنے والے خناس سے متاثر نہیں ہونا چاہیےاور منزل مقصود کو آنکھوں سے دور نہیں ہونے دینا چاہیے، جبکہ صبر سے مراد استقامت و پائداری ہے، اور ایک نسل دوسری نسل کو اور دوسری نسل اپنے بعد آنے والی نسل کو اس راستے پر گامزن رہنے کی تاکید کرتی رہے۔ آج اللہ تعالی کےفضل سے ہمارے ملک میں ایسی نوجوان نسل ہے جس نے انقلاب کا زمانہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھنے کے باوجود اور مقدس دفاع کے دور کا مشاہدہ نہ کرنے کے باوجود اسی جوش و ولولہ اورجذبے کے ساتھ، اسی عزم و حوصلے کے ساتھ اور اسی استقامت کے ساتھ میدان عمل میں موجود ہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ اسلامی انقلاب کا کرشمہ ہے۔ ہمیں اپنے اندر اس استقامت و بصیرت کے عوامل کو مزید مضبوط اور قوی بنانا چاہیے۔
دو چیزیں ہمیشہ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور ان کی مدد سے قوم کی قوت و طاقت کا سلسلہ وجود میں آتا ہے۔ ان میں ایک استکباری محاذ اور سپر پاور طاقتوں کی توسیع پسندانہ عزآئم اور استبداد کے مد مقابل ثابت قدمی کے ساتھ استقامت کا مظاہرہ کرناہے، دشمن کے سامنے تسلیم نہ ہونا اور اسلامی جمہوری نظام کے اعلی اہداف پر پختہ عزم کے ساتھ گامزن رہنا بہت ہی اہم ہے اسلامی نظام اپنی مجموعی شکل میں اور اپنی اجتماعی صورت میں اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے، اس نے اپنے راستے کا انتخاب کر لیا ہے اور اسی راستے پر ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ پہلا اور اہم عنصر و عامل ہے۔ دوسرا عامل لوگوں کی میدان ولولہ انگیز اور ماہرانہ موجودگی ہے۔ اگر ان دونوں میں علیحدگی ہو جاتی، اگر نظام کے ذمہ دار حکام میدان میں موجود رہتے لیکن عوام میدان سے ہٹ جاتے تو کسی  کام پیشرفت حاصل نہ ہوپاتی۔ اسی طرح اگر کفر و ضلالت کے عظیم لشکر کے مقابل اسلامی نظام کے عہدیداروں کے ارادے، ان کی تشخیص، ان کے فہم و ادراک میں کوئی نقص پیدا ہو جاتا تو بیشک اس سے پورے نظام میں گڑبڑی پیدا ہوجاتی اور عوام بھی میدان سے ہٹ جاتے۔ یہ دونوں عوامل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، آج بھی جڑے ہوئے ہیں اور آئندہ بھی ایک دوسرے سے وابستہ اور منسلک رہیں گے۔ اگر یہ دونوں عوامل اسی طرح قائم رہے تو دشمن کا کوئی بھی وار، کوئی بھی حربہ، کوئي بھی مکر و حیلہ اور اس کی کوئي بھی سازش ایرانی قوم کو نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔
آج ہمارے مخالف محاذ کی قیادت امریکہ اور صہیونی کے ہاتھ میں ہے،اور وہ جو کچھ کرسکتے تھے وہ انھوں نے کیا  انھوں نے نظام کو قوی سے قوی تر بنانے والے عامل اور میدان میں عوام کی استقامت و پائداری کے عامل کو کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی انھوں نےایرانی قوم کو ختم  کرنے کا جو راستہ بھی ممکن تھا وہ اختیار کیا اس بات کا دشمن خود بھی اعتراف کرتے ہیں، وہ صریحی طور پر بیان کرتے ہیں کہ ایران کے خلاف جو پابندیاں منظور اور عائد کی جا رہی ہیں جن کے پیچھے شدید بغض و عناد کارفرما ہے، ان کا ہدف و مقصد عوام کے جوش و جذبہ کو ختم کرنا اور لوگوں کو میدان سے ہٹانا ہے، عوام کو اسلامی نظام سے روگرداں کرنا ہے۔ یا یہ ہدف پورا ہو جائے اور اگر یہ ہدف پورا نہیں ہوا تو حکام کے ارادوں میں تزلزل پیدا ہو جائے، حکام اپنے اندازوں اور فیصلوں پر نظر ثانی کریں۔ ان کے جملے کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کو یہ احساس دلانا چاہتے ہیں کہ انہیں اپنے فیصلوں کی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ یہ کہنے کا مقصد ملک کے حکام کے ارادوں میں تزلزل پیدا کرنا ہے۔ دشمن اپنی پوری طاقت سے اور تمام حربوں کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ دونوں ہدف حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یا تو عوام کے جوش و جذبے کو ٹھنڈا کر دیں اور انہیں اسلامی نظام سے الگ کرنے پر مجبور کرلیں یا حکام کے اندر تذبذب  کی کیفیت پیدا کرکے انہیں اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیں۔ وہ بہت بڑی غلطی میں مبتلا ہیں، یہ کام ان کے بس میں نہیں ہے۔
صدر اسلام کے دورمیں دشمنوں نے شعب ابی طالب میں مسلمانوں کا اقتصادی محاصرہ کرکے انہیں پسپا ہونے اور شکست دینے کی تلاش وکوشش کی۔ لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے۔ غلط  اندازے لگانے والے منحوس عناصر اس خیال میں ہیں کہ ہم شعب ابی طالب جیسے حالات سے دوچار ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ اس وقت ہم شعب ابی طالب جیسے حالات میں نہیں ہیں، بلکہ ہم بدر و خیبر والی پوزیشن میں پہنچ چکے ہیں۔ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ ہماری قوم اپنی آنکھوں سے کامیابی و کامرانی کے آثار کا مشاہدہ کر چکی ہے، منزل کے قریب پہنچ چکی ہے، فتح کے مختلف مراحل سربلندی کے ساتھ طے بھی کر چکی ہے۔ آج آپ ہماری قوم کو اقتصادی پابندی سے ڈرا رہے ہیں؟ آپ ان باتوں اور ان سازشوں کے ذریعہ ہمارے عوام کو میدان سے ہٹانا چاہتے ہیں؟ آپ کے خیال میں کیا یہ ممکن ہے؟ آج وہ حکام کے ارادوں کو متزلزل کرنا چاہتے ہیں؟ "قل ھذہ سبیلی ادعوا الی اللہ علی بصیرۃ انا و من اتبعنی" (2) یہ وہ راستہ ہے جس کا پوری آگاہی و بصیرت کے ساتھ انتخاب کیا گيا ہے، یہ وہ راستہ ہے جو مجاہدت کے ذریعے کھولا گیا ہے، یہ وہ راستہ ہے جو عزیز ترین افراد کے خون سے تیار کیا گيا ہے۔ ہم اس راستے پر گامزن رہتے ہوئے عظیم بلندیوں تک پہنچے ہیں، ہم اب رکنے والے نہیں ہیں، ہم انشاء اللہ آگے کی جانب بڑھتے رہیں گے تاہم اس وقت بھی ہم بہت سی بلندیاں فتح کر چکے ہیں۔ آج کے اسلامی جمہوریہ ایران  اور بیس سال، تیس سال پہلے والے اسلامی جمہوریہ ایران نمایاں فرق ہے یہ ایران کہاں اور وہ ایران کہاں ؟! اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں کی اس دور کی طاقت و رعب و دبدبہ کہاں اور آج ان کی کمزور پوزیشن اور ضعیف حالت کہاں؟! یہ ایسی علامتیں ہیں جن سے ایرانی قوم کے حوصلے اور بھی بلند ہو رہے ہیں۔ لہذا راہ اسلام پر جو راہ خدا بھی ہے، راہ دین بھی ہے اور راہ سعادت دنیا و آخرت بھی ہے، اس راستے پر گامزن رہنے کے بارے میں  حکام کا ارادہ بالکل قوی اور مستحکم ہے اور رہے گا اور لوگ بھی استقامت اورثابت قدمی کے ساتھ اسی راستے پر گامزن اور رواں دواں رہیں گے۔
ایک اہم میدان جہاں عوام اپنی موجودگی کا بھر پورمظاہرہ کر سکتے ہیں،یہی  انتخابات ہیں۔ یہ ابھی کی بات نہیں ہے، ایک عرصے سے دشمنوں نے بھاگ دوڑ شروع کر دی ہے کہ شاید اس دفعہ انتخابات میں عوام کی شرکت کو کم کرنے میں کامیابی مل جائے۔ آپ خود سن رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں، اخبارات و جرائد میں، گوناگوں ذرائع ابلاغ میں ہمارے دشمن اوپر سے لیکر نیچے تک کفر و استکبار کے محاذ کی اعلی کمان سے لیکر پیادوں تک سب یہاں وہاں پھیلے ہوئے ہیں، اندر بھی ہیں باہر بھی ہیں اور سب کوشش کر رہے ہیں کہ عوام کو انتخابات میں شرکت سے روک دیا جائے۔ میں عوام کے طرز عمل کا جو تجربہ رکھتا ہوں اور اللہ تعالی کی ذات پر میرا جو اعتماد ہے اس کی بنیاد پر میں پیشین گوئي کرتا ہوں کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے، پخداوند متعال  کی مدد ونصرت سے اس مرتبہ بھی انتخابات میں عوام کی شرکت دشمن کی کمر توڑ دےگی اور اس دفعہ کے انتخابات سے اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کے پیکر میں ایک تازہ روح و جان پڑ جائے گی، اس کی رگوں میں تازہ لہو دوڑنے لگے گا اور اسے نیا جوش و جذبہ حاصل ہوگا، جیسا کہ اب تک ہر بار کے انتخابات کے بعد ہوتا آیا ہے۔ انتخابات اپنی تقدیر کے تعین میں عوام کی شرکت و موجودگی کا شاندارمظہر ہیں۔
البتہ بعض آفات بھی موجودہیں، چنانچہ ہمیں یہ کوشش کرنا ہوگی کہ ان کو دور کر دیا جائے۔ سنہ دو ہزار نو کے انتخابات کے بارے میں ہمارے عزیزوطن اور عوام کے ذہنوں میں اچھی اور تلخ یادیں موجود ہیں۔
اچھی اور بہترین  یادوں میں پولنگ اسٹیشنوں پر چار کروڑ رائے دہندگان کی ولولہ انگیز اور پر جوش شرکت کی یادیں ہیں، جسے دیکھ کر دنیا کی نگاہیں خیرہ ہو گئيں اور تلخ ترین یادوں میں انتخابات کے مسئلے میں کچھ نادان اور کچھ عناد رکھنے والے افراد کی سیاسی لغزشوں سے وابستہ یادیں ہیں۔ کوئي بھی قضیہ ہو یا کوئي بھی واقعہ ہو اس کے بارے میں ممکن ہے کہ کچھ لوگ منفی رائے رکھتے ہوں، اس پر معترض ہوں۔ انہیں اپنی مخالفت ظاہر کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ قانون نے ان کے لئے اس کا راستہ معین کر دیا ہے تو قانون شکنی کا پھر کیا جواز رہ جاتا ہے؟ عوام کو نقصان پہنچانے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ ملک و قوم کے دشمنوں کو خوش کرنے کا کیا جواز ہے؟ ان منصوبوں پر عمل درآمد کا کیا جواز ہے جن سے دشمن کی سازشوں اور ناپاک عزآئم کی بدبو آرہی ہو ؟ قانون نے راستہ معین کر دیا ہے۔ ہم نے اس موقعہ پر کہا، سب سے کہا، تمام متعلقہ عہدیداروں کی یہ ذمہ داری تھی کہ قانون کے مطابق عمل کرتے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا؟
وہ کچھ بھی حاصل نہ کر سکے اور جب تک یہ قوم میدان عمل میں موجود ہے اور جب تک یہ رشتہ قائم ہے اس وقت تک کوئی بھی اس ملک میں قانون کو نظر انداز کرکے کوئی ہدف پورا نہیں کر سکتا، کوئی بھی مقصد پورا نہیں کر سکتا۔ تاہم اس کوشش سے ملک پر کچھ اخراجات کا بوجھ ضرور پڑا، قوم کو کچھ نقصان ضرور اٹھانا پڑا۔ کیوں؟ اتنے عظیم الشان انتخابات کے بعد بہت آسانی سے ملک کو اس نقصان سے بچایا جا سکتا تھا۔
مختلف عوامل کارفرما تھے۔ یہ ہمارے لئے ایک تجربہ ہونا چاہیے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ انتخابات عوام کی شرکت اور موجودگی کا مظہر ہیں اور انتخابات کا نتیجہ عوام کی رائے اور خواہش کا آئینہ دارہوتا ہے، اس کا احترام کرناچاہیے۔
انتخابات کا صحیح  اور شفاف ہونا ضروری ہے، اس میں رقابت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ رقابت ایک الگ چیز ہے اور خصومت و دشمنی الگ چیز ہے۔ رقابت الگ چیز ہے اور بہتان اور تہمت لگانا الگ چیز ہے۔ اس کا خیال سب رکھیں۔ رقابت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی اپنی پوزیشن ٹھیک کرنے کے لئے دوسرے کی نفی کرنا شروع کر دے۔ رقابت کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ کچھ لوگ ووٹ حاصل کرنے کے لئے لوگوں سے آئین کے منافی وعدے کرنے لگیں، خلاف قانون وعدے کرنے لگیں۔ یہ سب نہیں ہونا چاہیے۔ جو لوگ انتخابات سے تعلق رکھتے ہیں، خواہ وہ الیکشن حکام ہوں یا امیدوار ہوں ان سب کو سالم فضا کے شرائط اور آداب کا لحاظ رکھنا چاہیے ۔ یہ بہت ضروری ہے۔
الیکشن حکام کو امانتداری اورپوری دیانتداری سے کام کرنا چاہیے۔ خوش قسمتی سے گذشتہ برسوں کے دوران ہمارے ملک کے انتخابات شفاف اور سالم انتخابات رہے ہیں۔ ان بتیس برسوں میں ہمارے یہاں تیس سے زائد انتخابات ہوئے ہیں۔ بعض اوقات کچھ لوگوں نے یہ دعوی کیا کہ انتخابات شفاف نہیں تھے۔ ہم نے تحقیق کے لئے افراد بھیجے جنہوں نے پوری دقت نظرسے جائزہ لیا، حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے زمانے میں بھی اور بعد کے دور میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ تحقیق کرنے والے افراد نے دیکھا کہ نہیں، بد عنوانی نہیں ہوئی ہے۔ ممکن ہے کہ کسی کونے میں  یا کسی مقام پر کہیں کوئی خلاف ورزی ہوئي ہو لیکن کوئی ایسی گڑبڑ کہ جو انتخابات کے نتیجے کو بدل دے، غیر شفاف بنا دے، کبھی نہیں دیکھنے میں آئی۔ عوام نے جس کا انتخاب کیا عملی میدان میں وہی منتخب ہوکر سامنے آیا ہے۔ یہ کوشش رہنا چاہیے کہ انتخابات پوری طرح صاف و شفاف اور منصفانہ ہوں۔ یہ الیکشن حکام کی ذمہ داری ہے، وہ انتظامیہ اور وزارت داخلہ کے حکام ہوں یا نگراں کونسل کے حکام۔ سب بہت توجہ رکھیں۔ کوئی بھی امر قانون سے ماورا اور عزیز نہیں ہے۔ دنیا میں یہ بات عام ہے کہ برا قانون بھی لاقانونیت سے بہتر ہے۔ بعید نہیں ہے کہ واقعی لوگ اسے تسلیم کرتے ہوں کیونکہ لاقانونیت تو انارکی ہے۔ برا قانون بہرحال کوئی نہ کوئي ضابطہ تو دیتا ہے۔ انسان اس قانون کے نقص کو دور کر سکتا ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارے یہاں الیکشن کے قوانین بہت اچھے ہیں۔ البتہ ممکن ہے کہ آئندہ چل کر اس سے بھی زیادہ بہتر اور کامل تر قانون تدوین کیا جائے ۔
جو لوگ انتخابات کے میدان میں قدم رکھ رہے ہیں انہیں بھی کچھ شرائط اور ضوابط کا پابند رہنا چاہیے۔ میرا خطاب ان تمام افراد سے ہے جو انتخابات میں امیدوار کی حیثیت سے شرکت کرنا چاہتے ہیں، اسی طرح میرے مخاطب عوام بھی ہیں۔ ملک بھر میں عوام کو چاہیے کہ امیدواروں کے اندر ان خصوصیات کو ضرور دیکھیں، ضرور توجہ دیں۔ امیدوار خدمت کی نیت کے ساتھ الیکشن میں حصہ لے۔ اگر وہ جاہ طلبی، دولت کے حصول یا دیگر غلط عزائم کے ساتھ الیکشن میں کھڑا ہوا ہے تو وہ کبھی بھی ملک کی خدمت نہیں کرے گا۔ امیدوار خدمت کی نیت کے ساتھ الیکشن میں شرکت کر رہا ہے اس کا جائزہ لینا ضروری ہے، اس کا اندازہ لگا نا چاہیے۔ اگر امیدوار دولت و طاقت کے مراکز سے وابستہ ہو جائیں تو سارا معاملہ غلط ہو جاتا ہے۔ چنانچہ آج دنیا کی نام نہاد بڑی جمہوریاؤں میں امریکہ اور دیگر ممالک میں یہ صورت حال ہے کہ بڑی بڑی کمپنیاں اور دولمند افراد صدارتی امیدوار یا پارلیمانی امیدوار کو پیسے دیتے ہیں اور اس کے جواب میں امیدوار ان سے کچھ وعدے کرتے ہیں۔ جو صدر ، دولت کے مراکز اور کمپنیوں کے پیسے کے ذریعہ منتخب ہوکر آیا ہے، وہ ان کا وفادار ہے۔ جو پارلیمانی امیدوار کسی کمپنی، کسی فیکٹری، کسی دولت مند شخص کی ثروت کے سہارے پارلیمنٹ میں پہنچا ہے وہ اس کمپنی اور اس دولت مند شخص کی ضرورت کے مطابق قانون سازی اور قانون میں ترمیم کرنے پر مجبور ہے، قانون کا دائرہ وسیع یا تنگ کرنے پر مجبور ہے۔ یہ رکن پارلیمنٹ عوام کے کام کا آدمی نہیں ہے۔ پارلیمانی امیدوار کو دولت کے مراکز سے وابستہ نہیں ہونا چاہیے۔ بیت المال کا استعمال اور بھی حساس مسئلہ ہے۔ اگر کوئی سرکاری خزانے کو استعمال کرکے پارلیمنٹ کی رکنیت حاصل کرتا ہے تو اس میں مضاعف غلطی ہے، دوہری برائی ہے۔ عوام کو ان باتوں پر اپنی  توجہ مبذول کرنی چاہیے۔ البتہ سب پریہ  الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ کسی کے بارے میں یوں ہی نہیں کہہ دینا چاہیے کہ یہ تو فلاں صاحب سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے پیسے خرچ کر رہے ہیں، یہ امر صاف اور واضح ہونا چاہیے۔ ثابت ہونا چاہیے۔
عوام کو چاہیے کہ وہ آنکھیں بالکل کھلی رکھیں، توجہ رکھیں۔ خوش قسمتی سے ہمارے عوام بیدار ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ ان افراد پر اعتماد کریں جو ان کے نزدیک قابل بھروسہ ہوں، جو انسان اور اللہ کے درمیان لوگوں کے لئے حجت قرار پا سکتے ہوں۔ رائے دہندگان کو چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو خود اس بارے میں تحقیق کریں۔ یہ بہت ضروری  امرہے۔ اس پر بہت توجہ رکھنے کی ضرورت ہے ۔ انشاء اللہ انتخابات اچھے اور با عظمت انداز میں منعقد ہوں گے، عوام کی بھاری اکثریت اس میں حصہ لےگی۔ عوام کو صحیح شناخت کرنی چاہیے اور صحیح انتخاب کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں ایسی پارلیمنٹ تشکیل پائے جو اسلامی نظام کے شایان شان ہو۔ اللہ تعالی کے لطف و کرم سے انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔
ہم اگر اللہ سے  مدد اور نصرت طلب کریں،اور میدان میں وارد ہوں، تو ہم میں سے  ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے ، اپنی نیت یہ رکھیں کہ اسلامی نظام، اسلام اور ایرانی قوم کو سربلند کرنا ہے، مستقبل کو سنوارنا ہے، اپنی دنیا و آخرت کی سعادت کو یقینی بنانا ہے تو اللہ تعالی  ہمارے لئے اپنی رحمت و برکت کے دروازے بند نہیں کرے گا۔ ہم قدم بڑھائیں گے تو اللہ   تعالی راستے کی رکاوٹیں دور کر دے گا۔ بنیادی اور کلیدی امر یہ ہے کہ ہم عزم و حوصلہ سے کام لیں، ہمت سے کام لیں اور صحیح فیصلہ اور درست اقدام انجام دیں۔
مجھے اطمینان اور یقین ہے کہ یہ انتخابات دوسری قوموں کے لئے بھی نمونہ عمل اور  ایک علامت کا مظہر ہیں۔ اسی وجہ سے امریکہ، برطانیہ، صہیونزم اور ان سے وابستہ سامراجی ادارے انتخابات کو مخدوش بنانے کی ابھی سے تلاش وکوشش میں مصروف عمل ہیں اور وہ  انتخابات کو داغدار اور، مشکوک بنانے کی تلاش وکوشش میں ہیں۔ دوسرے ممالک توجہ سے دیکھ رہے ہیں کہ ایرانی قوم جو انتخابات اور انقلاب کے میدان میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے، کیا کرتی ہے؟ ان میدانوں میں ایرانی قوم  ہراول دستے میں شامل رہی ہے۔ دوسری قومیں دیکھ رہی ہیں کہ ایران میں انتخابات کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔ سامراجی محاذ کی کوشش ہے کہ ایران میں انتخابات اس انداز سے ہوں کہ قوموں میں مایوسی پھیل جائے۔( 3) البتہ  آپ نے اپنا پیغام سنا دیا۔ امریکہ مردہ باد آپ کا پیغام اور آپ کا نعرہ ہے۔
پروردگارا! محمد اور آل محمد کے طفیل ، اپنا فضل و کرم، اپنی ہدایت ، رحمت اورنصرت ہماری اس عزیز قوم کے شامل حال فرما۔ پروردگارا! ہمارے نوجوانوں کو حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ)  کی نظر کرم اور ان کی دعاؤں میں شامل فرما مستحق قرار دے۔ ایرانی قوم  کی کامیابیوں میں روز بروز اضافہ فرما۔

 

والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته‌

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1)      شورى: 15

2) يوسف: 108

      3) حاضرین اس موقع پرامریکہ مردہ باد کا نعرہ لگایا