ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا عورت اور خاندان کے موضوع پر تیسرے اسٹراٹیجک اجلاس کے شرکاء سے خطاب

 

 

بسم‌ الله‌الرّحمن‌ الرّحيم‌
اللّهمّ سدّد السنتنا بالصّواب و الحكمة

تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید پیش کرتا ہوں اور اس انتہائی اہم اور اجتماعی کام میں شرکت کرنے والے محترم حاضرین کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں مقررین کا خاص طور پر مشکور ہوں جن میں بعض حضرات نے کچھ اہم باتیں پیش کیں اور بعض نے کچھ امور کے بارے کا تنقیدی جائزہ لیا۔ اس پروگرام کا اہتمام جناب ڈاکٹر واعظ زادہ نے کیا انکا بھی تہہ دل سے شکرگزار ہوں؛کیونکہ انھوں نے اس اجلاس کی نظامت کو اچھے انداز سے  اداکیا، اور انھوں نےاس اجلاس کو منعقد کرنے کے لئے بھی اہم اور بنیادی اقدام انجام دیئے انھوں نے اجلاس کے متن کو بعض ساتھیوں کے تعاون سے کئي ماہ کی کوششوں کے بعدآمادہ کیا۔

  اس جلسہ  اور دیگر جلسات کا مقصد ملک کے بنیادی مسائل اور امور پر ممتاز علمی شخصیات کے درمیان عالمانہ و ماہرانہ تبادلہ خیال کروانا ہے۔ اگر اسٹراٹیجک افکار کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو حقیقت یہی ہے اور کوشش یہی ہے کہ ہم ایک متفق علیہ نظریہ تک پہنچ سکیں۔ ان افکار کی تقسیم بندی کی جا سکتی ہے اور انھیں عدل و انصاف سے متعلق نظریہ یا عورت اور خاندان سے متعلق نظریہ یا دیگر موضوعات پر تقسیم کیا جاکستا ہے۔ اسی طرح ہمارے پاس بیس سے زائد موضوعات کی ایک طویل فہرست ہے اور ہر موضوع کو نظرئے کا عنوان دیا گيا ہے اور اسی لحاظ سے اسے نظریہ کہا جا رہا ہے ورنہ ہماری کوشش یہ ہے کہ ممتاز علمی شخصیات کا یہ مجموعہ جو اپنی فکری و معنوی کاوشوں سے اسلام اور اسلامی نظآم کی مدد کرےگا، انشاء اللہ وہ ہر موضوع کے بارے میں واحد اور متفق علیہ نظریہ تک پہنچ جائے گا۔
البتہ ان جلسات کا یہ مقصد نہیں ہے کہ ہم کسی موضوع کا شروع سے لیکر آخر تک سو فیصدی جائزہ لیں اور یہ کام ممکن بھی نہیں ہے۔ یہاں ہمارا مقصد ، ملک کو فی الحال در پیش یا ممکنہ طور پر مستقبل میں پیش آنے والے مختلف موضوعات  اورمسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ فکری و نظری سطح پر حل سامنے آجائے تا کہ ملک کی ممتاز شخصیات، ملک کے بہترین فعال اذہان اور اجرائی امور انجام دینے والے عہدیداران ہر شعبے میں ایک صحیح فکر کے تعین، متعلقہ منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد کے بارے اپنے حصے کی ذمہ داریاں پورا کریں۔ ہمارا ہدف یہ ہے۔ فکری و نظری سطح پر کچھ خامیاں بھی ہیں اور کچھ اہم خوبیاں بھی ہیں۔ اسی طرح اجرائی سطح پر بھی خامیاں اور خوبیاں دونوں پائی جاتی ہیں۔ ان جلسات میں انہیں خامیوں اور خوبیوں کا جائزہ لینا مقصود ہے۔ اپنی صلاحیتوں کی نشاندہی بھی کرنا ہے اور کمزوریوں کا تعین کرکے انہیں برطرف کرنے کا طریقہ بھی تلاش کرناہے، اپنی خامیوں کو دور کرنا ہے اور اپنی خامیوں اورکمزوریوں کی اصلاح کرنا ہے۔
ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ نظریہ پردازی کے میدان میں ہم کہاں آگے بڑھے ہیں اور کہاں پیچھے رہ گئے ہیں۔ عورت کے مسئلے میں ہی آپ دیکھئے کہ ہماری دسترسی میں کتنے اسلامی اسناد و مآخذ اور اسلامی تعلیمات ہیں، قرآن کریم کی آیتیں ہیں، ایسی آیتیں بھی ہیں جن کا براہ راست اس موضوع سے تعلق ہے اور کچھ آیتوں میں عمومی طور پر بات کی گئی ہے جس میں یہ مسئلہ بھی شامل ہے اور یہ سب ہمارے پاس موجود ہیں۔ ان کی بنیاد پر ہمیں نظریہ اور تھیوری قائم کرنا چاہیے۔ اسے باقاعدہ ایک ایسے نظریہ کی شکل میں پیش کرناچاہیے جس کی تقسیم بندی کی جا سکتی ہو، جسے باقاعدہ استعمال کیا جائے، اس سے نتائج حاصل کئے جائیں جوسب کے لئے قابل استفادہ ہوں ۔ اس سے دوسروں کو بھی مستفیض کریں اور خود بھی منصوبہ بندی کے لئے استفادہ کریں ، دوسروں کو بھی پیش کریں  اور سوال کرنے والوں اور پوچھنے والوں کو بھی اس سے روشناس کرائيں۔ آج دنیا میں اسلامی جمہوریہ ایران سے جس کے پاس تیس سال کا اہم تجربہ ہے، سوال کرنے والے اور استفسار کرنے والے بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ اس کی اطلاع آپ کو بھی ہے اور کلی طور پر میں بھی اس حقیقت سے آگاہ ہوں۔ لوگ رجوع کرتے ہیں، سوال کرتے ہیں، مختلف موضوعات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں کہ اس کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا کیا نقطہ نظر کیاہے؟ اس کا جواب دیا جانا چاہیے۔ اس سے قبل دو جلسات منعقد ہو چکے ہیں، ایک اجلاس پیشرفت کے ایرانی و اسلامی نمونے کے موضوع پر تھا اور دوسرے اجلاس میں انصاف کے موضوع کا جائزہ لیا گيا تھا۔ یہ دونوں حالانکہ کے ایک دوسرے سے الگ موضوعات ہیں لیکن یہ ایک ہی سلسلے سے جڑی ہوئی کڑیاں بھی ہیں۔ اس ضمن میں بہت ہی اطمینان بخش امور  انجام دیئے گئے ہیں۔

میں چاہتا ہوں کہ میرےعزیز بھائیو ں اور بہنوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کیونکہ آج رات کے موضوع اور اس کے بعد جو ہم جو کام اور کوششیں انجام دینے والے ہیں ان پر اس کا اچھا اثر پڑے گا۔ آپ یہ جان لیجئے کہ پوری سنجیدگی سے کام انجام دیا جا رہا ہے۔ جناب ڈاکٹر واعظ زادہ نے اشارہ کیا۔ آپ نے اپنی رپورٹ میں کچھ چیزیں بیان کیں لیکن چونکہ اختصار کو مد نظر رکھا تھا لہذا حقیقت میں جو کام انجام پائے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں جس کا ذکر رپورٹ میں ہوا۔ بڑی سنجیدگی سے کام ہورہا ہے۔ خاص طور پر ترقی کے اسلامی و ایرانی ماڈل کی تدوین کے لئے جو مرکز قائم کیا گيا ہے وہ محققین کی مدد سے بڑے اچھے کاموں کی انجام دہی میں مصروف ہے۔ ان جلسات میں سے ہر ایک، حقیقت میں ایک زرخیز زمین میں ایک پودا لگانے کی مانند ہے۔ اب اس پودے کی آبیاری ایسے عوامل کی ذمہ داری ہے جن میں بعض دستیاب ہو چکے ہیں اور بقیہ کے لئے ہم کوشش و جد وجہد کررہےہیں۔ ویسے معاشرے کی عمومی فضا بھی اس پودے کی نشونما میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں کوئی جلدی نہیں ہے۔ بیشک ہم چاہتے ہیں کہ کام سرعت و تیزی کے ساتھ انجام پائیں یعنی ہم سستی اورغفلت کے بالکل قائل نہیں ہیں تاہم اس کام میں جلد بازی بھی مناسب نہیں ہے۔ ہم جلدبازی میں یہ کام نہیں انجام دینا چاہتے۔ ہماری کوشش ہے کہ یہ کام پوری سنجیدگی ،پختگی، مضبوطی، گہرائی اور پائداری کے ساتھ انجام دیا جائے جو دنیا میں کہیں بھی پیش کئے جانے کے قابل ہو اور ٹھوس انداز میں اس کا دفاع کیا جا سکے۔ انشاء اللہ یہ جلسات، آج کا جلسہ بھی اور گزشتہ کے جلسات بھی ایسا ہی کردار ادا کریں گے۔ مجھے اس کے بارے میں مکمل اطمینان حاصل ہے۔
عورت اور خاندان کا مسئلہ ہمارے ملک کے سب سے اہم اور بنیادی مسائل میں  شامل ہے۔ جن دوستوں اور حضرات و خواتین نے یہاں اپنے نظریات پیش کئے، اس حقیقت کو ثابت کردیا۔ چنانچہ اس نکتے پر جسے آپ نے تفصیل کے ساتھ اور اچھے انداز میں بیان کیا ہےمزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کی گفتگو سے ثابت ہو گیا کہ یہ مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ملک کے نظام میں عورتوں کا کردار اور ان کی شراکت غیر معمولی اور ممتاز ہے، بالکل اسی طرح جیسے خود انقلاب میں عورتوں نے ممتاز اور بنیادی کردار ادا کیا۔ اس اجلاس میں جو عزیز نوجوان تشریف فرماہیں اورجو جنگ کے زمانے میں اور انقلاب کی تحریک کے دوران نہیں تھے، شاید ان کے علم میں نہ ہو کہ کیا واقعات رونما ہوئے تھے۔ ان کے پاس اس کے بارے میں جاننے کا واحد ذریعہ وہ رپورٹیں ہیں جو انقلاب اور مقدس دفاع کے موضوع پر تیار کی گئی ہیں تاہم یہ سب ناقص اور بہت مجمل ہیں۔ اس کے متعلق بھی ہمارے سامنے ایک بڑا کام ہے جو انجام دیا جانا ہے۔ ویسے یہ اسٹراٹیجک نظریہ سازی کے موضوعات کی فہرست میں تو شامل نہیں ہے تاہم انتہائی اہم کاموں میں اس کا شمار ہوتا ہے جس پر محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ جن لوگوں کے پاس ماضی کا تجربہ ہے وہ جانتے ہیں کہ عورتوں نے دفاعی جدوجہد کے دوران بھی موثر کردار ادا کیا اور انقلابی مہم کے دوران یعنی ایک ڈیڑھ سال کے عرصے میں جس میں انقلابی تحریک ملک گیر سطح پر پہنچی عورتوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ عورتوں کا کردار بے مثال کردار تھا۔ اگر ان اجتماعات اور ریلیوں میں عورتیں شامل نہ ہوتیں تو یقینی طور پر ان ریلیوں میں وہ اثر پیدا نہ ہو پاتا۔ بعض جگہوں پر جیسے ہمارے شہر مشہد وغیرہ میں تو مظاہروں کی شروعات عورتوں کے ہاتھوں سے ہوئی۔ یعنی عمومی سطح پر تحریک کا آغاز عورتوں نے کیا۔ مظاہرہ کرنے والی عورتوں کو پولیس کے تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا جس کے بعد مردوں کی مہم نے زور پکڑا۔ جدوجہد کے دوران بھی یہی صورتحال رہی اور اسلامی نظام کی تشکیل کے عمل میں بھی یہی سلسلہ جاری رہا۔ اسلامی نظام کی تشکیل کے بعد تیزی سے رونما ہونے والے تغیرات یعنی آٹھ سالہ جنگ میں، اس پرمشقت دور میں، ان کٹھن حالات میں بھی یہی صورت حال رہی۔ "حتی اذا ضاقت علیھم الارض بما رحبت" (1) جنگ کے دوران حالات بہت دشوار ہو گئے۔ کچھ لوگ تو جنگ کو ٹیلی ویژن اور ریڈیو سے دیکھتے اور سنتے تھے لیکن کچھ لوگ جسم و جان کے ساتھ میدان کارزار میں موجود تھے۔ جنگ کے زمانے کی جو پرجوش اور ولولہ انگیز رپورٹیں تیار کی گئي ہیں وہ بالکل درست ہیں۔ میں مجاہدین کی یادوں پر مشتمل کتابیں بہت پڑھتا ہوں لہذا مجھے معلوم ہے کہ یہ سب بالکل درست ہیں۔ مجاہدت کا وہ شوق اور جوش و جذبہ اور شہادت کا وہ عشق اور موت سے بے خوفی جس کی عکاسی رپورٹوں میں پیش کی گئی ہے بالکل درست ہے۔ تاہم جنگ کو مجموعی طور پر دیکھئے تو یہ ایک سخت دور تھا۔ جو فوجی دستہ محاذ کے اگلے مورچوں پر برسرپیکار ہے اور جوش و جذبے کے ساتھ لڑ رہا ہے، اسے یہ علم تو نہیں ہے کہ مرکزی کمانڈ میں پورے محاذ جنگ کے بارے میں کیا پوزیشن ہے، مرکزی چھاؤنی کے پیچھے ملک کی سطح پر کیا افکار طاری ہیں اور کیا دشواریاں ہیں؟ یہ بہت سخت دور تھا۔ ان دشوار حالات میں عورتوں نے جو کردار ادا کیا وہ غیر معمولی تھا۔ شہیدوں کی ماؤں کا کردار، شہیدوں کی ہمسروں کا کردار، میدان جنگ میں براہ راست شامل عورتوں کا کردار، لاجسٹک سپورٹ اور کبھی کبھار فوجی آپریشن میں عورتوں کا کردار، لاجسٹک سپورٹ میں، میں نے عورتوں کی کارکردگی کا خود بھی مشاہدہ کیا ہے، یہ کردار انتہائي غیر معمولی کردار تھا۔ یہ ایسے کارنامے ہیں جنہیں کسی بھی ترازو پر تولا نہیں جا سکتا اور جن کی قیمت کا کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ ماں کا کردار، شہید کی والدہ کا کردار، دو شہیدوں کی ماں کا کردار، تین شہیدوں اور چار شہیدوں کی ماؤں کا جو کردار سامنے آیا ہے وہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ان چیزوں کو زبانی بیان کر دینا آسان ہے۔ بچہ کواگر سردی ل‍گ جاتی ہے، دو چار مرتبہ کھانسی آجاتی ہے تو ہم کتنے بے چین ہو جاتے ہیں؟! لیکن یہاں یہ عالم ہے کہ کسی کا ایک بیٹا جاتا ہے اور شہید ہو جاتا ہے، دوسرا جاتا ہے وہ بھی شہید ہو جاتا ہے، تیسرا جاتا ہے اور وہ بھی مارا جاتا ہے!! یہ کوئی معمولی بات ہے؟! اس پر بھی ماں کا یہ عالم ہے کہ مادرانہ شفقت و الفت کے جذبات کے ساتھ ایسا کردار پیش کرتی ہے کہ سیکڑوں ماؤں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ان میں اپنے بیٹوں کو محاذ جنگ پر بھیجنے کی ہمت بڑھتی ہے!! اگر یہ مائیں اس وقت جب ان کے پارہ جگر کے جنازے آتے تھے اور کبھی جنازہ بھی نہیں صرف خبر شہادت آتی تھی، آہ و زاری کرتیں گلے شکوے کرتیں، امام خمینی (رہ)  اور دفاعی اسٹراٹیجک پر اعتراض کرتیں تو یقینا دفاع ابتدائی برسوں اور ابتدائی مراحل میں ہی شکست سے دوچار ہو جاتا۔ تو شہداء کی ماؤں کے کردار کی یہ اہمیت اور حیثیت ہے کہ انھوں نے دفاع مقدس کو کامیابی کے مراحل سے ہمکنار کیا۔
شہیدوں کی صابر بیویاں، وہ نوجوان عورتیں جن کے نوجوان شوہر زندگی کے شریں لمحات اورابتدائی مراحل میں ہی ان سے جدا ہو گئے! پہلے تو ان کا اس بات پر راضی ہونا کہ شوہر ایسی جگہ جائے جہاں سے ممکن ہے کہ وہ واپس  نہ آئے، پھر اس کے بعد شوہر کی شہادت کا داغ اٹھانا اور اس پر فخر کرنا، یہ وہ کردار ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جو سلسلہ شروع ہوا اور جاری ہے، جنگ میں زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے سپاہیوں کے ساتھ شادی کرنے کا سلسلہ ہے، بہت سی خواتین نے جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے سپاہیوں سے شادیاں کیں۔ کوئی عورت ایک ایسے شخص سے جو جسمانی طور پر معذور ہے اور بعض اوقات اس جسمانی حالت کی وجہ سے مزاج میں تلخی پیدا ہو جاتی ہے، پوری ذمہ داری کے ساتھ، رضاکارانہ طور پر اور بغیر کسی جبرکے شادی کرتی ہے اور اس کی تیمارداری کی ذمہ داری اپنے دوش پر اٹھاتی ہے تو وہ یقینی طور پر بہت بڑا ایثار کر رہی ہے۔ اگر ایسا ہو کہ آپ کہیں کہ میں روزانہ دو گھنٹے آکر آپ کی خدمت کروں گی، آپ جب بھی جائیں گي اور خدمت کریں گی تو وہ آپ کا شکریہ ادا کرے گا لیکن اگر آپ زوجہ کی حیثیت سے اس کے گھر میں رہ کرخدمت انجام دے رہی ہیں تو پھر آپ کی صورت حال اور ہوگی، فطری طور پر یہ ماحول پیدا ہو جائے گا کہ آپ کو یہ خدمت کرنا ہی ہے۔ خواتین نے اس طرح کا ایثار کیا ہے۔ عورتوں کے اس کردار کی اہمیت کا اندازہ لگانا ممکن ہی نہیں ہے۔
میں یہ اقرار کرتا ہوں  اورمجھے اس بات کا اعتراف ہے، کہ اس کردار کی اہمیت کا ادراک سب سے پہلے جس شخصیت نے کیا وہ ہمارے عظیم پیشوا حضرت امام خمینی (رہ) تھے۔ اسی طرح دوسرے بہت سے حقائق اور ظرافتوں اور باریکیوں کو سب سے پہلے انھوں نے ہی سمجھا، ہم میں کوئی بھی اس وقت تک ان کا ادراک نہیں کر سکا تھا۔ حضرت امام خمینی(رہ)  نے عوام کے کردار کی اہمیت کا بھی سب سے پہلے اندازہ لگایا۔ آپ کو لوگوں کی شراکت اور کردار کی اہمیت کا ادراک اس وقت ہو گیا جب کوئی بھی اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکا تھا۔ کچھ بڑے لوگ ہم سے بڑے نازیبا الفاظ میں کہتے تھے کہ آپ اس خیال میں ہیں کہ آپ ان لوگوں کی مدد سے بڑا کارنامہ انجام دینے میں کامیاب ہو جائيں گے؟! ان کا لہجہ اتنا ذلت آمیز اور مضحکہ خیزہوتا تھا کہ گویا جس کے بارے میں بات کر رہے ہیں وہ سرے سے انسان ہی نہیں ہے! لیکن حضرت امام خمینی (رہ) کا معاملہ مختلف تھا، حضرت امام خمینی (رہ) نے عوام کی اہمیت کو پہچانا، عوام کی قدر و منزلت کو درک کیا، ان کی توانائیوں کو سمجھا، ان کی صلاحیتوں کا انکشاف کیا اور پھر انھیں آواز دیدی ، حضرت امام خمینی(رہ) چونکہ صادق انسان تھے اور آپ کی آواز آپ کے نورانی دل کی گہرائیوں سے نکلتی تھی اس لئے لوگوں کے دلوں پر ان کی اواز کابہت ہی گہرا اثر تھا، نتیجہ یہ نکلا کہ سب لوگ میدان میں اتر پڑے۔ جس دن"کمیٹی" کی تشکیل ہوئی تھی تو مختلف اور گوناگوں طبقات کے لوگ آکر اس "کمیٹی" میں شامل ہوگئے۔ طلباء شامل ہوئے، اساتذہ شامل ہوئے، دینی مدارس کے طالب علم شامل ہوئے، علماء کرام شامل ہوئے، گلی و بازار سے لوگ آکر شامل ہوئے، سب نے "کمیٹی" کی رکنیت حاصل کی۔ جب جنگ کا وقت آیا تو سب حضرت امام خمینی (رہ) کے حکم کے مطابق محاذ جنگ کے لئے روانہ ہو گئے۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں جب فرمایا کہ جائیے، تعمیراتی کام انجام دیجئے تو سب کے سب ملک کے تعمیراتی امور میں مصروف عمل ہو گئے۔ مشکلات کو برطرف کر دینے کا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ میری نظر میں تو آج بھی ہم جو پیشرفت کر رہے ہیں یہ بھی حضرت امام خمینی (رہ) کے اشاروں کے مطابق عمل کرنے کا نتیجہ ہے۔ حضرت امام (رہ) نے اس انداز سے راستہ ہموار کیا کہ ہم ابھی طویل عرصے تک اس پر اپنا سفر جاری رکھ سکتے ہیں۔ لوگ اسی راستے پر آگے بڑھے اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل اسی منزل کی جانب گامزن اور رواں دواں ہے۔
حضرت امام خمینی (رہ) کی عورت کے مسئلہ میں بھی یہی خصوصیت تھی۔ حضرت امام خمینی (رہ) نے عورتوں کے نقش و کردار کی اہمیت کا پورا ادراک کرلیا۔ کچھ بزرگ علماء اس وقت ایسے تھے جن سے ہماری ملاقات اور گفتگو ہواکرتی تھی کہ عورتیں مظاہروں میں شرکت کریں یا نہ کریں، ان کا کہنا تھا کہ عورتیں مظاہروں میں شرکت نہ کریں۔ تاہم جس مضبوط و مستحکم حصار کا ہم نے سہارا لیا تھا اس سے ہمیں اطمینان ہوجاتا تھا اور انسان آسانی کے ساتھ اس طرح کے نظریات کے برخلاف عمل کرسکتا تھا جو بڑے اہم مراکز اور شخصیتوں کی جانب سے پیش کئے جاتے تھے،  اور یہ مضبوط اور مستحکم حصار حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کا نظریہ تھا، امام خمینی کی فکر اور ان کا پختہ عزم و ارادہ تھا۔ اس عظیم انسان پر اللہ تعالی کی رحمتیں ہمیشہ اور تا ابد نازل ہوتی رہیں۔
بہر حال عورتوں کا کردار بے مثال کردار ہے۔ اس کردار کے بھی اپنے کچھ تقاضے ہیں، کیونکہ اس کا ایک واضح مستقبل ہے۔ ابھی تو انقلاب کو بتیس سال گزرے ہیں۔ بتیس سال تو ایک انسان کی جوانی کی عمر ہوتی ہے، تو پھر ایک "تاریخ" کی عمر میں بتیس سال کچھ بھی نہیں ہیں۔ اس الہی نظام کو سیکڑوں سال زندہ رہنا ہے۔ ہم تو ابھی اس کی جوانی کے مرحلے کو دیکھ رہے ہیں۔ مستقبل میں قومی شراکت و کردار کے دائرے میں عورتوں کے موثر کردار کی بہت ضرورت ہے۔ لہذا ہمیں عورت کے مسئلے میں اور معاشرے میں پائی جانی والی اس صلاحیت کی حفاظت کے بارے میں بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ عورت کے مسئلہ پر خاص توجہ دینے کی پہلی دلیل ہے۔ عورت کے مسئلہ پر توجہ دینے کی دوسری دلیل، خاندان کا معاملہ ہے۔ آج  رات محترم مقررین نے خاندان کے موضوع پر بڑی عمدہ بحث کی۔ حقیقت میں  یہ بہت اچھا جائزہ تھا۔ مجھے فیصلہ کرنا ہو تو میں یہی کہوں گا کہ مجموعی طور پر بحث کا معیار بہت اونچا تھا۔ باتیں بھی بالکل درست تھیں، اعداد و شمار بھی ٹھیک تھے، تحقیق بھی بہت اچھی تھی، نتیجہ اخذ کرنے کی روش بھی بڑی معقول تھی، تو یہ بحث مختلف پہلوؤں سے بہت ہی عمدہ اور اچھی بحث تھی۔ صاحب استدلال ماہرین اور صاحب رائے دانشوروں نےاس موضوع کے الگ الگ پہلوؤں کا الگ الگ جائزہ لیا۔ آپ حضرات نے اس حساس اور انتہائی اہم موضوع پر باقاعدہ روشنی ڈالی اور یہ تمام پہلو کھل کر سامنے آئے۔ در حقیقت میں نے بہت استفادہ کیا۔
خاندان کا مسئلہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ یہ معاشرے کی اصلی بنیادوں میں سے ایک ہے، یہ معاشرے کے بنیادی خلیوں سے وابستہ ے۔ یہ کہنا مقصود نہیں ہے کہ اگر ایک خلیہ سالم و صحتمند رہے گا تو دوسرے خلیوں کی سلامتی بھی یقینی بن جائے گی اور اگر یہ خلیہ صحتمند نہ ہوگا تو دوسرے خلیے بھی صحت مند نہیں رہیں گے۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر خلیہ صحیح و سالم اور صحتمند ہو جائے تو آپ سمجھ لیجئے کہ پورا بدن صحتمند اور سالم ہو گیا کیونکہ بدن خلیوں کا ہی مجموعہ ہے، خلیوں سے ہٹ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ جسم کا ہر عضو خلیوں کا مجموعہ ہے۔ اگر ہم نے ان خلیوں کو صحتمند اور سالم بنائے رکھا تو ہمارا یہ عضو صحتمند رہے گا۔ تو خاندان کا مسئلہ بھی اتنا ہی اہم ہے۔
ملک میں صحیح و سالم ، صحتمند، زندہ اور پرجوش خاندانوں کے بغیر اسلامی معاشرے کی پیشرفت ممکن ہی نہیں ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں خاص طور پر ثقافتی شعبے میں اچھے خاندانوں کے بغیر پیشرفت کا امکان نہیں ہوتا۔ یعنی یہ کہ خاندان کی بہت ضرورت ہے۔ یہاں یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ مغرب میں خاندان کا شیرازہ بکھر چکا ہے لیکن مغربی دنیا پھر بھی ترقی کر رہی ہے۔ کیونکہ مغرب میں خاندانوں کا شیرازہ بکھرنے کے نتیجے میں جو چیزیں سامنے آ رہی ہیں وہ اپنا اثر ضرور دکھائیں گی۔ اس میں جلدبازی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ تاریخی واقعات اور عالمی تبدیلیاں ایسی نہیں ہوتیں جن کا اثر فوری طور پر سامنے آ جائے۔ ان کے اثرات بتدریج اوررفتہ رفتہ سامنےآتے ہیں۔ ویسے اس وقت بھی اس کے کچھ اثرات سامنے ہیں۔ جب مغرب نے یہ حیرت انگیز ترقی کی تو اس زمانے میں خاندان اپنی اصلی شکل میں باقی تھے۔ یہاں تک کہ جنسیات کا مسئلہ بھی جنسیاتی اخلاقیات کے ضوابط کے دائرے میں تھا، البتہ اسلامی شکل میں نہیں بلکہ مغربی ضوابط کے مطابق باقی تھا۔ اگر کوئی مغربی تہذیب سے واقفیت رکھتا ہے تو وہ یورپ میں بھی اور امریکہ میں بھی یہ چیز دیکھے گا کہ حیا کا مسئلہ، تہمت زنی سے اجتناب، مردوں اور عورتوں کا ایک دوسرے کے بارے میں خاص اخلاقیات کو مد نظر رکھنا۔ یہ چیزیں مغرب میں تھیں۔ یہ انحراف اور اخلاقی ضوابط سے آزادی رفتہ رفتہ وہاں پیدا ہوگئی۔ ماضی میں اس کے کچھ مقدمات فراہم ہوئے جن کا نتیجہ آج سامنے آیا۔ مغرب کی آج کی حالت انتہائی تلخ اور دشوار مستقبل کی غماز ہے۔ تو عورت کے کردار کی اہمیت کا دوسرا پہلو خاندان کا مسئلہ ہے۔
تیسرا پہلو یہ ہے کہ گذشتہ بتیس برسوں میں ہمارے دشمن محاذ کی طرف سے ہم پر کئے جانے والے اعتراضات میں عورت کا مسئلہ سر فہرست رہا ہے۔ دشمن نے انقلاب کے ابتدائی دنوں سے ہی عورتوں کے مسئلہ میں ہم پر اعتراضات شروع کردیئے، ہمیں دہشت گردی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ملزم قرار دیا گیا۔ حالانکہ اس وقت تک کچھ بھی نہیں ہوا تھا اور یہ بات سامنے بھی نہیں آئي تھی کہ اسلامی نظام میں عورتوں کے بارے میں کیا پالیسی اختیار کی جائے گی۔ بس انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ اسلام عورت کا مخالف ہے، اسلام ایسا ہے،اسلام ویسا ہے۔ یہ سلسلہ آج تک چلا آ رہا ہے۔ لہذا ہمیں اس کا سد باب کرنا چاہیے، اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ عالمی رائے عامہ کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ سب لوگ تو عناد نہیں رکھتے، سارے لوگ تو برے نہیں ہیں۔ خباثت تو ایک خاص گروہ کے اندرہے جس کے اندر اسلام کے بارے میں سخت عناد اور دشمنی پائي جاتی ہے۔ خباثت تو ان پالیسی سازوں اور منصوبہ سازوں کے یہاں پائي جاتی ہے۔ ہمیں یہ کوشش کرنا چاہیے کہ رائے عامہ اس عظیم فریب کا شکار نہ ہونے پائے۔ اس کے لئے ہمیں میدان عمل میں قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔
البتہ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ مغربی دنیا میں جب خاندان کا مسئلہ آتا ہے تو وہ پہلو تہی کرنے لگتی ہے۔ مغرب والے تمام بحثیں کرتے ہیں، عورتوں کے موضوع پر اور دیگر موضوعات پر نظریہ پردازی کرتے ہیں لیکن کبھی خاندان کے بارے میں بحث اور تبادلہ خیال نہیں کرتے۔ کیونکہ اس مسئلے میں ان کا عیب سامنے آجاتا ہے۔ وہ عورت کے مسئلے پر تو بات کرتے ہیں لیکن کبھی بھی خاندان کا لفظ اپنی زبان پر نہیں لاتے۔ حالانکہ عورت، خاندان سے جدا نہیں ہے۔ لہذا اس مسئلےہپر خاص توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔
آج کا اجلاس بھی بہت اچھا رہا۔ ہم نے آج بہت کچھ حاصل کیا احباب کی گفتگو سے بہت استفادہ کیا اور سب سے اہم بات جو ہماری سمجھ میں آئی وہ یہ ہے کہ عورت اور خاندان کے باب میں علمی لحاظ سے اور ماہرانہ تحقیق و بحث کے لحا
ظ سے جن پہلوؤں پر کام کرنا باقی ہے ان کی فہرست بہت طویل ہے۔ کام اتنے زیادہ ہیں کہ بعض احباب نے جو مراکز کی تشکیل کی تجویز پیش کی ہے وہ بالکل صحیح ہے، حقیقت میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔ البتہ ہم نے اپنے دفتر کے افراد سے، جناب واعظ زادہ اور دوسرے لوگوں سے عورت اور خاندان کے موضوع پر منعقد ہونے والے اس اجلاس کی سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کے طریقوں کے بارے میں پہلے ہی تبادلہ خیال کیا ہے اور بہت سی چیزیں ذہن میں ہیں۔ نظریہ پردازی کی سطح پر بھی انشاء اللہ سنجیدہ اقدامات انجام دیئے جائيں گے، اس موضوع کو عام کرنے کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں گے اور پھر اجرائی اقدامات بھی انجام دیئے جائيں گے۔ ویسے جب ایک مسئلہ معاشرے کی سطح پر رائج ہو جائے تو اس پر عملدرآمد کا مرحلہ دشوار نہیں رہ جاتا۔ یعنی وہی اعتراضات جو پارلیمنٹ، گارڈین کونسل اور مجریہ کے بارے میں پیش کئے جاتے ہیں وہ سب برطرف ہو جاتے ہیں۔ جب کوئی موضوع معاشرے کی سطح پر عام ہوتا ہے تو وہ ہوا کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور لوگوں کی سانسوں میں شامل ہو جاتا ہے، چاہیے سب لوگ اس کی تفصیلات سے آگاہ ہوں یا نہ ہوں۔ لہذا اس موضوع کی ترویج ہونا چاہیے اور اس سلسلے  میں ذرائع ابلاغ ، علماء کرام، اہم و بزرگ شخصیات اور یونیورسٹی کے اساتذہ کا کردار بہت اہم اور مؤثر ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اس میدان میں فکری اور نظری خامیوں کو دور کریں ہے۔ توانائی کی حد تک تحقیقاتی اور مطالعاتی سرمایہ کاری لازمی ہے۔ ہم احباب کے مقالوں کا مطالعہ کرکے، جو خلاصے کی شکل میں یا مکمل مقالے کی شکل میں فراہم کئے گئے ہیں جن پر میں نے سرسری نظر بھی ڈالی ہے، اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو اس مسئلے میں تحقیق و مطالعے پر جہاں تک ممکن ہو سرمایہ کاری کرنا چاہیے۔
دوسرا مرحلہ دنیا میں رائج نظریات اور افکار پر ان سے مرعوب ہوئے بغیر تنقیدی بحث کرنے کا ہے ۔ کسی سےمرعوب ہوئے بغیر بحث کرنے کا معاملہ بہت اہم ہے۔ البتہ آج کی شب میں نے پہلے مقرر سے لیکر آخری مقرر تک سب کی گفتگو میں یہ خصوصیت مشاہدہ کی ہے۔ میں نے باقاعدہ محسوس کیا کہ مغرب میں عورت اور خاص طور پر خاندان کے متعلق جو صورت حال ہے اس پر تنقیدی لحاظ سےبحث کی گئی۔ البتہ آپ حضرات نے مغرب پر جو نکتہ چینی کی اس کا تعلق زیادہ تر خاندان کے مسئلے سے تھا۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ عورت اور خاندان کے باب میں مغرب کی سب سے بڑی غلطی اور گناہ عورت کے بارے میں اس کا خاص نقطہ نگاہ ہے۔ اس چیز کو چند جملوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ عورت کی سب سے زیادہ توہین اور اس کے وقار کو مجروح کرنے میں مغربی پالیسیوں کا کردار ہے۔ یہی انتہا پسند فیمینسٹ بھی جو کئی سطحوں پر مشتمل ہیں، نادانستہ طور پر عورت کی ذات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ نادانستہ کا لفظ ہم حسن ظن کی بنا پر استعمال کر رہے ہیں، یعنی جو لوگ ان امور میں سرگرم عمل ہیں بظاہر انہیں احساس ہی نہیں ہے کہ وہ کس گناہ کا ارتکاب کر رہے ہیں، ممکن ہے کہ پس پردہ کچھ سیاستداں ، صاحب اقتدار اور پالیسی ساز ایسے ہوں جو پوری آگاہی کے ساتھ یہ کام انجام دے رہے ہوں۔ چنانچہ صہیونزم کے پروٹوکول میں اس احتمال کے بارے میں بات کی گئي ہے۔ یعنی عورت حیثیت و شخصیت کو تباہ کرکے رکھ دینا اور اسے مردوں کی شہوت و ہوسرانی کا شکار بنادینا ،صہیونزم کےاس پروٹوکول کا حصہ ہے۔ اب ممکن ہے کہ کوئی اس پروٹوکول کے اعتبار اور صحت کے بارے میں سوال اٹھائے لیکن جب ہم صہیونزم اور اس سے وابستہ تبلیغاتی نیٹ ورک کو دیکھتے ہیں تو یہی دیکھتےہیں کہ وہ یہ کام عملی طور پر انجام دے رہے ہیں۔ اب اگر یہ چیز ان کے لئے ناگزیر نہیں ہے تو بھی ایک پسندیدہ کام کی حیثیت سے اسے انجام دے رہے ہیں۔ وہ بڑے الہماک  کے ساتھ یہ عمل انجام دے رہے ہیں، عورتوں کی توہین کر رہے ہیں۔ یعنی وہ اپنے رسم و رواج کو اسی غلط اصول پر استوار کررہے ہیں اگر کوئی اس کے خلاف اواز اٹھانا چاہے تو نہیں اٹھا سکتا۔ کوئی رسمی اجلاس ہو رہا ہے تو مرد کو رسمی لباس میں جانا ہے۔ کالر کے بٹن بند ہوں، آستین کے بٹن بند ہوں، ٹی شرٹ اور جینز پینٹ میں نہیں آنا ہے لیکن اسی اجلاس میں اگر خاتون موجود ہے تو اس کے لئے لازمی ہے کہ اس کےجسم کے اہم حصے عریاں ہوں، اگر خاتون پورے لباس میں آ گئی تو یہ معیوب مانا جائے گا۔ اگر جسمانی کشش کو چھپا کر آئے تو قابل اعتراض بات ہو جائے گی، اگر میک اپ کے بغیر آئے تو قابل اعتراض بات ہوگی، یہ طریقہ رائج ہو گیا ہے۔ اس پر وہ فخر بھی کرتے ہیں۔ مغرب میں، خاص طور پر امریکہ میں اور شمالی یورپ کے ملکوں میں ایسے اہم مراکز ہیں جہاں کام کرنے کے لئے شرط ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں جنسی کشش والے اعضاء کی نمائش کرے۔ اخبارات و جرائد میں اس کا پروپیگنڈہ بھی کرتے ہیں اور کسی کی پیشانی پر بل بھی نہیں پڑتے۔ مغربی ممالک میں یہ چیز عام ہو گئي ہے، رائج ہو گئی ہے۔ مغربی ممالک میں عورت کی شخصیت اور حیثیت پر یہ سب سے بڑی ضرب ہے، عورتوں کے لئے اس طرح کا ماڈل پیش کرنا عورتوں پر کاری ضرب لگانے کے مترادف ہے، یہ میں خود ان کی عورتوں کی بات کر رہا ہوں اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے ممالک کی عورتوں کی بات کر رہا ہوں، اپنے ملک کی عورتوں کی بات نہیں کر رہا ہوں، یعنی مغرب والے خود اپنی عورتوں کی مٹی پلید کر رہے ہیں۔ اس غلط ماحول کے سامنے کسی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ مغرب عورت اور خاندان کے مسئلے میں بڑی گہری اور تاریک کھائی میں  غرق وسرگرداں ہے۔ صرف خاندان کے مسئلہ میں نہیں بلکہ عورت کی شخصیت کے مسئلہ میں اور عورت کے تشخص کے مسئلہ میں مغرب بڑی عجیب گمراہی اور انحراف کا شکار ہے۔
ہمیں ان امور کا جائزہ لیتے وقت اپنے علمی سرمائے سے فائدہ اٹھانا چاہیے ہمارے پاس علمی سرمایہ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ عورت اور خاندان کے اسی مسئلے میں درجنوں نظریات تحقیق کے ذریعہ نکالے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں نظریہ پردازی کی جانی چاہیے، اسے باقاعدہ تھیوری کی شکل میں پیش کیا جانا چاہیے، اس کے مختلف پہلوؤں اور اجزاء پر گفتگو ہونی چاہیے۔ یہ درمیانہ مدت اور طویل مدت کے کام ہیں جنہیں لازمی طور پر انجام دیا جانا چاہیے۔ قرآن اور احادیث میں موجود اسلام کی خالص اور اعلی تعلیمات کو ریسرچ و تحقیق  کے ذریعہ استخراج کرنا چاہیے، اور ان پر عمل کرناچاہیے۔
البتہ میں نے کچھ چیزیں یہاں نوٹ کی ہیں لیکن وقت بھی کم ہے اور اس سے متعلق بہت سی باتیں بیان بھی کر دی گئي ہیں، لہذا میں ان باتوں کو دوہرانا نہیں چاہتا۔ جو چیزیں میں نے نوٹ کی ہیں ان میں سے جو بات میں یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ عورت کے سلسلے میں اسلام کا نقطہ نگاہ بڑا عزت افزا، باوقار اور غیر معمولی نقطہ نگاہ ہے۔ میری نظر میں عورتوں کے بہت سے مسائل اور مشکلات کی جڑ خاندانی مسائل ہیں کیونکہ عورت خاندان کا محور ہوتی ہے۔ ہمیں قوانین اور عادات و اطوار کا بہت بڑا خلاء نظر آتا ہے۔ بعض اوقات خواتین ہم سے رابطہ کرتی ہیں، ان میں پارلیمنٹ کی خواتین بھی ہوتی ہیں، دینی علوم کے مراکز کی خواتین بھی ہوتی ہیں۔ اسی طرح دوسرے مراکز کی خواتین بھی ہوتی ہیں جو اپنی مشکلات بیان کرتی ہیں۔ یہ مشکلات بنیادی طور پر خاندان کی داخلی مشکلات سے متعلق ہوتی ہیں۔ اگر عورت کو خاندان اور گھر کے اندر نفسیاتی اور ذہنی تحفظ حاصل ہو، اخلاقی سلامتی حاصل ہو، سکون حاصل ہو، آرام کا ماحول میسر ہو، شوہر حقیقی معنی میں اس کا لباس ہو جیسے عورت اپنے شوہر کا لباس ہوتی ہے "ھن لباس لکم و انتم لباس لھن" ، جس طرح قرآن نے کہا ہے ان کے درمیان الفت و محبت بھی ہو، اگر خاندان میں اس قانون "و لھن مثل الذی علیھن، فرائض کی طرح حقوق کی بھی فراہمی" (2) پر عمل ہو جو اصولی اور بنیادی چیزیں ہیں تو پھر خاندان کے باہر کی مشکلات کا سامنا کرنا عورت کے لئے آسان ہو جائے گا۔ وہ آسانی کے ساتھ ان پر قابو پا لے گی۔ اگر عورت اپنے گھر میں، اپنے محاذ کے اندر اپنی مشکلات سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئي تو بیشک سماجی میدان میں بھی وہ مشکلات پر قابو پا لے گی۔
خاندان  اور عورت کے سلسلے میں اسلام کی باتیں انتہائی اہم ،پرکشش، اور نمایاں ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام عورت اور مرد کے جنسیاتی فرق کو دوسرے درجے کا مسئلہ قرار دیتا ہے۔ اسلام پہلے درجہ پرانسانیت کو قراردیتا ہے جس میں جنسی بنیاد پر کوئي فرق نہیں ہے۔ خطاب انسان سے کیا گيا ہے۔ بیشک یہ ضرور کہا گيا ہے کہ "یا ایھا الذین آمنوا" یعنی اے ایمان لانے والو! مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، مونث صیغہ استعمال نہیں ہوا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس خطاب میں مرد کو عورت پر ترجیح دی گئي ہے۔ اس کی دوسری وجوہات ہیں جن سے ہم اچھی طرح آگاہ اور واقف بھی ہیں۔ اب میں اس بحث میں نہیں جاؤں گا کہ زبان فارسی میں کثیر تعداد میں لوگوں کے لئے ہم "مردم" کا لفظ استعمال کرتے ہیں جو "مرد" کے لفظ سے مشتق ہوا ہے۔ ہم کبھی نہیں کہتے "زنم"۔ انگریزی میں بھی "ہیومن" کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو "مین" سے بنا ہے۔ یہ اس بات کی علامت نہیں ہے کہ مردوں کے غلبہ کی وجہ سے یہ اصطلاحات رائج ہوئی ہیں اور لغت میں مردوں نے یہ تصرف کیا ہے۔ نہیں، اس کی وجہ دوسری ہے۔ بہرحال خاندان کے معاملے میں مرد کی حیثیت چہرے کی ہوتی ہے، عورت خاندان کا اندرونی حصہ ہے۔ یا یوں کہیں کہ مرد بادام کا سخت چھلکا ہے اور عورت اس چھلکے کے اندر پایا جانے والا مغز ہے۔ اس طرح کی مثالیں استعمال کی جاتی ہیں۔ مرد زیادہ ظاہر ہوتا ہے، اس کی خلقت ہی کچھ اسی انداز کی ہے، اللہ تعالی نے اسی ہدف کے تحت اسے پیدا کیا ہے، جبکہ عورت کو کسی اور کام کے لئے خلق فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرد میں ظاہری اور نمائشی پہلو کو نمایاں رکھا گيا ہے، اس کی وجہ یہی خصوصیات ہیں، اس میں ترجیح اور برتری کی کوئي بات نہیں ہے۔
انسانوں کے بنیادی مسائل کا جہاں تک تعلق ہے تو ان میں مرد اور عورت کے مابین کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔ آپ غور کیجئے! تقرب الی اللہ کی منزل میں حضرت فاطمہ زہرا، حضرت زینب کبری، حضرت مریم جیسی خواتین ہمیں نظر آتی ہیں جن کا رتبہ ہم جیسے افراد کے تصور سے بالاتر ہے۔ سورہ احزاب کی آیت میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس کی وجہ شاید یہی رہی ہو کہ عورت کے سلسلے میں زمانہ جاہلیت کے طرز فکر کو مٹانا مقصود تھا۔ «انّ المسلمين و المسلمات و المؤمنين و المؤمنات و القانتين و القانتات و الصّادقين و الصّادقات و الصّابرين و الصّابرات و الخاشعين و الخاشعات و المتصدّقين و المتصدّقات و الصّائمين و الصّائمات و الحافظين فروجهم و الحافظات و الذّاكرين الله كثيرا و الذّاكرات». اسلام سے ذکر تک ایک فاصلہ ہے، بتدریج طے ہونے والی ایک مسافت ہے۔ انسان اگر ان الفاظ پر غور کرے تو اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے۔ «اعدّالله لهم مغفرة و اجرا عظيما».(3) یہاں خضوع و خشوع کرنے والے مرد اور عورت میں، صدقہ دینے والے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔
سورہ آل عمران میں "ربنا" کے لفظ کے بعد کہا گیا ہے: «فاستجاب لهم ربّهم انّى لا اضيع عمل عامل منكم من ذكر او انثى بعضكم من بعض»(4) یعنی مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہی نہیں، ایک جگہ تو عصر جاہلیت کے اسی غلط تصور کو کچلنے کے لئے عورت کو مرد سے بالاتر قرار دیا گيا ہے۔ «ضرب الله مثلا للّذين كفروا امرأت نوح و امرأت لوط».(5) یعنی کفر کے مظہر کے طور پر ان دو عورتوں کو پیش کیا گيا ہے۔ «امرأت نوح و امرأت لوط». انہیں صرف عورتوں کا نمونہ قرار نہیں گيا ہے بلکہ کافر مرد اور عورت دونوں کا مظہر ٹھہرایا گيا ہے۔ «كانتا تحت عبدين من عبادنا صالحين فخانتاهما»(6) الی آخر. «و ضرب الله مثلا للّذين ءامنوا امرأت فرعون» اللہ تعالی نے اس آیت میں مؤمنین کے لئے بھی مظہر کے طور پر دو عورتوں کا نام لیا ہے۔ اب آپ ابتدائے تاریخ سے تا ابد غور کرتے جائيے مؤمن انسانوں  میں اولیاء، انبیاء، صالحین اور برگزیدہ شخصیات شامل ہیں، کتنی بڑی تعداد ہے جو آئی اور گئی۔ جب ان کے لئے کسی نمونے اور مظہر کو پیش کرنا مقصود ہوا تو دو عورتوں کو پیش کیا گيا۔ ان میں ایک فرعون کی زوجہ ہیں۔ اذ قالت ربّ ابن لى عندك بيتا فى الجنّة و نجّنى من فرعون و عمله»(7) تا آخر - دوسری خاتون مادر عیسی حضرت مریم ہیں «و مريم ابنت عمران الّتى احصنت فرجها».(8) یہ بڑی ہی حیرت انگیز چیز ہے۔ اسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ جنسی فرق کا مسئلہ ثانوی اور فروعی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ فرق صرف زندگی کے روزمرہ کے کاموں میں ظاہر ہوتا ہے، اس کا بنی نوع بشر کی منزل کمال کی جانب پیش قدمی کے عمل میں کوئی اثر اور معنی و مفہوم نہیں ہے۔ دونوں کے کاموں کی نوعیت الگ الگ ہے۔ جهاد المرأة حسن التّبعّل»؛(9) عورت کا جہاد شوہر کے لئے اچھی اطاعت شعاری ہے۔ یعنی اس جوان کے جہاد کا ثواب جو میدان جنگ میں گیا ہے اور جان ہتھیلی پر لے کر لڑ رہا ہے، عورت کو اچھی شوہرداری کے عوض عطا کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس عمل کی سختیاں اور زحمتیں جہاد سے کم نہیں ہیں۔ بلکہ شوہرداری اور شوہر کی اطاعت شعاری بڑی مشکل چیز ہے، مردوں کی جو توقعات ہوتی ہیں، ان کی جو بد مزاجی ہوتی ہے، ان کی جو کرخت آواز ہوتی ہے، ان کا جو بلند قد ہے، ان ساری چیزوں کے ساتھ عورت اگر گھر کے ماحول اور فضا میں محبت کی گرمی، الفت کی شیرینی اور سکون و آرام کی فضا پیدا کرتی ہے تو یہ اس کا بہت بڑا فن اور بہت بڑاکمال ہے۔ یہ حقیقت میں ایک جہاد ہے۔ یہ اس جہاد اکبر کا ایک حصہ ہے جو جہاد بالنفس کہلاتا ہے۔
خاندان کے موضوع کے متعلق بہت سی باتیں ہیں۔ زوجیت کا مسئلہ، ماں کے کردارکا مسئلہ، ان چیزوں پر الگ الگ بحث ہونی چاہیے۔ عورت خاندان کے اندر زوجہ کا کردار ادا کرتی ہے، اگر وہ ماں نہیں ہے تب بھی یہ کردار اپنے آپ میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ فرض کیجئے کہ کوئی عورت ماں نہیں بننا چاہتی یا کسی اور وجہ سے اس کے ہاں بچے کی پیدائش ممکن نہیں ہے تو بھی وہ بہرحال زوجہ ہے۔ زوجہ کے کردار کو بھی معمولی نہیں سمجھا جا سکتا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایک مرد معاشرے میں تعمیری کردار کا حامل بنے تو گھر میں اس کی بیوی کا ایک اچھی زوجہ ہونا لازمی ہے ورنہ یہ مقصد کامل نہیں ہو سکے گا۔
ہم نے انقلابی تحریک کے دوران اور تحریک کے کامیاب ہو جانے کے بعد کے ادوار میں اس کا باقاعدہ تجربہ کیا ہے۔ جن مردوں کی بیویاں جدوجہد میں ان کے ساتھ تھیں وہ تحریک میں بھی پائدار رہے اور انقلاب آ جانے کے بعد بھی صحیح راستے پر قائم اور ثابت قدم رہے۔ البتہ اس کے برخلاف بھی چند مثالیں دیکھنے کو ملیں۔ جب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں میرے پاس عقد نکاح کے لئے آتے تھے اور میں عقد پڑھتا تھا، البتہ اب اس سعادت سے محروم ہوں، تو اس زمانے میں میں کہتا تھا کہ بہت سی خواتین ہیں جو اپنے شوہروں کو بہشتی بنا دیتی ہیں اور بہت سی خواتین اپنے شوہروں کو جہنمی بنا دیتی ہیں۔ یہ ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ البتہ شوہر بھی بالکل ایسا ہی کردار ادا کرتے ہیں۔ خاندان کے مسئلے میں مردوں کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ زوجہ کا کردار بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ اسی طرح ماں کا کردار اہم ہے، جس کے بارے میں تفصیل سے بحث ہوئی اور بہت سی باتوں کو پیش کیا گيا۔
جو مسائل بہت زیادہ بیان کئے جاتے ہیں ان میں ایک مسئلہ عورتوں کی ملازمت کا مسئلہ ہے۔ عورتوں کا ملازم پیشہ ہونا ایسی چیزوں میں ہے جس سے ہم اتفاق کرتے ہیں۔ میں تو گوناگوں سماجی سرگرمیوں میں عورتوں کے حصہ لینے کا قائل ہوں، چاہے وہ اقتصادی اور معاشی نوعیت کی سرگرمیاں ہوں، سیاسی نوعیت کی سرگرمیاں ہوں یا رفاہی اور انسان دوستانہ سرگرمیاں ہوں۔ ہمارا آدھا معاشرہ عورتوں پر مشتمل ہے۔ کتنی اچھی بات ہے کہ ہم معاشرے کے اس نصف حصے سے ان مسائل میں مدد اور تعاون حاصل کر سکیں۔ البتہ دو تین بنیادی چیزیں ہیں جو ہرگز نظر انداز نہیں ہونی چاہیے۔ ایک بنیادی چیز تو یہ ہے کہ یہ سرگرمیاں عورت کے اصلی فریضہ یعنی زوجیت، خاندانی ذمہ داری اور ماں کے کردار کو متاثر نہ کریں۔ ایسا ممکن بھی ہے۔ مجھے یاد آتاہے کہ ایسے کچھ معاملے ہمارے سامنے آئے کہ خواتین اس التزام کے ساتھ ملازمت کرتی تھیں۔ البتہ اس کے لئے انہیں کسی حد تک سختی اور محنت برداشت کرنا پڑتی تھی۔ انہوں تعلیم بھی حاصل کی، پڑھایا بھی، گھر بھی سنبھالا، بچوں کی پرورش بھی کی، بچوں کو پال کر بڑا کیا۔ مختصر یہ کہ ہم خواتین کی اس طرح کی ملازمت اور روزگار سے اتفاق کرتے ہیں جو اس بنیادی مسئلے اور ذمہ داری پر اثر انداز نہ ہو  اور اسے متاثر نہ کر ے۔ کیونکہ اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اگر ماں نے گھر میں اپنے بچے کی تربیت میں کوئی کوتاہی کی یا بچہ پیدا ہی نہ ہونے دیا، اس نے اپنے انتہائی ظریف محبت و پیارکے تاروں کو جو ریشم کے دھاگے سے بھی کہیں زیادہ باریک اور نازک ہیں اپنی انگلیوں سے نہ کھولا تاکہ بچہ کہیں ماں کی محبت کی کمی کو محسوس نہ کرے کیونکہ مان کی محبت کی کمی کو کوئی دوسرا پورا نہیں کرسکتا  ۔ نہ باپ یہ کام کر سکتا اور نہ ہی کوئی اورشخص۔ یہ تو ماں کا کام ہے۔ یہ چیزیں ماں سے محضوص ہیں۔ باہر جو آپ کی ملازمت ہے، اگر اسے آپ نے انجام نہ دیا تو دوسرے دس لوگ اسے انجام دینے کے لئےمل جائیں گے ۔ لہذا ترجیح اس کام کو حاصل ہے جس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ پہلے اس کو انجام دینا چاہیے۔
اس سلسلے میں حکومت کی بھی ایک اہم ذمہ داری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ جن خواتین نے کسی بھی وجہ سے یا کسی بھی ضرورت کے تحت فل ٹائم یا پارٹ ٹائم کی ملازمت اختیار کی ہے ان کی مدد کرے  تاکہ انھیں گھر کے امور سنبھالنے اور بچوں کی پرورش کرنے اور ماں کے فرائض انجام دینےکا موقع مل سکے۔ ان کی چھٹیوں کا بندوبست کیا جائے، ان کی ریٹائرمنٹ کے وقت میں کوئی اصلاح کی جائے یا روزانہ کام کرنے کی مدت میں کمی کی جائے بہر حال  حکومت کو اس سلسلے میں خواتین کی کسی نہ کسی صورت میں مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ خواتین جو کسی وجہ سے ملازمت کر رہی ہے، وہ اپنے خاندان کی ذمہ داری بھی اچھے انداز سے ادا کرسکیں ۔
دوسرا اہم مسئلہ محرم اور نامحرم کا ہے۔ اسلام میں یہ مسئلہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اس مسئلے میں بھی زیادہ تر چیزوں کا تعلق خاندان کے مسئلہ  سے ہی ہے۔ یعنی اگر زوجہ اور شوہر دونوں کی نگاہیں پاک ہوں، دل صاف ہو، اس میں کوئی وسوسہ نہ ہو، گھر کا ماحول صحیح و سالم ، صحتمند اور محبت سے سرشار ہو، اس میں پیار کی گرمی ہو۔ اب اگر دفتر یا کارخانے میں دوسرے افراد بھی اسی طرح پاکیزہ نگاہوں اور صاف دل والے ہوئے تو وہاں کا ماحول بھی وہی محبت اور اپنائیت سے معمور ماحول ہوگا۔ اس کے برخلاف اگر آنکھوں میں خیانت ہو، زبان میں تضاد ہو، زوجیت کے متعلق وفاداری نہ ہو اور دل محبت سے خالی ہو تو دکھاوے کے لئے کتنی ہی کوشش کر لی جائے گھر میں سرد مہری کا ماحول رہے گا۔
میں نے آپ حضرات کے مقالات میں پڑھا ہے کہ یہی باہر جانا، یہی نوکری سے متعلق کام کبھی کبھی شک اور بدگمانی کا باعث بنتے ہیں۔ اب اگر شک پیدا ہو گیا تو خواہ اس کی کوئی صحیح وجہ ہو یا نہ ہو، اپنا اثر ضرور دکھائے گا۔ بندوق کی گولی کی مانند ہے جو نلی سے نکلی اور کسی کے سینے میں اتر گئی تو اس کی جان لے لیگی، اب گولی چلانے والے نے عمدی طور پر ایسا نہیں کیا ہے یا اتفاقیہ طور پر بندوق کا گھوڑا دب گیا، گولی کو اس سے کوئي فرق نہیں پڑتا۔ گولی یہ نہیں کہے گی کہ جس نے مجھے فائر کیا ہے چونکہ اس نے غیر ارادی طور پر ایسا کیا لہذا میں نشانہ بننے والے آدمی کا سینہ چاک نہیں کروں گی، گولی تو سینے کو زخمی کرتی ہوئی نکل جائے گی۔ تو شک بھی اپنا کام کر جائے گا، چاہے اس کی بنیاد صحیح ہو یا محض وسواس کی بنا پر یہ ظن و گمان پیدا ہوا ہو اور غلط وہم کے نتیجے میں یہ شک ہوا ہو۔
ایک اور اہم نکتہ شادی کا ہے۔ شادی کا خاص تقدس ہے ان ادیان کے نزدیک جن کے بارے میں میں نے پڑھا ہے۔ میں نے اس موضوع پر زیادہ تحقیق نہیں کی ہے۔ مناسب ہے کہ جو لوگ اس موضوع پر تحقیقاتی کام کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں، وہ کام کریں۔ اکثر جگہوں پر شادی کی تقریب ایک مذہبی تقریب ہوتی ہے۔ عیسائی یہ تقریب کلیسا میں منعقد کرتے ہیں، یہودی اس تقریب کو اپنے کنائس میں منعقد کرتے ہیں، مسلمان مسجدوں میں تو نکاح نہیں کرتے تاہم اگر ممکن ہوتا ہے تو مقدس مذہبی مقامات پر شادی کرتے ہیں، یا مقدس دینی ایام میں یہ عمل مذہبی افراد کی مدد سے انجام دیتے ہیں۔ جب ایک مذہبی انسان آکر تقریب میں شریک ہوتا ہے تو دین کی باتیں بیان کرتا ہے۔ یہ بالکل دینی پہلو ہے۔ تو شادی میں ایک طرح کا تقدس پایا جاتا ہے، اس تقدس کو ختم نہیں ہونے دینا چاہیے۔ تقدس ختم ہوتا ہے انہیں برے رسم و رواج  سے جو بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں پھیل گئے ہیں۔ یہ مہر کی بڑی بڑی رقمیں طے کرنا، اس خیال کے تحت کہ اس سے ازدواجی زندگی کو تحفظ ملے گا۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شوہر مہر دینے سے انکار کرتا ہے، اسے جیل میں ڈالا جاتا ہے۔ ایک سال، دو سال جیل کاٹتا ہے۔ اس پورے معاملے میں عورت کے ہاتھ کچھ بھی نہیں لگتا۔ اس کو کوئی فائدہ نہیں ملتا، اس کا گھر بکھر کر رہ جاتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا؛ ہم نے اپنی بیٹیوں، بہنوں اور ازواج کا عقد صرف اور صرف "مہر السنۃ" پر کیا ہے۔ اس کی یہی وجہ ہے۔ ورنہ اگر امام حسین علیہ السلام چاہتے تو ہزار دینار بھی مہر کی رقم رکھ دیتے۔ آپ کی مجبوری نہیں تھی کہ پانچ سو درہم پر ہی عقد پڑھتے۔ آپ بڑی رقم رکھ سکتے تھے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ مہر کی رقم کم رکھی۔
شادی کے یہ عظیم  اخراجات، یہ فضول خرچی، یہ کئی کئی جشن! واقعی انسان سن کر رنجیدہ خاطر ہو جاتا ہے۔ یہ ایسے امور ہیں جن پر معاشرے کی سطح پر کام ہونا چاہیے۔ ذی شعور اور با اثر افراد، صاحب نفوذ خواتین، یونیورسٹیوں کے اساتذہ، علماء کرام بالخصوص ذرائع ابلاغ ، میڈيا اور آئي آر آئی بی کو چاہیے کہ اس سلسلے میں کام کریں اور موجودہ صورت حال کو ختم کریں۔
مردوں کے کردار کے بارے میں بھی ایک نکتہ عرض کردوں۔ خاندان کی بات ہوتی ہے تو بار بار عورت کے کردار اور نقش کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ واضح ہے۔ وجہ یہ ہے کہ عورت خاندان اور گھرکا کلیدی اور محوری عنصر ہے۔ تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ خاندان میں مرد کا کوئی کردار اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ غیر ذمہ دار مرد، عیاش اور عورتوں کی زحمات کی قدر نہ کرنے والے مرد گھر کے ماحول کو خراب کردیتے ہیں گھریلوں فضا کو نقصان پہنچاتے ہیں  مرد کو  بیوی کا قدرداں ہونا چاہیے، معاشرے کو قدرداں ہونا چاہیے۔ واقعی گھریلو خواتین کے کام کی اہمیت اور قدر و منزلت کا احساس ہونا چاہیے۔ یہ عورتیں بھی باہر جاکر ملازمت کر سکتی تھیں، ان میں بعض اعلی تعلیم حاصل کر سکتی تھیں اور بعض اعلی تعلیم یافتہ خواتین تھیں۔ میں نے اس طرح کی خواتین کو دیکھا ہے، جن کا یہ کہنا ہے ہم نے اپنے بچے کی پرورش کے لئے، اسے بہترین تربیت دینے کے لئے ملازمت کا خیال دل سے نکال دیا۔ اس خاتون نے ملازمت نہیں کی اور ملازمت کی وہ جگہ بھی خالی نہیں رہی، دوسرے افراد نے جاکر وہ کام انجام دیا۔ ایسی خاتون کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ کچھ حاضرین نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ان خواتین کا بھی بیمہ ہونا چاہیے، یہ تجویز بالکل درست ہے، ان کا بیمہ ہونا چاہیے  اور ان کے لئےدیگر چیزوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔
خاندان میں اولاد کا بھی کردار ہوتا ہے۔ اولادخاندان کا ایک اہم حصہ ہے۔ ان کا فریضہ والدین کا احترام کرنا ہے۔ یہ بحث بھی کافی طولانی ہے۔
بہر حال میں آپ تمام حاضرین کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس اجلاس سے میں راضی اور مطمئین ہوں۔ الحمد للہ بہت اچھا جلسہ رہا ۔ اللہ تعالی ہم سے راضی و خوشنود رہے اور آپ حضرات نے جو زحمتیں برداشت کیں انہیں حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ)  قبول  اور منظور فرمائیں۔ انشاء اللہ اس موضوع پر باقاعدہ کام جاری رہے۔ عورت کے موضوع پر عالمی سطح کا کام انجام دینے کی تجویز بھی رکھی گئی، اس کے بارے میں گفتگو کرنے کا وقت نہیں بچا۔ میں نے اس تجویز کو دیکھا ہے، میں اس کی حمایت کرتا ہوں۔ عالمی مسائل کے سلسلے میں ایک خاتون نے گفتگو کی۔ عورتوں کے سلسلے میں عالمی سطح پر کام انجام دیا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالی آپ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ پروردگارا! اس اجتماع پر اپنی رحمت اور اپنا فضل و کرم اور ہدایت نازل فرما۔ ہم نے جو کچھ کہا اور جو سنا اور جو ہم آئندہ انجام دیں گے اسے خلوص کے ساتھ  اپنے راستے پر قرار دے۔ پروردگارا!  اسے ہم سے قبول فرما۔ پروردگارا! تمام حاضرین پر، پوری ایرانی قوم پر بالخصوص اس سلسلے میں  کام کرنے والے حکام پر اپنی توفیقات نازل فرما۔

والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته‌

1) توبه: 118
2) بقره: 228
3) احزاب: 35
4) آل‌عمران: 195
5) تحريم: 10
6) تحريم: 10
7) تحريم: 11
8) تحريم: 12
9) كافى، ج 5، ص 9

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔