ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا کنگاور میں عوامی اجتماع سے خطاب

بسم اللہ الرّحمن الّرحیم
الحمد للہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد وعلی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین۔

اللہ تعالی کا شکر گزار ہوں کہ اس نےصوبہ کرمانشاہ کے اس کنگاور کے علاقے میں آپ جیسے مومن، وفادار اور جوش و جذبے سے سرشار عوام کے اجتماع میں حاضر ہونے کی توفیق عطا ہوئی۔ اسی طرح میں ، صحنہ، سنقر اور ہرسین کے علاقوں سے اس اجتماع میں شرکت کرنے والے بھائیوں اور بہنوں اور اپنے نوجوان بیٹوں اور بیٹیوں پر درود و سلام بھیجتا ہوں اور اللہ تعالی کی بارگآہ میں  آپ کی توفیقات میں اضافہ کے لئے دعا کرتا ہوں۔
صوبہ کرمانشاہ کے دیگر علاقوں کی طرح اس علاقہ میں  بھی بعض خصوصیات موجود ہیں، جو اس علاقے کے عوام سے متعلق ہیں۔ وفاداری، مہر و محبت، شجاعت، بہادری، ایمان، اخلاص اور دینداری و پاکیزگی، پورے صوبے میں عام ہے لیکن اس صوبے کے بعض علاقوں کی اپنی مخصوص خصوصیات بھی ہیں۔ آپ کا شہر، کربلائے معلی اور دیگر مقدس مقامات کی زیارت کے لئے جانے والے زائرین کے لئے میزبان کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ کنگاور صدیوں سے حسینی عاشقوں کی منزل گاہ رہا ہے۔ دین دینداری اور علما ء سے لگاؤ، اس علاقے کی دیگر خصوصیات ہیں اور اس صوبے کے جید علماء کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔ اس صوبے کے معروف صاحب عرفان و سلوک اور تقوا میں مشہور عالم دین، الحاج آقائے بزرگ محمدی عراقی اسی شہر میں رہتے تھے اور اس شہر کے عوام اس عظیم دینی ہستی کے فیوضات و برکات سے بہت زیادہ بہرہ مند اور فیضیاب  ہوئے ہیں۔ آپ کے شہید فرزند ارجمند آقائے الحاج آقا بہاء الدین محمدی عراقی بھی اسی شہر میں پلے بڑھے تھے، جن سے میں طالب علمی کے زمانے سے آشنا تھا اور ان سے مجھے خاص انس و لگاؤ تھا، وہ بھی عالم دین تھے جو شہید ہوئے۔
آپ کا شہر اگرچہ، جنگ کے محاذ والے علاقے میں نہیں تھا لیکن اس کے باوجود نوجوانوں کے جہاد و دلاوری کے اہم مراکز میں شمار ہوتا تھا۔ مسلط کردہ جنگ کے دوران، محاذ کو سب سے زيادہ مددصوبہ کرمانشاہ کے اس علاقے اور اس شہر کے نوجوانوں نے بہم پہنـچائی۔ اسی بناء پر اس علاقے کے شہداء کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ اس شہر سے محاذجنگ کے لئے انواع و اقسام کی مدد کے بارے میں میدان جنگ کے دلیر اور محاذ سے آشنا سپاہی اچھی طرح واقف اور باخبر ہیں۔ اس شہر کے عوام پر خدا کی برکات نازل ہوں جو انقلاب کے دوران، مسلط کردہ جنگ کے دوران، اس سے پہلے کے دور میں اور گزشتہ دو عشروں کے دوران ہمیشہ امتحان میں کامیاب اور سرافراز رہے ہیں۔ یہ اس علاقے کی خصوصیات ہیں۔ یہ اس شہر کی اخلاقی، معنوی اور روحانی خصوصیات ہیں اور یہاں کے عوام کے ماضی کو ان کے مستقبل کی علامت سمجھا جا سکتا ہے۔ لہذا مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ کنگاور کا شہر اور کرمانشاہ کے اس علاقے کا مستقبل اللہ تعالی کی مدد اور اس کی توفیق سے بہت اچھا اور درخشاں و تابناک  ہوگا۔
البتہ خامیاں موجود ہیں، روزگار کا مسئلہ بالکل صحیح ہے جس کی طرف محترم امام جمعہ نے اشارہ فرمایا، روزگار کا مسئلہ صرفاسی شہر سے مخصوص نہیں ہے، پورے صوبے میں یہ مسئلہ درپیش ہے۔ روزگار اس صوبے کا بڑا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ حکام کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور ان شاء اللہ اس کے بعد زیادہ تاکید کے ساتھ اس کو پیش کیا جائےگا تاکہ اس مشکل کو دور کر نے کا صحیح راستہ اختیار کیا جائے۔ لیکن عوام کی شاندار استعداد وصلاحیت، عوام کا  یہ جوش و جذبہ، کام کے لئے یہ آمادگی، یہ شوق و ذوق، یہ انقلاب کی وفاداری وہ خصوصیات ہیں جو نوید بخش ہیں۔ ملک، اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام انہی خصوصیات کی بنا پر دشوار گزارمراحل کو طے کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔
میرے عزیز بھائیو اور بہنو! آج ملک کا ماضی کے ادوار سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا ، ہم ایسی قوم تھے، جو تمام شعبوں میں پیچھے اور پسماندگی کا شکار اور الگ تھلگ تھی۔ انقلاب نے ملک کو زندہ کیا، قوم کو زندہ کیا، اس ملک میں اختراعات ، ایجادات اور خلاقیت کا جذبہ بیدار کیا اور اس قوم کو عزت و سرافرازی عطا کی۔ ہم نے کافی راستہ طے کیا ہے۔ کافی پیشرفت  حاصل ہوئی ہے اور اس راستے پر ہم گامزن ہیں، ہم وسط راہ میں ہر گز نہیں رکیں گے۔
یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ جس کی طرف سورہ فتح کی اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ "انّ الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ یداللہ فوق ایدیھم فمن نکث ینکث علی نفسہ ومن اوفی بما عاھد علیہ اللہ فسیوتیہ اجرا عظیما"(1) جب کسی قوم نے کسی راستے پر قدم رکھا تو نتائج حاصل کرنے کے لئے اس راستے پر استقامت، اس پر آگے بڑھنے، راہ  میں نہ رکنے اور راستے میں حاصل ہونے والے فوائد پر قناعت نہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم نے یہ سوچ لیا کہ جو پیشرفت ہم نے کی ہے وہی آخری مرحلہ اور آخری نتیجہ  ہے اور ہمیں یہیں رک جانا چاہیے تو یہ بہت بڑی غلطی ہوگی۔ دوسری غلطی یہ ہوگی کہ ہم یہ سوچیں کہ چونکہ اب تک اس مدت میں ہمارے اصل اہداف پورے نہیں ہوئے تو اب امید کا دامن چھوڑ دیں اور یہ سمجھ لیں کہ یہ اہداف پورے ہونے والے نہیں ہیں۔ خداوند عالم اور اسلام ہمیں جو راستہ دکھاتا ہے یہ ہے کہ " فلذالک فادع واستقم کما امرت ولا تتبع اھوائھم" (2) جس راستے کو پہچان لیا ہے اس پر پوری توجہ اور استقامت کے ساتھ آگے بڑھو، محکم اور استوار قدم اٹھاؤ اور استقامت سے کام لو۔ اگر ہم نے استقامت سے کام لیا تو اعلی اسلامی اہداف تک پہنچ جائیں گے۔ وہی اسلامی معاشرہ جس کی میں نے آج سے چند روز پہلے کرمانشاہ میں تصویر پیش تھی اور وضاحت  کی تھی۔ وہ عدل، وہ حقیقی عوامی حکومت، وہ انسانی عظمت، وہ اسلامی آزادی، ہماری پیشرفت کے ساتھ، ہمارے قدموں کی استواری کے ذریعہ، ہمارے عزم و ارداے کے ساتھ، ہمارے دلوں میں نور امید کے باقی رہنے کی بدولت، خدا کی توفیق سے انہیں نوجوانوں ک ہاتھوں وجود میں آئے گی۔
ہمارے ملک کی نوجوان نسل حوصلہ مند اور امید بخش نسل ہے۔ جس طرف بھی نگاہ کرتے ہیں دیکھتے ہیں کہ ہمارے آج کے نوجوان، تعلیم یافتہ، معلومات رکھنے والے اور مثبت انقلابی خصوصیات کے مالک ہیں جو آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اعلی ترین اہداف پر نظر رکھ کے ان تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ بات آج ملک کے نوجوانوں میں دیکھی جا سکتی ہے اور یہ بات میں نے اس علاقے کے نوجوانوں میں واضح طور پر مشاہدہ کی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو ہمیں آگے بڑھاتی ہے اور امید عطا کرتی ہے اور یہ بات اس کے بالکل برعکس ہے جو ہمارے دشمن چاہتے ہیں۔
ایرانی قوم کے دشمن کوشش کر رہے ہیں کہ کہیں سے اس مستحکم صف میں اور اس مسلسل پیشرفت میں خلل پیدا کر دیں۔ کبھی تاریک پہلو بیان کرکے اور کبھی ایرانی قوم کی کامیابیوں کی پردہ پوشی کرکے، انقلاب کے آغاز سے آج تک ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ یہ ثابت کریں  کہ انقلاب اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکا۔ جس چیز سے انہیں پریشانی ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس انقلاب سے ایرانی قوم کو خود اعتمادی کا جذبہ ملا اور اس روشن ایمان کے ذریعہ یہ قوم مادی اور معنوی دشمنوں کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑی ہوئی اور استقامت و پائداری سے کام لے رہی ہے یہ عظمت ہمیں اسلامی انقلاب نے عطا کی ہے۔
ہمارا ملک دشمنوں کے قدموں میں تھا۔ تہران خبیث صیہونی ایجنٹوں کے لئے پرسکون اور پر امن جگہ تھی، وہ یہاں آتے تھے، ایرانی قوم کی جیب سے کھاتے پیتے تھے اور آرام کرتے تھے جو انہیں مقبوضہ علاقوں میں نصیب نہیں تھا۔ ہمارا ملک ایسی جگہ تھی جس میں زندگی کا طریقہ کار امریکہ، برطانیہ اور دیگر سامراجی اور استعماری ممالک کی پالیسیوں  کے مطابق ہوتا تھا ۔ جن لوگوں کے ہاتھ میں ملک کی حکومت اور اقتدار تھا نہ ان کے اندر توانائی تھی نہ ارادہ تھا اور نہ غیرت تھی کہ اس طرح اس قوم کے دشمنوں کے مقابلے میں کھڑے ہوتے اور نہ ہی انہیں عوام کی پشتپناہی حاصل تھی کہ بیرونی مداخلت کرنے والوں اور سامراجی طاقتوں کی مخالفت کرتے۔ جن کی پالیسیوں کی حکمرانی ایران پر تھی، وہ آج دیکھ رہے ہیں کہ ایرانی قوم پوری خود مختاری کے ساتھ ان کے عزائم کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ امریکہ کی بہت سی پالیسیاں بالخصوص مشرق وسطی کے بارے میں اس کی پالیسیاں ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ ایران کی استقامت کی وجہ سے ناکام اور شکست سے دوچا ہوئی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ وہ اس پر برہم ہوں گے۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ ایران کی غلط تصویر پیش کریں۔ انہوں نے ایران کے خلاف جو راستے اختیار کئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے۔ خاص طور پر آج جب علاقے کی اقوام میں بیداری  پیدا ہوئی ہے۔ علاقے کی اقوام کی ہوشیاری اور اسلامی بیداری نے ان کے سامنے ایرانی قوم اور ایران کے اسلامی انقلاب کو لاکھڑا کیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایرانی قوم اور اسلامی انقلاب کو نمونہ عمل نہ بنایا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایران، ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ ایران ان اقوام کے لئے نمونہ عمل نہ بنے۔ اس لئے وہ ایران کی غلط تصویر پیش کرتے ہیں بالخصوص ان اقوام کی نگاہ میں ایران کی ترقی وپیشرفت کم کرکے اور کمزوریاں بڑھا کے پیش کرتے ہیں۔
سب کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔ ملک میں جو اہل قلم ہیں، اخبارات و جرائد والے ہیں، جن کے پاس ذرائع‏ ابلاغ ہے، جن کے پاس پلیٹ فارم ہے، ان  سب کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پردشمنوں کی اس سازش میں اس کے مددگار نہ بن جائیں۔ بعض لوگ  دانستہ یا غیر دانستہ  اپنے خیالات کے اظہار سے اور اپنی باتوں سے دشمن کی مرضی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ سب کو خیال رکھنا چاہیے۔ دشمن آج علاقے کی اقوام کے سامنے اسلامی جمہوریہ ایران کی ناپسندیدہ تصویر پیش کرنا چاہتا ہے، تا کہ اس راستے پر نہ چلیں اور سامراج کے مقابلے میں استقامت ان قوموں کے درمیان پیدا نہ ہو جو ایرانی قوم کی اہم خصوصیت ہے، لہذا ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔
ملک کے حکام جہاں  کہیں بھی ہیں، مختلف سطح پر ان کی کوشش یہ ہو نی چاہیے کہوہ  خامیوں کو دور کریں، لوگوں کو درپیش  مشکلات برطرف کریں، ملک کے وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے حتی الوسع، عوام کی زندگی میں سہولیات پیدا کریں، سعی و کوشش اور محنت جاری رکھیں۔ یہ ملک کے حکام کا فریضہ ہے۔ جن لوگوں کے پاس اظہار خیال کے لئے پلیٹ فارم ہیں، جن کے پاس ذرائع ابلاغ ہیں، جن کی آواز معاشرے میں سنی جاتی ہے، وہ کوشش کریں کہ اس قوم کے نمایاں اور قومی پہلوؤں کو، دشمن کی خواہش کے مطابق چھوٹا بنا کر پیش نہ کریں۔ اہمیت کم نہ کریں۔ ایرانی قوم کی یہ ہوشیاری ہمیشہ باقی رہنی چاہیے۔
ہم نے بہت مشکل راستے پر آگے بڑھنا شروع کیا اور ہم نے اللہ تعالی کی مدد اور اس کی توفیق سے اس کے زیادہ سخت مرحلوں کو عبور کر لیا ہے۔ مسلط کردہ جنگ بہت دشوار مرحلہ تھا، برسوں سے مسلسل لگنے والی پابندیاں، دشوار مراحل میں سے تھیں۔ ایرانی قوم ان تمام دشوار مراحل سے مقتدرانہ اور قابل فخر انداز میں گزر گئی  ہے اور اس کے بعد بھی تمام خطرناک مراحل  اور نشیب و فرازکو استقامت، پائمردی اور کامیابی کے ساتھ عبور کرے گی۔ اس کے لئے قومی یکجہتی کی ضرورت ہے اور خوش قسمتی سے یہ یکجہتی آج قوم میں  پائی جاتی ہے۔ البتہ اس میں روز افزوں اضافہ ہونا چاہیے۔ لوگوں میں، عوام کے تمام طبقات اور مختلف حصوں میں اتفاق و اتحاد بہت اہم ہے الحمد للہ آج عوام اور حکام کے درمیان محبت و الفت اور اتحاد و اتفاق موجود ہے۔
یہ منظرجو آج آپ یہاں مشاہدہ کر رہے ہیں، کرمانشاہ کےدیگر اضلاع میں بھی یہی مناظر، یہی اظہار محبت اور یہی اجتماع دیکھے ہیں اور پورے ملک میں ایسا ہی ہے۔ دنیا میں کہیں بھی یہ چیز نہیں ہے۔ یہ اتحاد، یہ الفت، یہ حسن ظن، یہ محبت جو عوام اور اسلامی جمہوریہ کے حکام کے درمیان ہے، یہ ایرانی قوم اور اسلامی جمہوری نظام سے مخصوص ہے۔
پروردگارا ! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، یہاں کے عوام پر اپنی رحمت و برکات نازل فرما۔
پروردگارا ! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، ایرانی قوم کی چھوٹی اور بڑی تمام  مشکلات کوخود عوام اور حکام کی ہمت و جد وجہد کے ذریعہ حل فرما ۔
پروردگارا ! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، ایرانی قوم  کے دشمنوں کو نابود اور مایوس فرما۔
پروردگارا !  ہمارے عظیم  شہدا کی ارواح مطہر کو پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ محشور فرما۔
پروردگارا !  حضرت امام (رہ) کی روح مطہر کو ہم سے راضی اور خوشنود فرما۔ حضرت ولی عصر (ارواحنا فداہ) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی اور خوشنود فرما اور آپ کی دعائیں ہمارے شامل حال فرما۔
آپ تمام لوگوں اور کرمانشاہ کے مشرقی علاقےکنگاور کے لوگوں سے مل کر بہت خوشحال ہوا ہوں ۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1)فتح: 10

1)                      2) 2) شورای :15