ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا گیلانغرب میں عوامی اجتماع سے خطاب

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌
و الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على ءاله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين‌ سيّما بقيّةاللَّه فى الأرضين‌.

خداوند متعال کا بہت زیادہ شکر گزار ہوں کہ اس نے زندگی عطا کی اور ہم ایک بار پھر اس مقاوم اور پائدار  شہر اور یہاں کے غیور عوام کی قریب سے زیارت کرنے میں کامیاب ہوئے۔ درحقیقت دفاع  مقدس کے دوران یہ شہر امتحان کے میدان میں کامیاب اور سرافراز ہوا۔ وہ عزیز نوجوان جو آج گیلانغرب اور اس ضلع کے مختلف علاقوں میں زندگی بہت سخت اور دشوار دور میں اتنے عظیم کارنامہ انجام دیئے، میں نے ان ایام  میں کئی بار گیلان غرب کا دورہ کیا تھا۔ شہر کے اندر بھی اور شہر کے قریب واقع پہاڑی علاقے کا بھی دورہ کیا ، جہاں ہمارے فوجی تعینات تھے۔ میں نے یہاں کے مزاحمتی جوانوں کی مشکلات کو قریب سے دیکھا لیکن یہ لوگ انہی مشکلات میں شجاعت و دلیری کا مجسمہ بنے ہوئے تھے۔ یہ شہر جس پر بمباری کے ساتھ ہی ساتھ زمینی لشکر کشی کا خطرہ تھا، استقامت و پائداری کے ساتھ اپنا دفاع کرنے میں کامیاب رہا اور عوام نے شہر کو خالی نہیں کیا۔ یہ اس زمانے کی بڑی اہم اور شاندار یادگار ہے جس پر حقیقت میں فخر و مباہات کرنا چاہیے۔
آپ میں سے بعض عزیز نوجوان جنگ کے دور میں موجود نہیں تھے اور اگر تھے بھی تو کمسن رہے ہونگے اور چھوٹی عمر رہی ہوگی۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ نوجوان اپنے والدین اور اپنے گذشتہ بزرگوں کے شجاعانہ کارناموں پر فخر کریں، البتہ حق تو یہی ہے کہ اس پر افتخار کیا جائے، میں یہ نکتہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آج کا نوجوان یہ بات یاد رکھے کہ اس کی پرورش اس طرح کے ماحول میں، ایک ایسے علاقے میں اور ان صفات کے حامل خاندان میں ہوئی ہے۔
بیشک آج جغرافیائي سرحدوں کی حفاظت کے لئے ہم دفاع اور  جنگ کی حالت میں نہیں ہیں، ملک کے دفاع کے لئے مسلحانہ جنگ کا مسئلہ در پیش نہیں ہے لیکن قومی تشخص کے دفاع کے لئے مجاہدت کا مسئلہ آج بھی ہمارے سامنے ہے۔ دینی و اسلامی تشخص کی حدود کے دفاع کا معاملہ ہمیں در پیش ہے۔ عقیدے اور ایمان کی حدود کے دفاع کا مسئلہ ہمیں در پیشہمارے سامنے ہے۔ ہم سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر آج کا نوجوان مقدس دفاع کے زمانے میں نہیں تھا جو دشمن کے مد مقابل ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتا، اس کے حملوں کو روکتا، اپنے گھر اور اپنے شہر کا دفاع کرتا تو آج اسے شرف و افتخار کے میدان میں اپنی قومی شناخت، اپنے قومی وقار، اپنے مضبوط اسلامی عقیدے کی حفاظت میں کردار ادا کرنے کا موقعہ حاصل ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، باایمان عورتیں اور مرد حضرات موجودہ حساس دفاعی میدان میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس جذبے کی حفاظت کی جانی چاہیے۔ حکام کو اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ اس خطے میں اس طرح کی روحانی، معنوی اور انسانی خصوصیات موجود ہیں، اوراسی طرح مادی اقدامات کے لئے بھی راہیں ہموار ہیں۔
میں نے یہ بات شہر کرمانشاہ میں بھی کہی ہے اور آپ کی خدمت میں بھی پیش کرتا ہوں کہ یہ علاقہ پوری طرح آمادہ علاقہ ہے، پانی کے لحاظ سے، زمین کے لحاظ سے، آب و ہوا کے لحاظ سے، مختلف پہلوؤں سے اس میں توانائیاں اور صلاحیتیں موجود ہیں جو استعمال نہیں ہوئی ہیں۔ جیسا کہ محترم امام جمعہ نے ابھی بیان کیا ہے اور بالکل بجا کہا ہے، مجھے یہ بات بہت پسند آئی کہ امام جمعہ عوام کی ضروریات کو، شہر کی ضرورتوں کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہوئے ان کے حل کے لئے جد وجہد میں مصروف  رہے، علاقہ میں بے روزگاری بہت ہے اور اس کے ساتھ ہی بے روزگاری کے منفی اثرات بھی نمایاں ہیں جن میں منشیات وغیرہ کے مسائل شامل ہیں ۔
میں نوجوانوں سے اس بات کی توقع رکھتا ہوں کہ عزیز نوجوان معاشرے میں منشیات  کی روک تھام کے سلسلے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں ۔ اپنے معاشرے میں برائی اور  بری عادتوں کا مقابلہ کریں ۔ آج آپ سماجی طور طریقوں، عقیدے اور عمل کے دفاع کے میدان کے سپاہی ہیں۔ اسی طرح پوری ایرانی قوم، قومی تشخص اور ایران کی عظیم شناخت کی محافظ  اور نگہبان  ہیے۔
حکام کو بھی چاہیے کہ وہ اس فکر میں رہیں۔ ہم نے اس سفر کے دوران اپنی اطلاعات کو مکمل کر لیا ہے۔ حکام بھی آئیں گے اور انشاء اللہ انہیں بھی مطلع کیا جائے گا۔ حکومت کے اختیار میں جو کـچھ بھی ہوگا انشاء اللہ وہ خدمات ضرور انجام دی جائیں گی۔
قومی تشخص کی حفاظت کے سلسلے میں جو چیزیں بہت ہی مؤثر واقع ہو سکتی ہیں ان میں ایک دفاع مقدس کے زمانے کی شاندار اور عظیم یادوں کو زندہ رکھنا ہے۔ یہ واقعہ کہ آپ کے شہر میں ایک شجاع خاتون، دشمن فوج کے ایک سپاہی کو قید کر لیتی ہے اور حملہ آور فوج  کو خون میں نہلا دیتی ہے، ان یادوں کو آپ ہمیشہ زندہ رکھئے، ان کی حفاظت کیجئے۔ اس یاد کو تازہ رکھئے کہ کس طرح یہ شہر سخت اور دشوار حالات میں بھی دشمن کے حملوں کا سامنا کرتا رہا؟! دفاع مقدس کے زمانے کی یادوں کو زندہ رکھنا گیلانغرب کے عوام کے لئے تو بہت ضروری ہے، اسی طرح قصر شیریں کے عوام کے لئے، مغربی اسلام آباد کے عوام کے لئے بھی ان یادگار واقعات کو یاد رکھنا بہت ضروری ہے۔ ان علاقوں میں بھی مجاہد اور ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار  مرد اور عورتیں موجود تھیں، انہوں نے ایثار و قربانی اور اپنی بھر پور طاقت و توانائي کے ساتھ دشمن کے مقابلے میں استقامت کا مظاہرہ کیا۔ ایرانی قوم کے اس اسلامی تشخص کی حفاظت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں معاشرے کے عظیم دانشوروں کو، مجاہدین کو، خاص طور پر نمایاں شخصیات کو ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔
آپ ملاحظہ کیجئے کہ آج سامراجی طاقتیں متحد ہو گئی ہیں، ایک ساتھ جمع ہوگئی ہیں کہ اس شناخت  اور تشخص کو محو کردیں، ایران کی عظيم عظیم مجاہد قوم کو تنہا کر دیں۔ آج جس شخص کی بھی نگاہ میں دنیا کا سیاسی منظر نامہ ہے، عالمی سطح پر انجام دی جانے والی چالیں اس کی نظروں میں ہیں وہ دیکھ سکتا ہے کہ امریکہ اور یورپ کی سامراجی طاقتیں اور ان سے وابستہ ممالک ایرانی قوم کی استقامت کو متزلزل کرنے کے لئے اپنی پوری تلاش و کوشش کر رہے ہیں کہ کسی صورت میں ایرانی قوم کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیں، انہیں علم ہے کہ انقلاب کی اقدار اور اصولوں کے سلسلے میں عوام کی پائداری و استقامت کی کتنی بڑی اہمیت ہے۔
تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد  ان کے سیاستداں، پالیسی ساز، بقول ان کے، تھینک ٹینک اجلاس منعقد کرتے ہیں اور ایرانی قوم کے خلاف، اسلامی جمہوری نظام کے خلاف منصوبہ بندی کرتے ہیں لیکن اللہ تعالی ان کے ان شوم منصوبوں کو نقش بر آب کر دیتا ہے۔ حالیہ چند دنوں میں عالمی صہیونی نیٹ ورک سے وابستہ اخبارات و جرائد میں، الیکٹرانک میڈیا میں جو زبردست ہنگامہ آرائی کی گئی، امریکہ میں قیام پذیر چند ایرانیوں پر مہمل سی تہمت لگائی گئی اور اس بہانے سے ایران کو دہشت گردی کا حامی ملک ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان تمام فرضی اور جھوٹی کوششوں سے بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اور نتیجہ نکلے گا بھی نہیں۔ اس طرح کی سازشیں مسلسل ان کی جانب سے کی جاتی ہیں لیکن سب بے سود اور لاحاصل ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایران کو الگ تھلگ  کر دینا چاہتے ہیں جبکہ خود الگ تھلگ ہوکر رہ گئے ہیں۔ آج دنیا میں کسی بھی حکومت سے اتنی نفرت نہیں کی جاتی جتنی امریکہ سے کی جاتی ہے۔ آج علاقہ کی قوموں کے نزدیک امریکی حکومت سب سے زیادہ منفور حکومت بن گئي ہے۔ آپ الگ تھلگ ہوگئے ہیں کیونکہ آپ  تمام قوموں کی نظروں میں منفور ہیں۔
امریکی صدر نےدو سال پہلے مصر کا دورہ کیا تھا تاکہ اسلام اور مسلمانوں کی کچھ خوش آمد کریں اور عالم اسلام کی رائے عامہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کر سکیں۔ اس دورے کا نتیجہ کیا نکلا؟ معدودے چند لوگوں نے، اسی حکمراں طبقے نے، اسی معزول حسنی مبارک نے تو ان کی طرفداری کی لیکن علاقے کے عوام امریکی صدر کے اس فریب سے متاثر نہیں ہوئے۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ انہی ممالک میں امریکہ مخالف نعرے گونج رہے ہیں۔
امریکی صدر افغانستان کا دورہ کرتے ہیں افغانستان پر امریکہ کا غاصبانہ قبضہ ہے جہاں امریکہ اور نیٹو کے ایک لاکھ سے زائد فوجی موجود ہیں لیکن امریکی صدر کی ہمت نہیں پڑتی  کہ بگرام چھاونی سے  سے باہر قدم رکھ سکیں  جو امریکی فوجیوں کی چھاونی ہے اور کابل یا دوسری کسی جگہ پر افغان سیاستدانوں سے ملاقات کرسکیں۔ امریکی صدر فوجی چھاونی میں گئے اور وہیں سے واپس لوٹ گئے۔ آپ عوام کی اکثریت سے ڈرتے ہیں۔ آپ قوموں کی کاکثریت سے ڈرتے ہیں آپ آج خود امریکہ کے اندر بھی عوام کی اکثریت سے ہراساں ہیں اس کا ثبوت وال اسٹریٹ مخالف تحریک ہے جو نیویارک تک محدود نہیں رہی بلکہ دیگر امریکی شہروں میں بھی پھیل گئی ہے جہاں  عوام نے اپنی نفرت کا اظہار کر رہے ہیں  واضح ہے کہ امریکہ آج عوام سے الگ تھلگ ہوکر رہ گیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ کو الگ تھلگ کر دینے کے لئے، ایران سے خوفزدہ کرنے کے لئے پروپیگنڈہ پر پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے، ایران قوموں کا طرفدار ہے، ایران مظلوموں کا حمایتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ظلم کا مخالف ہے، ظالموں  سے بر سر پیکار ہے، ظالموں اور مستکبروں کی توسیع پسندی اور منہ زوری کے سامنے پوری طاقت سے ڈٹا ہوا ہے اور ہرگز پسپائی اختیار نہیں کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں بھی قومیں اسلامی جمہوریہ ایران  کے مؤقف سے آشنا ہیں اس سے محبت کرتی ہیں، اس کی حمایت کرتی ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران  کے نعرے ان کے دلوں کی گہرائیوں میں  ہیں۔ اس کے برخلاف امریکی حکام تو عراق میں بھی منفور ہیں، افغانستان میں بھی منفور ہیں، مصر میں بھی منفور ہیں، تیونس میں بھی انقلاب کے بعد آپ سے نفرت کی جا رہی ہے، لیبیا میں بھی آپ سے نفرت کی جاتی ہے جہاں آپ نے اپنے فوجی اتارے ہیں  اور فوجی  سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں وہاں کے لوگ آپ سے متنفر ہیں ، یہی نہیں آپ یورپ میں بھی منفور بن چکے ہیں۔
ایک یورپی ملک میں کچھ سال پہلے چند افراد حسب معمول بیٹھے اور انھوں نےامریکہ کے موجودہ صدر کے لئے امن کے نوبل انعام کی منظوری دے دی۔ یہ چند افراد تھے اور ان کا یہ عمل ان کے سیاسی مقاصد اور سیاسی روابط سے متاثر تھا۔ بعد میں جب امریکی صدر یہ انعام لینے گئے تو اسی ملک کے عوام نے ان کے خلاف مظاہرے کئے۔ معلوم ہوا کہ آپ اقلیت میں ہیں، آپ "ایک فیصد" پر مشتمل طبقے کے ساتھ ہیں۔ نوے فیصد سے  زائد عوام عوام آپ کے خلاف ہے۔ یہ چیز اسلامی جمہوریہ ایران کی حکمت عملی کے بالکل برخلاف ہے۔ اسی لئے دشمن ایرانی قوم کے خلاف جتنی چاہے محنت کرے، جتنی چاہے جد وجہد کر لے، جتنی چاہے کوششیں کر لے، اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ میں آپ عزیز نوجوانوں سے چاہتا ہوں کہ اس پوزیشن کی اہمیت کو سمجھیں اور خود کو قابل فخراور درخشاں  مستقبل کے لئے روز بروز اور بہتر طریقے سے آمادہ کریں۔
خوش قسمتی سے آج آپ کے سامنے علم و دانش کا میدان موجود ہے، ٹکنالوجی کا شعبہ آزادانہ سرگرمیوں کے لئے کھلا ہوا ہے، ملک کے حکام کو چاہیے کہ اقتصادی میدانوں کے دروازے بھی کھولیں تا کہ ملک کے نوجوان خود اعتمادی کے ساتھ مختلف میدانوں میں قدم رکھیں۔ یہ ملک آپ کا ہے۔ ہماری نسل نے تو جو کچھ بس میں تھا ان برسوں کے دوران انجام دیا، اب ملک نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے، ملک نوجوانوں کے اختیار میں ہے۔ مختلف شعبوں میں نوجوانوں کو چاہیے کو وہ خود کو آمادہ رکھیں۔ آپ کو دشمن کی کوششوں کا مقابلہکرنا چآہیے معاشرے میں جوش و جذبے کو ختم کر دینے والے عوامل کا مقابلہ کرنا چاہیے جو دشمن کی طرف سے پیدا کئے جا رہے ہیں، آپ اسلام کو مادی و معنوی دونوں میدانوں میں نجات بخش راستہ سمجھئے اور اسے پہچانئے۔
انشاء اللہ پرچم اسلام اس پورے علاقے کو نجات سے ہمکنار کرے گا۔ آج ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ مشرق وسطی کے اس عظیم اسلامی خطے میں اسلامی تحریک روز بروز پھیلتی جا رہی ہے، دشمن تنہا ہوتا جا رہا ہے، دشمن شکست اختیار کر رہا ہے اور اسلامی تحریک کی شمع کو گل کرنے کے لئے دشمن کی کوششیں ناکام ہوتی جارہی ہیں اور یہ شمع  روز بروز مزید فروزاں ہوتی جا رہی ہے۔
مجھے اس بات میں کوئي شک و شبہ نہیں ہے کہ مستقبل اسلام کا ہے۔ مستقبل میں حکمرانی اسلام کی ہوگی اور انشاء اللہ آپ نوجوان اللہ تعالی کی توفیق سے وہ دن ضرور دیکھیں گے جب پرچم اسلام اس پورے خطے میں لہرا رہا ہوگا اور ایک با وقار اور مقتدر اسلامی بلاک تشکیل پا چکا ہوگا۔
میں ایک بار پھر آپ اہل گیلانغرب اسی طرح قصر شیریں اور اسلام باد سے تشریف لانے والے حضرات کی زیارت پر مسرت اور خوشی کااظہار کرتا ہوں۔ دوسرے بعض شہروں تک نہ پہنچ پانے پر میں معذرت چاہتا ہوں۔ وقت اور امکانات محدود ہیں، حالانکہ ان علاقوں کے عوام سے بھی  ہمارا بہت گہرا انس و لگاؤ ہے۔
پروردگارا! محمد و آل محمد کا واسطہ، ہمیں اس قوم کی مخلصانہ اور حقیقی خدمت کی توفیق عطا فرما۔ پروردگارا! اس قوم کے دشمنوں کو مغلوب اور سرنگوں  فرما۔ پروردگارا! اس قوم کی آرزوؤں اور تمناؤں کو پورا فرما۔ حضرت ولی عصر (ارواحنا  فداہ )  کے مقدس قلب کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔ شہدا کی ارواح طیبہ اور حضرت امام (رہ) کی روح مطہرہ کو ہم سے راضی فرما۔

والسّلام عليكم و رحمة اللَّه و بركاته‌