ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کاکرمانشاہ میں بسیج اور رضا کار فورس کے جوانوں سے خطاب

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

والحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم محمّد و على ءاله الأطيبين الأطهرين المنتجبين سيّما بقيةاللَّه فى الأرضين‌.

کرمانشاہ کے شہریوں  اور یہاں بسنے والے عوام کو ماضی سے ہی میں دور و نزدیک سے کافی حد تک پہچانتا ہوں لیکن ان دو تین دنوں میں اللہ تعالی نے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے آپ عزیزوں سے ملاقات کرنے، مزاج کو قریب سے دیکھنے اور جائزہ لینے کا موقعہ فراہم کیا تو کرمانشاہ اور یہاں کے لوگوں سے میری عقیدت میں مزید اضافہ ہوگيا۔ ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے  ایرانی عوام کو اپنی ہدایت اور توفیقات کے ذریعہ صفا و پاکیزگی، ایمان و یقین، صداقت و اخلاص، مروت و رواداری، ہمت و شجاعت جیسے صفات سے آراستہ کیا ہے، الحمدللہ اس خطے اور اس صوبے کی نوجوان نسل بھی انہی منفرد اور ممتاز خصوصیات سے آراستہ و پیراستہ ہیں جو گذشتہ افراد سے انھیں میراث کے طور پرملی ہے۔ سب سے بڑھ کر اہم بات یہ ہےکہ اس صوبے میں انقلابی فکر، انقلابی لہر، انقلابی جذبہ، انقلاب کی روش، انقلاب کا پیغام زندہ ہے۔
آج کے تمام پروگرام بہت ہی دلچسپ تھے۔ میں ان پروگراموں کے منتظمین حضرات کا شکر گزار ہوں۔ اجتماعی طور پر پیش کیا جانے والا ترانہ، روایتی ورزش کا پروگرام، سب کچھ بہت اچھا تھا۔ جن نوجوانوں کو ورزش سے دلچسپی ہے، ان میں اس کے لئے آمادگی اور استعداد موجود ہے، میں چاہوں گا کہ اپنی اس فکر پر  سنجیدگي سے عمل کریں۔ ہماری نوجوان نسل معنوی ترقی کے ساتھ، فکری پیشرفت کے ساتھ اور انقلاب سے ملنے والے عطیات کے ساتھ ساتھ جن پر میں اجمالی طور پر روشنی ڈالوں گا، جسمانی طور پر بھی آمادہ رہے۔ جو افراد اہل معنی ہیں، اہل فکر ہیں، اعلی اہداف کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں ان کا جسمانی طور پر بھی صحتمند و توانا ہونا ضروری، انتہائي مفید اور ان کے مشن میں بھی مددگار اور مؤثر ثابت ہوگا۔
اس اجلاس میں سپاہ پاسداران انقلاب اور بسیج و رضاکار فورس کے متعلق گفتگو کی ہے۔ سپاہ، اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے اداروں سے واستہ ایک اہم ادارہ ہے جو انقلاب اسلامی کی گہری جڑوں سے وابستہ ہےاور بسیج رضا کار فورس بھی انقلاب سے وابستہ واقعات و تغیرات کا انتہائی اہم اور بے نظیر حصہ ہے جس کا باریکی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
ایک چیز جو ہر عمومی تحریک اور انقلاب میں ضروری ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس تحریک اور مشن کے بنیادی افکار و نظریات کی اساس پر اصطلاحات وضع کی جائیں اور ساتھ ہی متعلقہ ادارے قائم کئے جائيں۔ جب حکومت اسلامی، نظام اسلامی اور بیداری اسلامی جیسا جدید نظریہ پیش کیا جاتا ہے تو معاشرے میں نئے مفاہیم زیر بحث آتے ہیں لہذا ضروری ہے کہ تحریک کے تناظر میں مناسب اصطلاحات بھی وضع کی جائيں۔ اگر ہم نے دوسروں کی  رائج اصطلاحات سے استفادہ کرنے کی کوشش کی تو ماحول خراب ہو جائےگا۔ باتیں ادھوری رہ جائیں گی۔
ہم جمہوریت سے متفق ہیں، آزادی کے بھی حامی ہیں لیکن ہم لبرل ڈیموکریسی کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ حالانکہ لبرل ڈیموکریسی کا ترجمہ بھی  یہی آزادی اور یہی جمہوریت ہے لیکن لبرل ڈیموکریسی کی اصطلاح عرف عام میں، دنیا کے لوگوں کے علم میں کچھ ایسے مفاہیم کی حامل ہے جنہیں ہم پسند نہیں کرتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے مد نظر پاکیزہ، صحتمند اور خالص مفہوم پر اس اصطلاح کا اطلاق ہو۔ لہذا ہم نے اپنے پسندیدہ نظام کے لئے نئے نام کا انتخاب کیا۔ ہم کہتے ہیں؛ اسلامی جمہوریت یا اسلامی جمہوری نظام ۔ یعنی ہم نے نئے نام کا انتخاب کیا۔ اسی طرح دولت و سرمائے کی منصفانہ تقسیم اور اس سے تمام افراد کو بہرہ مند کرنے کے لئے جو اسلام کے کلیدی اور اعلی اہداف میں شامل ہے ہم کبھی بھی اشتراکیت کا لفظ استعمال نہیں کرتے۔ حالانکہ سوشلزم لغوی معنی کے لحاظ سے اسی مفہوم کا حامل ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ اور مفاہیم بھی وابستہ ہو گئے ہیں جن سے ہم متفق نہیں ہیں۔ یہ تاریخ میں اور سماج میں کچھ ایسے لوازمات سے جڑ گیا ہے کہ ہم انہیں قبول نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے بائیں بازو کے حلقوں اور مارکسزم  میں جو اصطلاحات رائج تھیں اور بہت مشہور تھیں ان سے اجتناب کرتے ہوئے "استکبار" " استضعاف" "عوامی ماہیت" جیسی اصطلاحات وضع کیں اور ان کی ترویج کی۔ ہم نے وضع کیں یعنی انقلاب اپنے ساتھ انہیں لے آیا۔ ورنہ ایسا نہیں ہے کہ چند افراد نے مل بیٹھ کر اس سلسلے میں کوئی  حتمی فیصلہ قائم کیاہو۔
اسی طرح اداروں اور تنظیموں کی تشکیل کا مسئلہ ہے۔ جب ایک انقلاب اور تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو جاتی ہے تو ضروری ہوتا ہے کہ ان اداروں اور تنظیموں کی تشکیل عمل میں لائی جائے جو انقلاب کے اعلی اہداف کی تکمیل کے لئے کام کریں۔ یہ بھی ایک بڑا مرحلہ ہوتا ہے  جو کسی تحریک کو در پیش ہوتا ہے کہ معاشرے میں سرگرم عمل اداروں میں تبدیلی لائی جائے اور دوسرے یہ کہ ضرورت کے مطابق نئے ادارے قائم کئے جائیں۔ یہ دونوں ہی کام بہت دشوار ہوتے ہیں، یہ دونوں ہی بڑے طاقت فرسا کام ہیں۔ اسلامی انقلاب نے یہ دونوں کام انجام دیئے۔ آپ عسکری شعبے میں دیکھئے تو فوج کے محکمہ کی تشکیل کسی اور نظام نے، کسی اور ثقافت نے اور دوسرے عناصر نے کی تھی لیکن یہ بدل کر انقلابی فوج بن گئی، دیانتدار اور با ایمان فوج بن گئی، اس کا ڈھانچہ بھی بدلا اور اس کی روش میں بھی تبدیلی پیدا ہوئی، اس کے نعرے بھی بدلے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک نیا ادارہ بھی انقلاب کے بطن سے رونما ہوا اور وہ سپاہ پاسداران انقلاب کی  فورس پر مشتمل ہے اگر یہ دوسرا مرحلہ انجام نہ پاتا تو پہلا بھی انجام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ یہ اسلامی انقلاب کے فن پارے ہیں اور ہمارے عظیم الشان حضرت امام ( رحمۃ اللہ علیہ) اس فن کو عملی جامہ پہنانے والے اور معاشرے اور مستقبل کی ضرورتوں کا صحیح ادراک رکھنے والی ہستی تھے۔ آپ نے اپنے ٹھوس مؤقف اور مربوط مساعی کے ذریعہ اسے عملی جامہ پہنایا۔
رضاکار فورس کی یہ عظیم مہم، یہ اہم ابتکار عمل جس کا سارا انتظام حضرت امام ( رحمۃ اللہ علیہ) نے کیا، بسیج کی تشکیل کا مطالبہ حضرت امام (خمینی) کا تھا، (بسیج کی شکل میں تیار ہونے والی) دو کروڑ کی فوج کی بات حضرت امام (خمینی) نے ہی کی تھی۔ یہ بھی انقلاب کے ان معجز نما کارناموں میں سے ہے جو حضرت امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے انجام دیئے۔
میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ جب ایک ایسا نظام، ایک ایسا ملک، ایک ایسی قوم ان اعلی اور بظاہر ناممکن دکھائی دینے والے اہداف کے ساتھ دنیا کے ظالمانہ نظام کے مقابلے میں، بڑی طاقتوں کے عالمی تسلط کے مد مقابل، توسیع پسند طاقتوں کے مدمقابل، استعمار اور استکبار کے مد مقابل کھڑی ہو جائے تو بالکل واضح ہے کہ اس کے سامنے بہت بڑے اور طاقتور دشمن ہوں گے۔ بڑی طاقتیں اس کے سامنے آئيں گی اور اس کو شکست دینے کی کوشش کریں گی لہذا اسے چاہیے کہ خود کو اس کے لئے پہلے ہی تیار رکھے۔ انہی تیاریوں کا ایک پہلو بسیج اور رضاکار فورس کی تشکیل ہے۔
حضرت امام ( رحمۃ اللہ علیہ) نے یہ بات کہی کہ جب کسی معاشرے میں دو کروڑ انسان مسلحانہ مجاہدت کے لئے آمادہ ہوں تو دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے ٹیڑھی نظر سے نہیں دیکھ سکتی، اسے سو دفعہ سوچنا پڑے گا کہ ایسی قوم پر حملے کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ دو کروڑ کی فوج کی بات امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے کی۔ البتہ دو کروڑ کی بات اس زمانے کی تھی جب ملک کی کل آبادی چار کروڑ تھی، بعد کے ادوار میں ہم نے کروڑوں کی فوج کی اصطلاح استعمال کی۔ امر واقعہ بھی یہی ہے۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پورا معاشرہ فوج میں تبدیل ہو جائے، سب فوجی وردی زیب تن کر لیں اور سب کے ہاتھوں میں اسلحہ نظر آنے لگے۔ مراد یہ ہے کہ سب دفاع کے لئے تیار رہیں، مجاہدت کے لئے آمادہ رہیں۔ جس قوم میں سارے افراد مجاہدت اور جد و جہد کے لئے ہمیشہ آمادہ ہوں اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ جس قوم میں اس طرح کی آمادگی ہوگی اس کے خلاف دشمن کی ہر سازش ناکام رہے گی۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے یہی کارنامہ انجام دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے سنہ انیس سو اناسی میں بسیج کی تشکیل کا اعلان کیا اور آخر عمر تک آپ نے اسی رضاکار فورس پر خاص توجہ رکھی۔ بسیج، عشق و عقیدت کی درسگاہ ہے، یہ گمنام شہیدوں کا مکتب ہے، بسیج اللہ کے مخلص بندوں کا لشکر ہے۔ یہ عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے جملے ہیں۔ یہ ملک و قوم اور نظام کی زمانہ حال اور مستقبل کی ضرورتوں کے صحیح ادراک کی نشانی ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جس کی ہمیشہ ضرورت رہے گی، پچاس سال گزر جانے کے بھی اس کی ضرورت رہے گی۔
سنہ انیس سو اناسی میں جب بسیج کی تشکیل عمل میں آئی تو اس سے اس وقت کی ضرورتیں پوری ہوئيں، وہ بھی اہم ترین ضرورتیں تھی، آج رضاکار فورس سے دوسری ضرورتیں پوری ہو رہی ہیں۔ جو مسائل آج در پیش ہیں، اس زمانے میں نہیں تھے۔ آج رضاکار فورس علم و دانش کے شعبے میں، تحقیقات و ایجادات کے شعبے میں پیش پیش ہے۔ یہ بھی حضرت امام ( رحمۃ اللہ علیہ) کا فن ہے۔ آپ نے سنہ انیس سو اٹھاسی میں جو تحریر رقم فرمائی ہے، پہلی تحریر کے تقریبا دس سال بعد اس میں آپ نے طلباء سے کہا ہے کہ یونیورسٹی طلباء اور دینی طلبا کی رضاکار فورس تشکیل دیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رضاکاری کے جس جذبے کی ملک کو ضرورت ہے اس کا احاطہ ہر شعبے پر ہے منجملہ ان شعبوں  میں جن کا تعلق دینی علوم کے مراکز سے ہے اور جن کا تعلق یونیورسٹیوں سے ہے۔ آج دینی علوم کے مراکز میں بھی "بسیجی" علمائے کرام موجود ہیں اور اپنے "بسیجی" ہونے پر انہیں فخر ہے۔ خود حضرت امام ( رحمۃ اللہ علیہ) بھی اس پر فخر کرتے تھے۔ اتنی عظمتوں کے باوجود آپ فرماتے تھے کہ مجھے بسیجی ہونے پر فخر ہے۔ یونیورسٹیوں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ یونیورسٹیوں میں بھی رضاکار طلباء اور رضاکار اساتذہ بہت آگے ہیں۔
آج تمام شعبوں میں ہمارے سامنے ایسے امور ہیں جو اس وقت نہیں تھے۔ اس زمانے میں علم و دانش کے شعبے میں ترقی کا یہ عالم نہیں تھا۔ ابتدائے انقلاب میں اسلامی نظام، انقلاب، رضاکار فورس، پاسداران انقلاب فورس اور فوج سب کا سارا ہم و غم یہ تھا کہ اس نئی تبدیلی کو قائم رکھیں، اس سرزمین پر اگنے والے اس پودے کی حفاظت کریں، اسے مرجھانے اور ضائع نہ ہونے دیں۔ ملک کے اسی مغربی علاقے میں، جنوب مشرقی خطے میں، شمال مشرقی علاقے میں، جنوب مغربی حصے میں، مختلف علاقوں میں استکباری طاقتیں، دشمنان انقلاب، دشمنان اسلام، دشمنان ایران کی ریشہ دوانیاں چل رہی تھیں۔ اس وقت باایمان اور انقلاب کے گرویدہ نوجوان رضاکاری کے جذبے کے ساتھ میدان میں آتے تھے اور اپنی جانیں قربان کر دیتے تھے۔ کرمانشاہ میں اس کی جو مثالیں ہیں ان میں بعض کا ذکر میں نے شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات میں کیا، اس کے ایک روز قبل بھی میں نے اس بارے میں گفتگو کی کہ انقلاب کے ایک مہینے بعد یہ منظر نگاہوں کے سامنے تھا کہ اسی کرمانشاہ سے نوجوان باہر آ رہے ہیں۔ اسی کو رضاکار کہتے ہیں۔ رضاکاری در حقیقت ایمان و عشق اور خود اعتمادی کی گہرائيوں سے نکل کے سامنے آنے والا جذبہ ہے جس کے ساتھ جدت عمل بھی ہوتی ہے۔
ہر شعبے میں جدت عمل اور خلاقی صلاحیتوں کے مظاہرے کی ضرورت ہے۔ میں ابھی روایتی ورزش کا مشاہدہ کر رہا تھا جو پیش کی گئی، یہ بھی جدت عمل کی ایک مثال تھی۔ ہم نے روایتی ورزش نوجوانی کے ایام میں دیکھی تھی اور مختلف جگہوں پر بارہا اس کا مشاہدہ کیا تھا، سب جگہ ایک معینہ روش پر یہ ورزش کی جاتی تھی اور ہمیشہ ہر جگہ اسی کو دوہرایا جاتا تھا۔ البتہ وہ بھی بری نہیں تھی، بہت اچھی تھی لیکن اس میں اتنی خلاقیت نہیں تھی۔ آج میں دیکھ رہا ہوں کہ ان نوجوانوں نے اسی ورزش کی بنیادی شکل کو باقی رکھا ہے تاہم اس میں انواع و اقسام کی نئی حرکتیں شامل کر دی ہیں، اس کو نکھارا ہے، اس کو سنوارا ہے اور ایک دلچسپ چیز تیار ہوکر سامنے آ گئی ہے۔ اسے کہتے ہیں ابتکار عمل۔ یہ جدت عمل روایتی ورزش کے شعبے میں کی گئی ہے، اسی طرح دیگر تمام شعبوں میں بھی اسی انداز سے کام کیا جا سکتا ہے۔ فوجی کمانڈ کے اندر ابتکار عمل، جنگ کے طریقے میں جدت عمل، جنگی وسائل کے سلسلے میں خلاقی صلاحیتوں کا مظاہرہ، فوجی آرائش کے سلسلے میں ابتکار عمل۔ یہ مسلح فورسز کے محکمے میں انجام دی جانے والی جدت عمل ہے۔ سفارت کاری کی نوعیت میں بھی جدت لائي جا سکتی ہے۔ سفارت کاری کا عظیم میدان گوناگوں شرانگیزیوں اور شیطنت سے بھرا ہوا ہے۔ سفارت کاری کا میدان شرانگیزی کا میدان بن چکا ہے، اس کا مشاہدہ آپ خود کر رہے ہیں۔ اللہ کا ہم شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمارے دشمنوں کو ان افراد میں سے قرار دیا جو یہی نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ کیا کرنا چاہیے؟ بار بار اقدام کرتے ہیں اور بار بار غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں، ان کے پیر ہر بار لڑکھڑا جاتے ہیں اور وہ ہیں کہ عبرت لینے کو تیار نہیں ہیں۔ دوبارہ وہی غلطی دوہراتے ہیں۔ بالکل اپنی ان باتوں کی طرح جو اپنے بیانوں میں اور تبلیغاتی مہم میں دوہراتے رہتے ہیں۔ سفارتکاری کا میدان اس طرح کا میدان ہے۔ یہاں بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہوتی ہے، جدت عمل کی ضرورت پڑتی ہے، بالکل نئے انداز سے پیش آنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب اسی انقلابی جذبے سے ممکن ہوا جسے ہم رضاکاری کا جذبہ کہتے ہیں، جسے ہم خلاقی صلاحیتوں سے آراستہ، ترقی پذیر اور خود اعتمادی کے جذبے سے سرشار نوجوان کا جذبہ کہتے ہیں۔
معیشت کے شعبے میں بھی یہی صورت حال ہے۔ پیداواری سرگرمیوں کے سلسلے میں بھی یہی چیز ہے، علمی تحقیقی شعبہ میں بھی یہی حالات ہیں۔ بنابریں ہم جس علاقے کو رضاکار کا علاقہ قرار دیتے ہیں اور جس میں ہم رضاکاری کا جذبہ پھیلانا چاہتے ہیں وہ کوئی محدود میدان نہیں، یہ صرف فوجی میدان نہیں ہے، ملک کے تمام شعبوں میں رضاکاری کے جذبے کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ رضاکاری کے جذبے کے ساتھ تعلیم، رضاکاری کے ساتھ اقتصادی سرگرمیاں، رضاکاری کے ساتھ سفارت کاری، رضاکاری کے ساتھ سیاست، رضاکاری کے ساتھ انتظامی سرگرمیاں، رضاکاری کے ساتھ انتظامی اقدامات، یعنی رضاکاری کا مفہوم ان تمام شعبوں کا احاطہ کر سکتا ہے۔ رضاکاری کے جذبے سے مراد یہ ہے ک اخلاص عمل کے ساتھ خلاقانہ انداز سے کام کرنا۔
رضاکار کے عمل کا اصلی ستون اخلاص ہے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے بقول "گمنامی" یعنی نام و نمود کی فکر میں نہ رہنا۔ فرماتے ہیں؛
«در كيش ما تجرد عنقا تمام نيست/در قيد نام ماند اگر از نشان گذشت».(1)
اللہ کے لئے کام کرنا جس کی لازمی شرط ہے اللہ پر اعتماد، ہمیں یہ یقین ہے کہ ہمارا عمل اللہ کی بارگاہ میں محفوظ رہے گا۔ آپ خلوت میں عبادت کرتے ہیں، اللہ سے راز و نیاز کرتے ہیں، کسی کو اس کی اطلاع نہیں ہوتی لیکن پھر بھی آپ کو یہ اطمینان رہتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے، اس عبادت کو لکھا جا رہا ہے، کرام الکاتبین الہی آپ کی اس عبادت کو قلمبند کرتے رہتے ہیں۔ لہذا«فمن يعمل مثقال ذرّة خيرا يره»؛(2) انسان اپنے عمل کو دیکھے گا۔ بالکل یہی صورت حال سماجی سرگرمیوں کی ہے۔ آپ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ایک عمل انجام دیتے ہیں، اللہ کے لئے کوئي اقدام کرتے ہیں، اللہ کے لئے کوئی فیصلہ کرتے ہیں، کسی کو اس کی خبر نہیں ہوتی، اس فیصلے کے لئے آپ کسی کے سامنے فخر و مباہات بھی نہیں کرتے۔ لیکن اللہ اس سب سے واقف ہے۔ وہ جانتا ہے، لکھتا ہے۔ آپ کو اللہ پر اعتماد ہے، اللہ تعالی کے سلسلے میں حسن ظن ہے۔ ہاں یہ ہے کہ دوسروں کو پتہ نہیں چل سکے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دوسرے لوگ ہمیں کیا دے دیں گے؟ اللہ سے ملنے والے اجر کے مقابلے میں لوگوں سے ملنے والے صلہ کی حیثیت ہی کیا ہے؟ رضاکار کا انداز فکر یہ ہوتا ہے۔ اسی لئے وہ اخلاص عمل کے ساتھ کام کرتا ہے، صرف اور صرف خدا کی خوشنودی کے لئے کام کرتا ہے۔ اخلاص ایک اہم خصوصیت ہے۔ جب اخلاص پیدا ہو جاتا ہے تو خود پسندی اور خود غرضی جیسے جذبات اپنے آپ ختم ہوتے جاتے ہیں۔ پھر انسان اپنے لئے زراندوزی کی فکر میں نہیں رہتا، یہاں وہاں ہاتھ پھیلانا گوارا نہیں کرتا۔ کیونکہ ان سب برائیوں کی جڑ شرک ہے، شرک خفی۔ جب اخلاص عمل آ جاتا ہے تو شرک ختم ہو جاتا ہے۔ یہ برائیاں بھی زائل ہو جاتی ہیں۔ اسے کہتے ہیں رضاکاری کا جذبہ۔ ملک کے انتظامی امور میں، ملک کے عمومی نظام میں، ملک کے نظم و نسق میں، گوناگوں سرگرمیوں میں، رائج حکومتی اقدامات میں، ذاتی سرگرمیوں میں، ہر جگہ رضاکاری کا جذبہ کارساز ہو سکتا ہے۔
بیشک دفاعی تیاریوں اور فوجی اقدامات کی اہمیت اپنی جگہ پر محفوظ ہے، یہ ایک اہم خصوصیت ہے۔ تاہم جب ہم یہ کہتے ہیں کہ رضاکاری ہر جگہ ہے تو اس سے مراد یہ نہیں کہ ہم ان دو کروڑ رضاکاروں کی طرف سے غافل ہیں جن کا ذکر امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے کیا اور بعد میں جس کی تعداد کئی کروڑ ہو گئی۔ یہ بھی ضروری ہے۔ ہماری قوم کے جس طرح کے اہداف اور مقاصد ہیں انہیں دیکھتے ہوئے دفاعی آمادگی بھی ہمیشہ ضروری ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ جدت عمل اور خلاقی صلاحیتوں کا استعمال بھی ضروری ہے۔ اسی لئے ہم رضاکار فورس کے ہمیشہ منظم رہنے پر تاکید کرتے ہیں۔ اس نظم و نسق میں بصیرت اور فکر کی گہرائی کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ یعنی ہمارے نوجوانوں کو علم ہونا چاہیے اور آگاہانہ انداز میں آگے بڑھنا چاہیے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کس چیز کے حصول کے لئے کوشاں ہیں؟
دنیا کے گوشہ و کنار میں جو سرگرمیاں انجام دی جا رہی ہیں، حق و باطل میں اختلاط کی اس صورت حال، انسانی زندگی پر شیطان صفت افراد کے ظالمانہ تسلط کے اس ماحول، استکبار کے تسلط کی اس فضا میں ایک قوم ابھر کر سامنے آئی ہے جو حق کی بات کرتی ہے، حق پر عمل کرنے کے لئے کوشاں ہے، انصاف قائم کرنے کے لئے فکرمند ہے۔ یہ قوم عظیم ایرانی قوم ہے۔ اسلام کی برکت سے اور انقلاب کی برکت سے ملت ایران حق بات پر ثابت قدمی سے قائم ہے۔ ملت ایران کی استقامت کی وجہ سے پورے علاقے میں بتدریج یہ فکر عام ہو رہی ہے، یہی نہیں عالمی سطح پر بھی اس کی صدائے بازگشت سنائی دینے لگی ہے البتہ ہم اس کا مشاہدہ علاقے میں کر رہے ہیں۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ دنیا کی شیطانی طاقتیں نچلی نہیں بیٹھیں گی، جب تک وہ زمیں بوس نہیں ہو جاتیں، باز نہیں آئيں گی۔ سوویت یونین کا منحرف اور غلط اقتدار جس وقت تک تھا اسی لبرل سرمایہ دارانہ نظام کی مانند یا بقول خود ان کے لبرل ڈیموکریسی کے نظام کی ہی مانند اسلام اور اسلامی جمہوریہ کی مخالفت کرتا رہتا تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ دونوں نظام بہت سے معاملات میں باہمی اختلاف رکھتے تھے تاہم چند امور میں ان کے درمیان اتفاق رائے تھا۔ انہی امور میں سب سے اہم اسلام کی بالادستی، اسلام کی پیشرفت اور اسلامی جہموری نظام کی تشکیل کی مخالفت کا معاملہ تھا۔ سوویت یونین کا منحرف شیطانی نظام قصہ پارینہ بن گیا اور یہ دوسرا نظام بھی نابود ہو جائے گا۔ تاہم جب تک اس کی سانس چل رہی ہے وہ زور لگاتا رہے گا اور اسلامی نظام پر ضرب لگانے کے لئے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاتا رہے گا۔ البتہ یہ سعی لاحاصل ہے۔ اگر ان طاقتوں کے خلاف صبر و تحمل سے کام لیا جائے، دلوں میں امید کے چراغ روشن رکھیں جائے، محنت کی جائے تو فتح ملنا یقینی ہے۔ یہ سنت الہی ہے۔ اللہ تعالی اصدق القائلین ہے جس نے فرمایا ہے؛ «و لينصرنّ اللَّه من ينصره»،(3) «ان تنصروا اللَّه ينصركم»(4)
ایک محاذ ہے جو حق کے جادے پر رواں دواں ہے، محنت سے آگے بڑھ رہا ہے، اس کے مد مقابل ایک اور محاذ ہے جو باطل کے راستے پر چل رہا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ راہ حق پر چلنے والے افراد خوفزدہ ہو جاتے ہیں تو پھر یہ بھی طے ہے کہ انہیں شکست ہوگی، اگر انہوں نے بے صبری اور عجلت پسندی کا مظاہرہ کیا تو ہزیمت اٹھانی پڑے گی۔ اگر کوئی راہ حق پر تو چلنا چاہتا ہے لیکن اس کے لوازمات اور تقاضوں پر عمل نہیں کرتا، دنیا، مادیت اور عیش و عشرت کا طالب بن جاتا ہے تو اسے ناکامی ہی ہاتھ لگے گی۔ اللہ نے حق پر چلنے والوں کو بلینک چیک نہیں دے دیا ہے کہ آپ نے چونکہ حق کا راستہ اختیار کر لیا ہے تو آپ ہر حال میں فتحیاب ہوں گے۔ جی نہیں، آپ کو فتح تو ملے گی لیکن اس وقت جب آپ استقامت کا مظاہرہ کریں گے، جب پائيداری کا مظاہرہ کریں گے۔ اس حتمی فتح تک آپ کو استقامت و مجاہدت کا سلسلہ جاری رکھنا ہوگا، اس وقت تک مقابلہ آرائی کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اسلامی نظام کے اندر ہمیشہ ایک مستحکم، بیدار، کارروائی کے لئے تیار دفاعی قوت کا ہونا ضروری ہے۔ اسی کو "رضاکاری کا جذبہ" کہا جا سکتا ہے۔ "رضاکاری کا جذبہ" فوج میں بھی ہو سکتا ہے، پاسداران انقلاب فورس کے اندر بھی "رضاکاری کا جذبہ" ہو سکتا ہے۔ "بسیج" سے تعلق رکھنے والے دستے بھی جن کی تشکیل ہی اسی بنیاد پر عمل میں آئی ہے "رضاکاری کے جذبے" کے تحت کام انجام دے سکتے ہیں، پولیس فورس بھی اس جذبے کے ساتھ کام کر سکتی ہے، سفارتی شعبہ بھی اس جذبے پر کاربند ہوکر اپنی سرگرمیاں انجام دے سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو کامیابی یقینی ہو جائے گی اور بہت جلد حاصل ہوگی۔ ہمیں "رضاکار" کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے۔ "رضاکاری کے جذبے" کو اس زاویئے سے دیکھنا چاہیے، ہمیں اس جذبے کو حتی المقدور زندہ رکھنا چاہیے۔
بسیج (رضاکار فورس) کے ذمے جو اہم ترین کام ہیں اور جن کا بسیج کی شناخت سے براہ راست تعلق ہے ان میں اسلام کے مسلمہ اصولوں کی حمایت و پاسداری سرفہرست ہے۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے بیانات میں بھی "اسلام کے ناقابل تغیر و تبدل اصول" کا فقرہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں بسیج کا کردار مستقبل پر بھی پڑنے والے اثرات کا حامل ہوتا ہے۔ رضاکار فورس کو اس بات پر نظر رکھنی ہے کہ انقلاب اور نظام کی حرکت کی سمت و جہت میں کوئی انحراف پیدا نہ ہونے پائے، جیسے ہی اسے محسوس ہوا کہ انحراف پیدا ہو رہا ہے، کجی پیدا ہو رہی ہے اس کا سد باب کرتی ہے۔ یہ رضاکار فورس کی اہم خصوصیت ہے کہ وہ انحراف کا سد باب کرتی ہے۔ بغیر کسی انحراف اور کجروی کے، اسلامی انقلاب کے اعلی اہداف کی جانب گامزن رہنا، کہیں کوئی بے جا نرمی نہ دکھانا، بسیج کی خصوصیت ہے۔ یہ دور اندیشی ہے، یہ مستقبل کو مد نظر رکھنے والی روش ہے۔ بعض شعبوں میں ممکن ہے کہ کچھ مشکلات پیدا ہوں لیکن عمومی حرکت ضروری ہے کہ راہ مستقیم کے مطابق ہی ہو۔ یہ بسیجی سوچ ہے اور بسیجی نقطہ نظر ہے۔
یہاں یہ بھی عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ "رضاکار فورس" اپنی ان تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ جن کا میں نے ذکر کیا نظام کے تناظر میں پائے جانے والے قوانین اور اقدار کی بھی پابند رہتی ہے۔ اختراع ہونا چاہیے، ایجادات ضروری ہیں لیکن نظم و ضبط کے دائرے میں رہتے ہوئے۔ جو لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ "رضاکار فورس" کسی بھی اصول و قانون کی پابند نہیں ہے، کسی بھی ضابطے اور قاعدے کی پابند نہیں ہے، ان کی سوچ غلط ہے۔ یہ غلط تصور ہے، یہ درست نہیں ہے۔ البتہ کبھی اگر ایسا ہو کہ "رضاکار فورس" مجموعی طور پر جس میں قیادت اور قانون ساز ادارے سب شامل ہیں، یہ محسوس کرے کہ کوئی قانون رکاوٹ بن رہا ہے تو اس قانون کی اصلاح کی کوشش کی جاتی ہے، ضابطے کو بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کی جائے، ضابطے کو توڑا جائے۔ مقدس دفاع کے دور سے ہی بعض لوگ یہ شگوفے چھوڑتے تھے کہ "رضاکار فورس" تو بغیر بریک کی گاڑی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کی جنگ کے میدان میں، میدان کارزار میں رضاکار جوان مسلسل اصرار کرتے تھے کہ حملہ انجام دیا جائے، فوری یلغار کی جائے۔ ان کا یہی جذبہ رضاکاری، ان کا جوش و خروش انہیں میدان میں لے جاتا تھا۔ ظاہر ہے کہ کمانڈر ہر جگہ حملے کو مناسب نہیں سمجھتے تھے، منع بھی کر دیتے تھے۔ نتیجتا محاذ جنگ پر اس طرح کی کشمکش ہمیشہ رہتی تھی۔ اسی پر کہا جاتا تھا کہ بسیج بغیر بریک کی گاڑی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ "رضاکار فورس" نظم و ضبط کی پابند نہیں ہے یا یہ کہ بد نظمی کوئی اچھی بات ہے۔ ہرگز نہیں۔ نظم و ضبط، منظم رہنا قابل تعریف عمل ہے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اپنی اولاد کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: «اوصيكم بتقوى اللَّه و نظم امركم»؛(5)اپنے امور کو منظم رکھو۔ اگر نظم و ضبط ختم ہو جائے، اگر یہ صحیح انتظام باقی نہ رہے تو بڑی افرا تفری کا ماحول پیدا ہو جائے گا۔ ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ نظم و ضبط سے کامیابی کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔ اگر با قاعدہ ایک فوج موجود ہو لیکن اس میں نظم و ضبط نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ جو آپ مسلح فورسز میں ڈسپلن دیکھتے ہیں، یہ پریڈ، یہ وردی، یہ رینک۔ سب کا سب صرف ظاہری شکل کو درست رکھنے کے لئے نہیں ہے۔ یہ فوجیوں کو نظم و ضبط کا پابند بنانے والے اقدامات ہیں۔ آپ کو ایک خاص ٹریک پر چلنا ہے، اس سے ایک قدم بھی آگے پیچھے نہیں جانا ہے، یہ ڈسپلن ہے۔ خوشی کا مقام ہے کہ ہم آج فوج میں بھی اور پاسداران انقلاب فورس میں بھی دیکھتے ہیں کہ ان چیزوں کا پورا لحاظ کیا جاتا ہے۔ ڈسپلن بہت ضروری چیز ہے۔ اگر فوج کے اندر، کسی فوجی یونٹ کے اندر نظم و ضبط ختم ہو جائے تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ فرض کیجئے کہ ایک بٹالین میں ایک ہزار فوجی ہیں۔ اگر سارے فوجی یونہی (بغیر کسی کیٹیگری اور نظم و ضبط کے) ہوں تو ان کا کوئي فائدہ نہیں ہے۔ انہیں مختلف دستوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، سب کے لئے کمانڈر معین کئے جاتے ہیں، سب کی حدود اور ذمہ داریوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ یہ سب ہونے کے بعد ایک بٹالین اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ورنہ اگر نظم و ضبط نہ ہو، کوئی ڈسپلن نہ ہو، کوئی فریم ورک نہ ہو تو ایک ہزار افراد کچھ بھی نہیں کر پائيں گے۔ نظم و ضبط بہت ضروری ہے۔ ڈسپلن ایک اہم اصول ہے، بے ضابطگی کوئي اچھی بات نہیں ہے، قانون کو نظر انداز کرنا کوئي قابل تعریف کام نہیں ہے، ضوابط کے مطابق عمل کرنے کی اہمیت ہوتی ہے۔ اس پر سب کو توجہ رکھنا چاہیے۔ ایک طرف یہ بھی ضروری ہے اور دوسری طرف یہ بھی لازمی ہے کہ رضاکاری کے جذبے پر استوار اختراعی اور خلاقی مساعی کو حاشیئے پر ڈال دینے کے لئے بعض لوگ کچھ رسمی اور دفتری امور کو رکاوٹ نہ بنانے پائیں۔ یہ بھی بہت اہم ہے۔ اگر واقعی کبھی یہ محسوس ہو کہ بعض ضوابط اور قوانین ایسے ہیں جو رکاوٹ بن رہے ہیں تو قوانین کی اصلاح کے لئے جو متعلقہ افراد ہیں انہیں چاہیے کہ رکاوٹوں کو دور کریں۔ اس طرف والوں کے لئے ضروری ہے کہ بے ضابطگی نہ کریں، قانون کو نظر انداز نہ کریں اور دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ رکاوٹ بننے والے قوانین کو متعلقہ افراد درست کریں۔ مختلف شعبوں کے ذمہ دار افراد کو چاہیے کہ ان باتوں پر توجہ دیں۔ تو بسیج کے سلسلے میں ہمارا یہ نقطہ نگاہ ہے۔
میں پوری ذمہ داری سے یہ بات کہتا ہوں کہ ملک کا مستقبل درخشاں اور تابناک ہے، ملک کا مستقبل روشن ہے۔ دشمن نے جو کچھ بھی کیا اور جو کچھ بھی کہا اور بعض لوگوں نے بدخواہی اور بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہی کی باتوں کو دوہرایا، اس کی تشہیر کی اور کچھ سادہ لوح افراد نے اس پر یقین کر لیا، اس سب کے باوجود اسلامی انقلاب کی حرکت ایک کامیاب حرکت ہے۔ زمینی سچائی کے طور پر ہمارے تجربات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔ ہم تخیلاتی دنیا میں نہیں رہتے، ہم اپنے تصورات سے خود کو خوش نہیں رکھنا چاہتے۔ ہم سچائی کو دیکھنے کے عادی ہیں۔ ہم دیکھ رہے کہ اس نظام کے زیر سایہ ان بتیس برسوں میں ملت ایران نے اور اسلامی جمہوریہ نے روز بروز ترقی کی ہے۔ وہ بھی دنیا کی قوموں کی رائج ترقی و پیشرفت سے کہیں زیادہ عظیم اور نمایاں ترقی۔ بعض قوموں کے پاس اچھی انتظامی صلاحیتیں ہیں، بہت اچھے کام انجام دے رہی ہیں لیکن ملت ایران کی کوششیں زیادہ کامیاب اور ثمر بخش رہیں۔ تمام شعبوں میں ہمیں یہ چیز نطر آتی ہے۔
البتہ معاشرے میں کچھ مشکلات ضرور ہیں۔ ترقی کر لینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مشکلات بالکل ختم ہو گئی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بہتری اور کمال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہر شعبے کا یہی عالم ہے۔ سیاسی شعبہ بھی ایسا ہی ہے، سائنسی شعبہ بھی ایسا ہی ہے دوسرے مختلف شعبوں میں نئے نئے تجربات کا معاملہ بھی یہی ہے۔
سب سے اہم چیز اقدار کی پابندی ہے۔ ان اقدار اور معیارات کی پابندی جن کی بنیاد پر اسلامی انقلاب معرض وجود میں آیا۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ میرا تو ماننا یہ ہے کہ آج ان اقدار کی پابندی ماضی سے بھی زیادہ ہے۔ بیشک ابتدائے انقلاب میں نوجوانوں کا جوش و خروش زیادہ تھا جس کی وجہ شعلہ انقلاب تھا لیکن ہر جگہ یہ گہرائي نہیں تھی۔
اس زمانے میں بھی طلباء سے میرا رابطہ رہتا تھا۔ ہفتے میں ایک دفعہ یونیورسٹی جاتا تھا اور ان کے سوالات کے جواب دیتا تھا۔ تہران اور دوسری جگہوں پر جہاں بھی میں جاتا تھا یہی سلسلہ تھا۔ طلباء کے سوالات اور ان کی ذہنیت کو میں دیکھتا تھا۔ آج افکار میں بڑی گہرائی ہے، زیادہ بنیادی باتیں اور گہری فکر پر استوار نظریات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ اس زمانے میں ہیجانی کیفیت تھی، ایک حرکت تھی جو بہت اہم اور کامیاب تھی، بڑی قربانیاں دی گئیں۔ لیکن ہمارے آج کے نوجوان میں زیادہ گہرائی ہے۔ آج وہ ہیجانی کیفیت نہیں ہے، دشمن کے زہریلے پروپیگنڈے بھی تیز ہو گئے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے نوجوانوں کا یہ عالم ہے۔ بعض لوگ ان تمام مثبت نکات کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور صرف خامیوں کو اور کمیوں کو دیکھتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے، یہ صحیح طریقہ نہیں ہے۔ ہمیں اس بات پر نطر رکھنی چاہیے، یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم خامیوں کے ازالے کی طرف بڑھ رہے ہیں یا نہیں، کمیاں دور ہو رہی ہیں یا نہیں۔ اگر ہم نے دیکھا کہ خامیاں دور ہو رہی ہیں، ہم بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں تو ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہیے کہ ہماری محنت کامیاب ہے۔
میرے عزیز نوجوانو! آپ اس نقطہ نگاہ کو اپنے عمل کے لئے کسوٹی قرار دیجئے۔ آپ اپنے گرد و پیش کے ماحول پر اثرات مرتب کرنے کی کوشش کیجئے۔ یہ کوشش کیجئے کہ لوگوں میں گہرائی پیدا ہو۔ آپ کوشش کیجئے کہ آپ کے ماحول میں اسلامی آگاہی کی گہرائی بڑھے۔ آج الحمد للہ ان کاموں کے لئے وسائل فراہم ہیں۔ شہید مطہری کی تحریریں اور اسی طرح دیگر علماءئے کرام کی تحریریں جو قم اور تہران میں یا دیگر جگہوں پر مقیم ہیں، بہت اچھی ہیں۔ علوم و معارف سے بھری ہوئی ہیں، ان میں معنویت و روحانیت ہے، عقلی علوم کی باتیں ہیں، دقت نظری ہے، دور اندیشی ہے۔ آپ ان باتوں سے اپنی ذہنیت بدلنے کی کوشش کیجئے اور اپنے آس پاس کے لوگوں میں اس کی ترویج بھی کیجئے۔
ان تمام امور میں ایک چیز ہے جو روح کا درجہ رکھتی ہے اور وہ اللہ سے رابطہ ہے۔ جہاں تک ہو سکے اللہ تعالی سے اپنے معنوی اور روحانی رشتے کو، اپنے شخصی رابطے کو مضبوط کیجئے فروغ دیجئے، اسے تقویت پہنچائیے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ آپ کی جوان فکر و سوچ، تہہ دل سے آپ کا اللہ سے ہمکلام ہونا، آپ کا ایک استغفار، آپ کی ایک تکبیر، آپ کا ایک استغاثہ، اللہ کی بارگاہ میں آپ کا گریہ و تضرع بہت زیادہ اثرات کا حامل ہے۔ آپ اسے کبھی فراموش نہ کیجئے۔
آپ کی جو نشستیں منعقد ہوتی ہیں، دعا اور مناجات کی جو نشستیں منعقد ہوتی ہیں ان میں آپ معرفت کے پہلو کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی کوشش کیجئے۔ دعائے کمیل پڑھیں تو اس دعا کو معرفت اور مفاہیم کے پورے ادراک کے ساتھ پڑھیں ، دعائے ندبہ پڑھیں تو اس کو بھی اسی انداز سے پڑھیں، دوسرے کام انجام دیں تو وہ بھی اسی طرح معرفت کے ساتھ انجام دیں۔ صاحب نظر علمائے کرام سے استفادہ کریں جو الحمدللہ موجود ہیں۔
یہ بہت ہی اہم اور کامیاب سلسلہ ہے۔ ایرانی قوم رضاکاری کے اسی جذبے کی مدد سے انشاء اللہ دنیا میں قوت و طاقت کی چوٹیوں کو فتح کرے گی اور انشاء اللہ ان چوٹیوں کی بلندی پر اسلام کا پرچم لہرائے گی۔ تیس سال قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اسلام و قرآن کے نعرے اور دین و ایمان کی باتیں تیونس جیسے ملک میں اور مصر جیسے ملک میں اس طرح عام ہو جائیں گی لیکن آج یہ نعرے ان ملکوں میں ہر طرف گونج رہے ہیں۔ انشاء اللہ یہ سلسلہ اسی طرح آگے بڑھتا رہے گا۔
پروردگارا! محمد آل محمد کے طفیل ان پاک و روشن قلوب پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ پروردگارا! محمد و آل محمد کے وسیلہ میں ملک کے ہر گوشے میں اور ملک کے ہر خطے میں رہنے والے تمام لوگوں کو یہ توفیق عطا فرما کہ تیری مرضی و منشاء کے مطابق عمل کریں۔ پروردگارا! اس قوم کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا فرما۔ پروردگارا! اس قوم کے دینی و اسلامی وقار و افتخار کے سامان و اسباب فرہم فرما۔ پروردگارا! ہمارے عزیز شہیدوں کی ارواح طیبہ کو اپنے پیغمبروں اور اولیائے کرام کے ساتھ محشور فرما۔ پروردگارا! ہمارے عظیم الشان امام (رحمۃ اللہ علیہ) کی روح مطہر کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔

و السّلام عليكم و رحمة اللَّه و بركاته‌

1) كليم كاشانى‌
2) زلزال: 7
3) حج: 40
4) محمد: 7
5) نهج‌البلاغه، نامه‌ى 47