ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا خبرگان کونسل کے اراکین سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

محترم حضرات اور عزیز بھائیو! آپ کو خوش آمدید پیش کرتا ہوں  چھ ماہ کے دوران ایک بار ہونے والی یہ ملاقات، قانونی پہلوؤں کے علاوہ ہمارے لیے یہ حسن بھی رکھتی ہے کہ ہم اپنے اچھے دوستوں، عزیزوں اور بھائيوں سے قریب سے ملتے ہیں اور میرے لیے یہ بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔
خوش قسمتی سے آپ کا یہ اجلاس ماہ مبارک رمضان کی معنوی فضا کے بعد منعقد ہوا ہے اور یقینی طور پر اس اجلاس پر اس معنوی فضا کا اثر رہا ہوگا؛ جیسا کہ رپورٹوں سے سمجھ میں آتا ہے اور حقیر کو بھی پہلے ہی کسی حد تک اس سلسلے میں معلومات بہم پہنچائي جا چکی ہیں، جن نکتوں کی جانب حضرات نے اشارہ کیا ہے، اچھے اور اہم نکات تھے؛ یہ سب رحمت الہی کی نشانیاں ہیں جن پر خداوند عالم کا شکر کرنا چاہیے۔
ایک سرسری سی نظر ڈالنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ امسال کا ماہ مبارک رمضان بھی گزشتہ برسوں کے رمضان کے مہینوں سے بہتر، شیریں اور باصفا رہا ہے اور ہم اسے بحمد اللہ ہر سال محسوس کر رہے ہیں۔ قرآن مجید کی تلاوت کی نشستیں، جن میں کبھی کبھی ایک دن میں شاید ایک ہزار یا اس سے بھی زیادہ لوگ شرکت کرتے ہیں اور تلاوت سنتے ہیں، صرف ایک یا دو شہروں میں نہیں بلکہ ملک کے بہت سے شہروں میں منعقد ہوتی ہیں۔ حقیقت میں سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح خدا کا شکر ادا کیا جائے کہ طاغوت (شاہی حکومت) کے زمانے میں قرآن مجید، تلاوت قرآن اور قرآنی انسیت سے دور رہنے والا ملک آج اس طرح آیات الہی سے گھل مل چکا ہے۔ ہم ان بچوں اور نوجوانوں کو دیکھتے ہیں جو وہاں بیٹھ کر ایک گھنٹے تک تلاوت کرتے ہیں اور وہ بھی کتنی اچھی، صحیح، دقیق اور معنی کو سمجھ کر کی جانے والی تلاوت اور لوگ سنتے رہتے ہیں۔ اگر ملکی سطح پر دیکھا جائے تو کہا جا سکتا کہ ماہ مبارک رمضان میں تلاوت قرآن اور قرآن مجید سے انسیت کی نشستوں میں شرکت کرنے والوں کی تعداد دسیوں لاکھ میں ہے۔
اسی طرح سے دعا کے جلسے ہیں۔ آپ تصور کیجیے کہ ماہ مبارک رمضان کی راتوں میں اور سحر کے وقت دسیوں لاکھ کی تعداد میں لوگ دعائے ابو حمزہ پڑھ رہے ہیں؛ چاہے وہ لوگ ہوں جو براہ راست جلسوں میں شریک ہوں یا پھر ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے توسط سے اس دعا کو سن کر اپنے اپنے گھروں میں محو مناجات ہوں، رو رہے ہوں؛ یہ کوئي معمولی بات نہیں ہے؛ یہ سب خدا کے لطف و کرم کی نشانیاں ہیں۔
اس کے بعد باری آتی ہے یوم قدس (کے جلوسوں) میں عوام کی سیاسی موجودگی کی۔ یہاں بھی انسان، خدا کے دست قدرت کا مشاہدہ کرتا ہے کہ کس طرح لوگوں کے دلوں میں کشش پیدا کرکے انہیں اس گرمی کے موسم میں، روزے کی حالت میں، سڑکوں پر لے آتا ہے اور وہ اسلامی انقلاب اور انقلاب کے اہداف و مقاصد سے اپنی وفاداری کا اظہار کرتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں؛ بوڑھے شرکت کرتے ہیں، چھوٹے بچے شرکت کرتے ہیں، خواتین شرکت کرتی ہیں، مرد شرکت کرتے ہیں۔
اس کے بعد نوبت آتی ہے عید فطر کے دن اور عید کی نماز کی۔ پورے ملک میں جو دعائیں پڑھی جاتی ہیں، لوگ (خدا کے حضور) گڑگڑاتے ہیں، پوری توجہ کے ساتھ، گڑگڑاتے ہوئے خداوند متعال سے سب سے اچھی خواہشات کی درخواست کرتے ہیں۔ یہ باتیں ہمارے ملک میں کب ہوا کرتی تھیں؟ پوری تاریخ میں صدیوں اور برسوں کی تاریخ میں کب ہمارا ملک اس طرح خداوند متعال کے مقابلے میں آیات الہی اور دعائیہ کلمات نیز دعا، توجہ اور ذکر خدا سے معمور ہوا تھا؟ کب اتنی بڑی تعداد میں لوگ اس میدان میں آتے تھے؟ یہ لوگ کس کے لیے آتے ہیں؟ کسے اپنے آپ کو دکھانا چاہتے ہیں؟ اخلاص، ایمان، اسلام کے بنیادی اصولوں سے محبت و عقیدت کے علاوہ کسی دوسرے عنصر اور سبب کا یہاں تصور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ساری چیزیں رحمت الہی کا موجب ہیں؛ «اللّهمّ انّى اسئلك موجبات رحمتك».(1) یہ وہی چیزیں ہیں جو ہم پر فیض الہی کی بارش کرتی ہیں۔
البتہ ہم غلطی کرتے ہیں؛ کبھی ہم اس فضل الہی کو نہیں دیکھ پاتے، کبھی اپنے سلسلے میں ہونے والے مختلف واقعات میں خدا کی رحمت و مہربانی کو نہیں دیکھ پاتے۔ کبھی ہم اس لحاظ سے غلطی کرتے ہیں کہ ہم سوچتے ہیں کہ یہ ہم ہیں جو ان کاموں کو انجام دے رہے ہیں، جبکہ یہ ہم نہیں ہوتے؛ «لو انفقت ما فى الارض جميعا ما الّفت بين قلوبهم و ليكنّ اللَّه الّف بينهم».(2) «قلب المؤمن بين اصبعى الرّحمن». کون ان مومنین کو کھینچ کر ان میدانوں میں لے آتا ہے اور اس طرح انہیں خدا کی جانب متوجہ کرتا ہے؟ خدا اور اس کی قدرت کے علاوہ کوئي دوسری چیز نہیں ہے۔ یہ چیزیں ہیں جو ہمیں امید دلاتی ہیں۔
میں صرف ان باتوں کی تشریح نہیں کرنا چاہتا جو ہوئی ہیں، کہ ان باتوں کو ہم سبھی دیکھ ہی رہے ہیں، میں یہ نتیجہ نکالنا چاہتا ہوں: «هو الّذى ايّدك بنصره و بالمؤمنين»؛(3) خداوند متعال اپنی تائيد کو مومنین کے ذریعے کی گئی نصرت اور مدد کے ساتھ رکھتا ہے اور بظاہر یہاں جو مراد ہے وہ معنوی نصرت ہے؛ جیسے کہ کہا گيا : «انّى ممدّكم بألف من الملائكة مردفين»(4) اور اسی طرح کی دوسری مثالیں بھی ہیں۔«هو الّذى ايّدك بنصره و بالمؤمنين»؛ یہ مومنین ہیں جو نصرت اور مدد کا باعث ہوتے ہیں؛ یہ مومنین ہیں جو نظام کو مضبوطی سے قائم رکھتے ہیں؛ یہ مومنین ہی ہیں جو مختلف میدانوں میں راہ ہموار کرتے ہیں تاکہ اسلامی نظام بڑے بڑے اور عظیم کام انجام دے سکے۔ ہمیں انہیں «انّما اوتيته على علم عندى»(5) تصور نہیں کرنا چاہیے؛ یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ یہ ہم ہیں جو کام انجام دے رہے ہیں، بلکہ ان کاموں کو خداوند متعال انجام دے رہا ہے۔ یہ تو پہلی بات ہوئي کہ میرے خیال میں خداوند عالم کی توفیق اور اس کے لطف و کرم سے ہمارے عوام بہت اچھے ہیں؛ ان کی خوبی، ایمان سے ان کی وفاداری اور دلوں تک ایمان کے نفوذ کے سبب ہے۔
آپ دیکھیے کہ آج نوجوانوں کے دلوں کو بہکانے اور فریب دینے کے لیے کتنے ذرائع ہیں۔ ان کا ماضی سے کوئي مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سیٹیلائٹ (چینل)، یہ انٹرنیٹ اور یہ رابطے کے گوناگوں ذرائع، یہ سب دلوں کو بہکاتے ہیں، اپنی جانب مائل کرتے ہیں، (صحیح) راستے سے بھٹکا دیتے ہیں، انسان کے اندر معنوی محرکات کو کمزور کر دیتے ہیں اور نفسانی خواہشات کو بھڑکا دیتے ہیں۔ ان سب کے باوجود، جن جلسوں، نشستوں اور مجالس کی جانب اشارہ کیا گيا اور جنہیں آپ نے بھی دیکھا ہے، ان میں اکثریت انہیں نوجوانوں کی ہے۔ شاید کبھی ایسا بھی ہو کہ ان کی ظاہری صورتحال سے یہ پتہ نہ چلے کہ ان کے دل محبت الہی سے سرشار ہیں تاہم ہے ایسا ہی۔ وہ آتے ہیں، اپنے خدا سے باتیں کرتے ہیں، روتے ہیں۔ ان کے آنسو انسان کے لیے باعث رشک ہیں۔ انسان نظر ڈالتا ہے تو دیکھتا ہے کہ یہ نوجوان وہاں بیٹھا ہوا ہے اور اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں۔ انسان کو ان لوگوں کی حالت سے رشک ہوتا ہے۔ ان کے دل پاکیزہ ہیں، یہ صاف دل ہیں، یہ خدا سے قریب ہیں۔ یہی بات مدد و نصرت کی موجب ہے۔ «هوالّذى ايّدك بنصره و بالمؤمنين».
آج جو بات میں عرض کرنا چاہتا ہوں، جسے میں ان شاء اللہ اختصار سے عرض کرنے کی کوشش کروں گا، یہ ہے کہ شیعہ مذہب میں "فقہ سیاسی" فقہ کی تدوین کے آغاز سے ہی موجود رہی ہے۔ یعنی تیسری اور چوتھی صدی میں استدلالی فقہ کی تدوین سے قبل بھی- یعنی روایات کے عہد میں- شیعہ فقہ کے مجموعے میں فقہ سیاسی پوری طرح واضح انداز میں موجود تھی جس کے نمونے آپ روایات میں دیکھ سکتے ہیں۔ "تحف العقول" کی یہی روایت جو "امور" کو چار اقسام میں بانٹتی ہے، اس کی ایک قسم سیاست ہے۔ روایت آپ کے پیش نظر ہے جس میں کچھ باتوں کا تذکرہ ہے۔ اس روایت میں اور دوسری بہت سی روایتوں میں معیاروں کا ذکر کیا گيا ہے۔ صفوان جمال کے بارے میں یہ مشہور روایت «كلّ شى‌ء منك حسن جميل الّا اكرائك الجمال من هذا الرّجل» اور دوسری روایتیں جن کی تعداد بہت زیادہ ہے، اسی قسم کی ہیں۔ اس کے بعد جب استدلالی فقہ کی تدوین کا زمانہ آیا یعنی شیخ مفید اور ان کے بعد کا زمانہ تو پھر انسان دیکھتا ہے کہ مختلف ابواب میں فقہ سیاسی موجود ہے۔ جو چیزیں سیاست کے احکام اور معاشرے کا انتظام چلانے سے متعلق ہیں، وہ ان میں ہیں۔
بنابریں شیعہ مذہب میں فقہ سیاسی ابتدائي ایام اور بہت پہلے سے موجود رہی ہے تاہم ایک چیز نئی ہے اور وہ ہے اس فقہ کی بنیاد پر نظام حکومت کی تشکیل اور اسے ہمارے عظیم الشان امام (خمینی) نے انجام دیا۔ ان سے قبل کسی نے بھی مختلف ابواب میں بکھرے ہوئے ان فقہی مسائل کی بنیاد پر ایک نظام حکومت کو وجود عطا نہیں کیا تھا۔ جس شخص نے فکری اور عملی دونوں لحاظ سے ایک ساتھ ایک نظام حکومت قائم کیا، وہ امام خمینی تھے جنہوں نے دینی جمہوریت کا نظریہ پیش کیا، "ولایت فقیہ" کا نظریہ پیش کی۔ اس نظریے کی بنیاد پر اسلامی نظام قائم ہوا۔ یہ اس قسم کا پہلا تجربہ بھی ہے۔ تاریخ میں اس کی مثال کہیں نہیں ملتی، نہ صفوی عہد حکومت میں اور نہ ہی دوسری حکومتوں کے دور میں۔ اگرچہ صفوی عہد حکومت میں محقق کرکی جیسے لوگ میدان عمل میں موجود تھے تاہم اس دور میں اس طرح کے اسلامی اور فقہی نظام کا کوئي نام و نشان نہیں تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ قضاوت کا عہدہ محقق کرکی جیسی عظمت والے کسی عالم دین کے ذمے کر دیا گيا اور وہ قاضیوں کے سربراہ بن گئے تاکہ قاضیوں کو منصوب کریں، اس سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ نظام حکومت اور معاشرے کا سیاسی نظام، فقہ کی بنیاد پر نہیں تھا۔ نظام حکومت کو وجود عطا کرنا، وہ کام ہے جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا۔ جیسا کہ آقائی مہدوی نے اپنے بیان میں اشارہ کیا، جس کی مجھے اجمالی طور پر معلومات ہوئي، امام خمینی نے نجف اشرف میں ولایت فقیہ کے مسئلے کو استدلالی مسئلہ بنایا اور اس پر بحث کی؛ بعد میں عملی طور پر اسے انجام دیا اور یہ ایک اسلامی نظام حکومت بن گيا۔ یہاں دو باتیں ہیں جن پر ہمیں خوب توجہ دینی چاہیے۔
ایک بات یہ ہے کہ اس نظام کی شناخت کے تحفظ کی راہ میں ہمیشہ سے ایک بڑا اندیشہ موجود رہا ہے؛ اب بھی ہے اور اس کے بعد بھی رہے گا۔ وہ اندیشہ ہے ایک طرف سے بنیادی اصولوں یعنی نظام حکومت کے اصولوں اور بنیادوں کے تحفظ اور وفاداری کے سلسلے میں اور دوسری طرف سے نظام کے لیے مادی اور معنوی پیشرفت کی کامیابیوں کی حفاظت اور ان کے تئيں وفاداری کے درمیان چیلنج۔ کبھی کبھی یہ سوچ سامنے آتی ہے؛ البتہ اس کے سامنے آنے کی وجہ بھی ہے کیونکہ ان بنیادی اصولوں سے حاصل ہونے والے اہداف ایسے نہیں ہیں جو تیزی سے حاصل ہو جائیں اور دس یا بیس سال میں یقینی طور پر انہیں پورا کر لیا جائے؛ کبھی کبھی ان اصولوں کے تحت حاصل ہونے والے اہداف کی تکمیل میں نسلیں گزر جاتی ہیں۔ جب یہ اہداف قلیل مدت یا میانہ مدت میں پورے نہ ہوں تو غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد، عمائدین اور حکام میں یہ وسوسہ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ان اصولوں کی پاسداری، ان اہداف کے حصول میں رکاوٹ بن رہی ہے؟ یہ ایک انتہائي اہم خطرہ اور چیلنج ہے۔
میں نے کافی عرصے قبل کہیں پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ امام خمینی کی عظمت کا ایک مظہر اس مسئلے میں آپ کا صبر و تحمل ہے۔ البتہ ان کا عرصہ، مختصر سا عرصہ تھا اور دس سال سے زیادہ کا نہیں تھا، تاہم اسی مختصر سے عرصے میں انہوں نے بنیادوں کو بہت مضبوطی کے ساتھ قائم کیا۔ امام خمینی کا ایک اہم کارنامہ یہ تھا کہ وہ پیش آنے والی مشکلات کے سبب، چاہے وہ داخلی مسائل کے سلسلے میں ہوں یا بین الاقوامی خطروں کے بارے میں ہوں، کبھی بھی اصولوں اور بنیادی نظریات سے پیچھے نہیں ہٹے؛ یعنی انہوں نے صبر و استقامت سے کام لیا۔ میں نے اسے امام خمینی کے صبر کا نام دیا ہے۔ ان کے صبر کا مطلب یہ تھا کہ انہوں نے برداشت کیا۔ ان کے اوپر دباؤ ڈالا جاتا تھا کہ حضور اگر آپ یہ حکم نہ دیں، اگر سلمان رشدی کے معاملے کو سامنے نہ لائیں، اگر ایسا نہ کریں، اگر ویسا نہ کریں تو ممکن ہے کہ ہمیں یہ کامیابیاں حاصل ہو جائیں، تو وہ دباؤ میں نہیں آئے، وہ اپنی بات پر ڈٹے رہے۔ یہ خطرے اور چیلنج اس وقت بھی موجود ہیں۔
ممکن ہے کچھ لوگ یہ سوچیں کہ اصولوں کے سلسلے میں ہماری پابندی اس بات کا باعث بنی ہے کہ ہم ان اہداف کو حاصل نہ کر پائيں؛ ملک کا داخلی انتظام چلانے یا بین الاقوامی مسائل کی سطح پر کچھ ناکامیاں ہمیں مشکلات میں مبتلا کر دیں۔ یہ ایک بڑا اور اہم خطرہ ہے، اس خطرے سے بڑی ہوشیاری کے ساتھ نمٹنا چاہیے۔ صحیح بات یہ ہے کہ ہمیں دونوں اہداف کو ایک دوسرے کے ساتھ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہ جان لینا چاہیے کہ یہ دونوں اہداف ایک دوسرے کے موافق ہیں؛ یعنی ایک طرف سے نظام حکومت کے اصولوں اور بنیادی نظریات کی حفاظت یا در حقیقت نظام حکومت کی شناخت و ماہیت کا تحفظ اور دوسری طرف سے ان اہداف کا حصول جو نظام حکومت کی تعریف میں آتے ہیں چاہے وہ مادی اہداف اور مادی، سائنسی، سماجی اور تمدنی پیشرفت جیسے اہداف ہوں یا عدل و انصاف کے قیام جیسے معنوی اہداف ہوں۔ ہمیں اس پر یقین رکھنا چاہیے کہ یہ ایک دوسرے کے موافق ہیں۔ ہم ان اہداف کو تب تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک ان اصولوں کے پابند نہ رہیں۔ یعنی ان اہداف کے حصول میں پیش آنے والی مشکلات کے سبب اصولوں کو ترک نہ کر دیں، ہم میں کم ترین چیز پر خوش رہنے کی عادت پیدا نہ ہو اور ہم یہ جان لیں کہ اگر ہم نے اپنے اصولوں کو چھوڑ دیا تو نظام حکومت کی شناخت تو ختم ہو ہی جائے گی، ہم ان اہداف کو بھی حاصل نہیں کر پائيں گے۔ انہیں مختلف انقلابوں کے درمیان ہم نے اس کی مثالیں دیکھی ہیں۔ البتہ ان کے اصول باطل اصول تھے تاہم انہوں نے جب اپنے انہی اصولوں کے سلسلے میں سمجھوتا کر لیا تو انہیں کسی طرح کا کوئي فائدہ نہیں ہوا۔
یہ بات کہ ہم عقلانیت کے مسئلے کو پیش کریں اور کہیں کہ "انقلاب کو عقل سے کام لینا چاہیے"، تو یہ بات ہمیں کسی نتیجے تک نہیں پہنچائے گی۔ مجھے یاد ہے کہ انقلاب کے ابتدائي برسوں میں جو باتیں کہی جاتی تھیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ ہمیں انقلاب کو عقل کے معیار پر لانا چاہیے! یعنی حقیقت پسندی کا نام لیکر اور اس کا ایک بہانہ بنا کر اصولوں، بنیادی معیاروں اور اصل ستونوں کو نظرانداز کر دیں۔ یہ نہیں ہونا چاہیے۔ «و ان تطع اكثر من فى الارض يضلّوك عن سبيل‌اللَّه ان يتّبعون الّا الظّنّ و ان هم الّا يخرصون».(6) اصولوں کو پامال نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ یہ بہت اہم کام ہے، اس میں پیچیدگیاں ہیں، سختیاں ہیں اور کبھی کبھی گوناگوں مواقع پر عمائدین اور غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کے ذہن میں بھی شکوک و شبہات پیدا ہو جاتے ہیں۔ موضوع کے لحاظ سے ایک حتمی اصول کی حیثیت سے اس بات کو مسلمہ سمجھنا چاہیے کہ اسلامی نظام کے اصولوں کی پابندی اور بنیادی نظریات کا تحفظ سب سے اہم اصول ہے۔
اس کی بنیاد پر پیشرفت کی کوشش کرنا چاہیے۔ ہم نے آزما کر دیکھا ہے کہ اصولوں کے تحفظ کے ساتھ ہی پیشرفت بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ سائنسی پیشرفت کے لحاظ سے، ٹیکنالوجی کی پیشرفت کے لحاظ سے، سیاسی آگہی اور پختگی کے لحاظ سے، مختلف اقتصادی اور دوسرے اداروں میں گوناگوں روشوں اور طریقوں کے حصول کے لحاظ سے آج ہمارے ملک کا موازنہ اسلامی انقلاب کے ابتدائي ایام سے نہیں کیا جا سکتا؛ ہم کافی آگے بڑھ چکے ہیں، بہت زیادہ پیشرفت کر چکے ہیں؛ لیکن اسی کے ساتھ ہم نے اصولوں کا بھی تحفظ کیا ہے۔ اگر ہم نے کسی جگہ پر اصولوں کو نظر انداز کیا ہو تو ہمیں اس پر توبہ کرنی چاہیے۔ اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے۔ اسی طرح سے ہمیں اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالی کی مدد و نصرت بھی اس پر منحصر ہے کہ ہم ان اصولوں اور بنیادی نظریات کا تحفظ کریں۔ یہ تو ہوئي ایک بات۔
میں اس سلسلے میں جو دوسری بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ نظام حکومت کی تشکیل، جس کے بارے میں ہم نے کہا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے فقہی اصولوں کی بنیاد پر اس نظام کو قائم کیا، یکبارگی نہیں ہوئی ہے؛ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم نے فقہ کی بنیاد پر ایک نظام حکومت کا انکشاف کیا، اس کے بارے میں استدلال کیا اور پھر اسے میدان میں لے آئے اور بات ختم ہو گئي؛ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ نظام کی تشکیل ایک امر مسلسل ہے، اس کی تکمیل کا عمل جاری رہنا چاہیے، اسے روزانہ کی بنیاد پر عصری تقاضوں کے مطابق بنایا جانا چاہیے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کہیں پر ہم نے غلطی کی ہو، ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ کہ ہمیں اس غلطی کی بنیاد پر اپنی اصلاح کرنی چاہیے، اپنے کو سدھارنا چاہیے؛ یہ نظام کی تشکیل کے عمل کی تکمیل کا حصہ ہے۔ ہمیں پچھلی باتوں کو تباہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ نظام کی تشکیل ایک امر مسلسل ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کچھ ہم نے بنایا اور تعمیر کیا ہے اسے تباہ کر دیں؛ اپنے آئین کو برباد کر دیں؛ اپنے حکومتی اور سرکاری نظام کو ضائع کر دیں؛ نہیں، بلکہ جو کچھ ہم نے بنایا ہے اس کی حفاظت کریں، کمیوں کو برطرف کریں، اسے مکمل کریں، یہ ایک ضروری کام ہے۔
میرا خیال ہے کہ امام خمینی نے ولایت فقیہ کے ساتھ مطلق کے لفظ کا جو اضافہ کیا ہے، کیونکہ پہلے آئین میں ولایت فقیہ کے ساتھ مطلق کا لفظ نہیں تھا، اسے امام خمینی نے شامل کیا، وہ اسی بات کی جانب اشارہ ہے؛ یعنی لچک۔
مسلسل اپنے آپ کو آگے بڑھانا چاہیے، تبدیلی لانی چاہیے کیونکہ تبدیلی انسانی زندگي اور تاریخ انسانی کی عام روش کا حصہ ہے۔ اگر ہم اپنے آپ میں تبدیلی نہ لائیں اور آگے نہ بڑھیں تو تبدیلی ہم پر مسلط کر دی جائے گي۔ تبدیلی کا مطلب ہے، تکمیل، جو زیادہ صحیح اور زیادہ مکمل بات ہے اس کی جانب آگے بڑھنا۔ یعنی جو چیز ہم نے بنائي ہے اس کے عیوب کو دیکھیں کہ وہ کہاں ہیں اور پھر انہیں دور کریں، یہ دیکھیں کہ کمی کہاں ہے، پھر اس کمی کی تلافی کریں۔ یہ عمل جاری رہنا چاہیے۔

البتہ دشمنوں نے ولایت مطلق کو آمریت کے معنی میں لیا ہے؛ یعنی فقیہ عادل کا جو دل چاہے وہ کرتا رہے۔ اس معنی کے اندر اپنے آپ میں خود ہی ایک تضاد ہے اور وہ یہ کہ اگر فقیہ عادل ہے تو وہ ظالم اور آمر نہیں ہو سکتا اور اگر وہ ظالم ہے اور اس کا جو دل چاہتا ہے وہی کرتا ہے تو پھر وہ عادل نہیں ہے۔ دشمن اس بات کی جانب متوجہ نہیں ہیں اور وہ اس مفہوم کو نہیں سمجھتے۔ ولایت مطلقہ کا مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ فقیہ کا جو دل چاہے وہ کرتا رہے، کبھی اسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ کام ہونا چاہیے تو وہ فورا ہی اس کام کو انجام دے دے، بات یہ نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ نظام حکومت کے بنیادی ستون کی حیثیت سے اس کے ہاتھ میں ایسے اختیارات ہوتے ہیں جن کے سبب وہ جہاں ضروری سمجھے راستوں کی اصلاح کر سکتا ہے، فیصلوں کی تصحیح کر سکتا ہے۔
البتہ یہاں بھی ایک خطرہ موجود ہے جس سے بچنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ ہم یہ سوچیں کہ یہ لچک باہری دباؤ سے متاثر ہو اور تبدیلی کے سلسلے میں لچک مغربی سانچوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کے سلسلے میں ہو۔ قصاص کے معاملے میں وہ ہم پر اعتراض کرتے ہیں اور دباؤ ڈالتے ہیں، دیۃ اور خوں بہا کے معاملے میں ہم پر دباؤ ڈالتے ہیں، مختلف مسائل میں ہم پر دباؤ ڈالتے ہیں؛ لہذا ہم سر تسلیم خم کر دیں؛ لچک کا مطلب یہی ہوتا ہے۔ بالکل نہیں، یہ انحراف ہے؛ یہ لچک نہیں ہے۔ ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ یہ آیت شریفہ «و ان تطع اكثر من فى الارض» اس مسئلے میں بھی نافذ ہے۔ صرف اس وجہ سے کہ اغیار کے ریڈیو اسٹیشن، معاندانہ پروپیگنڈے اور اسلامی نظام کے کٹر دشمنوں کے تھنک ٹینکس، فلاں حکم کے بارے میں، فلاں بنیادی اصول کے بارے میں اعتراض کرتے ہیں، شور مچاتے ہیں تو ہم یہ کہیں کہ اب ہمیں نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ دنیا سے ہم آہنگ رہ سکیں؛ نہیں، یہ غلط ہے، یہ انحراف ہے؛ اس انحراف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔
اسی کے ساتھ کچھ نئے مسائل بھی ہیں۔ معیشت کے شعبے میں نئی باتیں ہیں۔ مثال کے طور پر ہم نے اسلامی بینکاری کو ایجاد کیا ہے۔ آج پیسوں اور بینکاری کے میدان میں نئے نئے مسائل موجود ہیں؛ انہیں حل کیا جانا چاہیے۔ انہیں اسلامی بینکاری اور بغیر سود کی بینکاری کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔ انہیں کون انجام دے؟ فقہ ان چیزوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ البتہ میں یہیں پر عرض کرنا چاہوں گا کہ اعلی دینی تعلیم کے اہم ترین مرکز کی حیثیت سے قم کے دینی تعلیمی مرکز میں فقہ پر کھلی بحث کی سیٹوں کے سلسلے میں ہماری ضرورت پوری نہیں ہوئي ہے۔ میں اسے ابھی عرض کروں گا۔ وہ حضرات جو قم سے تشریف لائیں ہیں، میں ان سے مخاطب ہوں کہ یہ ضرورت پوری نہیں ہوئی ہے۔ قم میں فقہ حکومتی کے بارے میں خصوصی طور پر مضبوط استدلالی بحث ہونی چاہیے تاکہ نئے حکومتی مسائل، حکومت کی راہ میں آنے والے چیلنجوں، ہمارے سامنے آنے والے نو بہ نو مسائل کو فقہی لحاظ سے معین کیا جائے، انہیں واضح کیا جائے، ان پر بحث کی جائے، ٹھوس فقہی بحث کی جائے، اس کے بعد یہ بحث یونیورسٹی وغیرہ کے مختلف روشن فکر اور دانشور افراد کے سامنے آئے جو انہیں رائے عامہ، طلبا اور دیگر اقوام کی رائے عامہ کے لیے قابل ادراک و استفادہ مفہوم کے طور پر تیار کریں۔ یہ کام ہونا ہی چاہیے، ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ اس عالمانہ کاوش کا نتیجہ، دیگر اقوام اور ممالک کے غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کے سامنے استفادے کے لیے پیش کیا جا سکتا ہے۔
اب آپ ملاحظہ کیجیے کہ تقریبا آٹھ مہینوں میں دنیا کے ایک سب سے پرامن اور پرسکون علاقے یعنی شمالی افریقا اور شمالی افریقا و جزیرۃ العرب کے اطراف و اکناف میں چار حکومتیں سرنگوں ہوئي ہیں؛ یعنی مغرب اور امریکا کے سہارے تخت سے چپکے ہوئے چار ڈکٹیٹروں کا تختہ پلٹ گيا۔ یہ ممالک ہیں مصر، تیونس، لیبیا اور یمن۔ یہ بہت ہی اہم واقعہ ہے۔ میں نے عرض کیا ہے اور پھر عرض کر رہا ہوں کہ ہم اس وقت اس واقعے کی عظمت کے پہلوؤں کو صحیح طرح سے ترسیم نہیں کر سکتے۔ یہ بہت ہی بڑا کام ہوا ہے۔ تو اس وقت اقوام میں اہم واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ایک اہم کام، جو ان شاء اللہ انجام پائے گا، یہ ہے کہ اقوام کے دینی و مذہبی عمائدین، ان قوموں کے امور کی باگ ڈور سنبھال سکیں گے اور عوام کوصحیح راستہ دکھا سکیں گے جو اسلام، شریعت اور مقامی و علاقائی ضرورتوں کے مطابق ہو؛ یہ بہترین راستہ ہے۔ تاہم اس راستے کے معرض وجود میں آنے کا امکان کتنا ہے؟ انسان کا دل کانپ جاتا ہے۔
ایک دوسرا امکان یہ ہے کہ جن لوگوں کو اقتدار سے ہٹایا گيا ہے انہی کے پٹھو افراد دوسرے بہانوں سے پھر اقتدار میں آ جائيں۔ جن لوگوں نے اسلام کے مقابلے میں، مصری قوم کی صیہونیت مخالف تحریک کے مقابلے میں تیس برسوں تک ایک آمر کی حمایت کی ہے، سازشوں کے ذریعے کسی اور آمر کو اقتدار میں پہنچا دیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ڈکٹیٹر کبھی نہیں کہتا کہ میں ڈکٹیٹر ہوں، بلکہ اسے ایک خاص شکل اور جواز دے دیا جاتا ہے، ان کے پاس پروپیگنڈے کے ذرائع بھی ہوتے ہیں، پیسے بھی ہوتے ہیں، وسائل بھی ہوتے ہیں، یقینی طور پر پٹھو افراد بھی ہوتے ہیں۔ بنابریں ایک خوف یہ ہے کہ یہ لوگ پھر سے آ کر خود ہی ایک نظام حکومت بنا لیں یا ایسے نظام حکومت کو بر سر اقتدار لے آئیں جو پوری طرح سے مغرب کو آئيڈیل بنا کر تیار کیا گيا ہو۔ یہ ان ممالک کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے کہ جمہوریت، آزادی اور ایسی ہی چیزوں کے نام پر ان میں مغربی نظام حکومت کو نافذ کر دیا جائے۔ اسی طرح سے دوسرے بہت سے خطرے بھی موجود ہیں۔
جو بات یہاں ان ملکوں کی مدد کر سکتی ہے وہ مذہبی جمہوریت کا نظریہ ہے۔ دینی جمہوریت، جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی جدت عملی ہے، ان تمام ملکوں کے لیے سودمند ثابت ہو سکتی ہے؛ یہ جمہوریت بھی ہے اور دین سے نکلی ہوئي بھی ہے۔
البتہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ اہلسنت کے فقہاء، چاہے وہ مصر کے شافعی فقہاء ہوں، اس علاقے کے بعض دیگر ممالک کے مالکی فقہاء ہوں یا چاہے کچھ دیگر ممالک کے حنفی فقہاء، ولایت فقیہ کو تسلیم نہ کرتے ہوں۔ ٹھیک ہے، ہم یہ تو نہیں چاہتے کہ قطعی طور پر اپنے ہی فقہی اصولوں کو ان کے سامنے پیش کریں یا اسی پر اصرار کریں؛ تاہم دینی جمہوریت کی ممکنہ طور پر مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں۔ ہمیں ان کے سامنے دینی جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی تشریح کرنی چاہیے، ان کے ذہن نشین کرانا چاہیے اور ایک تحفے کے طور پر انہیں پیش کرنا چاہیے۔ یقینی طور پر ان ملکوں کے عوام، دینی جمہوریت کو پسند کریں گے۔ یہ وہ کام ہے جو ہمارے ذمے ہے اور اسے انجام پانا چاہیے تاکہ ان اقوام کے دشمن، اس وقت پیدا ہونے والے خلا سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ اس خلا کو اسلام کے ذریعے پر کرنا چاہیے۔
ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال ہمیں اس بات کی توفیق عطا کرے گا کہ پہلے تو ہم اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں اور پھر انہیں حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیں ، ان شاء اللہ۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1) مفاتيح الجنان، تعقيب نماز ظهر
2) انفال: 63
3) انفال: 62
4) انفال: 9
5) قصص: 78
6) انعام: 116