ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا لائبریریوں کے مالکان اور اہلکاروں سے خطاب

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

میں عزیز بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید پیش کرتاہوں۔ یہ نشست سو فیصد علمی نشست ہے۔ آپ عزیزوں سے ملاقات کے لئے اس جلسے کے اہتمام کا ایک مقصد ملک بھر میں لائبریریوں کے ذمہ داروں اور اہلکاروں کی زحمتوں اور کوششوں کا شکریہ ادا کرنا ہے کیونکہ وہ بہت عظیم اور اہم کام انجام دے رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہمارا یہ جلسہ کتاب اور مطالعہ کے لئے معاشرے میں خاص اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئےعلامتی عمل بھی ہے۔
ہم جیسے جیسے آگے کی سمت بڑھ رہے ہیں کتاب کی ضرورت بھی اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔ اگر کوئی یہ تصور کرے کہ جدید اور نئے مواصلاتی وسائل کی ایجاد سے کتاب زندگی کے متن سے ہٹ جائے گی تو یہ غلط تصور ہوگا۔ معاشرے میں کتاب کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ جو نئے وسائل ایجاد ہو رہے ہیں ان کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ کتابوں کے مضمون کو، کتابوں کے مطالب کو اور خود کتابوں کو آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں۔ کوئی بھی چیز کتاب کی جگہ نہیں لے سکتی۔
ایک نکتہ یہ بھی ہمیں مد نظر رکھنا چاہیے کہ اگر ہم فکر و تجربے اور ذوق و شوق کے لحاظ سے ایک دوسرے کی رشد و نما میں مدد کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کتابوں سے اپنا رابطہ بڑھانا اور مضبوط کرناہوگا۔ کتاب ایک فکر، ایک ذوق، ایک فن اور ایک نظریئے سے وجود میں آنے والے نتائج کا مجموعہ ہوتا ہے۔ کتاب کسی ایک یا کئی انسانوں کی فکری کاوشوں کا نتیجہ ہوتاہے۔ ہمیں اس بات پرخوشحال ہونا چاہیے کہ ہم مختلف انسانوں کے فکری ثمرات سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔ یہ موقعہ ہمیں کتاب فراہم کرتی ہے۔ یہ تحفہ ہمیں کتاب سے ملتاہے۔ یہ بات واضح ہے کہ کتاب بڑی قیمتی شئی ہے۔ یہ چیز ہمیشہ سے تھی اور آئندہ بھی رہے گی۔ لہذا کتاب پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کتاب پر خاص توجہ در حقیقت مطالعہ پر خاص توجہ کا پیش خیمہ ہے۔ معاشرے میں کتب کے مطالعہ کا ماحول بڑھنا چاہیے۔ تعلیم کی شرح بڑھانے کا مقصد اور فائدہ بھی یہی ہے۔ دنیا کے ممالک میں ناخواندگی کی شرح کو مٹانے کے لئے جو مہم اور تحریکیں چلائی جاتی ہیں ان کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ لوگوں کو دوسروں کی فکری توانائيوں اور ذہنی صلاحیتوں کے اس مجموعہ سے فائدے پہنچے۔ مطالعہ کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ میری نظر میں سب سے زیادہ نقصان دہ غفلت در حقیقت مطالعہ کے سلسلے میں کی جانے والی غفلت ہے۔ انسان اس میں جتنی غفلت کا ارتکاب کرتاہے اس کی غفلت اور سستی میں اتنا ہی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ معاشرے میں کتب کے مطالعہ کی ترویج کی جانی چاہیے۔ یہ تمام متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے۔ پرائمری اسکول سے ہی بچوں کو کتاب پڑھنے کی عادت ڈالنے کے لئے منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔ تدبر اور غور و فکر کے ساتھ کتاب پڑھنے کی عادت ڈالنے کی منصوبہ بندی ابتدائی مراحل میں ہونی چاہیے۔ اسی طرح مواصلاتی ذرائع، نشریاتی اداروں ،ذرائع ابلاغ اور تبلیغاتی وسائل سب کی سطح پر یہ منصوبہ بندی ضروری ہے۔
معاشرے کی سطح پر ایک بہت اہم کام یہی ہے کہ کتب کا مطالعہ ہمہ گیر ہو۔ ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ غیر ضروری چیزوں کے لئے ان کے مالکان بڑی رنگارنگ اور عجیب و غریب انداز کی تبلیغات کرتے ہیں جبکہ ایسی چیزوں کا انسانی زندگی میں کوئی خاص اثر بھی نہیں ہوتا ہے ۔ ذرائع ابلاغ، اخبارات و جرائد، تبلیغاتی ادارے اسے پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اس سامان کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے، اس کی کوئی احتیاج نہیں ہے، یہ زندگی میں بالکل ا‌ضافی چیز ہے۔ کبھی کبھی ان سے کچھ فائدہ پہنچ جاتا ہے لیکن کبھی کبھی تو ان سے نقصان ہی پہنچتا ہے۔ لہذا کتاب جو انتہائی قیمتی شئی ہے، بڑی با عظمت چیز ہے اس کی تبلیغ بہت ضروری ہے، وہ اس لائق ہے کہ لوگوں کو اس کے مطالعہ کے لئے رغبت دلائی جائے۔ ہمیں اس چیز کو ایک عادت میں تبدیل کر دینا چاہیے۔
میں یہ عرض کر دوں کہ ہمارے ملک میں اور ہمارے سماج اورمعاشرے میں آج جو صورت حال ہے ہم اس سے خوش نہیں ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ آج جس تعداد میں کتابوں کی تصنیف و تالیف انجام پا رہی ہے وہ ماضی سے کہیں زیادہ ہے، کبھی کبھی تو کئی گنا زیادہ کتابیں شائع ہوتی ہیں، یا یہ کہ کتاب کے نسخوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات کافی نہیں ہے۔ ہمارے ملک کے لئے ابھی یہ بہت کم ہے۔ ایسا ماحول ہونا چاہیے کہ ہر خاندان کی روز مرہ کے استعمال کی اشیاء میں کتاب باقاعدہ شامل ہو۔ لوگ کتابیں خریدیں۔ البتہ مطالعہ کے لئے، صرف کتبخانے کو سجانے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے نہیں۔ یہ نکتہ سماج و  معاشرے میں مطالعہ کا ماحول پیدا کرنے کے لئے اہم نکتہ ہے۔
ایک مسئلہ کتبخانوں کا ہے۔ اس سلسلے میں لائیبریریوں کام کرنے والے اہلکار  واقعی زحمت اٹھا رہے ہیں اور ان پر براہ راست ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ میں نے بچپن سے ہی کتبخانوں میں لائبریرین کے کردار کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ میں مشہد مقدس میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے کتب خانے میں جاتا تھا اور دیکھتا تھا کہ وہاں کے لائبریرین حضرات کتنا اہم رول ادا کر رہے ہیں، کتنی زحمتیں اٹھا رہے ہیں، کتنی دلسوزی سے کام کر رہے ہیں۔ لائبریرین کا کام بڑا عظیم علمی کام ہے۔ لائبریرین کا کام صرف یہ نہیں ہے کہ لوگوں کو کتابیں دے اور ان سے واپس لیکر رکھ دے۔ لائبریرین کو چاہیے کہ وہ کتاب سے رجوع ہونے والے افراد کے لئے راہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیں۔
ایک اہم اور ضروری کام یہ بھی ہے کہ ہم ذہن کو صحیح طور پرمطالعہ کا عادی بنائيں۔ اگر ایک کتاب کا مطالعہ کرنا ہے اور اس سے پہلے اسی موضوع کی دیگر کتابوں کا آپ مطالعہ کر چکے ہیں اور اس کے بعد اب اس کتاب سے آپ رجوع کررہے ہیں تو اس کا اثر زیادہ ہوگا۔ لیکن اس کے لئے راہنمائي کی ضرورت ہے۔
بعض افراد مطالعہ کے عادی ہیں لیکن آسان کتابیں ہی پڑھنا چاہتے ہیں جن میں ذہن پر زیادہ زور ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ یہ بھی مطالعہ ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن مطالعہ کی بہتر روش یہ ہے کہ انسان مطالعہ والی کتابوں میں آسان کتاب کو بھی شامل رکھے۔ مثال کے طور پر ناول، داستان یا تاریخ کی آسان کتابوں کا مطالعہ ان کتابوں کے ساتھ کرے جن میں غور و فکر کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمیں اپنے ذہن کو غور و فکر کرنے کا عادی بنانا چاہیے۔ تدبر کی عادت ڈالنی چاہیے۔ تاکہ کتاب ذہن کو فکر و تدبر پر مجبور کرے، اس سب کے لئے راہنمائی کی ضرورت ہے۔
آج ہمیں جن چیزوں کی خاص ضرورت ہے ان میں ایک مختلف طبقات کے لئےمطالعہ کے مناسب منصوبہ کی ضرورت ہے متعدد بار یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ نوجوانوں یا بچوں کو ہم کتاب پڑھنے کی ترغیب کرتے ہیں لیکن وہ پلٹ کر سوال کرتے ہیں کہ ہم کون سی کتابیں پڑھیں؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا ایک جواب نہیں ہے۔ اس کے متعدد جوابات ہو سکتے ہیں۔ کتاب کے امور کے ذمہ دار افراد چاہے وہ اسلامی ارشاد و ثقافت کی وزارت سے منسلک ہوں یا کتب خانوں سے مربوط ہوں، انھیں اس سلسلے میں سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے۔ مختلف شعبوں میں، مختلف طبقات کے افراد کے لئے، مختلف شکلوں میں، مناسب تنوع کا خیال رکھتے ہوئے مطالعے کا منظم دستور العمل تیار کرنا چاہیے۔ پہلے یہ کتاب، پھر یہ کتاب اور اس کے بعد یہ کتاب۔ جب بچہ، نوجوان یا کوئی اور شخص جو کتاب سے ابھی مانوس نہیں ہے، اندر آتا ہے، آگے بڑھتا ہے تو پھر اپنا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب بھی ہوتا ہے۔ یہ نکتہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔
دوسرا نکتہ کتاب کے انتخاب کے سلسلے میں ہے۔ کسی ایک شخص یا چند افراد کی فکر، عقل، تجربات، فن اور ذوق کا نتیجہ کتاب کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہر کتاب مفید ہی واقع ہو اور اس میں کوئی مصر یا نقصاندہ پہلو نہ ہو۔ بعض کتابیں مضر بھی ہوتی ہیں۔ کتابوں کے امور کے ذمہ دار افراد کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ کتابخانوں کی فضا میں کوئی مضر کتاب نہ آجائے نقصاندہ کتابوں کو مطالعہ کی فضا میں نہیں لانا چاہیے۔جیسا کہ زہریلی دوائیں، خطرناک دوائیں، نشہ آور دوائیں متعلقہ عہدیدار آسانی سے سب کو فراہم نہیں کرتے، لوگوں کی پہنچ سے انہیں دور رکھتے ہیں، کبھی کبھی متنبہ بھی کرتےہیں۔ اسی طرح کتاب ایک معنوی غذا ہے۔ اگر خراب ہو، اگر زہریلی ہو، اگر نقصاندہ ہو تو ہم ایک ناشر کی حیثیت سے، کتاب کےمصنف کی حیثیت سے، کتب خانے کے ذمہ دارکی حیثیت سے، کتب کی تقسیم کے ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے یا کسی اور حیثیت سے اگر کتاب کے ساتھ منسلک ہیں تو ہمیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ انہیں ایسے افراد کے حوالے کر دیں جو باخبر نہیں ہیں، متوجہ نہیں ہیں۔ شریعت اسلام میں اس کے سلسلے میں ایک الگ باب ہے۔ تو بہت احتیاط سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اچھی اور مفید موضوعات پر مشتمل کتاب لوگوں کو دینی ہے۔ اس بات پر خاص توجہ مبذول کرنی چاہیے کہ کتاب فکری تربیت بھی کرنے والی ہو اور صحیح راستے کی نشاندہی بھی کرنے والی ہو۔ لہذامطالعہ کے سلسلے میں منصوبہ بندی کے ساتھ اس نکتے پر توجہ دینابھی ضروری ہے۔
ہم ایرانی قوم کی حیثیت سے، ایک مسلمان قوم ہونے کے لحاظ سے کتابوں سے گہرا اور دیرینہ تعلق رکھتے ہیں۔ یہ کوئی تازہ بات نہیں ہے کہ ہمیں کتاب سے آشنائی حاصل ہوئی ہے۔ ہمارے ملک میں، خاص طور پر اسلام پھیل جانے کے بعد عظیم کتب خانوں، علمی مراکز، گرانقدر تحریروں ان سب چیزوں کی بڑی قدیم تاریخ ہے۔ ہم ایسی قوم سے تعلق رکھتے ہیں جس کا کتابوں سے بہت گہرا ،پرانا اور قدیم تعلق رہا ہے۔ کئی صدیوں سے ہم کتابوں سے مانوس رہے ہیں ۔ البتہ ان دنوں کتابوں تک رسائی آسان نہیں تھی۔ خطی نسخوں کے دوسرے نسخے تیار کرنا آسان نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی جو لوگ کتاب سے انس رکھتےتھے، کتابوں سے شغف رکھتے تھے انہوں نے کتنی محنت اور زحمت اٹھائی؟! ہم نے پڑھا ہے اور بارہا سنا ہے کہ بعض افراد ایسے تھے کہ کسی کتاب کی ضرورت تھی اور جن کے پاس وہ کتاب تھی وہ ذرا بخل سے کام لیتے تھے، کتاب دینے پر تیار نہ ہوتے تھے۔ بڑی مشکل سے منت سماجت کرکے کتاب کو ایک یا دو شب کے لئے ادھار لیتے تھے اور پھر انہیں نہ دن کی خبر ہوتی تھی نہ رات کی، مسلسل محنت کرکے اس کتاب کا ایک اور نسخہ تیار کر لیتے تھے۔ اس طرح کی مثالیں بے شمار ہیں۔ آج یہ ساری رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں۔ علم کی ترقی سے کتابوں کی فوٹوکاپی کر لینا آسان ہو گیا ہے۔ ہمیں اپنے اس ماضی کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے، کتب کی نشر و اشاعت میں اپنے مقام کو مزید بلند کرنا چاہیے۔
کتاب کو بازار میں لانے والے افراد کو بھی اس نکتے پر توجہ مبذول کرنی چاہیے۔ چاہےمصنفین ہوں، مترجمین ہوں یا ناشر حضرات ہوں جو کتابیں لوگوں تک پہنچاتے ہیں، انھیں معاشرے کی ضرورت اور احتیاج پر توجہ دینی چاہیے۔ فکری خلاء کی اور فکری احتیاج کی نشاندہی کرنی چاہیے، انتخاب کرنا چاہیے ، پھر اس پر کام شروع کرنا چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کتابوں کے بازار میں بسا اوقات ایسی کتابیں نظر آتی ہیں جن میں گمراہ کن باتیں بھی ہوتی ہیں۔ ان میں ایسے موضوعات موجود ہوتے ہیں جو معاشرے کی عام ذہنیت کے لئے اور ملک کی عام ذہنیت کے لئے، اخلاقی لحاظ سے، دینی و اعتقادی لحاظ سے یا پھر سیاسی لحاظ سے مضر ہوتے ہیں۔ کتب کے بازار میں واضح طور پر یہ بات نظر آتی ہے کہ کتابوں کے پس پردہ کچھ خفیہ ہاتھ ہیں جو اپنا کام کر رہے ہیں۔ اور خاص سیاسی اہداف کے تحت کتابیں لکھی جا رہی ہیں، ترجمہ کئے جا رہے ہیں ۔ ان کی ظاہری شکل و صورت تو علمی کی ہے لیکن ان کا باطن سیاسی ہے۔
ہمارے ملک میں بہت سے ایسے امور ہیں جن کی ترویج و تبلیغ علم و ثقافت کے نام پر اغیار کررہےہیں جو اسلام اور اسلامی نظام کے دشمن ہیں ۔ ان کا صرف ظاہر ثقافتی اور علمی ہے، باطن پوری طرح سیاسی ہے۔ اسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ لہذا کتابوں کے امور سے وابستہ افراد کو چاہیے کہ وہ ان امور کی طرف خوب توجہ دیں کتبخآنوں کے مالکان ، کتابخانوں کے اہلکاروں ، ناشروں ، وزارت ثقافت و ارشاد اسلامی کے عہدیداروں و اہلکاروں کو چاہیے کہ وہ معاشرے کے لئے مفید اور مؤثر کتابیں فراہم کریں ۔ اس وقت ماشاء اللہ خواندگي کی شرح اور کتابوں سے استفادہ کا امکان بہت وسیع ہے۔ اس سنہری موقعہ کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
میں آج اس اجتماع میں مفید و سود مندکتاب اور مطالعہ کے حوالے سے ایک نئے سلسلے کا آغاز کرنا چاہتا ہوں ، ملک میں تمام حکام کو ایک نئی مہم شروع کرنی چاہیے۔ تالیف تصنیف اورترجمہ کرنے والوں ،منصوبہ بندی کرنے والوں اورکتاب کا پرچار کرنے والوں سے لیکر کتاب پڑھنے والے بچوں اور نوجوانوں تک سب کے اندر مطالعہ کا ایک نیا جذبہ اور نیا طرز فکر پیدا ہونا چاہیے۔ ساڑھے سات کروڑ کی آبادی والے ملک، نوجوانوں کی اتنی کثیر تعداد اور اس جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے کتابوں کے نسخوں کی ایک ہزار دو ہزار یا تین ہزار کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ بعض کتابوں کے سلسلے میں دیکھنے میں آتا ہے کہ ان کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے ہیں لیکن مجموعی طور پر کتابوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعداد اطمینان بخش اور کافی نہیں ہے۔ ایک نئی تحریک کی ضرورت ہے۔
میں کتب کے امور سے منسلک تمام عہدیداروں اور اہلکاروں کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں اور ان سے سفارش  بھی کرتا ہوں کہ وہ کتاب کے معاملے میں ایک نیا نقطہ نظر اختیار کریں۔ ہمیں کچھ ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ مطالعہ کا اچھاماحول بنایا جائے اور ہمارے نوجوان کے ہاتھ کتاب سے خالی نظر نہ آئیں ۔ یہ جو اعداد و شمار بتائے جاتے ہیں کہ چوبیس گھنٹے میں مطالعہ کی مقدار اتنی ہے۔ یہ اعداد و شمار اطمینان بخش نہیں ہیں۔ صورت حال اس سے بہت بہتر ہونی چاہیے۔ انسان کبھی بھی کتاب سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ بچپن سے لیکر، تعلیم کے ابتدائی مراحل اور پھر وہاں سے لیکر عمر کے آخر تک انسان کو کتاب کی ضرورت ہے، مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے، فکری و معنوی غذا حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے کی سطح پر ذہن اس بات کے لئے تیار ہونا چاہیے ، عمل اوراقدام کرنا چاہیے اور اس میں جد و جہد جاری رکھنی چاہیے ۔
اللہ تعالی آپ سب کو کامیابی عطا فرمائے۔ہم آپ کی زحمتوں اور محنتوں کی قدر کرتے ہیں۔ آج تک جو کام انجام دیا گياہے اس سے ہم خوش ہیں اور امید کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ نے اب تک انجام دیاہے اس سے کئی گنا زیادہ انجام دیں۔ اللہ تعالی آپ کی مدد و نصرت فرمائے اور انشاء اللہ حضرت بقیۃ اللہ ( عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کی دعائیں آپ کے شامل حال رہیں۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌