ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا مہدویت ریسرچ سینٹرکے محققین اور اساتذہ سے حطاب

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

میں، سب سے پہلے آپ تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں آپ مختلف اور بہت ہی اہم شعبوں میں مصروف عمل ہیں، محنت ، لگن اور دلچسپی کے ساتھ کام میں مشغول و مصروف ہیں۔ چاہے وہ کام نماز سے متعلق شعبہ میں ہو، زکات سے متعلق شعبہ میں ہو، تفسیر قرآن سے متعلق شعبہ میں ہو، منجی عالم بشریت کے عقیدے  سے متعلق شعبہ میں  ہو یا دوسرے شعبوں میں ہو جن کا تذکرہ جناب قرائتی صاحب نے کیا۔ یہ سبھی بہت ہی اہم اور نمایاں کام ہیں یہ بہت ضروری اور بڑے کام ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ان شعبوں میں مصروفیت در حقیقت انفاق فی سبیل اللہ اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں صدقہ مقبولہ ہے میں  آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں بالخصوص جناب آقائ قرائتی کا تہہ دل سےمشکور ہوں۔ البتہ میں کیا شکریہ ادا کروں یہ کام اللہ تعالی کے لئے ہے اور اللہ تعالی ہی انھیں اور ان کے ساتھیوں کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائے گا! البتہ ہم ان کی قدردانی ضرور کریں گے۔ میں چند جملے آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جناب آقائ قرائتی ایک بہترین ، عمدہ ، قابل فخر اور سبق آموز نمونہ ہیں۔ کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو کام انھوں  نے انجام دیئے ہیں اور جن امور پر انھوں نے توجہ دی ان کی معاشرے میں بہت زيادہ ضرورت تھی، یہ ایک خلاء تھا جسے پر کرنا لازمی تھا اور آقائ قرائتی نے اس خلا کو پر کردیا، ان ضرورتوں کو پورا کردیا۔ انہوں نے اس خلاء کو محسوس کیا اور پھر اسے پورا کرنے کی کوشش کی ۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ بعض کام ایسے ہوتے ہیں جو اچھے تو ہیں لیکن ان میں یکسانیت ہوتی ہے اور انہیں بار بار دوہرانا پڑتا ہے۔ اگر کوئی شخص خلاء کو پر کرنے میں ان ضرورتوں کی تکمیل میں مضبوط اور پختہ عزم کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ انہوں نے ان امور کو بالکل منفرد انداز میں انجام دیا ہے ۔ نماز کے سلسلے میں بھی، اتنی عظمتوں والی نماز، اتنا اہم عمل جو دین کاستون ہے، جو دیگر اعمال کی مقبولیت کی ضمانت ہے اگر یہ کام عدم توجہ اور غفلت کی نذر ہو جائے، اس پر کما حقہ توجہ نہ دی جائے تو معاشرے میں اس سے بہت بڑا خلاء پیدا ہو جائے گا۔ آقئ قرائتی نے اس خلاء پر توجہ مرکوز کی۔ اسی طرح زکات کے مسئلہ بھی انھوں نے خاص توجہ مبذول کی اور حقیقت ہے کہ  ہمارے معاشرے میں یہ چیز رائج نہیں تھی۔ یہ واجب فریضہ رائج نہیں تھا جو بہت بڑا نقص تھا۔ آپ نے ہمت و حوصلے سے کام لیا، میدان میں قدم رکھا ہر جگہ جانا، اسے بیان کرنا، بار بار تاکید کرنا اور تھکن محسوس نہ کرنا ان تمام مرحلوں  کے بعد ہی کوئی چیز رائج ہو پاتی ہے۔ تفسیر قرآن کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اسی طرح منجی عالم بشریت کے متعلق عقیدہ ہے۔ یہ جناب قرائتی کی تحریک کا بڑا اہم نکتہ ہے۔
دوسری بات جس کی اہمیت پہلی بات سے بھی زیادہ ہے، وہ آقائ قرائتی  کا خلوص اور جذبہ  اخلاص ہے۔ یہ اخلاص عمل ان کے کاموں کی پیشرفت میں بھی موثر واقع ہوا ہے۔ اللہ تعالی ہمیشہ مخلصانہ نیتوں کی تائید کرتا ہے۔ ‍خلوص  نیت کے ساتھ انجام دیئے جانے والے کام کی سریع پیشرفت میں اخلاص عمل کا بڑا حیرت انگیز اثر دکھائی دیتا ہے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے۔
میں نے یہ باتیں اس لئے عرض نہیں کیں کہ صرف کسی ایک شخص کی تعریف اور تجلیل ہوجائے نہ تو آقائ قرائتی کو اس کی ضرورت ہے اور نہ ہی ہم اس قسم کی چیزوں میں پڑتے ہیں۔ ہمارا مقصد بس اتنا ہے کہ یہ طرز عمل اور یہ روش ہمارے لئے، ہم سب کے لئے اور خاص طور پر طلبہ کے لئے نمونہ عمل قرار پائے۔ یعنی ہم اس انداز سے عمل کریں۔ ہر کسی کا اپنا مزاج ہوتا ہے، اپنی الگ استعداد ہوتی ہے، صلاحیت ہوتی ہے، گنجائش ہوتی ہے، ان صلاحیتوں کو کام انجام دینے کے لئے عمل میں  لانا چاہیے۔
دوسری بات مسلسل تلاش و کوشش اور جد وجہد کی بات ہے میں یہیں پر جناب قرائتی اور ان کے ساتھیوں سے یہ سفارش بھی کرتا ہوں کہ جو کام انہوں نے شروع کیا ہے اسے ہرگز ترک نہ کریں، ان پر مسلسل محنت کرتے رہیں۔ ہم نے کوئی کام شروع کیا تو جب اس کے ثمرات ظاہر ہونے لگیں، ہم خوش ہوں، مسرور ہوں، اللہ کا شکر ادا کریں لیکن ایسا نہ ہو کہ مطمئن ہوکر بیٹھ جائیں  اور بے نیازی کا احساس ہمارے اندر پیدا ہو جائے۔ یہ صحیح نہیں ہے، ہمیں محنت کے ساتھ کام جاری رکھنا چاہیے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کی مدد فرمائے، آپ کوطول عمر عطا کرے، صحت و سلامتی مرحمت فرمائے تاکہ آپ ان امور کو جاری و ساری رکھ سکیں۔ یہ بھی بہت اہم بات ہے۔
حضرت ولی عصر امام زمانہ علیہ السلام سے متعلق عقیدے کا جہاں تک تعلق ہے تو پندرہ شعبان المعظم اور حضرت ولی عصر (عج) کی ولادت کی مناسبت کے قریب ہونے کی وجہ سے اس موضوع پر گفتگو کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے، اس سلسلے میں بس اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں  کہ دینی عقائد اور معارف کی چند اہم ترین بنیادوں میں ایک امام مہدی علیہ السلام سے متعلق عقیدہ ہے، جس کی اہمیت  عقیدہ نبوت جیسی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ عقیدہ جس چیز کی بشارت اور نوید دیتا ہے وہ وہی امر ہے جس کے لئے تمام انبیاء و رسولوں  کو مبعوث کیا گیا۔ وہ اللہ تعالی کی ودیعت کردہ تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے انصاف کی بنیاد پر توحیدی معاشرے کی تشکیل دیں گے ۔ امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کا زمانہ انہی خصوصیات کا حامل زمانہ ہے۔ یہ توحیدی معاشرے کا زمانہ ہوگا، یہ یکتا پرستی کی بالادستی کا زمانہ ہوگا یہ انسانی زندگی کے گوشہ گوشہ میں دین و معنویت کی حقیقی فرمانروائی کا زمانہ ہوگا، عدل و انصاف کے مکمل قیام کا زمانہ ہوگا۔ واضح ہے کہ انبیائے کرام کو اسی مقصد کے تحت بھیجا گیا تھا۔
میں نے بارہا یہ بات کہی ہے کہ انسانیت نے گذشتہ صدیوں کے دوران انبیائے الہی کی تعلیمات کے زیر اثر جو کچھ کیا ہے وہ در حقیقت اس شاہراہ کی جانب بڑھنے کی کوشش ہے جو حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے زمانہ ظہور میں انسانیت کو اعلی اہداف کی جانب لے جائے گا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے انسانوں کا ایک گروہ پہاڑی راستوں، دشوار گزار گھاٹیوں، دشوار وادیوں، کانٹوں اور رہزنوں سے بھرے راستوں سے کچھ خاص ہستیوں کی ہدایت اور رہنمائی  کے سہارے آگے بڑھ رہا ہے کہ کسی صورت سے خود کو اس شاہراہ تک پہنچا دے۔ جب یہ کارواں شاہراہ پر پہنچ جائے گا تو پھر راستہ بالکل سیدھا، واضح اور ہموار ہوگا اور اس پر آگے بڑھنا آسان ہوگا۔ کارواں آسودہ خاطر ہوکر اس شاہراہ پر اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ شاہراہ پر پہنچ جانے کے بعد سفر ختم ہو جائے گا۔ جی نہیں، اس مرحلے پر پہنچنے کے بعد ہی تو اعلی الہی اہداف کی سمت برق رفتاری سے سفر کا آغاز ہوگا۔ کیونکہ انسان کی استعداد ختم ہونے والی ہے۔ گذشتہ صدیوں میں انسانی قافلہ مختلف راستوں، دشوار گزار اور سخت وادیوں سے گزرا ہے، مختلف رکاوٹوں اور مشکلوں سے دوچار ہوا ہے، زخمی بدن اور لہولہان قدموں کے ساتھ ان راستوں پر گامزن رہا ہے تاکہ کسی صورت میں خود کو شاہراہ تک پہنچا دے۔ یہ شاہراہ وہی امام زمانہ علیہ السلام کے زمانہ ظہور کی شاہراہ ہے۔ ظہور کا زمانہ ہی در حقیقت بشر کے ایک نئے سفر کا نقطہ آغاز ہے۔ اگر مہدویت کا عقیدہ نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انبیائے الہی کی تمام کوششیں، دعوت حق، بعثت رسل، طاقت فرسا زحمتیں، اور ان کی تمام جد وجہدبے نتیجہ اور غیر مؤثر تھی ، بے سود تھی۔ لہذا مہدویت کا عقیدہ ایک بنیادی عقیدہ ہے۔ سب سے بنیادی الہی معارف کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں تک ہمیں اطلاع ہے تمام ادیان الہی میں یہ عقیدہ موجود ہے اور در حقیقت  یہی عقیدہ  مہدویت کا عقیدہ ہے۔ البتہ اس عقیدے کی شکلیں الگ الگ اور تحریف شدہ ہیں، اس میں واضح طور پر اس عقیدے کو بیان نہیں کیا گيا ہے۔ اسلام میں امام زمانہ علیہ السلام سے متعلق عقیدہ مسلمہ عقائد میں ہے، یعنی یہ عقیدہ صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے۔ تمام اسلامی مکاتب فکر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ سرانجام دنیا میں حضرت مہدی (علیہ الصلاۃ و السلام ) کے ہاتھوں عدل و انصاف کی حکمرانی قائم ہوگی۔ مختلف حوالوں سے پیغمبر اسلام اور دیگر عظیم ہستیوں کی روایات اس سلسلے میں نقل کی گئی ہیں۔ لہذا اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شیعوں  کے درمیان مہدویت کا عقیدہ واضح ہے  شیعوں کے ہاں  عقیدہ  مہدویت میں کوئی  ابہام نہیں ہے، شیعوں کے نزدیک  یہ کوئی پیچیدہ عقیدہ نہیں ہے جو لوگوں کے لئے قابل فہم نہ ہو۔ یہ بالکل واضح اور عیاں مسئلہ ہے جس کا بالکل واضح مصداق ہے۔ ہم اس مصداق کو جانتے ہیں، اس کی خصوصیات سے ہم واقف ہیں، اس ہستی کے آباء و اجداد سے ہم واقف ہیں، ان کے خاندان کو ہم جانتے ہیں، ان کی تاریخ ولادت ہمیں معلوم ہے، اس کی تفصیلات سے ہم آگاہ ہیں۔ اس کے متعلق بھی صرف شیعہ علماء کی روایات نہیں ہیں، غیر شیعہ راویوں کی روایات بھی ہیں جو ان علامات کو واضح کرتی ہیں۔ دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو چاہیے کہ ان روایات پر توجہ دیں تاکہ حقیقت ذہن نشین ہو جائے۔ تو اس عقیدے کی اہمیت کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے اور اس سلسلے میں دوسروں سے پہلے خود ہمیں گہرا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں محکم اور ٹھوس علمی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔
حضرت امام مہدی کے ظہور کے انتظار کا مسئلہ بھی مہدویت کے عقیدے کا لازمی حصہ ہے اور یہ بھی منزل کمال کی سمت امت مسلمہ کی عمومی و اجتماعی حرکت اور حقیقت دین کو سمجھانے میں بنیادی حیثیت رکھنے والے مفاہیم میں سے ہے۔ انتظار یعنی توجہ، انتظار یعنی ایک یقینی حقیقت پر نظر رکھنا۔ یہ ہے انتظار کا مفہوم۔ انتظار یعنی امید افزامستقبل جس کے ہم منتظر ہیں ۔ بالخصوص اس لئے بھی کہ یہ انتظار اہم ہے کہ  ایک جیتے جاگتے انسان کا انتظار ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی شخص پیدا ہونے والا ہے، وجود میں آنے والا ہے اور ظہور پذیر ہونے والا ہے۔ نہیں، وہ ایسی ہستی ہے جو موجود ہے، لوگوں کے درمیان موجود ہے۔ روایتوں میں منقول ہے کہ لوگ انہیں دیکھتے ہیں اور حضرت بھی لوگوں کو دیکھتے ہیں لیکن لوگ حضرت (عج) کو پہچانتے نہیں۔ بعض روایات میں حضرت یوسف سے تشبیہ دی گئی ہے کہ حضرت یوسف کے بھائی انہیں دیکھ رہے تھے حضرت یوسف ان کے سامنے تھے، ان کے قریب جاتے تھے لیکن وہ انہیں نہیں پہچان پاتے تھے۔ آپ کا وجود اس طرح کی نمایاں، واضح اور حوصلہ افزاء حقیقت ہے۔ یہ حقیقت، انتظار کا صحیح مفہوم سمجھانے میں مدد کرتی ہے۔ بشر کو اس انتظار کی ضرورت ہے اور امت مسلمہ کو تو بدرجہ اولی اس کی ضرورت ہے۔ یہ انتظار انسان کے دوش پر کچھ فرائض ڈال دیتا ہے۔ جب انسان کو یقین کامل ہے کہ اس طرح کا مستقبل آنے والا ہے، چنانچہ قرآن کی آیات میں بھی اس کا ذکر ہے «و لقدكتبنا فى الزّبور من بعد الذّكر انّ الارض يرثها عبادى الصّالحون. انّ فى هذالبلاغا لقوم عابدين»(1) جو لوگ بندگی پروردگار سے مانوس ہیں، سمجھتے ہیں انہیں چاہیے کہ خود کو آمادہ کریں، منتظر رہیں اور نظر رکھیں۔ انتظار کا لازمہ ہے خود کو آمادہ کرنا۔ اگر ہمیں علم ہے کہ کوئی بڑا واقعہ رونما ہونے والا ہے اور ہم اس کے منتظر ہیں تو کبھی ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ابھی تو بڑا طویل عرصہ باقی ہے اس واقعہ کے رونما ہونے میں اور نہ ہی ہم یہ کہیں گے کہ یہ واقعہ بالکل نزدیک ہے اورعنقریب رونما ہونے والا ہے۔ ہمیں ہمیشہ منتظر رہنا ہوگا، ہمیشہ نظر رکھنی ہوگی۔ انتظار کا تقاضا یہ ہے کہ انسان خود کو اسی وضع قطع میں ڈھالے اور وہی اخلاق و انداز اختیار کرے جو اس زمانے کے لئے مناسب ہے جس کا اسے انتظار ہے۔ یہ انتظار کا خاصہ ہے۔ جب اس زمانے میں عدل و انصاف کی بالادستی قائم ہونے والی ہے، حق کا بول بالا ہونے والا ہے، توحید و اخلاص و عبودیت پروردگار کا پرچم لہرانے والا ہے، ان خصوصیات کا حامل دور آنے والا ہے تو ہم اس کے انتظار کی گھڑیاں گن رہے ہیں ہمیں خود کو ان صفات سے متصف کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں چاہیے کو عدل و انصاف کے حامی بنیں، خود کو انصاف کے لئے تیار کریں، خود کو حق و حقیقت تسلیم کرنے کے لئے آمادہ کریں۔ انتظار اس طرح کی حالت پیدا کر دیتا ہے۔
حقیقت انتظار میں ایک اور خصوصیت شامل کر دی گئی ہے اور وہ خصوصیت یہ ہے کہ انسان موجودہ صورت حال پر اوراس وقت تک حاصل ہونے والی پیشرفت پر ہی قناعت نہ کرے بلکہ روز بروز اس ترقی میں اضافہ کرے، ان حقائق اور روحانی و معنوی صفات کو اپنے اندر اور معاشرے کی سطح پر نافذ کرنے کی کوشش کرے۔ یہ انتظار کے اہم اور ضروری نکات ہیں۔
بحمد اللہ اس وقت انتظار کے موضوع پر عالمانہ اور ماہرانہ  انداز میں کام کیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ جناب قرائتی کی رپورٹ میں ذکر کیا گیا۔ ویسے میں پہلے بھی اس رپورٹ کو پڑھ چکا ہوں اور ایک بار پھر یہ چیز بیان کی گئی۔ انتظار کے مسئلے میں باریک بینی کے ساتھ عالمانہ انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں عامیانہ اور جاہلانہ باتوں سے بہت سختی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ جو چیزیں خطرناک ہو سکتی ہیں ان میں یہی عامیانہ، جاہلانہ، معرفت سے عاری اور معتبر سند کے بغیر امام زمانہ علیہ السلام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے سلسلے میں بحث کرنا ہے۔ کیونکہ اس طرح مہدویت کے جھوٹے دعویداروں کے لئے زمین ہموار ہوتی ہے۔ غیر عالمانہ، غیر معتبر، غیر پختہ دلائل اور سند سے عاری بحث در حقیقت وہم و خیال ہے۔ اس طرح کی باتیں لوگوں کو حقیقی انتظار سے دور کر دیتی ہیں اور دجال صفت جھوٹے لوگوں کے لئے راستہ کھل جاتا ہے۔ لہذا ان باتوں سے سختی کے ساتھ دوری اختیار کرنی چاہیے۔
تاریخ میں مہدویت کےبہت سے دعویدار پیدا ہوئے ہیں۔ یہ دعویدار ظہور کی کسی ایک علامت کو اپنے اوپر یا کسی اور پر منطبق کر لیتے تھے۔ یہ سراسر غلط عمل ہے۔ بعض باتیں جو ظہور امام زمانہ علیہ السلام کی علامات کے طور پر بیان کی جاتی ہیں حتمی نہیں ہیں۔ یہ ایسی باتیں ہیں جو معتبر روایات میں مذکور نہیں ہیں۔ ضعیف روایتوں میں ان کا ذکر ضرور ملتا ہے لہذا ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ جو علامتیں معتبر ہیں ان کے لئے بھی صحیح مصداق کی تلاش کرنا مشکل ہے۔ تاریخ میں مختلف ادوار میں کچھ لوگ شاہ نعمت اللہ ولی کے اشعار کو مختلف لوگوں پر منطبق کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ چیز تو میں نے خود بھی دیکھی ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ یہ گمراہ کن باتیں ہیں، یہ غلط راستے پر لے جانے والی باتیں ہیں ۔ جب انحراف اور گمراہ کن باتیں شروع ہو جاتی ہیں تو حقیقت نظر انداز ہو جاتی ہے، حقیقت مشتبہ ہو جاتی ہیں۔ لوگوں کی گمراہی کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے۔ لہذا عامیانہ باتوں  سے اجتناب ضروری ہے اورعامیانہ افواہوں پر سکوت بھی نہیں کرنا چاہیے۔ عالمانہ، ٹھوس اور معتبر سند پر استوار کام ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے یہ اہل فن کا کام ہے، ، اس کے لئے اہل فن کی ضرورت ہوتی ہے، علماء حدیث کی ضرورت ہوتی ہے، علم رجال کے ماہر افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو سند کو پہچانتے ہوں، اہل نظر ہوں، باخبر لوگ ہوں، حقائق سے آشنا افرادہوں، ایسے لوگ ہی اس وادی میں قدم رکھ سکتے ہیں اور علمی تحقیق کر سکتے ہیں۔ اس پہلو کو جہاں تک ممکن ہو زیادہ سے زیادہ سنجیدگی اور توجہ سے انجام دینا چاہیے تا کہ لوگوں کے لئے راستہ کھلے۔ اس عقیدے سے دل جتنے محرم و راز دارہوں گے، مانوس ہوں گے، ہم لوگ جو زمانہ غیبت میں زندگی بسر کر رہے ہیں حضرت کا وجود مبارک جتنا زیادہ ہمارے لئے قریب اور قابل ادراک ہوگا، حضرت سے ہمارا رابطہ جتنا زیادہ قوی اور مضبوط  ہوگا ہماری دنیا کے لئے اور اعلی اہداف کی جانب گامزن رہنےکے لئے اتنا ہی زیادہ بہتر ہوگا۔
مختلف زیارتوں میں ہم جو توسل کا انداز دیکھتے ہیں جن میں بعض کی سند بھی بہت معتبر ہے، ان کی بہت اہمیت ہے۔ حضرت سے توسل، آپ کی جانب توجہ، آپ سے انس و  لگاؤ۔ بہت ضروری ہے انسیت سے مراد یہ نہیں ہے کہ کوئی یہ کہے کہ میں تو حضرت کو دیکھتا ہوں، حضرت (عج) کی صدائے مبارک کو سنتا ہوں۔ ہرگز نہیں، ایسا نہیں ہوتا۔ اس طرح کی باتیں  صحیح نہیں ہیں ان میں اکثر وبیشتر یا تو جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں یا وہ شخص اگرجھوٹ نہیں بول رہا تو وہ اپنے تصورات اور تخیلات کے زیر اثر اس طرح کی باتیں شروع کر دیتا ہے۔ ہم نے ایسے کچھ لوگوں کو دیکھا ہے جو جھوٹ بولنے والے لوگ نہیں تھے بلکہ وہ اپنی خیالی باتوں کے زیر اثر تھے۔ اپنی ان خیالی باتوں کو لوگوں کے سامنے حقیقت کے طور پر پیش کرتے تھے۔ ان باتوں سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ صحیح راستہ منطقی اور محکم دلائل کا راستہ ہے۔ توسل اور امام سے راز و نیاز کا جہاں تک سوال ہے تو یہ عمل، انسان دور سے انجام دیتا ہے۔ امام علیہ السلام اسے سنتے ہیں اور التجا کو قبول بھی کرتے ہیں۔ ہم اپنے مخاطب سے جو ہم سے دور ہے کچھ حال دل بیان کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اللہ تعالی سلام کرنے والوں اور پیغام دینے والوں کا پیغام اور سلام حضرت تک پہنچاتا ہے۔ یہ توسل اور یہ معنوی انس اچھا اور مستحسن  فعل ہے ۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ حضرت ولی عصر (عج) کے ظہور کو زیادہ سے زیادہ نزدیک فرمائے۔ ہمیں زمانہ غیبت میں بھی اور زمانہ ظہور میں بھی ان کے ناصرین میں شامل فرمائے۔ ،ہمیں حضرت کی قیادت میں جہاد کرنے والوں میں قرار دے اور ہمیں  اسی جہاد میں جام شہادت نوش کرنے والوں کی صف میں شامل فرمائے۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1) انبيا: 105و 106