ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا قرآن مجید کے بین الاقوامی مقابلوں کے شرکاء سے خطاب

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

الحمدللَّه ربّ العالمين و صلّی‌اللَّه على محمّد و آله الطّاهرين

بحمد اللہ  ہمیں خدا وند متعال کی اس توفیق پر بیحد مسرت ہے کہ اس نے ہمیں مزید ایک سال زندگي عطا کی اور ہمیں ایک بار پھر قرآن مجید کے اس دلنشیں ، لذت بخش اور شیریں اجلاس سے فیض یاب ہو نے کا موقع عطا کیا عزیز برادران نے قرآن مجید جو تلاوت فرمائی اس سے میں بہت محظوظ اور لطف اندوزہوا۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ان تمام عزیزوں کو، آپ تمام حضرات کو، ہم سب کو قرآن کے ساتھ محشور فرمائے۔ ہم دنیا میں بھی قرآن کے ہمراہ رہیں، قرآن کے ساتھ زندگی بسر کریں، ہماری سانسوں میں قرآن بسا رہے اور آخرت میں بھی، قیامت کے دن بھی قرآن مجید ہمارا شفیع قرار پائے اورہمارے خلاف شاکی نہ ہو۔ یہ ہماری دلی تمنا ہے۔
مرکز اتحاد
قرآن کریم کے ان بین الاقوامی  مقابلوں میں جو خاص بات نظر آئی وہ یہ تھی کہ قرآن یکجہتی کا محور ہے، قرآن اتحاد کا مرکز ہے۔ ہم مسلمانوں کے پاس اتحاد کے بہت سے عوامل ہیں۔ ان میں سے ایک یہی قرآن کریم ہے جو شاید سب سے زیادہ اہم ہے ۔ تمام مسلمان اورتمام مسلم اقوام قرآن مجید کے سامنے سر تسلیم خم کرتی ہیں، قرآن سے درس  حاصل کرتی ہیں، خود کو قرآن سے نزدیک کرنے کی تلاش و  کوشش کرتی ہیں۔ یہ بڑی اہم چیز ہے۔ اسلام اور قرآن کریم کے دشمنوں کی یہ سعی و کوشش رہی ہے کہ مسلم اقوام کے درمیان اختلافات پیدا کریں ، انہیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ رکھیں بلکہ انہیں ایک دوسرے کا حریف  اور دشمن بنا کر ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کردیں، انہیں ایک دوسرے کا دشمن ظاہر کریں۔ اس کی اصل وجہ ہم مسلمانوں کی قرآن سے غفلت اور دوری ہے۔ جب تمام مسلمان، اور پوری امت مسلمہ  اس آسمانی کتاب کو، اس ملکوتی پیغام کو، اس تحفہ الہی کو مانتی ہے تو اجتماع و اتحاد کے لئے اس سے بہتر کیا ذریعہ ہو سکتا ہے؟! ہم سب کو چاہیے کہ اس معنوی اور روحانی دسترخوان پر جمع ہوں اور عزت و قدرت کے اس اسلامی و الہی سرچشمے سے فیضیاب اور بہرہ مند ہوں۔
ہم سے دو بڑی غفلتیں سرزد ہوئی ہیں۔ ایک تو اس بات سے غفلت ہوئی ہے کہ قرآن ہم مسلمانوں کے اتحاد و اجتماع کا وسیلہ  ہے۔ اور ہم سے دوسری غفلت قرآنی مفاہیم پر یقین و اعتقاد پیدا کرنے اور قرآن میں مذکور اللہ تعالی کے وعدے کی حقانیت کو سچے دل سے تسلیم کرنے میں ہوئی ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کے وعدوں پر پورا یقین رکھنا چاہیے۔ اگر ہم نے اللہ تعالی  کے وعدوں پر یقین حاصل کر لیا تو امت مسلمہ کے سامنے اتحاد و یکجہتی، عزت و وقار اور قدرت و طاقت کا راستہ کھل جائے گا۔ امت اسلامیہ پسماندگی سے نجات حاصل کر لے گی۔ مصر سے تشریف لانے والے استاد محترم نے ابھی جو آیت پڑھی؛ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(1) اگر اللہ تعالی نے تمہاری مدد فرمائي تو پھر دنیا کی کوئی طاقت تم پر غلبہ پیدا نہیں کر سکتی اور «و ان يخذلكم فمن ذالّذى ينصركم من بعده»؛(2) اگر اللہ تعالی تمہاری مدد نہ کرے، معاونت نہ فرمائے تو پھر کون ہے جو تمہاری مدد کرے گا؟ یہ ایک واضح اور درخشاں پیغام ہے۔ مسلمان قوموں کو چاہیے کہ اس پیغام کو پرچم پر تحریر کرکے اپنی نگاہوں کے سامنے رکھیں اور اسے بار بار پڑھیں۔ «ان ينصركم‌ اللَّه فلا غالب لكم» اگر اللہ تعالی نے تمہاری مدد کی تو پھر دنیا کی کوئی طاقت تم کو مغلوب نہیں کر سکتی۔ ہم کیا کریں کہ اللہ تعالی ہماری مدد فرمائے؟ یہ بہت اہم نکتہ ہے کہ ہم کیا کام کریں کہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد ہمارے شامل حال ہو جائے؟ اس کا جواب قرآن نے ہمیں یوں دیا ہے؛ «ان تنصرو اللَّه ينصركم»(3)، «و لينصرنّ ‌اللَّه من ينصره»(4) تم اللہ کی نصرت کرو، دین خدا کی نصرت کرو، اللہ کے لئے قیام کرو تو اللہ تعالی  تمہاری مدد فرمائے گا۔ جہاں بھی قوموں نے اللہ کے دین کے لئے قیام کیا اور اپنے تمام وسائل کو استعمال کیا اللہ تعالی نے ان کی مدد کی ہے اور جب اللہ کی جانب سے ان کی مدد ہو گئی تو پھر کوئی طاقت انہیں مغلوب نہیں کر سکی۔ اس کا مشاہدہ ہم نے اپنے ملک میں کیا ہے۔ ہم نے اس کا بھی تجربہ کیا اور آزمایا ہے کہ «انّ اللَّه لا يغيّر ما بقوم حتّى يغيّروا ما بأنفسهم»(5) اس کا تجربہ ایرانی قوم نے کیا ہے۔ ہم نے عملی طور پر اسے آزمایا ہے۔ ہم نے خود کو بدلا تو اللہ تعالی نے ہمارے حالات تبدیل کر دیئے۔ بڑی حیرت انگیز بات یہ ہے اگر ہم نے ایک قدم بڑھایا تو اللہ تعالی نے ہمیں دس قدم آگے پہنچا دیا۔ ہم نے خود کو ذرا سے بدلا تو اللہ نے ہماری بے پناہ مدد کی اور ہمارے حالات کو باکل تبدیل کر دیا۔ ا
آج بھی ہم دنیا میں اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس وقت آپ مصر کے عوام کو دیکھئے! وہی اللہ اکبر کا نعرہ ہے، وہی جماعت کے ساتھ نماز ہے، وہی اسلامی نعرے ہیں۔ اس انداز سے وہ میدان میں اترے تو اللہ تعالی نے بھی ان کی مدد فرمائی۔ کیا امریکہ کے لئے یہ چیز قابل برداشت تھی کہ مصر میں یہ تبدیلیاں رونما ہوں؟ کیا غاصب صیہونی محاذ جو تمام مغربی طاقتوں کے اندر اپنی جڑیں پھیلائے ہوئے ہے ان تغیرات کو برداشت کر پا رہا ہے؟ لیکن یہ تبدیلیاں رونما ہوئيں! کیوں؟ اس لئے کہ جب اللہ تعالی  مدد کرتا ہے تو پھر دوسری تمام طاقتیں کاغذی شیر بن کر رہ جاتی ہیں۔ قوموں کو اس طریقے سے اپنا وقار حاصل کرنا چاہیے۔ «و للَّه العزّة و لرسوله و للمؤمنين»؛(6) عزت تو خدا کے ہاتھ میں ہے «تعزّ من تشاء و تذلّ من تشاء»؛(7) وہی جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے رسوا کر دیتا ہے۔ اللہ سے عزت کی دعا کیجئے۔ ہمیں قرآن کی صحیح شناخت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن پر اپنے پورے وجود سے، اپنے دل کی گہرائی سے ایمان یقین پیدا کرنے کی ضرورت ہے، صرف ظاہری یقین کافی نہیں ہے۔ ہمیں دل کی گہرائیوں سے قرآن کے وعدوں پر یقین کامل حاصل کر لینا چاہیے۔ آج ان وعدوں پر یقین کرنا زیادہ آسان ہے۔ آج جس دور میں ہم اور آپ زندگی بسر کر رہے ہیں اس میں  الہی بشارتوں اور نشانیوں کی عملی مثالیں اتنی زیادہ ہیں کہ آسانی کے ساتھ  ان کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس اطمینان کی بات اس آیت میں کی ہے؛ «و لكن ليطمئنّ قلبى»،(8) وہ اطمینان انسان کو آج حاصل ہو رہا ہے کیونکہ وہ آنکھوں سے دیکھ رہا ہے، حقائق نظروں کے سامنے ہیں۔ ایران پہلے کیا تھا؟ ایران طاغوتی عناصر کے چنگل میں جکڑا ہوا تھا، امریکہ کا ایران تھا، غاصب صیہونیوں سے وابستہ ایران تھا۔ ایران کیا تھا اور آج کیا بن چکا ہے؟ آج ایران سامراج اور صہیونزم کے خلاف جدوجہد کا مرکز اور مسلم اقوام کا مضبوط سہارا بن چکا ہے۔ اس کا ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ قرآن کی دعوت، قرآن کے پیغام اور قرآن کی بشارتوں کا کرشمہ ہے جو ہمیں دی گئی ہیں۔
میں اساجلاس میں اپنے ملک کے اہل قرآن سے خاص طور پر جو بات پیش کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ قرآن کے حفظ پر زیادہ توجہ دیں۔ حفظ کرنا ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے، حفظ اصلی منزل نہیں ہے۔ حفظ قرآن وسیلہ ہے، یہ وسیلہ ہے قرآن کی بآسانی تلاوت کرنے کا، اسے بار بار دوہرانے کا، آیتوں میں تدبر کرنے کا۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ  اپنی صلاحیتوں کو استعمال کریں، اپنے حافظہ کی قوت کو کام میں لائیں۔ بچوں اور نوجوانوں کو قرآن کے حفظ کی طرف راغب کریں! البتہ  موجودہ صورت حال کا ماضی سے کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہم بہت آگے پہنچ چکے ہیں لیکن ابھی بھی بہت کچھ کرنے کوباقی ہے۔ اب تک ہمارے ملک میں جو کام انجام پائے ہیں، کم ہیں۔ حفظ قرآن کی سمت بڑھنا ہے۔ جب حفظ قرآن کا مرحلہ طے پا جائے گا، یہ ہدف حاصل ہو جائے گا تو تدبر اور تفکر کا راستہ بھی ہموار ہو جائے گا اور یہی تدبر اہم اور کلیدی شئ ہے۔ قرآن مجید میں  میں تدبر اور اس کی آیات میں غور و فکر کلیدی ہدف ہے۔
ہم اپنے ملک کے تمام اہل قرآن کو اس اجلاس کے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں اور اللہ تعالی سےدعا کرتے ہیں کہ وہ قرآن کے صدقہ میں  اپنی رحمتیں آپ پر نازل فرمائے اور ہم سب کو دنیا و آخرت میں قرآن کی ہمراہی اور شفاعت نصیب کرے۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1) آل‌عمران: 160
2) همان‌
3) محمد: 7
4) حج: 40
5) رعد: 11
6) منافقون: 8
7) آل‌عمران: 26
8) بقره: 260