ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا یوم استاد کی مناسبت سے ہزاروں اساتذہ کے اجتماع سے خطاب

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم

میں تمام عزیزبھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدیدکہتا ہوں ملک بھر کے تعلیم و تربیت کے حساس ادارے سے منسلک  تمام اساتذہ ، اہلکاروں اور حکام کو خوش آمدید پیش کرتا ہوں ، اس موقع سےفائدہ اٹھاتے اور استفادہ کرتے ہوئے میں پورے ملک کے اساتذہ کو سلام ودرود پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالی کی بارگآہ میں عاجزانہ طور پر دعا کرتا ہوں  کہ تعلیم و تربیت کی جو مہم آپ کے دوش پر ہے اس کوآپ کے لئے بابرکت قرار دے اور اسےہماری عزیز قوم کے لئے خیر و برکت اور سعادت کا سرچشمہ بنائے۔
اس موقع پر ہم اپنے جلیل القدر
اور ہمیشہ زندہ  استاد شہید مرتضی مطہری کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔ میں یہ بات عرض کر دوں ؛  کہ ہمارے ہاں شہید مرتضی مطہری کی شہادت کے دن کو جو یوم استاد قرار دیا گیا ہے وہ ایک بامقصد علامتی عمل ہے۔ در حقیقت شہید مرتضی مطہری ایک جلیل القدر اور عظیم انسان تھے۔ ان کی زندگی عالمانہ، مومنانہ اور مخلصانہ مساعی کی ایک طویل فہرست پر مشتمل ہے جو احساس ہمدردی، علوم و معارف اور دین و ثقافت کے میدان میں مکمل طور پربصیرتکے زیورسے آراستہ تھی۔ اللہ تعالی نے اس عظیم انسان کو نیک جزا دی اور ان کی قسمت میں شہادت لکھ دی اور اس طرح انہیں زندہ جاوید بنا دیا۔ " بل احیاء عند ربھم" (1) قم کے دینی علوم کے مرکز سے فارغ التحصیل انسان علم و معرفت کی گہرائیوں سے نکالے گئے موتیوں کے ساتھ معاشرے کی تعلیم و تربیت اور ثقافت کے میدان میں وارد ہوتا ہے، نوجوان نسل کے درمیان پہنچتا ہے تو وہ معاشرے اور سماج کے لئے بے شمار برکتوں کا سرچشمہ بن جاتا ہے۔
میں یہاں پریہ بات بھی عرض کر دوں
جسے میں اس سے قبل حوزہ علمیہ میں بیان کرچکا ہوں کہ حوزہ علمیہ میں ایسے لائق علماء ، ممتاز شخصیات اور افاضل موجود ہیں جو تعلیم و تربیت کے عظیم میدان میں موثر کردار ادا کر سکتے ہیں اور تعلیم و تربیت سے زیادہ اہم کوئی دوسرا شعبہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تعلیم وتربیت کے شعبے کے لئے جتنی بھی مادی، روحانی اور افرادی سرمایہ کاری کی جائے وہ مناسب ہے۔ تعلیم و تربیت معاشرے کا حیات بخش سرچشمہ ہے۔ موجودہ معاشرے کے لئے بھی اور مستقبل کے معاشرے کے لئے بھی  یہ عظیم سرچشمہ ہے۔
اب یہاں
ہمآپ اساتذہ کے اہم نقش و کردارپر روشنی ڈالتے ہیں آپ حضرات اساتذہ ہیں۔ استاد وہ ہے جو مستقبل قریب میں ملک کا نظم و نسق چلانے اور معاشرے کے امور کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے افرادی قوت کو آمادہ اور تیار کرتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ چشم زدن میں آپ کے یہی شاگرد، آپ کے یہی نوجوان قوی اور توانا مرد بن چکے ہیں اور مختلف سطح پر معاشرے کے امور کی ذمہ داریاں ان کے دوش پر ہیں۔ انہی لوگوں کے درمیان سے عظیم انسان اور ممتاز صلاحیتوں کے مالک افراد نکلیں گے، انہی کے درمیان سے راہ حق کے مجاہدین باہر آئيں گے، ان ہی میں پاکباز اور راہ خدا میں اپنے پورے وجود کو قربان اور نثار کر دینے والے افراد سامنے آئيں گے، انہی کے درمیان سے ایسے با صلاحیت ہاتھ نکلیں گے جو ملکی معیشت کا نظم و نسق چلائیں گے، ملکی ثقافت کو سنواریں گے، انہی بچوں کےدرمیان سے جو آج آپ کی کلاس کے بچے ہیں۔ انہیں سنوارنے کی ذمہ داری آپ پر ہے۔ آپ ان کی پرورش  تربیت کر رہے ہیں کہ آگے چل کر وہ جہاں بھی پہنچیں بخوبی اپنی ذمہ داریاں نبھائيں، کام کریں، اچھے اور احسن انداز میں کام انجام دیں، ملک کی ترقی کے ضامن بنیں، پسماندگی اور اخلاقی انحراف کا باعث نہ بنیں۔ تو آپ ملاحظہ کریں گے کہ یہ چیز کتنی اہمیت کی حامل ہے۔
میں عرض کر چکا ہوں
؛  کہ آپ اساتذہ کی تاثیر بعض مواقع پر نسلی تاثیر سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ موروثی عادتیں اور خصلتیں انسان کے ساتھ لگی رہتی ہیں لیکن مشق اور تمرین کے ذریعے ان خصلتوں اور عادتوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس فطرت ثانیہ کو استاد اپنے شاگرد کو ودیعت کرتا ہے۔ یعنی آپ حقیقی معنی میں اسلامی تقاضوں کے مطابق انسان پیدا کر سکتے ہیں، آپ اسلامی جمہوریہ کے شایان شان افرادی قوت کو وجود عطا کر سکتے ہیں۔ یہ استاد کا کردار ہے ۔ یہ تعریفی جملے نہیں ہیں، یہ نمایاں حقائق ہیں جو موجود ہیں۔
حکام سے لیکر عام افراد تک قوم کے ہر فرد، ہر چھوٹے بڑے
انسان کے لئے ضروری ہے کہ استاد کی قدر و منزلت کو سمجھیں؛استاد کے وقارسے آشنا ہوں؛ یہ بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کو بھی چاہیے کہ اپنا کردار نبھائیں اور حکام بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ صرف سرکاری انداز میں نہیں بلکہ حقیقت میں لوگوں کو سمجھایا جائے۔ ہم لوگوں کو اس کا بخوبی ادراک ہونا چاہیے کہ یہ مرد یا یہ خاتون کلاس میں ہمارے بچوں کی، ہماری اولاد کی تعلیم و تربیت کے لئے اپنی زندگی صرف کر رہے ہیں ۔ خود استاد کو بھی اپنے اس کردار کی اہمیت کا احساس ہونا چاہیے۔ یہ بنیادی اور اہم ترین چیزوں میں ہے۔ چنانچہ استاد، یوم استاد، ہفتہ استاد یہ ساری چیزیں خاص اہمیت کی حامل اور بہت ہی عظیم ہیں۔
سب کو
کو اس بات پر توجہ دینی چاہیے، عوام کو اپنے انداز سے اور حکام کو اپنے انداز سے، تعلیم و تربیت کے ادارے کو اپنے انداز سے اور حکومتی عہدیدروں کو اپنے الگ انداز سے۔ استاد کے اس اہم مقام و مرتبے کو پہچاننا چاہیے اور اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے اور مادی و معنوی لحاظ اور خاص طور پر ان کی عزت و احترام کو ہر حال میں ملحوظ رکھنا چاہیے۔
کچھ باتیں تعلیم وتربیت کے شعبے کی اصلاح کے متعلق بھی عرض کرنا چاہتا ہوں اس کے متعلق میں بارہا عرض کر چکا ہوں، ان نشستوں میں بھی جو آپ اساتذہ کے ساتھ ہوتی ہیں اور ان اجلاسوں میں بھی جو حکام کے ساتھ منعقد ہوتے ہیں۔
سب سےپہلا سوال یہ ہے کہ وزارت تعلیم میں اس اصلاح اور تبدیلی کی ضرورت کیا ہے؟ کیونکہ کوئی بھی شخص کسی چیز کو بلاوجہ اور یونہی نہیں بدلتا۔ ہم کیوں یہ تبدیلی لانا چاہتے ہیں؟ اس کی بالکل واضح دلیل یہ ہے کہ ہمارا تعلیم و تربیت کا موجودہ نظام گوناگوں نسلوں کی تربیت کی ضروری توانائی کا حامل نہیں ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ نطام اور یہ سسٹم باہر سے لایا گيا ہے۔ ہماری داخلی ضرورتوں کی بنیاد پر تشکیل دیا جانے والا نظام نہیں ہے۔ یہ ہمارے سامنے ایک بڑی مشکل ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک قوم کے طویل تجربات، قوم کی زندگی کی تاریخ اسے اس نتیجے تک پہنچاتی ہے کہ تعلیم کا یہ انداز ہونا چاہیے اور تربیت کا یہ انداز مناسب ہے، اس شکل کا مکان بنانا چاہیے، اس طرح چلنا چاہیے، انتظامی امور کو اس طرح چلانا چاہیے۔ یہ بالکل درست روش ہے۔ انسان کو دوسروں کے تجربات سے بھی ہمیشہ استفادہ کرنا چاہیے۔ اس میں برا ماننے اور شرمانے کی کوئی بات نہیں ہے کہ دوسروں سے کچھ سیکھیں۔ برائی اس میں ہے کہ ہم دوسری قوموں کے نمونے اور آئیڈیل کو انکی ثقافت کو من و عن اپنے ملک اور معاشرے میں رائج کر دیں اور اپنے حالات، تقاضوں اور مقدمات پر کوئی توجہ نہ دیں۔ سو سال قبل ہمارے ملک میں یہی ہوا تھا۔ جو افراد باہری حکومتوں اور خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ تھے ان فرادسے قطع نظر، جن کی نیتیں پاک تھیں اور جو ملک کو ترقی کی راہ پر دیکھنا چاہتے تھے لیکن وہ پوری طرح یہ سمجھ نہیں سکے کہ کس طریقے سے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے، انہوں نے یہ سوچا کہ خود کو پوری طرح بدل کر غیر ملکیوں کی مانند بن جائیں۔ انہوں نے کہا بھی اور لکھا بھی کہ ہمیں پوری طرح سراپا انگریز بن جانا چاہیے۔ ان سے یہ بہت بڑی غلطی سرزد ہوئی۔ اس کی زد میں ہمارا تعلیم و تربیت کا شعبہ بھی آیا۔ ہمارے دوسرے شعبوں کا بھی بد قسمتی سے یہی انجام ہوا۔ ہمارا اقتصاد، ہمارا تعمیراتی سسٹم، ہماری سماجی زندگی اور دوسری بہت سی چیزیں طاغوتی حکومت کے دور کی سیاسی شخصیات کی غلط فہمی یا خیانتوں کی وجہ سے اس انجام کو پہنچیں۔ الحمد للہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ہماری سمت اور ہمارا راستہ بدل گیا۔ ہمارا رخ خود شناسی، خود فہمی اور ذاتی صلاحیتوں کی طرف مڑا لیکن اب بھی بہت سی بنیادیں اپنی سابقہ حالت پر باقی ہیں جن میں ایک یہی تعلیم و تربیت کا شعبہ ہے۔ ہمیں دنیا کے تجربات سے مغربی دنیا، مشرقی دنیا اور مختلف اقوام کے تجربات سے بھی اپنے آئیڈیل اور نمونے کو مزید سنوارنے کے لئے استفادہ کرنا چاہیے۔ اور اسی بنیاد پراصلاح اور تبدیلی کی ضرورت ہے۔
یہ تبدیلی ملک کی ضروریات اور روحانی و معنوی خصوصیات کی بنیاد پر تیار کئے جانے والے ایرانی نمونہ یعنی در حقیقت حقیقی اسلام اور اس دین مبین اسلام پر استوار نمونے کی بنیاد پر استوار ہونی چاہیے۔ ہمیں اس طرح کے نمونے کی تدوین کی ضرورت ہے۔ تبدیلی اسی نمونے کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ تعلیم و تربیت کے شعبے کے لئے اس نئے ڈھانچے اور اس نئے نمونہ کا ہدف کیا ہونا چاہیے؟ اس کا ہدف اسلامی جمہوریہ کے معیار کے مطابق انسانوں کی تربیت کرنا ہے۔ اگر اسلامی جمہوریہ ایران اپنے ہاتھ میں پرچم اسلام کو باقی رکھنا چاہتا ہے، اگر سعادت و سربلندی حاصل کرنا چاہتا اور اپنی دنیا و آخرت دونوں کو سنوارنا چاہتا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے بھی ہمیں تعلیم دی ہے کہ اپنی دنیا و آخرت کو آباد کرو اور یہ ضروری بھی ہے، اگر وہ چاہتا ہے کہ دوسری قوموں کو امداد بہم پہنچائے،

"کنتم خیر امۃ اخرجت للناس" (2) دوسری قوموں کے لئے شاہد و بشارت دہندہ بنے تو ظاہر ہے کہ اس کے کچھ تقاضے اورشرائط ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ شریف و با استعداد، ذی شعور، خلاقی صلاحیتوں سے سرشار، اخلاق حسنہ سے آراستہ، شجاع اور خطروں سے کھیلنے والے، نئے نئے میدانوں میں وارد ہونے کا حوصلہ رکھنے والے، احساس کمتری یا احساس برتری دونوں طرح کی نفسیاتی مشکلوں سے آزاد، اللہ کے متوالے اور قدرت خداوندی پر بھرپور توکل کرنے والے، صبر و ضبط اور حلم و بردباری سے آراستہ، پرامید اور با نشاط انسانوں کی تربیت کی جائے۔ اسلام نے ان تمام خصوصیات کو تمام مؤمن افراد کے اندر جمع کر دیا ہے۔ ہمیں ان خصوصیات کو ایک ایک کرکے ان پر توجہ مبذول کرنی چاہیےاور پھر ان سے استفادہ کرنا چاہیے، ان سے بہرہ مند ہونا چاہیے، ان سے محظوظ ہونا چاہیے اور اپنے وجود کے اندر ان خصوصیات کے ذخیرے میں اضافہ کرنا چاہیے۔ تنگ نظر، سوء ظن رکھنے والے، مایوسی کا شکار، افسردہ خاطر، بے تقوا اور داغدار دامن والے افراد اگر معاشرے کو چلائیں گے اور اسے سعادت و نیک بختی سے ہمکنار کرنا چاہیں گے تو یہ ان کے بس کی بات نہیں ہوگی اور نہ ہی  وہ نمونہ عمل بن سکتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کے شعبے میں تبدیلی کے سلسلے میں اس نکتے پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔
یہ تمام باتیں جو محترم وزیر نے بیان کیں، بہت اچھی ہیں البتہ اہمیت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ان میں بعض بہت اہم اور بنیادی
باتیں ہیں اور بعض دیگر فروعی اور جزوی امور ہیں۔ یہ ساری چیزیں انجام دی جانی چاہییں لیکن شرط یہ ہے کہ سمت معین ہو۔ آپ کو بخوبی علم ہو کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں تبدیلی کا جامع منصوبہ اور نقشہ ہونا چاہیے۔ اسی جامع منصوبے کی بنیاد پر ہم اس کے بعض حصوں پر پہلے اور بعض دیگر پر کچھ بعد میں عملدرآمد کریں۔ آپ ایک وسیع و عریض جگہ پر ایک خوبصورت اور مستحکم عمارت کا نقشہ اپنے ذہن میں بنا لیتے ہیں اور آپ کے ذہن میں تصویر بالکل واضح ہے کہ آپ کو کیسے کام کرنا ہے۔ آپ کسی ایک گوشے سے کام شروع کرتے ہیں۔ کبھی ایک طرف کا کوئی حصہ تعمیر کرتے ہیں اور پھر دوسری جانب دوسرے حصے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ کوئی اور شخص اگر دیکھے تو شاید سمجھ نہ سکے کہ آپ کیا تعمیر کر رہے ہیں لیکن آپ کے ذہن میں چونکہ پورا نقشہ ہے اس لئے آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں، تعمیر ہونے والا ہر حصہ اس نقشے کے ایک جز کو مکمل کرتا جائے گا۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب آپ کے پاس جامع نقشہ ہو۔ اگر جامع نقشہ نہ ہو، اگر تعلیم و تربیت کے شعبے میں لائی جانے والی اس تبدیلی کے لئے طویل مدتی منصوبہ نہ ہو تو ممکن ہے کہ آپ متضاد کام انجام دیں، بعض کام دوبار انجام دے دئیے جائیں، بعض فاضل اور غیر ضروری کام کر دئیے جائیں اور نتیجے میں بڑی خامیاں پیدا ہو جائیں۔ لہذا طویل المدتی منصوبہ اور جامع نقشہ سب سے پہلی شرط ہے۔
اس جامع منصوبے میں جن باتوں پر خاص توجہ دی جانی چاہیے ان میں ایک ہے استاد کا مسئلہ۔ نصاب کی کتابوں کے سلسلے میں بہت اچھے کام انجام دئے گئے ہیں، ہمیں کتابوں کے سلسلے میں انجام دئ
یے جانے والے ان کاموں کی کسی حد تک خبر ہے تاہم ابھی اور بھی کام انجام پانے ہیں اور ان شاء اللہ انجام پائیں گے لیکن بہرحال کتابیں پڑھانے کا کام تو استاد کا ہی ہے۔ اگر استاد صاحب فہم، دردمند، اہل نظر اور خلاقی صلاحیت رکھنے والا ہو تو کتاب میں خامی ہو تب بھی بات کو صحیح اور کامل شکل میں سمجھائے گا۔ اس کے برخلاف اگر استاد میں لیاقت نہ ہو، امید و نشاط کا جذبہ نہ ہو، جوش و ولولہ نہ ہو اور محض رسم کی ادائیگی کرنے والا ہو تو کتاب کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو شاگرد کو کیا حاصل ہوگا، یہ نہیں کہا جا سکتا۔ لہذا استاد کا مسئلہ بہت ہی اہممسئلہ ہے۔
تربیت کا مسئلہ، اساتذہ کے لئے آگے تعلیم جاری رکھنے کا مسئلہ جسے وزیر موصوف نے
بیان کیا یہاں پر استادکی

یہ ساری چیزیں بہت اچھی ہیں اور ان پر عمل ہونا چاہیے۔ اسکولوں اور کالجوں میں نمونہ اور آئیڈیل استاد کیسا ہو اس کا تعین کرنے میں آپ اساتذہ کا بڑا اہم کردار ہے۔ بہرحال یہ ہماری ضرورتیں ہیں جنہیں ہم کو پورا کرنا چاہیے۔ حکومتی اداروں کو چاہیے کہ اس عظیم شعبے کو اس زاوئے سے دیکھیں۔ ہمارا تعلیمی مستقبل ہمارے آج کے تعلیم و تربیت کے شعبہ پر منحصر ہے۔ آج یہاں جتنی سرمایہ کاری کی جائے گی یقینی طور پر وقت آنے پر اس کے ثمرات اس سے کہیں زیادہ اہم ہوں گے جتنی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ ہمارے ملک کو بہترین تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس قوم نے اپنے دوش پر جو ذمہ داری اٹھائی ہے اور جس کام کا آغاز کیا ہے وہ بہت  ہی عظیم کام ہے۔
میرے عزیزو! ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ ہمارے عظیم الشان امام خمینی (رہ) کی قیادت میں اس مومن و قوی و شجاع قوم نے جو تحریک شروع کی وہ عصر حاضر ہی نہیں پوری تاریخ میں کم نظیر ہے۔ یہ بڑا عظیم کارنامہ ہے، بہت بڑا کام ہے جو انجام پایا ہے۔ ہم استحریک کے متن میں موجود ہیں اور ہم میں سے ہر کوئی اپنی توانائی، اپنی طاقت اور اپنی لیاقت کے لحاظ سے کچھ کام انجام دے رہا ہے تو ہم خود اس عظیم تحریک کی قدر و قیمت کو صحیح طور پر سمجھ نہیں سکتے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان باہر سے دیکھے، غور کرے، دنیا کے حالات سے اس کا موازنہ کرے، دنیا کی بڑی سماجی تحریکوں کا جائزہ لے، ان سیاسی و سماجی تحریکوں کے پیچھے کارفرما جذبات اور عزائم کا مطالعہ کرے۔ استکباری طاقتوں یعنی وہی جنہیں قرآن کریم میں کہا گیا ہے "اکابر مجرمیھا لیمکروا فیھا" (3) ان کے کردار کو دیکھے، مفادات کے حصول کے لئے دنیا کو اپنی مٹھی میں کرنے اور انسانیت کو خونی اور آہنی پنجوں میں جکڑنے کے لئے جاری تخریبی پالیسیوں کے اثرات پر غور کرے اس کے بعد سوچے کہ یہ تحریک کتنی عظیم ہے؟! اسلامی اقدار کے احیاء کے لئے جو اصلی انسانی اقدار بھی ہیں ایک قوم کی عظیم تحریک کا شروع ہونا وہ بھی ایسے ماحول میں جب ان اقدار کے خلاف تمام وسائل اور توانائیوں کو صرف کیاجا رہا ہو، بہت بڑا کارنامہ تھا، یہ بڑا عظیم اقدام تھا۔
یہ بات بھی درست ہے کہ قوم اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ میدان میں اتری اور اس نے
عظیم کام انجام دیتے ہوئے کامیابی حاصل کی اور ایک نظام تشکیل دیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ قوم بے سہارا تھی اور آج بھی اکیلی ہے۔ اس قوم نے دوسروں کے سہارے کے بغیر اکیلے یہ کام انجام دیا ہے۔ اکیلے اس راستے کو طے کیا ہے لیکن تھکی نہیں، دل برداشتہ نہیں ہوئی، مایوس نہیں ہوئی، خوفزدہ نہیں ہوئی اور گھبرائے بغیر آگے بڑھتی رہی۔ آج اس کی محنتوں کے ثمرات اور اثرات، دنیا میں اس تحریک کے نتائج رفتہ رفتہ سامنے آ رہے ہیں۔
میں یہ
بات  بھی آپ کے سامنے پیش کردوں کہ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا کے علاقے میں جہاں ہمارا ملک بھی واقع ہے بیداری کی لہر پھیلی ہے۔ یہ بیداری کی لہر یورپ کے قلب  تک پہنچنے والی ہے۔ وہ دن بھی آنے والا ہے جب یہی یورپی قومیں اپنے حکمرانوں کے خلاف ارباب اقتدار کے خلاف اور ان طاقتور عناصر کے خلاف جنہوں نے ان قوموں کو امریکہاور صیہونزم کی ثقافتی اور اقتصادی پالیسیوں کا اسیر بنا کر رکھ دیا ہے، قیام کریں گی۔ یہ بیداری یقینی ہے۔ ایرانی قوم کی تحریک کے دائرے کی وسعت کا یہ عالم ہے۔ یہ تحریک بہت عظیم تحریک ہے۔
اب اگر
آپچاہتے ہیں کہ یہ تحریک اسی رفتار اور اسی سرعت کے ساتھ جاری رہے اور اپنا اثر دکھاتی رہے تو ضروری ہے کہ ہم خود سازی پر توجہ دیں۔ ہمیں "کزبر الحدید" فولاد کے ٹکڑوں کی مانند مضبوط محکم بننا پڑے گا۔ اپنے ایمان کو پختہ بنانا ہوگا، اپنی بصیرت میں اضافہ کرنا ہوگا، اپنی آگاہی بڑھانا ہوگی، علم و دانش کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا، ہمارے اندر اللہ تعالی نے صلاحیت و استعداد ودیعت فرمائی ہے اس کو نکھارنا ہوگا، ہم نے اتحاد و یکجہتی کا جو ہاتھ ایک دوسرے کی جانب بڑھایا ہے اسے مضبوطی کے ساتھ اسی طرح باقی رکھنا ہوگا۔ یہکام بہت ضروری ہے۔
الحمد للہ ہماری قوم اسی انداز سے عمل کر رہی ہے، عوام بہت مناسب انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ اگر آپ اس نئی نسل کو صحیح انداز می تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ و پیراستہ کریں گے تو یہ تحریک مزید تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھے گی۔ آپ یقین رکھ
یے کہ اسلامی جمہوریہ ایران بلند ہمتی کی بدولت مضبوط ایمانی جذبہ کی برکت سے اچھے اور مؤمن افراد کی برکت سے بلند چوٹیوں کو ایک ایک کرکے فتح کرےگا اور بحمد اللہ ہمارے ملک میں اچھے اور مؤمن افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
اللہ
تعالی کیان افراد رحمت نازل ہو جو راہ کے پیشرو تھے، عزیز شہدا اور راہ خدا کےسربلند مجاہدین پراللہ کی رحمت نازل ہو ، حضرت امام (رہ) پر اللہ تعالی کی رحمت نازل ہو جنہوں نے ہمارے لئے یہ راستہ کھولدیا، اور پوری ایرانی قوم پراللہ تعالی کی رحمت اور برکت نازل ہو۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته

..........................

1) آل عمران: 169
2) آل‌عمران: 110
3) انعام: 123