ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا صوبہ فارس کے عوام کے بعض طبقات سے خطاب

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

صوبہ فارس کے عزیز بھائیوں اور بہنوں کو بہت ہی خوش آمدیدپیش کرتا ہوں، آپ نے آج اپنےاس پرخلوص، صمیمی، پرجوش اور ایمان کی خوشبو سے معطراجتماع ، اعلی مفاہیم کے حامل نعروں اور اپنی تشریف آوری سے صوبہ فارس اور شہر شیراز کے عوام کی عظمت ،شجاعت اور ہمت کی یاد تازہ کر دی جس کی مثالیں گذشتہ تاریخ اور موجودہ دور  میں کثرت سے دیکھی جا سکتی ہیں۔
حق و انصاف کے ساتھ یہ کہنے میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ صوبہ فارس اور شہر شیراز ہمارے ملک اور ہماری قوم کے لئے نمایاں اورقابل فخر بلند چوٹی کا درجہ رکھتا ہے؛ یہ علم و ادب کے شعبہ سے منسلک، سماجی و مذہبی سرگرمیوں میں مصروف اور جہاد و جانفشانی کے میدانوں میں سرگرم ممتازشخصیات اور اعلی خصوصیات کے حامل افراد کی سرزمین ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے کی تاریخ پراگر نظر ڈالیں تو بھی ملک کے انتہائی حساس اور بڑی اہمیت کے حامل مسائل میں شیراز کا نام بالکل نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ تنباکو کی حرمت کے مسئلے کو دیکھیے جو مغربی سامراج کے خلاف ایک آگاہانہ عوامی تحریک کا نقطہ آغاز تھا۔ اس میں "میرزا شیرازی" کا نام بالکل نمایاں ہے۔ اگر میرزا شیرازی کی وہ مہم جاری رہتی اور ملک کے سیاستداں اور اہم شخصیات اس سے منسلک ہوتے چلے جاتے تو ایران کی صورت حال وہ نہ ہوتی جو ہو گئی تھی۔ بہرحال استعماری طاقتوں نے غفلتوں اور حرص و طمع کا فائدہ اٹھایا اور مہم کی شہہ رگ کو کاٹ دیا۔ اسی طرح برطانوی سامراج اور انگریزوں کی مداخلت کے خلاف عراقی عوام کی جنگوں کا مشاہدہ کریں، ان میں بھی شیراز کا نام بہت درخشاں ہے۔ اس عظیم تحریک کی قیادت مرحوم میرزا محمد تقی شیرازی نے کی جو میرزائے دوم شیرازی کے نام سے معروف اوربڑے جلیل القدر عالم دین اور مرجع تقلید تھے۔ فارس کے اندر بہت سے علمائے عظام، اہم شخصیات اور اعلی صفات کے مالک انسان گزرے ہیں۔ خواہ آپ مشروطہ  انقلاب کازمانہ ملاحظہ کریں یا اس کے بعد اسلامی انقلاب کی تحریک پر نظر ڈالیں یا اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کے ایام کو دیکھیں یا پھر اس کے بعد سے آج تک کے دور کا جائزہ لیں۔ یہ سب میدان جہاد سے متعلق ہے البتہ جہاد کا باب کوئی معمولی باب نہیں ہے۔الجھاد باب من ابواب الجنۃ فتحہ اللہ  لخاصۃ اولیائہ "(جہاد ابواب جنت میں سے ایک باب ہے جسے اللہ تعالی اپنے خاص اولیاء کے لئے باز کرتا ہے) یہ جنت کا دروازہ ہے جو ہر کسی کے لئے نہیں کھلتا، اوليائے خاص کے لئے کھولا جاتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے مجاہد عوام اولیائے خدا میں شاملہیں جن پر یہ دروازہ کھولا گيا ہے۔
اگر ہم علم کے میدان میں نظر ڈالیں تو وہاں بھی یہی عالم ہے۔ انقلاب کے بعد اور خاص طور پر حالیہ برسوں کے دوران شروع ہونے والی بےمثال علمی تحریک میں بھی شیراز پیش پیش نظر آتا ہے۔ سیاسی امور میں، سماجی مسائل میں شیراز کے عوام بابصیرت اور ذی شعور طبقوں میں شامل دکھائي دیتے ہیں۔ بسا اوقات سیاسی واقعات اتنے پیچیدہ ہو جاتے ہیں کہ معاملہ بالکل الجھ کر رہ جاتا ہے جسے سلجھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے عوام بیدار ہیں اور صوبہ فارس کے عزیز عوام آگے آگے رہنے والوں میں شامل ہیں۔
صوبہ فارس اور خاص طور پر شہر شیراز کے سلسلے میں ایک اہم
 اور ممتاز مسئلہ یہ ہے کہ شاہی طاغوتی  

  حکومت کے دور میں بعض جگہوں کو اخلاقیات اور دینداری سے لوگوں کو دور کرنے کے لئے انحراف کا مرکز قرار دیا گيا۔ ان میں ایک شیراز تھا۔ اس کے لئے اس صوبے میں ادب و فن کے ماحول سے استفادہ کرنے کی بھر پورکوشش کی گئی۔ ظاہر ہے کہ صوبہ فارس اور شہر شیراز فن و ادب کا گہوارا رہا ہے۔ یہ شعر و ادب اور انواع و اقسام کے فنون و ہنر کا مرکز رہا ہے جس سے یہاں کے عوام کی ذہنی کیفیت اور طرز فکر کا اندازہ ہوتا ہے۔ شیراز فن و ہنر کے قدرداں عوام، اہل ذوق، اہل دل افراد کا مرکز ہے طاغوتی حکومت نے عوام کی اس صفت سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اس علاقے کو بد اخلاقی و فحاشی کا اڈا بنا دینے کی کوشش کی لیکن عوام نے اس موقعہ پر حکومت کی اس سازش کو بالکل ناکام بنادیا۔ آپ ملاحظہ کریں کہ خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چشم و چراغ حضرت احمد بن موسی اور ان کے بھائیوں کے مرقد پر کس قدر عوام کا ازدہام رہتا ہے اور لوگوں کو ان برگزیدہ شخصیات سے کتنی عقیدت و محبت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جہاں طاغوتی حکومت عوام کو لے جانا چاہتی تھی عوام اس کے بالکل بر عکس سمت میں بڑھے ۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ ہم جو صوبہ فارس اور شہر شیراز کے عوام سے اتنا خلوص رکھتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے۔
اس کے علاوہ صوب
ہ فارس کے عوام کی طرف سے قربانی کے طور پر پیش کئے جانے والے چودہ ہزار چھ سو شہید جن میں پانچ ہزار کا تعلق صرف شہر شیراز سے ہے؛ یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ جب ہم ایک شہید کے بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ دسیوں افراد میدان جہاد میں اترے، مجاہدانہ انداز سے لڑے، جان ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھے، ایک نے جام شہادت نوش کیا اور باقی  ذمہ داری اور فریضہ کی ادائیگي کے بعد اپنے گھروں کو لوٹے۔ اس طرح اگر آپ ملاحظہ کریں تو چودہ ہزار چھ سو شہیدوں کی تعداد کا صحیح مطلب سمجھ میں آئے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دفاع مقدس میں پورے صوبے نے جوش و خروش ، ولولے و جذبے اور عشق و ایثار کے شاندارجوہر دکھائے ہیں۔
مجھے نہ تو شیراز کے عوام کی تعریف و تمجید کرنی ہے اور نہ ہی عزیز قوم کی مدح سرائی مقصود ہے اور نہ ہی آپ کو اس کی کوئی ضرورت اور توقع ہے۔ تو پھر میرا ان باتوں کو بیان کر
نے کا مقصد کیا ہے؟ اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ دشمن کی ریشہ دوانیوں کے باوجود ہماری جو تاریخ ہے، ہمارا جو تشخص ہے اور ہماری قوم سے متعلق جو حقائق ہیں وہ دوست اور دشمن سب کے سامنے ہمیشہ کے لئے نمایاں ہو جائیں کیونکہ دشمن اس کے بالکل برعکس پروپیگنڈہ کر رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگرایک قوم اپنی بات پر ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہے ،جو برحق ہے اور جو اس کی دنیا و آخرت کے لئے اہمیت کی حامل ہے اور اس امر میں قوموں کی پیشرفت اور ارتقاء کا راز ہے اور اس کےساتھ ہی یہ عمل دنیا کے زراندوزوں، منہ زور طاقتوں،جابروں اور قدرت و طاقت کے بھوکے لوگوں کے عزائم کے منافی ہے جو قوموں کو اپنے زیر تسلط رکھنا اور انسانوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دینا چاہتے ہیں۔ دشمنوں کی اس سازش سے نجات کا راستہ یہی ہے کہ قوم حق بات کی شناخت حاصل کرے اور اس پر ثابت قدمی سے استوار رہے۔ حق بات پر پائداری قوم کو اس کے ہدف تک بھی پہنچاتی ہے اوراردگرد کےلوگ جو اسےمشاہدہ کرتے ہیں وہ ان کے لئے نمونہ عمل بن جاتی ہے۔ چنانچہ آج ایرانی قوم دیگر قوموں کے لئے نمونہ بن چکی ہے۔ ہمارے علاقے کے مسائل کے سلسلے میں عالمی تجزیہ نگاروں کا بھی یہی نظریہ ہے کہ ایران دیگر قوموں کے لئےنمونہ  عمل بن گيا ہے، ایرانی قوم  دوسروں کے لئے نمونہ عمل بن گئی ہے ۔ انہیں خوف لاحق ہے کہ جو کچھ یہاں ایران میں  رونما ہوا ہے کہیں ان کے ہاں بھی رونما نہ ہونے لگے۔ یعنی پرچم اسلام کی سرافرازی و سربلندی اور اسلامی تعلیمات پر استوار نظام کی تشکیل  یہ سب اسقامت و پائداری کا ثمرہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایرانی قوم کی تعریف
 وتمجید میں جو کچھ بھی بیان کیاجائے وہ کم ہے، خاص طور مذکورہ حقائق کے پیش نظرجو میں نے صوبہ فارس کے عوام کے سلسلے میں پیش کئے ہیں، اس میں کوئی مبالغہ اور زیادہ روی بھی نہیں ہے۔ پوری تاریخ میں ایک ٹکراؤ ہمیشہ جاری نظر آتا ہے۔ یہمنہ زور طاقتوں ، سامراجی طاقتوں ، تسلط پسند طاقتوں اور جاہ طلب لوگوں اور قوموں کا آپس میں ٹکراؤ ہے یہ حق و باطل کا ٹکراؤ ہے ۔پوری تاریخ میں جنگ آپ کو نظر آئے گی۔ ان استکباری طاقتوں کے پاس اسلحہ تھا، دولت  وثروت  تھی اور پروپیگنڈہ ، تبلیغات اور تشہیرات کے وسائل تھے۔ کچھ چیزیں ان کے پاس بالکل نہیں تھیں۔ جیسے ان کے پاس عدل وانصاف نہیں تھا، ان کے پاس نرمی اور رحمدلی نہیں تھی، وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے مذموم ترین اور پست ترین مجرمانہ اقدامات کرنے پر تیار رہتی تھیں۔ قوموں کے پاس بس ان کا عزم تھا، ان کا ایمان تھا اور ان کی جانیں! لیکن قوموں نے جہاں کہیں بھی اپنے ان عظیم وسائل کو استعمال کیا اور ثابت قدم رہیں وہاں انھوں نے اپنے دشمن کو شکست سے دوچار کیا۔ البتہ ایسا بھی نہیں ہے کہ قومیں ہمیشہ استقامت و پائيداری کے جوہر دکھانے میں کامیاب رہی ہوں اور انہوں نے ہمیشہ اپنے عزم و شجاعت اور جان و ایمان کے ساتھ میدان میں آکر دشمن کا مقابلہ کیا ہو لیکن جب بھی انہوں نے عزم و شجاعت اور ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا ہے، انہیں فتح وظفرملی ہے۔
یہ
جنگ و جدال اورمقابلہ آج بھی جاری ہے، دنیا کی  منہ زور اور سامراجی  طاقتیں یعنی مغربی طاقتیں، یعنی امریکہ اور صیہونی حکومت کے عزائم کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ وہ پوری دنیا پر قابض ہو جانا چاہتے ہیں، پوری دنیا کے مالی وسائل و  ذخائر اور پوری دنیا کی افرادی قوت کو اپنے قبضے میں کرناچاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ قوموں نے کیا جرم کیا ہے؟ وہ مظالم کیوں برداشت کریں؟ لیکن افسوس کہ آج یہی زمینی حقائق ہیں۔ سامراجی طاقتیں اپنی مرضی کے افراد کو قوموں کی تقدیر کا مالک بنا دیتی ہیں تاکہ وہ سامراجی طاقتوں کے مفادات کی حفاظت کریں اور عوام کے حقوق کو جہاں تک ممکن ہو پامال اور نظر انداز کریں۔ ان پر سختی کریں۔ گذشتہ دو سو برسوں کے عرصے میں جب سے استعماری ریشہ دوانیوں کا سلسلہ چل رہا ہے یہی چیز دنیا میں الگ الگ انداز سے رونما ہوتی رہی ہے۔ اس دور میں قوموں کے سامنے یہی ایک مشکل نہیں ہے کہ وہ مختلف سامراجی ڈکٹیٹروں کے ظلم  و ستم کی چکی میں پس رہی ہیں، ایک جابر انسان ان کے سر پر مسلط ہے۔ ان کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس ڈکٹیٹر کو عالمی طاقتوں کی بھرپور حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے اور یہ طاقتیں اس ملک اور اس قوم کے مفادات کو پامال کر رہی ہیں۔ استعماری دور کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے۔ اس زاوئے سے اگر ہم مسائل کا جائزہ لیں تو صحیح تجزیہ کرنے میں ہمیں مدد ملے گی۔ اس وقت رونما ہونے والے واقعات بھی اسی طرح کے ہیں۔
آج اسلام کی برکت سے، اسلامی انقلاب کی برکت سے، ہمہ گیر اسلامی بیداری کی برکت سے علاقے میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ عوام کی اس بیداری کا نتیجہ خیز ہونا یقینی ہے، جیسا کہ اب تک بعض جگہوں پر نتیجہ حاصل ہو چکا ہے۔ عوام کا عزم و ایمان اور ایثار و فداکاری کے لئے ان کی آمادگی میں جتنا دوام ہوگا ان کی فتح کی امید بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ عالمی استکبار، امریکہ اور صیہونی اسے بالکل گوارا نہیں کرتے، وہ نہیں چاہتے کہ عوام میں استقامت و پائيداری کا جذبہ پروان چڑھے۔ ان واقعات ک
ودیکھ کر امریکہ محو حیرت ہے، اس کو اچانک بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ صیہونیوں کا بھی یہی عالم ہے، یورپی استعماری طاقتیں بھی کچھ نہیں سمجھ پائيں۔ اب ان کی کوشش ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو میدان ان کے قبضے میں رہے۔ البتہ خوش قسمتی سے اب تک تو انہیں کامیابی نہیں ملی ہے۔ ایک دو ملکوں میں تو ان کی ایک نہیں چلی اور اب دوسرے ایک دو ملکوں میں وہ ہاتھ پاؤں چلا رہے ہیں۔ پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ بیداری ایسی ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ مسلسل آگے بڑھنے والی اس عوامی تحریک کو پسپا نہیں کیا جا سکتا۔ دشمن کے بس میں جو کچھ ہے وہ کرلے لیکن اس تحریک کا انجام عوام کے مفادات کے مطابق اور بڑی طاقتوں کے نقصان میں ہی ہوگا۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ قومیں ہوشیار رہیں اور یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ دشمن گھات لگاکر بیٹھا ہوا ہے۔
بعض جگہوں پر حقیقت میں کھلے عام ظلم و ستم ہورہا ہے۔
 اور اگر کوئي انسان  اس وقت بحرین کے مسئلہ کا، لیبیا کے مسئلہ کااور یمن کے مسئلہ کا غور و دقت کے ساتھ جائزہ لے تو وہ مغربی طاقتوں کو مجرم اور نا قابل معافی گنہگار قرار دے گا۔ یہ عوام پر بالکل آشکارا ظلم کر رہی ہیں۔ ان واقعات کا تجزیہ کرنا سیاسی مبصرین کا کام ہے اور وہ تجزیہ کر رہے ہیں، وہ اپنا نظریہ بیان کررہے ہیں ۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت امریکہ اور مغربی ممالک صیہونیوں کے مفادات کے لئے، جعلی اسرائیلی حکومت کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے عوام پر تشدد کر رہے ہیں، مظالم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں اور بد قسمتی سے سب سے زیادہ ظلم و ستم بحرین کے عوام پر ہو رہا ہے۔
چونکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے
ہمیشہ حق بجانب مؤقف اختیار کیا ہے اور اپنی بات کو صاف لفظوں میں بیان کیا ہے اس لئے تبلیغاتی یلغار کا رخ اسلامی جمہوری نظام کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ اسلامی جمہوریہ ایران مسائل پر کوئي توجہ نہ کرے اورتماشائی بنا رہے لیکن یہ چیز ممکن نہیں ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ کے مزاج اور فطرت کے خلاف ہے۔ قوم، حکام، حکومت، سیاسی شخصیات کوئی بھی بے گناہ عوام کے خلاف سامراجی طاقتوں کی اس ظالمانہ جنگ پر عدم توجہ اور خاموش تماشائی نہیں رہ سکتا۔ اس پر ان کا کہنا ہے کہ ایران مداخلت کر رہا ہے مداخلت کیسی اور کہاں کی مداخلت؟! بحرین میں، لیبیا میں اور یمن میں ایران نے کیا مداخلت کی ہے؟ بس یہی مداخلت ہے کہ ہم نے اپنا مؤقف صریحی طور پر بیان کر دیا اور ہم دنیا کی فرسودہ طاقتوں کی برہمی سے ذرہ برابر نہیں گھبرائے، ہم نے کوئی خیال نہیں رکھا اور ہم آئندہ بھی کسی کی برہمی کا خیال نہیں رکھیں گے۔ ہم حق بات کو اور حق بجانب مؤقف کو دو ٹوک انداز میں بیان کرتے ہیں۔ حق بات یہ ہے کہ بحرین کے عوام کو اعتراض کرنے کاحق حاصل  ہے۔ وہ اعتراض کر رہے ہیں اور ان کا اعتراض حق بجانب ہے۔ آپ دنیا کے کسی بھی صاحب فکر کے سامنے اس مسئلے کو پیش کیجئے،  ان کی صورت حال کو بیان کیجئے، ان مظلوم عوام پر جس انداز سے حکمرانی کی جا رہی ہے اس کو بھی بتائیے، حکام نے اس چھوٹے سے ملک کو استعمال کرنے کے لئے جیسے جیسے کام کئے ہیں ان کی تشریح کیجئے پھر آپ دیکھئے کہ وہ شخص حاکم کی مذمت کرتا ہے یا نہیں؟ عوام سے لڑ رہے ہیں، یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے۔ اس سے کوئی نتیجہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ یہ ممکن ہے کہ آپ تشددکر لیں، وحشی پنے کے اقدامات انجام دیں، چند روز تک آپ دہکتے شعلے کو دبائے رکھیں لیکن یہ شعلہ خاموش ہونے والا نہیں ہے۔ اس سے عوام کا غیظ و غضب روز بروز اور شعلہ ور ہوگا۔ اچانک سارے معاملات آپ کے ہاتھ سے اس طرح نکل جائیں گے کہ پھر کسی "رفوگری" کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ جو لوگ باہر سے فوجیں بحرین بھیج رہے ہیں وہ بھی بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ انھیں جان لینا چاہیے کہ وہ تشدد آمیز اقدامات کے ذریعہ کسی قوم کی تحریک کو ختم نہیں کرسکتے۔
بہر حال اسلامی جمہوری نظام کا م
ؤقف یہ ہے۔ یمن کے بارے میں بھی یہی مؤقف ہے اور لیبیا کے بارے میں بھی ہمارا یہی کہنا ہے۔ لیبیا میں مغربی ممالک عوام کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں۔ لیبیا یورپ کے نزدیک واقع ہے، جہاں سے ایک گھنٹے میں قلب یورپ تک پہنچا جا سکتا ہے، تیل کی دولت سے مالامال یہ ملک ایک عوامی حکومت سے وہ بھی مسلم عوام کی حکومت سے بہرہ مند ہو جائے، یہ انہیں بالکل برداشت نہیں ہے۔ اسی لئے انہوں نے کھیل  وفریب شروع کر دیا ہے، عوام سے کھیل کھیل رہے ہیں۔ لیکن عوام پوری طرح آگاہ ہیں۔ لیبیا کے عوام باخبر ہیں۔ دوسری جگہوں کے عوام کا بھی یہی حال ہے۔
ان واقعات کے
 اصلی مجرم اور ذمہ دار دنیا کے سامراجی ممالک ہیں، عالمی سامراج اور عالمی صیہونی نیٹ ورک ہے۔ اس وقت جاری ہنگامے سے صیہونی اپنے مقاصد کی تکمیل کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ غزہ کے عوام پر دباؤ بڑھا رہے ہیں، روزانہ لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ علاقے کی قومیں، علاقے کی حکومتیں جو حقائق سے دلچسپی رکھتی ہیں صیہونی حکومت کی سرگرمیوں کی جانب سے غافل نہ رہیں۔
اسلامی جمہوری نظام کا یہ طرز عمل ہے اور اسی لئے آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے اسلامی جمہوریہ
ایران کو نشانہ بناکر تشہیراتی سرگرمیاں، سیاسی اقتصادی اور سیکورٹی کے اقدامات انجام دئے جا رہے ہیں۔ الحمد للہ توفیق خداوندی سے اسلامی جمہوریہ ایران ثابت قدمی کے ساتھ  میدان میں موجود ہے لیکن وہ اپنی خباثت دکھانے سے باز نہیں آتے۔ اسلامی جمہوری نظام کے استحکام کے نتیجے میں ان کی تلواریں کند ہو گئی ہیں، گویا چٹان سے ٹکرا رہی ہیں۔ میں یہاں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہماری قوم اور ہماری حکومت کو چاہیے کہ اپنی یہ فولادی مضبوطی قائم رکھے۔ آپ اپنے اندر اختلاف پیدا نہ ہونے دیجئے۔ آپ دشمن کو یہ موقع نہ دیجئے کہ وہ اپنی تشہیراتی و سیاسی خباثتوں سے اور سیاسی فتنہ انگیزیوں سے ہمارے ملک کے خلاف وہ اقدامات انجام دے جس کے لئے وہ ہمیشہ سےکوشاں ہے۔
آپ ملاحظہ کریں انہی گ
ذشتہ پانچ چھ دنوں کے اندر وزارت انٹیلیجنس وغیرہ سے متعلق امور کے سلسلے میں دنیا میں کیا ہنگامہ برپا کر دیا گيا۔ تجزیوں میں یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی گئي کہ اسلامی جمہوری نظام کے اندر شگاف پیدا ہو چکا ہے اور دوہرا اقتدار چل رہا ہے۔ صدر نے رہبر انقلاب کی بات نہیں مانی ہے ان کے تبلیغاتی اداروں نے اس کا خوب پروپیگنڈہ کیا۔ آپ دیکھیں کہ یہ لوگ کس طرح بہانے کی تاک میں لگے رہتے ہیں؟ کس طرح بھیڑئے کی مانند گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ کہیں سے کوئی بہانہ مل جائے۔ جیسے بھی ممکن ہو ضرب لگائیں۔ انہیں معلوم ہے کہ حکومت بڑی محنت اور تندہی سے خدمت کر رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں زبردست خدمات انجام دی جا رہی ہیں۔ جب اچھی طرح سے خدمات انجام دی جائیں گی تو عوام بھی حکومت کی حمایت کریں گے اور رہبری کی طرف سے بھی تائید و حمایت کی جائے گی۔ ہم کسی شخص کو مد نظر رکھ کر فیصلہ نہیں کرتے، ہم کام کو، سمت کو اور مؤقف کو معیار قرار دیتے ہیں۔ جہاں بھی کام ہوگا، خدمت ہوگی، محنت ہوگی ہماری حمایت اور عوام کی تائید بھی ہوگی۔ بحمد اللہ اس وقت کام ہو رہا ہے۔ حکام واقعی محنت کر رہے ہیں۔ کابینہ کے ارکان بھی اور خود صدر جمہوریہ بھی۔ یہ نہ دن دیکھتے ہیں نہ رات۔ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ یہ لوگ مسلسل کاموں میں مصروف ہیں، خدمت و محنت میں لگے ہوئے ہیں۔ ان چیزوں کی ملک کے لئے بڑی اہمیت اور قدر و قیمت ہے۔ حقیر بھی اپنے اصول کے مطابق حکومت کے فیصلوں اور کاموں میں کسی قسم کی مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ آئین نے سب کی ذمہ داریوں اور فرائض کومعین کر دیا ہے۔ ہر ایک کی اپنی ذمہ داری ہے۔ تاہم جہاں مجھے یہ محسوس ہوگا کہ کوئی بڑی مصلحت نظر انداز ہو رہی ہے، جیسا کہ اسی حالیہ واقعہ میں محسوس ہوا کہ ایک بڑی مصلحت غفلت کا شکار ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کو روکنے کے لئے اقدام کرنا ہوگا۔ یہ کوئی بہت غیر معمولی بات نہیں ہے۔ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن بیرونی دشمن اور مخالفین، عالمی پروپیگنڈہ مشینری، تشہیراتی وسائل ہنگامہ آرائی کے لئے اسی چیز کو بہانہ بنا لیتے ہیں۔
داخلی افراد سے، جذبہ ہمدردی رکھنے والے عوام سے اور ملک کے اندر تشہیراتی امور سے تعلق رکھنے والے بھائيوں اور بہنوں سے میری گ
زارش یہ ہے کہ اس طرح کی آشفتگی کو ہوا دینے سے گریز کریں۔ اس کی کیا ضرورت ہے کہ بے معنی قسم کے تجزئے شروع ہو جائیں، ایک شخص دوسرے کے خلاف تبصرہ کرے دوسرا پہلے کے خلاف اظہار خیال کرے۔ یہ بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ نظام الحمد للہ بہت مضبوط نظام ہے۔ حکام خدمات اور فرائض میں مصروف ہیں۔ رہبری یعنی یہ بندہ حقیر بھی اللہ کی مدد سے اپنے صحیح مؤقف پر ثابت قدمی سے قائم ہے۔ جب تک میں زندہ ہوں، جب تک میرے دوش پر فرائض منصبی ہیں اللہ تعالی کی نصرت و مدد کے سہارے میں بلند اہداف کی جانب جاری ایرانی عوام  کی عظیم حرکت کو راستے سے منحرف نہیں ہونے دوں گا۔ جب تک ہمارے عزیز عوام اس انداز سے جوش و جذبے، شعور و بصیرت اور عزم راسخ کے ساتھ میدان میں موجود رہیں گے لطف خداوندی ان کے شامل حال رہے گا۔ اس پر آپ پورا یقین رکھیے، ہم جب تک میدان میں رہیں گے لطف الہی کا سایہ ہمارے سروں پر موجود رہے گا۔
ہم لوگ یعنی میں، آپ اور دیگر افراد اگر اپنے اپنے ذاتی امور میں لگ گئے اور ہم نے اہداف کو فراموش کر دیا تو بیشک نصرت 
اور فضل  الہی بھی کم ہو جائے گا۔
آج آپ ملاحظہ کریں،  خوش قسمتی سے عوام پورے ملک میں میدان میں موجود ہیں، حکام بھی اسی طرح
موجود ہیں، تینو قوا یعنی مقننہ، عدلیہ، مجریہ بھی اسی طرح میدان میں موجود ہیں  ۔ میں بالکل قریب سے اس کا مشاہدہ کر رہا ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ سب محنت کر رہے ہیں، کام کر رہے ہیں، مجاہدانہ انداز میں کام انجام دے رہے ہیں، ان کا جسم پسینہ میں تر ہوجاتا ہے کیونکہ یہ کام حقیقت بہت طاقت فرسا کام ہیں، معمولی قسم کے کام نہیں ہیں۔
ہم نے اقتصادی جہاد کے بارے میں کہا، ملک کے حکام کے سامنے ایک
بہت بڑا قدم اٹھانے کا مرحلہ ہے۔ عوام کو بھی اور حکام کو بھی چاہیے کہ وہ ایک دوسرے سے مل کر رواں سال میں  اقتصادی جہاد کی اس تحریک کو شروع کر دیں۔ میں نے جیسا کہ عرض کیا ہے ہر سال کے لئے معین ہونے والا نعرہ متعلقہ تحریک کی شروعات کا آئینہ دار ہوتا ہے، وہ اسی سال سے مختص نہیں ہے۔ الحمد للہ یہ چیزیں انجام پا رہی ہیں۔ خامی اور نقائص تو ہم سب کے کام میں ہوتے ہیں۔ میرے اندر بھی خامیاں ہیں، تینوں قوا کے سربراہان بھی خامیوں سے پاک نہیں ہیں، حکام بھی خامیوں سے خالی نہیں ہیں۔ ہم سب کو اپنی خامیوں کی شناخت کی کوشش کرنا چاہیے، خامیوں کو دور کرنا چاہیے اور ایران کی عظیم قوم کی عظیم حرکت میں رکاوٹ پیدا نہیں کرنی چاہیے۔
اللہ تعالی سے دعا
کرتا ہوں کہ وہہماری قوم سے اپنی رحم و مہربانی کی نظر کوہرگز نہ ہٹائے۔ امام زمانہ (عج) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی وخوشنود فرمائے اور ان کی دعاؤں کو ہمارے شامل حال قرار دے۔ اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارے عزیز شہیدوں اور ہمارے عظیم امام " خمینی رحمت اللہ علیہ"  کو اپنے جوار میں بلند  وبالا  ترین مقامات پر فائز فرمائے جو اس عظیم تحریک کے بانی اور مؤسستھے ۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته