ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا 19 دی کے موقع پر قم کے عوام کے مختلف طبقات سے خطاب

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌
آپ سب عزیز بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید عرض کرتا ہوں ، آپ تمام حضرات اور یہاں تشریف لانے والےہر فرد کاشکریہ ادا کرتا ہوں آپ زحمت اور طویل راستہ طے کرکے یہاں  تشریف لائے ہیں اور آپ نےاس حسینیہ کو اپنی فعال موجودگی ، محبت کی گرمی و اخلاص کے ساتھ معطر و مملو کیا ہے جو قمی بھائیوں اور بہنوں میں ہمیشہ پائی جاتی ہے ۔
اللہ تعالی کا سپاس اورشکر ادا کرتا ہوں اور بہت ہی خوشحال و مسرور ہوں کہ قم کے میرے دورے کے کچھ ہی دنوں کے بعد آپ حضرات سے دوبارہ ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس سفر میں قم کے عزیز عوام نے، قم کے نوجوانوں نے، قم کے تمام حضرات اور خواتین نے اسلام کے ساتھ اپنی والہانہ محبت و وفاداری کا، دین کے ساتھ اپنے خلوص کا، اسلامی نظام سے اپنے لگاؤ کا اور اپنی بصیرت و بیداری کا اس انداز سے ثبوت پیش کیا کہ ایرانی قوم کے دشمن بھی اس پر خاموش نہیں رہ سکے اور انہیں بھی اس کا اعتراف کرنا پڑا۔
ہمیشہ دشمن کے رد عمل سے کام کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے؛ اور اقدامات، موضوعات اور مفاہیم کی اہمیت کی تشخیص کا یہ ایک اہم معیار ہے۔ مثال کے طور پر آپ سڑک پر چلے جا رہے ہیں، اور کوئی شخص آکر آپ کو کہنی مار دیتا ہے تو آپ اس پر کوئی خاص رد عمل ظاہر نہیں کریں گے۔ لیکن اگر وہ شخص با قاعدہ طور پرحملہ کر دے، مکا مار دے یا اسلحہ لیکر آپ پر حملہ کردے تو یقینی طور پرآپ جوابی کارروائی کریں گے، آپ کی طرف سے بھی کارروائی ہوگی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ساتھ ہونے والی وہ پہلی حرکت معمولی اور قابل توجہ حرکت نہیں تھی، وہ حرکت قابل اعتناء نہیں تھی۔ لیکن دوسری حرکت ایک بڑی کارروائی تھی۔ لہذا معلوم ہوا کہ رد عمل سے کام اور عمل کے اہم  ہونے یا اہم نہ ہونے کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ انقلاب سے متعلق معاملات میں خواہ وہ بڑے مسائل ہوں یا چھوٹے امور ہوں، روزمرہ کے واقعات ہوں یا دائمی بنیاد پر پیش آنے والے بڑے مسائل، ہر جگہ یہ بات صاف نظر آتی ہے۔ اسلامی انقلاب کی فتح اور اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کے خلاف عالمی سامراجی طاقتوں کی جانب سے جو رد عمل سامنے آيا اس سے اس معاملے کی عظمت اور اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے پہلے ہی دن سے ان سامراجی طاقتوں نے جن کے ہاتھوں میں پوری دنیا کی طاقت ہے، جن کے ہاتھوں میں دولت و ثروت ہے، جن کے ہاتھوں میں اسلحہ ہے، جن کے ہاتھوں میں تبلیغاتی اور نشریاتی وسائل ہیں، جن کے ہاتھوں میں ذرائع ابلاغ ہے، انہوں نے متحد ہوکر اس نظام کے خلاف گوناگوں اقدامات شروع کر دئیے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تبدیلی اور یہ واقعہ دنیا کے ارباب اقتدار و استبداد و استکبار کے لئے بہت اہم واقعہ تھا جسے برداشت و تحمل کر نا ان کے لئے سخت ،دشوار اورناممکن ہے ؛ اور یہ حقیقت بھی ہے؛ کیونکہ اسلام عدل و انصاف کا دین ہے، اسلام انسانیت کادین ہے، اسلام نا انصافی، ظلم و استبداد اور باطل سے بر سرپیکار رہنے اور مقابلہ کرنے والادین ہے ، لہذا ظاہر ہے کہ جن طاقتوں کا شیوا اور راہ و روش ہی دوسروں پر ظلم و ستم کرنے اور ان کی حق تلفی کرنے پر استوار ہے، جو ظلم و جور کا پیکرہیں، جن کا فلسفہ وجود ہی انسانوں کی سرکوبی، انسانی جذبات کی پامالی اور انسانی وجود کی فنا ہے وہ اسلام کو دیکھ کر خوفزدہ ہوں گے، ان پر خوف و ہراس طاری ہو جائے گا اور اس کے خلاف وہ سرگرم عمل ہوجائیں گے۔ اسلامی جمہوریہ سے ان کی دشمنی کی اصل وجہ بھی یہی ہے، وہ بہانے چاہے کچھ بھی بناتے رہیں۔ تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد وہ نیا بہانہ پیش کرتے ہیں، لیکن حقیقت حال کہاں پوشیدہ رہ سکتی ہے۔

اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ ایران نے انسانیت کے سامنے ایک نیا راستہ پیش کیا ہے، دنیا کی قوموں کو ایک نئی روش اور نئی راہ سے آشنا کیاہے، اور  یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایک ایسی قوم جس کے پاس اگر اہم قسم کے ہتھیاربھی نہ ہوں، جس کے پاس اگر اہم قسم کے مادی وسائل بھی نہ ہوں ، پھر بھی وہ دنیا کی ظالم اور استبدادی طاقتوں کا مقابلہ کرسکتی ہے، ان کے دباؤ میں آئے بغیر وہ اپنی پیشرفت و ترقی کاسفر جاری رکھ سکتی ہے، پرچم عدل و انصاف کو بلند کر سکتی ہے، انسانیت پرچم کو لہرا سکتی ہے۔ عصر حاضر میں یہ چیز ایک نئی چیز ہے، یہ باب آپ نے کھولا ہے، انقلاب سے متعلق تمام معاملات میں یہ حقیقت آپ مشاہدہ کرسکتے ہیں۔
اہل قم کے بارے میں انقلاب دشمن اور ملک دشمن عناصر کے ہاں بڑی برہمی اور عداوت دیکھنے میں آتی ہے۔ یہ لوگ قم، اہل قم، قم کے دینی علوم کے مرکز، قم کے نوجوانوں اور اہل قم کے خاص جذبات و خیالات کے شدید مخالف ہیں، کیوں؟ اس لئے کہ قم سے ان کے منہ پر زرودار طمانچہ پڑا ہے۔ سامراجی طاقتوں کو، اسلام مخالف محاذ کو، ایرانی قوم کے دشمن محاذ کو قم سے منہ کی کھانی پڑی ہے۔ جن مواقع پر ان پر طمانچے پڑے ہیں ان میں ایک یہی 19 دی(نو جنوری)  کا واقعہ ہے۔ قم والوں نے دوسروں سے پہلے ہی اپنی ذمہ داری کو محسوس کر لیا، حالات کو پرکھ لیا، فرائض کا احساس اور ادارک کر لیا اور میدان میں اتر پڑے، یہ بہت بڑی اہم بات ہے۔ حالات کی شناخت بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے لئے بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے لئے فرض شناسی اور ذمہ داری کا احساس بھی بہت ضروری ہے، اس کے لئے جذبہ ایمانی اور تعہد کی بھی ضرورت ہوتی ہے تب جاکر انسان اپنے فریضہ اور ذمہ داری کو محسوس کر پاتا ہے۔ بعض افراد ایسے ہیں جو واقعات کو مشاہدہ کرتے ہیں، دل دہلا دینے والےحوادث کا مشاہدہ کرتے ہیں، دشمن کی سازشوں کو سمجھتے ہیں لیکن ان میں جنبش پیدا نہیں ہوتی وہ اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کر پاتے۔ بعض ایسے افراد ہیں جو دیکھ رہے ہیں کہ دشمن نے محاذ آرائی کررکھی ہے، ایسے مواقع پر جب دشمن محاذ آرا ہو گيا ہے تو ہمیں بھی فعال اور ہوشیار ہوجاناچاہیے، یہ ذمہ داری اور فرض شناسی کا تقاضا ہے، یہ ایمان کا تقاضا ہے لیکن بعض لوگ اس ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتے۔ البتہ ایران کی عزیز قوم  میں یہ حوش و جذبہ اعلی سطح پر موجود رہا ہے جو اسلامی تحریک اور اسلامی نظام کے قیام سے مزید مضبوط ہو گیا ہے، اس کی جڑیں مزید عمیق اورگہری ہو گئیں اور ایرانی قوم نےاسلامی انقلاب میں اس کے جوہر دکھائی دئیے  البتہ الگ الگ اور مختلف جگہوں یہ جذبات پائے جاتے تھے لیکن قم کے لوگ سب سے آگے تھے۔ انہوں نے 19 دی (مطابق نو جنوری) کو اپنی ذمہ داری کا بھرپور احساس کرتے ہوئیے فوری طور پر میدان میں قدم رکھ دیا ۔ یہ میدان کوئی آسان میدان نہیں تھا۔ بڑا دشوار میدان تھا، اس میدان میں گولیوں کا سامنا کرنا تھا، شاہ کی پولیس اور سیکورٹی ایجنسیوں کی بے رحمانہ کارروائی کا سامنا کرنا تھا۔ لیکن قم کے لوگوں  نے آگے بڑھ کر اس میدان میں قدم رکھ دیا۔
یہ بصیرت، یہ ذمہ داری کا احساس و فرض شناسی، یہ میدان میں موجودگی، دشمنوں پر پڑنے والا زوردارطمانچہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اچانک تبریز میں بھی اس کی بازگشت سنائی دی  اور دوسری طرف یزد میں بھی آواز بلند ہوئی اور ایران کےدوسرے شہروں کے عوام نے بھی رد عمل ظاہر کیا۔ اس طرح یہ عظیم تحریک معرض وجود میں آ گئی ، جس کے لئے ہمارے بزرگ امام (رحمۃ اللہ علیہ ) نے کئی برسوں سے زمین ہموار کی تھی ۔ یہ طمانچہ ہے ، دشمن کو جب طمانچہ پڑتا ہے تو اس کے دل میں کینہ بیٹھ جاتا ہے اور وہ سخت اورشدید عداوت اور دشمنی پر اتر آتا ہے۔ اب اگر ہمیں اپنا جائزہ لینا ہے تو ہمیں اس بات پر نظر رکھنی چاہیے کہ دشمن کب ہمیں اپنے دانت دکھاتا ہے جب ایسا ہو تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری توانائی اور  ہماری طاقت کافی ہے اور ہم دشمن پر کاری ضرب لگا سکتے ہیں۔
یہ اقدام جواس حقیر کے حالیہ دورہ قم کے دوران قم کے لوگوں نے انجام دیا، قم کے عوام نے جن جذبات کا مظاہرہ کیا، حوزات علمیہ نے جو اقدام کیا، علماء نے جو انداز اپنایا، نوجوانوں نے جو کچھ کیا وہ دشمنوں کے لئے طمانچہ تھا جس سے وہ بوکھلا کر رہ گئے۔ انہوں نے خود ہی ظاہر کر دیا کہ عوام کے اس عظیم حضور، اس بصیرت اور اس طاقت کے سامنے وہ کمزور ہیں، ایرانی قوم کے لئے یہ ایک اہم درس ہے۔
ہم نے جہاں بھی صحیح ادراک کے ساتھ کام کیا ہے، جہاں بھی ہماری تشخیص درست رہی ہے، یعنی جہاں بھی ہم نے بصیرت سے کام لیا ہے اور اس بصیرت کی بنیاد پر اپنی ذمہ داریوں کو ہم نے محسوس کیا ہے اور پھر ان ذمہ داریوں کے احساس اور فرض شناسی کے جذبے کے تحت ہم میدان میں اتر ے ہیں وہاں اللہ تعالی نے ہمیں فتح نصیب کی ہے۔ «فاذا دخلتموه فانّكم غالبون» (1) جب بھی آپ میدان کارزار میں ایمان اور بصیرت کے ساتھ قدم رکھیں گے فتح آپ کا مقدر ہوگی، فاتح آپ ہوں گے۔ غالب آپ ہونگے، کیوں؟ اس لئے کہ آپ کا حریف ایمانی قوت سے محروم ہے، دین سے محروم ہے، گہرے معنوی و روحانی جذبات سے محروم ہے۔ اس کی طرف سے میدان جنگ میں جو لوگ آئے ہیں وہ خریدے ہوئے لوگ ہیں، فریب خوردہ افراد ہیں جبکہ منصوبہ ساز اور پالیسی مرتب کرنے والے لوگ خود بھی دین و ایمان سے بے بہرہ لوگ ہیں۔ اس صورت حال میں جب آپ ایمانی قوت کے ساتھ میدان میں اتریں گے تو آپ کی کامیابی یقینی ہے، ایرانی قوم نے اس کا تجربہ کیا ہے۔
گذشتہ اکتیس و بتیس برسوں میں ایرانی قوم نے اپنے اسی تجربے کی بنیاد پر بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں۔ ایرانی قوم نےمادی لحاظ سے بھی خاطر خواہ ترقی حاصل کی ہے، سائنس و ٹکنالوجی کے میدانوں میں بھی ایرانی قوم کو بڑی بڑی کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں، ملک بھر میں نظر آنے والے امور، سب کے سب مادی پیشرفت و ترقی کی علامتیں ہیں۔  ایرانی قوم نے روحانی و معنوی لحاظ سے بھی نمایاں طور پر پیشرفت حاصل کی ہے۔ ہم نے اللہ تعالی کی  آیات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے، ہم نے نصرت الہی کو باقاعدہ دیکھا ہے۔ اس سے پہلے اللہ تعالی کی نصرت و مدد اوردست قدرت کی پشت پناہی کے واقعات ہم نےصرف کتابوں میں پڑھے تھے لیکن آج ہم اس کی نصرت کے جلوے میدان میں دیکھ رہے ہیں، محسوس کر رہے ہیں، جیسا کہ ہمارے بزرگ امام (رحمۃ اللہ علیہ) نے اسے محسوس کیا اور جیسا کہ مجھ سے فرمایا تھا ، ان کا دل مضبوط اورمطمئن تھا کیونکہ وہ قدرت الہی کے ہاتھ  کا مشاہدہ کر رہے تھے۔
ایرانی قوم نے مختلف مواقع پر نصرت خداوندی کو، غیبی امداد کو باقاعدہ محسوس کیا ہے۔ دفاع مقدس اورمسلط کردہ جنگ کے دوران ایک انداز میں اور دیگر معاملات میں کسی دوسرے انداز میں اور سیاسی سرگرمیوں اور آشوب و فتنہ کے موقع پر  کسی اور شکل میں اللہ تعالی کی نصرت کا مشاہدہ کیا ہے، سنہ دو ہزار نو کے فتنہ میں بھی دست قدرت الہی نے عوام کو بیدار کر دیا اور وہ میدان میں حاضر ہوگئے اور عوام نے ایک بہت بڑی سازش کو ناکام بنادیا۔
اس فتنہ کے مختلف پہلوؤں اور زوایا کو روشن کرنے کے لئے ابھی کافی چیزيں باقی ہیں دشمن نے جومنصوبہ بنا رکھا تھا اس کے مختلف پہلوؤں کا ابھی اور بھی تفصیل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ دشمن نے بڑی باریک بینی سے اندازے لگائے تھے لیکن اس کے یہ تمام اندازے غلط ثابت ہوگئے کیونکہ وہ ایرانی قوم کو نہیں پہچان سکا۔ دشمن نے پس پردہ تمام باتوں پر دقیق اور گہری نظر رکھی ہوئی تھی۔ جن افراد کو آپ فتنہ اور آشوب کا سرغنہ اور سربراہ قرار دیتے ہیں یہ وہ لوگ تھے جنہیں دشمن نے دھکا دیکر میدان میں کھڑا کر دیا تھا۔ البتہ گناہ ان سے بھی سرزد ہوا کیونکہ انسان کو دشمن کے ہاتھوں کا کھلونا نہیں بننا چاہیے، حقیقت کا فورا ادراک کر لینا چاہیے۔ اگر شروع میں غلطی ہو گئی ہے تو بعد میں جیسے ہی حقیقت حال کا علم ہو جائے انسان کو فوری طور پراپنا راستہ بدل لینا چاہیے، ان لوگوں نے ایسا نہیں کیا۔ تاہم اصلی عناصر دوسرے لوگ تھے جنہوں نے منصوبہ تیار کیا تھا، جنہوں نے اپنے خیال میں حالات کا اچھا محاسبہ  کررکھا تھا، انھوں نے اپنے ناقص ذہن میں اسلامی جمہوریہ کی بساط لپیٹ دینے کا منصوبہ بنا رکھا تھا،  منصوبہ یہ تھا کہ صرف دین ہی نہیں بلکہ دینی ماہیت والے نعرے تک ختم کر دئیے جائیں۔ منصوبہ یہ تھا کہ اگر ممکن ہو تو اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق نظام کا ڈھانچہ ہی تبدیل کر دیا جائے اور پھر آگے وہ کیا کرتے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ اگر نظام اسلامی کا ڈھانچہ تبدیل کرنا ممکن نہ ہو پائے اور ان کی مرضی کی حکومت نہ بن سکے تو ملک کو فتنہ و آشوب کی آگ میں جھونک دیا جائے اور جیسا کہ میں نے ایک موقعہ پر عرض کیا تھا کہ وہ اسلامی انقلاب کا کارٹون تیار کرنا چاہتے تھے، جیسے کچھ افراد کسی ہیرو کی نقل کرتے ہیں اسی طرح وہ انقلاب کی نقل اتارنا چاہتے تھے، ان کا منصوبہ یہ تھا۔ ایرانی قوم نے ان کے منہ پر طمانچہ رسید کیا اور ان کے شوم منصوبہ کی بساط لپیٹ دی۔
آج اس ملک میں انقلاب، اسلامی جمہوری نظام ، ایرانی قوم اور صحیح دینی روش ،گذشتہ سال کے واقعات سے پہلے کی نسبت کئی گنا قوی اور مضبوط ہیں، پہلے کی نسبت کہیں زیادہ واضح اور روشن ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالی کوئی امتحان لیتا ہے تو کامیابی کی صورت میں ایک نمبر دیتا ہے۔ جب کسی امتحان میں کوئی شخص، کوئی جماعت یا کوئی قوم پوری اترتی ہے تو اللہ تعالی اسے نمبر دیتا ہے۔ نمبر یہ ہے کہ انہیں سربلندی عطا کرتا ہے۔ الہی امتحانات اس انداز سے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم نے امتحان میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ناکام ہو گئے تو اللہ تعالی ہمیں فیل کر دیتا ہے۔  اس فیل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان پستی اور انحطاط کی طرف جارہا ہے۔ یعنی اس صورت میں انسان اپنے مقام سے اور بھی نیچے گر جاتا ہے جبکہ کامیابی کی صورت میں اللہ تعالی قوموں کو سربلندی  اور سرافرازی عطا کرتا ہے۔
ایک دور میں لوگ ایک امتحان میں ناکام ہو گئے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو محراب عبادت میں خاک و خوں میں غلطاں کر دیا، ظاہر ہے کہ یہ امتحان برا اور سخت امتحان تھا۔ کیوں اس دور میں معاشرہ اور سماج اتنا پست ہوگيا تھا کہ جس کے سامنے عدل و انصاف کے پیکر،  روحانیت و معنویت اور توحید و یکتا پرستی کے مجسمہ کو شقی ترین شخص نے قتل کر دیا ؟! یہ اس دور کے امتحان میں لوگوں کی بدترین کارکردگی کی علامت ہے۔ ان لوگوں نے اس امتحان میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا، وہ لوگ امتحان میں ناکام ہو گئے۔ جس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے انہیں پستی میں پہنچا دیا۔ حد یہ ہو گئی کہ ان کی آنکھوں کے سامنے حسین ابن علی علیہما السلام کو شہید کر دیا گیا! جب آپ امتحان میں کامیاب ہوں گے تو اللہ تعالی آپ کو سربلندی عطا کرے گا۔ آج ملک کے اندر، ہماری قوم کے اندر اسلام پسندی، باللہ پر ایمان اور انقلاب سے محبت اس فتنہ سے قبل کے دور کی نسبت کہیں زیادہ نظر آ رہی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام نے اچھا امتحان دیا  ، لوگ امتحان میں پورے اترے تو اللہ کی جانب سے انھیں یہ انعام ملا ہے۔ یہ ہمارے لئے لائحہ عمل ہے اور ہر معاملے میں ہمیں اسی طرح عمل کرنا چاہئے۔ صحیح طور پر دیکھنا، پرکھنا اور جائزہ لینا چاہیے۔ محتاط رہنا چاہیے کہ کہیں  ہم سے تشخیص میں غلطی نہ ہوجائے ، اصلی امور کو فرعی امور سے مخلوط  نہیں کرنا چاہیے۔ بڑی باتوں اور اہم واقعات کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ چھوٹی باتوں کو حد سے زیادہ نہیں بڑھانا  چاہیے۔ ہماری تشخیص درست ہونی چاہیے، یہ پہلا قدم ہے، اس کے بعد ہمیں اپنے فریضے اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے۔ ایک زندہ قوم کی حیات طیبہ اور مثالی زندگی کا یہی مطلب ہوتا ہے۔ یہی وہ پاکیزہ زندگی ہے جس کا اللہ تعالی نے مومنین سے وعدہ کیا ہے۔ "و لنحيينّه حياة طيّبة" (2) کا مطلب یہی ہے۔ یعنی اسی طرح روز بروز گوناگوں امتحانوں کا سامنا کرنا اور آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔ اس راستے پر چلتے ہوئے جو لوگ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں وہ لقاء اللہ کے مستحق قرار پاتے ہیں، وہ سعادت و خوش بختی کی بلند منزل پر فائز ہو جاتے ہیں اور جو لوگ اس دنیا میں باقی رہ جاتے ہیں وہ اسی طرح مادی و معنوی پیشرفت اور ترقی حاصل کرتے ہیں۔ مادی پیشرفت بھی ہوتی ہے۔
ایرانی نے ایک راستے کا انتخاب کیا ہے۔ وہ بہت سے امتحانوں میں کامیاب ہوئی ہے۔ مسلط کردہ جنگ ایک بہت بڑا امتحان تھا اور ایرانی قوم اس امتحان میں سرافراز و سربلند اور کامیاب ہوئی۔ یہ جنگ میں صرف فتح حاصل کرنے کی بات نہیں ہے، فتح تو حاصل ہی ہوئی  لیکن اس سے بڑھ کر الہی اور معنوی معیاروں پر اس کا پورا اترنا زیادہ اہم تھا کیونکہ اس قوم نے اپنے صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا، اپنے ایثار و فداکاری کو ثابت کیا، اپنی بصیرت و آگاہی کا ثبوت پیش کیا، راہ خدا میں آگے کی سمت گامزن رہنے کے لئے اپنی آمادگی کو ثابت کیا۔ اللہ تعالی نے بھی اس قوم کو اب تک مسلسل ترقی عطا کی، بلندی عطا کی اور آئندہ بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہےگا ایرانی قوم کا مقابلہ کرنے کے لئے  جو دشمن مقابلے پر آتے ہیں وہ ان حقائق کو نہیں سمجھتے، وہ ان حقائق کے ادراک سے قاصر ہیں۔
ایرانی قوم آج اپنی داخلہ پالیسیوں میںمکمل طور پر کامیاب ہے، اپنی خارجہ پالیسیوں میں بھی اسے مکمل کامیابی حاصل ہے ، اایرانی قوم کے اندر علاقائی حالات  پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت و توانائی موجود ہے،  اس میں عالمی مسائل پر اثر انداز ہونے کی طاقت موجود ہے۔ یہ حقائق ہیں، یہ صداقت ہے۔ دشمن ان تمام راستوں سے داخل ہونے  کی تلاش و وکشش میں ہے دشمن ایرانی قوم کے ساتھ الجھنا چاہتا ہے تاکہ ایران کو آگے بڑھنے سے روکے ، ایران کے لئے مشکل پیدا کرے لیکن دشمن اپنے اس منصوبہ  میں ہر گز کامیاب نہیں ہوگا ۔ دشمن اقتصادی میدان میں عوام کے لئے مشکلات پیدا کرنا چاہتا ہے ، ملک کے حکام کے لئے مسائل کھڑے کرکے ان کے لئے مشکل پیدا کرنےکی کوشش کرتا ہےاقتصادی پابلندیوں کے بارے میں آپ ہمیشہ سنتے رہتے ہیں لیکن دشمن کو اس میں بھی کوئی کامیابی نہیں نصیب ہوئی ۔ بیرونی امور میں دشمن دیگر ممالک کو ، دوسری قوموں کو ، دوسری حکومتوں کو اسلامی جمہویرہ ایران سے ہراساں کرنے کی تلاش و کوشش کرتا ہے،  انسانی حقوق کے بارے میں، ایٹمی امور کے بارے میں اور تصوراتی ایٹم بم کے بارے میں امریکی اور صیہونی ملکروسیع پیمانے پر تبلیغاتی مہم چلا رہے ہیں اور یورپی ممالک ان کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں اور بعض دیگر حقیر اور کمزور حکومتیں ان کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہیں دشمن کا مقصد یہ ہے کہ وہ  اسطرح عالمی افکار اور علاقائي افکار کو ایرانی عوام کے خلاف کردےلیکن اس سازش میں بھی دشمن کو کوئی کامیابی نہیں ملی ۔ دشمن کی ناکامی  اور شکست کی دلیل یہ ہے کہ آج ہمارے اسی علاقے میں امریکہ فلسطین کے معاملے میں شکست کھا چکا ہے، لبنان کے معاملے میں ہزیمت سے دوچار ہو چکا ہے، افغانستان کے معاملے میں ناکام ہو چکا ہے، عراق کے معاملے میں بھی اسے شکست ملی ہے۔ کس سے شکست ملی ہے؟ قوموں کے درست مؤقف سے اسےشکست ملی ہے۔ امریکی کہتے ہیں کہ اس علاقے کے تمام معاملات میں ایران ان کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران ان کے خلاف کارروائياں نہیں کر رہا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے علاقے کی قوموں پر صرف معنوی و روحانی اثرات مرتب کئے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ نے قوموں کو بیدار ضرور کیا ہے، اس میں کوئي شک و شبہ نہیں ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عراق میں ایسی حکومت تشکیل پائی ہے جسے اقتدار سے دور رکھنے کے لئے امریکیوں نے ہر ممکن کوشش کی لیکن عراقی عوام کی بیداری و ہوشیاری کی وجہ سے موجودہ حکومت تشکیل پا گئی۔ اسلامی جمہوریہ کی تاثیر اس طرح کی ہے۔ دوسری جگہوں پر بھی یہی صورتحال ہے۔
ہم اسی راستے پر گامزن رہیں گے۔ ہم نے بلندیوں کو پہچان لیا ہے۔ ہمیں علم ہے کہ ہم کو کہاں جانا ہے۔ «لتكونوا شهداء على النّاس»(3) یہ وہ راستہ ہے جو ہماری قوم کو حقیقی اور کامل اسلام سے ہمکنار کرے گا۔ جس میں دنیا و آخرت کی تمام نیکیاں اور خوبیاں موجود ہیں۔ دنیا و آخرت کی پاک و پاکیزہ زندگی حقیقی اسلام میں مضمر ہے۔ ہم ابھی آغاز راہ میں ہیں، ابھی بہت سی خامیاں اور نقائص ہیں، اسلام کامل تک پہنچنے کے لئے ابھی ہمیں طویل راستہ طے کرنا ہے۔ البتہ ہم نے بلندیوں کو پہچان لیا ہے اور بحمد اللہ خداوند عالم نے ہمیں ان بلندیوں تک پہنچنے کا راستہ بھی دکھا دیا ہے۔  اس سفر کے حوالے سےایرانی قوم اور ملک کے حکام کا عزم و ارادہ بھی کافی مضبوط اور مستحکم ہے۔
البتہ ہمیں بیدار رہنے کی ضرورت ہے، ہم سب کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ پسند نہیں ہے اور نہ ہی یہ مناسب ہے کہ نرم تکیہ پر سر رکھ کر خود کو تسلی دیتے رہیں کہ دشمن تواب شکست کھا چکا ہے، دشمن کمزور پڑ چکا ہے اور ہم قوی و توانا بن گئے ہیں۔ ہمیں بیدار رہنا چاہیے۔ جیسا کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :«و انّ اخا الحرب الأرق و من نام لم ينم عنه» (4) جب لڑائی چل رہی ہو تو اس وقت بیدار رہینا چاہیے ۔ جنگ ہماری اور آپ کی مرضی کی پابند نہیں ہے۔ دشمن جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے، چاہے وہ سیاسی جنگ ہو، معاشی جنگ ہو یا امن و سلامتی سے متعلق جنگ ہو، کیونکہ جنگ ہمیشہ فوجی ہی نہیں ہوتی۔ جب جنگ چل رہی ہے تو ہمیں بیدار رہنا چاہیے۔ ہمارےنوجوان کو بیدار رہنا چاہیے، ہمارے علماء کرام کو بیدار رہنا چاہیے ، ہماری یونیورسٹیوں کو بیدار رہنا چاہیے، ملک کے حکام کو بیدار رہنا چاہیے ۔ ملکی حکام کی بیداری یہ ہے کہ جہاں تک ان سےممکن ہو  انھیںعوام کی خدمت کرنی چاہیے، کام کرنا چاہیے اور جہاں تک ہو سکے اس اتحاد کو قائم رکھنا چاہیے  کیونکہ اتحاد  دشمن کی آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹک رہا ہے۔

انشاء اللہ آپ کامیاب و کامراں رہیں ، پروردگارا! محمد و آل محمد کے طفیل عزیز عوام کو اپنے لطف و فیض کے چشمہ سے سیراب فرما۔ ہمیں اس راستے پر استوار اور ثابت قدم رکھ ۔ پروردگارا! شہداء اور ہمارے بزرگ امام(رحمۃ اللہ علیہ) کی ارواح کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔

و السّلام عليكم و رحمة اللَّه‌

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1) مائده: 23
2) نحل: 97
3) بقره: 143
4) نهج البلاغه،نامه‌ى 62