ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا مؤثر افکار کے پہلے اجلاس کے ماہرین اور دانشوروں سے خطاب

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

 الحمد للہ آج رات کا جلسہ بہت ہی خوشگوار، بہت ہی  اہم اور عمدہ رہا ہے میں حقیقت میں لطف اندوز ہوا ہوں  اور میں نےاس جلسے سےاستفادہ کیا ہے ؛ آپ کے بیان کردہ مطالب سے بھی بہرہ مند ہوا ہوں اور ملک کے دانشوروں ، ماہرین اور ممتاز افراد کے اندر موجود عظیم ظرفیت  کو مشاہدہ  کرکے محظوظ ہوا ہوں  اور ایک پیچيدہ و مرکب مسئلہ کے بارے میں بحث و گفتگو کو سن کر مجھے بڑی خوشی و مسرت حاصل ہوئی میں آپ حضرات کی یہاں تشریف آوری پربہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں ؛ آپ نے زحمت اٹھائی اوریہاں تشریف لائے آپ کی زحمت کا شکریہ ، آپ نے اس جلسہ میں طویل وقت بھی صرف کیا اس پر بھی شکریہ ادا کرتا ہوں ، اس جلسہ کی راہیں ہموار کرنے والوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جناب آقائ واعظ زادہ اور ان کے ساتھیوں کا شکریہ، جنھوں نے  اس جلسہ کے انعقاد کے سلسلے میں زحمتیں اٹھائیں، راہیں ہموار کیں، اور اس جلسے کو تشکیل دیا ، کیونکہ وقت کافی گذرچکا ہے لہذا میں مختصر طور پر کچھ مطالب یہاں بیان کروں گا۔۔۔(1)  انشاءاللہ تفصیلی گفتگو کے لئے بھی وقت باقی رہےگا۔

اسلامی جمہوریہ ایران میں اپنی نوعیت کا یہ منفرد اور پہلا اجلاس ہے ہم نے متعدد اجلاس منعقد کئے ہیں؛ چاہے وہ ملاقاتوں کی شکل میں ہوں جو مختلف اور گوناگوں طبقات نے مجھ سے کی ہیں چاہے وہ دیگر اجلاس ہوں جن کے بارے میں مجھے معلوم ہے، اب تک ایسا اجلاس ہم نے نہیں دیکھا ہے اس اجلاس کی تشکیل سے میری مراد ایسےجلسات کا سلسلہ ہے جو انشاء اللہ آئندہ اس بارے میں منعقد ہونگے، سب سے پہلا اور اہم موضوع یہ ہے کہ ملک کے ماہرین ، ملک کے دانشور ملک کے طویل المدت مسائل میں مشغول ہوجائیں، ملک کے اساسی اور بنیادی مسائل ہیں، بڑے بڑے کام ہیں جنھیں انجام دینا چاہیے، ملک کے اندر عظیم توانائیاں اور ظرفیتیں موجود ہیں اس عظیم حرکت کی بدولت ان میں پیشرفت حاصل ہوسکتی ہے، اور یہ موضوع  اس وقت تک محقق نہیں ہوسکتا جب تک ممتاز دانشور، ممتاز ماہرین خودان طویل المدت مسائل کے انجام دینے میں مشغول و مصروف نہیں ہوں گے ، اس امرکو واقع ہونا چاہیے اور یہ امر واقع ہوگا۔ملکی پیشرفت کے لئے اسلامی – ایرانی   نمونہ کی تدوین کا مسئلہ ہمارے طویل المدت مسائل میں سے ہے؛ البتہ اس مسئلہ کے اندر بھی دسیوں مسائل موجود ہیں جنھیں بعد میں عرض کروں گا، گفتگو کا یہ سلسلہ اسی مسئلہ کے ذیل میں جاری رہےگا ، اس کے ساتھ دوسرے طویل المدت مسائل بھی موجود ہیں اور ان کا پیش کرنا بھی ضروری ہے۔

اس جلسہ کی تشکیل کا دوسرا مقصد جو ہمارے پیش نظر ہے وہ یہ ہے کہ ثقافت اور گفتگو کا سلسلہ پہلے ممتاز دانشوروں اور اس کے بعد عام لوگوں کے لئے بیان کیا جائے، یہی باتیں جو آپ نے آج یہاں بیان کی ہیں جب یہ باتیں معاشرے کی سطح پر بیان ہونگی، تو ممتاز شخصیات اور عام لوگوں کی ایک بنیادی اور اساسی سمت میں ہدایت اور راہنمائی ہوگی؛ آگے کی سمت کے لئے حرکت کا ماڈل اور توسیع کے بارے میں غور و فکر کرنا، اس سلسلے میں مستقل ہونےاور خود کفیل ہونے کا احساس پیدا کرنا، اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا اور اغیار سے وابستگی و اعتماد کے عیوب کے بارے میں اس گفتگو کو فروغ حاصل ہوگاہمیں آج اس کی سخت ضرورت ہے، لیکن ہمارے سماج کے بعض دانشور ابھی اس مسئلہ کے اہم حصوں کے بارے میں کسی صحیح و درست نتیجہ تک نہیں پہنچے ہیں؛ یہ کام ہونا چاہیے اور اللہ تعالی کی مدد و نصرت سے یہ کام انجام پذیر ہوگا۔

ہمارا تیسرا مقصد یہ ہے کہ ہم آئندہ دسیوں سال تک ملک چلانے کے لئے راستہ  ہموار کریں ، ریل اور پٹڑی بچھائیں  ، یہ جلسہ اور اس جیسے دیگر جلسات ریل و پٹڑی  بچھانے اور راستہ بنانے پر ختم ہوں گے اس جلسہ اور دیگر جلسات جوانشاءاللہ تشکیل ہوں گے ان کی تشکیل کا اصل مقصد  ہمارے یہی  اہداف ہیں ۔

لہذا یہ کام شخصیات اور عہدیداروں سے متعلق نہیں ہے، یہ کام مجھ سے بھی متعلق نہیں ؛ یہ کام ہم سب کا کام ہے یہ کام جو انجام دیاجارہا ہے  اس کے بارے میں ہم سب کی ذمہ داری ہے ، ہر انسان اپنی قدرت و توانائی ، اپنی ظرفیت و اپنی وسعت قدرت کے مطابق اس سلسلے میں ذمہ دار ہے انشاء اللہ ہم اس کام کا پيچھا کریں اور اس کو انجام دیں ، یہ ہوا ایک مطلب۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس کام کا ثمرہ جلدی نہیں ملےگا، ہم اس نکتہ کے پیش نظر اس میدان میں وارد ہوئے ہیں ، البتہ بعض حضرات نے محصول کا ثمرہ جلد حاصل کرنے کے لئے بعض تجاویز بھی پیش کیں ، اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن وہ چیز جو ہمارے مد نظر ہے وہ بلند مدت اور امید افزا نگاہ کے تحت درمیانہ مدت کے بغیر حاصل نہیں ہوگی؛ یہ ایک طولانی کام ہے ، یہ ایک لمبا اور طویل منصوبہ ہے، اللہ تعالی کی مدد و نصرت سے اگر ہم ایک معقول وقت میں پیشرفت کےاسلامی اور ایرانی ماڈل اور نمونہ تک پہنچ گئے، تو اس سند اور دستاویز کو ملک کے منصوبوں اور پالیسیوں کی تمام اسناد اور دستاویزات پر برتری حاصل ہوگی یعنی حتی بیس سالہ اوردس سالہ بلند منصوبہ جو آئندہ تدوین کیا جائے گا ، اسے بھی اسی نمونہ کی بنیاد پر تدوین کیا جائےگا؛ ملک کی تمام پالیسیوں کو اسی منصوبہ کی بنیاد پر تیار کیا جائے گا  یہ منصوبہ اہم اور بنیادی منصوبہ ہوگا البتہ اس نمونہ میں وقت کی پیشرفت کے ساتھ ساتھ تبدیلی بھی ممکن ہوگی جو کچھ اس میں بیان ہوگا وہ حرف آخر نہیں ہوگا؛ دنیا کےجدید اور نئے شرائط کی بنیاد پر یقینی طور پر اس میں بھی تبدیلی آسکتی ہے اور  وقت کی ضرورت کے مطابق وہ تبدیلی ہوگي۔لہذا یہ نمونہ قابل تغییر ہے اس میں شرائط اور وقت کی ضرورت کے مطابق اصلاح ہوسکتی ہے، اس کے اہداف مشخص ہونگے ، ممکن ہے بعض فرعی مسائل میں گوناگوں شرائط کے تحت تبدیلی کی ضرورت ہو جو قابل اصلاح ہے لہذا ہم اس مسئلہ میں جلدبازی سے کام نہیں لیں گے، البتہ معقول سرعت ہونی چاہیے ؛ لیکن اس میں جلد بازی نہیں کریں گے اور انشاء اللہ صحیح اور درست حرکت کی روشنی میں آگے بڑھیں گے۔

بہت خوب ، اس جملہ کے مفردات کے بارے میں دوستوں نے اچھی گفتگو اور عمدہ باتیں کی ہیں؛ " پیشرفت کے اسلامی ایرانی نمونہ" ، نمونہ کے معنی کیا ہیں ، ایرانی کس لحاظ سے، اسلامی کس اعتبار سے، اور پیشرفت کن جہات میں ہونی چاہیے،اس سلسلے میں اچھی بحثیں ہوئی ہیں، وہ چیز جو میں ان بحثوں کے ساتھ اضافہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم نے سب سے پہلے کلمہ " پیشرفت " کو دقت اور غور کے ساتھ انتخاب کیا؛ ہم نے جان بوجھ کر کلمہ توسعہ سے استفادہ نہیں کیا، اور اس کی اصلی علت و سبب یہ ہے کہ کلمہ توسعہ میں کچھ خاص معنی اور مفاہیم ہیں ؛ اس کے ہمراہ کچھ التزمات اور ذمہ داریاں  ہیں اور یہ ایسی ذمہ داریاں ہیں کہ ہم ان کی ہمراہی نہیں کرسکتے ہیں ، ہم ان کے موافق نہیں ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ ایک ایسی اصطلاح سے استفادہ کریں جس کے عالمی سطح پر خاص معنی و مفاہیم  سمجھےجاتے ہیں، ہمیں اپنے مجموعہ کے اندر رہ کر اپنا کام کرنا چاہیے، ہم اس معنی و مفہوم کو پیش کریں گے جو ہمارے مد نظر اور پیش نظر ہے؛ پیشرفت کا یہ مفہوم در حقیقت وہی مفہوم ہے جو ہم پیشرفت کا مفہوم فارسی زبان میں سمجھتے ہیں؛ ہم جانتے ہیں کہ پیشرفت سے کیا مراد ہے، ہم اس کی تعریف بیان کریں گے کہ اس پیشرفت سے  ہماری مراد اور ہمارا مقصود کیا ہے کہ جس کے فارسی میں معنی واضح اور روشن ہیں ؛ کن میدانوں میں پیشرفت مراد ہے، پیشرفت کس سمت میں ہونی چاہیے، انقلاب اسلامی کے دیگر موارد میں بھی  ایسا ہوا ہے کہ ہم نے کسی سےمفاہیم کا قرضہ نہیں لیا ہے، ہم نے " امپریالزم " کے کلمہ سے استفادہ نہیں کیا اس کی جگہ ہم استکبار کا کلمہ لائے، ممکن ہے بعض خاکے امپریالزم کلمہ میں موجود ہوں جو ہمارے مد نظر نہیں ہیں، ہماری حساسیت ان خاکوں پر نہیں ہے، ہماری حساسیت ان مفاہیم پرہے جو کلمہ استکبار سے سمجھ میں آتے ہیں لہذا ہم نے اس کو پیش کیا ، انقلاب میں یہ اپنے مقام پر صحیح ہے؛ دنیا بھی آج ہماری مراد سے آشنا اور واقف ہے اور اسی طرح دوسرے مفاہیم بھی۔

پیشرفت کا مفہوم ، ہمارے لئے روشن اور واضح مفہوم ہے، ہم کلمہ پیشرفت کو استعمال کریں گے اور اس کی تعریف کریں گے کہ ہماری مراد پیشرفت سے کیا ہے ، نمونے کے ایرانی ہونے کے بارے میں دوستوں نے جو مطالب بیان کئے ہیں وہ اچھے مطالب ہیں ان کے علاوہ تاریخی شرائط ، جغرافیائی شرائط، ثقافتی شرائط ، ملکی شرائط، سیاسی جغرافیائی شرائط اس نمونہ کی تشکیل میں مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں، یہ چیزيں بالکل صحیح اوردرست ہیں، اس میں یہ نکتہ بھی مہم ہے کہ اس خاکہ کو بنانے والے بھی ایرانی ماہرین ہیں؛ اور یہ وجہ ایرانی عنوان کے لئے بالکل مناسب ہے؛ یعنی ہم اس کو دوسروں سے نہیں لینا چاہتے ؛ ہم چاہتے ہیں کہ وہ چیزیں جن کوہم ضروری سمجھتے ہیں جن کو ہم اپنے ملک کے لئے بہتر سمجھتے ہیں جن کو ہم اپنے مستقبل کے لئے مفید اور مؤثر سمجھتے ہیں ان کو ہم ایک سانچے میں ڈال لیں، لہذا یہ ایرانی نمونہ ہے، دوسری طرف اس کا ایک عنوان اسلامی ہے، اسلامی کلمہ کا انتخاب اس لئے کیا ہے کیونکہ ان تمام اہداف، تمام اقدار اور تمام روشوں کا سرچشمہ اسلام ہے یعنی ہمارا اعتماد اور تکیہ اسلامی مفاہیم اور اسلامی معارف پر ہے، ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ ہے ہماری حکومت اسلامی حکومت ہے، اور ہمارے لئے یہ افتخار ہے کہ ہم اسلامی مآخذ اورمنابع سے استفادہ کرسکتے ہیں، خوشی قسمتی سے اسلامی مآخذ اور منابع ہمارے پاس موجود بھی ہیں، ہمارے پاس قرآن موجود ہے، سنت موجود ہے، اور ہمارے فلسفہ میں ، ہمارے علم کلام میں، ہماری فقہ میں اور ہمارے علم حقوق میں بہت سے غنی مفاہیم موجود ہیں ، لہذا کلمہ اسلامی کا انتخاب اس لحاظ سے کیا ہے نمونہ بھی ایک جامع نقشہ ہے جب ہم " ایرانی ، اسلامی نمونہ " کہتے ہیں ، تو اس سے مراد ایک جامع نقشہ ہے، جامع نقشہ کے بغیر ہم سرگرداں ہوجائيں گے؛ جیسا کہ گذشتہ تیس برسوں میں ہم نامعلوم اور بے ہدف و بے مقصد حرکتوں میں مبتلا رہے ہیں، اور ادھر ادھر دروازہ کھٹکھٹاتے رہے ہیں، کبھی ہم ایک قدم اٹھاتے اور کبھی اس کے بر خلاف دوسرا قدم اٹھانا پڑتا اور یہ تضاد ، ثقافتی ، اقتصادی  اور ديگر گوناگوں میدانوں میں موجود رہا ہےاور یہ تناقض اور تضاد اس  لئے واقع ہوتا رہا ہے کیونکہ ہمارے پاس کوئی جامع نقشہ موجود نہیں تھا یہ نمونہ ایک جامع نقشہ ہے، جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہم کس سمت میں ، کس طرف ، کس  جہت میں اور کون سے ہدف کے لئے حرکت کررہے ہیں، اور جیسا کہ دوستوں نے بھی قدرتی طور پر اس کی طرف اشارہ کیا کہ مطلوب حالت کی تصویر کشی ہونی چاہیے اور موجودہ حالت سے اس بہتر اور مطلوب حالت تک پہنچنے کا طریقہ کار بھی معلوم ہونا چاہیے، یقینی طور پر بہت سے سوال سامنے آئیں گے، ؛ ان سوالوں کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے، ایک صاحب نے یہاں بیان کیا کہ چار ہزار سوال موجود ہیں، یہ بہت اچھی بات ہے، ان سوالوں کو دیکھا جائے ، ان کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں، یہ حرکت ہمارے دانشوروں اور ممتاز ماہرین کے اندر پیدا ہونی چاہیے، سوالات پیش کئے جائیں ، ان سوالات کے جوابات دیئے جائیں یہ ایک طولانی اور طویل المدت منصوبہ ہے۔

البتہ یہ جو ہم ایرانی اور اسلامی کہتے ہیں اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ہم دوسروں کے تجربات سے استفادہ نہیں کریں گے؛ نہیں ، ہم علم کے حصول کے لئے کسی محدودیت کے قائل نہیں ہیں، جس جگہ علم موجود ہے، جس جگہ درست اور صحیح معرفت موجود ہے، جہاں کہیں صحیح تجربہ موجود ہے، ہم اس کو حاصل کریں گے، البتہ آنکھ بند کرکے اندھوں کی طرح کسی سے کوئی چیز حاصل نہیں کریں گے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی معرفت موجود ہے اوروہ ہمارے لئے قابل استفادہ ہے تو ہم اس سے ضرور استفادہ کریں گے۔

سوالات موجود ہیں، بعض سوالات یہاں بیان کئے گئے ہیں اور ان کے جواب بھی دیئے گئے میں ان کی تکرار نہیں کرنا چاہتا ،یہاں اچھی باتیں بیان ہوئی ہیں، اور ان کو دوبارہ دہرانے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے، البتہ وہ تمام کام جو انجام دیئے گئے ہیں میں نے ان کو پہلے بھی دیکھ رکھا تھا اور ااس وقت بھی میں نے ان کو غور اوردقت کے ساتھ سنا ہے، یہاں پر اچھی باتیں بیان کی گئی ہیں ، بعض حضرات سوال کرتے ہیں کہ اس کام کے لئے یہ وقت  کس مناسبت سے انتخاب کیاہے،؟ جب وہ اس کی اصل ضرورت کو قبول کرتے ہیں اور جو قابل قبول بھی ہے تو پھر سوال کرتے ہیں کہ یہ کام پہلے کیوں انجام نہیں دیا گيا اور اب اس کو انجام دینے کی کیا ضرورت ہے؟ بہت خوب، اس میں کوئی زيادہ فاصلہ واقع نہیں ہوا ہے کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے اس منصوبہ کی تدوین کا مرحلہ ضرور انجام پذیر ہوگا ، تیس سال کا عرصہ کوئی طویل عرصہ نہیں ہے، تجربات جمع ہوتے ہیں، معرفتیں  جمع ہوتی ہیں، سیاسی حالات اور شرائط  اقتضا کرتے ہیں ؛ بعد ہم ایسے نقاط تک پہنچتے ہیں جو ہم پر واضح نہیں رہے ہیں انشاء اللہ ان کے بارے میں بھی معلومات حاصل کریں گے، میری نظر میں موجودہ شرائط میں ملک کی ظرفیت ایک مناسب ظرفیت ہے، البتہ کسی نے کہا ہے کہ اس جامع نمونہ کی تدوین کے لئے ہمارے پاس فکری توانائی نہیں ہے۔، ہم اس بات کو قبول نہیں کرسکتے، ملک کے اندر بہت زيادہ صلاحیتیں اور ظرفیتیں موجود ہیں،جہاں تک مجھے خبر ہے ملک کے اندر بالفعل بہت زيادہ ظرفیتیں موجود ہیں، یونیورسٹیوں میں بھی اور حوزہ علمیہ قم اور دیگر حوزات میں بھی درخشاں صلاحیتیں موجو دہیں اور مطالعہ کے ذریعہ ان کو فعلیت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، ان کو میدان میں لایا جاسکتا ہے،  آج اگر اس کام کو ہم شروع نہیں کریں گے ، اس  کام کا ہم پیچھا نہیں کریں گے، تم ہم پسماندگی کا شکار ہوجائیں گے اور ہم نقصان اٹھائیں گے؛ لہذا اس منصوبہ کو تدوین کرکے اسے آگے بڑھانا چاہیے۔

ایک بات جسے میں یہاں پر اضافہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کلی طور پر اس پیشرفت کے دائرہ کار کو مشخص ہونا چاہیے، اس پیشرفت کے چار بنیادی محور ہیں؛ زندگی بنیادی محورہے جس میں عدل و انصاف ، امن و سلامتی، فلاح و بہبود جیسے امور شامل ہیں سب سے  پہلے فکری شعبہ میں پیشرفت ضروری ہے ہمیں چاہیے کہ ہم معاشرے کو ایک متفکر معاشرے کی سمت میںحرکت دیں ؛ یہ قرآنی سبق ہے، آپ ملاحظہ فرمائیں ، قرآن مجید میں کتنا زیادہ  «لقوم يتفكّرون»، «لقوم يعقلون»، «أفلا يعقلون»، «أفلا يتدبّرون» وارد ہوا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم غور فکر اور تدبر و تفکر کو معاشرے میں ایک نمایاں حقیقت کے طور پر تبدیل کریں ، البتہ یہ کام ممتاز ماہرین کے مجموعہ سے  شروع ہوجائے گا، اور اس کے بعد یہ سلسلہ تمام افراد تک پہنچ جائے گا، البتہ اس کے طریقے میں اس کے کچھ ضروری اور بنیادی شرائط ہیں ، تعلیم و تربیت، اور ذرائع ابلاغ اس کام کے وسائل ہیں جن کا منصوبہ بندی میں ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔

دوسرا محور، جس کی پہلے محور سے  اہمیت ذرا کم ہے ، یہ محور علم کا محور ہے، علم کے شعبہ میں ہمیں پیشرفت کرنی چاہیے ، البتہ خود علم بھی فکر کی محصول اور فکر کا نتیجہ ہے، موجودہ دور میں فکری پیشرفت کی سمت میں کاہلی، سستی ، غفلت اور کوتاہی نہیں ہونی چاہیے، خوش قسمتی سے ملک میں کئی برسوں سے اس حرکت کا سلسلہ جاری ہے۔ علمی خلاقیت ، علمی نوآوری اور علمی استقلال کی جانب حرکت کرنا ، یہی علم ہے؛ ٹیکنالوجی کے شعبہ میں حرکت محسوس اور نمایاں ہے اور بہت سے موارد کی طرح اس مسئلہ میں  بھی طویل المدت علمی حرکت ہماری بحث کا موضوع نہیں ہے؛ اس کا ثمرہ تازہ اور ہاتھ میں ہےعلمی کام کو دقیق اور بنیادی طور پر انجام دینا چاہیے، یہ بھی پیشرفت کا ایک محور ہے۔

تیسرا محور زندگی کا محور ہے جس کے بارے میں پہلے عرض کرچکا ہوں، معاشرے میں زندگی کے تمام بنیادی مسائل اور تمام بنیادی خطوط اسی عنوان (محور زندگی )کے تحت آجاتے ہیں، جیسے سلامتی، عدل و انصاف، فلاح و بہبود،  استقلال، قومی عزت، آزادی، تعاون، حکومت ، یہ تمام میدان پیشرفت کے میدان ہیں اور ان پر توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔

چوتھا محور جو ان سب سے اہم  محور ہےوہ معنویت کے میدان میں پیشرفت کا محور ہے ہمیں اس نمونہ کو اس طرح تنظیم اور مرتب کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں ایرانی معاشرہ  معنویت کی سمت آگے قدم بڑھائے، البتہ یہ چیز اپنی جگہ ہم پر واضح اور روشن ہے، ممکن ہے بہت سے حاضرین کے لئے بھی یہ بات واضح اور روشن ہو لیکن یہ امر سب کے لئے روشن ہونا چاہیے کہ معنویت کا علم کے ساتھ ، معنویت کا سیاست کے ساتھ ، معنویت کا آزادی کے ساتھ اور معنویت کا کسی دوسری چیز کے ساتھ کوئی منافات نہیں ہے؛ بلکہ معنویت ان تمام چیزوں کی روح و جان ہے۔ معنویت کے ساتھ علم کی عظیم اور بلند چوٹیوں کو فتح کیا جاسکتا ہے؛ یعنی اگر معنویت  بھی موجود ہو اور اس کے ساتھ علم بھی موجود ہو  تو اس صورت میں دنیا انسانی دنیا بن جائے گی ؛ دنیا ایسی دنیا بن جائے گی جو انسان کے لائق اور سزاوار ہوگی ، آج کی دنیا جنگلی دنیا ہے، وہ دنیا جس میں علم کے ہمراہ معنویت ہو، جس میں تہذيب و تمدن کے ہمراہ معنویت ہو، جس میں دولت و ثروت کے ہمراہ معنویت ہو وہ دنیا انسانی دنیا ہوگی، البتہ ایسی دنیا کا حقیقی نمونہ حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ ) کے ظہور کے دوران محقق ہوگا  اور میں اس بات کو یہاں عرض کرنا چاہتا  ہوں کہ وہاں سے دنیا کا آغاز ہوگا ہم ابھی عالم انسانیت کے ابتدائی مراحل سے گزر رہے ہیں ، ہم ابھی ان لوگوں کی مانند ہیں جو پہاڑوں کے سنگلاخ اور دشوار گذار نشیب و فراز اور پیچ و خم سے عبور کررہے ہیں، تاکہ ایک بڑی  وادی اور ایک عظیم شاہراہ تک پہنچ سکیں ، جب ہم بڑی شاہراہ تک پہنچ جائیں گے، تو اس وقت اعلی اہداف کی جانب  ہماری حرکت کا نیا  آغاز ہوگا۔ بشر اپنی عمر کےان کئی ہزار برسوں میں ان تنگ و تاریک راستوں سے عبور کرکے بڑی شاہراہ تک پہنچنا چاہتا ہے جب وہ اس بڑی شاہراہ پر پہنچ جائے گا وہ دور حضرت بقیۃ اللہ کے ظہور کا دورہوگا اور یہاں سے انسان کی اصلی حرکت کا آغاز ہوجائے گا؛ سرعت کے ساتھ انسان کی حرکت کا آغاز ہوجائے گا، کسی زحمت کے بغیر انسان کی کامیاب حرکت کا آغاز ہوجائے گا، اس راہ میں زحمت صرف یہی ہے کہ انسان اس راستہ پر گامزن رہے، انسان اس راستہ پر چلتا رہے یہاں حیرت کا کوئی وجود نہیں ہوگا۔

بہر حال پیشرفت کے یہ چار محور ہیں، اور ہمیں اس نمونہ کو مد نظر رکھتے ہوئے حرکت کرنی چاہیےجسے انشاء اللہ آپ تدوین کریں گے۔ اور اس نمونہ کی تدوین کا طریقہ کار بھی اجمالی طور پر ہمارے لئے کچھ حد تک واضح اور روشن ہوگیا ہے اور جس کے بارے میں ہم بعض مطالب بیان کریں گے۔

اسلامی مواد کے بارے میں دوستوں نے اچھے اشارے کئے ہیں، سب سے پہلا مرحلہ جسے مد نظر رکھنا چاہیے وہ آغاز اور مبداء کا مسئلہ ہے، توحید کا مسئلہ ہے؛ " انّا للَّه و انّا اليه راجعون" (2) مغربی دنیا میں آج جو سب سے اہم مسئلہ درپیش ہے اور جس کی طرف ہم اشارہ کریں گے وہ اللہ تعالی سے جدائی اور دوری کا مسئلہ ہے جو مغربی ممالک کے گریبان گیر ہے اللہ تعالی کے بارے میں اعتقاد اور اعتقاد پر عمل کرنے کا مسئلہ ہے، البتہ ممکن ہے ظاہری اور صوری اعتقاد موجود ہو ، لیکن خدا کے بارے میں اعتقاد پر عمل نہیں ہے، اگر مبداء کا مسئلہ حل ہوجائے تو بہت سارے مسائل حل ہوجائیں گے، "  يسبّح له ما فى السّماوات و ما فى الأرض " (3) " " و للَّه جنود السّماوات و الأرض و كان اللَّه عليما حكيما" (4) ، جب انسان کا اس مسئلہ پر اعتقاد ہے، یہ توحید جو اس معنی کو ہمیں بتاتی ہے تو وہ ایک عظیم اور تمام نہ ہونے والی طاقت کو انسان کے اختیار میں قرار دیتی ہے، " هو اللَّه الّذى لا اله الّا هو الملك القدّوس السّلام المؤمن المهيمن العزيز الجبّار المتكبّر سبحان اللَّه عمّا يشركون " (5) جب انسان کا توحید کے بارے میں ایسا اعتقاد ہوگاجب ہم اس اعتقاد کو اپنی زندگی کے شعبوں میں فروغ دیں گے تو انسان کی یہ اساسی اور بنیادی مشکل حل ہوجائے گی۔

دوسرا مسئلہ جو اساسی اور بنیادی مسئلہ ہے، وہ معاد اور قیامت کا مسئلہ ہے، وہ محاسبہ اور حساب و کتاب کا مسئلہ ہے وہ ایسا مسئلہ ہے جو جسم کے ختم ہونے یا موت کے آنے سے ختم ہونے والا نہیں ہے ، یہ مسئلہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے؛ یہ کہ حساب و کتاب درپیش ہے" فمن يعمل مثقال ذرّة خيرا يره " جو قوم اس اعتقاد سے آراستہ ہو اور جس کے عملی پروگرام میں یہ معنی جلوہ گر ہوں ، " فمن يعمل مثقال ذرّة خيرا يره. و من يعمل مثقال ذرّة شرّا يره " (6) تو انسان کی زندگی میں بنیادی تبدیلی پیدا ہوجائے گی، اعتقاد کے امتداد و عمل کے نتائج کی روشنی میں جہاد اور ایثار کے منطقی اعمال وجود میں آئیں گے، ادیان میں ایک سب سے اہم مسئلہ جہاد کا مسئلہ ہے جو اسلام میں واضح طور پر موجود ہے، جہاد کو ہمیشہ ایثار کے ہمراہ ہونا چاہیے، ورنہ جہاد جہاد نہیں ہوگا، ایثار یعنی فدا کاری اور خود گذشتگی، عقلی منطق کی روشنی میں خودگذشتگی و فداکاری ایک غیر منطقی عمل ہے، میں کیوں فدا کاری کروں ؟ یہ قیامت پر اعتقاد کی وجہ سے ہے جو اس کو منطقی عمل قراردیتا ہے عقلی عمل قراردیتا ہے کیونکہ کوئی عمل برباد اور ضائع نہیں ہوگا، تمام اعمال محفوظ ہیں اور ہم آخرت کی حقیقی زندگی میں ، قیامت کی واقعی زندگی  ہم اپنے اعمال کا مشاہدہ کریں گے" انّ الدّار الأخرة لهى الحيوان" (7)  ہم اپنے اعمال کو اپنی آنکھوں کے سامنے مشاہدہ کریں گے لہذا یہاں کسی ذمہ داری اور تکلیف کے پیش نظر اگر کسی چیز کو ہاتھ سے کھو دیں تو نقصان کا احساس نہیں کریں گے، اگر چہ وہ چیز ہماری جان ہی کیوں نہ ہو،اگر چہ وہ چیز ہمارے فرزند اور ہماری اولاد ہی کیوں نہ ہو، اوران چیزوں کو ہماری پیشرفت کے نمونے کا حصہ ہونا چاہیے، اوران چیزوں کو سماج و معاشرے کی پیشرفت میں حقیقی معنی پیدا کرنا چاہیے، لہذا اصلی اوربنیادی مسئلہ تو حید اور قیامت و معاد کا مسئلہ ہے۔

ایک مسئلہ دنیا اور آخرت میں عدم تفکیک اور عدم جدائی کا مسئلہ ہے؛ " الدّنيا مزرعة الأخرة "(8) جس کی طرف بعض دوستوں نے بھی اشارہ کیا ہے؛ یہ بھی بہت اہم مسئلہ ہے، دنیا و آحرت ایک دوسرے سے جدا اور الگ نہیں ہیں، دنیا کے سکے کے اس طرف ہماری دنیا ہے، " و انّ جهنّم لمحيطة بالكافرين"؛(9) کافر اس وقت بھی جہنم میں ہیں، بہر حال ایسا جہنم ہے کہ جس کو وہ ابھی محسوس نہیں کرسکتا وہ نہیں سمجھتا کہ وہ اس وقت جہنم میں ہے، بعد میں جب تجسم پیدا کیا تو اس وقت سمجھ میں آجائے گا۔ " ای دریدہ پوستین یوسفان /گرگ برخیزی از این خواب گران" ، اے وہ شخص کہ جس نےیوسفوں کی کھال اتاری ہے، اس خواب گراں سے تو  بھیڑیئے کی صورت میں اٹھے گا ، " وہ اس وقت بھی بھیڑیا ہے لیکن اسے بھیڑیا ہونے کا احساس نہیں ہے، ہماری آنکھیں بھی بند ہیں اس کی بھیڑيا کی شکل نہیں دیکھتے ہیں؛ لیکن جب ہم خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں گےتو اس وقت ہم مشاہدہ کریں گے کہ یہ تو بھیڑیا ہے، لہذا دنیا اور آخرت کے درمیان پیوستگی اور رابطہ ایسا رابطہ ہے ایسا نہیں ہے کہ ہم یہ فکر کریں کہ یہ مسئلہ بھی  قسمت آزما ئی کے ٹکٹوں کے مانند ہے نہیں، آخرت دنیا کے سکے کے دوسری طرف ہے۔

ایک مسئلہ اور ہے جو خود انسان کا مسئلہ ہے، انسان پر اسلام کی نگاہ ، انسان کا اسلام میں محور قرار پانا، اس موضوع کواسلام میں بہت بڑی اہمیت حاصل ہے ، لیکن یہ بات واضح ہے کہ ایک اسلامی انسان اورانیسیویں صدی کےایک مغربی مادی انسان میں بہت بڑا فرق ہے دونوں کے درمیان کافی تفاوت ہے، یہ ایک قسم کا انسان ہے وہ دوسری قسم کا انسان ہے،؛ کلی طور پر ان دونوں انسانوں کی تعریف ایک جیسی نہیں ہے، لہذا انسان کے اسلام میں محور قرارپانے اور انسان کے مغربی مکاتب میں محور قرار پانے میں بہت بڑافرق ہے ، محور انسان ہے،ان تمام مسائل کے بارے میں ہم بحث کریں گے؛ عدل و انصاف کا مسئلہ، امن و سلامتی کا مسئلہ، فلاح و بہبود اور رفاہ کا مسئلہ  اور عبادت کا مسئلہ ، یہ تمام مسائل اس لئے ہیں تا کہ انسان سعادتمند بن جائے، یہاں پر سعادت کا مسئلہ اور عقبی وآخرت کا مسئلہ ایک فردی مسئلہ ہے؛ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان دوسروں کے حالت سے غافل رہے ، دوسروں کے لئے کام نہ کرے، نہیں، " من احياها فكأنّما احيا النّاس جميعا».(10) روایت میں ہے کہ امام (ع) سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا، تو امام (ع) نے فرمایا: اس کی سب سے بڑی تاویل یہ ہے کہ تم کسی کی ہدایت کرو، لہذا ہدایت سب کی ذمہ داری ہے لیکن وہ چیز جو اسلام میں سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنی نجات کا راستہ پیدا کرے۔ ہمیں اپنی نجات کی فکر کرنی چاہیے، ہماری نجات اس میں ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں اور وظائف پر عمل کریں ؛ اس وقت سماجی وظائف،عدل و انصاف کا قیام، حکومت حق کا قیام، ظلم کے ساتھ مقابلہ، فساد کے ساتھ مقابلہ، یہ تمام امور اسی نجات کا مقدمہ ہیں۔لہذا اصل یہ ہے کہ یہ تمام چیزيں مقدمہ ہیں، اسلامی معاشرہ و سماج بھی ایک مقدمہ ہے؛ عدل و انصاف بھی مقدمہ ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہے، " ليقوم النّاس بالقسط "(11) عدل و انصاف تمام انبیاء (ع) کا ہدف ہے، قطعی طور پر عدل و انصاف ہدف ہے،  لیکن یہ درمیانی ہدف ہے اور آخری اور انتہائی ہدف انسان کی نجات ، فلاح اور رستگاری ہے، اس امر پر توجہ مبذول کرنی چاہیے، انسان ایک ذمہ دار مخلوق ہے، انسان مختار اور الہی ہدایت کی مخاطب مخلوق ہے، " ألم نجعل له عينين و لسانا و شفتين و هديناه النّجدين" انسان ہدایت کو انتخاب کرسکتا ہے، انسان گمراہی کو انتخاب کرسکتا ہے، انسان متعہد اور ذمہ دار مخلوق ہے، انسان اپنے لئے ، اپنے اہل و عیال کے لئے اور سماج و معاشرے کے لئے ایک ذمہ دار موجود ہے اور عوامی حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں اہتمام یہ عوام کا حق ہے ایک ذمہ داری اور تکلیف بھی ہے؛ یعنی معاشرے اور سماج میں حکومت کی تشکیل کے لئے تمام لوگ ذمہ دار اور مسئول ہیں،یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جناب اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے؛ نہیں، ملک اور حکومت کی اصلاح اور فساد کا ہر انسان سے تعلق ہے؛ یعنی انسان اس کے مقابلے میں متعہد اور ذمہ دار ہے، یہ مسئلہ بھی اصلی مسائل میں شامل ہے اور اسلامی نقطہ نظر میں اس پر توجہ مبذول کرنی چاہیے اور اس نمونہ کی تدوین میں اس پر بھی توجہ رکھنی چاہیے۔

اس کے بعد کا مسئلہ حکومت کا مسئلہ ہے؛ اور حکومت کے بارے میں بھی اسلام کے خصوصی نظریات موجود ہیں۔ اسلام میں حکومتی امر میں فردی صلاح ، بہت اہم اور اساسی و بنیادی امر ہے ملک کے نظام کو چلانے اور اس کی مدیریت میں جو شخص بھی جس مقدار اور اندازے میں شریک ہونا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ  شخص اپنے اندر اس کام کو انجام دینے کی صلاحیت پیدا کرے یا اگر اسکے اندر صلاحیت ہے تو وہ اس کام کو قبول کرلے؛ اگر اس کے اندر صلاحیت نہیں اور اس نے بغیر صلاحیت کے کوئی کام اپنے دوش پر لے لیا تو اس نے ایک غیر شرعی کام انجام دیا ہے۔ نظام حکومت میں عدم اسراف، عدم علو اور عدم استئثارکا مسئلہ ایک اہم مسئلہ ہے، اللہ تعالی فرعون کے بارے میں فرماتا ہے: " کان عالیا من المسرفین " (13) یعنی فرعون کا گناہ یہ ہے: وہ خود کوعالی تصور کرتا ہےلہذا حاکم کے لئے علو اور استعلاء ایک منفی نقطہ ہے، نہ حاکم کو علو اور استعلاء کا حق ہے اور اگر وہ اہل استعلاء ہے تو اس کو منصب قبول کرنے کا حق نہیں ہے اور نہ ہی عوام کو حق ہے کہ وہ اس کو حاکم اور امام کے عنوان سے قبول کریں ۔ استئثار کا مطلب یہ ہے کہ تمام چیزوں کو اپنے لئے چاہنا، یہ کلمہ ایثار کے مقابلے میں ہے، ایثار کا مطلب یہ ہے کہ تمام چیزوں کو دوسروں کے فائدے میں  چاہنا اور اپنے سے جدا کرنا،استئثار کے معنی یہ ہیں کہ تمام چیزوں کو اپنے فائدے میں چاہنا ،دوسروں سے چھیننا اور الگ کرنا، لہذا علو، استعلاء اور استئثار حکومت کے منفی نقاط میں سے ہیں۔ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے بنی امیہ کے بارے میں نہج البلاغہ میں فرمایا:" يأخذون مال اللَّه دولا و عباد اللَّه خولا و دين اللَّه دخلا بينهم " یعنی حکومت کے لئے ان کی عدم صلاحیت کی دلیل یہ ہے کہ ان کے اندر حکومت چلانے کی صلاحیت نہیں ہے ان کی یہ خصوصیت ہے کہ " يأخذون مال اللَّه دولا " وہ بیت المال کو اپنے درمیان ہی بانٹ لیتے ہیں، جبکہ وہ عام لوگوں کا مال ہے، " و عباد اللَّه خولا" وہ لوگوں کو اپنا غلام سمجھتے ہیں اور غلام سمجھ کر انھیں نوکری اور ملازمت دیتے ہیں، " و دين اللَّه دخلا بينهم " اور دین خدا کو بھی جس طرح چاہتے ہیں اسی طرح اس سے استفادہ کرتے ہیں، لہذا حکومت کے بارے میں اسلام کی رائے اور نظریہ  ہے اور ہماری زندگی کے نمونہ میں اس کو بھی طویل مدت منصوبہ میں شامل کرنا چاہیے۔

ایک اور اہم و خصوصی مسئلہ ہے جو اقتصاد سے متعلق ہے اور جس کے بارے میں یہاں بعض حضرات نے اچھی بحث کی ہے " كى لا يكون دولة بين الأغنياء منكم" (14) یہ ایک اہم معیار ہے، عدالت کا مسئلہ بھی بہت مہم ہے اس نمونہ کا ایک اصلی رکن مسئلہ عدالت کو ہونا چاہیے، در حقیقت عدالت حکومتوں کے حق و باطل کا معیار ہے  یعنی اگر اسلام میں عدالت کا معیار موجود نہ ہو  تواس کی حقانیت اور مشروعیت پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔

ایک اور مسئلہ اقتصاد پر غیر مادی نگاہ کا مسئلہ ہے اقتصاد کے مسئلہ پر، دولت کے مسئلہ پر و ثروت کےمسئلہ پر مادی نگاہ،  آج دنیا میں بہت سے مشکلات کا اصلی منشاء اور سبب ہے۔عزیز دوستوں نے مغرب میں استعمار ، استثمار اور مالی بحران کے انحراف کے بارے میں جو مسائل بیان کئے ہیں اس کا سرچشمہ مال و دولت اور ثروت پر یہی مادی نگاہ ہے، اس مادی نگاہ کو درست اور صحیح کیا جاسکتا ہے، اسلام ثروت کی اہمیت کا قائل ہے،  اسلام مال و دولت  کو معتبر سمجھتا ہے، اسلام میں ثروت کی پیداوار اچھا اور مطلوب عمل ہے؛ البتہ اس مسئلہ پر الہی اور معنوی نگاہ ہونی چاہیے اور الہی اور معنوی نگاہ یہ ہےکہ اس دولت و ثروت سے تسلط پسندی کے لئے، فتنہ و فساد برپا کرنے کے لئے اور اسراف کرنےکے لئے استفادہ نہ کیا جائے؛ اس ثروت و دولت سے معاشرے کے فائدے کے لئے استفادہ کیا جائے اور دوسرے بہت سے مسائل کے لئے اس سے استفادہ کیا جائے۔

البتہ یہاں بہت سی بحثیں موجود ہیں، میں بحث کو طولانی نہیں کرنا چاہتا ہوں ؛ کیونکہ وقت کافی گزر جکا ہے اور ضروری بھی نہیں ہے کہ ہم اس جلسے میں سارے مسائل کو بیان کریں انشاء اللہ اگر زندگی رہی تو ان بحثوں کے لئے زیادہ وقت  مدنظر رکھیں گے۔

ہم نے عرض کیا کہ یہ قدم آغازراہ ہے یہ کام کی ابتدائی منزل ہے؛ یعنی ہمارا آج کا جلسہ اس کام کی شروعات ہے ؛ اور اس کو جاری رہنا چاہیے ، ممکن ہے پیشرفت کے اسلامی اور ایرانی نمونے کے لئے دس اور شاید دسیوں اجلاس اور سمیناروں کی ضرورت ہو، ممکن ہے دسیوں علمی حلقوں کی ضرورت پڑے جو مختلف یونیورسٹیوں میں تشکیل پائيں ، اور ممکن ہے کہ ہمارے سیکڑوں ماہرین ، دانشور اور ممتاز افراد جو انفرادی طور پر کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور جو اجتماعی اور گروہی کام پسند نہیں کرتے ہیں وہ اپنے گھروں میں اس کام کا مطالعہ کرنے کے لئے آمادہ ہوجائیں؛ اور ان سے استفادہ کرنا چاہیے، فکری حلقے تشکیل دینے چاہییں ، یونیورسٹیاں اور حوزات علمیہ ان مسائل میں وارد ہوں، تاکہ انشاء اللہ اس مسئلہ کو ہم اپنے مطلوب نقطہ اور پسندیدہ مرحلے تک پہنچا سکیں۔

البتہ جو رپورٹ جناب داؤدی نے پیش کی ہےوہ بہت ہی اچھی رپورٹ ہے ؛ جو مطالب انھوں نے بیان کئے ہیں میں بھی ان سے کم و بیش آگاہ ہوں؛ لیکن ان تفصیلات کے بارے میں ہمیں بھی زیادہ علم نہیں تھا، یہ معلومات بہت اچھی معلومات ہیں، ان میں آپس میں کوئی منافات نہیں ہے، یہ کا م ایک خاص اور محدود مجموعہ کا کام نہیں ہے؛ یہ کام ایسا کام ہے جس کو انجام دینے کے لئے ملک کے تمام ماہرین کو میدان میں آنا چاہیے ، اس کام کے لئے ملک کی تمام ظرفیتوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ یہ کام کوئی مختصر مدت کا کام نہیں ہے اور یہ ان پروجیکٹوں میں سے نہیں ہے جن سے جلدہی استفادہ کیا جاتا ہے؛ یہ کام طویل المدت کام ہے، اسے انجام دینا چاہیے، اس میں عجلت اور جلد بازی کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے، ہم پیشرفت کی جانب گامزن رہیں گے، یہ کوئی ایسا کام بھی نہیں ہے جس کے لئے حکومت یا پارلیمنٹ کی منظوری کی ضرورت ہو؛ جیسا کہ میں نےعرض کیا کہ یہ کام ملک کی تعمیر و ترقی کی ان دیگر اسناد کےمانند ہے یہ دستاویز اہم اور بلند و بالا ہے اس کے قوام و استحکام کے لئے کافی مراحل طے کرنے باقی ہیں اس کے لئے افکار کوپختہ اور مستحکم ہونا چاہیے تاکہ ایک اساسی اور بنیادی نقطہ تک پہنچ سکیں۔

اس کام کے لئے ایک مرکز کی بھی ضرورت ہے جہاں سے اس کام کا پیچھا کیا جائے؛ اس مرکز کو انشاء اللہ ہم تشکیل دیں گے، ایسی جگہ ہونی چاہیے جو اس کو اپنے انحصار اور قبضہ میں نہ لے،ہم اس مرکز سے یہ توقع نہیں رکھیں گے کہ وہ اس کام کو انجام دے؛ بلکہ اس سے ہمیں یہ توقع ہوگی کہ وہ ملک بھر کےممتاز ماہرین اور دانشوروں کی اس عظیم حرکت پر نگرانی رکھے اور ان کی خبر رکھے، ان کی مدد کرے، مختلف قسم کی پشتپناہی کرے؛ ایسا کام کریں تاکہ اس حرکت کا سلسلہ جاری رہے؛ البتہ ہم نے عرض کیا کہ اس کام کے لئے ایک مرکزی دفتر اور مرکزی ادارے کی بھی ضرورت ہے اور انشاء اللہ یہ مرکز تشکیل پائے گا، لہذا ہمارا کام آپ کے ساتھ آج کی رات میں تمام نہیں ہوگا،یعنی یہ مسئلہ ایسا مسئلہ نہیں ہے جو اسی جلسے میں شروع ہوا ہو اور اسی جلسے میں ختم ہوجائے؛ انشاء اللہ یہ کام جاری رہےگا۔

البتہ اس میں مختلف اور گوناگوں جماعتیں اور گروپ شریک ہونگےیعنی فراواں افراد ہیں، مختلف شخصیات ہیں، جیسا کہ ڈاکٹر واعظ زادہ نےسفارش اور درخواست کی ہے میں بھی درخواست کرتا ہوں کہ جو حضرات اپنے نظریات کو بیان کرنا چاہتے تھے وہ اپنے نظریات کو پیش کریں ، جو مطالب یہاں بیان کئے گئے ہیں ان میں بعض ایسے ہیں جن پر غور وفکر کی ضرورت ہے اور فکری حلقے تشکیل دینے کی ضرورت ہے، ان پر بحث و گفتگو کی ضرورت ہے۔ان کو غربال کرنے کی ضرورت ہے، اشکال کیا جائے ، اس کا دفاع کیا جائے اور طلبہ کی طرح ان قلت اور قلت اور بحث و مباحثہ انجام دینے کی ضرورت ہے، تاکہ انشاء اللہ ہم بہترین نتائج تک پہنچ سکیں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (1)  جناب آقای واعظ زادہ نے اس جلسہ میں  رہبر معظم انقلاب اسلامی  سے خطاب کرنے کی درخواست کی

 (2) بقره: 156
(3)
حشر: 24
(4)
فتح: 4
5)
)حشر: 24
6)
)زلزله: 7 و 8
7)
)عنكبوت: 64
(8)
ارشاد القلوب: ج 1، ص 89
(9)
توبه: 49
(10)
مائده: 32
11)
)حديد: 25
(12)
بلد: 8 - 10
13)
)دخان: 31
14)
)حشر: 7