ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا عید قربان کے دن اصفہان کےبعض عوامی طبقات سے خطاب

بسم‌اللَّه الرّحمن الرّحيم‌

سب سے پہلے میں آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کوخوش آمدید عرض کرتا ہوں، آپ طولانی سفر طے کرکے عید کے دن اور اس مبارک موقع پریہاں تشریف لائے ہیں آپ نے اپنے پاک و پاکیزہ احساسات و جذبات اور ایمان کی خوشبو سے حسینیہ کی فضا کو معطر کیا ہے، عید سعید الاضحی کے موقع پر آپ حاضرین ، اصفہان کے عوام ، پوری ایرانی قوم اور دنیا کے تمام مسلمانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ، یہ مناسبت بھی بہت ہی اہم اور بجا مناسبت ہے، آبان کی پچیسویں تاریخ اصفہانی عوام کے ایثار اور قربانی پیش کرنے کا مظہر ہے اس سال دونوں مناسبتیں یعنی عید قربان اور پچیس آبان ایک ہی وقت میں منائی جارہی ہیں۔

اگر عید الاضحی اور عید قربان میں جو حکمت موجود ہے اس پر توجہ کی جائےتو بہت سے راستے ہم پر کھل جائیں گے، عید الاضحی میں حق تعالی کے ایک برگزیدہ  نبی (ع) کے بارے میں  اللہ تعالی کی عظیم قدردانی پوشیدہ ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس دن ایثار کاشاندارمظاہرہ کیا، جان کی فداکاری اور ایثار کی قدر و قیمت بہت ہی بلند و بالا ہے، یہ ایثارعزیزوں کے ایثار کے موارد میں شامل ہے وہ اللہ تعالی کے راستے میں اپنے ایک عزيز کو قربان کرنے کے لئے آمادہ تھے ؛ اور وہ عزیز بھی جوان بیٹا تھا جو اللہ تعالی نے ایک طویل مدت اور طولانی انتظار کے بعد اور پیری و ضعیفی کی عمر میں انھیں عطا کیا تھا؛ " الحمد للَّه الّذى وهب لى على الكبر اسماعيل و اسحاق " (1( خدا وند متعال نے حضرت ابراہیم (ع) کوضعیفی اور پیری کے عالم میں طولانی اشتیاق و انتظار کے بعد فرزند عطا کیا تھا؛ ان کے بعد ان کو کسی دوسرے فرزند کی امید نہ تھی، سید الشہداء حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام  جو خود ایثار و شہادت کے مظہر ہیں دعائے عرفہ میں اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے فرماتےہیں؛ " و ممسك يدى ابراهيم عن ذبح ابنه بعد كبر سنّه و فناء عمره " یہ جملہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی دعائے عرفہ میں ہے گذشتہ روز مؤمنین نے اس دعا کو پڑھنے کی سعادت حاصل کی ہے۔

یہ ایثار اور یہ بخشش ان مؤمنین کے لئے ایک علامت ہے جو لوگ حقیقت کے راستے کو، جو بلندی کے راستے کو، جو اعلی مدارج کے راستے کو طے کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے بغیرفداکاری اور بخشش کے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے، تمام امتحانات جو ہم سے لئے جاتے ہیں ان کا سب کا اصلی و بنیادی نقطہ یہی ہے؛ یہاں ایثار اور بخشش کی بات ہے کبھی جان کی بخشش و فداکاری ہے، کبھی مال کی بخشش فداکاری ہے، کبھی کسی کے لئے سخن کی بخشش ہے اگر کوئی اپنی بات پر اصرار اور لجاجت کے ساتھ ڈٹا ہوا ہے تو اسے سخن کی فداکاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا؛ کبھی عزیزوں کی بحشش و فداکاری  ہے، فرزندوں اور  رشتہ داروں کی فداکاری و بخشش ہے، امتحان کا مرحلہ  یعنی سخت و دشوار وادی سے گزرنے کا مرحلہ ، ایک مشکل ، سخت اور دشوار کام کو ایک انسان یا ایک قوم کے سامنے رکھنے کو امتحان کہتے ہیں۔اس دشوار وادی سے عبور کرنے کو امتحان کہتے ہیں اگر کوئی اس  سخت و دشوار وادی سے عبور کرگیا تو وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے گا؛ لیکن اگر انسان اپنے اندر موجود صلاحیتوں سے استفادہ نہ کرسکا ، اپنی نفسانی خواہشات پرغلبہ پیدا نہ کرسکا اور دشوار وادی سے عبور نہ کرسکا تو وہ رہ جائے گا، امتحان یہ ہے الہی امتحان اس لئے نہیں ہے کہ خدا ہم کو پہچانے کہ ہم کتنے سنگین و وزنی اور کس حد و حدود میں ہیں؛ امتحان خود مقصد کی جانب ایک قدم ہے، ہمارا اور آپ کا جو امتحان ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم اس دشواراور سخت  وادی سے عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ہم ایک نئی حالت کو ، ایک نئی زندگی کو اور ایک نئے مرحلے کو حاصل کرلیں گے اور اس سلسلے میں فرد و قوم کے درمیان  کوئی فرق نہیں ہے۔

گذشتہ برس ایک اہم امتحان سے ایرانی قوم نے خوش اسلوبی کے ساتھ عبور کیا، ایک فتنہ سے عبور کیا، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب سبھی سمجھ گئے ہیں کہ ایرانی قوم بڑی شجاع ، دلیر اور قوی قوم  ہے؛ بلکہ اس کا سب سےاہم مطلب یہ ہے کہ  اس حرکت کے ذریعہ ، فتنہ سے گزرنے اور عبور کرنے کی قدرت کے ذریعہ ، قوم ایک نئی حالت اور نئے مرحلے میں پہنچ گئی ہے اس میں ایک نئی توانائی آگئی ہے، انسان کی پوری زندگی امتحان ہے انسان کے لئےقدم قدم پر امتحان ہے۔اگر ہم خواہشات نفسانی پر غلبہ حاصل کرلیں، اگر ہم اپنی بصیرت سے استفادہ کریں ، اگر ہم موقع و محل کو پہچان لیں، اور یہ جان لیں کہ ضروری اور اہم کام کیا ہے اور اس  کام کو انجام دیدیں ، تو یہ عمل ہمارے اندر زندگی و حیات کے ایک نئے مرحلے کو ایجاد کرےگا، یہ ایک تعالی و بلندی  ہے، یہ ایک پیشرفت و ترقی ہے، لہذا 25 آبان کا دن تاریخ ساز اور ممتاز دن ہے اصفہان کے عوام کے لئے اس دن کی بڑی اہمیت اور بڑی خصوصیت ہے۔

میں اصفہان کےعوام کی جد وجہد اور تلاش وکوشش کے بارے میں یہاں کچھ جملے پیش کرنا چاہتا ہوں؛ اصفہان کے مؤمن و مجاہد اور غیرتمند عوام کی یہ تمام چیزيں شناختی کارڈ کی حیثیت رکھتی ہیں اصفہان کے لوگوں نے ایک دن میں تین سو ستر شہیدوں کی تشییع جنازہ میں شرکت کی، اور ان کی پیشانی پر بل تک نہیں آیا؛ اور اسی دن بڑی تعداد میں لوگ محاذ پر بھی روانہ ہوگئے یہ لوگ پشتپناہی کے لئے محاذ پر روانہ ہوئے؛ یہ کام بہت ہی اہم کام تھا، جیسا کہ ابھی فرمایا(2) امام (رہ) نے اصفہانیوں کے اس جذبہ کی بہت قدر کی،  اصفہانی عوام نےسن 61 ہجری شمسی آبان کے مہینے میں ایک دن میں  370 شہیدوں کے جنازے کی تشییع کی اور اسی مہینے میں اصفہان کے شہیدوں کی تعداد ایک ہزار سے زائدتک پہنچ گئی، ایک مہینے میں ایک ہزار سے زائد شہید ! شہید کون ہوتا ہے؟ شہید وہ شخص ہوتا ہے جو میدان میں حاضرہوتا ہے، میدان میں خطرہ مول لیتا ہے شہید خطرےکے میدان میں پیشقدم ہوتاہے۔

اصفہانیوں کی انقلاب سے قبل مختلف حالات اور حوادث  میں شرکت نمایاں رہی ، انقلاب کے قضایا میں بھی ان کی شرکت اسی طرح نمایاں رہی، مسلط کردہ جنگ میں بھی ان کی سرگرمیاں عمدہ تھیں، اصفہان میں قائم فوجی یونٹوں نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا، چاہے وہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی سے متعلق ہوں یا فوج سے مربوط ہوں  لشکر امام حسین(ع) جس کامرکزاصفہان تھا، لشکر نجف ، جس کا مرکز نجف آباد تھا، قمر بنی ہاشم بریگیڈ ، اور فوج کی آٹھویں شکاری یونٹ جوبڑی سرگرمیوں اور فعالیتوں کا اہم مرکز تھا ، میں نے شکاری یونٹ کی سرگرمیوں کا قریب سے مشاہدہ کیا تھا ، شہید بابائي پر اللہ تعالی کی رحمت و مغفرت نازل ہوجنھوں نے اس سلسلے میں اہم اور نمایاں کام انجام دیا، اصفہان میں توپخانہ کا عظيم مرکز، ان تمام نقاط کے اہم نتائج برآمد ہوئے اس سےواضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ انقلاب کے بعد آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ اور آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے بعد ان میدانوں میں جو ملک کے لئے اہم اور حساس میدان رہے ہیں ان تمام میدانوں  میں اصفہانی عوام پیشگام اور پیشقدم رہے ہیں؛ ملک کی پیشرفت و ترقی میں ، ملک کے علمی مسائل میں ، مسلح افواج میں ہماری بعض  مشکل گرہیں اصفہان کے تحقیقاتی اور علمی مراکز میں باز ہوئیں، یہ مایہ ناز اور قابل فخر کارنامے ہیں ، یہ اپنے بارےغرورو تکبر نہیں ؛ بلکہ یہ حرکت اپنا تشخص  حاصل کرنے کے لئے ہے، اپنی اندرونی صلاحیتوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہیں، ان بنیادوں پر آگے کی سمت حرکت کرنے اور آگے کی جانب بڑھنے کی ضرورت ہے۔

آٹھ سالہ جنگ کے دوران سبھی جانتے ہیں اور بعض نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا کہ  اصفہانی عوام اپنی ان فوجی یونٹوں کے ہمراہ محاذ کے اگلے مورچوں پر سرگرم عمل رہتے تھے اور یہ امر سب پر واضح اور عیاں ہے وہ چیز جو بہت سے لوگوں پر واضح نہیں ہے وہ ان لوگوں کا کردار ہے جو بے نام و نشاں کام کرتے تھے جنھوں نے ان طویل برسوں میں سپاہ اسلام کوپشتپناہی  فراہم کی؛ وہ خواتین جو گھروں میں تھیں ، وہ افراد جو بازاروں میں اپنےکاروبار میں مشغول تھے، وہ لوگ جو مختلف اداروں میں مشغول تھے، وہ جہادی لوگ جو محاذ پر مختلف قسم کی خدمات بہم پہنچاتے تھے، انھوں نے شہید بھی پیش کئے ، وہ لوگ جو شہید ہوگئے یا جنھوں نے شہید پیش کئے، انھوں نے نہ کوئی دعوی پیش کیاہے اور نہ ہی ان کا کوئی دعوی ہے، ان کا نام بھی کسی جگہ نہیں ہے؛ لیکن وہ آسمانوں میں مشہور ہیں، وہ ملاء اعلی میں معروف اور شناختہ شدہ ہیں، اللہ تعالی کے حساب و کتاب میں چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی گم نہیں ہوتا ہے، اصفہان سے محاذ کی جانب مدد رسانی کے بڑے بڑے قافلے، یہ عظیم اور عالی ہمتیں، یہ گرانقدرجذبات ، ان شہیدوں کے اہل خانہ کا صبر و تحمل یہ تمام امور ہائق تحسین ہیں، شہیدوں نے سختی کا ایک لمحہ تحمل کیا اور پرواز کرگئے؛ انھیں تو کوئی غم و رنج نہیں ہے، " لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون " (3) مسئلہ ، اہل خانہ کا مسئلہ ہے ، ماں باپ اور والدین کا مسئلہ ہے، فرزندوں اور ہمسروں کا مسئلہ ہے ، بھائیوں اور بہنوں کا مسئلہ ہے ؛ انھوں نے صبر و تحمل کیا، انھوں نے فخر و مباہات کا مظاہرہ کیا، اصفہان میں ایسے خاندان بھی ہیں جنھوں نے تین شہید دیئے ہیں؛ ایسے خاندان ہیں جن کا ایک ہی بیٹا تھا انھوں نے وہی شہادت کے لئے بھیج دیا؛ یہ اپنے دور کے ابراہیم ہیں جو اپنی قوم کے تشخص کورقم کرتے ہیں ؛ جو ایک قوم کو عزت سے سرافراز کرتے ہیں۔

کوئی بھی قوم ہاتھ پر ہاتھ رکھنے، کھانے ، پینے ، سونے۔ ہوا و ہوس میں مبتلا رہنے اور اغیار پر اعتماد کرنے سے کسی مقام تک نہیں پہنچ سکتی ، جب دفاع مقدس کی بات ہوتی ہے تو بعض افراد منفی سوچ ظاہرکرتے ہیں؛ جب شہادت کی بات ہوتی ہے، تووہ لوگ طنز کرتے ہیں، جب جانبازوں اور فداکاروں کی بات آتی ہے تو ان لوگوں کے ماتھے پر سلوٹیں پڑ جاتی ہیں؛ جب علمی میدان میں پیشرفت و ترقی کی بات ہوتی ہے اور علمی حصار کو توڑنے کی بات ہوتی ہے تو وہ ہنستے اور مذاق اڑاتے ہیں؛ جب سنٹریفیوجز اور یورینیم افزودہ کرنے کی بحث ہوتی ہے تو سر ہلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ممکن نہیں ہے، اس قسم کے افراد ایک قوم کی حرکت کو سمجھنے سے قاصر ہیں، ان کی غلط تربیت ہوئی ہے طاغوتی فاسد نظام کے زیر نظر انھوں نے پرورش پائی ہے ان کو ایمان، جہاد اور ترقی و پیشرفت کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔

جب ایک قوم کا جہاد پر پختہ یقین اور عقیدہ ہوتا ہے تووہ ہر میدان میں آگے اور پیشقدم ہوتی ہے، جہاد صرف بندوق ہاتھ میں لینے کا نام نہیں ہے؛ جہاد یہ ہے کہ انسان ہر وقت اپنے آپ کو مجاہدت اور تلاش و کوشش کے میدان میں حاضر رکھے اور مشکلات و موانع کو برطرف کرنے کی جد وجہد کرے، ذمہ داری کا احساس کرے، اپنی ذمہ داری پر عمل کرے، اپنے عہد کا پاس و لحاظ کرے؛ اس کو جہاد کہتے ہیں؛ اسلامی جہاد یہ ہے؛ جہاد کبھی جان کے ‍ذریعہ ہے، جہاد کبھی مال کے ذریعہ ہے، جہاد کبھی فکر کے ذریعہ ہے، جہاد کبھی نعرہ لگانے کے ذریعہ ہے، جہاد کبھی مظاہرے کے ذریعہ ہے، جہاد                                         کبھی بیلٹ بکس میں ووٹ ڈالنے کے ذریعہ ہے، اس کو فی سبیل اللہ جہاد کہتے ہیں؛ یہ چیزيں ایک قوم کی پیشرفت و ترقی کا سبب ہوتی ہیں، یہ چيزيں طراوت و شادابی کا مظہر  ہوتی ہیں یہ چیزيں امید افزا ہوتی ہیں اور ایک قوم کی ترقی و پیشرفت کا سبب بنتی ہیں۔

اچھا، ایسی قوم کے ساتھ مقابلہ کیسے ممکن ہے؟ اسلامی انقلاب، اسلامی نظام اور اسلام کے خلاف جو محاذ دنیا میں قائم ہواہے، وہ ایک ایسی عظيم حرکت کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہتا ہے، وہ کیسے مقابلہ کرسکتا ہے؟ جنگ کے ذریعہ ممکن نہیں ، انھوں نے امتحان کیا ، انھوں نےدیکھ لیا کہ جنگ کے ذریعہ مقابلہ ممکن نہیں، جنگ کی دھمکی اور فوجی کارروائی کے ذریعہ ممکن نہیں ہے، اقتصادی پابندیوں کے ذریعہ مقابلہ ممکن نہیں ہے وہ لوگ جو یہ تصور کرتے ہیں کہ اقتصادی پابندیوں کے ذریعہ ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے وہ بیہودہ اور بے فائدہ کام کررہے ہیں، وہ قوم جس کے پاس امید ہے جس کے پاس ایمان ہے وہ جانتے ہیں وہ کیا کام کرتے ہیں، اس قوم کو دھمکی کے ذریعہ پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے۔

دشمن بھی ایرانی قوم کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے اپنی توجہ اسی نقطہ پر مرکز کئے ہوئے ہے جس کی طرف ابھی آپ نے اشارہ کیا(4) اور یہ امرآپ اصفہانیوں کی ہوشیاری اور ذہانت کا مظہر ہے۔ دشمن قوم کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی تلاش وکوشش میں ہے وہ قوم  کے ہر فرد کو ایکدوسرے کے خلاف اکسانے کی تلاش میں ہے، عوام اور حکام کے درمیان فاصلہ ایجاد کرنے اور بدگمانی پھیلانے کی کوشش میں ہے دشمن فرضی اور معمولی باتوں کے ذریعہ اختلاف ڈالنے کی سعی و کوشش میں ہے انقلاب کے خلاف اس کی دشمنی کا یہ اہم حربہ ہے دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں ہوشیار رہنا چاہیے۔

البتہ اصفہانی عوام نے اس سلسلے میں ہوشیاری کا مظاہرہ کیا ہے، اصفہانی عوام نے ماضی کے واقعات میں اچھی اور بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اصفہانیوں نے 1388 کے فتنہ میں ، 9 دی کے موقع پردرخشاں عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ سبھی کو چاہیے کہ وہ  حکومت کے بارے میں بدگمانی ، فتنہ اور اختلاف پھیلانے کے سلسلے میں ہوشیار رہیں۔

یہ لوگ جو دائیں بائیں ، ادھر ادھر بیٹھ کربغیر کسی علت و سبب کے اسلامی نظام اور جمہوری اسلامی کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں، جو ان کے ذہن میں آتا ہے وہ دشمن کی نیابت میں بیان کرتے ہیں؛ وہ یہ کام  اس لئے کرتے ہیں کہ اگر امریکہ کی بات، صہیونیوں کی بات اور اسلام مخالف محاذ کی بات کسی کے کان تک نہ پہنچی ہو تو وہ  اس بات کو پہنچا دیں، اور دشمن کی باتیں عوام تک پہنچا دیں،یہ لوگ قوم کے ساتھ خیانت کرتے ہیں؛ حقیقت میں یہ عمل  ایک آشکار اور واضح خیانت ہے،عوام کو ایکدوسرے کے خلاف اکسانا، عوام کو حکومت کے خلاف بدگماں بنانا، مایوسی کی فضا پیدا کرنا دشمن کے پروپیگنڈہ کا ایک راستہ ہے،

معاشرے میں غیر اخلاقی حرکات کو فروغ دینا دشمن کا دوسرا راستہ ہے، اس سلسلے میں سب کو بالخصوص جوانوں کو ہوشیاررہنا چاہیے۔ غیر اخلاقی اموراور اخلاقی انحطاط سے سامراجی طاقتیں اپنے اہداف کے لئےبھر پور استفادہ کرتی ہیںجیسا کہ دنیا کے بہت سے مراکز میں ایک قوم کو تباہ و برباد کرنے کے لئے  درآمد کو بہانہ بنا کراپنے سیاسی اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے منشیات کو بھی آلہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں، ہماری قوم، ہمارے جوانوں اورہمارے حکام کوان چیزوں کے بارے میں مکمل طور پر ہوشیار رہنا چاہیے۔

اصفہان میں بہت سی ممتاز ظرفیتیں موجود ہیں ، ماضی میں بھی ایسا ہی رہا ہے؛ ان ظرفیتوں کی قدر پہچانئے،اصفہان علم کا مرکز رہاہے اصفہان میں علم دین اور گوناگوں علوم کا سلسلہ ماضی میں بھی اسی طرح جاری رہا ہے؛ آج اصفہان میں ایک اچھا حوزہ علمیہ موجود ہے؛ آج ملک کی کئی معتبر یونیورسٹیاں بھی اصفہان میں موجود ہیں لیکن اصفہان کا علمی سابقہ اس سے کہیں زيادہ درخشاں ہے ضروری ہے کہ اصفہان کے علماء ، محققین اور ماہرین کی نگاہ گذشتہ صدیوں میں موجود بلند افق پر پہنچ جائے، ایک دور میں اصفہان پورے ملک اور  پورے عالم اسلام میں نورعلم کو فروغ دینے کا اہم مرکز تھا؛ ایک ایسا مقام بنانے کی تلاش و کوشش کیجئے، اصفہان کا مقام ہنر ، صنعت اور دستی صنعت  میں بھی ممتاز مقام ہے؛ ان میں سے ہر ایک امر ایک ممتاز اور روشن نقطہ ہے، اصفہانی عوام کا ایمان اور اعتقاد بھی ان تمام امور میں ان کا اصلی پشتپناہ ہے؛ یہ چیز انقلاب سے پہلے بھی اصفہانی عوام کی رفتار میں جلوہ گرتھی، البتہ انقلاب اسلامی کے بعد ہر لحاظ اور ہر اعتبار سے وسعت پیدا ہوگئی ہے، اس دور میں بھی میری رفت و آمد اصفہان میں کافی زيادہ ہوتی تھی؛ میں عوام کی دینداری کو دیکھتا تھا، دینی اصولوں پر ان کی پابندی کا مشاہدہ کرتا تھا البتہ آچ دس برابر بلکہ سو برابر اضافہ ہوا ہے؛ لیکن یہ ایک عظیم پشتپناہ ہے ان توسلات اور توجہات کی قدر و قیمت پہچاننی چاہیے؛ یہ تمام چیزيں دنیاوی اور اخروی ترقیات کی پشتپناہ ہیں۔

ایک قوم جب ایمان کی حامل ہوتی ہے تو اس کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کا کوئی کام ضائع نہیں ہوگا، برباد نہیں ہوگا بیکار نہیں جائے گا، ایمان کی برکت سے انسان کےتمام کام معنی پیدا کرتے ہیں؛ ایمان کی حفاظت کرنی چاہیے، آج ایرانی قوم نے اللہ تعالی  کی توفیق سے گوناگوں عداوتوں کو ناکام بنادیا ہے۔ دنیا میں اسلام مخالف محاذ کی دشمنی اسلامی جمہوریہ کے ساتھ ہے اسلامی جمہوری نظام اور اس قوم کے ایمان کا مسئلہ الہی اقدار سے وابستہ ہے؛ سامراجی طاقتوں کے رہنماؤں کو یہ گوارا نہیں ہے، یہ عداوتیں الہی اقدار پر پابندی کی وجہ سے ہیں، یہ اس مسئلہ کا ایک پہلو ہے۔

مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے ان بتیس سالوں میں ایرانی قوم نے جو ترقی و پیشرفت حاصل کی ہے وہ سب اللہ تعالی پر ایمان اور الہی اقدار پر اعتقاد کی بدولت ہے؛ الہی اقدار پر پابندی کو مزید استحکام کے ساتھ حفظ کیجئے، جان لیجئے کہ اللہ تعالی کی توفیق اور اس کی مدد و نصرت کے ساتھ یہ پیشرفت جاری رہےگی، دشمن کی تمام عداوتیں بھی ناکام ہوجائیں گي اور ایرانی قوم کو اس میدان میں کامیابی اور فتح و ظفرنصیب ہوگی۔

پروردگارا! اپنی رحمت، اپنا فضل و کرم، اپنی مدد و نصرت ایرانی قوم اور اصفہان کے عوام پر نازل فرما، امام زمانہ (عج) کے مقدس قلب کو ہم سے راضی و خوشنود فرما، اور حضرت ولی عصر (عج) کی دعا کو ہمارے شامل حال فرما۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

…………………………………………….

1)
) سوره ابراهيم؛ آیه 39
2)
) حجةالاسلام والمسلمين طباطبائى‌نژاد ( اصفہان میں ولی فقیہ کےنمايندے)

3)  ) سوره يونس؛ آیه 62
(4)
 حاضرین کےمردہ باد منافق کے نعرے کی طرف اشاره