ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرِ معظّم کا صوبۂ قم کے اعلیٰ حکاّم اور انتظامیہ سے خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

والحمد للہ ربّ العالمین والصلاۃ والسّلام علیٰ سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفیٰ محمّد وعلیٰ آلہ الأطیبین الأطھرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین ۔

السّلام علیکِ یا سیّدتی و مولاتی یا فاطمۃ یا بنت موسی بن جعفر ایّتھا المعصومۃ سلام اللہ علیکِ و علیٰ آبائک الطّیبین الطّاھرین المعصومین ۔

ایرانی قوم اور شہرِ قم  کے مخلص خدمت گزاروں سے آج کی اس شیریں ملاقات پر بہت زیادہ مسرور ہوں ، شہرِ قم کی ترقّی و تعمیر اوراس صوبہ کے عوام کی فلاح و بہبو د پر غور و فکر کرنے  کے لئے  مرکزی کابینہ کے اراکین کی قم تشریف آوری اور حضرتِ معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت سے مشرّف ہونے کے لئے ان کا مشکور ہوں ، میں تمام حاضرینِ جلسہ  کا خواہ وہ کسی بھی  شعبہ سے بھی تعلّق رکھتے ہوں  تہہ دل سے شکرگزار ہوں اور دعا گو ہوں کہ پروردِ گارِ عالم آپ کو توفیق عنایت فرمائے اور آپ سے راضی رہے تاکہ آپ اس مؤمن، پرجوش اور عزیز عوام کو حقیقی معنیٰ میں اپنے آپ سے راضی رکھ سکیں ۔

عوام کی خدمت کی توفیق کسی بھی شخص کے لئے ایک بہت بڑی توفیق ہے ، خدمتِ خلق کی  پروردگارِ عالم کی نگاہ میں بہت زیادہ  قیمت ہے اگر چہ یہ عمل بذاتِ خود ایک نیکی ہے ، لیکن جن لوگوں کی خدمت کی جارہی ہو اگر وہ جذبۂ ایمان، جہاد اور اعلیٰ اجتماعی اقدار جیسی ممتاز صفات سے مزیّن ہوں تو ایسے لوگوں کی خدمت کا اجر و ثواب کئی گنا زیادہ ہے ، اہلِ قم کی خدمت بالکل ایسی ہی خدمت ہے ، قم کے مؤمن عوام نے گذشتہ دہائیوں میں مختلف سنگین ذمّہ داریوں کے مقابلہ میں بہترین امتحان دیا ہے ، وہ ہر آزمائش کی گھڑی سے سربلندی  و سرفرازی کے ساتھ باہر نکلے ہیں ، ایسے عوام کی خدمت یقینا ایک بہت بڑی توفیق ہے ، محترم بھائیو اور بہنو آپ اسکی  قدر و قیمت پہچانیئے ۔

طاغوت کی حکمرانی کے دور میں شہرِ قم سے سوتیلاسلوک کیا گیا ، اس رویّہ کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ شہر معنوی اعتبار سے ایک ممتاز شہر ہے ، اس شہر کے تدیّن ، مذہبی علماء سے اس کے والہانہ لگاؤ اور اس شہر میں موجود حوزۂ علمیہ کی وجہ سے اس شہر کو غیظ و غضب کا نشانہ بنایا گیا ، رضا خان کے ظلم و بربریت کے خلاف سب سے پہلی صدائے احتجاج قم سے  اٹھی ، مرحوم آقائے نوراللہ اصفہانی نے رضا خان کی ڈکٹیٹر شب کا مقابلہ کرنے کے لئے شہرِ قم کو اپنی پناہ گاہ قرار دیا ، موصوف قم تشریف لائے اور ملک کے مختلف شہروں کے علماء یہاں جمع ہوئے ، ڈکٹیٹر پہلوی حکومت نے اپنی طاقت کے  زور پر اس تحریک کو نہایت بے رحمی سے کچل دیا ، مرحوم آقائے نور اللہ کو زہر دے کر شہید کردیا گیا ، اس کے بعد حضرت ِ معصومہ کے روضۂ اقدس کے اسی صحن میں ایک نہایت متّقی و پرہیز گار عالمِ دین نے حکومتِ وقت کی " کشفِ حجاب" پالیسی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور سب کو اپنی جانب متوجّہ کیا، رضاخان تہران سے یہاں آیا اور اس متّقی ، پرہیزگار، مجاہد اور معنوی عالم دین کی جوتوں اور لاتوں سے پٹائی کی ۔ شہرِقم  پہلوی حکومت سے مقابلہ کا ایک ایسا دیرینہ سابقہ رکھتا ہے ۔ شہنشاہی حکومت کی مخالفت کا سابقہ سنہ ۱۳۴۱ ھ، ش تک محدود نہیں ہے جب موجودہ انقلابی تحریک  کی داغ بیل ڈالی گئی بلکہ شہرِ قم نے اس تحریک کے آغاز سے کہیں پہلے سے اس ظالم و جابر حکومت کے خلاف بغاوت کا علم  بلند کر رکھاتھا ، یہی چیزیں اس بات کا باعث بنیں کہ طاغوتی حکومت شہرِ قم کے ساتھ معاندانہ رویّہ روا رکھے ، جس کی وجہ سے قم کی تعمیر و ترقّی کو نظر انداز کیا گیا ، قم کے لئے بجٹ فراہم نہیں کیا گیا ، قم میں وسائل کی کمی تھی ، قم کو ملک کے دیگر شہروں کے مقابلہ میں پسماندہ رکھا گیا ، طاغوت کے دورِ حکومت میں قم کے عوام کی بہت سی ضرورتوں سے چشم پوشی کی گئی ،  یہاں کے عوام کو محروم رکھا گیا، اس دور میں قم ایران کے دیگر شہروں کے مقابلہ میں بہت زیادہ پسماندہ تھا، قم کی پوزیشن یہ تھی ۔

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد شہرِ قم کی تعمیر و ترقّی پر خصوصی توجّہ مبذول کی گئی لیکن حق و انصاف کا تقاضا یہ ہے(جیسا کہ رپورٹ میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا گیا) کہ ہم اس بات کا اعتراف کریں کہ گذشتہ پانچ برسوں  میں شہرِ قم کی  تعمیر و ترقّی  میں  بہت تیزی آئی ہے ، وہ انتہائی برق رفتاری سےتعمیر و ترقّی کی شاہراہ پر گامزن ہے ، یہ ایک انتہائی غنیمت موقع ہے ، اس راستہ کو جاری رکھئے،موجودہ دور میں ملک کے اعلیٰ حکاّم میں شہرِ قم کے مسائل سے دلچسپی کا جو جذبہ کارفرما ہے اگر یہ جاری رہے تو یہ امیّد کی جاسکتی ہے کہ شہرِ قم کی ماضی کی بے شمار پسماندگیاں رفتہ رفتہ دور ہو جائیں گی ، یہ ہمارے ملک کے لئے ایک اہم چیز ہے ، شہرِ قم کی خدمت محض ایک شہر کی خدمت نہیں ہے بلکہ یہ پورے ملک اور اس کی عزّت و آبرو کی خدمت ہے ، چونکہ یہاں انقلاب کا مرکز ہے ، مذہبی علماء کا مرکز ہے ، دنیاکا سب سے بڑا حوزۂ علمیہ  اس شہر میں ہے ۔

یہ شہر ممتاز علمی اور مذہبی شخصیات کا مرکز ہے ، پوری دنیا کی نگاہیں اس شہر پر مرکوز ہیں ، آپ ملاحظہ کیجئے کہ ہمارے قیام کےان چند دنوں میں  شہرِ قم ، اس کے عوام اور مذہبی علماء پوری دنیا کی پروپیگنڈہ مشینری کی توجّہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں، یہ چیز اس شہر کی اہمیت  کی غمّاز ہے ، اس شہر کی مرکزیت کی آئینہ دار ہے ، لہٰذا اس شہر کی خدمت در حقیقت اسلامی جمہوریۂ  ایران کی عزّت و آبرو کی خدمت ہے ۔

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ہمارے دشمنوں کی پروپیگنڈہ مشینری کا ایک بہت بڑا منصوبہ یہ رہا ہے کہ وہ انقلاب اور اسلام کی علامتوں کو کمزور کریں ، ہر وہ چیز جو قومی سطح پر انقلاب اور اسلام کی علامت سمجھی جاتی ہے اس کو کمزور کریں ، مذہبی علماء کے اثرو رسوخ کو کمزور بنانا ، ان کا مذاق اڑانا اسی منصوبہ کی کڑی ہے ،  مختلف افراد کی طرف سے بہت سے اسلامی مسائل میں شکوک و شبہات پیدا کرنا، ان کی توہین کرنا انہیں کمزور بنانا اسی منصوبہ کا حصّہ ہے ، شہرِ قم کو کمزور کرنے ، اس کی اہمیت کو کم کرنے کی نوعیت بھی یہی ہے ۔

ہمارے دشمنوں نے قم کے لئے منصوبہ بندی کر رکھی ہے ، جیسا کہ میں نے کل بھی یہاں پر ایک جلسہ میں یہ کہا تھا کہ دشمن کے محاذکا یہ منصوبہ تھا کہ جس طریقہ سے قم اسلام کی عظمت اور انقلاب کے پرچم کی سرفرازی کا مرکز ہے بالکل اسی انداز سے قم کو انقلاب مخالف سرگرمیوں کا مرکز بنایا جائے ، اس پلید مقصد کے حصول کی خاطر انہوں نے سرتوڑ کوشش کی ، منصوبہ بندی کی ، مختلف حیلوں و حربوں سے استفادہ کیا ، منجملہ قم کے عوام کے افکار و جذبات  کو ختم کرنے ، ان کے رنگ کو پھیکا کرنے کی غرض سے ان کے افکار و جذبات کو منحرف کرنے کی کوشش کی گئی ، گذشتہ برسوں میں انہوں سے اس منصوبہ پر بہت کام کیا ہے ۔

اگرآپ یہ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ قم کے عوام نے ان کی اس معاندانہ کوشش کا اس باشکوہ اور پرجوش انداز میں جواب دیا ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ اس شہر کے عوام کی بیداری ہے ، یہ ان کے  دلوں میں ایمان کے رسوخ و نفوذ کی علامت ہے ، گذشتہ چند دنوں میں اہلِ قم کا جوش و ولولہ قابل دید تھا ، سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ دشمن نے اس سلسلہ میں اپنی طرف سے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا، وہ آج بھی قم پر نظر رکھے  ہوئے ہے ، ہمیں بھی کوئی ایسا کام کرنا چاہیے جس کے ذریعہ  دشمن کے تمام  پروپیگنڈے ناکارہ ہوجائیں ، اس کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اس شہر کے عوام کی خدمت کریں ان کی مدد کریں ،  اس شہر اور اس کے عوام کی حقیقی مشکلات و مسائل کا جائزہ لیں اور ان کے ازالہ کی بھرپور کوشش کریں  ، لہٰذا اس جلسہ میں موجود ملک کے اعلیٰ عہدیداروں کو میری سب سے اہم نصیحت بھی یہی ہے  کہ شہرِ قم کے عوام کی خدمت اور ان کی روزمرّہ زندگی کی مشکلات کے ازالہ کے لئے ہر ممکن کوشش کیجئے ۔

چونکہ حکومت کے وسائل محدود ہیں ، اس کے پاس نامحدود وسائل نہیں ہیں لہذا ترجیحات پر توجّہ دی جائے ، یہ ہمیشہ کا دستورالعمل ہے ، ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اولویت کہاں ہے کس چیز کو ترجیح حاصل ہے ؛ شہرِ قم کے مسائل انہیں ترجیحات کا حصّہ ہیں ، میری رائے یہ ہے کہ ہمیں قم کے اہم مسائل کی ایک دقیق فہرست مرتّب کرنی چاہیے  ،کابینہ کے وزیروں نے جن منصوبوں کوآج یہاں پرمنظوری دی ، اس کے علاوہ صدرجمہوریہ کے  اس شہر کے دوروں کے دوران جومنصوبے پاس کئے گئے ان پر بعینہ عمل درآمد ہونا چاہیے۔ملک کےحکّام ان منصوبوں کو نافذ کرنے اور انہیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اپنی تمام ترکاوشوں کو بروئے کار لائیں ۔ قم کے لئے پینے کے پانی کی فراہمی ایک بہت اہم اور حیاتی مسئلہ ہے ، الحمد للہ اس پرگذشتہ چند برسوں سے کام جاری ہے ،  کچھ مطلوبہ نتائج حاصل بھی ہوئے ہیں لیکن اس کوشش اور ہمّت کو جاری رہنا چاہیے تاکہ یہ گوارا پانی شہرِ قم تک پہنچ سکے اور یہاں کے عوام اس سے سیراب ہو سکیں ۔

صوبہ کے گورنر اور نائب ِ صدر جمہوریہ نے قم کے پسماندہ علاقوں کا تذکرہ کیا ، یہ مسئلہ بھی بہت اہم ہے ،  انہوں نے بعض علاقوں کا نام لیا اور بعض کا نام نہیں لیا ، قم میں کچھ ایسے پسماندہ  علاقے ہیں جہاں گنجان آبادی ہے ، وہاں کے لوگ انقلاب کے عاشق و مشتاق ہیں ، یہاں نیروگاہ کا نام لیا گیا ، اس علاقہ کے لوگ اپنی تمام تر پسماندگیوں کے باوجود انقلاب کی امنگوں اور اہداف کے سب سے زیادہ عاشق لوگوں میں سے ہیں ، ہمیں اس کی خبر ہے ، مقدّس دفاع کے دوران بھی یہی بات مشاہدہ میں آئی اور اس کے بعد آج تک وہاں کے عوام میں یہی جذبہ موجزن ہے ،  شہرِ قم میں "شاہ ابراہیم " اور اس جیسے دیگر پسماندہ و فقیر محلّے پائے جاتے ہیں ، ان محلّوں میں جدید سہولیات ، صحّت عامہ ، تعلیم اور دیگر بنیادی مسائل پر خصوصی توجّہ دی جائے، ان مسائل کے بارہ میں فی الفور اقدام کیا جائے تاکہ اس کے بعد معمول کے مطابق ان مسائل پر کام جاری رکھا جاسکے ۔

شہرِ قم کا ایک اہم مسئلہ صحّت ِ عامہ اور علاج معالجہ کا مسئلہ ہے ،  قم کے قیام کے دوران گذشتہ چند دنوں میں  مجھے سب  زیادہ تجاویز اس سلسلہ میں موصول ہوئی ہیں ، اس سلسلہ میں بعض اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا  ہے جن پر انشاء اللہ عمل درآمد ہوگا ، ہمیں اس مسئلہ پر خصوصی توجّہ دینا چاہیے ، میں نے سنا ہے علاج معالجہ کے شعبہ میں خواتین کے شعبہ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ، اس مسئلہ پر خصوصی توجّہ دی جائے ۔

شہرِ قم کی دستی مصنوعات کا مسئلہ بہت زیادہ حائزِ اہمیت ہے ، میں نے شہرِ قم کی اپنی پہلی تقریر میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا تھا ، ہمارے قم کے دور میں بلکہ اس سے بھی پہلے  اس  شہر کی  قالین بافی  کی صنعت بہت مشہور تھی ، ہمیں اس صنعت کو دوبارہ بحال کرنے میں ہر ممکن مدد کرنا چاہیے ، یہ اس شہر کا طرّۂ امتیاز تھا، یہ صنعت اس شہر کی ترقّی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے ، اس دور میں ہر جگہ اس شہر کےدستی قالینوں کا چرچا تھا، اس شہر کے مردو زن اس پر فخر کرتے  تھے ، یہ قالین " فرش نخ فرنگ" کے نام سے معروف تھے ، نہیں معلوم کہ آج بھی وہ اسی نام سے مشہور ہیں یا نہیں ، اہلِ قم کی اس صنعت اور دیگر صنعتوں پر خصوصی توجّہ دی جائے ، یہ چیز ان کی زندگی کو خوشحال بنانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے ۔

صوبہ کے گورنر نے صنعت کے مسئلہ کی طرف اشارہ کیا ، یہ بہت اچھی چیز ہے ، زراعت کے سلسلہ میں بھی ہم نے سنا ہے کہ یہ طے پایا ہے کہ قم کی زراعتی زمینوں کی آبیاری کے لئے تہران اور ورامین کی طرف سے ایک نہر یہاں تک  تیّا ر کی جائے ، یہ موجودہ حکومت کے منصوبہ کا حصّہ ہے جس کے بارہ میں پہلے سے فیصلہ لیا جاچکا ہے ، یہ بہت اچھا اقدام ہے ، بہت اہم کام ہے ، انشاء اللہ یہ کام ضرور انجام پائے گا  ، الحمد للہ  نویں اور دسویں صدارتی دورِحکومت میں بہت سے عظیم کام انجام پائے ہیں ، بہت سے اہم منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا گیا ہے ، گذشتہ حکومتوں کےمقابلہ میں کئی گنا زیادہ کام انجام پایا ہے لیکن ضرورتیں آج بھی باقی ہیں اگر چہ  ان میں کمی واقع ہوئی ہے ، ان ضرورتوں کو مکمّل طور پر برطرف کرنے کے لئے اس سے کہیں زیادہ محنت  لازم ہے ، یہ آپ کی ذمّہ داری ہے ۔

عوام اور ان سے رجوع کرنے والے افراد کے ساتھ مختلف سطح کے حکّام کا رویّہ بہت زیادہ اہم ہے ، ہنس مکھ انداز اور ہشاش بشاش چہرے سے ان کا استقبال کیجئے ، کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

چون وا نمی کنی گرھی خود گرہ مباش :  ابرو گشادہ باش چو دستت گشادہ نیست

(اگر آپ کوئی مشکل حل نہیں کرسکتے  تو  اپنے چہرے کو عبوس نہ بنائیے     اگر کوئی چیز آپ کے اختیار میں نہیں ہے تو کم سے کم کشادہ روئی سے پیش آؤ)

کبھی کبھی کسی عہدیدار سے جو امیّد لگائی جاتی ہے وہ اسے پورا کرنے پر قادر نہیں ہوتا ہے ، بجٹ یا وسائل کی کمی مانع ہوجاتی ہے ، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ، اگر عوام سے گشادہ روئی ، کھلی آغوش اور ہمدردانہ انداز میں پیش آیا جائے تو وہ ہم سے راضی ہوجاتے ہیں ، کبھی کبھی ہمارے تہران کے دفتر میں کچھ لوگ اپنی درخواستیں لےکر آتے ہیں ، ان میں سے کچھ درخواستیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو قابلِ عمل نہیں ہوتیں ، ہم اس کا بھی جواب دیتے ہیں ، ہم لکھتے ہیں کہ آپ کی درخواست ہم تک پہنچی لیکن ہم آپ  کی درخواست پر عمل نہیں کرسکتے چونکہ یہ درخواست ملکی آئین کے خلاف ہے یا اس سے فلان مشکل پیش آسکتی ہے ۔ درخواست دہندہ یہ کہتا ہے کہ میرے لئے اتنا ہی کافی کہ آپ نے میری درخواست کا مطالعہ کیا ، اس کی چھان بین کی ، میں اسی پر  راضی ہوں ، اگر چہ اس کا مطالبہ پورا نہیں ہوا لیکن وہ اس کے باجود بھی راضی ہے ، اگر ملک کے حکام عوام کے درد کو محسوس کریں ان کے دکھ درد میں شریک ہوں  توعوام کو اس سے خوشی ہوتی ہے ، البتّہ ملک کے حکّام اور عہدیداروں کوحتّی الوسع عوام کی مشکلات کے ازالہ کی کوشش کرنا چاہیے ۔ جیسا کہ ہم نے آپ سے عرض کیا کہ حکومت کے وسائل محدود ہیں ، یہ تصوّر سراسر غلط ہے کہ جو بھی کام ضروری ہیں حکومت ان کی انجام دہی کے سلسلہ میں بالکل آزاد ہے ،مختلف اعتبار سے بہت سی محدوددیتیں پائی جاتی ہیں ، لیکن ہم جس قدر بھی ان ضرورتوں کا ازالہ کرسکتے ہیں ہمیں اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے ، کشادہ روئی اور خندہ پیشانی سے انہیں انجام دیں ، عوام کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آئیں ، یہ وہ اہم کام ہے  جو ہماری ذمّہ داری ہے ، ہم تمام حکام پر اس کی ذمّہ داری عائد ہوتی ہے ۔

مختلف شعبوں سے تعلّق رکھنے والے حکّام خواہ وہ شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوں، یا انسانی وسائل ، صنعت ، زراعت ، ثقافت ، میڈیکل ،خفیہ اداروں ، ملک کی پولیس سے تعلّق رکھتے ہوں ، آپ یہ جان لیں کہ آپ جو خدمت کر رہے ہیں اس کا اجر وہ تنخواہ نہیں ہے جو متعلّقہ ادارے آپ کو دے رہے ہیں بلکہ اس کاحقیقی اجر خدا کے پاس ہے ، پروردگارِ عالم جو صلہ عطا کر تا ہے وہ انسانوں کے عطا کردہ صلہ و شکریہ سے کہیں زیادہ قیمتی ، بالاتر اور شیریں ہوتا ہے ، عین ممکن ہے کہ ہم کوئی ایسا عمل بجا لائیں جس پر لوگ ہمارا شکریہ ادا کریں ، یہ بھی ایک قسم کا صلہ و اجر ہے لیکن خدا کا صلہ اس سے بھی کہیں بالا ہے ، جب آپ کوئی خدمت انجام دیتے ہیں ، کوئی ہمدردی کرتے ہیں ، سرکاری وقت سے زیادہ اپنے دفتر میں بیٹھتے ہیں اور خدمتِ خلق انجام دیتے ہیں تو ممکن ہے کہ کوئی بھی اس کی طرف متوجّہ نہ ہو لیکن خدا بہرحال جانتا ہے ، ہم نےگذشتہ اکتیس ، بتّیس سال کے عرصہ میں بارہا اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کچھ افراد نے اپنی ڈیوٹی کے اوقات کے علاوہ انسانی ہمدردری کی بنیاد پر کوئی عمل انجام دیا ہو، کسی فائل کی چھان بین کی ہو  اور ان کے مافوق یا ماتحت کو اس کی خبر تک نہ ہوئی ہو، سرکاری وقت کے ختم ہونے کے بعد آدھا یا ایک گھنٹہ وہ اپنے دفتر میں موجود رہا ہو تاکہ کسی کام کو  پایۂ تکمیل تک پہنچا سکے ، کوئی بھی دوسرا شخص اس کے عمل کی جانب ملتفت نہیں ہوا ، کسی کو اس کے اس عمل کی خبر تک نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی نے اس کا شکریہ ادا کیا ، لیکن آپ یہ جان لیں کہ اس کا یہ عمل عنداللہ باقی ہے ، کوئی متوجّہ ہو یا نہ ہو لیکن  خدا کے فرشتے اسے  جانتے ہیں ، کرام الکاتبین اسے لکھ رہے ہیں جس دن تمام آنکھیں ، تمام دل پروردگارِ عالم کے لطف و کرم اور بخشش کے محتاج ہوں گے یہ اعمال آپ کی آنکھوں اور دلوں  کی ٹھنڈک کا باعث بنیں گے، یہ اعمال قیامت کے سخت و ہولناک دن سایہ کاکام کریں گے لہٰذا خدا کا اجروصلہ بہت بڑاہے ، اس صلہ کو پیشِ نظر رکھئیے ، آپ یہ جان لیجئیے کہ آپ جو بھی عمل انجام دیتے ہیں ، عوام کی جو بھی خدمت کرتے ہیں وہ خدا کے پاس مکتوب و محفوظ ہے، جب آپ اس جذبہ سے کام کرتے ہیں تو آپ کو تھکن کا احساس تک نہیں ہوتا ، کام کی وجہ سے ہم پر فرسودگی طاری نہیں ہوتی ؛ بالخصوص اگر ہمیں اس بات کا احساس ہو کہ ہمارے ملک کو کام کی سخت ضرورت ہے ، ہمیں تمام شعبوں میں برق رفتاری سے کام لینا چاہیے ۔

گذشتہ ایک ، ڈیڑھ صدی میں ہمیں جان بوجھ کر سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے رکھا گیا ہے ، صنعتی میدان کی کہانی بھی یہی ہے ، مختلف معاشرتی و اجتماعی شعبوں کا بھی یہی حال ہے ، اس دوران فاسد ، شہوت پرست ، ڈکٹیٹر بالخصوص انقلاب کی کامیابی کے قبل کے عشروں میں استعمار کی پٹھو اور اس سے مکمّل طور پر وابستہ حکومتوں نے اس ملک  کو کہیں کا نہیں چھوڑا،  ناصرالدّین شاہ اور فتحعلی شاہ کے دور میں ڈکٹیٹر شپ کا دور دورہ تھا لیکن وہ اغیار سے وابستہ نہیں تھے لیکن ایک زمانہ وہ بھی آیا جب اس ملک کی پوزیش یہ تھی کہ اس ملک میں مطلق العنانیت بھی تھی ، لوگوں پر قسم قسم کا دباؤ بھی تھا اور اغیار کی نوکری بھی تھی ۔ رضاخان جیسا ڈکٹیٹر جو کسی وحشی بھیڑئیے  کی طرح اپنے عوام پر حملہ آور ہوتا تھا لیکن اس نے  اپنے برطانوی آقاؤں کوان کے من چاہے امتیازات  دے رکھے تھے ، اس نے تیل کا معاہدہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور اسے بظاہر چولہے میں جلا دیا لیکن اس واقعہ کے کچھ ہی دن بعد اس نے اس سے بھی بدترین اورشرمناک قرارداد پر دستخط کئے جس کی رو سے تیس سال تک ایران کے تیل پر برطانیہ کی اجارہ داری قائم  ہوگئی، برطانیہ والے اس قرارداد کو لے کر یہاں سے اپنے وطن لوٹے! رضاخان کی حکومت کے اہلکار بے چون و چرا اس کے زرخریدغلام تھے، رضاخان کے جانے کے بعد جب اس دور کے وزیر خزانہ تقی زادہ سے یہ پوچھا گیا کہ تم نے اس قرارداد پر دستخط کیوں کئے تو اس نے جواب دیا کہ میری کوئی حیثیت نہیں تھی ، میں تو محض ایک آلۂ کار تھا اس کا اصل ذمّہ دار رضاخان خود تھا ۔وہ  رضاخان جو اپنے عوام سے اس قدر وحشی ، شرمناک اور غیرانسانی رویّہ روا رکھے ہوئے تھا وہی رضاخان برطانیہ کے سامنے  ذلیل و خوار تھا، برطانیہ نے ہی اسے اقتدار کی گدّی پر بٹھایا تھا ایک دور میں جب وہ ایک دوسرے قطب یعنی جرمنی سے ملحق ہونا چاہتا تھا تو اسے اقتدار سے محروم کر دیا گیا ، ایک ذلیل و خوار غلام کی مانند ایران سے باہر نکالا ، اسے یہاں سے لے گئے، اس کی جگہ اس کے بیٹے کو بٹھادیا۔

ہمارے ملک کے عوام نے سالہاسال اس طرح زندگی بسر کی ہے ، اس قوم نے سالہاسال مطلق العنان، ظالم و جابر حکومتوں کے سایہ میں زندگی گزاری ہے ۔صوبۂ مازندران ، خراسان  الغرض اس ملک میں جہاں  بھی کوئی زرخیز زمین تھی رضا خان نے اسے اپنے نام کر رکھا تھا ، انہوں نے بے حساب  ثروت و دولت جمع کر رکھی تھی ، ہیرے و جواہرات جمع کر رکھے تھے ، آخرکار قومی خزانہ کی اسی ثروت کو لے کر یہاں سے فرار ہونے  پر مجبور ہوئے ، آج بھی اس قوم کے اربوں ڈالر امریکہ میں موجود ہیں جنہیں ایرانی قوم کو واپس نہیں کیا گیا ، انقلاب کی کامیابی کے اوائل میں ہم نے امریکہ سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اس ثروت کو ایرانی قوم کو لوٹا دے جو پہلوی خاندان وہاں لے کر گیا ہے ، امریکہ نے ہماری بات نہیں سنی ، ہمیں پہلے سے معلوم تھا کہ وہ ہماری بات نہیں سنے گا چونکہ یہ سب ایک ہی جنس سے تعلّق رکھتے ہیں۔

انقلاب کی برکت سے اس قوم میں  اپنی نشاۃ ثانیہ کی سوچ پیدا ہوئی ، اس نے اس  راستہ کو طے کیا، بہت سے عظیم اور نمایاں کارنامے انجام دئیے ، لیکن آج بھی اس کے سامنے بہت سے عظیم کام باقی ہیں ، سائنس و ٹیکنالوجی ، ملک کے نظم و نسق ، مختلف اداروں کی تنظیم کے سلسلہ میں ہمارے سامنے ابھی بہت زیادہ مراحل باقی ہیں جنہیں  انجام دینا چاہیے ، میری آپ سے یہ گزارش و نصیحت ہے کہ آپ  اس قوم کے لئے جس قدر بھی کام کریں گے وہ کم ہے ۔

میں ایک بار پھر اس صوبہ کے گورنر اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کا شکریہ ادا کرتاہوں اور اپنے سفر کے پہلے دن جو بات کہی تھی ایک بار پھر اس کا اعادہ کرتا ہوں ، حکومت کے ادارے اس بات سے خبردار رہیں کہ اگر کسی مسئلہ میں ان  کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے تو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ اس کا دھواں عام لوگوں کی آنکھوں میں جائے ، اور اس سے عام لوگوں کی روزمرّہ زندگی متاثّر ہو ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ