ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا قم کے بسیجیوں اور رضاکار دستوں سے خطاب

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌
و الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين المعصومين سيّما بقيّةاللَّه فى الأرضين‌. السّلام عليك يا سيّدتى و يا مولاتى يا فاطمة المعصومة يا بنت موسى‌بن‌جعفر سلام اللَّه و سلام ملائكته و عباده المنتجبين عليك و على ابائك المطهّرين‌.

میں اپنےعزیز رضاکاروں اور بسیجیوں کے درمیان ہوں جن کے دل معرفت اور جوش و خروش اور جذبہ و ولولہ سے مملو ہیں اس مقدس مکان اور عظیم خاتون حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا بنت موسی بن جعفر کی پاک و پاکیزہ بارگاہ میں پختہ عزم و ارداوں کے ساتھ  آپ کاحضور،  اسلامی نظام کی عظمت و شان و شوکت، پیشرفت و ترقی کا حقیقی ملاک و معیار اور مظہر ہے۔

اگر ہمارے پاس زندہ رہنے کے لئے، فعال و متحرک رہنے کے لئے، با عزم و ارادہ رہنے کے لئے، با مقصد رہنے کے لئے اس نظام کی پیشرفت کے لئے کوئی اور دلیل نہ بھی ہوتی پھر بھی ملک بھر میں بسیج اور رضاکار فورس کے عنوان سےکئی ملین مؤمن ، صادق ، با بصیرت اور پرجوش جوانوں کی موجودگی یہ ثابت کرنے کے لئےکافی تھی کہ ایرانی عوام کی یہ عظیم حرکت دشمن کی سب سے خطرناک حرکتوں اور پیچیدہ سازشوں کے مقابلے میں مصون اور محفوظ ہے۔ البتہ یہ صرف ایک نعرہ نہیں ہے بلکہ استدلال پر مبنی ایک منطقی بات ہے۔

بسیج اور رضاکار فورس قدرت الہی کی آیات کا مظہر ہے   جسے اللہ تعالی نے اپنے صالح بندے اور اس عظیم شخص اور آئمہ معصومین (علیھم السلام ) کے بعد تاریخ کی اس بے مثال و بے نظیر شخصیت کو عطا کیا، بسیج و رضاکار فورس کی فکری سرگرمیاں عام ہیں ، حضرت امام (خمینی رہ) نے بسیج کا نقشہ پیش کیا ہے اور اس کو عملی جامہ پہنایا ، وہ اپنی تمام قوت و توانائی کے ساتھ  اس فکر پر قائم رہے، انھوں نےاس پودے کی آبیاری کی اور اس کو شجرہ طیبہ میں تبدیل کیا " تؤتى اكلها كلّ حين باذن ربّها " (1)  اس عظیم انسان ، اس  صالح اور نیک انسان اور اپنے دل میں خوف الہی رکنے والے انسان پر پروردگار متعال کا یہ عظيم الطاف تھا، حضرت امام (خمینی رہ) اللہ تعالی کی مدد و نصرت اور قدرت کی ان نشانیوں کو بابصیرت آنکھ سے مشاہدہ کررہے تھے ہمارا عیب یہ ہے کہ اگرہم کبھی الہی نصرت و مدد کو محسوس بھی کرتے ہیں لیکن اللہ تعالی کی اس مدد کو درست نہیں دیکھ پاتے ہیں؛ درست تشخیص نہیں دے سکتے ہیں کہ یہ کتنی بڑی اور عظیم مدد ہےجو اللہ تعالی ہم کو عطا کررہا ہے لیکن حضرت امام (رہ) اس چیز کو مشاہدہ کررہے تھے۔

ایک مسئلہ جسے میں نےمتعدد بار نقل اور بیان کیا ہے اور وہ یہ ہےکہ حضرت امام (رہ) نے تقریبا سن 1365 ہجری شمسی میں مجھ سے فرمایا کہ ہم انقلاب اسلامی کے آغاز سے لیکر آج تک دست قدرت کو سب جگہ مشاہدہ کررہے ہیں جو ہماری مدد کررہا ہے اور ہمیں آگے کی سمت لے جا رہا ہے وہ دست قدرت کو مشاہدہ کررہے تھے،ایرانی قوم پر حضرت امام (رہ) کی نگاہ اور دوسروں کی نگاہ میں فرق تھا، اگر ہم انھیں ایام میں  ایرانی قوم کے بارے میں بہت سے سیاسی و غیر سیاسی افراد، مذہبی و غیر مذہبی افراد اور علمی و  ممتاز شخصیات کے خیالات  و نظریات مشاہدہ کرنا چاہتے  تو ہم دیکھتے کہ ان کے نظریات عجیب و غریب نظریات تھے، بعض لوگ اس قوم کو با ایمان قوم نہیں سمجھتے تھے، بعض اس قوم کو سچی قوم نہیں سمجھتے تھے، بعض اس  قوم کی طاقت و قدرت اور وفاداری پر شک و شبہ ظاہر کرتے تھے، ہم ان باتوں کو سنتے تھے ، اور بہت سے لوگوں سے ہم نے ان باتوں کو سنا۔ لیکن حضرت امام (رہ) نے سن 1341 ہجری شمسی میں اسی شہر قم میں اس دور میں جب اس قسم کے عظیم اجتماعات کی کوئی خـبر بھی نہیں تھی، اسی قم کی مسجد اعظم میں حضرت امام (رہ)نے فرمایا اگر ہم عوام کو آواز دیں  تو قم کا صحرا عوام کی جمعیت سے مملو جائے گا ؛ عوام ہماری آواز پر لبیک کہیں گے؛ عوام کے بارے میں امام (رہ) کی نگاہ ایک ایسی نگاہ تھی؛ وہ عوام کو پہچانتے تھے،  وہ اکسیر یکتا جو سلور کو طلا میں تبدیل کرتا تھا، اس نے اس حقیقت کو عوام کے دل و جاں میں بھانپ لیا تھا، اور اس سے استفادہ کیا، لہذا انھوں نے عوام کے ذریعہ اس عظیم رکاوٹ کو دور کردیا اور انقلاب اسلامی کو کامیابی سے ہمکنار کردیا ، کوئی بھی تجزیہ نگار اس بات پر یقین نہیں کرتا تھا کہ یہاں کوئی ایسا واقعہ رونما ہوگا، حضرت امام (رہ) نے اللہ تعالی پر بھروسہ کیا،خدا کی ذات پر اعتماد اورتوکل کیا اور میدان عمل میں وارد ہوگئے، عوام کے دلوں سے رابطہ قائم کیا ، اور عوام بھی میدان میں حاضر ہوگئے، اور یہ عظیم حرکت معرض وجود میں آگئی؛ اس کے بعد حضرت امام (رہ) نے بسیج اور رضاکار فورس کا مسئلہ پیش کیا۔آپ اس طیب و طاہر درخت کے میٹھے اور شیریں میوے ہیں جسے حضرت امام (رہ) نے اپنے ہاتھ سے اس سر زمین میں لگایا، اور اس درخت کے ثمرات کا سلسلہ جاری رہےگا؛ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: " لم تر كيف ضرب اللَّه مثلا كلمة طيّبة كشجرة طيّبة اصلها ثابت و فرعها فى السّماء. تؤتى اكلها كلّ حين باذن ربّها" (2)  جب زمین زرخیز ، آمادہ اور تیار ہے ، بیج پاکیزہ ہے تو پیداوار بھی تمام ہونے والی نہیں ہے، یعنی کوئی بھی عامل اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ، بسیج ایک ایسا طیب و طاہر اور پاک و پاکیزہ درخت ہے۔

بسیج اور رضاکار فورس نے بہت زیادہ امتحانات بھی دیئے ہیں، مسلط کردہ جنگ کے دوران ، آپ سے پہلے جوانوں نے میدان جنگ بہت عظیم اور نمایاں کام انجام دیئے ہیں ہم نے  ان جوانوں کے اندر صلاحیتوں کے کھلتے ہوئے معطر اور خوشبودار پھولوں کو مشاہدہ کیا ہے۔ بائیس سالہ جوان، تیئیس سالہ جوان ایک ماہر اور تجربہ کارکمانڈر کی طرح لوگوں کو جمع کرتا تھا، ان کی رہنمائی کرتا تھا، ان کی ہدایت کرتا تھا، کسی ایک علاقہ میں ذمہ داری سنبھالتا تھا اور کامیاب ہوجاتا تھا؛ یہ کام کوئی معمولی کام نہیں تھا، جنگ کے دوران بسیج نے اپنا کردار اچھی طرح ادا کیا اور اس کا اعتراف فوج بھی کرتی ہے اور سپاہ بھی کرتی تھی کہ اس طولانی اور سخت و دشوار سرحد کے مختلف محاذوں پر بسیج نے اپنا فعال اور فیصلہ کن کردار ایفا کیا ۔

مسلط کردہ جنگ تمام ہوگئی، سطحی سوچ اور فکر رکھنے  والے لوگ یہ تصور اورخیال کرتے تھے کہ اب بسیج بھی ختم ہوگئی ہے؛ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ بسیج موجود ہے کیونکہ مجاہدت باقی ہے کیونکہ میدان مجاہدت کا سلسلہ جاری ہے جہاں مجاہدت ہے جہاں تلاش و کوشش ہے وہاں بسیج موجود ہے؛ علم کے میدان میں مجاہدت، سیاست کے میدان میں مجاہدت، سماجی سرگرمیوں کے میدان میں مجاہدت، بین الاقوامی وسیع و عریض میدان میں جد وجہد اورمجاہدت کا سلسلہ جاری ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہےگا۔

بسیج کے معنی و مفہوم ایمان و عمل کے متحد و یکساں ہونے کے ہیں ، مجاہدانہ عمل، صرف ذاتی عمل نہیں اسلام کی نظر میں وہ ایمان جو عمل سے عاری ہے وہ ایمان کا ادنی درجہ ہے۔

کامل ایمان اور حقیقی ایمان وہ ایمان ہے جو عمل کے میدان میں جہاد کے ہمراہ ہو " و الّذين امنوا و هاجروا و جاهدوا فى سبيل اللَّه و الّذين آووا و نصروا اولئك هم المؤمنون حقّا" (3) حقیقی مؤمن وہ ہے جس کا ایمان ،جہاد، نصرت اور ہجرت کے ہمراہ ہوتا ہے، بسیجی کا تشخص اس امر پر منحصر ہے کہ اس کا ایمان و عمل ایک اور متحد ہے، اگرہم ایمان کو جہاد اور عمل سے بالکل الگ تصور کریں اورقرب الہی کے لئے صرف جہاد و عمل سے خالی ایمان کو کافی سمجھیں، تو یہ بات بالکل غلط اور انحرافی ہے یہ آیت اور دیگر بہت سی آیات اس کو رد کرتی ہیں، بسیج اور رضاکار فورس اسی امر کے ہمراہ قائم ہےکہ اس کا ایمان اس کے عمل کے ہمراہ ہو اور عمل بھی مجاہدانہ عمل ہو لہذا جہاد کے مختلف میدان ہیں جو عرض کئے گئے ہیں۔

بسیج نے آج تک رشد و نمو اور خاطر خواہ ترقی حاصل کی ہے مختلف شعبوں میں بسیج نے وہی پیشرفت و ترقی حاصل کی ہے جس کی ہر ایک کو ان سے توقع اور انتظار تھی جو بسیج کو پہچاننے والے پہچانتے ہیں کہ بسیج میں کمیت کے لحاظ سے بھی ترقی ہوئی ہے اور کیفیت اور معنوی لحاظ سے بھی پیشرفت ہوئی ہے اور اس کے ساتھ بسیج نے دشمنوں کے مقابلے میں اور معاندین کے مقابلےمیں اپنی ذمہ داریوں کو بھر پور انداز میں پورا کیا ہے۔

وہ چیز جو ہم سب کے لئے، عزیز بسیجیوں کے لئے،  جوانوں کے لئےجو اس عظیم میدان کے ہر گوشہ میں جد و جہد میں مصروف عمل اور کاروبار میں مشغول ہیں،جو چیز ہم سب کے لئے اصلی معیار ہے وہ ان تین عناصر پر مشتمل ہے: بصیرت، اخلاص ، بروقت  ومقدار کے مطابق عمل ، ان تین عناصر کو ہمیشہ ایکدوسرے کےساتھ جمع کریں ، ہمیں ان تین عناصر کو اپنے لئے معیار اور ملاک قراردینا چاہیے، بصیرت، اخلاص ، بقدر ضرورت اور بروقت عمل یہ تین عناصر اہم ہیں۔

بصیرت وہ چیز ہےجو راستہ مشخص کرتی ہےمحترم اور ارجمند جنرل (4)نے یہاں بہت ہی عمدہ اوراچھی بات کہی ہے کہ بسیجیوں نے حالات کی پیچيدگی کے پیش نظر نیز حالات کی شناخت اور پہچان کے لئےاپنے ذہن، اپنی فکر اور اپنی شخصیت میں بھی نمایاں تبدیلی پیدا کی ہے اور وہ حالات سے اچھی طرح آگاہ ہیں ؛ سال 88  کے حوادث سے یہ حقیقت مزید روز روشن کی طرح واضح ہوگئی، ممکن تھا ان حوادث میں بہت سے لوگ غلطی اور اشتباہ کا ارتکاب کرتے، اور بہت سے لوگوں نے غلطی اور اشتباہ کا ارتکاب بھی کیا؛ اگر چہ اشتباہ کرنے والے افراد نے  تھوڑی  سی مدت کے اندر اپنے غلطی اور اشتباہ کی اصلاح کرلی ؛ لیکن بسیج کی عظیم حرکت نے  بصیرت کےاس معیار اور  بصیرت کے پرچم کی عمدہ طور پرحفاظت کی؛ بسیج نے ان حوادث میں اشتباہ نہیں کیا؛ جیسا کہ امیر المؤمنین (علیہ الصلاہ والسلام  ) نے ارشاد فرمایا تھا: «لا يعرف الحقّ بالرّجال»؛ افراد و اشخاص کے ذریعہ حق کو نہیں پہچانا جاسکتا ۔ ایک شخص محترم ہے اچھا ہے، قابل قبول ہے قابل احترام و قابل تکریم ہے؛ لیکن وہ حق کا معیار نہیں بن سکتا ہے کبھی اچھے لوگ بھی غلط راستہ اختیار کرلیتے ہیں، پیغمبر اسلام (ص) کے بعض اصحاب کی طرح غلط راستہ پر چل پڑتے ہیں، اشتباہ کرتے ہیں۔ حق کو پہچاننا چاہیے ،حق کو افراد کی پہچان کا معیار قراردینا چاہیے، اصلی راستہ کو پہچاننا چاہیے تا کہ ہم جان لیں کہ یہ شخص حق ہے یا باطل،جو شخص اس راستہ پر گامزن ہوگا وہ حق ہوگا، جو شخص حق کے راستہ پر گامزن نہیں ہوگا وہ باطل ہے، تو حق کو پہچاننا چاہیے بسیج کے پرچم اور بسیج کے زیر سایہ مؤمن جوانوں نے اس بصیرت کا عملی ثبوت فراہم کیاہے، انھوں نے ثابت کیا کہ وہ اہل بصیرت ہیں، بصیرت پہلا عنصر ہے، آئندہ بھی ایسا ہی ہونا چاہیےتجزیہ و تحلیل کی قدرت اور صلاحیت پیدا کرنی چاہیے،حق و باطل کے درمیان تشخیص کی قدرت پیدا کرنی چاہیے حضرت امام (رہ)  جو اس عظيم حرکت کے بانی، مؤسس اور باپ ہیں اس تنظیم اور معاشرے کے تمام افراد کی گردن پر ان کا عظیم حق ہے انھوں نے فرمایا اگر میں اسلام سے الگ ہوجاؤں تو لوگ مجھ سے منہ پھیر لیں گے ، اسلام معیار ہے؛ افراد اور اشخاص معیار نہیں ہیں؛یہ سخن حضرت امام (رضوان اللہ تعالی) کاہے یہ بات حضرت امام (رہ) کی ہے۔انھوں نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہم راستہ کو پہچانیں ، ہم راستہ کو تشخیص دیں، دشمن کے نقشہ اور اس کے شوم منصوبے کو پہچانیں تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ کونسا راستہ دشمن کی طرف جاتا ہے اور کونسا عمل دشمن کے حق میں مفید اور دشمن کی مرضی کے مطابق ہے اور کونسا کام دشمن کی مرضی و منشاء کے خلاف ہے، لہذا بصیرت ، پہلا عنصر ہے بصیرت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

دوسرا عنصر اخلاص ہے، فرمایا اگر کوئی شخص راہ خدا میں ذاتی اور شخصی تمنا لیکر جہاد کے میدان میں جائے، غنیمت حاصل کرنے کے لئے میدان جہاد میں جائے اور مارا جائے، یہ شخص راہ خدا میں شہید شمار نہیں ہوگا، کیونکہ شہادت کی شرط اور فی سبیل اللہ مجاہد ہونے کی شرط یہ ہے کہ اس کی حرکت فی سبیل اللہ ہو، اس کی رفتار خالص ہو، اس کی حرکت خدا کے لئے ہو یعنی اس کی حرکت میں اخلاص پایا جاتا ہو،اگر ہماری حرکت میں ذاتی خواہشات، شخصی جذبات ، گروہی عزائم ،خاندانی احساسات کا شائبہ موجود ہو، تو یہ اخلاص نہیں ہے اس سے اخلاص میں نقص پیدا ہوجائے گا ذاتی خواہشات سے اخلاص میں مشکل پڑجائے گي اور اخلاص کی عدم موجودگی کہیں نہ کہیں ظاہر ہوجائے گی۔

تیسرا عنصر بر وقت اقدام اور بموقع عمل کا ہے ہمیں لمحات کو پہچاننا چاہیے چنانچہ انسان اگر  وقت شناس نہیں ہوگا، اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ کس کام کو کونسی جگہ اور کون سے موقع پر انجام دینا چاہیے تو ممکن ہے انسان سے بہت بڑی خطائیں سرزد ہوں، بہت خوب ، ہمارے جوان بسیجی بچے اور بچیاں مختلف  شعبوں میں تلاش و کوشش میں مصروف اور مشغول ہیں؛ فکری تلاش، علمی تلاش، سیاسی تلاش، سماجی تلاش ، یہ تمام کوششیں جب خدا کے لئے اور اپنی ذمہ داری پورا کرنےکے لئے ہوں ، تو اس وقت مجاہدت اور جہاد فی سبیل اللہ شمار ہونگی۔ بسیجی وہ شخص ہے جو ان امور کو انجام دیتا ہے اور ان تمام امور میں اپنے صحیح اور روشن راہ و روش کو مد نظر رکھتا ہے؛ یعنی انقلاب کی راہ و روش، اسلامی نظام کا راستہ، دین اسلام کی حیات کا راستہ، اگر ہم ان تین عناصر کو فراہم کرنا چاہیں تو ہمیں اپنے اندرونی حالات اور کیفیات سے مجاہدت کرنی چاہیے؛ یعنی ہمیں جہاد اکبر کرنا چاہیے جہاد بالنفس ایسا جہاد ہے جس کی آج ہم سب کو ضرورت ہے۔

حالات کو صحیح اور درست سمجھنے کے لئے جو چیز ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہم یہ مشاہدہ کریں کہ دشمن کون سی روش اور کونسا طریقہ کا اختیار کئے ہوئے ہے، آج دشمن کی تلاش و کوشش کے اصلی خطوط جو نرم جنگ کے اہم عناصر میں شمار ہوتے ہیں یہ ہیں کہ دشمن آج حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی تلاش و کوشش میں ہے، مختلف حوادث  و واقعات کو دگرگوں بنا کر پیش کرنے کی کوشش میں ہے دشمن اس سلسلے میں جو پروپیگنڈہ کررہا ہے یہ اس کی کمزوری کی علامت ہے دشمن حقائق کے سامنے جب مشکل سے دوچار ہوتا ہے شکست کا سامنا کرتا ہے تو اپنے پروپیگنڈہ میں اضافہ کردیتا ہے اگر آج تبلیغات اور پروپیگنڈے کے میدان میں کوئی دشمن کی کوششوں کو ملاحظہ کرے؛ تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ دشمن انٹرنیٹ  سے لیکر صوتی ، تصویری اور دیگرتمام ذرائع ابلاغ سے استفادہ کررہا ہےملک کے اندر بھی بعض عناصر موجود ہیں جو حقائق کو دگرگوں بنا کر پیش کرنے کی تلاش کررہے ہیں ملک کی صورتحال کو مایوس کن، پسماندہ ،ناامید، زوال پذیر ، ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں  لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی کوششیں خود دشمن کی کمزوری کا مظہر ہیں۔

دشمن نے گذشتہ تیس برسوں کے دوران اپنی پوری تلاش و کوشش جاری رکھی ہے البتہ آج اس کی تلاش کچھ زیادہ ہے چونکہ آج حکومت اور جو حکام برسراقتدار ہیں ان کے نعرے سنجیدہ اور انقلاب کے پررنگ نعرے ہیں؛ آج امام  (رہ) کا راستہ ، انقلاب کا راستہ اور عوام کی خدمت کا راستہ پررنگ اور  مکمل طور پر نمایاں اور ممتاز ہے؛ حکام احساس کرتے ہیں کہ وہ عوام کے ساتھ ہیں اورعوامی رنگ میں رنگے ہوئےہیں اس چیز کو عوام بھی محسوس کرتے ہیں، آج دشمن کا پروپیگنڈہ بہت زيادہ ہے  اگر آپ دشمن کی تبلیغات اور پروپیگنڈہ کا مشاہدہ کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ اگر وہ ہمارےملک کے اقتصادی مسائل کے بارے میں اظہار نظر کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ اقتصادی طور پر ایران کی پیشرفت بالکل رک گئی ہے اور ایران کو اقتصادی لحاظ سے بڑے مشکل مسائل کا سامنا ہے ، ایران کو بڑی دشواریوں کا سامنا ہے ، کل ایسا ہوگا ،پرسوں ویسا ہوگا، ایک گروپ دشمن کے ان پروپیگنڈوں پر یقین بھی کرتا ہے اور ملک کے اندر دشمن کی ان باتوں کو دہراتا بھی ہے، انتخابات اور فتنہ انگیز واقعات سے قبل ، بعض وہ لوگ جنھوں نے بعد میں فتنہ میں اپنا امتحان دیا،  ہمارے پاس آتے تھے اور کہتے تھے آقا آئندہ سال بڑا سخت ،مشکل اور دشوار سال ہے یعنی وہی سال 88 ، اقتصادی لحاظ  سے بڑا سخت  سال ہے ایسا اور  ویسا سال ہے، ملکی فضا کو تنگ و تاریک اور مشکل و ناقابل حل بنا کر پیش کرتے تھے، وہ ایک طرف حکام میں مایوسی پیدا کرتے تھے اور دوسری طرف عوام میں نا امیدی پھیلاتے ہیں ان کے یہ پروپیگنڈے اور تبلیغات اس بات کا مظہر ہیں کہ وہ ایرانی حکام اور عوام کی عظیم اور برق رفتار حرکت کو دیکھ کر عاجز رہ گئے ہیں، لہذا اگر دشمن کی اس سازش اور اس جہت کو دیکھ لیا جائے تو اس وقت حقائق پر انسان کی نگاہ حقیقی ، نافذ العمل اور صحیح نگاہ ہوگی۔

خارجہ پالیسی میں اور بین الاقوامی پالیسی میں بھی یہی حال ہے آپ نے اپنی بعض انہی نشریات اور مطبوعات میں ملاحظہ کیا ؛گذشتہ سال بعض فتنہ پرور اصحاب کے اظہارات میں بھی آپ نے مشاہدہ کیا؛ وہ بار بار تکرار کرتے تھے کہ جناب ہم دنیا میں ذلیل و رسوا ہوگئے ، اسلامی جمہوریہ ایران کی آبرو دنیا میں لٹ گئی ، ایران کی قدر و قیمت ختم ہوگئی، جناب کیا ہوا ، بھائی کیا ہوا؟ آج جب ہم حقائق کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ، عالمی اقوام کے درمیان ،مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان ایرانی قوم کی عزت و عظمت میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں، ایرانی قوم کے دشمن اس بات کو خوب سمجھتے ہیں، وہ محسوس کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ اس بات کو چھپاتے اور کتمان بھی کرتے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے حالیہ دورہ لبنان کو ہر گزکم نہیں سمجھنا چاہیے یہ ایک اہم دورہ تھا،ہر ملک کے لئے بالخصوص اگر سامراجی طاقتوں کے سربراہوں میں سے کسی کے لئے یہ عظیم استقبال ہوتا تو وہ وسیع پیمانے پر تبلیغات و پروپیگنڈہ کرتے اور  اس کو بہت بڑی سیاسی فتح قراردیتے، ایک ایسی قوم جو ہماری ہمسایہ نہیں ہے، جہاں سبھی مسلمان بھی نہیں ہیں، وہاں کے باشندوں میں مسلمان اور عیسائی دونوں قومیں ہیں، مسلمانوں کی آبادی میں بھی شیعہ اور سنی دونوں ہیں لبنان میں مختلف قومیں اور مذاہب موجود ہیں لیکن اس کے باوجود انھوں نےمتحد ہوکر اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کا والہانہ استقبال کیا ایران کے صدر کے ساتھ محبت و الفت کا اظہار کیا؛ یہ بےمثال چیز ہے ، یہ بے نظیر امر ہے؛دنیا کے کسی دوسرے ملک کے لئے ایسا واقعہ رونما نہیں ہوتاہے، جب ایک ملک کا صدر دوسرے ملک کا دورہ کرتا ہے تو کیا اس کا ایسا والہانہ استقبال ہوتا ہے؟ کیا عوام کسی دوسرے ملک کے صدر کے لئے ایسے تاریخی جلوے پیش کرتے ہیں،؟ اور یہ بات لبنان تک ہی محدود اور مخصوص نہیں، اگر آج ہمارے ملک کے اعلی حکام مصر بھی جائیں اور وہاں کے عوام کو اجازت دی جائے تو وہ بھی محبت و الفت کےاسی قسم کے جلوے  پیش کریں گے، ایران کے اعلی حکام اگر سوڈان کابھی دورہ کریں اور وہاں کے عوام کو اجازت دی جائے تو وہ بھی لبنانی عوام جیسااستقبال کریں گے؛  ایرانی حکام کسی بھی اسلامی ملک میں چلے جائیں اور وہاں کے عوام کو چھوٹ دی جائے تو وہ ایرانی حکام کا شاندار انداز میں استقبال کریں گے، یہ امر ایرانی قوم کی عزت و عظمت اور شان و شوکت کا مظہر ہے۔ یہ فضیلت آپ کی بدولت نصیب ہوئی ہے یہ افتخار آپ کے لئے فخر کا باعث ہے۔ اگر ایسی حکومت ہوتی جس کا عوام سے کوئي رابطہ نہ ہوتا، اگر ایسی حکومت ہوتی کہ جس کی حمایت اور جس کی پشت پر جوش و جذبہ سے سرشار کئي ملین جوان نہ ہوتے ، تو اس کے لئے ایسا واقعہ رونما نہیں ہوسکتا تھا؛ یہ عظمت آپ ایرانی جوانوں سے متعلق ہے، لیکن آپ کو دشمن کے پروپیگنڈہ کو پہچاننا چاہیے، دشمن کی تبلیغات اس کے بالکل مد مقابل ہیں، جہاں وہ اظہار اور بیان دینے پر مجبور ہوتے ہیں وہاں وہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش رکتے ہیں حقائق کی الٹی تفسیر پیش کرتے ہیں ؛ اور جہاں مجبور نہ ہوں وہاں وہ اصل حقیقت کو چھپاتے اور مخفی رکھتے ہیں۔

بالکل یہی صورتحال بسیج کے بارے میں بھی صادق آتی ہے ایک دور میں دشمن کی گوناگوں اور مختلف تبلیغات و پروپیگنڈوں کا نشانہ بسیجی تھے اور آج بھی کم و بیش وہ اپنی اسی روش پر گامزن ہے، جو کچھ ان کے بس میں تھا وہ انھوں نے کہا، انھوں نےبسیج کے خلاف زوردار پروپیگنڈہ کیا تاکہ اس کو عوام کی نظروں سے گرادیں ، لیکن وہ اس سازش میں کامیاب نہیں ہوسکے،" يحقّ اللَّه الحقّ بكلماته".(5)  خداوند متعال اس روشن اور واضح حقیقت کو چھپانے کی اجازت نہیں دیتا؛ لہذا ہمارے ملک میں  بسیج کی عزت و عظمت میں روزبروز اضافہ ہوا پورے ملک میں جوان مختلف شعبوں میں بسیج کو ایک عظيم درخشندہ و تابناک حقیقت اور پختہ عزم و ارادہ کے مظہر سمجھتے ہیں؛ آپ بسیجی اس  امر کو مزید مضبوط اور قوی بنائیں؛ اور جو تین عناصر بیان کئے ہیں ان کی تقویت لازمی ہے بصیرت کا عنصر، اخلاص کا عنصر اور بروقت و بقدر ضرورت عمل کی تقویت کریں، عمل میں افراط و تفریط نہیں ہونا چاہیے اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ افراط کا بھی اتنا ہی نقصان ہے جتنا تفریط کا ہے، عمل کو انجام نہ دینا بھی یقینی طور پرباعث نقصان ہے لیکن افراط پر مبنی عمل بھی اسی مقدار میں مضر اور نقصاندہ ہے، ہوشیار ر ہنا چاہیے، انقلابی جوش و ولولہ اور جذبہ میں کمی نہیں آنی چاہیے ہمارے اور آپ کے دلوں میں انقلابی جذبہ میں روز بروز اضافہ ہونا چاہیے، مشکلات کےمختلف قسم کے پہاڑ جو مستضعفین کے راستہ میں موجود ہیں ان کو مؤمن کے پختہ اور فولادی عزم و ارادہ کے بغیر راستہ سے ہٹایا نہیں جاسکے گا،مقصد صرف  ملک کی صورتحال کو ہی بہتر اور عمدہ بنانا نہیں ہے بلکہ اس وقت عالم اسلام ، اور انسانی معاشرے کو اسلام اور امت اسلامی کی طرف سے مدد کی ضرورت ہے۔

راستہ میں  بہت سی مشکلات در پیش ہیں ان کو حل کرنے کے لئے پختہ عزم و ارادہ کی ضرورت ہے، مستقبل پر نگاہ لازمی ہے اس عزم و ارادہ کو باقی رہنا چاہیے،اس انقلابی جوش و جذبہ میں ہر روز اضافہ کرنا چاہیے، اللہ تعالی کی ذات پر توجہ ، توکل، اولیاء خدا کے ساتھ تمسک قائم رہنا چاہیے، عبادت و بندگی کا راستہ، خصوع و خشوع کا راستہ  اور غور و فکر کا راستہ ہمارے لئے ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے؛ ہمیں اپنے آپ کو اس راستہ پر اچھی طرح مضبوط اور مستحکم بنانا چاہیے، یہ انقلابی ولولہ باقی رہنا چاہیے، ہمیں ہوشیار اور آگاہ رہنا چاہیے اور یہ انقلابی جوش و جذبہ یہ گرانقدر اور قیمتی سرمایہ اپنے مقام پر استعمال ہونا چاہیے، غلط راستہ پر اس کا مصرف نہیں ہونا چاہیے اور اس کے لئے غور و فکر و تدبر اور بصیرت کی ضرورت ہے۔

آپ یقین رکھیے کہ ایرانی قوم اورامت اسلامی کا مستقبل آج سے کہیں زيادہ بہتر اور تابناک ہے،وہی فاصلہ جو ایرانی قوم کے درمیان آج اور گذشتہ تیس برس کے درمیان ہے یعنی انقلاب کے آغاز سے لیکر آج تک آپ ملاحظہ فرمائيں کہ ایرانی قوم نے سیاسی ، سائنس و ٹیکنالوجی اور سماجی اور دیگر تمام میدانوں کتنی عظيم پیشرفت حاصل کی ہے اور آپ جان لیں کہ آئندہ برسوں میں اس پیشرفت میں مزید اضافہ ہوگا،  قوم روزبروز ترقی اور پیشرفت کی شاہراہ پر  گامزن رہےگی، ایرانی قوم کی پیشرفت کا سلسلہ تمام  شعبوں میں جاری رہےگا اور اس کے رکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے  اور انشاء اللہ قوم صحیح راستے ، صراط مستقیم ، قرآنی ، الہی اور اسلامی راستے پر رواں دواں رہےگی، ایرانی قوم کا مستقبل روشن و تابناک ہے اور عالم اسلام اور امت اسلامی پر اس کا ضرور اثر پڑےگا، اورانشاء اللہ مسلمان قوموں میں دن بدن ، روزبروز بیداری کا موجب بنےگا۔

امید ہے کہ خداوند متعال حضرت ولی عصر(ارواحنا فداہ) کے ظہور کو نزدیک فرمائے، ہمیں امام زمانہ (عج) کی غیبت اور ان کے حضور میں ان کے دوستداروں اور ساتھیوں میں قراردے، اور ان کے قلب مقدس کو ہم سے راضی و خوشنود فرمائے، پروردگارا! ولی عصر (عج) کی دعا کو ایرانی قوم بالخصوص اس اجتماع میں موجود بسیجیوں کے شامل حال فرما۔

 

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

…………………………

1)
)ابراهيم: 25
(2)
ابراهيم: 24 و 25
3)
) انفال: 74
( 4)
 سردار جبارى (فرمانده سپاه على‌بن‌ابى‌طالب قم)
(5)
 يونس: 82