ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرمعظّم انقلاب اسلامی کا حج ادارے کے اہلکاروں سے خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

ہم انتہائی خضوع و خشوع سے پروردگارِ عالم کی بارگاہ میں دست بدعا ہیں کہ وہ اس عظیم کام اور مایہ ناز فریضہ کے ذمّہ داروں،   عام  مسلمانوں بالخصوص حج کمیٹی کے منتظمین کو اپنے ان فرائض و ذمّہ داریوں کو خوش اسلوبی سے  بجا لانے کی توفیق عنایت فرمائے جو  اس عظیم واجب نے ان پر عائد کی ہیں ، سب سے اہم بات یہ ہے  کہ ہر شخص، ہر عہدیدار، ہرحاجی اپنے آپ کو عالمِ اسلام اور امّتِ مسلمہ کی  اس عظیم اجتماعی عبادت کے تئیں جواب دہ سمجھے، اگر امّت ِ مسلمہ کی یہ عظیم متّحدہ عبادت ،عیب ،نقص و خامی سے عاری ہو ، اپنے اہداف و مقاصد کے اعتبار سے کامل و سالم طریقہ سے انجام پائے تونہ فقط تمام عالمِ اسلام بلکہ ایک  اعتبار سے  تمام عالمِ انسانیت  اس کی برکتوں اور فوائد سے مستفید و مستفیض ہو گی ؛قرآن مجید کی یہ آیت اسی چیز کو بیان کر رہی ہے " لیشھدوامنافعھم"(۱)(تاکہ وہ اپنے منافع کا مشاہدہ کریں ) ۔ بعثہ اور حج کمیٹی کے محترم عہدیداروں  نے جو مطالب بیان کئے ، جو رپورٹ پیش کی اور حج کے سلسلہ میں جن تمہیدی اقدامات کا تذکرہ کیا یہ سبھی چیزیں لازم اور مفید ہیں ، ہم نے ان مطالب کو غور سے سنا ، میری نظر میں یہ تمام عناوین بہت اہم ہیں ، لیکن اصل بات یہ ہے کہ تمام مراتب کے منتظمین اور اہلکاروں  کو اس بات پر خصوصی توجّہ دینا چاہیے کہ انہوں نے جو تدبیریں سوچ رکھی ہیں، جن چیزوں کو وہ  ضروری سمجھتے ہیں ،وہ اقدامات جو ان کی دلی خواہش ہیں ،میدانِ عمل میں ان پر حقیقی معنیٰ میں عمل درآمد ہو ، منصوبہ بندی تو اس مسئلہ کا صرف ایک پہلو ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ اس بات کی اہمیت ہے کہ جن امور کی انجام دہی کا فیصلہ کیا گیا ہے انہیں عملی جامہ پہنایا جائے ، اس کےبعد اس کے نتائج پر غور و فکر کیا جائے ، اگر منصوبہ بندی یا اس کے نفاذ میں کوئی نقص یا خامی پائی جاتی ہو تو باریک بینی سے اس کامشاہدہ کیا جائے اور اس کے ازالہ کے لئے سرتوڑ کوشش کی جائے ، یہ چیز بہت ضروری ہے ۔

ہم فریضۂ حج  کے سلسلہ میں اس قدر تاکید کیوں کر رہے ہیں ؟ چونکہ فریضۂ حج حقیقی معنیٰ میں اہمیت رکھتا ہے ، پروردِگار عالم کے نزدیک اسے خصوصی مقام حاصل ہے ، آپ اگر عصرِ حاضر میں حج کی اہمیت کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں تو آپ مشاہدہ کریں گے کہ گویاماضی کے کسی بھی دور کے مقابلہ میں عصرِ حاضر میں اس کی اہمیت کہیں زیادہ ہے ، دورِحاضر میں حج زیادہ ضروری و لازم ہے ،فریضۂ حج کی اہمیت دو اعتبار سے ہے ، خود ہمارے لئے ،امّتِ مسلمہ کے لئے اس کی بہت اہمیت ہے اس کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر بھی حج کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ کئی صدیوں سے امّتِ مسلمہ کو مسلسل  ذلّت و حقارت کا نشانہ بنایا جارہا ہے ، اس میں مایوسی پیدا کی جارہی ہے ، نئے آلات و وسائل  کے ذریعہ اس میں پروردِ گارِ عالم  کی بارگاہ میں خضوع و خشوع اور معنویّت کو کمزور بنایا جارہا ہے ، حج ان تمام مشکلات کا سدِّ باب کرتا ہے ، امّت مسلمہ کی عظمتِ از دست رفتہ کو لوٹاتا ہے ، اس میں اقتدار کا احساس جگاتا ہے ، اسے امیّد دلاتا ہے ، فریضۂ حج میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے ۔ حج ،سب سے پہلے امّتِ مسلمہ پر اپنا نقش چھوڑتا ہے ، ہمارے دلوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ہمیں حج کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے عزم و حوصلہ کی تقویت کر سکیں ، تاکہ ہمارے اندر پروردگارِ عالم پر توکّل کا احساس بیدار ہو سکے ، ہمارے اندر یہ احساس جاگے کہ ہم خدا پر تکیہ کئے ہوئے ہیں ، ہم عظیم ہیں ، ہم ایک عظیم امّت ہیں ۔ جہاں ایک طرف داخلی سطح پر حج کا نقش بہت اہم ہے وہیں عالمی سطح پر بھی اس کا نقش بہت زیادہ اہم ہے ، حج ، دشمن کو کمزور کرتا ہے ، دشمن کے حوصلے پست کرتا ہے ، دشمن کے سامنے اسلام کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے ، دشمن کے سامنے اسلامی اتّحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرتا ہے ، آج ہمیں اس اتّحاد و یکجہتی کی شدید ضرورت ہے ۔

دورِ حاضر میں اسلام کے مقابلہ میں ایک عظیم محاذ قائم ہو چکا ہے ، ہم اس محاذ کو کیوں نظرانداز کریں؟ کچھ لوگ اس عظیم محاذ کو کیوں نہیں دیکھ رہے ہیں ؟ آج کا یہ محاذ جنگِ احزاب  (جنگِ خندق ، جہاں اسلام کے داخلی اور بیرونی دشمنوں نے اسلام کو مٹانے کے لئے   ایک متّحدہ محاذ تشکیل دیا)کا نقشہ پیش کر رہا ہے ، اسلام مخالف مختلف فرقے ، معنوّیت اور حقیقت کےمخالف گروہ ،اسلام کے مقابلہ میں ایک متّحدہ محاذ بنائے ہو ئے ہیں تاکہ باہمی تعاون سےاسلام اور مسلمانوں کی کمزوریوں کو تلاش کریں ، ان میں رخنہ ڈالنے کا طریقۂ کار پیدا کریں ، تاکہ اس کے  ذریعہ ہم پر ضرب لگائٰیں ، حج ان تمام سازشوں کا سدِّ باب کر سکتا ہے ۔

ان کا ایک حربہ یہی ہے جس کی طرف آپ حضرات نے بھی اشارہ کیا ، وہ امّت ِ مسلمہ کی صفوں میں اختلاف ڈالنا چاہتے ہیں ، اس پر بہت دقیق انداز میں کام کر رہے ہیں ، امّت ِ مسلمہ کے اختلافات کو اجاگر کر رہے ہیں ، شیعوں اور سنیوں کے درمیان مختلف منحرف مکاتبِ فکر کی تقویت کر رہے ہیں ، شیعہ دنیا میں شیعت کے نام پر قرامطہ جیسے منحرف مکاتبِ فکر کو رائج کر رہے ہیں ، اہلِ سنت کے درمیان ، سنیت کے نام پر ناصبی(دشمن اہلِ بیت ) طرزِفکر کی ترویج و نشر و اشاعت کا کام جاری ہے، شیعوں اور سنیوں کو ایک دوسرے کے مدِّ مقابل صف آرا کیا جاررہا ہے ۔ ہمیں ہوشیار و بیدار رہنا چاہیے ، ہمیں  اسے دیکھنا اور سمجھنا چاہیے  ۔ یہ عالمِ اسلام کا وہ بنیادی مسئلہ ہے جس پر عصرِ حاضر میں خصوصی توجّہ دینے کی بہت ضرورت ہے ۔

آج عالمِ اسلام کو فکری ہم آہنگی ، احساس ِ ہم دردی اور  باہمی تعاون کی اشدضرورت ہے ، اسلام دشمن طاقتیں ، اسلامی حکومتوں کے درمیان اس قدر اختلاف کیوں ڈال رہی ہیں؟ فلسطین جیسے اہم مسئلہ میں اسلامی حکومتیں  کسی متحدہ مؤقف  اور  مشترکہ نقطۂ نظر  پر اتفاق کرنے کے لئے تیّار کیوں نہیں ہیں ؟ کیا فلسطین کا مسئلہ کوئی معمولی نوعیت کا مسئلہ ہے ؟ دین اور خدا سے بے خبر کچھ لوگوں نے ادیانِ توحیدی اور معنویت کے خلاف اقدام کیا ،اسلامی سرزمین کے ایک حصّہ  ، مسلمانوں کے قبلۂ اوّل  دینِ اسلام کے ایک اہم معنوی مرکز کو غصب کرلیا ، اس سرزمین کے مالکوں کو اپنے گھروں سے باہر نکال دیا اور ان پر بے شمار مظالم ڈھائے ، ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا اپنے دین کے پابند مؤمن یہودیوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے وہ خود بھی صیہونزم سے بیزار ہیں  ، آج ساٹھ سال کا عرصہ بیت چکا ہے کہ عالمِ اسلام اس مصیبت میں گرفتار ہے ۔  کچھ عرصہ تک فلسطینی بھی اس مسئلہ سے غافل تھے ، اس پر خاموش تھے لیکن آج اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ، آج وہ نصرت طلب کر رہے ہیں ، عالمِ اسلام سے مدد مانگ رہے ہیں ، عالمِ اسلام ان کے تئیں خاموش کیوں ہے ؟ آیا پیغمبرِ اسلام (ص)کا ارشادِ گرامی نہیں ہے کہ " من اصبح و لم یھتمّ بأمور المسلمین فلیس بمسلم" جو اس حالت میں صبح کرے کہ اسے مسلمانوں کے امور کی کوئی پرواہ نہ ہو تو وہ مسلمان نہیں ہے ، کیا اس سے بڑھ کر مسلمانوں کے امور کے اہتمام کا تصوّر کیا جا سکتا ہے ؟ ایک ایسے واضح و آشکار مسئلہ میں مسلمانوں، فلسطین کے مسلمانوں اور عیسائیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں لیکن عالمِ اسلام خاموش تماشائی بنا ہوا ہے ، وہ کسی واحد مؤقف کو اختیار نہیں کر پا رہا ہے ، ایسا کیوں ہے ؟ یہ اختلاف کہاں سےآیا ہے ؟ یہ وہ مسائل ہیں جو حج کے اصلی مسائل ہیں ۔

حج کو اتّحاد کا مظہر ہونا چاہیے ، باہمی گفتگو اور بات چیت کا مظہر ہونا چاہیے ، اسے مسلمانوں  کی باہمی  ہمدردی ، تعاون اور نزدیکی کا نقیب ہونا چاہیے ، ہمیں حج کو اس سمت میں لے جانا چاہیے ، اس راستہ پر گامزن کرنا چاہیے ۔ اگر اس مرکزِاتحاد و یکجہتی میں کچھ لوگ اختلاف کے درپے ہوں اور مکّہ و مدینہ کے مقدّس مقامات پر شیعوں کے خلاف  سرگرمِ عمل ہو ں ، ان کی زیارت ، ان کے مذہبی امور و عقائد اور دیگر فرائض کی ادائیگی میں رخنہ اندازی کریں ، ان پر دباؤ ڈالیں، ان کے عقائد و مقدّسات کی توہین کریں ، جیسا کہ ہمیں اس کی رپورٹیں مسلسل ملتی رہتی ہیں ، اس کے ردِّ عمل کے طور پر شیعہ حضرات بھی  کچھ غلط اقدام کریں تو اس سے فریضۂ حج کی سراسر مخالفت ہوگی ، یہ کام فلسفۂ حج کے بالکل منافی  ہے ۔

حج کوصحیح انداز سے بجا لانا چاہیے ، گزشتہ تیس برس کے حج اور ہمارے  موجودہ حج میں زمین و آسمان کا فرق ہے ، لیکن یہ  کافی نہیں ہے ہمیں اس  سے بھی آگے بڑھنا چاہیے ، ایرانی حاجی کی رفتار و گفتار حج کی ان خصوصیات کی آئینہ دار ہونا چاہیے جو حج کے تئیں ایک مسلمان پر فرض ہوا کرتی ہیں ۔ پرودگارِ عالم کے حضور میں گریہ و زاری ، خضوع و خشوع ، توسّل ، قرآن ِ مجید سے انس و لگاؤ، خدا کا ذکر ، دلوں کو خدا سے قریب کرنا ، اپنے آپ کو معنویّت  سے آراستہ کرنا،  اپنے اندر نور اور دیگر معنوی خصوصیات کو پیدا کرکے خانۂ خدا سے پلٹنا یہ وہ خصوصیات ہیں جن سے ہر حاجی کو مزیّن ہونا چاہیے ، اس کے علاوہ سیاسی اور اجتماعی لحاظ سے عالمِ اسلام میں تعاون کا جذبہ پیدا ہونا چاہیے ۔ آج عالمِ اسلام کا ایک اہم اور فی الفور مسئلہ ہمارے پاکستانی بھائیوں کا مسئلہ ہے ۔ البتّہ ہمارے عوام اور حکومت نے اس سلسلہ میں کافی مدد کی ہے خدا انہیں اس کا اجر دے لیکن یہ امداد کافی نہیں ہے ۔

وہ لوگ جو فریضۂ حج سے مشرّف ہو رہے ہیں ان میں سے سب سے پہلے ایرانی زائرین کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے اضافی اخراجات کو کم کریں ، پاکستان کا پڑوسی ہونے اور وہاں کے متاثرہ عوام کی مشکلات سے آگاہ ہونے کے اعتبار سے ، اپنے پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کا دکھ درد بانٹنے کے لئے  ان کی امداد کریں ، خدا کے نزدیک اس کا بہت  زیادہ اجر و ثواب ہے ، یہ ایک تمرین ہے ، ایک تجربہ ہے ، اس کے علاوہ آپ دیگر اسلامی ممالک کے زائرین تک بھی یہ پیغام پہنچائیے ، انہیں بھی پاکستانی بھائیوں کی مدد کی طر ف راغب کیجئے ، ان میں بھی اس کا جذبہ اور شوق پیدا کیجئے۔

وحدت و اتحاد کے مسئلہ کو سنجیدگی  سے لیجئے ۔ عصرِ حاضر میں اسلام مخالف خیموں میں عالمِ اسلام کی حکومتوں اور قوموں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی دقیق اور گہری سازشیں رچی جارہی ہیں ۔جب عالمِ اسلام میں کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے جو اس کی قربتوں کا مظہر ہوتا ہے تو فوری طور پرکوئی امریکی یا صیہونی بیرونی عامل اسلامی ممالک کی حکومتوں کی باہمی نزدیکی و قربت کے مانع ہو جاتاہے ، جس کسی مسئلہ پر اسلامی حکومتوں کا نقطۂ نظر ایک دوسرے کے قریب ہوتا ہے وہ اس مسئلہ کو اپنی سازشوں کا نشانہ بناتے ہیں ، وہ مسلمان قوموں کے اتّحاد میں بھی رخنہ ڈالنے کے درپے ہیں۔ مسلم قوموں میں ایک دوسرے سےمحاذآرائی کا کوئی جذبہ نہیں پایا جاتا، اس لئے اسلام دشمن طاقتیں امّتِ مسلمہ کے اتّحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے بے جا مذہبی اور قومی تعصّبات کا سہارا لیتی ہیں ۔ اگر ہم ان چیزوں سے ہوشیار نہیں رہیں گے تو ہمیں نقصان پہنچ سکتا ہے ، اگر ہم ان کی سازشوں سے خبردار نہیں رہیں گے تو اسلام کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔دورِ حاضر میں عالمی  سامراج کی اسلام دشمنی بالکل واضح و عیاں ہے اگر چہ وہ زبان سے اس کی تردید کررہا  ہے ۔ لیکن ان استکباری و سامراجی قوّتوں کی اسلام دشمنی بالکل آشکار ہے ، یہ چیز ہماری  ذمّہ داریوں کو اور بھی سنگین بنا دیتی ہے ۔

ہم دعا گو ہیں کہ پروردگارِ عالم آپ  اوردیگر اسلامی ممالک کے حجّاجِ کرام کو اس بات  کی توفیق عنایت فرمائے کہ آپ سبھی حضرات انشاء اللہ ہر سال ایک کامل اور متعالی حج کی طرف ایک قدم آگے بڑہائیں ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(۱) سورۂ حج ، آیت ۲۸