بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
ہم ان سبھی بھائیوں اور بہنوں کے تہہ دل سے بہت زیادہ شکرگزار ہیں جنہوں نے اس بہت اچھے جلسہ کا انعقاد کیا اور اپنی تجاویز و آراء سے ہمیں نوازا ، یہ جلسہ بہت اچھا جلسہ تھا ، میں آپ کی ملاقات اور تجاویز و آراء سے بہت خوش ہوا اور ان سے کافی استفادہ کیا ۔
اس جلسہ کے درمیان کچھ دوستوں نے کھڑے ہو کر دو تین چیزوں کی طرف اشارہ کیا ، ایسا نہیں ہے کہ یہ مسائل چھوٹے اور معمولی نوعیت کے ہیں، ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے چونکہ ہر فردی مطلب ، مسئلہ اور مشکل کی اپنی جگہ بہت اہمیت ہوا کرتی ہے ، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ، مجھے بھی آپ سے کوئی شکوہ نہیں کہ آپ کھڑے ہو کر ان مطالب کو کیوں پیش کرتے ہیں ، ایسی کوئی بات نہیں ہے ، اگر آپ میں سے ہر کوئی فردا فردا کھڑا ہوتا اور مسائل و مشکلات پر روشنی ڈالتاتو بھی میں آپ کی باتیں سننے کے لئے آمادہ ہوں ، مجھے آپ کی باتیں سن کر خوشی حاصل ہوگی لیکن بہر حال ہمیں ترجیحات کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے ، یہ نشست عمومی اور اجتماعی مسائل کی نشست ہے ، اگر ہم اس نشست اور ان جیسے دیگر جلسوں کے ذریعہ ملک کے ماحول ، اندازِ فکر اور عوامی جذبہ پر اثرانداز ہونے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ مسائل بھی رفتہ رفتہ خود بخود حل ہو جائیں گے ، ہمیں امید ہے کہ یہ چیز ضرور رونما ہوگی ۔
ملک کی تعمیروترقّی کی منصوبہ بندی میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم اس بات پر اپنی توجّہ مرکوز کریں کہ ہماری مادی و معنوی سرمایہ کاری کا محورکیا ہونا چاہیے ، چونکہ یہ بات بالکل واضح و عیاں ہے کہ ملک کا مادی ومعنوی سرمایہ(عزم و حوصلہ اور انسانی وسائل)لامتناہی نہیں ہے ، اگر ہم ملک کو ترقّی یافتہ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم کن چیزوں پر زیادہ سرمایہ کاری کریں ، البتّہ ترقّی سے ہماری مراد لازمی طور پر وہ ترقّی نہیں ہے جو مغربی دنیا کے پیشِ نظر ہے بلکہ اس سے ہماری منظورِنظر اور مطلوبہ ترقّی مراد ہے ۔
مجھے پختہ یقین ہے کہ اگر ہم سائنس و ٹیکنالوجی اور ماہر افراد کی تربیت پر سرمایہ کاری کریں گے تو حق و انصاف کی رو سے ہم نے ایک سب سے زیادہ ترجیحی کام میں سرمایہ کاری کی ہے ، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقّی اس ملک و قوم کے مادی و معنوی اقتدار کا موقع فراہم کرےگی ، لہٰذاان راہنما خطوط کے تناظر میں علم کی بہت زیادہ اہمیت ہے اسی وجہ سے ہم علم پر اس قدر زیادہ زور دے رہے ہیں، اس علم کے اہداف و مقاصد کیا ہونے چاہییں؟ اگر دامنِ وقت میں گنجائش ہوئی اور مجھے یاد رہا تو اپنی تقریر کے آخر میں علم کے اغراض و مقاصد پر مختصر روشنی ڈالوں گا ۔
لہٰذاسائنس و ٹیکنالوجی کا مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جنہیں سب سے زیادہ اولویت و ترجیح حاصل ہے ، ہمارے ملک کے لئے یہ ایک لازمی امر ہے ، ہم ان میدانوں میں ایک واضح تاریخی پسماندگی کا شکار ہیں ، اس کا گناہ ان لوگوں کی گردن پر ہے جنہوں نے اپنی سیاست، اپنے کردار، اپنی لالچ اور کوتاہی کی بنا پر اس جان لیوا بیماری کو اس عظیم قوم پر تھونپا ، اب ہم اپنے آپ کو اس منحوس سایہ سے نجات دلاناچاہتے ہیں لہٰذاہمیں اور آپ کو، متعلّقہ عہدیداروں، ملک کے اعلیٰ عہدیداروں بلکہ اس ملک کے ہر باشرف انسان کو اس سلسلہ میں اپنی مقدور بھر کوشش کرنا چاہیے ۔خواہ اس سال یونیورسٹی میں قدم رکھنے والا طالب علم ہو یا یونیورسٹی کا سینئر طالب علم ہو ، خواہ وہاں کا استاد ہویا ملک کے تعلیمی نطام کا کوئی اعلیٰ عہدیدار ہو سبھی کو اس سلسلہ میں کوشش کرنا چاہیے ، کام کرنا چاہیے ، ہم پر تھوپی گئی اس تاریخی پسماندگی کے ازالہ کے لئے ہم سبھی کو دوڑ لگانا چاہیے ، یہ ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے ۔
میں آپ سے یہ عرض کرتا چلوں کہ گذشتہ چند برسوں میں اس راستہ میں کامیابی اور برق رفتاری کو محسوس کیا جاسکتا ہے ، آپ اسے جان لیجئے ، البتّہ آپ اس سے واقف بھی ہیں لیکن میرے پاس اس ترقّی کے زیادہ اعداد وشمار ہیں اور اس بات کی زیادہ تفصیلات ہیں کہ گذشتہ آٹھ ،دس برسوں کے دوران ہمارے ملک نے اس میدان میں کئی عظیم معرکے سر کئے ہیں اور بے شمار عظیم کام انجام پائے ہیں ، لیکن کچھ لوگ ادھر ادھر، یونیورسٹی کے اندر اور باہر مایوسی کا ماحول پیدا کر رہے ہیں ، منفی رجحان کی تقویت کر رہے ہیں ، وہ فضول کی باتیں کر تے ہیں ، جھوٹ بول رہے ہیں ، ان میں سے کچھ لوگ غافل و بے خبر ہیں اور کچھ ان سے بھی زیادہ بد تر ہیں ۔ انصاف سے دیکھا جائے تو گذشتہ چند برسوں میں ہمارے ملک نے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں نمایاں ترقّی کی ہے ، کچھ عظیم کام انجام پائے ہیں ۔ہماری قوم ، ملک کے جوانوں، علمی سوسائٹی ، یونیورسٹیوں اور ان کی انتظامیہ نے مطلوبہ اہداف و مقاصد کے حصول کے لئے اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے ، ان امور کو پیش نظر رکھ کر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہم نے نمایاں ترقّی کی ہے ۔
اس ترقّی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم مزید امّید کے ساتھ قدم آگے بڑھائیں ، ایران اوربیرونِ ایران کے ماہرین کی ایک کثیر تعداد کا نظریہ یہ ہے کہ ہمارا ملک بیس سالہ ترقّیاتی منصوبہ کی میعاد (۱۴۰۴ ھ، ش مطابق ۲۰۲۵ عیسوی ) کے اختتام پذیر ہونے سے پہلے ہی اس منصوبہ کے معیّنہ اہداف و مقاصد کو حاصل کر لے گا ،وہ علمی اعتبار سے اسلامی ممالک میں پہلی پوزیشن حاصل کر لےگا ۔ یہ اندازے لگائے جا رہے ہیں ، ان اندازوں کی بڑی وجہ ، تعمیروترقّی کےمیدان میں پائی جانے والی برق رفتاری ہے ، لہٰذا ہمیں کسی بھی حالت میں امّید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور ایک لمحہ کو بھی ضائع و برباد نہیں کرنا چاہیے ، ہمیں اپنی طاقت پر بھروسہ کرنا چاہیے ، سنجیدگی اور دوستانہ ماحول میں اس راستہ کو جاری رکھنا چاہیے ۔ یہ اس سلسلہ کا پہلا نکتہ ہے ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ملک کے اندر جو سائنسی ترقّی پائی جاتی ہے وہ میرے اور ملک کے ہراس شہری کے لئے جو اس سے واقف ہے فخر کا مقام ہے، جوہری توانائی کے سلسلہ میں اپنے ملک کی سائنسی ترقّی پر ہم سب فخر کرتے ہیں ، بنیادی خلیوں اور اس میدان میں ہونے والی عظیم پیشرفتوں پر ہم سبھی کو ناز ہے ، اسی طرح ، نانو ٹیکنالوجی ، علم الحیات اور دیگرسائنسی شعبوں میں نمایاں پیشرفت ہوئی ہے ، ہم سب کو اس پر فخر ہے ، یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے ، بہت بڑی چیز ہے لیکن یہ سائنسی ترقّی وہ ترقّی نہیں ہے جو یہ ظاہر کر سکے کہ ہمارے ملک نے سائنسی میدان میں مطلوبہ مقام حاصل کرلیا ہے ،حالانکہ سائنس کے بعض میدانوں میں بالکل ابتدائی قدم رکھنے کے باوجود ہمارا شمار دنیا کے صفِ اوّل کے دس ممالک میں ہوتا ہے جن کے پاس یہ ٹیکنالوجی موجود ہے لیکن یہی کافی نہیں ہے ۔
کیا چیز لازم ہے ؟ملک میں ایک پیوستہ اور کامل علمی رابطہ سینٹر کاقیام وہ چیز ہے جو ہمارے ملک کے شائستہ اور قابلِ فخر علمی مقام کو نمایاں کرسکتی ہے ، ملک کی ضرورت کےسبھی علوم کے تمام شعبوں میں ایک پیوستہ جامع علمی رابطہ سینٹر کے قیام کی ضرورت ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کا تعاون کر سکیں ۔ ملک میں ایک جامع اور کامل علمی رابطہ سینٹر کا قیام وجود میں آنا چاہیے ، ابھی یہ کام باقی ہے ، ان جزیروں کو ایک دوسرے سے مکمّل طور پر جڑنا چاہیے تاکہ ان سے ایک واحد مجموعہ تشکیل پاسکے ، وہ ایک دوسرے کا تعاون کرسکیں ، ایک دوسرے کو آگے بڑھا سکیں ، خلّاقِ عالم کی اس وسیع خلقت میں علم و سائنس کے جدید ابواب کی تلاش و جستجو کے لئے راستہ کھولیں ، سوال پیش کریں ، ان سوالوں کا جواب دیا جائے ، یہ سبھی چیزیں لازم و ضروری ہیں ۔
ہم نے محدود پیمانہ پر کافی سرمایہ کاری کی ہے ، محدود پیمانہ پر ہمیں کافی کامیابیاں بھی نصیب ہوئی ہیں جن کا تعلّق کچھ خاص اشخاص یا گروہوں سے تھا، لیکن ان کامیابیوں اور پیشرفتوں کو ہمہ گیر ہونا چاہیے ، ان کا دائرہ تمام شعبوں تک پھیلنا چاہیے ،سائنس و علم کے تمام شعبوں میں ایک لامتناہی اقدام وجود میں آنا چاہیے ، انسانی علوم ، سائنس اور دیگر علوم میں ہمیں یہ تحریک واضح و نمایاں طور پر دکھائی دینا چاہیے ۔ اس کےلئے دن رات کی محنت درکار ہے ، یہ وہی چیز ہے جسے میں نے ماہِ رمضان میں یونیورسٹی کے دانشوروں اور ممتاز افراد سے ملاقات میں بیان کیا تھا ،میں نےاس نشست میں کہا تھا کہ موجودہ دور میں علمی جہاد لازمی ہے ، علمی میدان میں محنت و کوشش لازم ہے۔
اس جہاد کو عروج و کمال تک پہنچانے کے لئے ملک کی یونیورسٹیوں پر خصوصی توجّہ دینا چاہیے چونکہ یونیورسٹی صلاحیتوں کو نکھارنے اور ماہر افرادکی تربیت کا گہوارہ ہے، اس سلسلہ میں ممتاز و برجستہ افراد کے امور کی ذمّہ دار قومی فاؤنڈیشن کے بھی کچھ فرائض ہیں ، اس کے علاوہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں ، ان کی انتظامیہ اور اعلیٰ تعلیم کی وزارت پر بھی کچھ ذمّہ داریاں عائد ہوتی ہیں،مذکورہ فاؤنڈیشن کی ملک کےاعلیٰ صلاحیتوں کے حامل افراد پر توجّہ اسے یونیورسٹیوں سے غافل نہ کر دے ، بلکہ اسے ملک کی یونیورسٹیوں کو ایک مرکزی ادارہ کے طور پر دیکھنا چاہیے ،مذکورہ فاؤنڈیشن کو یونیورسٹیوں سے اپنے تعلّقات کو مزید مستحکم بنانا چاہیے ، دوسری طرف یونیورسٹیوں کے اندر ممتاز صلاحیتوں کے مالک طلبہ کی شناخت اور تربیت پر خصوصی توجّہ دی جائے ، اعلیٰ تعلیم کے مراکز میں اس کی افادیت اور بھی زیادہ نمایاں ہے ، یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے ۔
ان بہترین صلاحیتوں کے حامل افراد کی حمایت کیسے کی جاسکتی ہے؟ یہاں پر جن افراد نے اظہارِ خیال کیا اس میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا گیا ، میری نظر میں ان افراد کی سب سے بڑی حمایت یہ ہے کہ ان کے لئے کام اور فعّالیت کا موقع فراہم کیا جائے ، ان افراد کا ذہن ، کام و فعّالیت ، عمق و گہرائی ، نئی نئی ایجادات ، نئی راہوں کی کھوج اورنئے دروازوں کو کھولنے پر مرکوز ہوا کرتا ہے ، ان کے لئے وسائل فراہم ہونا چاہیے ، ان کے لئے سافٹ وئیراور ہارڈوئیر کے وسائل فراہم ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی جدّوجہد و محنت کو جاری رکھ سکیں ، البتّہ انہیں اپنی محنت و کوشش میں ملک کی ضرورتوں کو مدِّ نظر رکھناچاہیے ، جیسا کہ مجھے رپورٹ دی گئی ہے کہ ملک کے جامع علمی منصوبہ میں ان ضرورتوں کے ایک بہت بڑے حصّہ کی مکمّل طور پر رعایت کی گئی ہے ،انہیں مدِّ نظر رکھا گیا ہے ۔ البتّہ ابھی میرے پاس اس جامع علمی منصوبہ کی آخری رپورٹ موجود نہیں ہے ، متعلّقہ حضرات پوری سنجیدگی سے اس پر کام کر رہے ہیں ، اس کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں، میں یہاں پر ان جوانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے ماہِ رمضان کی ملاقات میں ہم سے یہ کہا کہ ہم نے اپنے طور پر ملک کا ایک جامع علمی منصوبہ تدوین کیا ہے ، میں نے ان سے کہا کہ اسے میرے پاس لایئے ، وہ اسے لے کر آئے ، میں نے اس کا خلاصہ تیار کرنے کے لئے کہا تاکہ میں اسے دیکھ سکوں ، اس کا خلاصہ تیّار کیا گیا اور ہمارے پاس لایا گیا، ہم نے ان کے تدوین کردہ منصوبہ کو ثقافتی انقلاب کی اعلیٰ کونسل کے پاس بھیج دیا تاکہ وہ اس کا جائزہ لے ،مصروفیات کی بنا پر مجھے ابھی تک اس خلاصہ کے مطالعہ کی توفیق حاصل نہیں ہو ئی ، میں جوانوں کی اس خود اعتمادی اور بلند پروازی کو بہت سراہتاہوں کہ ملک کے کچھ جوان مل بیٹھ کر ایک جامع علمی منصوبہ پر کام کریں، البتّہ میں اس بات کا وعدہ نہیں کر سکتا کہ ان کا تیّار کردہ منصوبہ ہماری تمام علمی ضرورتوں کو پورا کرسکتا ہے ، عین ممکن ہے کہ ان کی اطّلاعات محدود ہوں لیکن یہ عزم و حوصلہ ، یہ خود اعتمادی ، یہ بلند پروازی اپنے آپ میں ہمارے لئے بہت دلکش اور مطلوب ہے ۔
لہٰذا ایک جامع اور ہمہ گیر علمی منصوبہ بندی لازم ہے ، اس کے علاوہ ایک دوسرا اقدام بھی ضروری ہے ، کسی ذہین ، قابل اور باصلاحیت شخص کے ذہن میں جب کوئی نئی فکر وجود میں آتی ہے ، اس فکر کو عملی جامہ پہنانے ، اسے علم کی شکل میں پیش کرنے ، اسے فن و ٹیکنالوجی کے سانچے میں ڈھالنے ، اس کو تجارتی میدان میں لانے تک متعدّد مراحل در پیش ہوتے ہیں ، ہمیں ان مرحلوں کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے ، پس ایک علمی حلقہ کا وجود میں آنا ضروری ہے تا کہ مختلف علوم ایک دوسرے کا تعاون کرسکیں ایک دوسرے کو پایہ ٔ تکمیل تک پہنچا سکیں اس کے ساتھ ساتھ جدید علمی نظریات کے ایک پیوستہ حلقہ کا وجود میں آنا بھی ضروری ہے تاکہ اس کے ذریعہ ایک ذہنی اور علمی مجموعہ منصّہ شہود میں قدم رکھ سکے اور صنعت وٹیکنالوجی کے میدان میں اپنا سکّہ جما سکے، اس کے بعد بازار میں مختلف مصنوعات کی صورت میں ظاہر ہوسکے ، اس کے لئے آپ کی ہمت اور عزم و حوصلہ درکار ہے ، متعلّقہ اداروں کی انتظامیہ کا تعاون ضروری ہے ، الغرض ملک میں اس خوشنما واقعہ کے رونما ہونے کے لئے سبھی کو ایک دوسرے کا تعاون کرنا چاہیے ۔
اس مسئلہ کا تجارتی پہلو بھی بہت اہم ہے، سائنسی و صنعتی ایجادات کو ملک کے سرمایہ میں اضافہ کا باعث بننا چاہیے ،ہمارے دفتر کے عہدیداروں کے اندازے کے مطابق سنہ ۲۰۲۵ ع تک ہمارے ملک کی کم از کم بیس فیصد آمدنی کو انہیں سائنسی و صنعتی مصنوعات کے ذریعہ حاصل ہونا چاہیے ، یہ چیز ہمارے دائرۂ اختیار سے باہر نہیں ہے ، سائنس وٹیکنالوجی ، قومی سرمایہ کی پیداوار کا باعث ہے ، لیکن ہمیں صحیح شکل اور شرافتمندانہ طور پر یہ کام انجام دینا چاہتے ہیں ، ہم مغربی دنیا کی مانند مال و دولت کے حصول کی خاطرسائنس و ٹیکنالوجی کا استحصال نہیں کرنا چاہتے ۔ انشاء اللہ اپنی تقریر میں ، ہم اس پر بھی مختصر روشنی ڈالیں گے ، متعلّقہ اداروں کو کسی بھی صنعتی و سائنسی پروجیکٹ پر کام کرنے سے پہلے اس کے تجارتی پہلو کا بغور جائزہ لینا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ ہم کسی سائنسی و صنعتی پروجیکٹ کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے بعد اس کے تجارتی پہلو پر غور و فکر کریں اور عالمی منڈی میں اس کی فروخت کے بارہ میں سوچیں، ہمیں ابتدا سے ہی اسے پیشِ نظر رکھنا چاہیے البتّہ یہ ملک کے ذمّہ دار اداروں کا کام ہے انہیں اس کا تعاقب کرنا چاہیے ۔
کچھ افراد نے یہاں یہ تجویز پیش کی اور میں نے بھی اسے یادداشت کر رکھا ہے کہ ملک میں سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے چند نئی کمپنیوں کے قیام کاموقع فراہم کیا جائے ، بہت سے افراد باہمی تعاون سے علمی و تحقیقی کام انجام دینے کے خواہشمند ہیں ، حکومت اور ملک کے اعلیٰ عہدیدار ، سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقّی کے لئے جو امداد دے رہے ہیں وہ افراد تک محدود نہ ہو بلکہ ان کمپنیوں کی حمایت کی جائے ، ان کمپنیوں کا حساب و کتاب ، ملک کی عام تجارتی کمپنیوں سے جدا ہونا چاہیے جو ملک کے بینکوں کی سہولیات سے استفادہ کرتی رہتی ہیں ، بلکہ ان کمپنیوں کو خصوصی مراعات حاصل ہوناچاہیے ، میراخیال ہے کہ یہ کام بہت ضروری اور لازم ہے ، حکومت کو اس سلسلہ میں سنجیدہ مدیریت کو بروئے کار لانا چاہیے ۔
ایک دوسرا مسئلہ جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے وہ ملک میں تحقیقی مراکزاور ریسرچ سینٹروں کے قیام کا مسئلہ ہے ، ہماری یونیورسٹیوں میں موجود ریسرچ سینٹروں کے علاوہ ہر یونیورسٹی میں کم از کم ایک فعال تحقیقی مرکز کا قیام بہت ضروری ہے ، یونیورسٹیوں کو بھی تحقیق و ریسرچ کو بہت زیادہ اہمیت دینا چاہیے ، ہمارے باصلاحیت افراد کو تحقیق کی سمت آگے بڑھنا چاہیے ، لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ علم ،سیکھنے سکھانے سے ان کا رابطہ منقطع ہو جائے۔ بلکہ انہیں ان تحقیقی مراکز کی طرف راغب کیا جائے جیسا کہ ان کا اپنا رجحان بھی یہی ہے کہ وہ کوئی تحقیقی کام انجام دیں ، انہیں ان تحقیقی مراکز کی طرف راغب کیا جائے اور وہاں پر کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے ۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ، تحقیق کے لئے ضروری و لازم وسائل انہیں فراہم کئے جائیں تا کہ وہ تحقیقی کام انجام دے سکیں ، یہ وہی چیز ہے جو کسی سائنسدان کو راضی کرسکتی ہے ، اسے قانع کر سکتی ہے ، جس سے اس کی صلاحیت میں نکھار آتا ہے اور اسے پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے ، اس میں یہ احساس بیدار ہوتا ہے کہ وہ بھی کوئی کام انجام دے سکتا ہے ، اس کے ذریعہ وہ وسوسے خود بخود غیر مؤثرہو جاتے ہیں جو یہ احساس دلاتے ہیں کہ آپ ملک میں رہ کر کوئی بھی کام نہیں کر سکتے ، ان وسوسوں میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
ان تحقیقی مراکز میں یہ سہولت بھی فراہم ہوسکتی ہے کہ مختلف یونیورسٹیوں سے اپنی سرویس سے ریٹائر ہونے والےتجربہ کار اساتذہ کی علمی خدمات سے استفادہ کیا جائے اور وہ وہاں حاضر ہوں اور اپنے تجربات سے نوازیں، اس صورت میں موجودہ جوان نسل کے محققوں اور ان تجربہ کار نسل کےمحققوں کے درمیان رابطہ کی کڑی وجود میں آسکتی ہے جنہوں نے اپنی جوانی کا دور یونیورسٹیوں میں گزارا ہے۔
اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل افراد کی فاؤنڈیشنوں کی کافی امداد کی گئی ہے ، البتّہ کبھی کبھی اس سلسلہ میں گلہ شکوہ بھی سنائی دیتا رہتا ہے ،ان جلسوں میں کچھ مسائل کو اٹھایا جاتا ہے اس کے علاوہ ہمیں خطوط بھی موصول ہوتے رہتے ہیں ، مختلف رپورٹیں بھی پیش کی جاتی ہیں جن میں گلہ شکوہ کیا جاتا ہے ، یہ گلے شکوے بجا بھی ہوتے ہیں ، انہیں بلاشبہ دور ہونا چاہیے لیکن آپ یہ بھی تو ملاحظہ کیجئے کہ پانچ ، چھ سال پہلے ہم کہاں تھے اورآج کہاں ہیں ، باصلاحیت اور ممتاز افراد کی امداد و حمایت کے سلسلہ میں پانچ ، چھ برس پہلے ہم بالکل صفر تھے ، اس نام کی کوئی چیز نہیں تھی ، اس راستہ میں کوئی حرکت نہیں پائی جاتی تھی لیکن آج الحمد للہ اس سلسلہ میں بہت سے اچھے قدم اٹھائے گئے ہیں ، ممتاز دانشوروں اور باصلاحیت طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ، ان پر خصوصی توجّہ دینا، ان کی باتوں کو سننا، ان کی فکر اور ذہن سے استفادہ کرنایہ نئی چیز ہے ، ہمیں اس کی قدر کرنا چاہیے اور اس کا شکرگذار ہونا چاہیے ، ہمیں ہمیشہ ہی منفی نکات پر توجّہ نہیں دینا چاہیے۔
انسان کے فطری امور میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ کم پر راضی نہیں ہوتا بلکہ وہ افزوں طلب ہوا کرتا ہے ، یہ خصوصیت بری بھی نہیں ہے ، انسان کی دیگر خصوصیات و غرائز کی طرح اگر اس خصوصیت کو اس کے مناسب موقع پر بروئے کار لایا جائے تو یہ خصوصیت انسان کی پرواز کا عامل بن سکتی ہے ، معنویّت کے میدان میں انسان کے لئے جس قدر ممکن ہو اسےافزوں طلب ہونا چاہیے ، فکری ، تحقیقی اور علمی کام بھی معنویّت کا ایک حصّہ ہے ، لہٰذا افزوں طلبی انسان کی فطرت و جبلّت میں ہے ، انسان کو کتنا بھی عروج مل جائے لیکن پھر بھی اسے کہیں نہ کہیں کوئی خامی ضرور نظر آجاتی ہے ، اس کی بھوک کبھی ختم نہیں ہوتی ۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اس میدان میں کتنا کام ہوا ہے،اس میدان میں بہت سے امور انجام پائے ہیں ۔
میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتاہوں کہ اس خطیر امداد اور بہترین اقدامات کے باوجودہمیں اس بات کی اجازت نہیں دینا چاہیے کہ بیوروکریسی ، افسرشاہی ، نوکر شاہی کے پیچ وخم اور مختلف دیگر پیچيدگیاں ، ممتاز علمی شخصیات کے لئے اس امداد کا مزہ کرکرا کردیں ، میں متعلّقہ اہلکاروں سے پوری شدّت کے ساتھ اس بات کا مطالبہ کرتا ہوں، ہمیں حکومت کی اس امداد اور بہترین اقدامات کا تہہ دل سے شکرگذار ہونا چاہیے ۔ متعلّقہ عہدیداران، بیوروکریسی کو نظرانداز کرتے ہوئے اس کام کے لئے کوئی شارٹ کٹ راستہ تلاش کریں تا کہ امور کی پیشرفت میں آسانی ہو ۔
ہمیں ناانصافی سے کام نہیں لینا چاہیے ، ناشکری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے ، حقیقی معنیٰ میں کام ہوا ہے ، خدمت انجام پائی ہے ، خدمت کی نیّت ، خدمت سے کہیں زیادہ اہم ہے ، حدیث کی رو سے " نیّۃ المؤمن خیرمن عملہ"؛(۱) (مؤمن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے )یعنی مؤمن کی نیّت ہمیشہ ہی اس کے عمل کی گنجائش سے زیادہ ہوا کرتی ہے ، اس کی نیّت و ارادہ اس کے عمل سے کہیں زیادہ ہوا کرتا ہے لیکن وہ اپنی تمام نیّتوں اور ارادوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا ، آپ جو بھی نیک اور اچھے اعمال بجا لاتے ہیں آپ کی نیّت ان سے کئی گنا زیادہ ہونا چاہیے ، مؤمن کی نیّت ہمیشہ نیک ہوتی ہے ، اس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے ، اس کام کے ذمّہ دار اداروں کی مثال بھی ایسی ہی ہے ، ان کی نیّت ان کی کارکردگی سے کہیں بڑھ کر ہے لیکن میدانِ عمل کی مشکلات و مسائل ان کے دامنگیر ہو جاتے ہیں ۔
ایک دوسری چیز جسے فراموش نہیں ہونا چاہیے یہ ہے کہ ہمیں ایک نظارتی نظام کی ضرورت ہے ، جو ہمیشہ ہی اس بات پر نظارت رکھے کہ ملک کے ممتاز و باصلاحیت افراد کی حمایت اور امداد کا ثمرہ کس قدر ہے ؛ سرمایہ کاری اور ثمرہ میں کس قدر تناسب پایا جاتا ہے، ایسا نہ ہو کہ ہم اس میدان میں سرمایہ کاری تو کریں لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو ، اگر اس کا ثمرہ کم ہو یا سرمایہ کاری اور ثمرہ میں تناسب نہ پایا جاتا ہو تو یہ اس بات کا مظہر ہے کہ طریقۂ کار میں کوئی خامی یا نقص ہے ، طریقۂ کار غلط ہے ، لہٰذا اس کام میں ہمیشگی نظارت کی ضرورت ہے۔
اس شعبہ میں محض نظارت ہی کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں ان ممالک پر بھی کڑی نظر رکھنا ہوگی جن سے ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں ، ہمیں یہ تصوّر نہیں کرنا چاہیے کہ دوسرے ممالک، ہمارے ہمسایہ ممالک اور اسلامی ممالک ہمارے انتظار میں کھڑے ہیں اور ہم سے کہہ رہے ہیں کہ تشریف لائیے اور آگے بڑھئے ، اور ہم اس طریقہ سے ان پر سبقت حاصل کریں گے ، ایسا نہیں ہے بلکہ وہ بھی آگے بڑھنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں ، یہ نظارت بھی ضروری ہے ، اگر ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں ، ان پر سبقت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اطراف پر بھی نظر رکھنا چاہیے ، اس میدان کے دیگر کھلاڑیوں پر بھی نظر رکھنا چاہیے ، ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اس کے بعد ہمیں اپنی حرکت و ہمّت کا موازنہ کرنا چاہیے کہ آیا اس میں تناسب پایا جاتا ہے یا نہیں ؟
میں نے کچھ دیگر نکات کو بھی یاد داشت کر رکھا ہے جن سے صرفِ نظر کر رہا ہوں ، آپ ملاحظہ کیجئے کہ ہم جو " علم " پراس قدر زور دیتے ہیں یہ کوئی تکلّف آمیز یاکسی عارضی اور وقتی جذبہ سے متاثّر بات نہیں ہے ، یہ ایک سنجیدہ بات ہے جو ایک انتہائی معقول اورگہری نظر کا نتیجہ ہے ۔
دنیا میں من مانی اور سرکشی کا دور دورہ ہے ، دنیا کے تسلّط پسند اورسرکش افراد اپنی طاقت کے بل بوتے پر من مانی اور سرکشی کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں ، علم و دانش ہی ان کے مال و دولت اور طاقت کا اصلی سرچشمہ ہے ، علم کے بغیر ان کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ، ان سے روبرو نہیں ہوا جاسکتا ، میں نے اس سے پہلے بھی اس حدیث کو بیان کیا ہے " العلم سلطان" (۲) علم ، خود بھی اقتدار ہے اور اقتدار کا باعث بھی بنتا ہے ،جس کے پاس یہ اقتدارہو وہ آگے بڑھ سکتا ہے ، جو بھی شخص، جو بھی قوم یا سماج اس اقتدار سے محروم ہو وہ دوسروں کے اقتدار کی پیروی پر مجبور ہوتا ہے ۔ لہٰذا علم و دانش پر ہماری اس قدر تاکید ایک دقیق حساب و کتاب پر مبنی ہے ۔
اس علم و دانش کے دو بالکل مختلف ہدف و مقصد ہو سکتے ہیں ، ایک ہدف وہ ہے جو موجودہ ترقّی یافتہ سائنسی دنیا کے مدِّ نظر ہے ، یہ ہدف ایک نہایت ناپاک اور پلید ہدف ہے، ان کے کھوکھلے دعوؤں کو نہ دیکھئے ، مغربی دنیا کی سائنسی ترقّی کی حقیقت ایک انتہائی تلخ اور افسوس ناک حقیقت ہے ، ہم کسی بھی قیمت پر اس راستہ میں قدم رکھنے کے لئے تیّا ر نہیں ہو سکتے ، جب سے مغربی دنیا میں سائنسی تحریک کا آغاز ہوا ہے ، اس انقلاب سے پہلے وہاں پر فکری انقلاب آیا جو اس سائنسی و علمی انقلاب کا پیش خیمہ تھا ، یہ فکری انقلاب سولہویں صدی عیسوی میں برطانیہ ، اٹلی اور دیگر یورپی ممالک میں شروع ہوا جو اٹھارہویں صدی عیسوی میں برطانیہ کے صنعتی انقلاب پر منتج ہو ا ، ابتداء میں وہاں پر بڑے بڑے کارخانے وجود میں آئے ، اس کے بعد کے عشروں میں رفتہ رفتہ وہاں بڑی بڑی مشینیں تیّار کی گئیں اور ان کے ذریعہ خوب پیسہ کمایا گیا اس صنعتی انقلاب کی وجہ سے خود ان ممالک کے عوام پر کیا بیتی اسے رہنے دیجئے ، وہاں نہ جانے کتنے حق پامال ہوئے ، کتنے فقیروں اور غریبوں کی جانیں گئیں، ان مشینوں کے سبب جو طبقہ وجود میں آیا اس نے وہاں کے عوام پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ ڈھائے اس کی داستان کو رہنے دیجئے ، اس کے بعد رفتہ رفتہ یہ علم و ٹیکنالوجی دیگر یورپی ممالک تک پہنچی ، جس نے بہت سی قوموں کی آزادی اور شناخت کو چھین لیا، جس نے بہت سی قوموں اور ملکوں پر ظلم و ستم اور درندگی کا بازار گرم کیا ۔ جن ممالک کے پاس یہ ٹیکنالوجی تھی ان میں یہ احساس بیدار ہوا کہ اس ٹیکنالوجی کی بقا کے لئے انہیں خام مواد کی ضرورت ہے ، انہیں فروخت کرنے کے لئے عالمی منڈی تک رسائی ضروری ہے ، یہی سوچ کر انہوں نے دیگر ممالک پر چڑھائی کا منصوبہ بنایا، انہوں نے دیگر ممالک کی تلواروں اور نیزوں کا مقابلہ کرنے کے لئے سائنس سے استفادہ کرتے ہوئے جدید جنگی ساز و سامان تیّار کیا، توپیں تیّار کیں ، اس کے بعد برطانیہ ، فرانس، ہالینڈ، پرتگال اور دیگر یورپی ممالک نے دنیا کے دیگر ممالک کا رخ کیا اورسائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے وہاں بے شمار جرائم اور خوفناک مظالم کا باعث بنے جنہیں اگر جمع کیا جائے توایک عظیم اور گریہ آور انسائیکلوپیڈیا وجود میں آسکتا ہے ۔۔ (۳) فقط امریکہ نہیں ہے ، امریکہ تو بعد میں ان سے ملحق ہوا ہے ۔
آپ ملاحظہ کیجئے کہ انہوں نے سرزمینِ ہند اور چین پر کیا مظالم ڈھائے ، برطانیہ نے انیسویں صدی عیسوی میں سرزمینِ ہند پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ ڈھائے کہ مجھے یقین ہے کہ آپ چونکہ تاریخ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے اس لئے آپ کوان کے ہزارویں حصّہ کا بھی علم نہیں ہے ، " نہرو " نے اپنی کتاب میں لکھا ہے ، کہ یہ لوگ ایک ایسے وقت میں ہندوستان میں وارد ہوئے جب( بقول اس کے ) ابھی صنعتی انقلاب رونما نہیں ہواتھا، بڑی بڑی مشینیں وجود میں نہیں آئی تھیں ، اس دور میں صنعتی اعتبار سے برِصغیرِ ہند کا شماردنیا کے پیشرفتہ ممالک میں ہوتا تھا ، انہوں نے اپنے ناپاک عزائم و مقاصد کے حصول کی خاطر ، اس سرزمین کے متوسّط طبقہ کو نابود کردیا ، مختلف محدودیتوں کے ذریعہ علم و صنعت کی ترقّی پر روک لگا دی ، انہوں نےاس سرزمین کو ایک دیرینہ اور پیچیدہ بیماری میں مبتلا کردیا ، کہ تقریبا ڈیڑھ سو سال کا عرصہ گزرنے کے بعد آج بھی وہاں پر اس بیماری کا علاج نہیں ہو سکا ہے ، انہوں نے چین میں بھی ایسا ہی کام کیا ، وہاں بھی انہوں نے ظلم و ستم اور المناک جرائم کا بازار گرم کیا ، وہاں کی قوم کی آواز کو دبا دیا ، یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے ، انیسویں صدی عیسوی کی بات ہے ، انہوں نے اس علم کی مدد سے افریقہ میں کیا کیا؟ برّاعظم امریکہ میں کن ہولناک جرائم کا ارتکاب کیا ، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں بے شمار آزاد انسانوں کو غلامی کا طوق پہنایا گیا ، کتنے ہی خاندان صفحۂ ہستی سے مٹ گئے ، انہوں نے اس طریقہ سے سائنس و ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کی ، لہٰذا ان کے علم و دانش کا ہدف و مقصد، تمام اخلاقی معنوی اور ایمانی قدروں کو نظر انداز کرتے ہوئے ، مال و دولت کاحصول تھا، اہل یورپ اس دور میں بھی تہذیب و تمدّن کا ڈھنڈوراپیٹ رہے تھے لیکن ان کا کردار اس دور کے سب سے زیادہ وحشی و جنگلی قبائل سے کہیں زیادہ بہیمانہ تھا ، جو باتیں میں آپ سے عرض کر رہا ہوں وہ کوئی نعرہ نہیں ہیں ، اس کی اسناد آج بھی موجود ہیں ، یہاں پر انہیں بیان کرنے کی فرصت نہیں ہے ۔اگر میں ان ہولناک جرائم کامحض ایک گوشہ بیان کرتا تو آپ دیکھتے کہ ان مغربی اور یورپی سامراجی طاقتوں نے سائنس و ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر مشرقی ایشیا ،افریقہ اور دنیا کے دیگر خطوں میں مظالم کے کیا پہاڑ ڈھائے ہیں ، ان کے لئے صرف پیسہ کی اہمیت تھی اس لئے ان کی نظر میں اخلاق، مذہب اور خدا کی کوئی حیثیت نہیں تھی ، ہمیں ایسے علم کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، چونکہ جب ایسا علم اپنے عروج پر پہنچتا ہے تو اس مقام پر پہنچتا ہے جہاں آج کے مغربی ممالک پہنچے ہیں ، یہ علم ایٹم بمب کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ، بے پناہ ظلم و ستم کا باعث بنتا ہے ، جمہوریت کے سب سے زیادہ دعویدار ملک یعنی امریکہ جمہوریت کی پامالی کا سبب بنتا ہے ، روزافزوں طبقاتی فاصلوں کا باعث بنتا ہے ، ایک ترقّی یافتہ ملک میں لاکھوں بے گھر اور فقیر افراد کے وجود کا باعث بنتا ہے ۔ ہم ایسے علم کی تلاش میں نہیں ہیں ، اس علم کا کوئی فائدہ نہیں ہے ، نہ تو انبیائے کرام علیہم السّلام کی تعلیمات اور نہ ہی اسلامی تعلیمات اور انسانی ضمیر ہمیں ایسے علم کی جانب راغب کرتا ہے ، ہمیں ایسے علم کے حصول کا کوئی شوق نہیں ہے ۔
ہم اس علم کے خواہاں ہیں جو تہذیبِ نفس کے ساتھ ہو ، جلسہ کے آغاز پر جن آیات کریمہ کی تلاوت کی گئی وہ اسی نکتہ کی طرف اشارہ کر رہی ہیں " ھو الّذی بعث فی الامّیین رسولا منھم یتلو علیھم آیاتہ و یزکّیھم و یعلّمھم الکتاب و الحکمۃ" (۴) (اس خدا نے مکّہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو ان ہی میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے )سب سے پہلے تزکیہ و نفوس کی پاکیزگی کی بات ہے ، دین ، قرآن اور اسلام کی تربیت یہ ہے ، سب سے پہلے پاکیزگیٔ نفوس کی بات کیوں کی گئی ہے ؟ چونکہ اگر نفس کا تزکیہ نہ ہو تو علم اپنے راستہ سے منحرف ہو سکتا ہے ، علم ایک آلہ ہے ، ایک اسلحہ ہے اگر یہ اسلحہ کسی خبیث، قاتل اور بدطینت فرد کے ہاتھ لگ جائے تو ہولناک جرائم کا مرتکب ہو سکتا ہے ، لیکن یہی اسلحہ اگر کسی صالح اور نیک انسان کے ہاتھ میں ہو تو انسانوں کے دفاع، لوگوں کے حق کے دفاع اور اپنے خاندان کے دفاع کا وسیلہ قرار پا سکتا ہے۔ علم کے اسلحہ کو تبھی ہاتھ میں لینا چاہیے جب نفس پاکیزہ ہو ، میری آپ کو یہ نصیحت ہے ۔
الحمد للہ آپ ایسے جوان ہیں جنہیں پرودگارِ عالم نے ایک اسلامی اور دینی ماحول میں پروان چڑھنے کی توفیق عنایت کی ہے ، بہت بڑی سعادت ہے ، یہ اسی چیز کے مشابہ ہے جس کی امام حسین علیہ السّلام دعائے عرفہ میں دعا مانگ رہے ہیں ،آپ فرماتے ہیں : خدایا میں تیرا انتہائی شکرگزار ہوں کہ تو نے مجھے اسلامی حکومت ، پیغمبرِ اسلام کے دور میں پیدا کیا ۔ البتّہ ہمارے اور امام حسین علیہ السّلام کے درمیان زمین آسمان کا فاصلہ ہے ، لیکن ہم انہیں کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں ، یہ ہمارے اور آپ کے لئے ایک بہت بڑی توفیق ہے ۔
ہمیں علم کو خدمت ِ خلق، معنویّت اور انسانی فضائل کی ترویج اور انسانوں کے حقوق کے حقیقی دفاع کے لئے حاصل کرنا چاہیے ، قومی ثروت و طاقت کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ یہ قوم اس کے ذریعہ دنیا میں عدل و انصاف کا پرچم لہرا سکے ، ہم کسی پر ظلم نہ ڈھائیں، مظلوموں کی مدد کریں ، ظالموں کا مقابلہ کریں ان کے روبرو ہو سکیں، ظلم پر لگام لگائیں ۔ آپ اس بات کا تصوّر تو کیجئے کہ اگر آج کی دنیا میں جہاں ہر طر ف ظلم و ستم ، سرکشی، قوموں کے استحصال ، استعمار اور استثمار کا دور دورہ ہے ، جو بھی سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں قدم رکھتا ہے وہ انہیں اہداف و مقاصد کا تعاقب کرتا ہے آج کی دنیا ، تسلّط پسند اور تسلّط پذیر ممالک میں تقسیم ہو چکی ہے ، یہ دونوں مل کر تسلّط پسندانہ نظام کو وجود میں لائے ہیں ایسی دنیا میں ایک ایسی قوم سراٹھائے جو علم و طاقت سے سرشار ہو ، دنیا میں ایک نیا نظریہ پیش کرسکتی ہو ، اپنی آواز کو دنیا کے کانوں تک پہنچانے پر قادر ہو ، پیشرفتہ ٹیکنالوجی، ٹیلی مواصلات اور دیگر وسائل سے آراستہ ہو ، اس قوم کے افراد میں خود اعتمادی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو ، وہ قوم ان وسائل سے لیس ہو کر ان تسلّط پسند طاقتوں کا مقابلہ کرے ، جہاں پر کسی مظلوم قوم کو دبانے کے سبھی ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہوں وہ اس قوم کے دفاع کے لئے سینہ سپر ہوجائے تو آپ دیکھیں گے کہ دنیا میں کیا انقلاب رونما ہو سکتا ہے ، دنیا کی کایا پلٹ سکتی ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے لئے کام کیجئے ، علم کو اس ہدف کے تحت حاصل کیجئے ، اس مقصد کے تحت کام کیجئے یہ بہت ضروری چیز ہے ، ورنہ اگر ہم بھی اسی روش کو اختیار کر لیں جو گزشتہ دو، تین صدیوں سے دنیا کے دیگر طالبانِ علم اور صاحبانِ ٹیکنالوجی نے اختیا ر کر رکھی ہے اور ہم بھی ان کی صف کے آخر میں کھڑے ہوجائیں ، انہیں کے نقشِ قدم پر چلیں تو اس میں کون سا ہنر ہے ؟ یہ وہ ہدف نہیں ہے جس کے لئے ہم جان کی بازی لگائیں ، ہمیں نئی راہوں کو تلاش کرنا چاہیے ، نیا راستہ یہ ہے کہ ایک قوم علم و اقتدار سے سرشار ہو تے ہوئے دنیا میں الٰہی جذبہ، الٰہی اخلاق اور اقدار کا پرچم لہرائے ، ہم آپ سے یہ توقّع رکھتے ہیں ۔
خدایا! اس قابلِ فخر راستہ میں ہمارے جوانوں کی روزافزوں راہنمائی اور مدد فرما
والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) اصول کافی ، جلد ۲، صفحہ ۸۴
(۲)شرحِ نہج البلاغہ ، جلد ۲۰ ، صفحہ ۳۱۹
(۳) حاضرین ِ جلسہ میں سے ایک کا نعرہ ۔۔۔امریکہ مردہ باد
(۴) سورۂ جمعہ ، آیت ۲