ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر مععظّم انقلاب اسلامی کا بسیج سازندگی کے جوانوں سے خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

سب سے پہلے میں آپ عزیز جوانوں، عزیر بیٹوٓں ، فعّال و فرض شناس بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں ، آپ  اپنی موجودگی ، اپنی جوانی ، اپنی طاقت ، اپنے عزم و ولولہ ، امّید و ایمان کے جوش و جذبہ سے اس ملک و ملّت کو اس حسّاس و نازک دور میں رونق عطا کر رہے ہیں اور ہماری تاریخ کی عزّت و آبرو کو چار چاند لگا رہے ہیں ۔

اپنی تقریر کے آغار میں موجودہ دور میں آپ عزیز جوانوں کے بلندوبالا مقام کے بارہ میں ایک جملہ عرض کرتا چلوں ، میرے مخاطب اس دوستانہ نشست میں موجود جوان ہی نہیں ہیں بلکہ ملک کے ہزاروں بلکہ لاکھوں دیگر جوان  جوآج یہاں موجود نہیں ہیں لیکن وہ اسی عظیم کارواں کا حصّہ ہیں وہ بھی  میرے مخاطب ہیں، وہ جملہ یہ ہے ، میرے عزیزو!آپ کی جوانی اور اس کے اس طریقہ سے بسر ہونے پر ہر کوئی رشک کر رہا ہے ، ہر وہ شخص جو جوانی کے دور سے گذر چکا ہے وہ آپ  کی جوانی کے انمول دور کے اس راہ میں گذرنے پر رشک کر رہاہے ۔

دنیا کے دیگر ممالک سے تعّلق رکھنے والے آپ کے ہم عمر جوان ، جوانی کے اس قیمتی دور کو کن  جذبات و توہّمات اور سرگرمیوں میں بسر کر رہے ہیں ؟ ترقّی یافتہ ممالک کے جوانوں کی جوانی کے حسین دور پر مایوسی ، افسردگی  کے بادل منڈلا رہے ہیں ، بہت سے جوانوں کی زندگی کا مقصد دنیاکی چند حقیر و ناچیز مادی  خواہشوں کے حصول تک محدود ہے ، وہ نہ تو خدمتِ خلق کی لذّت کو محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی جوانی کے اس عظیم و نایاب دور کو اس کے شائستہ و مناسب امور میں صرف کرتے ہیں ، ان میں سے بعض  کے لئے بلند و بالا اہداف و مقاصد تو دور کی بات ان کی زندگی بالکل بے مقصد وبے  معنیٰ ہے وہ اپنی روز مرّہ کی زندگی کو اس مادی دنیا کے زود گذر اور ملال آور زرق برق اور  نفسانی خواہشات کی نذر کر رہے ہیں ، وہ اس تابناک معنوی روح سے بالکل بے خبر ہیں  جس سے ایک مؤمن ، خدمتِ خلق کا عاشق، عشق، حسن و حقیقت کادلدادہ جوان سرشار ہوا کرتا ہے ، وہ ان مسائل کو سمجھنے سے قاصر ہیں ، اگر ان میں چشمِ بصیرت ہوتی توآپ کی جوانی ان جیسے انسانوں کے لئے بھی رشک کرنے کی سزاوار ہے  ۔

آپ اس دور ، اس ہدف و مقصد اور اس  جذبہ کی قدر و قیمت جانئے ، خدمتِ خلق کی جو نعمت اور طاقت پروردگارعالم  نے آپ کو بطورِ تحفہ عطا کی ہے اس کی قدرومنزلت کو پہچانئے ، خدا کا شکر بجا لائیے ، اس معنوی خزانہ میں اضافہ کی دعا کیجئے ، آپ جان لیجئے کہ جس سماج اور ملک کے پاس ایسا عظیم و قیمتی سرمایہ ہو وہ یقینا عزّت و عظمت کی سب سے اونچی چوٹیوں  تک رسائی حاصل کر لےگا، یہ آپ کے معاشرہ و ملک  کی حتمی و ناقابلِ تردید تقدیر ہے ، اس کا اصلی عامل اورمحرّک  انجن یہی جذبہ ہے جو آپ میں کارفرما ہے ۔

یہاں پر چند جملے محروم دیہی و پسماندہ علاقوں میں انجام پانے والی اس عظیم تعمیری رضاکارانہ تحریک  کے سلسلہ میں عرض کردوں ، یہ تحریک رسمی طور پر گزشتہ دس سال سے جاری ہے ، یہاں پر میں اس بات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ اس تحریک  کی داغ بیل خود جوانوں نے ڈالی ، یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبہ نے رضاکارانہ طور پر مختلف جگہوں پر اس تحریک کو از خود شروع کیا ، سنہ ۱۳۷۹ ھ ، ش  میں اس حسین اور باشکوہ اقدام کی رپورٹ ہمیں پیش کی گئی جو پورے ملک میں جوانوں کی تعمیری رضاکار فورس کی تشکیل کے پیغام پر منتج ہوئی ۔

انقلاب کے اوائل میں جہاد سازندگی  تحریک  کی مانند  یہ تحریک بھی ایک  رضاکارانہ عوامی تحریک ہے ، جہادِ سازندگی تحریک بھی اسی نوعیت کی تھی ، اسے بھی جوانوں نے شروع کیا تھا ، وہ ان دشوار اور پیچیدہ حالات میں رضاکارانہ جذبہ کے تحت دیہاتوں میں خدمتِ خلق کے لئے حاضر ہوئے ان  کے اس اقدام کی امامِ امّت (رہ) نے حوصلہ افزائی فرمائی اور حضرت امام (رہ) نے جہادِ سازندگی نامی ادارہ کی تشکیل کا حکم صادر کیا ، عوام کے اقدام سے ملک کی انتظامیہ اور اعلیٰ اہلکاروں  کو الہام ملتا ہے ۔

ان رضاکارانہ تحریکوں کے پسِ پردہ کون سے عوامل کارفرما ہیں ؟ عشق و ایمان، بصیرت و ہمّت ان تحریکوں کے اصلی ستون ہیں ، عشق وایمان ان کا اصلی محور ہے ، جو انسان ایمان کی دولت سے محروم ہو وہ اس رضاکارانہ عمل کے لئے کسی محور کا تصوّر نہیں کر سکتا ، جس انسان میں عشق کا احساس اور قلبی ایمان نہ پایا جاتا ہو وہ اس تحریک کو جاری نہیں رکھ سکتا ، جس شخص میں عزم و ہمّت کی کمی ہو وہ معمولی اور چھوٹے  چھوٹے کاموں پر اکتفا کر لیتا ہے ، اس کی نگاہیں بلندیوں اور اونچائیوں کی طرف نہیں جاتیں ۔جو انسان  بصیرت سے محروم ہو وہ راستہ سے بھٹک جاتا ہے ، اگر اس میں عشق و ایمان پایا جاتا ہو تو اسے غلط راستہ میں استعمال کرتا ہے اور ٹیڑھے راستہ پر چل پڑتا ہے ۔ عشق و ایمان ، ہمّت و بصیرت  جیسی چیزوں کو انقلاب نے  ہمارے عوام اور معاشرہ کو عطا کیا لہٰذا انقلاب وہ شجرہ طیّبہ ہے جس کے بارہ میں قرآنِ مجید کا ارشاد ہے :"الم ترکیف ضرب اللہ مثلا کلمۃ طیّبۃ کشجرۃ طیّبۃ" ۔ (۱) (کیا تم نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح کلمۂ طیّبہ کی مثال شجرۂ طیّبہ سے بیان کی ہے ) کلمۂ طیّبہ اس درخت کی مانند ہے جس کی جڑیں مضبوط و سالم اور طیّب و طاہر ہیں" اصلھا ثابت و فرعھا فی السّماء "؛ ( جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے )جس کی جڑیں مضبوط و گہری ہوں جس کی شاخیں سرسبز و شاداب ہوں " تؤتی اکلھاکلّ حین باذن ربّھا"؛ (یہ شجرہ ہر زمانے میں حکمِ پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے )  یہ ایسا درخت ہے جو ہمارے معاشرہ کوہر موقع و مناسبت سے پھل دیتا  ہے ، یہ کلمۂ طیّبہ ہے ، اسلامی انقلاب اس خاصیت کا حامل ہے ، اولیاء خدا، انبیائے کرام ، شہداء ، آئمّۂ معصومین اورصدّیقین کے حقیقی پیروکار حضرت امام (رہ) نے جس انقلابی تحریک کو ہمارے سامنے پیش کیا وہ یہی کلمۂ طیّبہ ہے ۔

کسی دن ملک کے اندرونی محاذ پر دفاع کی ضرورت تھی تو کبھی ملک کی سرحدوں کا دفاع ضروری تھا ، کبھی سائنس و ٹیکنالوجی  کے میدان  میں ترقّی کا مسئلہ سامنے آیا تو کبھی مذہبی عقائدو ایمان کی حفاظت کا مسئلہ در پیش ہوا ، کسی دور میں عوامی خدمت کا محاذ سامنے آیا ، ان تمام مراحل میں اسلامی انقلاب   نےہمارے معاشرہ کو موسم کے عین مطابق پھل دیا ہے ، یہ انقلابی تحریک کا خاصّہ ہے ۔

کچھ لوگ اس خام خیالی کا شکار تھے کہ انقلاب فرسودہ و کہنہ ہو چکا ہے ، انقلاب فرسودہ ہو سکتا ہے ، انہوں نے کھلے عام اعلان کیا کہ انقلاب ختم ہو چکا ہے !ایسا نہیں ہے بلکہ وہ خود ختم ہو چکے تھے ، ان کی پونجی تمام ہو چکی تھی ، وہ انقلاب کے راستہ کو جاری رکھنے پر قادر نہیں تھے ، انہوں نے  دنیا، معاشرہ اور انقلاب کو اپنے اوپر قیاس  کرنے کی بہت بڑی بھول کی " نسوااللہ فأنساھم انفسھم " ؛ (۲)(انہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں خود فراموشی میں مبتلا کر دیا )اگرخدا سے انسان کا رابطہ منقطع ہو جائے تو  اپنے معاشرہ اور امنگوں  کی شناخت تو بہت دور کی بات ہے وہ اپنی صحیح شناخت سے بھی عاجز ہوجاتا ہے ، انسان کا رابطہ خدا سے منقطع کیسے ہوتا ہے ؟ جب انسان پر مادی اور نفسانی خواہشات غالب آجائیں، اس پر خودغرضی کا غلبہ ہو تو یہ چیزیں اس ضعیف الایمان اور کم ہمّت شخص کو  مکڑی کے جال کی طرح اپنے نرغے میں گھیر لیتی ہیں ، اسے آگے بڑھنے سے روک دیتی ہیں ، ماضی میں بھی ایسے افراد کی مثالیں کم نہیں تھیں اور آئندہ بھی ایسے افراد پائے جائیں گے ، یہ انقلاب کے قافلہ سے پیچھے رہ جانے والے لوگ ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو انقلاب کے راستہ  سے پیچھے رہ جاتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ  یہ لوگ پہلے دن سے انقلاب کی دشمنی و مخالفت پر کمر بستہ تھے بلکہ جب ان پر مادی جذبات  غالب آتے ہیں تو راستہ میں رہ جاتے ہیں ، جب چھوٹے و حقیر اہداف و مقاصد ، پیسہ و دولت کا حصول ، منصب و مقام کی لالچ ، ظاہری زرق وبرق کسی شخص کا نصب العین بن جائے تو اصلی ہدف و مقصد فراموشی کی نذر ہو جاتا ہے ۔

اگر ہم کسی ہدف کے حصول کی خاطر راستہ چل رہے ہوں اور راستہ میں کسی سبزہ زار یا خوشگوار چشمہ ، یاچائے خانہ کو دیکھ کر ہمارا دل پھسل جائے اورہم پر سستی طاری ہو جائے اور ہم وہیں پڑاؤ ڈال دیں اسے ہدف فرض کر لیں ، عیش و آرام میں مشغول ہوجائیں تو یقیناہم اپنے اصلی ہدف و مقصد سے غافل ہوجائیں گے ، یہ وہ مصیبت ہے  جس نے  کچھ لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، انہوں نے دوسروں کو بھی اپنے اوپر قیاس کیا اور یہ نعرہ لگایا کہ انقلاب ختم ہو چکا ہے ، امام امّت (رہ) فراموشی کی نذر ہو چکے ہیں ؛ وہ غلط سوچ  رہے تھے ، انقلاب ایک الٰہی حقیقت ہے ، انقلاب لوگوں کے جذبۂ ایمان پر استوار ہے ، عشق سے لبریز جذبات پر قائم ہے ، لوگوں کی سیاسی بصیر ت پر استوار ہے ۔ کیا ایسی چیز بھی ختم ہو سکتی ہے ؟ یہی وجہ ہے میں نے بارہا اس بات کو دہرایا ہے اور آج پھر دہرا رہا ہوں کہ ہمار ی موجودہ جوان نسل جسے انقلاب کی تیسری نسل سے تعبیر کیا جاتا ہے ، ایمان و عقیدہ ، جوش وخروش، عزم و ولولہ اور سیاسی بصیرت کے ا عتبار سے انقلاب کی پہلی نسل سے آگے نہ بھی ہو تو اس سے کسی درجہ پیچھے نہیں ہے ۔

اس دور میں بہت سے افراد ایسے بھی تھے جو میدانِ کارزار میں داخل ہونے کے بعد وہاں ثابت قدم نہیں رہ پاتے تھے لیکن آج کا جوان  موجودہ دور کے تمام شیطانی وسوسوں ، شہوت و خود پرستی کی بے شمار رکاوٹوں کے باوجود جب اس کے سامنے فرض کی ادائیگی کا مرحلہ آتا ہے تو بے خطر میدان میں کود پڑتا ہے اور کسی بھی ایثار و قربانی سے دریغ نہیں کرتا ، اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے ، اس کی اہمیت کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے ۔

اس رضاکار ادارے ، دیہی اور دور دراز علاقوں میں ان رضاکار افراد کے سفر کی قدر کیجئے ، آپ حضرات جو خود بھی اس عظیم  تحریک کا اصلی محور ہیں آپ بھی اس کی قدر جانئے ، خدا کا شکر بجالائیے  ، ملک کے ذمّہ دارحضرات ، دیگر عام افراد، ملکی انتظامیہ اورجو لوگ اس ادارہ سے وابستہ ہیں وہ بھی اس  عظیم تحریک کی قدر کو پہچانیں ، نئے تعلیمی سال کا آغاز ہو چکا ہے ، اپنے دروس کو اچھی طرح پڑھئے ، ان میں تحقیق کیجئے ، اپنے اندر علم کے اعلیٰ درجوں تک پہنچنے کا عزم و حوصلہ پیدا کیجئے ۔ فرصت کے اوقات کو خدمتِ خلق جیسے حسین و باشکوہ اقدام کے ذریعہ پر کیجئے ۔

دور دراز دیہاتوں اور پسماندہ علاقوں کے سفر اور اس عظیم تعمیری رضاکارانہ ادارے کے قیام کی سب سے بڑی برکت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ  غریب اور پچھڑے ہوئے عام کی خدمت انجام پاتی ہے ، دسیوں لاکھ افراد ،معنوی و مادی، روز مرّہ زندگی کے امور اور ہدایت و راہنمائی کے اعتبار سے آپ کے خدمات سے مستفید ہوتے ہیں ، اگر آپ وہاں پر قرآن کا درس نہ بھی دیں تو بھی کسی دیہات میں ایک مؤمن، دیندار اور پابندِ شریعت جوان کی  موجودگی قرآنی آیات کا مجسّم نمونہ شمار ہوتی  ہے ، انہیں دین ، انقلاب اور معنویّت کی دعوت دیتی ہے ، " کونوادعاۃ للنّاس بغیر السنتکم"؛(۳)آپ اپنے کردارو عمل سے لوگوں کو ایمان و اسلام اور دین کی دعوت دیتے ہیں ، یہ بھی عوام کی ایک بہت بڑی خدمت ہے ، آپ عوام کی معنوی و مادی خدمت کرتے ہیں، اس سے زیادہ اہم وہ خدمت ہے جو آپ  خود اپنے لئے انجام دیتے ہیں ، اس کے ذریعہ آپ اپنی اندرونی استعداد کو پھلنے پھولنے کا موقع دیتے ہیں ، تجربہ حاصل کرتے ہیں ، عوام کی زندگی سے آشنا ہوتے ہیں ، اس کے ذریعہ مختلف طبقاتی دیواریں مسمار ہو جاتی ہیں ، آپ زندگی کے حقائق کو نزدیک سے محسوس کرتے ہیں ، آپ کے اندر خدمتِ خلق کا جذبہ اور شوق پیدا ہوتا ہے ، آپ اپنے وجود میں اس احساس کو زندہ کرتے ہیں ، جو شخص خدمت اور کام کی لذّت کو محسوس کر لے وہ کام کرنے سے کبھی بھی  خستہ نہیں ہوتا ہے ، جیسا کہ مختلف رپورٹوں میں  عزیز بھائیوں  نے بھی اس کا ذکر کیا ، میں نے اس سے قبل بھی مختلف رپورٹوں میں اسے پڑھا ہے ؛ جس جوان نے اپنے وجود میں اس لذّت کو کشف کیا وہ خدمت سے کبھی بھی نہیں تھکتا ، یہ عوام کی خدمت کا دوسرا فائدہ ہے جو در حقیقت ایک بہت بڑا فائدہ ہے ۔

تیسرا فائدہ یہ ہے کہ آپ اپنے اس عمل سے محنت و جدّوجہد کے سفیر قرار پائیں  گے ، جب آپ کسی صحراء ، کسی پہاڑی علاقہ ، کسی دوردرازعلاقہ کے محروم و پسماندہ عوام  کی خدمت بہم پہنچانے میں مشغول ہوتے ہیں تو وہاں کے جوانوں میں  بھی خدمت اور کام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، وہ آپ سے الہام حاصل کرتے ہیں ، لہٰذا آپ خدمت ، محنت و عمل کے سفیر کا کردار ادا کرتے ہیں ۔" من احیاھا فکأنّما احیا النّاس جمیعا" (۴) (جس نے ایک شخص کو زندگی دے دی اس نے گویا سارے  انسانوں کو زندگی دے دی)آپ دلوں کو زندہ کرتے ہیں ، یہ بہت بڑافائدہ ہے ، آپ کی رضاکارانہ تحریک میں بہت سے فوائد  ہیں ، اس عظیم تحریک کی حفاظت کیجئے ۔

میرے عزیزو! آپ کا ملک آپ کی قوم ایک انتہائی  نازک اور حسّاس تاریخی  موڑ سے گزر رہی ہے، ہم تیس سال سے اس موڑ سے گزر رہے ہیں ، اس دوران ہمیں انتہائی خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑا، ہم نے ان  نازک و حسّاس  رکاوٹوں کو پار کیا یہ رکاوٹیں ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں ، یہ حسّاس و نازک تاریخی موڑ صرف ایران کی تاریخ سے مختص نہیں ہے بلکہ اس کا تعلّق پوری امّت ِ مسلمہ سے ہے ، امّتِ مسلمہ گذشتہ کئی صدیوں سے جمود کا شکار ہے ، اس کی اہانت کی جارہی ہے ، وہ تہذیب و تمدّن کے قافلہ سے پچھڑ چکی ہے ،وہ بہت سے بدعنوان اور مطلق العنان حکّام کے چنگل میں گرفتار ہے ، آج یہ وقت آپہنچا ہے کہ امّتِ مسلمہ اپنے آپ کو ان مشکلات ، سختیوں اور آلودگیوں سے نجات  دلائے ۔ ایرانی قوم نے اس سلسلہ میں سب پہلا اور عظیم قدم اٹھا یا ہے ۔ آج کی دنیا ٹکراؤ کی دنیا ہے ، جنگ کی دنیا ہے ، مختلف طاقتوں میں مادی کشتی کی دنیا ہے ، وہ طاقتیں جو یہ نہیں چاہتیں کہ آزاد و خود مختار قومیں سراٹھائیں ، ان میں شخصیت اور میدان عمل میں موجودگی کا احساس بیدار ہو ، وہ طاقتیں خاموش نہیں رہتی ہیں  ، بیکار نہیں  رہتی ہیں ، بالخصوص جب کہ انہیں  یہ معلوم ہے کہ امّتِ مسلمہ کے اندر اسلامی احکام و قوانین پر استوار ایک اندرونی صلاحیت  موجز ن ہے ، یہی وجہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں امّتِ مسلمہ کے خلاف صف آرائی کرتی ہیں ، جیسا کہ آپ نے مشاہدہ کیا کہ انقلاب کی کامیابی کے آغاز سے  عالمی  سامراجی اور تسلّط پسند طاقتوں اور ایران کی شجاع و عظیم قوم کے در میان صف بندی  شروع ہو گئی ، سامراجی طاقتیں یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ ان کا نشانہ ایران ہے ، لیکن ان کی خصومت کا اصلی ہدف اسلام ہے ، اس کے عناد کا اصلی محور ،امّتِ مسلمہ ہے ، انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اس عظیم بیداری کا اصلی محرّک ، معنویت ، قرآن و اسلام ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اسلام اور قرآن سے آمادۂ پیکار ہیں ، البتّہ اس محاذ کوسب سے پہلے ایرانی قوم  نے توڑا، جس کی وجہ سے اسے ان کے مسلسل حملوں کا سامنا ہے لیکن تین عشروں کے  گزرنے کے بعد محاذتوڑنے والی اس عظیم طاقت  کے پائے ثبات میں ذرّہ برابر لغزش نہیں آئی ، اور  نہ ہی  اس نے اپنے قدم پیچھے ہٹائے بلکہ اس نے اپنے  عزم و ارادہ اور برق رفتاری میں مزید اضافہ کیا ہے  ۔

میں نے بارہا اس بات کا اعادہ کیا ، یہ کوئی نعرہ نہیں ہے بلکہ عین حقیقت ہے کہ  موجودہ دور میں  ہماراعزم و حوصلہ ، ہماری سیاسی بصیرت اور دیگر توانائیاں گزشتہ تیس برس کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہیں ، انقلاب کی راہنمائی ، انقلاب کی روح اور اس کے اہداف و مقاصد کہنہ و فرسودہ نہیں ہوئے ہیں جس کی وہ  امّید لگائے بیٹھے تھے ، اس کی سب سے بڑی دلیل اور گواہ آپ حضرات کا وجود ہے ، فعّال ،صاحبِ بصیرت ،اور عزم و ارادہ کی دولت سے مالا مال یہ جوان نسل ہے جو ہر میدان میں حاضر ہے ۔

اگر پیچیدہ ٹیکنالوجی کی بات ہے تو وہاں بھی یہی جوان دکھائی دیتے ہیں ، ہماری جوہری توانائی انہیں جوانوں کی مرہونِ منّت ہے ، بنیادی خلیوں کے میدان میں بھی یہی جوان سرگرم ہیں ، فیزیک ،  نانو ٹیکنالوجی اور پیچید ہ ٹیکنالوجی کے دیگر شعبوں میں بھی ہمیں یہی جوان  نظر آتے ہیں ، جوان ہر جگہ نظر آتے ہیں، وہ بھی  ایسے جوان  جنہوں نے نہ تو جنگ کا زمانہ دیکھا ، نہ امامِ امّت(رہ)  سے کبھی ملاقات کی ، اور نہ انقلاب کے دور کی کوئی یاد ان کے دل میں تازہ ہے ، یہ ایک انوکھی چیز ہے ، جب ہم میدانِ عمل اور خدمت پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس عظیم تعمیری رضاکار ادارہ (بسیج سازندگی ) کو دیکھتے ہیں ، جب سیاسی میدان میں موجودگی کی بات آتی ہے تو ۹ دی اور 22 بہمن کی عظیم ریلیوں پر نظر جاتی ہے ، صدارتی الیکشن کے بے مثال ٹرن آؤٹ پر نظر جاتی ہے ، اس کا معنیٰ و مفہوم کیا ہے ؟ اس کا مفہوم یہ ہے کہ موجودہ دور میں ہمارے جوان ( ہمارے ملک کی اکثریت جوانوں پر مشتمل ہے )اور پوری قوم انقلاب کے اہداف و مقاصد کی راہ پر گامزن ہے اور مسلسل آگے کی سمت بڑھ رہی ہے ،  پس ہم نے پیش قدمی کی ہے۔

دشمن کا حال اس کے بالکل بر عکس ہے ، وہ اس دن زیادہ طاقتور تھا لیکن آج بہت کمزور ہو چکا ہے ، اس دور میں ہمارے دشمنوں میں اس انقلاب کے خاتمہ کے بارے میں زیادہ امّید پائی جاتی تھی ، وہ اس انقلاب کو تین دن کے اندر ، ایک ہفتہ کے اندر ، دو مہینہ کے اندر ختم کرنے کی بات کر رہے تھے لیکن آج کوئی بھی ان سے ایسی بڑی بڑی باتیں سننے کو تیّار نہیں ہے ، آج وہ مایوس ہو چکے ہیں ، پسپائی پر مجبور ہو چکے ہیں ، ہمارا انقلاب مسلسل آگے کی سمت بڑھ رہا ہے ، ہم مکمّل احتیاط و تدبیر ، ہوش و حواس  اور پوری طاقت کے ساتھ اس تاریخی موڑ سے گزر  رہے ہیں ، ہماری اس پیش قدمی کے چند اصلی عامل ہیں ان میں سے ایک عامل آپ عزیز جوان ہیں ، آپ اس ملک کو آگے بڑھا رہے ہیں ، آپ اس ملک کی پیش قدمی کا ایک طاقتور انجن ہیں ، سبھی کو جوانوں کی موجودگی کی قدر کرنا چاہئے ، انشاء اللہ ہماری یونیورسٹیوں ، کالجوں ، اسکولوں اور دیگر  اجتماعی شعبوں  سے وابستہ جوانوں ، لڑکوں اور لڑکیوں  کے اس جذبہ میں روز افزوں اضافہ ہو گا ، اور یہ کام ایک نہ ایک دن ضرور ہوگا ، مایوسی اور افسردگی پر مبنی باتوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گایہ باتیں عام طور سے ان لوگوں کے منہ سے نکلتی ہیں جو خود مایوسی و افسردگی کا شکار ہیں ۔

یہ ایّام ہم پر مسلط کی گئی آٹھ سالہ جنگ کے آغاز کی سالگرہ کے ایّام ہیں ، ان آٹھ سالوں میں دنیا کی ساری بڑی فوجی طاقتوں نے ایران کے خلاف ایک دوسرے کا تعاون کیا ، یہ صحیح ہے کہ امریکہ و سابق سوویت یونین نے عملی طور اس جنگ میں اپنے فوجی نہیں اتارے  ،  انہیں اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی  چونکہ بے چاری عراقی قوم ان کے ہاتھوں اسیر تھی ، لیکن وہ جنگی سازو سامان بھیج رہے تھے ، میدانِ جنگ کے نقشے فراہم کر رہے تھے ، میدانِ جنگ کی سیٹلائٹ تصاویر صدّام کو دے رہے تھے ، اس کے لئے پیسہ بھیج رہے تھے ، اس کی سیاسی ساکھ  کو بحال  رکھ رہے تھے ، انقلاب ، امام (رہ) اور اسلامی نطام کے خلاف ان سے جو بھی بن پڑا انہوں نے اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، وہ ایران کے خلاف بے بنیاد جھوٹے پروپیگنڈے اور افواہیں  پھیلا رہے تھے اور انہیں دنیا میں نشر کرتے تھے ، انہوں نے یہ سب کام کئے لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ آج صدّام کہاں ہے ؟ وہ صدّام جسے انہوں نے ایران کی عزیز قوم ، امامِ امّت(رہ)  اور اسلامی انقلاب کے مقابلہ کے لئے تیّا ر کیا تھا ، وہ پہلے ساری دنیا میں ذلیل و رسوا ہوا اور آخرِ کا ر بہت بری موت مارا گیا، لیکن امام آج بھی زندہ ہیں ، انقلاب آج بھی زندہ ہے ، امام کے بیٹے آج بھی زندہ ہیں ، امام کی قوم آج بھی زندہ ہے ، یہ ایک بہت اہم تجربہ ہے ۔

جو لوگ بھی اسلامی جمہوریۂ  ایران کے خلاف  عالمی سامراج کے آلۂ کار بنیں گے ان کا حشر یہی ہوگا ، یہ ایک تجربہ  ہے اور مستقبل میں بھی یہی ہو گا ، امامِ امّت(رہ)  ہمیشہ زندہ رہیں گے ، انقلاب زندہ رہے گا ، آپ زندہ رہیں گے ، آپ کے دشمن ذلیل و رسوا ہو کر صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گے ، اس تحریک کو انقلاب کے اعلیٰ اہداف و مقاصد  کی بلندیوں تک پہنچنا چاہیے ، خداکے فضل و کرم اور لطف و عنایت سے یہ انقلاب اپنے اعلیٰ اہداف تک ضرور پہنچے گا ۔

آپ اپنی قدر و قیمت پہچانیں ، اس راستہ کی قدر پہچانیں ،   پروردِ گارِ عالم سے اپنے پاک وپاکیزہ دلوں کے رابطہ کو مزید قوی  بنائیے ، خدا سے مدد مانگئے ۔ فرض شناسی کا جو احساس آپ میں پایا جاتا ہے اس میں مزید اضافہ کیجئے  ، جس طریقہ سے شمع اپنے اطراف  میں ضوء فشانی  کرتی ہے آپ بھی اپنی فرض شناسی سے ماحول کو منوّر کیجئے ، اپنےخاندان ، دفاتر، درس ، معاشرہ اور اپنے ارد گردکے افراد  پر اثرڈالئے ، خدا کے لطف و کرم کے سایہ میں روربروز اضافہ  ہوگا ، انشاء اللہ پروردِ گارِ عالم آپ عزیز قوم سےاپنے  دستِ لطف وکرم کو نہیں اٹھائے گا ، انشاء اللہ آپ سبھی امامِ زمانہ (عج) کی دعاؤں میں شامل رہیں گے ، خدا آپ سبھی کو زندہ و سلامت رکھے ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) سورۂ ابراہیم ، آیت ۲۴

(۲) سورۂ حشر ، آیت ۱۹

(۳) بحار الانوار ، جلد ۶۷ ، ص ۳۰۹

(۴) سورۂ مائدہ ،  آیت ۳۲