ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی کا صدر اور کابینہ کے اراکین سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں اللہ تعالی کا بہت شکر گذار ہوں جس نے ہمیں ایک مرتبہ پھر یہ توفیق عطا فرمائی اور ہمیں حکومتی ہفتہ کی ایک اور مناسبت سے آپ دوستوں اورمحترم حکام سے یہاں ملاقات کا موقع فراہم کیا؛ ہم آپ حضرات کی کوششوں پر آپ کو مبارک باد اورشاباش بھی پیش کرتے ہیں اور اللہ تعالی کی بارگاہ سے آپ کے لئے اجر و پاداش اور توفیق کی درخواست بھی کرتے ہیں، میں اس جلسہ میں بعض نظریات، سفارشات اور تجاویز بھی پیش کروں گا البتہ بعض ایسےنظریات اور ایسی تجاویزبھی ہیں جو کبھی کبھی محترم حکام، محترم وزراء اور محترم صدر جمہوریہ  کو پیش کی جاتی ہیں؛ بعض چیزوں کو عام اجتماع میں بیان کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ ان چیزوں کا ایک اجتماعی پہلو ہوتا ہے۔

سب سے پہلے ہمیں اپنے عزیز شہیدوں ، مرحوم شہید رجائی، شہید باہنر اور اسی طرح شہید عراقی کی یاد کے بارے میں غفلت نہیں کرنی چاہیے؛ کیونکہ ان شہیدوں نے درحقیقت اپنا سب کچھ  انقلاب اسلامی کی اقدار کے حوالے کررکھا تھا۔ اور ان کے نام کے باقی رہنے کی ایک سب سے بڑی وجہ ، سب سے بڑی علت و سبب شاید یہی ہے، یہ اپنے بندوں کے بارے میں اللہ تعالی کا ایک قسم کا شکر و سپاس ہے؛ " انّ اللہ شاکر علیم" (1) اس کے باوجود کہ ہمارا اس سے کوئی مطالبہ نہیں ہے، اللہ تعالی بھی شکر ادا کرتا ہے، اللہ تعالی اپنے ان بندوں کا شکر ادا کرتا ہے جنھوں نے اس کی راہ میں اخلاص اور محبت کے ساتھ سے کام کیا اور اپنا تمام سرمایہ اس کی راہ لٹا دیا، شکر ادا کرنے کا ایک پہلو یہ بھی ہے، کہ یہ نیک نام کئی برسوں تک ان کے لئے باقی رہتا ہے۔ اور امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ ہمارے معاشرے میں یہ نورانی چہرے ہمیشہ زندہ اور درخشاں رہیں گے؛ کیونکہ یہ انقلابی قدروں کی علامت ہیں،ان کے نام کے زندہ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ انقلابی قدریں زندہ اور باقی رہیں، اور اس امر کو انشاء اللہ جاری و ساری رہنا چاہیے۔

بہت خوب، اس سال رمضان المبارک کا مہینہ بھی ہےاور انشاء اللہ اس مہینے کے فیوضات و برکات ملک ، حکومت اور حکام کے شامل حال رہیں گی۔ بالخصوص میں شبھای قدر میں دعا کرتا ہوں کل رمضان المبارک کی انیسویں شب تھی شب قدر تھی ہم نے اس میں آپ محترم حکام ، صدر جمہوریہ ، وزراء اور دیگر اہلکاروں کے لئے خصوصی دعا کی ہے اگر چہ ہماری دعا میں اتنی لیاقت نہیں لیکن پھر بھی اللہ تعالی سے طلب کرنا چاہیے خداوند متعال سےمانگنا چاہیے اور ہم نے اس سے مانگا اور طلب کیا ہے آپ بھی اللہ تعالی سےدعا کریں اور اللہ تعالی سے توفیق طلب کریں۔

جو چیز سب سے پہلے مرحلے میں آپ کے سامنےعرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ دسویں حکومت پر یہ سال جو گزرا ہے بڑا سخت اور دشوار سال تھا اور اس مدت میں قوہ مجریہ کی جانب سے جو امور انجام دیئے گئے ہیں انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ وہ امور حکومت اور حکام کی گرانقدر تلاش و کوشش اور جد و جہد کا مظہر ہیں ۔ حقیقت اور انصاف یہی ہے کہ اس سلسلے میں حکومت کی تلاش مشکور و ماجور تھی، یہ سال سیاسی اور سلامتی کے لحاظ سے بھی کافی سخت اور دشوار سال تھا ، ملک کے بعض حصوں جیسے اقتصاد اور ثقافت وغیرہ  پر اغیارکی جانب سے اثر انداز ہونے کے لحاظ سے بھی سخت سال تھا ، وہ لوگ جنھوں نے سنہ 1388 میں فتنہ شروع کیا- اس فتنہ کا منصوبہ یا انھوں نے خود بنایا تھا یا اغیار نے اس منصوبہ کوبنانے میں ان کی مدد کی؛ ہم کسی کی طرف کوئی بات منسوب نہیں کرناچاہتے لیکن یہ بات واضح ہے کہ یہ فتنہ ایک طے شدہ منصوبہ کے تحت تھا- ملک کو اس سے کافی نقصان پہنچا ہے اگر یہ فتنہ نہ ہوتا تو بیشک ملک کے مختلف اور گونا گوں امور میں خاطر خواہ ترقی حاصل ہوتی، انھوں نے دشمنوں کو امیدوارکیا ، انھوں نے دشمنوں کو حوصلہ دیا ، انھوں نے ان لوگوں کے حوصلے بلند کئے جو اسلامی نظام کے مخالف محاذ میں ہیں اور جنھوں نے انقلاب کی مخالفت میں ایک محاذ بنا رکھا ہے۔

البتہ آپ حضرات خوش قسمتی سے اعتقاد و یقین، ایمان اور استقامت کے ساتھ امور کو آگے بڑھانے میں کامیاب رہے ہیں؛ مختلف شعبوں میں ملک اور نظام کو در پیش مشکلات کوبرطرف کرنے میں آپ کو کامیابی ملی ہے، ہم نے مختلف شعبوں میں مشاہدہ کیا ہے، سخت اور دشوار مرحلوں اور مشکل گھاٹیوں سے مناسب طریقہ سے عبور کیا ہے ، میری نظر میں یہ بات بہت ہی اہم بات ہے، یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے جو اللہ تعالی کے لطف و کرم کا مظہر ہے۔ صدر محترم نے ان امور میں سے بعض کا اپنی رپورٹ میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے اسی سخت اور دشوار سال میں تمام مشکلات کے باوجود جو کام انجام دیئے گئے ہیں الحمد للہ اس سے بہت بڑی توفیقات حاصل ہوئی ہیں۔

بہت خوب ، یہ قدم بھی انھیں پالیسیوں اور منصوبوں کی سمت و سو ہےجوہم نے ان دو شہیدوں کے بارے میں ذکر کئے ہیں - یعنی شہید رجائی اور شہید باہنر –انصاف یہی ہے کہ یہ دونوں شہید بھی ایسے ہی تھے وہ بھی تلاش و کوشش کا پیکراور جد و جہد کا مظہر اور آئینہ تھے وہ ہمیشہ انقلاب اسلامی کے اصولوں کے پابند تھے جہاں حاضر ہوتے تھے وہاں اسلامی قدروں کا پاس و لحاظ رکھتے تھے اور ملکی امور میں اسلامی اقدار پرعمل پیرا رہتے اور انھیں اجرا کرتے تھے۔

گذشتہ برسوں میں بھی رسم کے مطابق ہفتہ حکومت منایا جاتا رہا اور ان دونوں شہیدوں کا نام عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا تھا؛ لیکن وہ لوگ جو ان دو شہیدوں کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں لیکن وہ  ان کی راہ و روش ، ان کی سمت و سو اور ان کےراستہ پر گامزن نہیں تھے جس راستہ  پر یہ دونوں شہید گامزن تھے۔

آپ کو اس بات پر فخر کرنا چاہیے کہ آپ الحمد للہ انقلاب کے اصولوں کے پابند ہیں اور یہ کہ آپ انقلاب کے نعروں کے حامی اور وفادار ہیں اور آپ ان نعروں کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں آپ اس پر فخر کرتے ہیں یہ بہت بڑی توفیق ہے، اس حکومت کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہےکہ اس نےانقلاب اسلامی کے نعروں کو اپنے نعرے قراردیا ہے اور اس پر سربلندی اور فخر کا احساس کررہی ہے اور لوگ بھی اسی وجہ سے آپ کی حمایت کرتے ہیں؛ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ لوگ ان نعروں سے دلبستہ ہیں ، عوام کا ان نعروں سے  انس و لگاؤ ہے، انصاف پسندی کا نعرہ عوام کے لئے جذاب اور ان کی امیدوں کے مطاق  ہے ؛ امیرانہ شان و شوکت اور اعلی طور طریقوں سے اجتناب کا نعرہ عوام کے لئے مطلوب اور جذاب نعرہ ہے؛یا عوام کو خدمات بہم پہنچانے کا نعرہ، یا سامراجی طاقتوں سے مقابلے کا نعرہ ، یا سادہ زندگی بسر کرنے کا نعرہ، یا عوام کی خدمت اور جد وجہد اور تلاش و کوشش کا نعرہ؛  یہ ایسے نعرے ہیں جو عوام کو پسند ہیں اور عوام ان پر عمل کا مطالبہ کرتے ہیں؛ ایک بیدار قوم ، ایک ملک کے لوگ،  ایک معاشرے و سماج کے لوگ اپنے حکام سے ان چیزوں کا مطالبہ کرتے ہیں؛ عدل و انصاف کا مطالبہ، خدمت بہم پہنچانے کا مطالبہ، عوام کے ساتھ ہمدردانہ رابطہ کا مطالبہ، دین کا مطالبہ، دینی اصولوں پر پابندی کا مطالبہ، شریعت پر پابندی کا مطالبہ، ان چیزوں کو عوام پسند کرتے اور حکام سے مطالبہ کرتے ہیں ، آپ نے بھی ان نعروں کا عوام سے وعدہ کیا ہے عوام نے بھی آپ کی حمایت اور آپ کو منتخب کیا ہےاس کو غنیمت جانیئے۔

میں بعض سفارشیں کچھ عناوین کے تحت کرتا ہوں ، بلند مدت اور کلی پالیسیوں میں حکومت کے لئے میری یہ سفارش ہے کہ ان پالیسیوں پر اچھی طرح اورسنجیدگی کے ساتھ عمل پیرا رہیں ان پالیسیوں سے منصرف نہ ہوں اور ان سےہر گز پیچھے نہ ہٹیں ، دینی پالیسی، اخلاق کی پالیسی، عدل و انصاف کی پالیسی، عوام کو خدمت بہم پہنچانے کی پالیسی ، دنیا کی منہ زور  اور عالمی سامراجی طاقتوں کے ساتھ مقابلہ کی پالیسی پر گامزن رہیں ، عوام میں سیاسی بلوغ اور علم و دانش کے روزبروز فروغ کی وجہ سے ان چیزوں کی نسبت مطالبہ میں مزید اضافہ ہوگیا ہے عوام ان چیزوں پر عمل کرنے کا سنجیدگی کے ساتھ مطالبہ کرتے ہیں سامراجی طاقتوں کے ساتھ مقابلہ کا مسئلہ آج عوام کے لئے انقلاب کے اوائل اور گذشتہ برسوں کی نسبت کہیں زيادہ مطلوب ، واضح اور آشکار ہے، آج عوام نے بہت سی چیزيں اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کی ہیں ، انھیں واضح تجربہ ہوگیا ہے؛ لہذا عوام کے لئے بہت سی چیزيں آج مزید آشکار ہوگئی ہیں، خدمت رسانی کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے؛ ملک کی پیشرفت کے لئے مسلسل سامراجی طاقتوں سے مقابلے کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے، یہ چیزيں آپ کی کلی پالیسیوں کا آئینہ ہونی چاہییں ان چیزوں پر عمل کو جاری رکھیں اور ان کی حفاظت کریں۔

کلی پالیسیوں میں ایک اور چیز جو حکومت کو مد نظر رکھنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ حکومت عوام کے لئے سہولیات فراہم کرے، حکومت کو عوام کے لئے زندگی بسر کرنے کی راہوں کو آسان بنانا چاہیے یہ ایک اہم عنوان ہے، اگر حکومت اس کام کو کرنے میں کامیاب ہوجائے تو پھر ہم مشاہدہ کریں گے کہ بہت سے اقتصادی مطالبات، حکومت سے متعلق بہت سے کام، یہی الکٹرانیک حکومت ، دیہاتوں میں خدمت رسانی کا  مسئلہ ، دیہاتوں سے شہروں کی جانب مہاجرت روکنے کا  مسئلہ ، اگر لوگوں کی معیشت اور زندگی کے لئے آسان اسباب فراہم کئےجائیں تو یہ تمام مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے،  لوگ آرام و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں گے، لوگ امن و سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں گے ، یہ کام مختلف شعبوں میں مؤثر اور مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

ایک دوسری بات جو کلی پالیسیوں میں حکومت کو مد نظررکھنی چاہیے وہ بلند مدت منصوبہ کے بارے میں ہے یہ طویل المدت منصوبہ ایک بنیادی و اساسی کام تھا جو ملک میں انجام پذیر ہوا؛ اس کام کا جائزہ لیا گیا ، اس کا مطالعہ کیا گیا، اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا گیا ، جو چیزيں اس  بلند مدت منصوبہ میں ذکر کی گئی ہیں وہ صرف نعرے نہیں ہیں بلکہ ملک کے حقائق اور وسائل کو دیکھ کر اس منصوبہ کو منظم اور مرتب کیا گیا ہے، یہ منصوبہ در حقیقت ہمارےملک کا بیس سالہ جامع نقشہ ہے ان بیس سالوں میں سے پانچ سال گذر گئے ہیں، ایک وقت ایسا ہوگا کہ یہ بیس سال آنکھ کے اشارے کی طرح گذر جائیں گے اور پتہ بھی نہیں چلے گا۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہم نے کتنی پیشرفت حاصل کی ہے ایک اہم کام یہی ہے جسے ہمیں انجام دینا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ہم نے اپنے اہداف کی جانب  اس  جامع نقشہ اور اس جامع منصوبہ کے مطابق کتنا سفر طے کیا ہے۔ اگر ہم اس بات کو مدنظر نہیں رکھیں گے تو ممکن ہے ہم آنکھ کھولیں اور دیکھیں کہ مثال کے طور پر دس بارہ سال گذر چکے ہیں اور ہم نے اس مدت میں جس راستہ کو طے کرنا تھا اسے طے کرپائے ہیں یا نہیں،  ہم نے اس  منصوبہ کے تحت کتنی پیشرفت حاصل کی ہے، باقی مدت میں اس کو مکمل کرنے کا  امکان ہے یا نہیں، لہذا ان کوششوں اور کاموں کے درمیان ایک صحیح تقسیم بندی ہونی چاہیے اس ہدف اور مقصد تک ہم نے جو راستہ طے کیا ہے وہ معلوم ہونا چاہیے تاکہ ہر وقت اور ہر دور کے مطابق ہم اپنے وسائل کی روشنی میں ترقی کرسکیں میری رائے کے مطابق اس کام کا ہمیں غور سے جائزہ لینا چاہیے یہ کام بھی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اسے اس کا غور سے جائزہ لینا چاہیے۔

چنانچہ اگر آپ مشاہدہ کریں کہ مثلا پانچ سال کی مدت میں ہمیں جن اہداف تک پہنچنا تھا ان تک نہیں پہنچ پائے ہیں تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہمارا پانچ سالہ منصوبہ کافی اور کامل منصوبہ نہیں تھا جس کی وجہ سے ہم پانچ سال کی مقدار میں آگے نہیں بڑھ سکے ہیں ، میری رائے کے مطابق ایسے لوگوں کو اس کام پر مامور کریں جو بیٹھیں اور عقلمندی، تدبیر و تدبر اور حقائق کے پیش نظر اس بات کا جائزہ لیں کہ ہماری پیشرفت ہمارے اہداف کے مطابق  ہورہی یا نہیں ، البتہ ممکن ہے شاید ایسے موارد میں دقیق محاسبہ نہ کیا جاسکے لیکن اجمالی طور پراس بات کو سمجھا جاسکتا ہے کہ ہم نے پیشرفت کی ہے یا نہیں ۔

ایک دوسری بات جو پالیسیوں کے بارے میں اہم اور ضروری ہے وہ یہی عشرہ عدالت و پیشرفت کا مسئلہ ہے ہم نے کہا کہ یہ عشرہ عدالت اور پیشرفت کا عشرہ ہے، اور یہ بات منظور اور قبول کرلی گئی اور ملک کے مختلف اداروں نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم اس عشرہ کو عدالت اور پیشرفت کا عشرہ قراردیتے ہیں اور اس عشرے کے بھی تقریبا دو سال بیت چکے ہیں البتہ انسان پیشرفت و ترقی کے مصادیق کومختلف شعبوں میں مشاہدہ کرتا ہے؛ یہی رپورٹیں جو پیش کی گئی ہیں ، اچھی رپورٹیں ہیں جو مختلف شعبوں میں ترقی اور پیشرفت کا مظہر ہیں؛ لیکن عدل و انصاف کیسے فراہم کیا جاتاہے؟ یعنی حقیقت میں ایک ضروری معیار موجود ہے، ایک لازمی معیار ہے کہ جس کےذریعہ ہم یہ دیکھیں کہ کیا مختلف شعبوں میں ، ثقافتی شعبوں میں، تعلیمی شعبوں میں ، اقتصادی شعبوں میں عدل و انصاف کی رعایت ہوئی ہے یا نہیں؟فرض کیجئے تعلیم کے شعبہ میں یا اعلی تعلیم کے شعبہ میں عدل وانصاف کا معیار کیا ہے؟ کیسے عدالت فراہم کی جائے گی؟ یہ مشخص اورمعلوم ہونا چاہیے تاکہ اس معیار کو ہم منصوبوں میں استعمال کریں اور عمل کے مقام میں اور نفاذ کے مقام میں مد نظر عدل و انصاف تک پہنچ جائیں جب تک ہم معیار کو معلوم نہیں کریں گے، جب تک ہم معیار کی تعریف معین نہیں کریں گے اس وقت تک عدالت کا صحیح نفاذ ممکن نہیں ہے، لہذا عدل و انصاف کے معیار کو مختلف شعبوں میں معلوم و مشخص کرنا خود ایک اہم اور ضروری کام ہے، فرض کیجئے مختلف شعبوں میں بجٹ کے استعمال میں عدالت کی رعایت ہوئی ہے یا نہیں ؟ میں نے اس سلسلے میں صرف ثقافت کے شعبہ کی طرف اشارہ کیا، کیسے انسان کو یہ یقین حاصل ہوسکتا ہےکہ مختلف شعبوں میں بجٹ کے استعمال میں عدل و انصاف کو مد نظر رکھا گیا ہے یا نہیں؟ ان کے لئے ضروری ملاک و معیارکیا ہیں؟۔

ایک مزید چیز جس کا کلی پالیسیوں میں لحاظ رکھنا ضروری ہے وہ پانچ سالہ منصوبہ ہے؛ پانچ سالہ منصوبہ پارلیمنٹ میں ہے جس کا پارلیمنٹ میں جائزہ لیا جارہا ہے اور امید کرتا ہوں کہ پارلیمنٹ اور حکومت کے درمیان حقیقی تعاون کا سلسلہ جاری رہے، فرض کیجئے حکومت نے ایک منصوبہ پیش کیا ہے اور اس کا اسی منصوبہ پراصرار بھی ہے، اگرپارلیمنٹ بھی اس میں بنیادی تبدیلی پیدا کرے، تو منصوبہ کے انسجام میں خلل پیدا ہوجائے گا،یا اگر ہم فرض کریں کہ پانچویں منصوبہ میں بعض تبدیلیاں پیدا کریں اور یہ تبدیلیاں ملک کے بلند مدت اور متحد منصوبہ کے مطابق نہ ہوں بلکہ تبدیلیاں کسی ایک شعبہ یا کسی ایک علاقہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کی گئی ہوں ، پھر بھی منصوبہ کے انسجام میں خلل پیدا ہوجائے گا۔ انسان جب کسی شعبہ یا کسی علاقہ پر نظر رکھتا ہے تو حقیقت میں وہاں موجود مسائل بہت بڑے نظر آتے ہیں ؛ اور حقیقت بھی یہی ہے، ضرورت بھی حقیقی اور واقعی ہے؛ لیکن جب انسان کلی اور مجموعی لحاظ سے  مسائل پر نظر دوڑائے گا تو مجموعی اور کلی مسائل کے سامنے وہ علاقائی مسائل چھوٹے، معمولی اور کمرنگ نظر آئیں گے؛ کیونکہ ان کے مقابلے میں باقی مسائل کو انجام دینا ضروری ہے جبکہ وسائل محدود ہیں، تو قدرتی طور پر مجموعی ضرورت کے سامنے علاقائی ضرورت ترجیحی ضرورت قرار نہیں پائے گي، اس زاویہ نگاہ سے منصوبہ کو دیکھنا چاہیے اور منصوبہ پر علاقائی، مقامی اور کسی ایک شعبہ کے حوالے سے  نگاہ نہیں رکھنی چاہیے بلکہ جامع نگاہ ہونی چاہیے۔

یہ بات اس طرف سے تھی؛ ادھر بھی وہ منصوبہ جو حکومت نے پیش کیا ہے اس کو اگرقابل  تبدیلی اور تنقید قراردیں تو اس سلسلے میں انعطاف کے ساتھ عمل کرنا چاہیے پارلیمنٹ اور حکومت دونوں کو اپنی ذمہ داریوں کے پیش نظر عمل کرنا چاہیے ایسا منسجم منصوبہ تیار کرنا چاہیے جو قابل عمل ہواور جس پر حکومت اور پارلیمنٹ کا باہمی اتفاق ہوتاکہ اس منصوبہ پر عمل کیا جاسکے۔

اقتصادی مسائل میں بھی اچھے اقدام اٹھائے گئے ہیں اور صدر جمہوریہ نے بھی اس سلسلے میں اپنی رپورٹ میں اشارہ کیا ہے ، اگرآپ اس رپورٹ کو عمومی طور پر نشر کریں تو بہت بہتر ہوگا؛ یعنی مختلف شعبوں میں حکومت کی طرف سے انجام دیئے گئے امور کے بارے میں سب کوعلم ہونا چاہیے تمام لوگوں کویہ رپورٹ سنانی چاہیے، وہ چیز جس پر میں تاکید کررہا ہوں وہ یہی اقتصادی میدان میں تحول و انقلاب اور تبدیلی ہے جس کا بیان نویں حکومت میں ہوا ہے اور سبسیڈی کو با مقصد بنانا اس اقتصادی انقلاب کا ایک اہم حصہ ہے اور اس کو نافذ کرنے کے لئے بحث و تبادلہ خیال جاری ہے؛ سبھی اس بات پر متفق ہیں، البتہ ممکن ہے کہ اس کے نفاذ کے طریقہ کار پر اختلاف نظر ہو لیکن اقتصادی تحول کے تجارتی ، مالی اور کسٹمز سے متعلق شعبوں کے بارے میں غفلت نہیں کرنی چاہیے؛ حتمی طور پر ان کا پیچھا کرنا چاہیے اقتصادی تحول کا منصوبہ ایک اہم اور عظیم منصوبہ تھا، میں سفارش کرتا ہوں کہ اقتصادی تحول کے اس عظیم منصوبہ کو راستہ میں نہ چھوڑ دیجئے اس کا پیچھا کیجئے اور اس کو ہدف تک پہنچائیے۔

اقتصادی شعبہ میں ہمیں جس چیز پر سب سے زیادہ توجہ دینی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہمیں اقتصاد شعبہ میں  بلند مدت معیاروں پر خصوصی توجہ مبذول کرنی چاہیے، البتہ صدر محترم کی رپورٹ میں بعض نکات اس سلسلے میں موجود تھے لیکن ہم بھی اس سلسلے میں تاکید کرتے ہیں حقیقت میں نرخ کی ترقی اور رشد کے مسئلہ پرکام ہونا چاہیے وہ چیز جو نرخ کے رشد کے عنوان سے بجٹ یا منصوبہ میں موجود ہے اوروہ  چیز جو حقیقت میں واقع ہوئی ہے اس میں بہت بڑا فاصلہ ہے البتہ ہم عالمی اقتصادی بحران اور اقتصادی مشکلات سے بھی غافل نہیں ہیں عالمی مالی بحران کا بھی اس پر اثر ہوگا لیکن ہمیں اس سلسلے میں تلاش کرنی چاہیے تاکہ ہم اس ہدف اور معیار کے قریب پہنچ جائیں جو اس سلسلے میں ہم نے مشخص کیا ہے، اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کے مسئلے پر بھی توجہ رکھنی چاہیے، جو اعداد و شمار بیان کئے جاتے ہیں وہ حوصلہ افزا ہیں ، بہر حال سرمایہ کاری کا مسئلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے، مستقبل ، مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری سے وابستہ ہے؛ انرجی کا شعبہ ہو یا دوسرے مختف شعبے ہوں تمام شعبوں میں سرمایہ کاری لازمی ہے۔

روزگار کی فراہمی کا مسئلہ بھی بہت ہی اہم مسئلہ ہے ، اس سلسلے میں جتنے منصوبے اور پروگرام پیش کئے گئے ہیں وہ زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوئے ہیں اگر چہ اس سلسلے میں  اب کچھ بہتر کام انجام پائے ہیں جو اچھے اور مفید ہیں؛ لیکن وہ ہمارے لئے کافی نہیں ہیں ہمیں روزگار کی فراہمی کے سلسلے میں خصوصی اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید اور درست استفادہ کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے۔

اقتصادی مسائل میں دیگر چیزيں بھی ہیں جن کے بارے میں ہم اکثرسفارش اور تاکید کرتے ہیں اوردفعہ 44 کی پالیسیوں کے بارے میں  مزید تاکید اور سفارش کرتا ہوں  دفعہ 44 کا مسئلہ بھی بہت ہی اہم مسئلہ ہے اور دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے گذشتہ طویل برسوں کی نسبت حالیہ چند برسوں میں  نجی شعبہ میں کافی پیشرفت ہوئی ہے جو اعداد و شمار پیش کئے جاتے ہیں وہ صحیح اور درست ہیں البتہ اس دور میں دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کو ابلاغ نہیں کیا گیا تھا یعنی اس دور میں دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کے بارے میں بحث ہی نہیں تھی، اس دور کو مد نظر نہیں رکھنا چاہیے؛ جب کلی پالیسیوں کا ابلاغ ہوا تو اس وقت اقتصادی مسئلہ ہی بدل گیا ؛ در حقیقت ملک کے اقتصادی شعبہ میں ایک نئی حرکت کا آغاز ہوگیا ہے ؛ لہذا کلی پالیسیوں کے ابلاغ سے قبل کا موازنہ کرنا صحیح اور فیصلہ کن نہیں ہے؛ اس دور میں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم نے دفعہ 44 کی کلی پالیسیوں کے بارے میں کیا کام کیا ہے؛ یہ اہم ہے، دیکھئے، دفعہ 44 کی اصل روح یہ تھی  کہ ہم پہلے عوام کے سرمایہ اور پھر عوام کی مدیریت کو اقتصادی شعبہ میں وارد کریں ،  اورپھرنجی سیکٹر میں عوام کا سرمایہ اور عوام کی مدیریت کو متحرک کریں؛ورنہ اگر حکومت کی مدیریت کا سلسلہ جاری رہے تو پھر مقصد حاصل نہیں ہوگا، البتہ کلی پالیسیوں کے دائرے میں رہ کر یہ کام ہونا چاہیے اور ان چیزوں کی رعایت ہونی چاہیے جو قانون میں بیان کی گئی ہیں، قانون بھی دقیق قانون ہے ، اچھا قانون ہے اور اس قانون کو مد نظر رکھنا چاہیے۔

البتہ بعض سیکٹروں میں نجی شعبہ سرمایہ لگانے میں ناتواں ہے یعنی حقیقت میں سرمایہ لگانے کی اس میں توانائی نہیں ہے، اچھا اس کا علاج کیا ہے؟ اگر خصوصی اور نجی شعبہ اسی طرح ناتواں رہے ، تو پھر کوئی بھی مشکل حل نہیں ہوگی؛ لہذا پالیسیوں کو اس سمت موڑنا چاہیے تاکہ خصوصی اور نجی شعبہ بڑا سرمایہ لگانے کا بوجھ اٹھا لے، یہ بھی ایک پالیسی بن جائے گی، البتہ حکومت جب اقتصادی شعبہ سے اپنی سرگرمیاں ترک کردے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومت اقتصادی میدان سے الگ ہوجائے گی، ایسا نہیں ، بلکہ پالیسیاں پھر بھی حکومت کے ہاتھ میں رہیں گی، یہ چیز حکومت کے ہاتھ میں ہے؛ یعنی پالیسی پھر بھی حکومت کو وضع کرنی چاہیے نگرانی اور نظارت حکومت کو رکھنی چاہیے۔

سن ساٹھ کی دہائی میں جب بعض حضرات حکومتی اقتصاد کو روزبروز قوی کرنے کی سمت بڑھ رہے تھے ، اس وقت میں یہ مثال بیان کرتا تھا کہ فرض کیجئے ، ایک موٹر ہے جو اس سنگین بوجھ کو مقصد تک پہنچا سکتی ہے اور آپ بھی موٹرکے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، یا آپ خود اس پر بیٹھ کر اسے چلارہے ہیں ، اگرآپ اس گاڑی کو الگ چھوڑ دیں، اور گاڑی کے تمام سامان کو آپ خود اپنے دوش پر اٹھا لیں اور سختی کے ساتھ راستہ چلیں  اور آگے بڑھیں ؛ اس طرح آپ نہ تو مقصد تک پہنچ پائیں گے بلکہ تھک بھی جائیں گے اور پورے سامان کو بھی نہیں اٹھا پائیں گے، لہذا یہ گاڑی بھی یہاں بےکار کھڑی رہےگی ، یہ گاڑی وہی نجی اور خصوصی سیکٹر ہے اس مثال کو اس دور کے حکام کے سامنے بیان کرتا تھا لیکن ان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا، حضرت امام (رہ) بھی فرماتے تھے جو کچھ ہے وہ عوام کے سپرد کریں، وہ لوگ کہتے تھے کہ عوام سے مراد نجی اور خصوصی سیکٹر نہیں ہے وہ حضرت امام (رہ) کی مراد کی بھی توجیہ کرتے تھے! عوام یعنی لوگوں کی ایک عظيم جماعت، لوگوں کی عظیم جماعت کی کس طرح مدد کی جاسکتی ہے؟ حکومت اقتصاد کو ہاتھ میں لے اور لوگوں کی مدد کرے، وہ امام (رہ) کی فرمائش کا یہ مطلب نکالتے تھے!لیکن یہ توجیہ ایک غلط توجیہ تھی۔

اب فضا ایک دوسری فضا ہےاور ماحول دوسرا ماحول ہے وہی لوگ جو اس دور میں یہ کہتے تھے اب وہ ایک سو اسی درجہ پھر گئے ہیں یعنی ان میں اب بھی  تعادل نہیں وہ درمیانی راستہ اختیار نہیں کررہے ہیں بلکہ افراط و تفریط کا شکار ہیں ، ادھر افراط سے کام لے رہے تھے ادھر تفریط پر کمر بستہ ہیں، آخر درمیانی راستہ بھی موجود ہے متعادل راستہ درمیانی راستہ ہے؛ سرمایہ کاری اور مدیریت عوام کے دوش پر رہے اور حکومت اچھی طرح اس کی ہدایت ، نظارت اور نگرانی اپنے ہاتھ میں رکھے، اگر انشاء اللہ یہ کام بحسن و خوبی انجام پا جائے البتہ مختصر مدت میں یہ کام انجام پانے والا نہیں ہے درمیانہ اور بلند مدت تک اگر یہ کام انجام پذیر ہوجائے تو ملک کے اقتصاد میں حقیقی انقلاب پیدا ہوجائے گا۔

البتہ اسمگلنگ کے ساتھ مقابلہ اورمالی  بد عنوانیوں کے ساتھ مقابلہ ، دوسری اہم چیزیں ہیں جن پر خصوصی توجہ مبذول کرنی چاہیے؛ یہ تمام چیزیں بھی کسی نہ کسی طرح اقتصادی مسائل سے جڑی ہوئی ہیں؛ ان چیزوں کے بارے میں پہلے بہت کچھ بیان کرچکا ہوں لہذا ان کے بارے میں مزید کچھ نہیں کہوں گا۔

ایک مزید اہم بات جس کے بارے میں سفارش کرنا چاہتا ہوں ، وہ ملک کی مدیریتوں کا مسئلہ ہے مدیریتوں میں ایک اہم مدیریت کابینہ کے وزراء ہیں ، کابینہ اور وزراء کی جگہ بہت ہی مہم ہے، ہمارا اعتقاد اور یقین ہے کہ وزراء کا نقش و کردار بہت ہی مؤثر اور اہم  ہے، کابینہ میں ہونے والا فیصلہ سب کے دوش پر، حکام کے دوش پر، عوام کے دوش پر،  قانونی ذمہ داری عائد کرتا ہے،لہذا کابینہ میں منظور ہونے والے امور کی بہت بڑی اہمیت ہے اورتمام اجرائی امور بھی حکومت ہی کے ہاتھ میں ہیں ۔

یہاں پر کچھ مسائل بنیادی اور اساسی مسائل ہیں جن میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ کابینہ کو اداروں کے باہمی تعاون میں اضافہ کرناچاہیے،یعنی اگر بعض اداروں کے درمیان تعارض پیدا ہوجائے کہ اکثر تعارض ہوتا ہے؛ قدرتی طور پر اکثر مختلف اداروں کے درمیان آپس میں تعارض پایا جاتا ہے اور یہ بات کوئی ہمارے ہاں سے مخصوص نہیں ہے، پوری دنیا میں ایسا ہی ہے؛ کام کا مزاج ہی ایسا ہے، کابینہ کے وزراء کو چاہیے کہ وہ اداروں کے درمیان تعارض کو کم کرنے کی کوشش کریں اوراگر برطرف کرسکتے ہوں تواس کو برطرف کریں ، یہ ایک اہم مسئلہ ہے میں اس کی مثال یوں بیان کرتا ہوں کہ یہ ایک چوراہا ہے یہاں کئی راستے نہیں ہیں، صدر ٹریفک پولیس کی مانند ہے جو کابینہ کی صدرات کے عنوان سے راہنمائی اور ہدایت کرتا ہے، ایک کو ٹھہرنے کی ہدایت کرتا ہے اور دوسرے کو چلنے کا اشارہ دیتا ہے یعنی ہدایت کرتا ہے راہنمائی کرتا ہے یہ باہمی تعاون ہے، ایک دوسرے سے تعارض نہ رکھیں ملکر کام کریں ، وزراء کا ایک اہم نقش و کردار یہ ہے۔

بعض اوقات یہ تعارض جو عمل اور اجرامیں پایا جاتا ہے نشریات میں بھی منعکس ہوتا ہے تو اس سے مسئلہ کئی گنا سنگین ہوجاتا ہے در حقیقت برائی مضاعف ہوجاتی ہے مثال کے طور پر ایک ادارہ ایک چیز کے بارے میں ایک نئی بات پیش کرتا ہے، ایک نئی خبر دیتا ہے، اظہار خیال کرتا ہے دوسرا ادارہ اس کے خلاف اور اس کے بر عکس بات کرتا ہے! لوگ حیران رہ جاتے ہیں، ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ادارہ صحیح کہہ رہا ہے یا وہ ادارہ صحیح کہہ رہا ہے ، یہ مسئلہ عوام کی زندگی سے مربوط ہوجاتا ہے؛ یعنی ایسا نہیں ہے کہ یہ مسئلہ لوگوں کی زندگی کے متعلق نہیں ہے؛ بلکہ یہ مسائل عوام کی زندگی اور عوام کے امور سے متعلق ہیں ، ایک ادارہ کچھ اعداد و شمار پیش کررہا ہے تو دوسرا ادارہ کچھ اور اعداد و شمار پیش کررہا ہے؛ یہ چیزيں نہیں ہونی چاہییں،تمام حکومتیں ان مشکلات میں مبتلا رہی ہیں، کابینہ اپنے اہم مجموعہ اور اپنے قیمتی اجلاس، اپنے اہم نقش و کردار اور صلاح و مشورے کے ذریعہ ان متضاد رپورٹوں اور اعداد و شمارکو کمترین سطح تک پہنچا سکتی ہے ۔

 ایک دوسرا مسئلہ جو کابینہ کے وزراء کے لئے بہت ہی اہم ہے، وہ وزراء کا اپنا اہم نقش و کردار ہے، کابینہ میں سب کی ذمہ داری مشترک ہے، آپ جب کابینہ میں بیٹھتے ہیں وہاں آپ کی ذمہ داری مشترکہ ہے ، ایسا نہیں ہے کہ ایک فرد یہ کہے کہ جناب میری کوئی مداخلت اور میری کوئی ذمہ داری نہیں ہے، نہیں ایسا نہیں، بلکہ جب کابینہ میں کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے، وہاں جو حضرات و خواتین موجود ہوتےہیں، وہ سبھی ذمہ دار ہوتے ہیں؛ جو لوگ صاحب رائے ہیں وہ سب کے سب ذمہ دار اور مسؤل ہیں، اب جبکہ آپ ذمہ دار اور مسؤل ہیں، تو پھر آپ کو اپنے فیصلہ کو صحیح اور مکمل طور پر عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنا نقش اور کردار ایفا کرنا چاہیے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کابینہ کے اجلاس میں ایک فرد صرف اپنے کام میں مشغول رہے  یا وہاں بیان ہونے والے موضوع اورمطلب کو مد نظر رکھے بغیر جلسہ میں پہنچ جائے؛ نہیں، بلکہ جلسہ میں جس موضوع و مطلب کے بارے میں بحث و تبادلہ خیال کیا جائے گا اور اس کے بارے میں آپ بھی رائے دیں گے؛ تو اس کو منظور کرتے وقت اپنا کردار نبھائیں اور اس پر اپنا اثر قائم کریں کیونکہ آپ قانونی لحاظ سے مؤثر ہیں، لہذا آپ کو اس مسئلہ اور اس موضوع کے بارے میں اچھی طرح غور و فکر کرنا چاہیے، اچھی طرح مطالعہ کرنا چاہیے اور اپنے وزارت خانہ اور ادارہ کے لئے اس کو ایک قوی اور مضبوط حمایت کے طور پر کام میں لا سکتے ہیں ، کابینہ میں اس کو منظور کرواسکتے ہیں، البتہ وزراء کے پاس کچھ اختیارات ہیں ان پر بھی اعتماد کرنا چاہیے قوہ مجریہ میں جو لوگ سرفہرست ہیں ان پر بھروسہ کرنا چاہیے وزراء پر اعتماد اور بھروسہ کرنا چاہیے اور وزراء کی ذمہ داریوں کوباقاعدہ طور پر تسلیم کرنا چاہیے اور ان میں کسی قسم کی سستی ، غفلت اور کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔

حکومت کے انتظامی امور میں ایک اور اہم مسئلہ متوازی کام کا ہے حکومتی اداروں میں متوازی کام نہیں ہونا چاہیے، متوازی کام کرنے میں کئی عیب موجود ہیں : سب سے پہلا عیب یہ ہے کہ انسانی وسائل کا ضیاع اور بے جا مصرف ہوتا ہے، دوسرا عیب یہ ہے کہ  مالی وسائل کا بہت زيادہ مصرف اور غیر ضروری استعمال ہوتا ہے، تیسرا عیب یہ ہے کہ فیصلوں میں تناقض اور تضاد پیدا ہوجاتا ہے جب دو ادارے ایک ہی کام کرنا چاہیں ایک ادارہ الگ فیصلہ کرتا ہے دوسرا ادارہ اپنا الگ فیصلہ کرتا ہے۔ چوتھا عیب جو سب سے اہم  ہے وہ یہ ہےکہ اس سے ذمہ داری میں سستی اور غفلت پیدا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر فلاں اقتصادی مسئلہ میں یا فلاں ثقافتی مسئلہ میں یا فلاں خارجہ پالیسی میں یا کسی دوسرے مسئلہ میں کوئی مشکل پیش آجائے تو ذمہ داری میں خرابی اور کوتاہی پیدا ہوجاتی ہےجب کام متوازی انجام پاتا ہے تو ذمہ داری میں بد نظمی پیدا ہوجاتی ہے حکومت یعنی قوہ مجریہ اور بعض دیگر اداروں کے درمیان بعض جگہوں میں متوازی کام ہورہا ہے ہم سب کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ متوازی کام کرنے کا مسئلہ کسی نہ کسی طرح حل ہونا چاہیے ہم اس متوازی کام کی اصلاح کریں ، ہم اس کا علاج کریں ، اس مسئلہ کو کابینہ کے اندر حل کرنے کی کوشش کریں ، متوازی کام کا سلسلہ اس کے بعد جاری نہیں رہنا چاہیے، بعض موارد خاص ہیں ؛ لیکن کلی طور پر متوازی کام اچھا کام نہیں ہے۔

انتظامی امور کے بارے میں ایک اور جملہ عرض کرنا چاہتا ہوں ، میرے سامنے حکومتی اہلکاروں کی جانب سے دوسرے اداروں کے بارے میں بعض اوقات شکوے بیان کئے جاتے ہیں ؛ بعض اوقات حق بھی آپ کے ساتھ ہے؛ یعنی ایسا ہی ہے جیسا کہ بعض دیگر قوا یا اداروں کے بارے میں شکوہ کیا گیا ہے جیسے مسلح افواج وغیرہ، حقیقت میں جب انسان ایسے امور کا مشاہدہ کرتا ہے تو انتظامیہ اور قوہ مجریہ کو حق بجانب پاتا ہے؛ کیونکہ میں خود بھی انتظامی اور اجرائی ادارے سے منسلک رہا ہوں  کام کی سنگینی ، اس کی کیفیت اور حجم  کے بارے میں آشنا ہوں لہذا میں سمجھتا ہوں کہ یہ شکوے حق بجانب ہیں ؛ لیکن اس کے باوجود ممکن ہے آپ  بعض موارد میں زیادہ حقدار اور سزاوار ہوں یا بعض موارد میں آپ پر تنقید وارد ہو؛ لہذا تنقید برداشت کرنے کا جذبہ اپنے اندر پیدا کیجئے ، حکام کو اپنے اندر تنقید اور اعتراض تحمل کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے؛ البتہ یہ کام بہت سخت کام بھی ہے  لیکن وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا چاہیے؛ " آلة الرّياسة سعة الصّدر" (2) البتہ ریاست  کا مطلب کسی بلند و بالا جگہ پر بیٹھنا نہیں ہے اگر آپ مدیریت کرنا چاہتے ہیں  آپ انتظامی امور چلانا چاہتے ہیں تو آپ کو وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا پڑےگا اور بعض چیزوں کو برداشت کرنا پڑےگا۔

ایک دو سال پہلے جب آپ کا یہی مجموعہ یہاں حاضر ہوا تھا تو میں نےایک ثقافتی مسئلہ کے بارے میں حکومتی اداروں سے گلہ و شکوہ کیا تھا اور اب خوش قسمتی سے یہ احساس ہورہا ہے کہ حکومتی اداروں میں  ثقافتی امور کے سلسلے میں اہتمام کیا جارہا ہے، بڑے اور طویل ثقافتی امور کے لئے بجٹ ، مختلف اور گونا گوں اور ثقافتی مسائل کی تکرار یہ سب اچھی باتیں ہیں؛ انسان ان تمام امور پر اہتمام کا جب مشاہدہ کرتا ہے تو خوشحال اور مسرور ہوتا ہے؛ اس سال کے اوائل اور گذشتہ برس مجھےصحیح یاد نہیں ہے جب اسی ثقافتی بجٹ کے بارے میں بحث ہوئی، تو میں نےصدر جمہوریہ سے کہا کہ میں نے جب یہ سنا کہ آپ نے ثقافتی شعبہ میں اتنے بڑے اور سنگین بجٹ کو منظور کیا ہے ، تو مجھے اس کے مصرف اور استعمال کے بارے میں تشویش ہوئی؛ جب کہ اصولی طور پر انسان کو شاد اور خوشحال ہونا چاہیے جب ثقافتی بجٹ میں اضافہ ہوتا ہے، تو جو ہمارے مدیروں کو دیا جاتا ہے اس کو وہ مصرف اور خرچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛ کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اگر اس سال انھوں نے بجٹ کو خرچ نہ کیا تو آئندہ سال کچھ نہیں ملے گا؛ لہذا خرچ کرنے پر مجبور ہیں ، لیکن ثقافتی بجٹ کو صحیح اور مناسب جگہ مصرف کرنا آسان کام نہیں ہے یہ کام بہت مشکل کام ہے۔ ثقافتی کام  کوئی تعمیری کام جیسا نہیں ہے کہ ہم یہ کہيں کہ یہ زمین ہے اور یہ تعمیرکرنے کے وسائل ہیں جاؤ اور تعمیر کرو، ثقافتی کام کے وسائل بڑی مشکل سے پیدا ہوتے ہیں ثقافتی کام کے معمار اور استاد بڑی مشکل سے حاصل ہوتے ہیں  یہی وجہ ہے کہ ثقافتی امور پر زیادہ توجہ مرکوز کرنی چاہیے، سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے ثقافتی امور میں ہم کون سی چیزوں کو اہمیت دیتے ہیں بعض گذشتہ ادوار میں جن کا میں واضح طور پر نام نہیں لینا چاہتا لیکن کوئي چارہ بھی نہیں ہے انسان موازنہ کرنے کے لئے نام لینے پر بھی مجبور ہے ثقافتی کام کرنا چاہتے تھے، ثقافتی بجٹ منظور ہوا، اور انھوں نے ثقافتی امور کے عنوان  سے راستوں میں شاہ عباسی کاروان سراؤں کو تعمیر کرنا شروع کردیا ، اچھی بات ہے، کاروان سراؤں کوتعمیر اور آباد کرنا اچھی بات ہے، یہ آثارقدیمہ بھی ہے؛ لیکن کیا یہ ہمارے ثقافتی ترجیحاتی امور میں شامل ہے؟ ہمارے اوپر عالمی سامراجی طاقتوں کی طرف سے تبلیغات اور پروپیگنڈوں اتنا عظيم دباؤ ہے، سیاست ، ثقافت کی خدمت میں ہے، اقتصاد ، ثقافت کی خدمت میں ہے،ہنر ثقافت کی خمدمت میں ہے، وہ ہماری قوم کی ثقافت پر دباؤ ڈالنے اور ہماری ثقافت کو بدلنے کے لئے اپنے تمام وسائل سے استفادہ کررہے ہیں وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ اگر ثقافت کو تبدیل کردیا گيا تو پھر کوئی مقابلہ اور مزاحمت نہیں ہوگي، اگر سامراجی طاقتوں کے ساتھ مقابلہ کا جوش و ولولہ ہے، اگر اغیار کی مداخلت کا مقابلہ کرنے اور ان کے سامنےاستقامت دکھانے کا عزم ہے تو یہ ثقافت کی وجہ سے ہے؛انسان کی ایک ثقافت ہے، وہ آئیں اوراسی ثقافت کو تبدیل کردیں ،تاکہ تمام چیزیں ان کی اپنی بن جائیں ؛ لہذا ثقافت پر بہت بڑا دباؤ ہے دشمن اپنی تمام ثقافتی کوششوں اور ان عظیم ثقافتی حملوں میں انقلاب کی روح، استقلال کی روح، اور دین کی روح کو ہم سے چھیننا چاہتا ہے اس کے مقابلے میں ہماری ثقافتی ترجیحات یہ ہیں کہ ہم مثال کے طور پر جائیں اور شاہ عباسی کاروان سرا کو آباد کریں ؟ اس کا مطلب یعنی ثقافتی نوع اور قسم کی تشخیص میں اشتباہ اور غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور یہ ایک اشکال ہے لہذا ہمیں واضح کرنا چاہیے کہ ثقافتی امور میں ہم کن امور کے پيچھے ہیں؟ ثقافتی وسائل کی پیداوار، گذشتہ ہفتہ ہماری طلباء سے جو ملاقات ہوئی، خوش قسمتی سے ہمارا اکثر اوقات طلباء سے رابطہ  رہتا اوران سے ملاقات ہوتی رہتی ہے،میں نے دیکھا کہ یہ انقلابی جوان ، جو ہمارےمستقبل کی امید ہیں مختلف انجمنوں اور تنظیموں سے الگ رہ کرطلباء مستقل طور پر ثقافتی وسائل تیارکر رہے ہیں ؛ ہمیں کتنی مقدار میں ثقافتی مواد تیار کرنا چاہیے اور ہمیں کتنی مقدار میں ثقافتی مواد کی ضرورت ہے یہاں مفصل کام آپ نے انجام دیا ہے ممکن ہے میں بعد میں بعض موارد کے بارے میں کچھ خصوصی سفارشات کروں ۔

اس سلسلے میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جب ہم نے ثقافتی مصرف کے کی تلاش کرلی ،وہ نوع جس میں اس بجٹ کو صرف کرنا ہے اگر ہم نے پیدا کر لی ہے تو پھر ہمیں اس کے محتوی کے بارے میں بھی سوچناچاہیے کہ اس بجٹ سے ہم فلم بنانا چاہتے ہیں، مثال کے طور پر ہم اس سے دس انقلابی فلمیں بنانا چاہتے ہیں، ایسی دس فلمیں جو اسلامی و انقلابی اقدار پر مشتمل ہوں، یا ہم اس بجٹ سے اتنی مقدار میں کتابیں شائع کرنا چاہتے ہیں ان کتابوں کا متن اور محتوی کیا ہونا چاہیے ان کا مضمون اور متن کتنا قوی اورمضبوط ہونا چاہیے اس میں کتنا ہنر اورکتنا علمی سرمایہ کام میں لاناہے؟ یہ بہت ہی ظریف اور سخت کام ہے۔

ثقافتی امور میں تشریفاتی اور تزئیناتی کام نہیں ہونا چاہیے ثقافتی کاموں کونمائش دینے سے نہ صرف کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ اس سے نقصان بھی ہوگا۔ ثقافتی شعبہ میں اصلی ، حقیقی اور واقعی امور کو انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ آج ملک کو ان امور کی سخت ضرورت ہے۔

میں نے ایک جملہ یہاں صدر کے بیانات کے پیش نظر یاد کیا ہے جس میں صدر جمہوریہ نے کہا ہے کہ ہم اکثر وزیر خارجہ کو نہیں دیکھ سکتے کیونکہ وہ اکثر سفر پر ہوتے ہیں یہ بیرونی سفر اور یہ سفارتی کوششیں اور فعالیتیں قابل قدرہیں لیکن یہاں ایک نکتہ پر توجہ دینی چاہیے کہ سفارتکاری صرف رفت و آمد و نشست و برخاست اور ملاقات کرنا نہیں ہے؛ یہ سفارتکاری کا ظاہری کالبد اور ظاہری ڈھانچہ ہے یہ سفارتکاری کا جسم ہے، البتہ یہ بہت اہم بھی ہے، جس کی ایک روح ہے ؛ سفارتکاری میں اس روح کو مضبوط اور قوی بنانے کی کوشش  کرنی چاہیے، البتہ حضرات زحمت اٹھا رہے ہیں نا شکری نہیں کرنی چاہیے جو زحمات اٹھا رہے ہیں ان پر شکر ادا کرنا چاہیے، لیکن میں اس سلسلے میں ایک سفارش کرنا چاہتا ہوں، فرض کیجئے ہمیں  ایک اجلاس میں جانا ہیں ، ہمارا ایک جلسہ ہے؛ خوب ، اس جلسہ میں کیا ہونا ہے؟ بعض جگہ بہت اچھا کا م ہوا ہے جیسے یہی نیویارک میں این پی ٹی کے اجلاس میں ہوا جو ممتاز اور قابل توجہ کاموں میں سے ایک کام تھا اور جو انجام پاگيا؛ بعض ایسے کام بھی ہیں جن کے بارے میں مجھے مکمل طور پر واقفیت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام بہت اچھے کام ہیں بعض ملاقاتوں، بعض اجلاس اور مذاکرات میں انسان جب مشاہدہ کرتا ہے تو اس بات کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے کہ اس گفتگو اور ان مذاکرات کا محتوی اور متن بہت ہی اچھا ہے یعنی معلوم ہوجاتا ہے کہ جو کام انجام دیا گیا ہے وہ اچھا ہے لیکن بعض اوقات اچھی طرح دقت اور غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے اچھی طرح مطالعہ اور جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

سفارتکاری میں ان فعالیتوں اور کوششوں کو صحیح سمت ، صحیح جہت اور درست محتوی میں قراردینا چاہیے اور سفارتکاری کے تمام امور کو وزارتخارجہ میں متمرکز ہونا چاہیے یعنی سفارتکاری کے تمام امور وزارت خارجہ کی سرپرستی اور ہدایت میں انجام پانے چاہییں اور دیگر ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کے سلسلے میں بھی  وزارت خارجہ کے اقتصادی مسائل کے شعبہ کا نقش ممتاز اور نمایاں ہونا چاہیے جو اقتصادی معاملات کے سلسلے میں رفت و آمد کا مرکز بھی ہے۔

 انشاء اللہ خداوند متعال ہمیں ایسے امور کی توفیق مرحمت فرمائے جن کو انجام دینے کی ہم سے توقع ہے اور جن کے بارے میں اللہ تعالی ہم سے سوال کرےگا، دعائے مکارم الاخلاق میں ہے: " و استعملنى لما تسئلنى غدا عنه"  (3)خدایا! مجھے ایسے امور انجام دینے کی توفیق عطا فرما جن کے بارے میں تو کل قیامت کے دن مجھ سے سوال کرےگا۔ بعض چیزوں کے بارے میں ہم سے سوال کیا جائے گا؛ ان کے بارے میں توفیق حاصل کرنی چاہیے، اللہ تعالی انشا ء اللہ ہماری مدد و نصرت فرمائے اورہمیں اس راستے میں گامزن رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق مرحمت فرمائے، خدا وند آپ کو اجر و ثواب عطا فرمائے اور ملک کے لئے روزبروز جد و جہد اور تلاش و کوشش اور انقلابی جذبہ میں اضافہ فرمائے۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

…………………………………………

1)
) بقره: 158
2)
) نهج البلاغه، حكمت 176
3)
)صحيفه‌ سجاديه، دعائے 20