ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا رمضان المبارک کے پہلے دن انس با قرآن ضیافت کے مہمانوں سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہم اللہ تعالی کے شکرگزار اور احسان مند ہیں کہ اس نے ہمیں توفیق مرحمت فرمائي اور اپنے لطف و کرم اور فضل و احسان سے ہمیں زندگی کا مزید موقع عطا فرمایا اور ہم ایک بار پھر ایک بہت شیریں ، مؤثر اور سودمند جلسہ میں شرکت کرسکے اور اپنے عزیز قاریوں کے توسط سے قرآن مجید کی آیات کی تلاوت سے بہرہ مند اور فیضياب ہوئے، میں حقیقت میں اپنے معاشرے میں روز بروز قرآن کریم کے ساتھ بڑھتے ہوئے  انس و لگاؤ کو ایک بہت بڑی  اور عظیم نعمت سمجھتا ہوں اور یہ ایک ایسی نمعت ہے جس کے برابر شاید کوئی نعمت نہ ہو۔

آج کا جلسہ بھی بہت ہی عمدہ اور اچھا جلسہ ہے؛ بعض محترم قاریوں اور قرائت کے اساتذہ جنھوں نے اس جلسہ میں تلاوت کا شرف حاصل کیا اور چاہے وہ نوجوان جو اس وادی میں تازہ وارد ہوئے ہیں ان کودیکھ کر انسان احساس کرتا ہے؛ جوانوں کی خوب اور درخشاں صلاحیتیں ، اچھی اور عمدہ صدائیں ، قرآن کے ساتھ والہانہ لگاؤ ملک کے تابناک مستقبل کا آئینہ دار ہے، بہت خوب ، اللہ تعالی نے ہمیں یہ نعمت عطا کی ہے۔ «و لكنّ اللَّه حبّب إليكم الإيمان و زيّنه فى قلوبكم و كرّه إليكم الكفر و الفسوق و العصيان»(1) ۔  یہ بہت بڑی اور عظیم نعمت ہے کہ ایمان اور جو چیزيں ایمان کی علامت ہیں ان کو اللہ تعالی ہمارے عوام کے لئے محبوب اور پسندیدہ قراردے اور ان کو ہمارے دلوں کی زینت فرمائے اگر ہم قرآن مجید سے حقیقی معنی میں فیضیاب اور بہرہ مند ہونا چاہتے ہیں  تو ہمیں قرآن کریم کے معارف اور قرآن مجید کے معانی اور مفاہیم کے ساتھ آشنا ہونا چاہیے۔ قرآن مجید کہ یہ تلاوت، قرآن مجید کے ساتھ انس و  لگاؤ اور قرآن مجید کا حفظ اور زبانی یاد کرنا قرآن مجید کے معانی اور مفاہیم کو یاد کرنے میں ممد ومعاون اور مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر قرآن مجید سے سبق حاصل کرنا مقصود نہ ہوتا تو ہمیں ان تمام چیزوں کی ہدایت اورسفارش نہ کی جاتی  کہ ہم قرآن کی تلاوت کریں ۔ ہمیں اس بات پر توجہ مبذول کرنی چاہیے کہ مقصد اور ہدف یہ نہیں ہے کہ فضا میں آواز کی امواج پیدا ہوں فضا میں صوت و لحن کی موجیں پھیلیں؛ یہ مقصد نہیں ہے، یہ ہدف نہیں کہ جیسے کوئی شخص کسی شعر کو اچھی آواز اور اچھی صدا کے ساتھ پڑھے اور ہم لطف اندوز ہوں اسی طرح قرآن کو بھی اچھی آواز اور اچھے لحن کے ساتھ پڑھیں  تاکہ ہم اچھی آواز سے لطف اندوز ہوں اچھی اور عمدہ صدا سے بہرہ مند ہوں لیکن یہ تمام چیزيں مقصد اور ہدف نہیں ہیں، بلکہ یہ تمام چیزيں قرآنی معارف اور مفاہیم کو سمجھنے اور درک کرنے کا مقدمہ ہیں قرآن مجید کی تلاوت اور اچھی آواز ، اچھا لحن  جو معاشرے میں قرآن مجید کی تلاوت کی ترویج کا باعث ہیں یہ چیزيں معاشرے میں قرآن مجید کی تلاوت کے فروغ کا موجب ہیں  ان کے ذریعہ دلوں میں قرآن مجید کا شوق و اشتیاق پیدا ہوتا ہے یہ تمام چيزیں معانی اور مفاہیم قرآن کو درک کرنے کے لئے ہیں ۔

قرآنی معارف و مفاہیم کو درک کرنے اور سمجھنے کے بھی درجات ہیں اور ان درجات کا پہلا مرحلہ قرآن کا ترجمہ پڑھنے اور قرآن مجید کے الفاظ میں غور کرنے سے حاصل ہوتا ہے، یعنی جب ہم قرآن مجید کےمعارف کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ قرآن مجید کے راز و رموز بہت گہرے اور عمیق ہیں جہاں تک ہر انسان کا پہنچنا بہت مشکل ہے، ہاں البتہ قرآن کریم کے عالی معارف اور درجات تک ہم جیسوں کی رسائي مشکل ہے لیکن قرآن مجید کے بہت سے معارف ایسے ہیں جنھیں معمولی توجہ اور غور وفکر کے ذریعہ ہر انسان حاصل کرسکتا ہے قرآن مجید کے ترجمہ اور معانی سے ہر انسان آشنا ہوسکتا ہے عام لوگ بھی قرآن پر معمولی توجہ کرنے کے بعد اس کے معانی سے فیضیاب ہوسکتے ہیں قرآن مجید کی انھیں آیات میں زندگی کے بہت سے سبق آموز پہلو موجود ہیں، مثال کے طور پر اسی آیہ شریفہ میں ارشاد ہوتاہے: «ان الّذين يبايعونك انّما يبايعون اللَّه يد اللَّه فوق ايديهم فمن نكث فانّما ينكث على نفسه و من اوفى بما عاهد عليه اللَّه فسيؤتيه اجرا عظيما».(2( یہ آیت سبق آموز آیت ہے؛ ہماری زندگی کے لئے یہ ایک واضح درس ہے؛ «فمن نكث فانّما ينكث على نفسه»؛ آپ نے پیغمبر اسلام کےساتھ جو عہد وپیمان کیا ہے، اسلام کے ساتھ جو عہد کیا ہے، اللہ تعالی کے ساتھ جو بیعت کی ہے اگرآپ نے اس عہد کو اور اس بیعت کو توڑ دیا تو عہد شکنی کرکے تم نے اپنا نقصان کیا ہے، «فمن نكث فانّما ينكث على نفسه»؛ اللہ تعالی اور اس کے پیغمبر (ص) کے ساتھ عہد شکنی خود ہمارے خلاف ہے ہمارے ضرر اور ہمارےنقصان میں ہے ہماری عہد شکنی سے اللہ تعالی اور پیغمبر اسلام (ص) کو کوئی نقصان نہیں پہنچےگا۔ «و من اوفى بما عاهد عليه اللَّه فسيؤتيه اجرا عظيما»؛ لیکن اگر ہم نے اپنے عہد وپیمان اور اپنے معاہدے کو پورا کیا ، خداوند متعال اور پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ کئے گئے عہد و پیمان سے اگر ہم نے اپنے لئے فائدہ اٹھایا ، تو اللہ تعالی کی جانب سے عظیم جزا، پاداش اور اجر و ثواب خود ہمیں ملےگا ، اس پاداش اور جزا کے بارے میں یہ نہیں کہا گيا ہے کہ یہ آخرت میں ملے گی ، بہشت میں ملےگی، البتہ آخرت میں بھی اس کا بڑا حصہ ملے گا لیکن اس پاداش اور جزا کا کچھ حصہ اس دنیا میں بھی ہمیں ملے گا؛ یہ پاداش دنیا میں بھی ہمیں دی جائے گی، سورہ مبارکہ احزاب کی یہی آیات جن کی انفرادی طور پر کسی بھائی نےیا اجتماعی طور پرچند برادران نے تلات کی ہے : «من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا اللَّه عليه فمنهم من قضى نحبه و منهم من ينتظر و ما بدّلوا تبديلا. ليجزى اللَّه الصّادقين بصدقهم»؛(3) اس میں صدق کا مطلب یہی ہے۔ «صدقوا ما عاهدوا اللَّه عليه»؛کہ مؤمنین نے  اپنے پروردگار کے ساتھ جو عہد و پیمان کیا ہے وہ اس عہد پر سچے دل کے  ساتھ قائم ہیں وہ اپنے عہد پر اٹل ہیں زندگی کی سختیاں ،تلخیاں اور شہوت و ہوس انھیں اس راستے سے منحرف نہیں کرسکیں۔ «ليجزى اللَّه الصّادقين بصدقهم»؛ اللہ تعالی انھیں عہد و پیمان پر صداقت ، استقامت اور پائداری کے ساتھ قائم رہنے کے بدلے میں جزا و پاداش عطا کرےگا ۔ خوب ، قرآن مجید کے یہ ایسے معارف ہیں جن کو قرآن کے ظاہر کی طرف رجوع کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے اگر چہ ان معارف کے پیچھے کچھ اعلی اور برتر معارف بھی موجود ہیں جن کو ممکن ہے بعض خاص افراد درک کرسکیں ، اللہ تعالی کے نیک اور صالح بندے سمجھ سکیں اور ہم ان معانی اور مفاہیم تک نہ پہنچ سکیں مگر یہ کہ ان خاص اور صالح بندوں کے ذریعہ  ہم قرآن کے ان گہرے اور عمیق اسرار و رموز تک  بھی پہنچ سکتے ہیں؛ کیونکہ وارد ہوا ہے کہ قرآن مجید کے کئی بطون ہیں ، بہت سی روایات میں وارد ہوا ہے کہ قرآن مجید کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، قرآن مجید میں گہرے اور عمیق اسرار اور رموز ہیں  قرآن سمندر کی مانند ہے جس کے ظاہر میں پانی ہے، وجود ہے، دریا ہے لیکن صرف یہی ظاہر ہی نہیں ہے، بلکہ سمندر میں گہرائی بھی ہے اس عمیق گہرائی میں بہت سے حقائق بھی ہیں، بہت سی چیزيں ہیں ، یہ مسّلم ہے لیکن ہم اسی ظاہر سے استفادہ کرسکتے ہیں اسی ظاہر سے فیضیاب ہوسکتے ہیں ؛ بشرطیکہ اس میں ہم غور و فکر اور تامل کریں۔

ہم نے یہ بات جو بار بار دہرائي ہے- اس بات کو ہم کئی سالوں سے بیان کررہے ہیں اور خوش قسمتی سے اس کے اچھے اور مفید نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں- اس کو ایک بار پھر پیش کرنا چاہتا ہوں : آپ جس آیت کی  تلاوت کا شرف حاصل کرتے ہیں تو آپ اس کے معنی کو اچھی طرح درک کریں ، وہی معنی جو ایک عربی  زبان  والا سجھ سکتا ہے اسی ظاہری معنی کو صحیح سمجھ لیں اسی ظاہری معنی کو درست درک کرلیں تو اس وقت انسان کو تلاوت میں فہم و درک کی قدرت پیدا ہوگی ، یعنی انسان اس وقت تدبر کرسکتا ہے اور میں آپ کے سامنے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب ہم اس آیت کے معنی سے آگاہ  اور واقف ہوجائیں گے، اس آیت کے معنی جان لیں گے تو اس وقت وہ شخص جو آیت کو اچھی صوت و لحن کے ساتھ پڑھ رہا ہے تو خود آیت کے معنی کا ادراک ، اچھی صوت و اچھےلحن کی ہدایت کرےگا، اگر ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں تو پھر کوئی ضرورت نہیں کہ ہم صوت و لحن میں فلاں معروف قاری کی تقلید کریں کہ وہ کہاں پر آواز کو بلند کرتا ہے اور کہاں آواز کو آہستہ کرتا ہے کہاں آواز میں شدت پیدا کرتا ہے اور کہاں آواز میں نرمی پیدا کرتا ہے آیت کا معنی جاننے کے بعد ان چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں رہےگي اور اچھی آواز اور عمدہ صوت رکھنے والا انسان خودبخود آیت کے معنی و مفہوم کے پیش نظر بہترین اور عمدہ قرائت کا مظاہرہ کرےگا۔ عام طور پر بات چيت کرنے اور باہمی گفتگو میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ انسان جانتا ہے کہ کیا بول رہا ہے کس بارے میں گفتگو کررہا ہے تو اسی حساب سے آواز میں شدت اور نرمی پیدا کرتا ہے اسی حساب سے بلند یا آہستہ آواز میں گفتگو کرتا ہے کہیں تیز بولتا ہے، کہیں ٹھہر ٹھہر کر بولتا ہے جبکہ پہلے سے ان کے لئے کوئی طریقہ وضع نہیں کیا گیا ہےوہ کسی قاعدہ و قانون کے مطابق گفتگو میں تیزی یا ٹھہراؤ پیدا نہیں کررہا ہے یہ سب آپ کے احساس اور اندرونی لگاؤ کی وجہ سے ہے اگر آپ نے قرآن مجید کی آیت کے معنی کو سمجھ لیا ہے تو آیت کا فہم و ادراک ہی آپ کےصوت و لحن میں آپ کی مدد کرےگا ؛ کہاں آپ آہستہ پڑھیں، کہاں وقف کریں ، کہاں وصل کریں، کہاں سے شروع کریں، قرآن مجید کی آیات پر تسلط انسان کو اس ہنر سے بہرہ مند کرتا ہے، البتہ بعض ایسے افراد بھی ہیں جو قرآنی آیات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کیونکہ وہ خود بھی عرب ہیں ، آیت کےترجمہ کو اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ عرب ہیں لیکن انسان متوجہ ہوتا ہے کہ گویا وہ آیت کے معنی پر توجہ کئے بغیر آیت کو پڑھ رہا ہے۔ مصر کے انہی معروف قاریوں میں بعض ایسے ہیں جب انسان انھیں تلاوت کرتے ہوئے مشاہدہ کرتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اسے پڑھنے کے لئے ایک متن دیا گیا ہے جو شروع سے لیکر آخر تک وہ پڑھ رہا ہے وہ مخاطب کو معنی کی تفہیم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے بعض قاریوں میں یہ چیز موجود ہے۔ لیکن بعض ایسے قاری بھی ہیں جن کی قرائت ، جن کی تلاوت  مخاطب کے ساتھ گفتگو کی مانند ہے؛ مخاطب کے ساتھ بات چیت کی طرح ہےآپ کی تلاوت بھی اسی روش پر استوا ہونی چاہیے۔

البتہ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے اکثر لوگ قرآن کریم کی آیات کریمہ سے براہ راست کم استفادہ کرتے ہیں ؛ یعنی اکثر لوگ عربی سے ناواقف ہیں، بہت سے لوگ عربی نہیں جانتے ہیں ،  یہ ہماری بد قسمتی اور محرومیت کی علامت ہے، لہذا ملک کے قوانین میں عربی کی تعلیم پر کافی زوردیا گیا ہے کیونکہ عربی زبان قرآن مجید کی زبان ہے ، اگر ہم حقیقت میں قرآن مجید کے معانی اور مفاہیم  کو اچھی طرح سمجھ لیں، عام لوگ جنھوں نے عربی نہیں پڑھی وہ تفاسیر اور ترجموں  کی طرف رجوع کرسکتے ہیں  ۔

خوش  قسمتی سے آج اچھے تراجم بھی موجود ہیں، ملک میں بعض افراد نے زحمت اٹھائی ہے اور قرآن مجید کے اچھے ترجمہ کئے ہیں بہر حال جو برادران قرآن مجید کو اچھی صوت اور اچھے لحن کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں میں انکو سفارش کرتا ہوں کہ وہ اس بات پرخاص توجہ دیں ؛ یعنی وہ قرآن مجید کی آیات کے معنی پر توجہ دیتے ہوئے قرآن مجید کی تلاوت کا شرف حاصل کریں ؛ ایسے تلاوت کریں تاکہ آپ کے مخاطبین اور آپ کے سامعین یہ تصور کریں کہ آپ اس کے ساتھ قرآن میں بات چیت اور گفتگو کررہے ہیں اگر ایسا ہوگيا تو اس وقت آپ کو آپ کی تلاوت سے بہت بڑا فائدہ پہنچےگا  اورلوگ بھی آپ کی تلاوت سے فیضیاب اور مستفیض ہونگے ۔

امید ہے کہ انشاء اللہ ، ہماری قوم میں ہمارے عوام میں قرآن کے معارف سمجھنے، قرآن سے فیضیاب ہونے اور قرآن کے ادراک و فہم کا دائرہ روزبروز وسیع تر ہوتا جائے گا اور اللہ تعالی قرآن مجید کی برکات سے ہمیں زیادہ سے زيادہ بہرہ مند فرمائےگا۔

میں قاریوں کو پھر سفارش کرتا ہوں کہ وہ قرآن مجید کے ترجمہ پر توجہ دیں یعنی وہ قرآن کے ترجمہ پر مسلط ہونے کی کوشش کریں اور قرآن کی معانی اور مفاہیم کے ساتھ تلاوت کریں، البتہ اس سلسلے میں قرآن مجید کا حفظ کرنا بھی بہت اہم ہے، انشاء اللہ مؤفق اور کامیاب رہیں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1)      حجرات: 7

2)      فتح: 10

3)      احزاب: 23 اور 24