ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا قرآن کریم کے قاریوں اور حفاظ سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آج کا یا اجتماع بہت ہی اچھا اور شاندار اجتماع ہے قرآن کریم  کےقاریوں  اور قرآنی باغ و گلستاں کے بلبلوں کی دلنشیں اور دلکش آواز میں قرآن مجید کی آیات کی تلاوت سن بہت ہی لطف اندوز ہوا ہوں۔ اس گرانقدر اور گراسنگ تقریب کے منعقد کرنے والوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں قرآن مجید کا قرب اور نزدیکی حاصل کرنے کے لئے انشاء اللہ ، خداوند ہماری توفیق میں روز بروز مزید اضافہ فرمائےگا۔

حقیقت امر یہ ہے کہ ہم ابھی قرآن کریم سے بہت دور ہیں ہمارے اور قرآن کریم کے درمیان کافی فاصلہ ہے، ہماری دلوں کو قرآن سے سرشار اور لبریز ہونا چاہیے ہمارے دلوں کو قرآنی ہونا چاہیے، ہمارے قلب  و روح کو قرآن کےساتھ مانوس ہونا چاہیے۔ اگر ہم قرآن کریم کے ساتھ انس پیدا کرسکیں ،اپنے قلب و روح میں قرآنی معارف کو جگہ دے سکیں، تو ہماری زندگی اور ہمارا معاشرہ  قرآنی بن جائے گا؛ پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت نہیں،دباؤ ڈالنے اور کسی کوشش و تلاش کی ضرورت نہیں۔، حقیقت یہ ہے ہمارے دل ،ہماری روح اور ہماری شناخت وپہچان ، قرآنی ہوجائے۔

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ امت اسلامی کے درمیان ، مسلمان معاشرے کے درمیان اورقرآنی معارف کے درمیان کئی برسوں سے فاصلہ پیدا کرنےکی کوششوں کا سلسلہ جاری ہے؛ آج بھی ان کوششوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے، آج بھی بعض اسلامی ممالک کے مسلمان صدوردشمنان اسلام کی مرضی اور ان خواہش کے مطابق اسلامی تعلیمات سے جہاد کی فصل کو نکالنے کے لئے حاضر ہیں، وہ اپنے مدارس کی عام تعلیمات سے ان قرآنی معارف کو نکالنے کے لئے آمادہ ہیں جو ان کے مفادات کے خلاف ہیں اوروہ اپنے مسلم جوانوں کو قرآنی معارف سے دور رکھنے کے لئے بالکل تیار ہیں قرآنی معارف سے محروم رکھنے کی تلاش وکوشش کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

قرآن مجید نے ہمیں حیات طیبہ کا وعدہ دیا ہے: «فلنحيينّه حياة طيّبة».(1(  حیات طیبہ کیا ہے؟ پاکیزہ زندگی کیا ہے؟ حیات طیبہ یعنی ایسی پاکیزہ زندگی جس میں انسان کی روح اور انسان کے جسم کی سعادت کے اسباب فراہم ہوں جس میں  انسان کی دنیا بھی  آباد ہو اور انسان کی آخرت بھی آباد ہو انسان کی دنیاوی زندگی کے اسباب اس میں فراہم ہیں انسان کے روحی آرام و سکون کے اسباب اس میں مہیا ہیں، اس میں اطیمنان اور سکون حاصل ہے، جسمانی آسائش کے اسباب اس میں موجود ہیں، سماجی فوائد ، سماجی سعادت ، سماجی عزت اور آزادی اور استقلال کے اسباب اس میں فراہم ہیں، قرآن کریم نے ان چیزوں کا ہمیں وعدہ دیا ہے، جب قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: «فلنحيينّه حياة طيّبة»، یعنی ان تمام چیزوں پر محیط زندگی، یعنی ایسی زندگی جس میں عزت ہے، ایسی زندگی جس میں امن و سلامتی ہے، ایسی زندگی جس میں فلاح و بہبود اور رفاہ ہے ، ایسی زندگی جس میں استقلال ہے، علم و دانش ہے، ترقی و پیشرفت ہے، اخلاق ،  حلم اور بردباری ہے عفو اور بخشش ہے۔ ہمارا ان چیزوں سے فاصلہ ہے؛ ان چیزوں تک ہمیں پہنچنا چاہیے۔

قرآن کریم کے ساتھ انس و لگاؤ، قرآن کریم کے بارے میں معرفت و آشنائی ہمیں ان چیزوں سے  نزدیک بناتی ہے، یہ قرآنی جلسات، یہ قرآنی محفلیں ، یہ قرآنی مقابلے ، یہ حفاظ اور قاریوں کی تربیت پر ہماری خاص توجہ ، یہ سب اسی لئے ہیں، یہ سب مقدمہ ہیں ؛ البتہ یہ ضروری اور لازمی مقدمات میں شامل ہیں۔

میں ایک بار پھر اپنے عزیز جوانوں کو سفارش کرتا ہوں کہ وہ قرآن کریم کے ساتھ انس اور لگاؤ پیدا کریں، آپ قرآن کے جلسات میں شرکت کریں، قرآن کریم کے ساتھ بیٹھیں، «و ما جالس  هذا القران أحد الّا قام عنه بزيادة او نقصان، زيادة فى هدى او نقصان من عمى»؛(2( جتنی مرتبہ بھی آپ قرآن مجید کے ساتھ نشست و برخاست رکھیں گے اتنی مرتبہ جہالت کے پردوں میں سے ایک پردہ مٹ جائے گا؛ اور نورانی چشموں میں سے ایک چشمہ آپ کے دل میں جاری ہوجائے گا، قرآن مجید کے ساتھ انس و لگاؤ، قرآن کریم میں غور و فکر، قرآن کریم کے ساتھ نشست و برخاست، قرآن مجید کے مفاہیم کا ادراک یہ تمام چیزيں لازمی ہیں۔

اس کام کا آغاز اور مقدمہ یہ ہے کہ ہم قرآن پڑھ سکیں، ہم قرآن حفظ کرسکیں؛ قرآن کا حفظ کرنا بہت ہی مؤثر اور مفید ہے جوانوں کو جوانی کے دور اور حفظ کرنے کی قدرت کو غنیمت سمجھنا چاہیے، والدین اپنے بچوں کو قرآن حفظ کرنے کا شوق دلائیں، والدین بچوں کو قرآن کریم کے ساتھ مانوس کریں،انھیں مجبور کریں، قرآن کریم حفظ کرنے کی بہت بڑی قدر و قیمت ہے، قرآن کریم کو حفظ کرنے سے حافظ کو یہ موقع فراہم ہوتا ہے کہ وہ قرآنی  آيات کی بار بار تلاوت اور تکرار کے ذریعہ قرآن میں غو وفکر اور تدبر کی قدرت پیدا کرے، یہ غنیمت موقع ہے یہ اچھا موقع ہے، یہ توفیق الہی ہے؛ اس کو ہاتھ سے نہ جانے دیں ، وہ لوگ جو حافظ ہیں وہ اللہ تعالی کی اس عظیم نعمت کی قدرو قیمت کو پہچانیں؛ وہ اپنے حفظ کو ضعیف نہ ہونے  دیں یا خدانخواستہ اسے بھول نہ جائیں۔

قرآن کریم کو اول سے لیکر آخر تک پڑھنا ایک ضروری امر ہے، قرآن کریم کو اول سے لیکر آخر تک پڑھنا چاہیے؛ دوبارہ پھر قرآن کو اول سے آخر تک پڑھنا چاہیے تاکہ تمام قرآنی معارف ایک جگہ انسان کے ذہن نشین ہوجائیں البتہ اس کام کے لئے ایسے معلمین اور مفسرین کی بھی ضرورت ہے جو ہمارے لئے تفسیر کرسکیں ، مشکل آیات کی تشریح کرسکیں آیات کے معانی اور مفاہیم  کو ہمارے لئے بیان کرسکیں یہ سب چیزيں ضروری ہیں ، اگر یہ چیزيں مکمل ہوجائیں تو زمانہ جتنا آگے بڑھے گا ہم بھی آگے کی سمت گامزن رہیں گے اور یہ حرکت جاری رہےگی ۔

میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ گذشتہ اکتیس برسوں میں یہ حرکت آگے کی سمت جاری رہی ہےہمارے ملک میں انقلاب اسلامی سے پہلےقرآن مجید کے بارے میں کوئی خبـر نہیں تھی، کسی گوشہ میں کوئی عاشق قرآن پیدا ہوجاتا تھا جو قرآن کریم کا جلسہ منعقد کرتا تھا اور دس، پندرہ  یا بیس افراد کو قرآن کریم کے اس جلسہ میں اپنے ارد گرد جمع کرتا تھا، ہم نے تمام شہروں میں دیکھ رکھا تھا؛ تہران میں ایسا تھا ، ہمارے مشہد میں تھا جوانوں کی قرآن مجید کی سمت یہ عظیم حرکت اس دور میں نہیں تھی؛ قرآن کریم  کے پڑھنے اور اس کی تلاوت کا یہ ذوق و شوق ، قرآن مجید کی تلاوت کے سلسلے میں ماہر قاریوں کی تربیت ،  یہ خبریں اس دور میں نہیں تھیں ؛ اس دور میں قرآن کریم کے حفظ کا کوئی وجود نہیں تھا ،موجودہ دورمیں قرآن کریم کے جوان حافظ آتے ہیں اورجب وہ قرآن کریم کو زبانی اور حفظ سے پڑھتے ہیں اور اس کی تلاوت کرتے ہیں تو میں دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں ؛ یہ تمام چیزيں انقلاب کی بدولت ہیں یہ امور انقلاب اسلامی کی برکت اور اسلام کی برکت سے وجود میں آئے ہیں آپ کو اس چیزکی قدر و قیمت پہچاننی چاہیے۔

ہم جس قدر قرآن کریم سے نزدیک تر ہوں گے  اس کے نتیجہ میں دو چیزیں وقوع پذیر ہونگی ایک یہ کہ ہم مزید قوی ،مضبوط اور مستحکم  ہوجائیں گے؛ دوسرے یہ کہ بین الاقوامی دشمنوں کی ہمارے خلاف یلغارمیں مزید اضافہ ہوجائے گا ؛ دشمن ہمارے خلاف جمع  ہوتے ہیں  تو ہوتے رہیں؛ ہم جس قدر قرآن کریم سے نزدیک تر ہونگے ، قرآن کریم کی سمت حرکت کریں گے قرآنی احکامات پر عمل کریں گے؛  بشریت کے دشمنوں کے اندر غصہ اور غیظ و غضب میں اتنا ہی اضافہ ہوگا؛ دشمن الزام عائد کریں گے، وہ جھوٹ بولیں گے، وہ پروپیگنڈہ کریں گے، وہ اقتصادی دباؤ ڈالیں گے، وہ سیاسی دباؤ ڈالیں گے وہ ہماری قوم کے ساتھ انواع و اقسام کی خباثتوں اور خیانتوں کا ارتکاب کریں گے جیسا کہ آپ مشاہدہ کررہے ہیں کہ وہ آج بھی ہمارے ساتھ دشمنی کررہے ہیں ۔ لیکن ان کے مقابلہ میں ہمارے صبر و تحمل ، ہماری توانائي ،ہماری طاقت اور ہمارے اثرانداز ہونے کی قدرت میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے گا ہماری قدرت و طاقت دگنا اور مضاعف ہوتی جائے گی ، جیسا کہ آپ  دیکھ رہے ہیں ۔

آج اسلامی جمہوریہ ایران کے مخالف محاذ کو آپ ملاحظہ کریں ؛ایک طویل اور لمبا چوڑا محاذ ہے؛ اس محاذ میں دنیا کے تمام شریر ، شرپسند اور شیاطین جمع ہیں؛ صہیونیوں سے لیکر امریکیوں تک ، مغربی خـبیث حکومتوں تک، غیر مغربی حکومتوں کے علاوہ سب سے زیادہ ان سے وابستہ اور سب سے زیادہ حقیراور پست حکومتوں تک ،سب کی سب اس محاذ میں شامل ہیں ہم دائرے کو محدود نہیں کرتے؛ ان کا دل جو کام بھی چاہتا ہے اس کام کو وہ انجام دیتے ہیں آپ ہر گزیہ تصور نہ کریں کہ کوئی کام ایسا ہے جو سامراجی طاقتیں ہمارے خلاف انجام دے سکتی ہیں اور وہ انجام نہیں دیتیں ، نہیں ایسا نہیں؛ جو کام بھی ان سے ہوسکا وہ انھوں نے ہمارے خلاف  آج تک انجام دیا ہے؛ آج بھی جو کام وہ کرسکتے ہیں وہ ہمارے خلاف کرتے ہیں اور جو کام وہ نہیں کرتے ، وہ اس لئے ہے کہ اس کام کو وہ کر نہیں سکتے اس کام کو کرنے کی ان میں ہمت نہیں ہے، البتہ ایرانی عوام  ، ایرانی قوم  عزت ، قدرت ، استقامت ، سرافرازی اور سربلندی کے ساتھ ان تمام طاقتوں کے مد مقابل کھڑی ہے۔

 ارشاد ہے: «حبل ممدود من السّماء»؛(3( یہ قرآن الہی رسی ہے؛ یہ قرآن اللہ تعالی کی مضبوط او رمستحکم ریسمان ہے اگر اس کو مضبوطی سے تھام لیں ، اگر اس کو محکم طریقہ سے پکڑ لیں تو پھر گناہوں میں پڑنے اور گمراہ ہونے کا خدشہ اور خوف و خطرہ  نہیں رہےگا۔

پروردگارا! ہمیں قرآن کے ساتھ زندہ رکھ، ہمیں قرآن کے ہمراہ موت دے، ہمیں قرآن کے ساتھ محشور فرما،

پرودگارا ! قرآن کو ہم سے راضی و خوشنود فرما، پروردگارا ! ہمیں قرآن اور اہلبیت علیھم السلام سے ایک لمحہ کے لئے بھی جدا نہ کرنا۔

پروردگارا! ہمارےعزیز شہدوں اور ہمارے رہبر کبیر حضرت امام  خمینی(رہ) کی روح کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔

میں تمام عزیز مہمانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں؛ بالخصوص ان دو محترم قاریوں جناب نعینع اور جناب شاذلی  کا جنھوں نےقرآن کریم کی تلاوت کا شرف حاصل کیا دونوں نے بہت ہی اچھے انداز میں تلاوت کی، ان شاء اللہ ، خداوند ان کو مؤفق اور کامیاب فرمائے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


1)
)  نحل: 97

(2)   نهج البلاغه، خطبه‌ى 176
3)
)  ارشاد القلوب، ج 2، ص 306