ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا عدلیہ کے سربراہ اور دیگر اعلی حکام سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عزیز بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید پیش کرتا ہوں! عدلیہ کے محترم اہلکاروں ، اور ساتویں تیر کے سرافراز و سربلند شہیدوں کے پسماندگان بھائیوں اور بہنوں کو بھی سلام و خوش آمدید کہتا ہوںچند باتیں اور چند جملات ان بزرگ شہیدوں کی شہادت کے متعلق اور چند باتیں اور چند جملات عدلیہ کے متعلق عرض کروں گا۔

قدرتی طور پر شہادت کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے ذریعہ کمال و بلندی کی سمت جاری حرکت میں فروغ اور برکت پیدا ہوتی ہے، یہ جو قرآن کریم میں اللہ تعالی نےشہید کو زندہ قراردیا ہے اور اسلامی عرف اور شرعی اصطلاح میں اللہ تعالی کی راہ میں جان دینے والے کو شہید " یعنی شاہد و حاضر و ناظر "کہا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ شہید کا خون برباد اور رائیگان نہیں ہوتا؛ شہید کی شخصیت جو اس کی تمناؤں اور اس کے اصولوں کا مظہر ہے، اس کا چرچہ عوام کے دلوں سے ختم نہیں ہوتا؛ اس کی یاد ہمیشہ دلوں میں باقی رہتی ہے یہ شہادت کی خصوصیت ہے۔جن لوگوں نے اس حقیقت کو اچھی طرح درک کرلیا اور اس کی تصیدق و تائید کی ہے ان کے نزدیک اللہ تعالی کے راستہ میں جان دینا بہت بڑی سعادت اور بہت بڑی تمنا ہے اور ان کا یہ عمل بالکل ضائع  اوربربادنہیں ہوتا؛ یہ عمل ان کے لئے فخر کاباعث ہے، یہ عمل ان کے لئے عظیم سربلندی کا موجب   ہے؛ وہ اس عمل کو چاہتے اور پسند کرتے ہیں، وہ اس عمل کو اللہ تعالی سے طلب کرتے ہیں؛ اس کو ایک عظیم حاجت کی طرح اپنے ذکر و مناجات میں اپنے پروردگار کے سامنے بیان کرتے ہیں۔

میرے خیال میں اس راہ کے افضل ترین افراد میں ساتویں تیر کے شہداء بھی شامل ہیں۔ ان میں سے  اکثر کو ہم قریب سے پہچانتے ہیں؛یا انھیں اسلامی تحریک کے دوران سے پہچانتے ہیں یا انھیں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد کے حوادث و واقعات کے ذریعہ پہچانتے ہیں ، ہم نےان کو آزما رکھا تھا، ہم نے ان کو پہچان رکھا تھا؛ درحقیقت انھوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھی ہوئی تھی اور وہ شہادت کے لئے بالکل آمادہ اور تیار تھے۔ اگر ان کو یہ خبر ملتی کہ وہ اس راہ میں شہید ہونگے تو نہ صرف وہ خوفزدہ اور مرعوب نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ اس خبر پر شاد اور خوشحال ہوتے تھے ؛ کیونکہ یہ ان کے لئے ایک عظيم خوشخبری تھی ۔ ان شہیدوں میں بھی  سر فہرست ہمارے عزيز و عظیم شہید ، آیت اللہ شہید بہشتی تھے؛ وہ ایک معتقد، مؤمن ، مخلص ،سچے اور کام کے میدان میں ایک سنجیدہ اور فعال انسان تھے؛جو چیز کہتے تھے اس پر اعتقاد اور یقین رکھتے تھے،اور جس چيز پروہ  اعتقاد اور یقین رکھتے تھے ، اس پر عمل کرتے تھے، وہ خطرے کو بھی پہچانتے تھے؛ میدان ،میدان کارزار ہے، زمین دوز بموں کا میدان ہے، ہر لمحہ اور ہر منٹ پر جان تلف ہوجانے کا خطرہ موجود ہے؛لیکن اس کے باوجود وہ بے خوف و خطر ، ہدف و مقصد پر نگاہ جمائے ہوئے اس راہ میں آگے بڑھتے تھے اور بالکل خوفزدہ نہیں ہوتے تھے، اس عزیز شہید کی خصوصیات میں ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ ایک منطقی انسان تھے، اصولوں کے پابند تھے؛ وہ حقیقی معنی میں ایک اصول پسند شمار ہوتے تھے،وہ اصول پر کسی کے ساتھ معاملہ نہیں کرتے تھے۔ ہم دیکھتے تھے کہ بعض لوگ مختلف طریقوں ، بہانوں اور مکر و فریب کے ذریعہ ان کو جذب کرنے یا ان کو اپنے مؤقف سے ہٹانے کی کوشش کرتے تھے، ان کو تواضع ، انکساری اور مدارات پر مجبور کرنے کی کوشش کرتے تھے؛ لیکن وہ اپنے مؤقف پر مضبوط و مستحکم طور پر قائم اور ڈٹےرہتے تھے،دنیا میں تاریخی اور مؤثر شخصیتیں اس طرح ابھرتی اور تشکیل پاتی ہیں؛ وہ اس طرح معاشرے میں ظہور کرتی اور ہمیشہ کے لئے اس افق پر باقی رہتی ہیں ؛ «انّ الّذين قالوا ربّنا اللَّه ثمّ استقاموا»1. کہنا آسان ہے؛ لیکن عمل کرنا مشکل ہے؛ اور عمل پر قائم رہنا اس سے کہیں زیادہ سخت اور دشوار ہے، بعض صرف کہتے ہیں ، بعض اس پر عمل کرکے دکھاتے ہیں، لیکن وہ بھی دنیا کے حوادث کے مقابلے میں، طوفانوں کے مقابلے میں ، ہنسی و مذاق کے مقابلے میں، طعنوں کے مقابلے میں ، غیر منصفانہ عداوتوں کے مقابلے میں طاقت نہیں رکھ سکتے ہیں، لہذا وہ رک جاتے ہیں، ٹھہر جاتے ہیں ؛ بعض صرف اس پر بھی اکتفا نہیں کرتے کہ صرف رک جائیں یا ٹھہر جائیں بلکہ وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں ؛ جیسا کہ آپ ملاحظہ کررہے ہیں۔

جو شخص اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ وہ پختہ اور خالص عزم و اعتقاد کی بنا پر؛ اپنی بات پر قائم رہےگا، وہ شجاعت و ایمان کے ساتھ اس پر گامزن رہےگا وہ صبر و بردباری کے ساتھ اس راستے پر چلے گا جیسا کہ اللہ تعالی کا قرآن مجید میں ارشاد ہے: «و اللَّه يحبّ الصّابرين»2 . اللہ تعالی صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے صبر اللہ تعالی کی محبت و الفت کا باعث ہے،صبر سے عمل کی قدر وقیمت پیدا ہوتی ہے؛ ایسی شخصیت نام آور اور مؤثر بن جاتی ہے، اس کا راستہ ، رہروان راہ کے لئے ایک شاہکار اور نمونہ بن جاتا ہےاور اس کا چہرہ ہمیشہ باقی رہتا ہے، شہید بہشتی پر اللہ تعالی کی رحمت و مغفرت نازل ہو، اور اللہ تعالی کی ان لوگوں پر رحمت و مغفرت نازل ہو جنھوں نے ان کے ساتھ جام شہادت نوش کیا؛ اور راہ اسلام کے شہیدوں پر اللہ تعالی کی رحمت و مغفرت نازل ہو۔

ان کی شہادت کا فوری طور پر یہ اثر ہوا  کہ اسلامی نظام میں ایک ساتھ اور آن واحد میں، مزید خلوص بھی پیدا ہوا اوراس کی حقانیت بھی ثابت ہوگئی اور معاشرے میں اس کی حقیقت کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہا، اس شہادت کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ بعض چہروں پر پڑی ہوئی نقابیں اتر گئیں ، اسلامی جمہوریہ ایران اور حضرت امام (رہ) کی مضبوط و مستحکم منطق مزید مستحکم ہوگئی  اور اسلام کے جدید اور نئے نظام نے اس دن استحکام پیدا کیا؛ اور ان دشوار او سخت شرائط میں آگے بڑھنے کی ہمت پیدا کی، جبکہ اس دور میں  حملہ آور فوجی دشمن نے ایرانی سرزمین کے ایک اہم اور حساس علاقہ میں اپنے پنجے گاڑ رکھے تھےاندازہ کیجئے کہ وہ کیسے سخت اور دشوار شرائط تھے، اور یہ واقعہ بظاہر کتنا شدید اور ہلا دینے والا واقعہ تھا لیکن اس عظیم شہادت نے انقلاب اسلامی پر کتنا عظیم اور مثبت اثر قائم کیا۔

میرے عزیزو! جب تک ہماری لغت میں، ہماری ثقافت میں ، ہماری منطق میں شہادت کا یہی درجہ اور یہی مقام  قائم رہےگا تو دنیا کی کوئی بھی طاقت اسلامی جمہوریہ ایران پر کامیاب نہیں ہوسکے گی چاہے دنیا کی موجودہ منہ زور سامراجی طاقتیں ہوں یا ان سے بھی کہیں زیادہ قوی اور مضبوط طاقتیں ہوں۔

کچھ باتیں عدلیہ سے متعلق پیش کرنا چاہتا ہوں، عدلیہ ملک کے نظام کا ایک حساس اور اہم حصہ ہے۔ پوری دنیا میں ایسا ہی ہے؛عدلیہ کا نقش و کردار ایک حیاتی اور فیصلہ کن کردارہوتا ہے؛ لیکن چونکہ ہمارےاسلامی جمہوری نظام کی اساس و بنیاد، حق اور عدل و انصاف پر استوار ہے لہذا عدلیہ کی ذمہ داری اور حساسیت بھی دگنی اور ضاعف ہوجاتی ہے۔

ہم نے عدلیہ کے اہلکاروں کے ساتھ سالانہ ملاقاتوں میں عدلیہ کے بارے میں بہت سے مسائل بیان کئے ہیں، تینوں قوا کے سربراہان نے بھی بہت سے مسائل پیش کئے ہیں کل بھی عدلیہ میں ایک اچھا اجتماع منعقد ہواتھا میں نے بھی اس کا کچھ حصہ ٹیلیویژن پر مشاہدہ کیا، اس میں تینوں قوا کے سربراہان نے اچھے اور مفید مطالب بیان کئے ، البتہ اچھے کلمات اور الفاظ ایک مسئلہ ہیں اور ان الفاظ و کلمات کو عملی جامہ پہنانا ایک الگ مسئلہ ہے اوران کے محقق ہونے کے بعد ان کو جاری و ساری رکھنا ایک دوسرا مسئلہ ہے جس کے لئے تلاش و کوشش  اور جد وجہد کی ضرورت ہے۔

الحمد للہ آج عدلیہ کے لئے اچھے شرائط فراہم ہیں، عدلیہ کے سربراہ بھی ایک اچھے عالم، فاضل، مجتہد،آگاہ انسان ہیں جو جوانی کی طاقت اور توانائیوں سےسرشار اور مالا مال ہیں؛ انھوں نے اپنی ذمہ داری کی اس کم و مختصر مدت میں اچھے عمل کا مظاہرہ کیا ہے، انسان مشاہدہ کرتا ہے کہ بہت سے مطالبات جن کی قانون کو عدلیہ سے توقع ہے، یا وہ انجام پاگئے ہیں یا انجام پانےکے قریب تر پہنچ گئے ہیں؛ اور یہ تمام چیزيں امید افزا ہیں۔

جیسا کہ اشارہ کیا گیا ہے عدلیہ کے اعلی حکام کا مجموعہ ایک پاک و سالم ، اچھا ، صمیمی اور تجربہ کار مجموعہ ہے؛ یہ امر انسان کے لئے امید بخش اور حوصلہ افزا امرہے، اور بحمد اللہ عدلیہ میں فاضل، روشن خيال ، شجاع اوراچھے کردار کے حامل ججوں کی بہت بڑی تعداد ہے؛ یہ ایسے حقائق ہیں جو موجود ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ خراب اور غلط نقاط کو پہچان لیا گیا ہے، ضروری اور لازمی امور کو انجام دیا گیا ہے اچھے اور مناسب پروگرام مرتب کئے گئے ہیں یا جن پروگراموں کی ضرورت محسوس کی گئی انھیں عملی جامہ پہنایا گیا ہے؛ یہ تمام امورامید افزا ہیں،لیکن امید پیدا کرنے کی راہیں ہموار ہونی چاہییں جس کے لئے ایک وسیع اور سنجید حرکت کی ضرورت ہےتاکہ یہ امید ثمر بخش ثابت ہو؛عدلیہ اپنے آپ کو ظاہر کرے، میں نے اکثر عرض کیا ہے کہ عدلیہ کو اس مقام پر پہنچنا چاہیے کہ اگر ملک کی سطح پر کسی جگہ کوئی شخص مظلومیت کا احساس کرے، تو وہ اپنے آپ کو یہ خوشخبری دے کہ میں عدالت میں جاؤں گا، عدلیہ کے پاس جاؤں گا اور اپنا حق وصول کروں گا اپنی مظلومیت کو دور کروں گا، اور یہ امید اس ملک کے ہر فرد کے اندر پیدا ہونی چاہیے۔

البتہ یہ امید آسانی کےساتھ ہاتھ میں آنے والی نہیں ہے؛ عدل و انصاف کے لئے رجوع کرنے والوں کو اس قدر منصفانہ اور عادلانہ فیصلے سنائےجائیں تاکہ آہستہ آہستہ یہ امید عوام کے دلوں میں پیدا ہوجائے ، البتہ ہم آج کی عدلیہ کا انقلاب سے پہلے اور طاغوت کے دور کی عدلیہ سے موازنہ نہیں کرنا چاہتے ہیں؛جن لوگوں نے ان ایام کو دیکھا ہے وہ جانتے ہیں ؛ کہ اس دور میں عدلیہ سے کسی قسم کی کوئی امید نہیں ہوتی تھی اس دور کی عدلیہ عوام کے لئے مایوسی کی جگہ تھی؛ ایسا نہیں تھا کہ کوئی یہ احساس کرےکہ عدلیہ سے حق وصول کرکے خوشی سے واپس لوٹے گا۔، نہیں ،اس دور کی عدلیہ کے اندر عدم توجہ اور تقوی نہ ہونے کی وجہ سے اتنے غیر منصفانہ کام انجام پذير ہوتے تھے کہ کسی کو عدلیہ سے امید کی توقع ہی نہیں تھی، البتہ طاقت، پارٹی اور رشوت کے ذریعہ تمام کام ہوجاتے تھے؛لہذا ہم اس دور کی عدلیہ کا اس دور کی عدلیہ سے موازنہ نہیں کرنا چاہتے ہیں اور اس بات پرخوشحال نہیں ہونا چاہتے کہ الحمد للہ اس دور میں  ہمارے پاس اچھے اور فاضل قاضی موجود ہیں، منصف مزاج جج موجود ہیں اچھا کام انجام دے رہے ہیں؛ ہم عدلیہ کا موازنہ اسلامی نظام کی لیاقت اور شائستگی کے ساتھ کرنا چاہتے ہماری عدلیہ اسلامی نظام کے لائق عدلیہ ہے اس کے لئے تلاش و کوشش کی ضرورت ہے اور تلاش وکوشش کا ایک پہلو یہی ہے کہ عدلیہ میں اچھے، مؤمن اور منصف افراد سے استفادہ کیا جائے ۔ البتہ عدلیہ کے اندر موجود اچھے ، نیک و صالح افراد پر اعلی حکام کی جانب سے نظارت و نگرانی کی ضرورت ہے ان کی کارکردگی پر نگرانی اور مدیریت کی ضرورت ہے۔ اچھے انسان میں بھی خطا ،لغزش اور انحراف پیدا ہوسکتا ہے ایسا نہیں ہے کہ اچھے انسان ہمیشہ اچھے ہی باقی رہتے ہیں؛نہیں ، امتحانات سب کے لئے ہیں تمام حالات میں انحراف اور لغزشوں کے امکان پر نظر رکھنی چاہیے، یہ ایک انسانی حرکت و فعالیت کا سلسلہ ہے اور اس کی بہت بڑی اہمیت بھی ہے۔

عدلیہ میں ایک اور مسئلہ جس کی اہمیت انسانی مسئلہ سے کم نہیں ہے وہ عدلیہ کی عدالتوں کےروز مرہ کام کرنے کا مسئلہ ہے عدلیہ کی تعمیر نو اور عدلیہ کی مجموعی صورتحال کومسلسل  بہتر بنانے کے سلسلے میں تلاش وکوشش کرنی چاہیے۔ ہم عدلیہ کے ثبات اور استقلال کو سلب نہیں کرنا چاہتے ہیں؛ نہیں، ثبات اور استقلال کے ہمراہ  عدالت کی غلط روشوں اورطریقوں پرتنقیدی نگاہ بھی ہونی چاہیے جن میں بعض غلط روشیں جو ماضی سے میراث میں ملی ہیں اور ان میں بعض روشیں یورپی ممالک کی تقلید کے ذریعہ حاصل ہوئی ہیں اور وہ بھی ایسی روشیں ہیں جو یورپ میں اس وقت منسوخ ہوچکی ہیں؛ یہ ایک بہت ہی اہم نکتہ ہے جس پر توجہ مبذول کرنی چاہیے۔ کـبھی یوں ہوتا ہےکہ یہ قوانین  آسان کام کو مشکل بنا دیتے ہیں اور نتائج کو غیر اطمینان بخش بنا دیتے ہیں؛اچھے انسانوں کو اپنے میں غرق کردیتے ہیں، یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے، ایک اہم سلسلہ ہے؛ جس پردائم اور مسلسل توجہ رکھنے کی ضرورت ہے۔

ایک مسئلہ قوانین کا مسئلہ بھی ہے عدلیہ کے اندر قوانین اور ضوابط پر خصوصی توجہ رکھنی چاہیے قوانین پر نظر ثانی کرنی چاہیے جدید قوانین کی تدوین ہونی چاہیے۔البتہ ہمیں اطلاع ہے کہ عدالتی آئین اور جزائی قوانین بہت زيادہ توضیح ، تشریح اورتفصیل کے ساتھ منظوری کے مرحلے میں  ہیں؛ ان کوبھی  تمام قوانین کی سمت راہ پیدا کرنی چاہیے، کبھی طاغوت کے دور کا باقی ماندہ غلط قانون بہت سی مشکلات پیدا کرتا ہے جس دور میں عدلیہ کی بنیادغلط محور پر استوار تھی، قوانین میں تعارض وتضادکی وجہ سے عدالتوں کے لئے مختلف اور گوناں گوں مشکلات ایجاد ہوتی ہیں، گذشتہ برس ہم نے عرض کیا تھا؛ اعلی عدالتوں اور نچلی عدالتوں کے بہت سےاحکام میں عدم انطباق انھیں مشکلات کی وجہ سے پیش آتا ہے؛ ان قوانین کی اصلاح ہونی چاہیے البتہ یہ کام بہت سنگین اورعظیم ہے۔

ایک اور چیز جو قوہ عدلیہ کے مجموعہ کے لئے لازمی ہے وہ یہ ہے کہ عدلیہ کے اندر سیاسی احزاب و گروہوں اور حب و بغض کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے یہ ایک بڑا خطرہ ہے کہ عدالت کےصحیح  فیصلوں ، قاضی کے ذہن پر، تفتیشیی شعبہ کے افسر کے ذہن پر مقدمات کی مختلف فائلوں کی جانچ کے دوران اور قضاوت کے مختلف مراحل پر سیاسی پروپیگنڈے اثرگزار ہوتے ہیں، اخبارت لکھتے ہیں،اغیار کے ریڈیو خبریں بنا نشر کرتے ہیں،، دشمن زبان کھولتے ہیں، مختلف سیاسی جماعتیں باتیں بناتی ہیں ؛یہ چیزيں صحیح فیصلہ پر اثر انداز نہیں ہونی چاہییں عدلیہ کا ایک سب سے مشکل اور دشوار کام یہ ہےکہ اسے کسی بھی پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہونا چاہیے؛ یہ وہی «اعدلوا هو اقرب للتّقوى»3 ؛ ہے جس کی تلاوت کی ہے، آیت میں ارشاد ہوتا ہے: «و لا يجرمنّكم شنئان قوم على الّا تعدلوا»4؛ یعنی تم پر احساسات غلبہ پیدا نہ کریں؛عداوتیں غلبہ پیدا نہ کریں، آیت مبارکہ میں دشمنی و عداوت کے بارے میں آیا ہے دوستی اور محبت بھی کا بھی یہی حال ہے، دشمنی اور دوستی آپ کے حکم پر، آپ کے فیصلہ پر اثر انداز نہیں ہونی چاہیے دوستی اور دشمنی آپ کو عدل و انصاف کے راستے سے منحرف نہ کرے؛ «اعدلوا هو اقرب للتّقوى». تقوی یعنی وہی حفاظت، اپنی حفاظت، اپنے راستے کی حفاظت ، مشکلات میں گرفتار نہ ہونے کے سلسلے میں حفاظت اور مراقبت ضروری ہے ارشاد ہوتا ہے: یہی راستہ ہے جس کے ذریعہ آپ مشکلات کے پنجہ سے نجات پاتے ہیں؛یہی راستہ ہےکہ جس کی بدولت آپ اس عجیب و غریب اور خاردار راستے میں صحیح راستہ طے کرسکتے ہیں اور کسی مشکل کے بغیر آگے کی سمت گامزن رہ سکتے ہیں؛ «اعدلوا هو اقرب للتّقوى».۔

اس کا ایک مصداق اور نمونہ یہ ہے کہ مختلف روشوں اور طریقوں کے ذریعہ سیاسی فضا ، عدلیہ پر اثر انداز نہ ہو ، البتہ یہ کام کوئی آسان کام نہیں ہے؛ اس کا کہنا ، بیان کرنا آسان ہے، لیکن عمل کرنا بہت مشکل اور دشوار ہے؛ اس امر کی انسان کو منصفانہ طور پر تائید اور تصدیق کرنی چاہیے اگر ایسا ہوگيا ، تو اس وقت لوگ عدلیہ کے فیصلوں اور اقدامات پر اطمینان کا اظہار کریں گے، لوگوں کو ذہنی سکون اور آرام ملے گا؛ ممکن ہے بعض لوگ اس حکم سے اندرونی اور دلی طور پر راضی نہ ہوں، لیکن مطمئن اور قانع ہوگے ، اگر ہم اس کی ناقص تشبیہ کرنا چاہیں تو اس کو ہم کھیل کے میدان کے ریفری یا جج  سے تشبیہ کرسکتے ہیں جب ریفری کہتا ہے کہ یہ عمل صحیح ہے اور یہ عمل غلط ہے تو سب اس کے سامنے تسلیم ہوجاتے ہیں سبھی اس کی بات کو قبول کرلیتے ہیں؛ممکن ہے بعض  لوگ بد اخلاقی کا مظاہرہ کریں، لیکن ان کا عمل بد اخلاقی شمار ہوگا؛سب نےریفری کے حکم کو، جج کے فیصلے کو مان لیا ہے سب نے ریفری کی بات کو تسلیم کرلیا ہے البتہ ریفری کے فیصلے میں اورعدلیہ کے جج کےفیصلے میں زمین و آسمان کا فرق موجود ہے؛لیکن ایک ایسی صورتحال سامنے ہونی چاہیے؛ اور عوام کو احساس کرنا چاہیے کہ یہ فیصلہ حقیقت اور صداقت پر مبنی ہے؛ اس میں سیاسی احزاب و ساسی رجحانات اور حب و بغض اور دوستی اور دشمنی کا کوئی شائبہ موجود نہیں؛ اگر یہ احساس لوگوں کے اندر پیدا ہوجائے، ممکن ہے حکم کا نتیجہ ان کی مرضی کے مطابق نہ ہو حکم ان کے لئےرضایت بخش نہ ہولیکن پھر بھی وہ مطمئن ہوجائیں گے؛ کہيں گے بہت اچھا ؛ یہ حالت اطمینان بخش حالت ہےمعاشرے میں اس حالت کی مقبولیت بہت اچھی بات ہےاور یہ موقع عدلیہ کے لئے ایک عظیم فرصت اور ایک اچھا اور غنیمت موقع ہے۔

البتہ ملک کے تمام اداروں کو چاہیے کہ وہ عدلیہ کی مکمل اور بھر پور حمایت کریں؛ تاکہ عدلیہ اس میدان میں بغیر کسی لحاظ کے اپنا کام جاری و ساری رکھے؛ جیسا کہ ان تصویروں میں نمایاں ہے "جو عدلیہ کی علامت کے طور پر نصب کی گئی ہیں" اس تصویرکی آنکھ پر پٹی بندھی ہے البتہ آنکھ پر پٹی باندھنے کا مطلب حقائق اور واقعیات سے چشم پوشی نہیں ہے؛ اس چشم پوشی کا مطلب یہ ہے کہ عدلیہ کے نزدیک دوست و دشمن اور مدعی اور مدعی علیہ سب برابر، یکساں اور مساوی ہیں؛ ان کی شخصیت اور خصوصیت مد نظر نہیں ہے، اس چیز کی حفاظت کرنی چاہیے؛ البتہ یہ کام بہت سخت اور دشوار ہے اگر یہ کام انجام پذیر ہو جائے تو معاشرے کی پیشرفت و ترقی کے لئے یہ ایک بہت بڑا وسیلہ ہے؛ اسلامی جمہوری نظام کے لئے بہت بڑے امکانات ہیں یہ امکانات ترقی کی جانب گامزن رہنے میں مددگار ثابت ہونگے یہ وسائل ملک کی پیشرفت و ترقی میں مدد فراہم کریں گےیہ ایک بہت بڑا کام ہے۔

البتہ  اللہ تعالی کی ذات  پر توجہ، پروردگار متعال سے توسل، مخلصین کے لئے اللہ تعالی کے اجر و ثواب کی پاداش، اللہ تعالی پر سوء ظن نہ رکھناایسے امور ہیں جن سے انشاءاللہ اس عظیم کام کو انجام دینے کے سلسلے میں تمام اہلکاروں کو مدد ملے گی تاکہ وہ اس عظیم کام کو انجام دیں۔

یہ ایام رجب المرجب کے ایام ہیں یہ مہینہ دعا، توسل اور تضرع و زاری کا مہینہ ہے یہ مہینہ رمضان المبارک میں وارد ہونے کے لئے تیاری اور آمادگی کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں دعائیں پڑھنے کی سفارش کی گئی ہے، اعمال بجا لانے کی سفارش کی گئی ہے، استغفار کرنے کی تاکید کی گئی ہے یہ بے معنی سفارش  نہیں ہے دعا ہمیشہ اچھی چیز ہے، ہرایک دعا کو ہمیشہ پڑھا جاسکتا ہے؛لیکن اس دعا کی؛ رجب کے مہینے یا رجب کے خاص ایام میں سفارش کی گئی ہے؛ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس ماہ کی کوئی اہم خصوصیت ہے؛ ان ایام کی کوئی اہم خصوصیت ہے؛ ان خصوصیات سے استفادہ کرنا چاہیےانشاء اللہ خداوند متعال سے توسل کرنا چاہیے ،اس کی بارگاہ میں تضرع و زاری کرنی چاہیے اس سے مدد طلب کرنی چاہیے، اس پر توکل رکھناچاہیے ، اس پر اعتماد کرنا چاہیے؛ اللہ تعالی بھی انشاءاللہ مدد ونصرت کرےگا۔

امید کرتا ہوں کہ شہیدوں کی پاک و طاہر روحیں اور امام (رہ) کی روح آپ سب سے راضی اور خوشنود ہوں ؛ اور حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کی دعائیں آپ تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں اور محترم حکام کے شامل حال رہیں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1)      فصلت 30؛ " درحقیقت جن لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالی ہمارا پروردگار ہے ، پھر انھوں نے استقاقت کی۔"

2)      آل عمران: 146

3)      : مائدہ:8

4)      مائدہ: 8