ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا حضرت علی (ع) کی میلاد کے موقع پر بوشہر کے عوام کے مختلف طبقات سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں بھی بوشہر کے عزیز بھائیوں اور بہنوں کو اس عید سعید اور مولود کعبہ کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتا ہوں آپ حضرات طویل مسافت طے کرکے یہاں تشریف لائے ہیں اور اپنےولایتمدار دلوں کی گہرا‍ئي سے نکلنے والی معطر سانسوں کے ذریعہ ہمارے حسینیہ کی فضا کو خوشبو سےمعطر کیا ہے۔ہماری تاریخ کے صفحات میں بوشہر کا ایک شاندار واقعہ موجود ہےیہ واقعہ بہت ہی درخشاں اور قابل فخر واقعہ ہے بوشہر کے محترم امام جمعہ (1) جو ایک عالم و فاضل اوردانشمند انسان ہیں جیسا کہ انھوں نے بھی اس اہم واقعہ کی جانب اشارہ کیاہے۔

بوشہر کی تاریخ ایک درخشاں اور قابل فخر تاریخ ہے۔ بوشہر کے شجاع اور بہادرعوام نےمتعدد بار اس ملک و قوم کے دشمنوں کوہزیمت و شکست اور پیچھے ہٹنے پرمجبور کیا اور انھیں ذلت آمیز شکست سے دوچار کرکے ان پر فتح حاصل کی بوشہر کے نام آورعلماء جن کے نام محترم امام جمعہ نے لئے ہیں وہ معروف و مشہور علماء ہیں جن کے نام حقیقت میں ممتاز شیعہ علماء کی فہرست میں شامل ہیں۔ شہید رئیس علی دلواری جو ایک مؤمن ، دلیر اور شجاع انسان تھے ان کا نام ان ناموں کی فہرست میں شامل ہے شہید دلواری پورے ملک میں ان مؤمن دلوں کو اپنی جانب مبـذول و مجذوب کرتےرہے جو اس مجاہد کے جہاد و مجاہدت اور تلاش  وکوشش اور حالات سے واقف اور آگاہ تھے، اس شہید کےنام کو مخفی رکھنے اور پوشیدہ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی لیکن ہم خدا کے شکر گزار ہیں کہ اس شہید کا نام لوگوں کی زبان پر جاری ہوگیا ؛ عوام نے اس کو پہچان لیا، اس کی شخصیت کی تعریف و ستائش شروع کردی، سبھی نے اس کی مظلومیت اوراس کی مظلومانہ شہادت کو اچھی طرح درک کرلیا، البتہ آج کے دور میں اور اس دور میں کافی فرق ہے،اس دور میں کچھ معدود افراد مجبوری اور مظلومیت کے ساتھ  ایک شجاع اور بہادر جوان کے ہمراہ برطانیہ کی سامراجی اور استعماری طاقت کا مقابلہ کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے؛ لیکن آج کثیر تعداد میں رئیس علی دلواری جیسے افراد ملک میں موجود ہیں جو تنہا اور اکیلے بھی نہیں ہیں، یہ ہمارے عزیز جوان ، ہمارے فداکار جوان، میدان کارزار میں سرگرم بسیجی و رضاکار فورس کے جوان، ثقافتی اور سیاسی محاذ پر سرگرم عمل  بسیجی اور رضاکار دستے آج پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں؛ یقینی طور پر بوشہر ان مراکز میں شامل ہے جو ایسے غیور و بہادرجوانوں کی تعلیم و تربیت اور رشد و نمو کو اپنے دوش پر لئے ہوئے ہے، میں نے چند سال قبل بوشہرکا جو دورہ کیا تھا وہ مجھے اچھی طرح یاد ہے میں اس کو فراموش نہیں کروں گا ، میں نے بوشہر کے عوام کے گہرے اور عمیق  ایمانی جذبات اور پاک  احساسات کا قریب سے مشاہدہ کیا تھا ، میں نے بوشہر کے لوگوں کے جوش و ولولہ کو قریب سے دیکھا تھا ۔آپ آج بھی ان جذبات کا اظہار کررہے ہیں ، سبھی جان لیں اور آپ عزیز جوان بھی جان لیں ؛ زمانہ تبدیل ہوگیا ہے، وہ دور گذر چکا ہے جب بیرونی و سامراجی طاقتیں اس علاقہ کے لوگوں کو آسانی کے ساتھ ، آزادانہ طور پر ذلیل و خوار کرتی تھیں، جب چاہتی تھیں اس علاقہ میں حاضر ہوجاتی تھیں ، وہاں اپنی فوج پیدل کرتی تھیں اور دباؤ ڈالتی تھیں ۔ آج ایرانی قوم دنیا کی ایک مقتدر قوم کے طور پر پہچانی جاتی ہے، مسئلہ درہم اوردینار کا مسئلہ نہیں ہے مسئلہ ہتھیاروں کا مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ تبلیغاتی و نشریاتی وسائل کا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ یہ چیزين ہمارے دشمنوں کے پاس ہزار برابرزيادہ ہیں ؛ مسئلہ ایمان کا مسئلہ ہے، مسئلہ پختہ عزم و ارادہ کا مسئلہ ہے، بصیرت کا مسئلہ ہے ایک قوم کی اپنی شان اپنے مقام اور اپنے حق کے متعلق آگاہی کا مسئلہ ہے۔آج سامراجی طاقتوں کا ہاتھ آشکاراور ظاہر ہوگیا ہے، تمام پروپیگنڈوں اور تبلیغات کے باوجود،تمام تبلیغاتی وسائل اختیار میں رکھنے کے باوجود اور اس تصور کے باوجود کہ رائے عامہ ان کی مٹھی میں ہے ان تمام چیزوں کے باوجود سامراجی طاقتوں اور ان کے سر فہرست امریکہ کی عزت و آبرو قوموں کے سامنے دن بدن ختم ہوتی جارہی ہے، انھیں مزید ذلت و رسوائی کا سامنا ہے قوموں کی استقامت و پائداری اور قومی طاقتوں کے ظہور کی قدر و منزلت مزید روشن ہوتی جائے گی، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے، حقیقی اقتدار ایرانی عوام کا حق ہے واقعی اقتدار ایرانی قوم سے متعلق ہے؛ اور ایرانی قوم کو اس کے منتخب راستہ سے دنیا کی کوئی طاقت بھی منصرف اور منحرف نہیں کرسکتی ۔

اچھا، آج بہت بڑی عید کا دن ہے؛ تاریخ انسانیت کی ایک بہت بڑی اور بے مثال شخصیت کی ولادت کا دن ہے؛ ہم پیغمبراسلام ،خاتم الانبیاء حضرت محمد  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی کو امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام  کی شان و منزلت اور عظمت کا ہم پلہ نہیں سمجھتے ہیں۔آج ہمیں تحفہ اور عیدی لینی چاہیے ہمارا تحفہ اور ہماری عیدی یہ ہے کہ ہمیں ان کی سیرت سے سبق اور درس حاصل کرنا چاہیے۔

 امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت ولادت سے لیکر شہادت کے ہنگام تک تمام ادوار میں ایک استثنائی اور بے مثال شخصیت ہے حضرت علی علیہ السلام کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی ، یہ شرف صرف اور صرف حضرت علی علیہ السلام کو نصیب ہوا ہے حضرت علی (ع) سے قبل اور بعد آج تک کسی کو یہ شرف نہیں ملا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کی شہادت بھی مسجد میں و محراب عبادت میں ہوئی ہے اور ان دونوں نقطوں کے درمیان حضرت علی علیہ السلام کی زندگی جہاد و مجاہدت کا عظیم مرقع ہے ، صبر و ضبط اور برداشت و تحقل کا عظیم پیکر ہے معرفت اور بصریت کا سرچشمہ و نمونہ ہے آپ کا عمل اور آپ کی حرکت اللہ تعالی کی مرضی و منشاء اور اس کی خوشنودی کے مطابق ہے، دست قدرت نےبچپن سے ہی حضرت علی  علیہ السلام کی تعلیم و تربیت کے لئے پیغبمر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نورانی آغوش کا انتخاب کیا امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی عمر مبارک چھ سال تھی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کو حضرت ابو طالب کے گھر سے اپنے گھر لے گئے ، امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے پیغبمر اسلام (ص) کے زیر سایہ  اور آنحضور (ص) کی آغوش میں پرورش اور تربیت پائی ، پیغمبر اسلام (ص) پر وحی نازل ہونے کے وقت صرف حضرت علی علیہ السلام تھے جو غار حراء اوران حساس لمحات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر رہتے تھے؛ و لقد کنت اتّبعہ اتّباع الفصیل اثر امّہ " پیغمبراسلام کے ہمراہ، پیغبمر اسلام سے الگ ہوئے بغیر امیر المؤمنین (ع) ان سے ہمیشہ سیکھ رہے تھے تعلیم حاصل کررہے تھے،خود حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں خطبہ قاصعہ میں ارشاد فرماتے ہیں: «و لقد سمعت رنّة الشّيطان حين نزل الوحى» ، فرماتے ہیں : جس  وقت پیغمبر اسلام (ص) پر وحی نازل ہوئی میں نے شیطان کے نالہ و شیون کی آواز سنی، «فقلت يا رسول اللَّه ما هذه الرّنّة»؛میں نے پیغمبر اسلام (ص) سے سوال کیا: یہ آواز جو میں نے سنی ہے کس کی آواز تھی ؟  آنحضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے فرمایا: «هذا الشّيطان قد ايس من عبادته»؛ لوگوں کو گمراہ کرنے کے سلسلے میں یہ شیطان کی ناامیدی اور مایوسی کی آواز اور اس کا نالہ و شیون تھا، ہدایت کا چراغ آگیا، اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: «انّك تسمع ما اسمع و ترى ما ارى». " بیشک جو میں سنتا ہوں وہ تم سنتے ہو اور جو میں دیکھتا ہوں وہ تم دیکھتے ہو " بچپن کے دور میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ قرب و نزدیکی کا یہ عالم ہے۔ بچپن میں پیغمبر اسلام (ص) پر ایمان لائے، پیغمبر اسلام کے ساتھ سب سے پہلے نماز ادا کی، پیغمبر اسلام (ص) کے ہمراہ جہاد کیا ،پیغمبر اسلام کے لئے فداکاری کے اعلی نمونے پیش کئے، پیغمبر اسلام کی حیات میں پوری زندگی آنحضور(ص) کی خدمت میں رہے،  اور آنحضور(ص) کی رحلت کے بعد بھی مختلف اداوار میں ، حق کی حفاظت ، دین خدا کی بقا، اسلام کی حفاظت اور استحکام کے لئے اپنی تمام کوششوں کو بروی کارلائے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نگاہ میں حق کی میزان اور حق کا معیارعلی علیہ السلام ہیں۔ سنی علماء  اور شیعہ علماء سے منقول ہےکہ: «على مع الحق و الحق مع على يدور حيثما دار»؛ اگر آپ حق کی تلاش و جستجو میں ہیں تو دیکھئے کہ علی کہاں کھڑے ہیں، وہ کیا کررہے ہیں ان ک انگلی کا اشارہ کس طرف ہے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی زندگی ایک ایسی زندگی ہے ۔

اس نہج البلاغہ کو اچھی طرح پڑھنا اور یاد کرنا چاہیے، حالیہ برسوں میں مسلمانوں کے علاوہ  بہت سے غیر مسلم مفکرین اور ماہرین بھی نہج البلاغ سے آشنا ہوئے ہیں ؛ انھوں نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے کلمات کا غور سے مطالعہ کیا اور پڑھا ہے؛ انھوں نے ان بیانات میں مجسم حکمتوں کو سنا اور یاد کیا اور اس کلام اور صاحب کلام کی عظمت کے سامنے حیرت زدہ اور سرخم ہیں؛ ہمیں نہج البلاغہ پر اس سے کہیں زيادہ توجہ کرنی چاہیے؛ ہمیں نہج البلاغہ کو اس سے کہیں زيادہ یاد کرنا چاہیے؛ ہمیں نہج البلاغہ کے اس بحر بیکراں اورحکمتوں کے اتھاہ سمندر سے کہیں زیادہ استفادہ کرنا چاہیے؛ ان سے عمل کے تمام پہلو واضح اور نمایاں ہوتے ہیں، ان میں ہمارے لئے تمام اسباق ودروس موجود ہیں، ان نورانی کلمات کے بارے اہلسنت کے بزرگ علماء کی بعض تعبیرات موجود ہیں جن سے انسان تعجب میں ڈوب جاتا ہے۔ امیر المؤمنین علی علیہ السلام صرف شیعوں سے متعلق نہیں ہیں؛ بلکہ پورے عالم اسلام سے متعلق ہیں؛ جن لوگوں کے دلوں میں اسلام کے ساتھ گہری محبت ہے، وہ امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیھماالسلام کو علمی، معنوی،اخلاقی، انسانی اور الہی عظمت و شرف کی بلندی پرمشاہدہ کرتے ہیں۔

امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی زندگی سراپا درس ہے، امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے اعمال کے درمیان جو چیز انسان مشاہدہ کرتا ہے وہ یہ کہ ایک اچھے انسان اور ایک اچھےحاکم کی تمام نیک عادات و خصائل اور سیرت حضرت کامل و اکمل نمونہ ہیں اوران کی یہ خصوصیات آج ہمارے لئے سب سے اعلی اور اہم  نمونہ ہیں،ایسے لوگوں کو بصیرت دینے اور بصیرت عطا کرنے کامسئلہ ، جنھیں بصیرت کی ضرورت ہے؛ یعنی موجودہ حالات اور ماحول کے بارے میں لوگوں کو مختلف اداوار میں آگاہی فراہم کرنا، یہ عظیم شجاعت ہے یہ عظیم فداکاری ہے، لوگوں کو بصیرت اور آگاہی دینا ان کے ایمان اور فکر کو عمیق بنانا، یہ آگاہی اور بصیرت عوام کی اہم  خدمت ہے، جنگ صفین میں جب حریف دشمن  نےشکست و ناکامی کا احساس کیا اور جنگ کو روکنے کے لئے جب اس نے قرآن نیزوں پر بلند کئے، کچھ لوگ امیر المؤمنین (‏ع) کے اردگرد جمع ہوگئے اور جنگ کو روکنے کے لئےدباؤ ڈالنا شروع کردیا اور کہنے لگے کہ تسلیم ہوجائیں اور جنگ تمام کردیں ؛ انھوں نے قرآن کو پیش کیا، یہ کام عجیب و غریب کام تھا، حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: آپ لوگ اشتباہ کررہے ہیں؛ آپ دشمن کو نہیں پہچانتے ہیں یہ لوگ جو آج قرآن کریم کو حکم کے طور پر پیش کررہے ہیں ان کا قرآن پراعتقاد اور یقین نہیں ہے، میں ان کو اجھی طرح پہچنتا ہوں «انّى عرفتهم اطفالا و رجالا»؛ میں ان کو بچپنے سے پہچانتا ہوں میں نے ان کی بزرگی کا دور بھی دیکھا ہے۔ «فكانوا شرّ اطفال و شرّ رجال»؛ یہ لوگ بچن میں بھی شریر اور برے تھے اور بڑے ہوکر بھی شریر اور برے ہی ہیں ان کا قرآن پر کوئی یقین نہیں ہے جب یہ کسی مشکل میں پھنس جاتے ہیں تو قرآن کو پیش کرتے ہیں البتہ ان لوگوں نے امیر المؤمنین کی ان باتوں پر توجہ نہیں کی، اصرار کیا اور عالم اسلام کو زبردست نقصان پہنچایا۔

امیرالمؤمنین علی علیہ اسلام بصیرت عطا کرنے والے ہیں، آج ہمیں اس بصیرت کی ضرورت ہے، آج عالم اسلام کے دشمن، اسلامی اتحاد کے دشمن ، دین کا لباس پہن کر میدان میں وارد ہوتے ہیں، اخلاق کا لباس اوڑھ کرمیدان میں وارد ہوتے ہیں؛ ہمیں آگاہ اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جہاں وہ غیر مسلمانوں کی رائے عامہ کو منحرف کرنا اور فریب دینا چاہتے ہیں وہاں وہ انسانی حقوق کی بات کرتےہیں ڈیموکریسی اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں اور جہاں وہ عالم اسلامی کی رائے عامہ کو منحرف کرنا اور فریب دینا چاہتے ہیں تو وہاں وہ قرآن کا نام لیتے ہیں ، اسلام کا نام لیتے ہیں؛ جبکہ نہ وہ قرآن پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی اسلام پر ان کا اعتقاد اور یقین ہے اور نہ ہی انسانی حقوق اور جمہوریت پر ان کا کوئی یقین ہے۔یہ چیز امت مسلمہ کو جان لینی چاہیے ایرانی عوام نے ان چیزوں کا گذشتہ اکتیس برسوں میں خوب تجربہ کیا ہے؛آج بھی ہمیں جاننا چاہیے اور اس کے متعلق ہم سب کو آگاہ رہنا چاہیے۔

امیر المؤمنین علی علیہ السلام اپنے دوستوں کو فتنہ اور فریب کے موقع اور لمحات میں آگاہ و خبردار کرتے ہیں: «امضوا على حقّكم و صدقكم»؛حق و صداقت کے جس راستہ پر آپ گامزن ہیں سچائی اورحقیقت کے جس راستہ پر آپ عمل پیرا ہیں اس کو ہاتھ سے نہ جانیں دیں اس کو ترک نہ کریں؛ فتنہ پروروں اور فتنہ و فساد پھیلانے والوں کی باتیں آپ کے دلوں میں تزلزل پیدا نہ کریں؛ «امضوا على حقّكم و صدقكم»؛آپ کا راستہ صحیح اور درست راستہ ہے جیسا کہ ہم نے متعدد بار عرض کیا ہے کہ فتنہ کے دور میں فضا غبار آلودہے ، مطلع ابر آلود ہے ہوا صاف نہیں ہے، اچھے اور ممتاز افراد کبھی غلطی اور اشتباہ کا شکار ہوجاتے ہیں، یہاں معیار کا ہونا ضروری ہے، معیار بھی وہی حق و صداقت اور برہان و دلیل ہےجو عوام کے پاس موجود ہے، امیرالمؤمنین علی علیہ السلام لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرتے تھے آج ہمیں بھی اسی چیز کی ضرورت ہے۔

اسلام ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ اسلامی معاشرے و سماج میں اسلامی احکامات اور اسلامی دستورات کے مطابق ہدایت ،راہنمائی اور زندگی بسر کرنی چاہیے، اسلام حکم دیتا ہے کہ متجاوز اور حملہ آور دشمن کا پائداری اورسختی کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیے؛ دشمن کے ساتھ حدوں کو واضح اور مشخص کرنا چاہیے، اسلام کا فرمان ہے کہ دشمنوں کے مکر و فریب میں نہیں آنا چاہیے یہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کا واضح اور روشن راستہ ہے؛آج ہمیں بھی اس واضح اور درخشاں راستہ پر گامزن رہنے کی ضرورت ہے۔

البتہ انقلاب اسلامی کے فیض و برکت سے ایرانی قوم ایک بیدار اور آگاہ قوم ہے، اس ملک کی بہت سی مشکلات عوام کی بصیرت کی بدولت حل ہوگئی ہیں ، اکثر اوقات انسان کو یہ بات صاف طور پرنظر آتی ہے کہ عوام کی بڑی تعداد خواص وممتازافراد کی نسبت حقائق کو بہتر سمجھتے اور بہتر درک کرتےہیں؛کیونکہ ان کے دنیاوی تعلقات بہت ہی کم ہیں، یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے،میرے عزیز بھائیو اور بہنو! آپ جان لیں ، ایران کی پوری قوم جان لے ؛ ایرانی عوام نے اعلی اہداف و مقاصد کی جانب گامزن رہنے میں اپنی استقامت ، پائداری اور اپنے ثبات قدم کا واضح ثبوت دیا ہےاور اللہ تعالی کے فضل وکرم  اور اللہ تعالی کی توفیق کے ساتھ وہ اس پر ث ابت قدم رہیں گے اور اس پائداری و استقامت کی حفاظت کریں گے۔

ایرانی قوم اسلام کے سائے میں رہ کر ایک سعادت مند ، خوشحال ، اخلاق سے آراستہ و پیراستہ  اور عزت و اقتدارکی مالک قوم کے طور پر زندگی بسر کرنا چاہتی ہے، ایرانی قوم اس راستہ پر گامزن ہے انھوں نے اس راستہ پر گامزن رہ کر پیشرفت و ترقی حاصل کی ہے اور بڑے بڑے کام انجام دیئے ہیں،جو کچھ آپ آج اور اس دورمیں مشاہدہ کررہے ہیں، یہ ترقیات، یہ توانائیاں ، یہ فراواں وسائل، یہ انقلاب اسلامی کے اصلی نعروں کا قطعی طور پر جامہ عمل پہننا، یہ سب کامیابیاں آسانی کے ساتھ ہاتھ میں نہیں آئی ہیں ؛ ایرانی قوم نےان کامیابیوں کو اپنی بصیرت اور اپنی جہد و جہد و تلاش  وکوشش اور اپنی توانائیوں کے ذریعہ حاصل کیا ہے اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ایرانی قوم اس راستہ پر گامزن رہےگی،مستقبل ایرانی قوم کے ہاتھ میں ہے، دشمنوں اور بد نیتوں کا مکر و فریب ایرانی عوام کو ان کے راستہ سے منحرف اور منصرف نہیں کرسکے گا، آج ہمارے جوانوں کے اندر بحمد اللہ اچھی بصیرت موجود ہے ہمارے جوان مختلف شعبوں میں اچھے ، اہم اور بڑےکام انجام دے رہے ہیں  اوراس حرکت میں مزید اضافہ ہونا چاہیے اس ثابت قدمی میں، اس استقامت و پائداری میں، اس قومی اتحاد و یکجہتی میں،  روزبروز اضافہ ہونا چاہیے، اسلام کے اصولوں سے تمسک، قرآن مجید کےساتھ وابستگی اور اہلبیت علیھم السلام کی سیرت اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے کلمات کے ساتھ تمسک میں روزبروز اضافہ ہونا چاہیے۔

انشاء اللہ ہمارے عزیز جوان اس دن کا مشاہدہ کریں گے جب بین الاقوامی منہ زور اور سرکش طاقتیں یہ احساس کریں گی کہ وہ ایرانی  قوم کے خلاف اب منہ زوری اور طاقت آزمائی کرنے سے عاجز و درماندہ ہیں ۔ خداوند متعال عزیز قوم اور دلسوز و ہمدرد اور خدمتگزار حکام کی نصرت و مدد فرمائے تاکہ وہ اپنی تلاش و کوش کے ذریعہ اس ہدف کو مزید قریب کرنے میں کامیاب ہوجائیں اور انشاء اللہ اپنے اعمال کے ذریعہ اس کا جلد از جلد موقع فراہم کریں۔

اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کی مدد، نصرت اور حفاظت فرمائے، آپ نے جو یہ زحمت اٹھائی ہے اور طویل سفر طے کرکے یہاں تشریف لائے ہیں  اللہ تعالی آپ کواس پر اجر و ثواب  مرحمت فرمائے۔

میں آپ کے ذریعہ بوشہر کے تمام لوگوں کو سلام پیش کرتا ہوں اور ان کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرتا ہوں انشاء اللہ، خداوند متعال آپ سب سے راضی و خوشنود رہے، حضرت امام (رہ) کی روح آپ سے شاد و خوشحال رہے امید ہے کہ اللہ تعالی ہمارے عزیز شہیدوں اور بو شہر کے تمام  شہداء کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرمائے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) حجۃ الاسلام والمسلمین صفائی بوشہری