ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرمعظم کا امام حسین (ع) تربیتی یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے جوانوں سے خطاب

 

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

 اس یونیورسٹی میں ٹریننگ اور تربیت  کے دوران حاصل کردہ  کامیابیوں نیز تین خرداد ۱۳۶۱ ھ ۔ ش (چوبیس مئی ۱۹۸۲ عیسوی )کے عظیم دن کی سالگرہ کی مناسبت سے آپ سبھی عزیز جوانوں اور مستقبل کی امّیدوں  کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ، تین خرداد کا دن ، انقلاب کی تاریخ بلکہ ملک کی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش دن ہے  ۔

آج  کی  تقریب سپاہ پاسداران کے شایان ِ شان  انتہائی شاندار تقریب تھی ، یہ تقریب سپاہِ پاسداران کی معنوی ،روحانی ، جسمانی،  فکری و عملی  پیشرفت کی آئینہ دارتھی ۔

میرے عزیزو! خرّم شہر کی فتح کا دن  سنہ ۱۳۶۱ کے ماہِ اردیبہشت و خرداد (اپریل و مئی  ۱۹۸۲ عیسوی ) میں انجام پانے والے " بیت المقدّس " فوجی آپریشن کا نقطۂ عروج تھا، یہ دن  ہمارے لئے ، ہماری تاریخ و مستقبل کے لئے ایک سبق آموز اور عبرتناک دن ہے ، چونکہ اس دن سپاہِ پاسداران کے جاں بکف جانبازوں نے حیرت انگیز ہم آہنگی ، ناقابلِ وصف  شجاعت اور ایثار کے ذریعہ نہ صرف عراقی فوج کے جسم پر کاری ضرب لگائی بلکہ عالمی سامراجی نظام پر گہرا وار کیا چونکہ یہ نظام اپنے تمام وسائل کے ذریعہ بعثی حکومت کی پشت پناہی کر رہا تھا ، اس دن کسی کو اس کامیابی کا گمان تک نہیں تھا لیکن یہ واقعہ رونما ہوا ۔

اس کامیابی کا اصلی عامل و سبب کیا تھا؟ یوں تو اس سلسلے میں کئی عوامل کو گنوایاجاسکتا ہے لیکن اس کامیابی کاحقیقی عامل ، خداوندِعالم کی ذات اور  اپنی طاقت پر بھروسہ تھا ،اگر ہم اس دور میں پروگرام کے مطابق اور رائج حساب و کتاب کی بنیاد پر اس کے بارے میں غور و فکر کرتے تو کوئی بھی شخص یہ فیصلہ نہ کرپاتا کہ یہ واقعہ رونما ہوسکتا ہے لیکن ہمارے جوان ، ہمارے صاحب ِایمان ہموطن ، مسلّح افواج کے مجاھد، پر عزم ، مؤمن اور دلیر جوان ،خداپر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھّے ہوئے موت کی پرواہ کئے بغیر میدان کارزار میں کود پڑے اور اس عظیم واقعہ کو معرضِ وجود میں لائے ۔ خرّم شہر کی فتح اس قابلِ فخر کارنامہ کا نقطۂ عروج اور ثمرہ ہے لیکن اس فوجی آپریشن میں جو تقریبا ایک مہینہ تک جاری رہا ایثار و قربانی کے بے شمار حیرت انگیز مناظر  پائے جاتے ہیں ۔

عزیزجوانو!عزیزفرزندو! میں آپ کو سفارش کرتا ہوں کہ آپ ان فوجی آپریشنوں کے سلسلے میں تحریر شدہ کتابوں کا بغور مطالعہ کریں اور ملاحظہ کریں کہ کیا چیزرونما ہوئی ؟ اگرچہ ان کتابوں میں ان آپریشنوں کے محض چند ہی گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن یہ بھی غنیمت ہے ،  آپ ملاحظہ کیجئیے کہ ہمارے جوانوں ، ہمارے مجاہدوں نے کتنے درخشان  کارنامے انجام دئیے ہیں ،ان مجاھدوں اور جوانوں میں سے جس کسی کا تذکرہ کریں ایک موٹی کتاب بن جائےگی لیکن اگر ہم ان میں سے کسی کو بعنوانِ نمونہ اور استثناء پیش کرنا چاہیں  تو ہمیں شجاع، جان نثار اور دلیرکمانڈر"شہید متوسّلیان " جیسے افراد کا نام پیش کرنا چاہیے ،ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے کہ ان افراد نے اس عظیم فوجی آپریشن اور مقابلہ میں کیا کیا؟ کس طاقت سے استفادہ کیا ؟ یہ جملہ جو امامِ امّت (رہ)سے نقل ہوا ہے اور آپ نے جسے بارہا سنا ہے کہ " خرّم شہر کو خدا نے آزاد کیا" یہ جملہ  ان جملوں میں سے سب سے زیادہ دقیق اور حکیمانہ جملہ ہے جو اس سلسلے میں کہے گئے ہیں ، یہ جملہ  بعینہ  " وما رمیت اذرمیت ولٰکنّ اللہ رمیٰ"(۱)(اور پیغمبر آپ نے سنگریزے نہیں پھینکے ہیں بلکہ خدا نے پھینکے ہیں ) کی طرح ہے ۔مجاہدین ِاسلام کے دلوں ، ان کے  فولادی عزم و ارادے ، ان کے صبر ، ان کے طاقتور بازؤں اور جدّت ِعمل میں خداوند عالم کی قدرت جلوہ گر ہوئی ، ہمارادشمن اپنی مادّی طاقت پر مغرورتھا ، بالکل واضح ہے کہ کوئی بھی مادّی طاقت ایسی معنویّت اور انسانیّت کا ہرگز مقابلہ نہیں کر سکتی ، یہ ہمیشہ کی تاریخ ہے ، آج بھی ایسا ہی ہے ۔ میرے عزیزو! آج بھی مادّی طاقتیں اپنی تمام تر توانائی ، پیسہ ، صنعت ، پیشرفتہ ٹیکنالوجی ، علمی ترقّی کے باوجود ایک ایسے انسانی مجموعہ کا مقابلہ کرنے سے عاجزو لاچار ہیں جس نے ایمان ، عزمِ راسخ، ہمّت اور ایثار کو اپنا معیار قراردیا ہے ۔

وہ لوگ جو اس دور میں ایرانی قوم اور مجاہدین ِ اسلام کے خلاف صف آرا تھے بعینہ وہی لوگ ہیں جو آج ایرانی قوم کے مدِّ مقابل صف آراء ہیں ، ہمیں ان لوگوں کو پہچاننا چاہیے ۔ اس دور میں  بھی اس قوم کا سامنا ، امریکہ ، برطانیہ ، نیٹو، اور فرانس و جرمنی سے تھا، یہ حکومتیں اس دور میں صدّام  ملعون کو کیمیاوی اسلحہ دے رہی تھیں ، فوجی سازو سامان فراہم کر رہی تھیں ، جنگی جہاز ، جنگی  نقشہ جات اورمحاذِجنگ کی تازہ ترین نقل و حرکت سے باخبر کر رہی تھیں ،یہ حکومتیں، اس امّید سے  صدّام کے پیچھے  کھڑی تھیں کہ شاید وہ اس طریقہ سے اسلامی جمہوری نظام ، توحید و معنویت کے اس  بلندمرتبہ نظام ، توحید و انسانیت کے اس لہراتے پرچم کو سرنگوں کر سکیں اور اقوامِ عالم کی صدائے آزادی و خود مختاری کو دبا سکیں ۔ اس دور میں صدّام کی پشت پر یہی لوگ تھے آج بھی یہی لوگ ہیں ۔ آج بھی یہی لوگ ہیں جو اپنے جھوٹے پروپیگنڈوں کے ذریعہ حقائق کو توڑمروڑکر پیش کررہے ہیں ، یہ لوگ  دنیا کے اکثر خطّوں کی بدامنی کا باعث خود ہیں  لیکن ایران کو عالمی امن کے لئے خطرہ ظاہر کررہے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جوپاکستان میں آئے دن مظالم ڈھا رہے ہیں، افغانستان میں سالہا سال سے خون کی ہولی کھیل رہے ہیں ، عوام کو قیدی بنائے ہوئے ہیں ، عراق و فلسطین میں خون کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جو قدس کی  غاصب شیطانی صہیونی حکومت کی بے دریغ حمایت کر رہے ہیں ، یہی لوگ آج ایرانی قوم کے خلاف صف آرا ہیں ۔ سنہ ۶۱ میں صدّام کی پشت پر بھی یہی لوگ تھے ۔ اس دن انہیں شکست کھانا پڑی تھی آپ اطمینان رکھیے کہ موجودہ دور میں بھی انہیں ہزیمت اٹھانا پڑے گی ۔

اسلامی جمہوری نظام ، دنیا کی دوسری جمہوری وغیر جمہوری حکومتوں  کی مانند نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا نظام ہے جس کے پاس پیغام ہے ، اسلامی نطام کے پاس وہ پیغام ہے جس کی دیگر اقوامِ عالم پیاسی ہیں ، یہ نظام دنیا کے دیگر ممالک ، دیگر حکومتوں اور سیاسی نظاموں سے بالکل مختلف ہے ، وہ نظام ایک خاص جغرافیائی حد تک محدود ہیں ، ان پر ایسے حکمران مسلّط ہیں جو قسم قسم کی شہوتوں  اورخواہشات ِ نفسانی کا شکار ہیں لیکن اس نظام میں انسانیت اور انسانی اقدار کے مسئلہ کو اہمیت دی جاتی ہے ، دوسروں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے والی تسلّط پسند طاقتوں  کے چنگل سے مظلوم قوموں کو نجات دلانے کی بات کی جاتی ہے ، ہمارااسلامی نظام ، عالمِ انسانیت کے لئیے پیغام کا حامل ہے ، اسی پیغام نے دنیا کو نگلنے  کی کوشش میں مصروف طاقتوں کو اس قوم کے مقابل لا کھڑا کیا ہے ۔اگر آج اس مقابلہ کا پہلا دن ہوتا تو عین ممکن تھا کہ کچھ لوگوں کے دل  خوف سے لرز اٹھتے ، لیکن آج پہلا د ن نہیں ہے ، گزشتہ اکتیس سال سے مختلف صورتوں میں  یہ مقابلہ جاری ہے : اس دوران ہمارے دشمنوں نے  فوجی حملہ ، سیاسی ہتھکنڈہ ، اقتصادی پابندی اور دیگر طرح طرح کی دھمکیوں کو آزمایا، دنیا کے توسیع پسند ممالک میں مختلف حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن ایرانی قوم آج بھی اپنی جگہ مضبوطی سے کھڑی ہے ، یہ مضبوط عمارت روزبروزسرفراز ہوتی گئی ہے ، اس زرخیز زمین میں اس خدائی پودے ، اس شجرۂ طیبہ  کی جڑیں روزبروز پھیلتی چلی گئی ہیں ۔اگر اس دور میں معنویت ، اسلامی قدروں اور ایرانِ عزیز کے دشمنوں میں ذرّہ بھر امّید پائی جاتی تھی تو آج وہ بھی باقی نہیں ہے ، عالمِ یاس و ناامیدی میں ہاتھ پیر مار رہے ہیں ۔وہ اس راستہ کو نہیں پہچانتے ، وہ ایرانی قوم کو نہیں پہچانتے ، وہ عصرِحاضر کا موازنہ آج سے تیس، چالیس یا پچّاس برس قبل سے کر رہے ہیں جب  دنیا پر سپر طاقتوں کا راج تھا ؛ یہ موازنہ سراسر غلط ہے ، دنیا بدل چکی ہے ، قومیں جاگ اٹھی ہیں ، اسی وجہ سے  ایرانی قوم اور اس قوم کے برجستہ و ممتاز جوان(سپاہ ِ پاسداران کے جوان ) عصرِحاضر میں پوری دنیا کی قوموں کی امیّدوں کا مرکز ہیں  ، بہت  سی حکومتیں بھی آپ سے امّید لگائے بیٹھی ہیں اور آپ کی طرف دیکھ رہی ہیں حالانکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے اسلامی جمہوریہ ٔ ایران کسی بھی ملک کے اندرونی  معاملات میں ہر گز مداخلت نہیں کرتا ، لیکن ان  پیغامات  سے  ، اس استقامت سے  ، تمام میدانوں میں آپ کی معنوی طاقت  سے ان  کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور ان میں استقامت و مزاحمت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ موجودہ دور میں ، برّاعظمِ ایشیا، افریقہ ،امریکہ حتّیٰ یورپ میں ایسی قوموں کی کمی نہیں ہے جوآپ سے آس لگائے ہوئے ہیں اور آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں ۔

میرے عزیزو! جوانی ،اس کی قوّت اور اپنی صلاحیتوں کی قدر و قیمت  سمجھو،سپاہِ پاسداران  ، فوجی جوان ،  پولیس اور رضاکار فورس  کے جوان ،  ترقّی اور کمال کے اس موقعٔ غنیمت کی قدر وقیمت کو پہچانیں ،دورِحاضر میں اس الٰہی مملکت کے تمام وسائل ، صاحبِ ایمان ، نیک کردار اور ممتاز جوانوں  کے لئے وقف ہیں ، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ ان مواقع سے استفادہ کیجئیے ۔ ان مواقع سے استفادہ ، اس نعمت کا سب سے بڑا شکر ہے ۔

  اگرچہ امام حسین (ع)یونیورسٹی اور جامع یونیورسٹی دونوں نہایت عظیم اور مفید مراکز ہیں جنہیں سپاہِ پاسداران  نے قائم کیا ہے لیکن سپاہ کے فائدہ اور اس کی علمی ، فنّی اور عملی پیشرفت کے لئیے اس یونیورسٹی کو جامع یونیورسٹی سے الگ کرنا کل بھی ضروری تھا اور آج بھی ضروری ہے ، جامع یونیورسٹی اور سپاہ کی تربیت  و ٹریننگ کی ذمّہ دار یونیورسٹی میں  سنجیدگی سے اس کا تعاقب کیا جائے ۔ الحمد للہ ان یونیورسٹیوں میں اعلیٰ اساتید،اچھے جوان اور  بہترین منتظم  جمع ہیں ، ان میں سے ہر کوئی اپنی ذمّہ داری کو اچھے ڈھنگ سے نبھائے ۔

خداوندا! اس محفل پر اپنے لطف و کرم کو نازل فرما،پروردگارا! ہمارے عزیز امام (رہ)کو جنہوں نے ہمارے لئے یہ تابناک راستہ کھولا ،اپنے سب سے برتر لطف و کرم سے نواز ، خداوندا! ہمارے شہیدوں (جو آج بھی زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے ) کے درجات میں اضافہ فرما ، ہمیں ان سے ملحق فرما، حاضرینِ جلسہ کا خالصانہ سلام ، امام زمانہ( عج ) کی خدمت ِاقدس میں پہنچادے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ    

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) سورۂ انفال ، آیت ۱۷