ہفتہ مزدور فقط ہمارے عزیز مزدوروں سے متعلق نہیں ہے ؛ بلکہ یہ
ہفتہ تمام ایرانیوں سے متعلق ہے ؛ چونکہ اس ملک و ملت کے مستقبل کی تعمیر و ترقّی میں اس محنت کش طبقے کا شمار صفِ اوّل میں ہوتا ہے۔
مزدور پیشہ اور محنت کش افراد کے بارے میں دینِ اسلام کا نقطہ نظرکسی قسم کے تکلّف پر مبنی نہیں ہے ؛ کسی کو خوش کرنے کے لئیے نہیں ہے ۔ جب پیغمبر
اسلام (ص) ایک مزدور کے ہاتھوں کو چومنے کے لئیے جھکتے ہیں تو اس فعل کو تکلّف
آمیز نہیں قرار دیا جاسکتا ؛ بلکہ یہ عمل ایک تمدّن ساز عمل ہے ، ایک درس ہے ؛ اس عمل کو انجام دینے
کا مقصد یہ ہے تاکہ امت مسلمہ میں تاریخ کے ہر دور میں مزدور اور محنت کش طبقے کی
قوّت بازو اور مہارت کی قدردانی کی جائے ۔ ہم مزدور طبقے کو اس نگاہ سے دیکھتے ہیں
۔ معمولی مزدور ، ماہر مزدور ، انجینئر ، منصوبہ بندی کرنے والا اور ہر وہ شخص جو
ملک میں روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور
ملکی پیداوار کو بڑھانے میں کوشاں ہے وہ
دین اسلام کی اس تکریم و تعظیم کے دائرے میں شامل ہے ۔
محنت کش
طبقے کے مادی مطالبات اور ان کی مانگیں اپنی جگہ درست ؛ اور سبھی افراد کی ذمّہ
داری ہے کہ وہ ان مانگوں کاجائزہ لیں اور انہیں پورا کریں ؛ لیکن بات یہیں ختم
نہیں ہوتی بلکہ ایک معنوی تقاضا بھی پایا جاتا ہے اور وہ مزدور کی عزّت و عظمت اور
اس کی کوشش و فعّالیت کو اہمیت دینے کا مسئلہ ہے ؛ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ
عمل ایک جہاد ہے ؛ یہ بہت اہم چیز ہے ۔ محنت کش جہاں کہیں بھی مصروف عمل ہوخواہ وہ
کسی مشین کوچلا رہا ہو ، کوئی نقشہ کھینچ
رہا ہو یا منصوبہ بندی کر رہا ہو ، کسی کھیت پر کام کر رہاہو، الغرض وہ جہاں کہیں
بھی مصروف عمل ہو اور وہاں کوئی چیز تیّار ہو رہی ہو اسے اس بات کا احساس کا ہونا چاہیے
کہ وہ ایک عظیم ، اہم اور قیمتی عمل انجام دے رہاہے ۔ دین اسلام اس چیز کو بیان
کرنا چاہتا ہے ۔ یہ ہمارا قلبی عقیدہ ہے ۔
اس نقطہ نظر اور مادی نظریے میں زمین آسمان کا فرق ہے ، وہ سرمایہ دارانہ دنیا ہو
یا دنیا ئے اشتراکیت ہو دونوں ہی میں مزدور کو ایک آلہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔
آج کی سرمایہ دارانہ دنیا میں کچھ محنت کش اور مزدور پیشہ افراد مادی عیش و آرام
میں ہیں البتہ وہاں کے سبھی مزدور ایسے نہیں ہیں بعض افراد کی مالی حالت اچھی ہے ۔
لیکن اس کے باوجود یہی مزدور ، کمپنی مالکان ، کام اور پیداوار کے بارے میں پالیسی
مرتّب کرنے والے افراد کی نگاہ میں ایک آلہ ہے ؛مادی آلات و اوزار کی طرح اس کی
قیمت تبھی تک ہے جب تک اس سے مادی فائدہ حاصل ہو رہا ہو، اس سے پیسہ کمایا جاسکتا
ہو ۔ مزدور کے بارے میں ان دونوں نظریات میں بہت واضح فرق ہے ، دین اسلام کے نقطہ
نظر سے مزدور اور محنت کش شخص ، مجاہد فی سبیل اللہ ہے ؛ اور وہ جو بھی کام انجام
دیتا ہے ، مادی اجرت و مزدوری کے علاوہ ایک بہت بڑاالٰہی اجر و ثواب اس کے پیش نظر
ہوتا ہے ؛ ان دونوں نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔اس نظریے کا وجود لازمی و
ضروری ہے اور یہ وقت کی حقیقی ضرورت ہے ۔
اس اسلامی نظام
، ہمارے ملک عزیز کی جمہوری اسلامی میں ، مزدور پیشہ اور محنت کش طبقے نے انقلاب
کی آغاز سے ایک بہت ہی اچھّا امتحان دیا ہے ۔ ہم پر سلط کی گئی جنگ کے دوران سبھی
نے دیکھا کہ اس طبقے سے وابستہ افراد ، خواہ شہری مزدور ہو ں یا دیہاتی ، شعبہ
صنعت سےوابستہ مزدور ہو یا شعبہ زراعت سے ، یا دیگر خدماتی مراکز میں مصروف ، محنت
کش افراد ہوں ، ان سبھی افراد نے دفاعِ مقدّس کے دوران ، فوجی اور فوجی رسد و
امداد کے میدان میں بے پناہ خدمات انجام دیں، ان کی خدمات کو سبھی نے اپنی آنکھوں
سے مشاہدہ کیا ۔ اس کے علاوہ انقلاب کے آغاز سے لے کر آج تک ہمارے محنت کش طبقے نے
ہر موقع پر بہترین امتحان دیا ہے ۔
جیسا کہ آپ
جانتے ہیں دنیا میں محنت کش طبقے کے بارے
میں جو بھی سیاسی نعرے لگائے جاتے ہیں
انہیں عام طور پر حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کے لئیے ایک بہت بڑے ہتھکنڈے کے طور پر
استعمال کیا جاتا ہے ۔ اسلامی جمہوری نظام میں بھی ہمارے دشمنوں نے روزاوّل سے ہی
ہمارے اوپر دباؤ ڈالنے کے لئیے اس ہتھکنڈے کے استعمال کی کوشش کی ۔ سنہ ۱۳۵۷ ھ ۔ ش
کی انّیس ، بیس ، اکیس اور بائیس تاریخ (۸، ۹، ۱۰ ، ۱۱ فروری سنہ ۱۹۷۹ ع) میں ، ان چند دنوں میں مسلسل
یہ خبریں موصول ہو رہی تھیں کہ کسی واقعہ کی بنا پر کرج کے ایک کارخانے میں کچھ
سوشلسٹ اور بائیں بازو سے وابستہ افراد جمع ہیں اور وہ اس کارخانے کو اپنی
سرگرمیوں کا مرکز بنانا چاہتے ہیں ، یہ خبر ہمیں وہاں کام کرنے والے ملازمین نے دیں ،کرج کی یہ قدیم سڑک مزدوروں اور محنت کشوں کا
اہم مرکز ہے۔ وہ اسے اپنی سرگرمی کا مرکز بنانا چاہتے تھے ، وہ مزدوروں کو اپنے
ساتھ لے کر ایک جلوس کی شکل میں امام امّت رضوان اللہ تعالی علیہ کی رہائشگاہ
(مدرسہ علوی ) کی طرف روانہ ہونا چاہتے تھے تاکہ اپنے خیال خام میں حالات کو اپنے قبضہ میں لے سکیں ۔ مجھے جیسے ہی یہ
خبر ملی میں نے اپنے آپ کو وہاں پہنچایا ، کوئی تین یا چار سو مزدور وہاں موجود
تھے ۔ لیکن کانفرنس ہال میں تقریبا سات ، آٹھ سو افراد کا مجمع تھا ، مزدورں کے
علاوہ کچھ دوسرے لوگ بھی وہاں جمع تھے ۔ میں مسلسل کئی دن وہاں جاتا رہا، کبھی صبح
سے عصر تک وہیں رہتا ، اور کبھی صبح سے شام تک وہاں موجود رہتا ، ایک دن تو مسلسل
سات گھنٹے میں نے وہاں تقریر کی ، ان کو قانع کرنے کی کوشش کی ؛ دوران ِ تقریر ان میں سے ایک شخص نے آگے بڑھ کر نعرہ لگایا ، اپنی دلیل پیش کی ، میں نے اس
کا جواب دیا ، اسے قانع کیا ، جس کے نتیجے میں اس کارخانے کے مزدوروں نے خود ہی ان
شر پسند اور تخریب کار عناصر کو وہاں سے باہر نکال دیا، اس دن سے لیکر آج تک اسلام
اور اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں نے اپنے سیاسی نعروں کے ذریعہ مزدور یونینوں اور محنت کش طبقے کواسلام
اور جمہوریہ اسلامی کے خلاف استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے ۔ وہ تیس سال سے اس
ہتھکنڈے کو اسلامی جمہو ری نظام کے خلاف استعمال کرنے کے لئیے کوشاں ہیں ۔ اور اس
تیس سال کے دوران ہمارے مزدوروں اور محنت کش طبقے نے ہمیشہ ہی ان کے منہ پر زوردارگھونسہ
رسید کیا ہے ۔ ہم اپنے محنت کش طبقے کو اس
خصوصیّت سے پہچانتے ہیں ۔یہ چیزمحنت کش
طبقے اور اسلامی نظام کے مابین پائےجانے والے مضبوط اور سچّے رابطے کی غمّاز ہے ،
اس رابطے کی بنیاد " ایمان " کے مضبوط و مستحکم محور پر استوار ہے جو اس اسلامی نظام میں موجزن ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اس ملک کی پیداواری صلاحیت
(جس کا محور، مزدور پیشہ افراد اور کارخانوں کے مالکان ہیں ) میں روز افزوں اضافہ
ہورہا ہے اورہمارے دشمن اس میں کسی قسم کا خلل نہیں ڈال سکتے ۔
اگر ہم اس مسئلہ کی حقیقت اور اصلیت پر ایک نگاہ دوڑائیں
تو ہم دیکھیں گے کہ ملک کی مادی ترقّی دو بنیادی عناصر پر استوار ہے: ان میں سے ایک عنصر " علم
" ہے اور دوسرا عنصر "پیداوار " ہے ۔ اگر علم نہ ہو توپیداوار کو بھی نقصان پہنچ
سکتا ہے ؛علم کے ذریعہ ہی ملک ترقّی کر سکتا ہے ، اسی طرح اگر علم تو ہو لیکن اس
علم و دانش کی بنیاد پر پیداوار میں تبدیلی ، تکامل اور اضافہ نہ ہو تو بھی
ملک آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ طاغوتی حکومتوں
کے دور کا سب سے بڑا عیب یہ تھا کہ اس دور میں ہم " علم و سائنس " سے
محروم تھے ،جس کی وجہ سے ہمارا ملک ، پیداوار کے میدان میں بھی خاطر خواہ ترقّی
نہیں کر سکا ۔ اس دور میں جب دنیا نے صنعتی میدان میں قدم رکھا اور آگے کی جانب
قدم بڑھایا ، اگر چہ برّ اعظم ایشیا نے یورپ کے مقابلے میں بہت دیر سے صنعتی میدان میں قدم رکھا، لیکن اس
نے بھی اس میدان میں کافی ترقی کی ، لیکن ہم ان طاغوتی حکومتوں اور مختلف مسائل کی وجہ سے اس قافلے سے بہت پیچے رہ گئے
۔ اگر ہم اس نقصان کی تلافی کرنا چاہتے ہیں( ، جیسا کہ یہ ہماری دلی آرزور بھی ہے
اور ہماری قوم نے اس راستے میں قدم رکھ دیا ہے اور کافی حد تک پیشرفت بھی کی ہے )
توہمیں علم و پیداوار کو خصوصی اہمیت دینا ہو گی ؛ ہمیں اپنے علمی اور تحقیقی
مراکزمیں جدید اور ماڈرن وسائل سے استفادہ
کرنا ہوگا ۔ میں گذشتہ چند سال سے سائنس ا ور پیداوار کے مسئلے پر مسلسل زور دے
رہا ہوں، الحمد للہ ہمارے ملک میں سائنس و پیداوار کی ترقّی کے پہیے حرکت میں آچکے
ہیں ، البتّہ ان میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے ، ابھی ہم راستے کی ابتداء میں
ہیں ۔
دوسرا اہم عنصر
" پیداوار " ہے ۔ صنعتی اور زراعتی دونوں شعبوں میں پیداوار کی اہمیّت بہت زیادہ ہے ۔ وہ ملک جس میں پیداواری صلاحیت نہ پائی جاتی ہو وہ
ناگزیر طور پر دوسروں سے وابستہ ہوا کرتا ہے ۔ ایسی صورت میں اگر تمام دنیا کے تیل
و گیس کے ذخائر ہماری سرزمین میں پائے جاتے ہوں تو بھی وہ ہمارے کسی کام میں نہیں
آسکتے ؛ جیسا کہ آپ ملاحظہ کر رہے ہیں کہ کچھ ایسے بھی ممالک ہیں جن کی زمین ، معدنی اور طبیعی وسائل سے
مالا ہے ، توانائی کے ذخائر اور مختلف انتہائی قیمتی اور کمیاب دھاتوں کی دولت سے
مالا مال ہے ؛ لیکن اس خزانے کے باوجود وہ نہایت افلاس اور غربت کی زندگی بسر کر
رہے ہیں ۔ ملکی پیداوار میں تیزی آنا چاہیے ، اس پیداوار کو علمی و سائنسی بنیادوں
پر استوار ہونا چاہیے ؛ یہ چیز محنت کش طبقے اور کارخانے کے مالکوں کے دائرہ اختیا
ر میں ہے ۔ اس کے انتظامی امور کی ذمّہ داری حکومت کی ہے ؛ حکومت کو اس کی پلاننگ
اور منصوبہ بندی کرنا چاہیے اور اسے عملی جامہ پہنانا چاہیے ۔ اس سلسلے میں قانون
کی دفعہ چوالیس کی وہ پالیسیاں جو ہم نے حکومت اور قانون ساز اداروں کو ارسال کی ہیں ، معاون و مدد گار ثابت ہو
سکتی ہیں ؛ لیکن کوئی بھی اقدام کرنے سے پہلے اس کے تمام پہلوؤں کا بغورجائزہ لینا
چاہیے۔
میرے عزیزو!
انسان ایک عجیب و غریب مخلوق ہے ، کبھی کبھی رات کی عبادت ، رات کا تہجّد اور نماز
بھی شیطان کے نفوذکا وسیلہ بن جاتی ہے ، اور انسان کا نفس اس نماز کے دھوکے و فریب
کا شکار ہو جاتا ہے ! اسی طرح یہ اچھی سوچ ، یہ بہترین نظریات کبھی کبھی شیطان کے نفوذ کا باعث بن جاتے ہیں ۔ قانون کی
دفعہ چوالیس کی پالیسیاں بہت اچھی ہیں ۔ ان پر عمل درآمد بہت ضروری ہے ، لیکن ہمیں
اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ کہیں نماز شب کی مانند یہ ہمارے لئیے شیطان کا جال
نہ بن جائے ۔ شیطان صفت افراد اس میں بھی رخنہ اندازی کر سکتے ہیں ۔ میں نے بارہا
اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ بعض مفادپرست افراد ، قانون شکن قانون دان ، اور ایسے
شاطر قسم کے افراد جو قانون نافذکرنے والوں، مختلف اداروں کے ذمّہ دارحضرات اور گلی کوچہ کے عام
لوگوں کو گمراہ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں ، وہ مال و دولت کے حصول کی لالچ میں
کارخانے خریدلیتے ہیں ، اس کے بعدمختلف بہانوں سے اسے ٹھپ ہونے پر مجبور کرتے ہیں ،اور اس کے ملازمین اور مزدوروں کو وہاں سے نکال
دیتے ہیں اوراس کارخانے کی فرسودہ مشینوں اور آلات کو بیچ کربہت پیسہ کما لیتے ہیں
، اس کارخانے کی زمین کی فروخت سے کروڑوں اور اربوں رقم کما لیتے ہیں ؛ اس سے پہلے
بھی یہ کام انجام پایا ہے ، آج کے دور میں بھی ایسی چالیں چلی جا سکتی ہیں لہٰذا
آپ اس مسئلہ پر خصوصی توجّہ دیں۔
محنت و
مزدوری کے سلسلے میں ایک دوسرا اہم مسئلہ
، محنت کش اور کارخانے کے مالکوں کا باہمی رابطہ ہے ۔ اس سلسلے میں وہ دونوں طریقے جو ہمارے زمانے کی جانی پہچانی
دنیا میں رائج تھے وہ سراسر غلط ہیں ، سرمایہ
دارانہ نظام کی روش بھی غلط تھی اور نظام ِ اشتراکیت کا طریقہ کار بھی غلط تھا۔ اشتراکی
نظام کے نقطہ نظر سے مزدور اور کمپنی مالکان ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے ، جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ؛ محنت و مزدوری کے بارے میں اس نظام کا تجزیہ
و تحلیل اور نقطہ نظر یہ تھا ۔ انہوں نے
اس مشکل کا جو راہ حل پیش کیا وہ بھی ایک باطل اور غلط راہ حل تھا : انہوں نے کہا
کہ اس کا راہ حل یہ ہے کہ تمام پیداواری وسائل و منابع پر حکومت کا کنٹرول ہو ،
چند دہائیوں کے گزرنے کے بعد یہ راہ حل رسوائی و ذلّت سے دوچار ہوا۔ محنت و مزدوری کے
بارے میں ایک نقطہ نظر یہ تھا جو مزدور اور مالک کے درمیان ، دشمنی و عداوت کی
نگاہ پر مبنی تھا ۔ اس سلسلے میں ایک دوسرا نقطہ نگاہ ، اہل مغرب کا نقطہ نظر ہے
جس کے مطابق کمپنی کےمالکان ، کارخانوں کے
مالک ، مزدوروں اور محنت کش طبقے کے آقا و مالک ہیں، وہ ان کے اختیار وارادےکے
مالک ہیں ، اور مزدور و محنت کش طبقہ ان کے ہاتھوں میں ایک آلہ و اوزار کی طرح ہے ۔ یہ بھی انسانی
شخصیت کی توہین و تذلیل ہے ، غلط در غلط ہے ، پس محنت و مزدوری کے بارے میں دونوں
نقطہ نظر غلط ہیں۔ دین اسلام کا نقطہ نظر اس سے بالکل مختلف ہے ۔ اسلام کا نظریہ ،
باہمی تعاون پر استوار ہے ۔ مزدوراور کمپنی مالکان یہ دونوں ہی دو اہم عناصر ہیں جب یہ دونوں آپس
میں مل جائیں گے تو اس سے روزگار کے مواقع فراہم ہوں گے ۔ کمیونزم اور بائیں محاذ
کے نظریہ تضاد کے بر عکس ، دین اسلام کا نقطہ نظر ، باہمی تعاون اور احترام پر
مبنی ہے ۔ الحمد للہ کمیونزم کا یہ نظریہ دنیا کے فلسفیانہ نظریات سے ہمیشہ کے
لئیے محو ہو چکا ہے ۔ اسلام کے نقطہ نظر سے ، محنت کش اور کارخانوں کے مالک ایک
دوسرے کی مخالفت و دشمنی کے بجائے ایک تیسری چیز یعنی روزگار اور کام کے مواقع
پیدا کریں ، یہ دونوں باہمی تعاون سے روزگار کے مواقع فراہم کرتے ہیں ۔ یہ اسلام
کا نقطہ نظر ہے ؛ باہمی تعاون کی بات یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی سنّت الٰہی ہے جو دنیا کی تمام مخلوقات میں جلوہ گر ہے ؛ سیاسی ، سماجی ،
اقتصادی ، تاریخی اور دیگرتمام مسائل میں یہی حقیقت موجزن ہے ۔ کمیونزم کے نظریہ
تضاد کے مقابلے میں دین اسلام کا نظریہ باہمی تعاون ، ہم فکری ، ہم آہنگی، ہمراہی
پر مبنی ہے ، محنت کش طبقے اور کارخانے کے مالکوں کا مسئلہ بھی اسی نوعیّت کا
مسئلہ ہے ، ان دونوں عناصر کو روزگار اور کام کے مواقع پیداکرنے کے لئیے ایک دوسرے
سے ہاتھ ملا کر آگے بڑھنا ہوگا ۔ مالکوں اور ٹھیکیداروں کے بغیر ، مزدور کچھ بھی
نہیں کر سکتا ، اسی طرح ، مزدور کے بغیر ، مالک اور ٹھیکیدار بھی کوئی کام انجام
نہیں دے سکتا ۔ جب یہ دونوں ایک دوسرے سے تعاون کریں گے ، اور ان پر ایک انسانی ،
اخلاقی رابطہ سایہ فگن ہوگا تو ایسے ماحول میں پیداوار میں اضافے اور مادی ترقّی
کے علاوہ ایک معنوی اور روحانی فضا بھی پائی جائے گی ۔ ہمارا نظریہ یہ ہے۔ ہم بائیں
محاذ کی طرح ، نہ تو کمپنی مالکان کو ملعون اور مردود سمجھتے ہیں اور نہ ہی دائیں
بازو کی طرح انہیں ، مزدور کا مالک اور
کرتا دھرتا سمجھتے ہیں ؛ ہمارے نقطہ نظر سے اگر کارخانے کے مالکان میں باہمی تعاون
کا جذبہ پایا جاتا ہو تو وہ بھی شریف ،
نجیب اور قابل عزّت و احترام عنصر بن سکتے ہیں۔ اور اس شریف عنصر کو دوسرے شریف
عنصر یعنی مزدور سے انسانی اور اخلاقی اقدار کے زیر سایہ ہاتھ سے ہاتھ ملا کر آگے بڑھنا چاہیے ۔ یہ ایک بنیادی نوعیت کا کام ہے ۔ سبھی کو اس
راستے پر چلنا چاہیے ۔سیاسی شخصیات ، منصوبہ بندی کرنے والوں، پالیسی سازوں اور ان
پالیسیوں کو نافذ کرنے والوں کو اسی جانب قدم بڑھانا چاہیے ۔ مزدور و مالک کو بھی
پورے اخلاص کے ساتھ اس بات کی کوشش کرنا چاہیے تاکہ ان کی محنت کا ثمرہ ، ملک کی
ترقّی کی صورت میں ظاہر ہو۔
میرے عزیزو!
ابھی ہم بہت پیچھے ہیں ۔ البتّہ اگر ہم موجودہ صورت حال کا ، طاغوت کے دور حکومت
سے موازنہ کریں تو ہم بہت آگے ہیں ۔ طاغوت
کے دور حکومت میں ہم ہر چھوٹی بڑی چیزمیں اغیار کے محتاج تھے ۔ پیداوار ، مشینوں ،
کارخانہ جات کے آلات و اوزار اور صنعت کے میدان میں ہم دوسروں کے محتاج تھے۔ ملکی کارخانے ، بیرون ِ
ملک تیاّر ہونے والے پرزوں کو جوڑنے تک محدود تھے اور وہ سو فیصد اغیار سے وابستہ
تھے ۔ ہم نہ تو ان پرزوں کی ساخت پر قادر تھے اور نہ ہمیں ان کے ضروری عناصر کا علم تھا ۔ ہم ہر چیز دوسروں سے
حاصل کرنے پر مجبور تھے ، ہمیں اس سلسلے میں ان کی منّت وسماجت اور خوشامد کرنا
پڑتی تھی ، ہمیں ان کے حصول کے لئیے ، تیل ، پیسے ، عزّت و آبرو، اور اپنی سیاسی
طاقت کی قربانی دینا پڑتی تھی اور ان کی تسلّط پسندی کو قبول کرنا پڑتا تھا تب
کہیں ہمیں یہ ٹیکنالوجی حاصل ہو پاتی تھی ۔ لیکن آج ایرانی قوم اسی ٹیکنالوجی کو
بیرونِ ملک برآمد کر رہی ہے ۔ آج آپ کا ملک ، ڈیم اور بندبنانے ، پاور پلانٹوں کی تعمیر کے میدان میں دنیا کے
صف اوّل کے ممالک میں شمار ہوتا ہے ۔ وہ صورت حال کہاں اور آج کی صورت حال کہاں
؟دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ دور حاضر میں آپ صنعت اور ٹیکنالوجی کے میدان
میں جو کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں بہت سے ممالک اس کے خریدار ہیں ۔ آپ بہت
سے ممالک میں مختلف قسم کے کارخانے لگا رہے ہیں ، طاغوت کے دور حکومت میں اس کا
تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ ہم کبھی کسی بڑی آبادی والے ملک میں ، تیل و ثروت سے مالا مال ملک میں کارخانے لگانے کے اہل ہوں
گے ؟! وہاں صنعتی مراکز قائم کر سکیں گے
؟!اس دور میں یہ تصوّر بالکل بے معنیٰ تھا ؛ لیکن الحمد للہ آج یہ خواب شرمندہ
تعبیر ہو چکا ہے ۔ لہٰذا ہم ماضی کے مقابلے میں بہت آگے ہیں ؛ لیکن ہم اس مقام سے
ابھی بہت پیچھے ہیں جو ایرانی قوم ، اس قوم کے تاریخی ورثے اور دنیا میں اس قوم کے
مقام کے شایان شان ہے ۔ ہمیں تیزی سے آگے کی جانب قدم بڑھانے چاہییں ۔ اس مقصد کے
حصول کی خاطر ہمیں دن رات محنت کرنا ہوگی ۔ میں جو باربار دگنی ہمّت پر زور دے رہا
ہوں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے ۔ آپ کی ہمّت بس اس حد تک محدود نہ ہو کہ آپ اپنے
راستے کی کسی رکاوٹ کو دور کریں ، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ آپ کو ہمیشہ اپنی
نگاہیں سب سے اونچے مقام پر مرکوز رکھنا چاہیے اور اسے سر کرنے کی کوشش کرنا چاہیے
، دگنی ہمّت کا مطلب یہ ہے ، لیکن یاد رکھئیے کہ یہ ہمّت بغیر کسی محنت و کاوش کے
مفت ہاتھ نہیں آتی ، زبانی جمع خرچی ،اور تعریف و ستائش سے حاصل نہیں ہوتی ، اس کے
لئیے حقیقی معنی ٰ میں میدان عمل میں داخل ہونے اورجدید اختراعات کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں ،
محنت کش طبقے ، انجینئروں ، ریسرچ سینٹروں ، منصوبہ بندی کرنے والوں ، ان منصوبوں
کا مالی تعاون کرنے والوں ، کارخانوں کے مالکوں اور ان کا مالی تعاون کرنے والوں ،
حکومت کے متعلقہ حکام کو اپنی پوری
توانائی و استعداد کو بروئے کار لانا ہوگا، اور کئی برابر ہمّت کا مظاہرہ کرنا
ہوگا ، اس کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے اور یہ چیز ممکن ہے ۔ میرے عزیزو! میری اور آپ
کی صلاحیتیں اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ کبھی کبھی کوئی شخص دوسرے شخص کے سامنے ایسے
کام کی تجویزپیش کرتا ہے جو اس کے دائرہ
اختیار سے باہر ہوتی ہے ؛ یہ چیز معقول نہیں ہے ، لیکن جب آپ کسی ایسے جوان کو
دیکھتے ہیں جو جسمانی وضع و قطع ،اور پٹھوں کے اعتبار سے کشتی کا پہلوان بن سکتا
ہے ، صف اوّل کاجمناسٹک بن سکتا ہے ، یا ورزش کے کسی دوسرے شعبے میں ایک
اچھاو ماہرکھلاڑی بن سکتا ہے ؛ تو آپ اس کے سامنے یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ جاؤ
اور خوب محنت کرو ۔ لیکن اس کے بر عکس آپ یہ بات کسی ایسے ضعیف اندام شخص سے نہیں
کہہ سکتے جو اگر بیس سال بھی محنت و مشق کرے تب بھی کسی مقام تک نہیں پہنچ سکتا،
کشتی کا پہلوان نہیں بن سکتا ۔ ایرانی قوم کی مثال بھی اس قوی اور مضبوط جسم والے
جوان کی سی ہے کہ اگر یہ قوم اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائے تو ہر بلندی
کو سر کر سکتی ہے اور ایک ماہر قوم بن سکتی ہے ۔ ایرانی قوم ایک ایسی قوم ہے ۔ یہ
محض ایک دعویٰ نہیں ہے ، یہ کوئی سیاسی نعرہ نہیں ہے ؛ یہ وہ حقیقت ہے جو مطالعہ
کی بنا پر ہم پر واضح ہوئی ہے ، تیس سالہ تجربےنے بھی اس حقیقت کو روز روشن کی طرح
عیاں کردیا ہے ۔
ایک ایسی قوم جس
کی امداد کے لئیے کوئی بھی تیاّر نہیں ہے ، صنعت اور پیشرفتہ ٹیکنالوجی کے سبھی
دروازے اس پر بند ہیں لیکن اس کے باوجود یہی قوم خود اپنے بل بوتے پر دوسری اور تیسری نسل کے سینٹریفیوجز تیّار کرتی ہے !
جس کی وجہ سے سبھی ایٹمی طاقتیں ششدر و
حیران رہ گئی ہیں ۔ ایرانی قوم نے اسے کہاں سے سیکھا ؟ یہ ا یک ایسی قوم ہے کہ علم الحیات کے میدان میں کسی نے بھی اس کی
مدد نہیں کی لیکن دنیا نے دیکھا کہ اچانک یہی قوم بنیادی خلیوں کی مدد سے اپنی لیباٹری میں ایک مصنوعی حیوان کو خلق کرتی ہے ۔ دنیا کے
کتنے ممالک کے پاس یہ ٹیکنالوجی ہے ؟ سات ، آٹھ یا نو ممالک کے پاس ہی یہ
ٹیکنالوجی ہے ۔دنیا کے ان بے شمار ممالک میں سے اچانک ایک ملک ،مثلا دو سویں مقام
سے چھلانگ مار کر اچانک آٹھویں مقام پر پہنچ جاتا ہے ۔ یہ بات کس چیز کو بیان کر
رہی ہے ؟یہ بات ایرانی قوم کی بے پناہ صلاحیتوں کی غمّاز ہے ۔ جنگ کے
آغاز پر ہمیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ آر، پی ، جی کسے کہتے ہیں ؟ آر ، پی ، جی بم داغنے کاایک چھوٹا سا آلہ ہے ؛ جو لوگ محاذ
پر موجود تھے انہوں نے بارہا اس کا مشاہدہ کیا اور اس کا تجربہ کیا ۔ یہ معمولی سا
ہتھیار بھی ہمارے پاس نہیں تھا اور نہ ہی ہم اس کی ساخت پر قادر تھے ۔ ہماری فوج کے معمول کے
اسلحے میں بھی یہ شامل نہیں تھا ،لیکن اس دور سے کچھ ہی عرصہ گزرنے کے بعد یہ عالم
ہے کہ طرح طرح کی پابندیوں کے باوجود ہماری قوم آج سجّیل میزائیل بنا رہی ہے ،
مصنوعی سیّارے فضا میں بھیج رہی ہے ، اور دنیا کی آنکھیں تعجّب و حیرت سے پھٹی
جارہی ہیں ۔ شروع میں تو انہوں نے اس کا انکار کیا، اور کہا کہ اہل ایران جھوٹ بول
رہے ہیں ، ان کے پاس یہ ٹیکنالوجی نہیں ہے ؛ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ وہ زیادہ
دن تک یہ پروپیگنڈہ جاری نہیں رکھ سکتے تو ایرانی قوم کی صلاحیت کے اعتراف پر
مجبور ہوگئے ۔ سبھی شعبوں میں یہی صورت حال ہے ۔ اس کا مطلب کیاہے ؟ اس کا مطلب یہ
ہے کہ ایرانی جوان بہت باصلاحیت ہے ؛ یہ قوم استعداد کی دولت سے مالا مال ہے ؛ یہ
انسانی قوّت ایک عظیم سرمایہ ہے ۔ اس سے استفادہ کرنا چاہیے ۔ پس ہم ہر معرکہ کو
سر کر سکتے ہیں ۔ دگنی ہمّت کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں ۔
یہ دنیا جو
ایران کے مدّمقابل صف آراء ہے اور اسے اپنے خونی پنچے دکھا رہی ہے، اس سے بد اخلاقی
کا مظاہرہ کر رہی ہے اور جہاں کہیں بھی اس سے بن پڑتا ہے وہ کوئی نہ کوئی اشکال
تراشی ضرور کرتی ہے ، یہ دنیا سامراجی دنیا ہے ، یہ دنیا ظالم و جابر سرمایہ دارانہ نظام کے زیر تسلّط ہے ۔ یہ
دنیا اس نظام کو برداشت کرنے سے عاجزہے ،
چونکہ وہ اس کے قاعدہ و قانون سے خارج ہے ؛ اسی لئیے وہ اس سے دشمنی و خصومت کا سلوک
کر رہی ہے ، جیسا کہ آپ گذشتہ تیس سال سے ان دشمنیوں کو مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ یہ
دشمنیاں اور عداوتیں کچھ کم نہیں ہیں ، سبھی لوگ ان سے واقف ہیں اور انہوں نے
انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ، انہوں نے اس دوران ، دشمنی ، خباثت اور عناد کا
بازار گرم کر رکھا ہے ، لیکن وہ ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے ، اور اطمینان رکھیے
کہ وہ اس کے بعد بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گے ۔
ہمیں خداوند متعال کے لطف وکرم اور اس کی
توفیقات پر مکمّل بھروسا ہے ۔ ہمارا اعتماد اس جذبہ ایمانی پر استوارہے جس کا میں
نے ابتداء میں تذکرہ کیا تھا اور جو ایرانی قوم کے ہرفرد کے دل میں راسخ ہو چکا ہے
اور اس کی جڑیں بہت مضبوط ہیں ۔ جب انسان کے اندر یہ اعتماد و بھروسا موجزن ہو اور
اس کے ساتھ ساتھ وہ میدان عمل میں بھی اس جذبہ ایمانی کا بھر پور مظاہرہ کرے تو اس
آیت کا مصداق بن جاتا ہے : انّ الّذین آمنوا و عملواالصالحات " ؛ وہ آپ کا ایمان اور یہ آپ کا نیک عمل ۔ خداوند
متعال نے قرآن مجید میں نیک کردارصاحبان ایمان سے جو اس قدر زیادہ وعدے کیے ہیں وہ اسی ایمان اور عمل صالح کا ثمرہ ہے ، قرآن
مجید میں پروردگار عالم نے نیک کردار صاحبان ایمان سے ، دنیا میں کامیابی ، عالم آخرت و معنویت میں
فلاح اور نجات ، قرب الٰہی ، دنیا و آخرت میں سربلندی کا وعدہ کیا ہے ۔ ہمیں اسی
راستے پر آگے بڑھنا چاہیے ۔
امام امت رضوان اللہ تعالیٰ علیہ پر خداکی رحمت و درود نازل
ہو جن کی ذات گرامی نے ہمیں یہ راستہ دکھایا ؛ انہوں نے ہمارا ہاتھ پکڑ کر ہمیں اس راستے پر چلنا
سکھایا ، اپنے الٰہی جوہر کی بنا پر ہمیں خواب غفلت سے جگایا اور اس میدان میں لا
کھڑا کیا ۔ یہ قوم جس قدر بھی ترقّی کرے گی خداوند متعال امام امّت (رہ) کی نیکیوں
میں اور بھی زیادہ اضافہ کرے گا ۔اللہ تعالی کی رحمت و درود ہو ہمارے ان شہیدو ں
اور مجاہدین اسلام پر جنہوں نے اس راستے میں عظیم قربانیاں پیش
کیں ، جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان کارزار میں کود پڑے ، خواہ وہ خود ہوں
یا ان کے خاندان والے ، خواہ اس راہ میں جام شہادت نوش کرنے والوں کی بات ہو یا جسمانی اعضاء سے محروم ہونے
والوں کی ، اور خواہ وہ لوگ ہوں جو الحمد
للہ آج بھی ہماری قوم کی خدمت میں مصروف عمل ہیں ، خداوند متعال ان سبھی کو اجر و
ثواب عنایت فرمائے ۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ توفیقات الٰہی اور امام زمانہ (عج ) کی دعائیں آپ سبھی کے شامل
حال رہیں۔
والسّلام علیکم
و رحمۃ اللہ و برکاتہ