ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کاملک کی ممتاز نرسوں کےاجتماع سے خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

سب سے پہلےہم " یوم نرس " اور عقیلہ بنی ہاشم، تاریخ انسانیت کی مثالی خاتون  حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے آپ سبھی بھائیوں اور بہنوں اور قابل احترام نرسوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ پروردگار عالم ، آپ کی اس عظیم خدمت ، اس اہم اور قیمتی کاوش کے صلے میں ،آپ  سب کو، ملک کی تمام نرسوں اور ملک کے  شعبہ صحّت سے وابستہ سبھی افراد کو اپنی رحمت ، اپنی ہدایت و راہنمائی اور فضل و کرم مرحمت فرمائے ۔

ہماری آج کی ملاقات اور گفتگو کااصلی مقصد ، نرسوں کی زحمتوں اور خدمات کی قدردانی ہے۔ ملک کی نرسیں بجا طور پر اس بات کی سزاوار ہیں کہ ہم اس عظیم ،  طاقت فرسا اور سنگین ذمّہ داری کے سلسلے میں ان کا شکریہ ادا کریں ۔

صحت و تندرستی کا مسئلہ ، انسانی معاشرے کے سب سے بنیادی اور اہم مسائل میں شمار ہوتا ہے ۔ یہ مشہور و معروف حدیث " نعمتان مجھولتان الصحّۃ و الامان " (صحّت و تند رستی ، امن و سلامتی  دو ایسی نعمتیں ہیں جو مجہول رہتی ہیں ، جن کی قدر نہیں کی جاتی ) در حقیقت اس بنیادی اور حیاتی چیز کی طرف ایک اشارہ ہے ۔ تندرستی،  امن و سلامتی ایسی دو عظیم نعمتیں ہیں کہ انسان جب تک ان سے محروم نہ ہو جائے ان کی اہمیت اور قدر کا ادراک نہیں کر سکتا ۔ ان کی مثال ، ہوا اور سانس جیسی ہے ۔ جب تک انسان،  سانس کی بیماری میں مبتلا نہ ہو تب تک اسے اس مفت اور عام نعمت کی اہمیت کا احساس نہیں ہو پاتا لیکن جیسے ہی اسے سانس کی تکلیف لاحق ہوتی ہے اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ کتنی عظیم نعمت سے محروم ہو چکا ہے ۔ نرسیں، طبّی عملہ  اورمحکمہ  صحّت سے وابستہ دیگر ادارے  ، در حقیقت معاشرے کے لئیے تندرستی جیسی عظیم نعمت کوفراہم  کرتے ہیں ۔ ان میں سے ، نرس کا کردار بہت ممتاز اور برجستہ ہے ۔ نرس کو ہمیشہ ہی روحانی و نفسیاتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے چونکہ مسئلہ صرف اس کے جسم تک محدود نہیں ہے بلکہ روحانی تھکاوٹ، درد و تکلیف میں مبتلا بیمار کا سامنا، اس بیمار کے جسمانی علاج کے علاوہ اس  کے روحانی و معنوی علاج کا احساس ذمّہ داری ،نہایت طاقت فرسا مسئلہ ہے اور ایک سنگین کام ہے ۔ اس سنگین ذمّہ داری کو نرسوں نے سنبھال رکھا ہے۔ آپ اطمینان رکھیے کہ اپنے احساس ذمّہ داری کی بنا پر جو بھی وقت ، جو بھی لمحہ آپ بیمار اور درد و تکلیف میں مبتلا شخص کے سرہانے بتاتی ہیں اس کے صلے میں پروردگار عالم آپ کو اجر و ثواب عطا کرے گا۔ آپ کی اس  زندگی کا ایک بھی لمحہ  ، خدا کے حساب و کتاب سے محو نہیں ہو گا ۔ آپ ہر گز یہ تصوّر نہ کیجیے کہ وہ دشوار لمحے جو ایک نرس کسی بیمار کے سرہانے بسر کرتی ہے ،خداوند متعال ان سے غفلت برتے گا ؛ ایسا ہر گز نہیں ہے ۔آپ کا ہر لمحہ ، آپ کی ہر کوشش ، مشکلات کے مقابلے میں آپ کا صبر و تحمّل ، ایک نیکی ہے ، ثواب کا کام ہے اور خداوند متعال ان تمام لمحات کو آپ کے نامہ اعمال میں درج کر رہا ہے ۔ ان سخت و دشوارکاموں کی قدر و قیمت کو پہچاننا چاہیے جو انتہائی مؤثر و اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

البتّہ ، فرائض و ذمّہ داریاں بہت سنگین ہیں ، ان پر بھی توجّہ دینا چاہیے  ۔ ڈاکٹری اخلاقی منشور کی طرح ،نرسوں کے  اخلاقی منشور کالحاظ بھی ایک فریضہ ہے ۔ایک ذمّہ داری ہے ۔ آپ کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ، آپ کی ذمّہ داری بہت سنگین ہے ، چونکہ جو بیمار یہاں آتا ہے وہ انسان ہوتا ہے کوئی گاڑی یا مشین نہیں،لوہے اور فولاد کا مجموعہ نہیں ہوا کرتا ، اور بات اس کے جسم تک ہی محدود نہیں ہے ۔ بلکہ جب وہ بیمار ہو ، درد و تکلیف میں مبتلا ہو تو اس  کی روح ، اس کے  جذبات و احساسات بہت نازک مرحلے سے گزر رہے ہوتے ہیں ، اسے اس حالت میں دوسروں کی محبت و الفت اور مہربانی کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے ، کبھی کبھی آپ کی ہلکی سی مسکراہٹ ، آپ کے اچھے  رویّہ کی قیمت اور تاثیر اس دوا سے کہیں زیادہ ہوا کرتی ہے جو اس  بیمار کے علاج کے لئیے استعمال ہوتی  ہے ۔ بیمار ، گھبراہٹ و انتشار کا شکار ہوتا ہے ، وہ درد و تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے بالخصوص ، ایسے مریض جو صعب العلاج بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں ، ایسے مریضوں کی امداد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم جسمانی بیماری کے علاج میں ان کی مدد کریں ، جسمانی بیماری کا علاج ، دوا ، انجیکشن اور دیگر طبی احتیاطی تدابیر کے ذریعہ امکان پذیر ہے لیکن اس کی روح کا علاج معالجہ صرف محبّت و الفت ، مہربانی و ہمدردی کے ذریعہ ہی ممکن ہے ، کبھی کبھی یہ روحانی علاج معالجہ ، جسمانی علاج معالجہ کا متبادل بن جاتا ہے ۔ سائنس و تجربے دونوں اعتبار سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ انسانی روح پر حکم فرما احساس خوشی و مسرّت ، اس کے جسم پر بھی اپنے مثبت اثرات مرتب کرتا ہے ۔ یہ چیز آپ نرسوں کے دائرہ اختیار میں ہے ۔

نرس کا کام بہت سخت و دشوار کام ہے، اس کا ثواب بھی اسی قدر زیادہ ہے ؛ لیکن ان کی ذمّہ داری بھی نہایت سنگین ہے ۔ فریضے اور اجر ، حق اور تکلیف کے درمیان یہ توازن ، مذہب اسلام کے مفاہیم و مبانی کے ارکان کا ایک عظیم رکن ہے ۔جیسا کہ وزیر صحت نے اشارہ کیاکہ نرسوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجّہ دی جا رہی ہے ، یہ بہت اچھا قدم ہے لیکن یہ صرف تعلیم تک ہی محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ " نرسوں کی اخلاقی تربیت پر بھی توجّہ دی جائے ۔ نرسوں کے لئیے اخلاقی منشور مرتّب کیا جائے ، انہیں ان کے میثاق اور عہد و پیمان کی تعلیم دی جائے ؛ تاکہ نرسوں کو اپنے کام کی عظمت کا اندازہ ہو سکے اور وہ  شایان شان طریقے سے اپنی ذمّہ داریوں کو ادا کر سکیں ۔

میں پورے ملک کی نرسوں کے لئیے دعا کرتا ہوں کہ انہیں تھکن کا احساس تک نہ ہو ؛ بالخصوص آپ مثالی نرسوں کے لئیے خداوند متعال کی بارگاہ میں دست بدعا ہوں کہ وہ آپ کی مدد کرے ، آپ کی توفیقات میں روز افزوں اضافہ فرمائے ، اس پیشے کے انتخاب پر ، خدا وند عالم کرام الکاتبین کے ذریعہ آپ کے نامہ اعمال میں اجر و ثواب درج کرے ، انشاء اللہ آپ عاقبت بخیر ہوں ۔

اسلامی جمہوریہ ایران میں عقیلہ بنی ہاشم جناب زینب سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت کو " یوم نرس " سے جو موسوم کیا گیا ہے یہ انتہائی معنیٰ خیز بات ہے ۔ جناب زینب کبریٰ (س)، تاریخ کی ایک عظیم اور ممتاز خاتون ہیں جو تاریخ کے سب سے اہم مسائل میں کسی خاتون  کی مداخلت کی عظمت کواجاگر کرتی ہیں ۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ واقعہ کربلا میں عاشور کے دن ، خون نے شمشیر پر فتح حاصل کی،حقیقی معنیٰ میں ایسا ہی ہوا ، اس کامیابی اور فتح کا اصلی عامل حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ذات والا صفات تھی ؛ ورنہ خون کی داستان تو کربلا میں ہی تمام ہو چکی تھی ۔اور عاشور کے دن ، حق و باطل کی یہ جنگ بظاہر حق کے محاذ کی شکست پر اختتام پذیر ہوئی تھی ؛ لیکن یہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا کردار اور عزم تھا جس نے اس ظاہری شکست کو ایک حتمی اور دائمی فتح کی شکل میں تبدیل کر دیا ؛ یہ بہت اہم چیز ہے۔ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ عورت تاریخ کے حاشیے پر نہیں ہے ؛بلکہ وہ تاریخ کے اہم واقعات کے متن میں ہے۔ قرآن مجید نے بھی متعدد مقامات پر اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے ؛ لیکن یہ تاریخی واقعہ ، کوئی زیادہ دور کا واقعہ نہیں ہے ، گزشتہ امتوں سے مربوط نہیں ہے بلکہ یہ واقعہ ایک زندہ اور قابل ادراک واقعہ ہے کہ جہاں ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا ایک حیرت انگیزاور تابناک عظمت کے ساتھ ، میدان میں حاضر ہوتی ہیں ؛ اور ایک ایسا کارنامہ انجام دیتی ہیں جس کی بنا پر وہ دشمن جو بظاہر فتح کا نقّارہ بجا رہا تھا ، جو اپنے مخالفوں کا قلع قمع کر چکا تھا ،جس نے اپنے سر پر فتح کا تاج پہن رکھا تھا،  وہی دشمن خود اپنے شہر میں ، اپنے محل میں ، اپنے دارالحکومت میں ذلیل و رسو اہوگیا ؛ اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اس کی پیشانی پر ایک دائمی داغ رسوائی لگا دیا اور اس کی  فتح اور کامیابی کو شکست میں تبدیل کردیا ۔ یہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا کارنامہ ہے ۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے اس عمل سے پوری دنیا پر ظاہر کر دیا کہ خواتین کے حجاب اور پاکدامنی کو مجاہدانہ وقار اورعظیم جہاد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے جو خطبے آج بھی باقی ہیں ، ان سے آپ کے اقدام کی عظمت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ بازار کوفہ میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا ناقابل فراموش خطبہ کوئی معمولی خطبہ نہیں ہے ، کسی عظیم شخصیت کا معمولی اظہار خیال نہیں ہے ؛ بلکہ ان سخت و دشوار حالات میں  اس دور کے اسلامی معاشرے  کے مسائل کا تجزیہ و تحلیل ہے جو انتہائی خوبصورت الفاظ ، نہایت عمیق وگہرے مفاہیم کی شکل میں پیش کیا گیا ہے ۔ آپ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت کی طاقت تو دیکھیے ؛ کہ آپ کی شخصیت کی طاقت کس قدر زیادہ ہے ۔ ابھی دو دن پہلے کربلا کے صحراء میں آپ کے بھائی ، آپ کے قائد اور امام ، آپ کے اعزّاء و اقارب ،آپ کے بیٹوں اور دیگر جوانوں کو نہایت بے رحمی سے شہید کر دیا جاتا ہے، اور باقی بچ جانے والے ان بچوں اور خواتین کی اس چھوٹی سی جماعت کو قیدی بنا لیا جاتا ہے اور انہیں بے کجاوہ اونٹوں پر سوار کر کے ان تماشائیوں کے مجمع کے سامنے سے گزارا جاتا ہے ، اس مجمع کے بعض لوگ خوشیاں منا رہے ہیں ، اور کچھ لوگ آنسو بہا رہے ہیں ، ایسے بحرانی حالات میں اچانک یہ عظمت و وقار کا سورج طلوع ہوتا ہے ؛ اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا اسی لب و لہجے میں گفتگو کرتی ہیں جس انداز میں آپ کے والد ماجد حضرت علی علیہ السّلام منبر خلافت سے امت مسلمہ سے خطاب کیا کرتے تھے ؛ اسی انداز تخاطب سے ، انہیں کلمات سے ، اسی فصاحت و بلاغت سے ، انہیں بلند و بالا مفاہیم و مضامین سے کوفے والوں کو مخاطب کرتے ہوئی فرماتی ہیں : " یا اھل الکوفۃ ، یا اھل الغدر و الختل " ؛ ( اے کوفے والو! اے بے وفا اور غدار لوگو) اے دھوکے بازو! ایسے لوگو جنہوں نے ہماری وفاداری کا ڈھونگ رچایا ، اور شاید خود تمہیں بھی اس بات کا یقین تھا کہ تم دین اسلام اور اہلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سچے پیروکار ہو ؛ لیکن میدان امتحان میں تمہارے قدم ڈگمگا گئے ، اور اس پر آشوب اور فتنے کے دور میں تم نے اس اندھے پن کا مظاہرہ کیا ۔ " ھل فیکم الّا الصلف و العجب والشنف و الکذب و ملق الاماء و غمز الاعداء " ؛ (کیا تمہارے اندر ، بیہودہ گوئی ، خود پسندی ، جھوٹ ، کنیزوں کے مانند چاپلوسی اور دشمنوں کی طرح کینہ و عداوت  کے سوا کچھ اور بھی ہے ) تمہاری رفتار و گفتار میں یگانگت نہیں تھی ، تم اس دھوکے میں تھے اور یہ سوچ رہے تھے کہ تم آج بھی صاحب ایمان ہو ، گزشتہ کی طرح انقلابی ہو ، امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کے پیرو کار ہو ؛ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی ۔ تم اس آشوب و فتنے کا مقابلہ نہیں کر سکے ، تم اپنے آپ کو اس سے نجات نہیں دلا سکے ۔ " مثلکم کمثل الّتی نقضت غزلھا من بعد قوّۃ انکاثا " ؛ تہماری مثال اس نادان عورت کی سی ہے جس نے اپنے دھاگے کو مضبوط کاتنے کے بعد پھر اسے  ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ،   تم اس عورت کی طرح ہو گئے جو اون کاتتی ہے اسے دھاگے میں تبدیل کرتی ہے ، پھر ان دھاگوں کو دوبارہ کھولتی ہے اور انہیں ٹکڑوں میں تبدیل کر دیتی ہے ۔ تم نے اپنی بے بصیرتی ، حالات کی نزاکت کے عدم ادراک ، اور حق و باطل کے فرق کو نہ پہچاننے کی وجہ سے اپنے ماضی کے کارناموں پر پانی پھیر دیا ہے ۔ تم بظاہر تو ایمان کا دعویٰ کرتے ہو ، اپنے انقلابی ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہو لیکن اندر سے بالکل کھوکھلے ہو اورکوئی بھی تیز ہوا کا جھونکا تمہارے پائے ثبات میں لغزش پیدا کر سکتا ہے ۔ یہ اس دور کی مشکلات کا تجزیہ ہے جو جناب زینب سلام اللہ علیہا نے بیان فرمایا ہے ۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا ،  ان دشوار اور پر محن حالات میں اس قوت بیان اوراہم الفاظ کے  ذریعہ گفتگو کر رہی تھیں ۔ ایسے نہیں تھا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے سامنے کچھ معمولی سامعین  بیٹھے ہوئے تھے  اور آرام واطمینان سے آپ کی گفتگو کو سن رہے تھے ، اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا ایک معمولی خطیب کی طرح ان کے سامنے خطبہ دے رہی تھیں ، بلکہ آپ کے سامنے دشمنوں کا مجمع تھا ،آپ ،نیزہ بردار دشمنوں کے نرغے میں تھیں ؛ ان کے علاوہ اس مجمع میں کچھ دوغلے کردار والے افراد بھی موجود تھے ، یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے جناب مسلم کو ابن زیاد (لعنۃ اللہ علیہ ) کے حوالے کیا تھا ، جنہوں نے امام حسین علیہ السّلام کو ہزاروں خط لکھے اور انہیں کوفہ آنے کی دعوت دی اور پھر بے وفائی کا مظاہرہ کیا ، یہ وہی لوگ تھے جنہیں جس دن ابن زیاد کا مقابلہ کرنا چاہیے تھا وہ اپنے گھروں میں چھپے بیٹھے تھے ۔ بازار کوفہ میں یہی لوگ جمع تھے ، البتّہ کچھ ضعیف النفس افراد بھی موجود تھے جو مولائے کائنات ، امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کی بیٹی کو اسیر دیکھ کر آنسو بہا رہے تھے ۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا سامنا ایسے ناقابل اعتماد اور مختلف الاوصاف افراد سے تھا اس کے باوجود آپ نے انتہائی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں گفتگو کی۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا ایک تاریخ ساز خاتون ہیں؛ ایسی خاتون کو ڈرپوک و بزدل نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ ایک صاحب ایمان خاتون کا زنانہ جوہر مشکل حالات میں اپنے آپ کو اس طریقے سے ظاہر کرتا ہے ، یہ خاتون ایک اعلی مثال اور اعلی نمونہ ہے ، پوری  دنیا کےبڑے بڑے مردوں اور خواتین کے لئیے بہترین مثال ہے ۔ یہ خاتوں ، نبوی اور علوی انقلاب کی آفتوں کا تجزیہ و تحلیل کرتی ہے ؛ اور اہل کوفہ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہتی ہے کہ تم فتنے و آشوب کے دور میں حق کو نہیں پہچان سکے ؛ تم اپنی ذمّہ داریاں ادا نہیں کر سکے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نواسہ رسول کا سر نیزے پر بلند کیا گیا ۔ حضرت زینب سلام اللہ کی عظمت کو یہاں سے سمجھا جا سکتا ہے ۔ یوم نرس، حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا یوم ولادت ہے ؛ یہ ہماری خواتین کے لئیے ایک اہم موقع ہے کہ وہ اپنے کردار کو حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے کردار سے ملا کر دیکھیں ، عورت کی عظمت کو اس کے اسلامی اور ایمانی وقار، اس کے حجاب ، اس کی شرم و حیا اور پاکدامنی میں دیکھیں ۔ ایک مسلمان خاتون میں یہی صفات جلوہ گر ہونا چاہیے ۔

مغربی فاسد و بدعنوان دنیا نے غلط ،  انحرافی اور تحقیر آمیز طریقوں سے " عورت " کی شخصیت کے بارے میں اپنے افکار و نظریات کو دنیا کے ذہنوں پر تھوپنا چاہا:مغربی دنیا کا نظریہ یہ ہے کہ اگر عورت کو اپنی شخصیت کا اظہار کرنا ہے تو اسے مردوں کے لئیے دلکش ہونا چاہیے ۔ کیا عورت کی شخصیت یہی ہے ؟!اس مدہوش ، پاگل ،  جاہل اور صہیونزم سے متاثّر مغربی دنیا نے عورت کی منزلت و تعظیم کے لئیے یہ نظریہ پیش کیا ؛ اور کچھ لوگوں نے بلا سوچے سمجھے اسے قبول کر لیا ۔ عورت کی عظمت یہ نہیں ہے کہ وہ کچھ مردوں کی نظریں، خواہشات نفسانی کے اسیروں کی نظریں اپنی طرف کھینچے ؛ یہ کسی بھی عورت کے لئیے فخر نہیں ہے ؛ یہ عورت کا احترام و تعظیم نہیں ہے ؛ بلکہ یہ عورت کی تحقیر و تذلیل ہے ۔ عورت کی عظمت یہ ہے کہ وہ شرم و حیا اور زنانہ پاکدامنی کی حفاظت کرے جو پروردگار عالم نے اس کی جبلّت و فطرت میں بطور امانت قرار دی ہے؛ اسے ایمانی عزّت ووقار اور فرض شناسی کے احساس کے ساتھ  مخلوط کرے اورمناسب  موقع و محل پر اس لطافت کااستعمال کرے اور اس ایمانی طاقت کو اپنے مناسب موقع و محل پر بروئے کار لائے ۔ یہ ظریف ترکیب صرف خواتین کا خاصّہ ہے ؛ سختی و نرمی کا یہ حسین امتزاج ، خواتین سے مخصوص ہے ؛ یہ وہ طرّہ امتیاز ہے جو پروردگار عالم نے صرف خواتین کو عطا کیا ہے یہی وجہ ہے کہ پروردگار عالم نے قرآن مجید میں عالم انسانیت کے لئیے دو عورتوں کے کردار کو" ایمان " کے مثالی کردار کے طور پر پیش کیا ہے ، ان کا یہ مثالی کردار ، صرف خواتین کے لئیے نمونہ عمل نہیں ہے بلکہ تمام مردوں کے لئیے بھی ایک مثالی کردار ہے ۔ ان میں سے ایک فرعون کی زوجہ  ، جناب آسیہ ہیں اور دوسری ، جناب مریم ہیں " ضرب اللہ مثلا لّلذین آمنوا امرات فرعون " (۱ ) (اورخدا نے ایمان والوں کے لئیے زوجہ فرعون کی مثال پیش کی ہے ) " مریم ابنت عمران " (۲ ) ( اور مریم بنت عمران کی مثال پیش کی ہے )  ۔ یہ وہ اشارے اور علامتیں ہیں جو عورت کے بارے میں دین اسلام کے نقطہ نظر کو بیان کرتے ہیں ۔

ہمارا انقلاب ایک زینبی انقلاب ہے ۔ انقلاب کی تحریک کے آغاز سے ہی خواتین نے اپنا ممتاز کردار ادا کیا  ہے ۔ انقلابی تحریک اور اس کے بعد آٹھ سالہ جنگ کے دوران ، ماؤں ، بہنوں ، بیویوں کا کردار اگر  مجاہدین اسلام کے کردار کے مقابلے میں  زیادہ سنگین ، دردناک اور صبر آزما نہیں تھا تو اس سے کسی درجہ کم بھی نہیں تھا ۔ وہ ماں جس نے اپنے کڑیل جوان ، اپنے لخت جگر ، اپنے اٹھارہ ، بیس سال یا اس سے کم و بیش عمر کے  جوان کو پا لا پوسا ہو ، اسے محبت مادرانہ کے ساتھ پروان چڑھایا ہو ، اور اب اسے میدان کارزار میں بھیج رہی ہو ، اور اسے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ اس کے بعد اسے اپنے بیٹے کی صورت بھی دیکھنے کو ملی گی یا نہیں۔ ماں کا یہ جذبہ قربانی و ایثار اپنے آپ میں لائق صد تحسین ہے ، بیٹے کی محاذ جنگ کی طرف روانگی تو ایک بہت اچھا قدم ہے لیکن چونکہ یہ جوان ،جوانی کے جوش و ولولے  ، جذبہ ایمان و انقلاب سے سرشارہوتا ہے اس لئیے اس کا میدان جہاد میں جانا اور جان کا نذرانہ پیش کرنا کوئی تعجّب کی بات نہیں ہے ۔ لیکن ماں کی قربانی اور اس کا یہ عمل اگر بیٹے کے جذبہ  ایثار و جہاد سےبڑھ کر نہ بھی ہو تو اس سے کسی درجہ کم نہیں ہے ۔ درجہ شہادت پر فائز ہونے کے بعد جب اس کا بدن واپس آتا ہے تو یہ ماں اس بات پر فخر کرتی ہے کہ میرا بیٹا درجہ شہادت پر فائز ہوا ہے ۔ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے ؟ ہماری خواتیں نے انقلاب کی تحریک اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات میں حضرت  زینب  سلام اللہ علیہا کے کردار کی پیروی کی ہے ۔

میرے عزیزو ! میرے بھائیو اور بہنو! اسی راستے پر چل کر ہمارے انقلاب نے پیشرفت حاصل کی ہے ۔ ہمارے انقلاب کی اصلی طاقت اور عظمت انہیں چیزوں کی مرہون منّت ہے ؛ معنوی امور کی شیفتگی ، لطف پروردگار کی طرف مجذوب ہونا ،محبت خدا میں غرق ہونا یہ چیزیں ہمارے انقلاب کی طاقت کا سرچشمہ ہیں ۔ جب دشمن نے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے سامنے آپ کی ذات گرامی پر ٹوٹنے والے مصائب و آلام پر سرزنش و ملامت کے لئیے زبان کھولی ، تو آپ نے اپنی لاجواب حاضر جوابی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا " ما رأیت الّا جمیلا " ؛ میں نے خوبی و نیکی کے سوا کچھ نہیں دیکھا ۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بیٹوں، بھائیوں ، اور دیگر اعزّا و اقارب کے لاشوں کو خاک و خون میں غلطاں دیکھا ، انہیں ٹکڑے ٹکڑے دیکھا ، ان کے سروں کو نوک نیزہ پر دیکھا ؛ اس کے باوجود آپ فرماتی ہیں کہ میں نے خوبصورتی و نیکی کے سوا کچھ نہیں دیکھا !یہ کون سی خوبصورتی اور نیکی ہے ؟ اس خوبی کو اس چیزسے ملا کر دیکھیں جو حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے بارے میں تاریخ میں نقل ہوئی ہے کہ گیارہ محرّم کی شب میں بھی آپ کی نماز شب ترک نہیں ہوئی ، قید و اسارت کے دوران پروردگار عالم کی بارگاہ میں آپ کے راز و نیا ز ، خضوع و خشوع میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوا ۔ یہ خاتون حقیقی معنیٰ میں ایک مثالی خاتون ہیں ۔

          یہ انقلابِ کربلا کی باقی ماندہ بوندیں اور قطرے ہیں جو ہمارے انقلاب پر ٹپک رہے ہیں اور اسے عظمت عطا کر رہے ہیں ، ہمارے دشمنوں کے منہ میں خاک ، یہی وہ حقیقت ہے جس نے ایرانی قوم کو ان دشمنیوں اور خصومتوں کے باوجود دوسری قوموں کے لئیے ایک الہام بخش قوم قرار دیاہے ۔عصر حاضر میں ایرانی قوم دیگر مسلم اقوام کے لئیے ایک الہام بخش قوم ہے ، یہی بات ہمارے دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ اس پر پردے ڈال رہے ہیں ؛ لیکن حقیقت یہی ہے ۔

 اس قوم کی طاقت ، میزائیلوں ، توپوں ، ٹینکوں ، لڑاکا طیاروں اور دیگر جنگی ساز و سامان میں نہیں ہے ؛ اگر چہ یہ وسائل بھی ضروری ہیں، الحمد اللہ ہم ان ہتھیاروں سے لیس ہیں؛ لیکن اس قوم کی اصلی طاقت ،اس کا جذبہ ایمان ہے ۔ ہماری قوم نے پروردگار عالم کی توفیق، اس کی ہدایت اور امداد کے زیر سایہ اس جنگی سازو سامان کی تیاری میں بھی برق رفتار ترقّی کی ہے ۔ وسائل کے اعتبار سے ہماری موجودہ پوزیشن کا موازنہ نہ تو اول انقلاب سے کیا جاسکتا ہے اور بدرجہ اولی ٰ انقلاب کےپہلے کی پوزیشن سے تو اس کا کوئی بھی تقابل نہیں کیا جاسکتا ، اسی طریقے سے ہماری موجودہ پوزیشن کا تقابل ان ممالک سے بھی نہیں کیا جاسکتا جنہیں سالہا سال سے کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور وہ ہر اعتبار سے اغیار اور دشمن ممالک سے وابستہ رہے ہیں ۔ الحمد للہ ملت ایران نے اس میدان میں بھی نمایاں ترقّی کی ہے ؛ لیکن یہ فوجی ساز و سامان ہماری طاقت کا سرچشمہ نہیں ہے۔ اس اسلامی ملک و ملّت کا اصلی سرمایہ ، اس کی اصلی طاقت ، اس کاجذبہ ایمان ہے ؛ اس میں پایا جانے والے گوہر ایمان ہے ۔ اس کے ہوتے ہوئے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے پاس یہ مادی وسائل ہوں یا نہ ہوں ۔ یہ قوم تیس سال سے اپنے موقف پر قائم ہے ۔ تیس سال سے اس قوم کے ارد گرد ،  اقتصادی پاپندیوں  ، دھمکیوں ، فوجی حملوں، خباثتوں ، سیاسی و خفیہ ایجینسیوں کے حملوں  کا جال پھیلایا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود اس قوم نے  دن دگنی ، رات چگنی ترقّی  کی ہے ؛ اس نے ہمیشہ ،اپنے قدم آگے ہی بڑھائے ہیں ، کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ، کسی مقام پر سانس نہیں لیا ، حتّیٰ اس دوران اس نے معمول  کے مطابق ترقّی نہیں کی ہے بلکہ غیر معمولی ترقّی کی ہے ۔ لہٰذا ملت ایران کی عظمت کا راز اس کے گوہر ایمانی میں مضمر ہے ۔

 اب ، یہ نادان افراد ایرانی قوم کو دھمکیاں دے رہے ہیں ! امریکہ کے صدر نے گزشتہ ہفتے ، اشارے اور کنایے میں ایرانی قوم کو جوہری حملے کی دھمکی دی ۔ یہ دھمکیاں ایرانی قوم پر ہر گز مؤثر نہیں ہوں گی ۔ لیکن یہ دھمکی امریکہ کی سیاسی تاریخ کے لئیے شرم کا باعث بن چکی ہے  ۔ یہ امریکی حکومت کی کارکردگی کے لئیے ایک سیا ہ باب ہے ۔ ایٹمی حملے کی دھمکی ؟! اس سے ان کی قلعی  صاف کھل گئی ہے کہ امن پسندی ، انسان دوستی اور ایٹمی معاہدوں کی پابندی کی نمائش کے درپردہ کیا عوامل کار فرما ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ  ہماری طرف دوستی کا ہاتھ بڑہانے کے پس پردہ کیا ہے ۔ ان کی لومڑی صفت زبان اب بھیڑیے کی زبان میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ اب تک جو لوگ دوستی کی باتیں کر رہے تھے ، اس دھمکی کے بعد ان کے دل کی بات معلوم ہوگئی ۔ ان کی حقیقت عیاں ہوگئی کہ ان کا درندہ صفت اور تسلّط پسند مزاج کن اہداف و مقاصد کی تلاش میں ہے ؟ وہ جوہری توانائی اور ایٹمی طاقت کو دنیا پر تسلّط حاصل کرنے کا وسیلہ بنانا چاہتے ہیں ۔ تمام ایٹمی طاقتوں کا یہی طریقہ ہے ؛ وہ سبھی اس طاقت کو دنیا اور اقوام عالم پر تسلّط جمانے کے لئیے وسیلہ قرار دینا چاہتی ہیں ۔ ان میں سے کسی نے  بھی عالمی جوہری ادارے کی قراردادوں اور جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ معاہدے پر دستخط نہیں کئیے ہیں اور نہ ہی  یہ ممالک اسے تسلیم کرتے ہیں ، بدرجہ اولیٰ اس پر عمل بھی نہیں کرتے ہیں۔ یہ واضح انداز میں جھوٹے اور مکار ہیں ۔ اس کے باوجود دیگر ممالک پر نکتہ چینی کرتے ہیں کہ جوہری ادارے کی فلاں قرارداد ، فلاں سمجھوتے کے فلاں حصّے ، فلاں شق پر عمل درآمد نہیں ہوا ۔ یہ ایٹمی ممالک خود  کسی بھی معاہدے کے پابند نہیں ہیں ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ ممالک، جوہری توانائی اور ایٹمی اسلحے کے مسئلے میں اپنے مد مقابل کسی بھی  رقیب کو نہیں دیکھنا چاہتے ۔

ہماری جوہری پالیسی روز روشن کی طرح عیاں ہے ؛ ہم نے بارہا اس مؤقف کا اعادہ کیا ہے کہ ہم وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال کے سخت مخالف ہیں ؛ لیکن وہ بھی یہ جان لیں ایرانی قوم کے خلاف ایسی دھمکیوں اور ایسی گندی زبان کے استعمال سے انہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا ۔ ایرانی قوم ،ان کے بلند و بالا دعوؤں کے باوجود انہیں اپنے مقابلے میں ذلیل ورسوا کر دے گی اور انہیں اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی ۔ عالمی اداروں کو امریکی صدر کی اس دھمکی کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے ؛ انہیں اس  دھمکی کو نظر اندازکرنے کا  کوئی حق نہیں ہے۔ انہیں اس کا پیچھا کرنا چاہیے اور امریکی صدر کا گریبان پکڑنا چاہیے کہ اسے ایٹمی دھمکی دینے کا کیا حق ہے ؟ آخر وہ کس حق کے تحت دنیا کو ویران کرنے کی دھمکی دے رہا ہے ؟ تمہارے اندر اس دھمکی کی جرأت و جسارت کیوں کر ہوئی ؟  کسی کو بھی یہ حق  حاصل نہیں ہے کہ وہ عالم انسانیت کو ایسی دھمکی دینے کی جرأت کر سکے ۔ ایسی بات کا زبان پر لانا بھی غلط ہے ، خواہ وہ  اس غلطی کا اقرار ہی کیوں نہ کریں اور یہ کہیں کہ ہمارا ارادہ اور مقصد یہ نہیں تھا ، ہماری زبان پھسل گئی ۔ انہیں ایسی بات زبان پر بھی نہیں لانا چاہیے جو عالمی امن کے لئیے خطرہ ہو ، یہ دھمکی ، امن عالم کے لئیے خطرہ ہے اس سے اتنی آسانی سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی ۔

البتہ ،ایرانی قوم ان دھمکیوں سے ہر گز مرعوب نہیں ہوگی ۔ ملت ایران کو ان دھمکیوں کے ذریعہ اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ۔ ہم اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ امریکہ ان وسائل و آلات کے ذریعہ ایک بار پھر ہمارے ملک پر اپنا جہنمی تسلّط قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے ۔ امریکی آج بھی اسی تسلّط کو دوبارہ بحال کرنے کے لئیے کوشاں ہیں جو انہوں نے پہلوی ( اس پر خدا اور اس کے بندوں کی لعنت ہو) حکومت کی خیانت کی وجہ سے سالہاسال اس ملک میں نافذ کر رکھا تھا ؛ یہ انہیں دنوں کے خواب دیکھ رہے ہیں ، ایرانی قوم ان کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دے گی ۔

 آپ جان لیجئیے؛ کہ ہم ان دشمنوں کے باجود ، پروردگار عالم کے لطف و کرم ، اس کی توفیق اور امداد کے زیر سایہ دن بدن آگے ہی بڑھتے جائیں گے ؛ ہمارے جوان دن رات اسی کوشش میں مصروف ہیں ۔ انشاء اللہ ہمارے جوانوں کے روز افزوں ایمان ، اور ہماری قوم کی روز افزوں  سیاسی بصیرت کی  بدولت ہماری قوم  ان دھکیوں پر بھی غلبہ حاصل کر لے گی اور ان سازشوں کو بھی ناکام بنا دے گی جو ملک میں داخلی انتشار پھلانے کے لئیے رچی جا رہی ہیں ، جیسا کہ  سنہ ۱۳۸۸ ھ ۔ ش (۲۰۰۹ میلادی )  میں پیش آنے والے واقعات میں رونما ہوا ۔

 ہماری قوم بصیرت سے سرشار قوم ہے ، صاحب ایمان قوم ہے ، ہم دعا کرتے ہیں کہ امام زمانہ (عج ) کی دعاؤں کی برکت سے ہماری قوم کی سیاسی بصیرت میں روز افزوں اضافہ ہو اور ہماری قوم کو ہر میدان میں فتح وکامیابی نصیب ہو ۔ وہ دن دور نہیں جب آپ اپنے  ملک کی عظمت و وقار اور ان بڑی طاقتوں کی ایران کی محتاجی کو اپنی آنکھوں سے محسوس اور مشاہدہ کریں گے ۔

امام امت (رہ)کی روح مطہر اور شہدائے کرام کی طیّب و طاہر روحوں پر اللہ تعالی کی رحمت نازل ہو ۔ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کی توفیقات ،تائید اور نصرت میں اضافہ فرمائے

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

) سورہ تحریم : آیت نمبر ۱۱

 (۲) سورہ تحریم : آیت نمبر ۱۲