نئے سال کی آمد،
آپ سبھی عزیز بھائیوں اور بہنوں کو مبارک ہو ۔ ان موسموں کے بدلنےاور سالوں کی
تبدیلی کوہمارے لئے عبرت اور تجربے کا باعث بننا چاہیے ۔ دعا میں وارد ہوا ہے " یا محوّل الحول
" ؛ اے سالوں کے بدلنے والے ۔ خداوند متعا ل سالوں کو بدلتا ہے ۔ تحویل سال
کا مطلب ، موسم سرما کی موسم بہار میں تبدیلی نہیں ہے بلکہ سال کے تمام موسموں میں
تبدیلی رونما ہوتی ہے ۔ کبھی موسم بہار کا دور دورہ ہوتا ہے تو کبھی موسم گرما
اپنے جلوے بکھیرتا ہے اوراس کے بعد موسم
خزاں ، پتّوں کے جھڑنے کے موسم کا آغاز
ہوتا ہے ۔ موسم سرما جو ظاہری اعتبار سے ایک سخت و ناملائم ، خشک و بے جان موسم ہے
لیکن یہی موسم حیاتِ بہار کا پیغام لاتا ہے ۔ تحویل سال سے ان موسموں کی ایک دوسرے
میں تبدیلی مراد ہے ۔عالم خلقت کے یہ حالات جویکے بعد دیگرے رونما ہوتے ہیں اور بدلتے رہتے ہیں ؛ یہ سبھی اللہ کی
نشانیاں ہیں ۔ چونکہ یہ حالات ہمارے لئیے عادت بن چکے ہیں اس لئیے ہم ان کی اہمیت
کو نہیں سمجھ پاتے ؛ ورنہ اگر کوئی ایسا شخص ہو جو عالم خلقت کے اس تغییر و تحوّل
سے مانوس نہ ہو اور اس تبدیلی کو پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہو تو اسے یہ تبدیلی بہت عجیب و غریب اورحیرت انگیزمعلوم ہوگی ۔ یہی نباتات کا
اگنا، عالم طبیعت کا دوبارہ زندہ ہونا ، درختوں کا پھلنا پھولنا یہ سب قدرت الٰہی
کی نشانیاں ہیں لیکن چونکہ یہ چیزیں ہماری آنکھوں کے لئیے عادت بن چکی ہیں اس لئیے
ہم ان کے پاس سے آسانی کے ساتھ گزر جاتے
ہیں اور ان پر کوئی توجّہ نہیں دیتے ۔ ہمارے نفس اور وجود کا بھی یہی حال ہے ۔
انسان ان
تبدیلیوں کو عام طور سے درک نہیں کر پاتا ، ہم اپنے ارد گرد رونما ہونے والی
تبدیلیوں کو نہیں سمجھ پاتے ، ہماری یہی بے توجّہی آخر کار بڑے بڑے نقصانات پر
منتج ہوتی ہے ۔ آپ فرض کیجئیے کہ کوئی راہگیر اپنی منزل کی طرف رواں ہو لیکن راستے
میں غفلت کا شکار ہو جائے اور راہ راست سے پانچ ڈگری منحرف ہوجائے ، ابتدا میں اسے اس پانچ یا دس
ڈگری کے انحراف کا احسا س نہیں ہوپائے گا لیکن جوں جوں وہ آگے بڑھتا جائے گا(اگر یہی پانچ ڈگری کا انحراف باقی رہے اور وہ دس یا
پچاس ڈگری یا اس سے زیادہ میں تبدیل نہ ہو
) خط مستقیم سے اس کا انحراف بھی زیادہ
ہوتا جائے گا اور ایک وقت ایسا بھی آئےگا جب اسے اپنے انحراف کا احساس ہوگا اور اسے
معلوم ہوجائے گا کہ وہ خط مستقیم سے بہت زیادہ منحرف ہو چکا ہے ۔ یہی وجہ ہے ہماری
شریعت میں ، تقویٰ اور پرہیزگاری پر اس قدر زور دیا گیا ہے ۔ تقویٰ کا مفہوم یہ ہے
کہ انسان ہر لمحہ اپنی رفتار و کردار ، قول و فعل پر نظر رکھے ، اس کے بارے میں
ہوشیار و آگاہ رہے ، وہ اپنے کردار و عمل پر پوری توجّہ رکھے ۔ یہ نماز
جو روزانہ پانچ مرتبہ ہم پرواجب قرار دی گئی ہے حقیقی معنیٰ میں ایک بہت بڑی نعمت
ہے ، اگر یہ نماز نہ ہوتی تو ہم دریائے غفلت کی متلاطم موجوں میں غرق ہوجاتے ۔ یہ
نماز ہم کو ہوش میں لاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نماز کو حضور قلب اور صحیح انداز سے
بجا لانا ضروری ہے ۔ اگر کوئی شخص " نماز " کو حضور قلب سے بجا لائے تو
یہ نماز اسے اپنی گفتار و رفتار پر نظر رکھنے میں مدد فراہم ہے ۔
آپ ملاحظہ کیجئیے کہ یہ جو ہم سنہ ۸۸ کے سنہ ۸۹
(ھجری شمسی )میں تبدیلی کے لئیے ایک خاص وقت ، ایک خاص گھڑی کو معیّن کرتے ہیں، یہ
گھڑی اور لمحہ بھی ہر اعتبار سے دوسرے
اوقات اور لمحوں کی مانند ہے ، سال کے آخر کی ساعت اور اس کے آغاز کی ساعت میں
کوئی فرق نہیں ہے ؛ اس ساعت کے ذریعہ بس ایک حد معیّن کی گئی ہے۔ اگر ہم اس سے غفلت برتیں گے تو ہمیں تحویل سال اور موسم کی
تبدیلی کااحساس نہیں ہوگا ؛ لیکن اگر ہم اس تبدیلی پر توجّہ دیں گے تو ہمیں یہ
تغییر و تحوّل محسوس ہوگا اور ہم اس سے لطف اندوز ہو سکیں گے ۔ انسان کو اپنے اندر
اپنی زندگی کی تمام تبدیلیوں کے بارے میں یہی احساس پیدا کرنا چاہیے ۔ عید نوروز کو معنی ٰخیز بنانے اور اس موقع
غنیمت سے بہترین استفادہ کرنے کےلئیے عید نوروز میں اس احساس کا بھی اضافہ کیا جا
سکتا ہے ۔
عید نوروز جو
کہ بظاہر ایک غیر مذہبی عید ہے ، ایک قومی
عید ہے ، اور اس میں مذہب اور مذہبی شعائر کی یاد آوری کا پہلو نہیں پایا جاتا ؛
اگر چہ بعض روایات میں یہ تعبیر آئی ہے کہ " النّیروز من ایّامنا
"؛نوروز ہمارے دنوں میں سے ہے ۔ اس روایت کی صحت و اعتبار اور سند کے بارے
میں ہمیں معلوم نہیں ۔ لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ ہماری زندگی کے تمام حوادث میں ،
دینی معانی و مفاہیم سایہ فگن ہیں ،منجملہ یہ عید بھی اس معنیٰ و مفہوم سے عاری
نہیں ہے ۔ خوش قسمتی سے اس عید کے موقع پر بھی ہمارے عوام ، مذہبی امور کا پورا
خیا ل رکھتے ہیں ، دعا اور ذکر پروردگار عالم کا اہتمام کرتے ہیں ؛ مقدّس مقامات
پر حاضری دیتے ہیں ۔ یہانتک کہ جو لوگ ان شہروں اور مقامات کا سفر کرتے ہیں جہاں
کوئی مشہور و معروف مذہبی مقام نہ ہو ،
اگر وہاں پر کسی امام زادہ کا مزار ہو تو یہ لوگ ، تحویل سال کی گھڑی کو وہاں
مناتے ہیں ؛ مثلا آپ فرض کیجئیے کہ جو لوگ عید نوروز پر شہر شیراز کا سفر کرتے ہیں
وہ تحویل سال کی گھڑی کو شاہچراغ میں
مناتے ہیں ؛ یہ ہمارے عوام کی ایک بہت ہی
پسندیدہ عادت ہے ۔ ہم جس قدر بھی اپنی زندگی کے حوادث اور واقعات کو مذہبی اور
دینی رنگ میں رنگیں گے ہمیں اس سے اتنا ہی فائدہ پہنچے گا ۔
دین و مذہب
،دینی ایمان اور دین پر توجّہ ، انسان کی سعادت و خوش بختی کی ضامن ہے ۔ دین و
مذہب کے بغیرانسانی زندگی کاانجام نہایت برا ہوتا ہے ۔ یہ ہمیشہ کی تاریخ رہی ہے اور آج
بھی یہی بات ہے ۔ عصر حاضر میں بھی جو لوگ دین کو بالائے طاق رکھ کر دنیا کا نظام
چلانا چاہتے تھے وہ لاعلاج مشکلات و مسائل سے دوچارہوجاتے ہیں ۔ یہ مشکلات ،
جسمانی امراض اور روز مرّہ مسائل و مشکلات جیسی نہیں ہیں جن کی علامتیں بہت جلد
ظاہر ہونے لگتی ہیں بلکہ یہ مشکلات ایک ایسے مرحلے میں اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہیں
جب یہ لاعلاج بن چکی ہوتی ہیں ۔ جب جنسی شہوات
بے لگام ہوں، جب جنسی شہوت بے راہ روی کا
شکار ہو، اور یہ چیز ثقافت اور سماجی پالیسیوں کا حصّہ بن جائے تو اس کا نتیجہ یہ
نکلتا ہے (جیسا کہ آپ مشاہدہ کر رہے ہیں ) کہ ایک مغربی ملک کا سرکاری اہلکار ،
ایک وزیر ، اپنے ہم جنس سے شادی کی تقریب منعقد
کرتا ہے(۱) ، اور اسے دنیا سے شرم بھی محسوس نہیں ہوتی ! اگر یہی بے راہ روی جاری
رہی تو ایک دن ، اپنے محارم سے جنسی تعلّقات کی نوبت آن پہنچے گی ! اگر چہ ان کے
معاشرے میں آج یہ چیزعیب شمار کی جاتی ہے اور وہ اسے قبول نہیں کرتے ؛ لیکن بلاشبہ ایک نہ ایک دن یہ مصیبت ضرور ان کے
دامنگیر ہو گی ۔ اس راستے پر چلنے کے نتائج یہی ہیں ۔ عصر حاضر میں مغربی دنیا اس
ذلت و رسوائی سے دوچار ہے ۔ بے دینی کا نتیجہ یہی ہے ۔ مغربی معاشرے کی بے دینی کا
نتیجہ ، خاندانوں کی بنیادوں کے متزلزل
ہونے اور انسانوں کی ایک دوسرے سے اجنبیت کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے ، اس کے علاوہ ان کا معاشرہ اور بھی بہت سے مسائل
و مشکلات کا شکار ہے ۔
عالم انسانیت کو
دین کی طرف لوٹ آنا چاہیے ،اور وہ یقینا دین کی طرف پلٹے گا بلکہ اس سفر کا آغاز
ہوچکا ہے ؛ خواہ نخواہ یہ ضرور ہوگا ۔ ادیان کی طرف بازگشت کے سفر میں دین اسلام
وہ تابناک نکتہ اور روحانی دنیا کا وہ درخشاں نگینہ ہے جو عالم روحانیت کا مرکز و محور ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ وہ دین اسلام کی پیشرفت کو روکنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس میں کامیاب
نہیں ہوں گے ۔
اسلامی جمہوریہ
ایران سے بھی ان کی دشمنی و عداوت کا ایک بہت بڑا عامل یہی ہے ؛ چونکہ انہیں معلوم
ہے کہ یہ انقلاب ایک اسلامی تحریک ہے ، یہ دینی ایمان ہی ہے جس نے عوام میں تحرّک
پیدا کیا ہے ،مختلف میدانوں میں انہیں ثابت قدم رکھا ہے ، مختلف مشکلات ، حوادث کے
نازک اور خطرناک موڑوں پر ان کی راہنمائی کی ہے ، وہ اسے دیکھ رہے ہیں اور بخوبی
سمجھتے ہیں۔ البتّہ بہت سے سیاستدان حقیقی سیاستدان نہیں ہیں ، وہ صرف ان پالیسیوں
کو نافذ کرتے ہیں ، وہ صرف اس مسئلہ کے ظاہری رخ کو دیکھتے ہیں ؛ لیکن جو
افراد حقیقی معنیٰ میں ان عالمی پالیسیوں
کو مرتّب کرتے ہیں اور یہ مادی دنیا جن کی راہنمائی اور اشاروں پر چل رہی ہے وہ اس
حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں ، وہ اس حقیقت
کے ادراک پر مجبور ہیں ۔
البتہ وہ عالم
اسلام کو آپس میں الجھانے میں کوشاں ہیں ، عصر حاضر میں عالم اسلام کے انہیں فرعی
اور غیر ضروری مسائل میں الجھنے کی وجہ سے مسئلہ فلسطین سے غفلت برتی جارہی ہے ۔
آج سرزمین فلسطین اور غزہ میں ایک انسانی
المیہ رونما ہورہا ہے ، مغربی کنارے میں ایک انسانی المیہ واقع ہورہا ہے ۔ حرم
ابراہیمی کے مسئلہ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ؛ یہ بہت اہم مسئلہ ہے ۔ فریضہ نماز کی ادائیگی کی خاطر مسلمانوں کو ان
کے مراکز اور گھروں سے باہر نکالیں اور انہیں ان میں واپس آنے کی اجازت نہ دیں
!سرزمین فلسطین اور مسجد الاقصیٰ سے اسلامی آثار اور اس کی اسلامی شناخت کو مٹایا
جارہا ہے ، یہ ایک انتہائی خطرناک اقدام ہے جو عالم اسلام کی آنکھوں کے سامنے انجام
پارہا ہے ۔بیچارے مسلمان ، اس قدر اپنے فرعی اور غیر ضروری مسائل میں الجھے ہوئے
ہیں کہ انہیں عالم اسلام کی کوئی پرواہ نہیں کہ اس پر کیا گزر رہی ہے ۔ موجودہ دور
میں عالم اسلام کے خلاف سب سے بڑی سازش یہی ہے کہ انہیں آپس میں الجھائے رکھو ۔
آج اسلامی
کانفرنس تنظیم(جو کہ سرزمین فلسطین اور
مسئلہ فلسطین کے دفاع کے لئیے معرض وجود میں آئی ہے )کی ذمّہ داری یہ ہے کہ وہ
استقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرے ؛ عالم اسلام کو صہیونیوں اور ان کی پشت
پناہی کرنے والی مغربی استکباری حکومتوں کی ایذارسانی کے خلاف مزاحمت اور استقامت کے
لئیے آمادہ کرے ، عالم اسلام ان کا مقابلہ کر سکتا ہے ۔عالم اسلام کے پاس صہیونیوں
کی شرارتوں ،خباثتوں اور لالچوں کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت ہے ۔ جب ہم یہ بات کہتے ہیں تو تمام نظریں تیل کے
مسئلہ پر مرکوز ہو جاتی ہیں حالانکہ صرف تیل کا مسئلہ نہیں ہے ۔ بلکہ یہ خطہ ،
دنیا کا مرکزہے ، یہ علاقہ مغربی مصنوعات کے مصرف کی سب سے بڑی منڈی ہے ، ان کی
عزّت و آبرو اس خطّے سے وابستہ ہے ؛ دنیا کی سب سے اہم آبی گزرگاہیں اور راستے
مسلمان ممالک کے دائرہ اختیار میں ہیں ؛ یہ چیزیں موجودہ دنیا کی شہ رگِ حیات ہیں
، جو مسلمانوں کے کنٹرول میں ہیں ، مسلمان ، ان سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
ان سب سے قطع
نظر ، آج کی دنیا میں سیاسی اور منطقی بات بہت زیادہ مؤثر ہے ۔اگر یہ حکومتیں اپنے ان وسائل کو استعمال کرنے کی
دھمکی ہی دیں ،خواہ انہیں استعمال نہ کریں تو بھی عالمی واقعات پر ان کا یہ اقدام
بہت مؤثر ثابت ہو سکتا ہے ۔ لیکن افسوس کہ عالم اسلام اپنے وسائل کو بروئے کار
نہیں لاتا اور عام طور سے ان سے غفلت ہی برتی جاتی ہے ۔
بہر حال ہمیں اس سے سبق لینا چاہیے ، ہمیں اپنے مسائل کو اصلی
اور فرعی مسائل میں تقسیم کرنا چاہیے ؛
اصلی مسائل پر زیادہ توجّہ دینا چاہیے ۔ ہمارے ملک میں اصلی اور بنیادی نوعیت کے
بے شمار مسائل ہیں ؛ ان میں سے کچھ حکومت
سے مربوط ہیں ، بعض کا تعلّق ثقافتی امور سے ہے اور بعض دیگر ، ملک کے بڑے بڑے
اداروں سے مربوط ہیں کہ خوش قسمتی سے ان اداروں کی تعداد ہمارے ملک میں بہت زیادہ
ہے ۔ ان میں سے ہر ایک کی اپنی مخصوص ذمّہ داری ہے ۔ ہمیں اپنے عوام کی ہدایت و
راہنمائی ، اور اس نظام کے اہداف و مقاصد کے بارے میں غور کرناچاہیے ۔
خداوند متعال
ہمیں خواب غفلت سے بیدار کرے تاکہ ہم اپنی ذمّہ داریوں اور فرائض کوصحیح طور پر
پہچان سکیں اور ان کے مطابق عمل کر سکیں ۔ انشاء اللہ یہ سال آپ سبھی کے لئیے ایک
مبارک سال قرار پائے گا اور امام زمانہ (عج) کی دعائیں آپ سبھی کے شامل حال ہوں
گی۔
والسّلام علیکم
و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔