ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کاخبر گان کونسل کے اراکین سے خطاب

 

    بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

سب سے پہلے میں آپ حضرات کی خبرگان کونسل کے اہم اجلاس میں شرکت ، اس میں اہم مطالب پر بحث و گفتگو اور  یہاں قدم رنجہ فرمانے  پر آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ، آپ حضرات اس مملکت کا ستون شمار ہوتے ہیں ۔ خداوند متعال آپ کی توفیقات میں روز افزوں اضافہ فرمائے اور ہمیں اپنے فرائض کی ادائیگی کی توفیق عنایت فرمائے ۔

مرحوم جناب فاکر کی رحلت کی مناسبت سے میں آپ سبھی عزیز بھائیوں اور ان کے ساتھیوں کی  خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں ، اور ایک خدمتگزار ، باغیرت اور فعّال و سرگرم شخصیت کے ہمارے درمیان سے اٹھ جانے پر افسو س کا اظہار کرتا ہوں ۔ میں سنہ ۱۳۴۲ ھ ،ش سے مرحوم کی انتھک سرگرمیوں اور قید و بند کی صعوبتوں سے واقف ہوں ۔ ہم اور مرحوم فاکر سنہ ۱۳۴۲ میں ، شہر مشہد میں ایک ہی جیل میں قید تھے ۔ پروردگار عالم مرحوم کے درجات میں بلندی عطا فرمائے ۔

 جیسا کہ ہم نے بارہا عرض کیا ہے ، ماہرین اور خبرگان کونسل  کا مسئلہ ایک انتہائی اہم اور غیر معمولی نوعیت کا مسئلہ ہے ؛ یہ اسلامی جمہوریہ ایران کا ایک شاہکار ہے ۔خبرگان کونسل کا مجموعہ ، عوام میں مشہور و معروف ، ہر دل عزیز علمائے دین کا مجموعہ ہے جو تمام مسائل منجملہ رہبری جیسے اہم مسئلہ  اور اس کے انتخاب  اور رہبری سے متعلق مسا ئل میں عوام کا  امین اور مورد اعتماد ، شمار ہوتا ہے ۔ علمائے دین کی اسی مؤثر اور حساس موجودگی نے عوام کے درمیان اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں اور آج بھی اس کے اثرات اور برکتیں نمایاں ہیں ۔ اگر علمائے دین اور روحانی رہنماوں نے ، عوام کے دلوں کو اس انقلاب کے حقائق کی طرف متوجہ نہ کیا ہوتا تو اہم اور حسّاس مواقع پر، عوام اپنے مؤقف کو اس طریقے سے بر ملا نہ کر پاتے ، جس کی ایک مثال بائیس بہمن ( گیارہ فروری ) کو منعقد ہونے والے امریکہ و سامراج مخالف مظاہرے ہیں جو موجودہ حالات میں انقلاب کی تاریخ کاایک حیرت انگیز واقعہ ہے ، اسی طرح ۹ دی (تیس دسمبر ) کے دن ، عوام کا سڑکوں پر نکلنا اور اپنے مؤقف کو بیان کرنا ، عوام کی موجودگی کی ایک دوسری زندہ مثال ہے ۔ علمائے دین کا کردار ، عوام کے شخصی ، نجی اور ذاتی نوعیت کے مسائل میں ان کی ہدایت و راہنمائی تک محدود نہیں ہے بلکہ ، عظیم اجتماعی مسائل ، مسئلہ حکومت ، اسلامی نظام کے مسئلے میں اور ان فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں جو عالمی مسائل کے بارے ان پر عائد ہوتے ہیں   عوام کی راہنمائی اور ہدایت ، نجی اور ذاتی نوعیّت کے مسائل کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے ۔ اگر علمائے دین اور مذہبی رہنماؤں کے کردار کو نظر انداز کر دیا جاتا تو یقینا یہ انقلاب رونما نہ ہوتا ؛ اوراگر کسی طریقے سے کامیابی سے ہمکنار ہو بھی جاتا تو اس کے دشمنوں نے اس کے راستے میں جو اس قدر زیادہ مشکلات کھڑی کی ہیں ، ان کے باوجود باقی نہ رہ پاتا ۔ لہٰذا ، معاشرے کے اہم واقعات اور اس کی سرنوشت و تقدیر میں علمائے دین  بالخصوص خبرگان کونسل کے علماء کا ایک دائمی اور ناقابل فرموش کردار ہے ؛ الحمد للہ ہم موجودہ دور میں ان کے کردار کے اثرات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ اسلامی نظام کی بنیاد ، اطاعت الٰہی اور بندگی پروردگار پر استوار ہے ؛ یہی وہ طرّہ امتیاز ہے جو اس نظام کو دنیا کے دیگر نظاموں سے ممتاز کرتا ہے ؛   آیہ " اطیعوا اللہ و اطیعواالرّسول '' ( ۱ )( اللہ کی  اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو) اور آیہ " ان کنتم تحبّون اللہ فاتّبعونی یحببکم اللہ " (۲)( اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ بھی تم سے محبت رکھے گا ) سے صاف ظاہر ہے کہ اسلامی نظام کی بنیاد ، اطاعت الٰہی پر استوار ہے ۔

اطاعت پروردگار کے چند مرتبے اور مرحلے ہیں : ایک مرحلہ ، کسی خاص انفرادی عبادت و اطاعت کا مرحلہ ہے ، جہاں خداوند متعال کسی خاص عمل کے بجا لانے کا حکم دیتا ہے (خواہ وہ عمل ایک شخصی عمل ہی کیوں نہ ہو ) مثلا نماز پڑھنے ، روزہ ، زکات اور دیگر اعمال کو انجام دینے کا حکم دیتا ہے ؛ یہ سبھی اعمال ، اطاعت الٰہی کا مصداق ہیں ، جن کے ذریعہ ہم اپنے پروردگار کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں اور اس کی نہی سے اپنے آپ کو باز رکھتے ہیں ۔ لیکن " روشی اطاعت " کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہے ، روشی اطاعت سے مراد وہ راہ و روش ؛ وہ لائحہ عمل اور خاکہ ہے جو پروردگار عالم نے انسان کی فلاح و بہبود کے لئیے معیّن کیا ہے ؛ خداوند متعال کے اس حکم کی تعمیل کے لئیے لازم و ضروری ہے کہ کچھ لوگ مل جل کر، باہمی تعاون کے ذریعہ اس حکم کی پیروی کریں تاکہ یہ منصوبہ ، یہ نقشہ ، عملی جامہ پہن سکے ۔ یہ نقشہ ، فردی اعمال کے ذریعہ جامہ عمل نہیں پہن سکتا ،یہ مرحلہ ایک الگ نوعیت کا مرحلہ ہے جو فردی اطاعت سے کہیں بلند و بالا ہے۔ اسلامی معاشرے میں اس منصوبے ، اس خاکے  کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئیے ، سبھی افراد کا تعاون درکار ہوتا ہے  ۔ آپ فرض کیجئیے کہ مکہ میں بھی ، مسلمان اپنے دینی فرائض کو بجا لاتے تھے لیکن ، مکہ کے اسلامی سماج اور مدینہ منوّرہ کے اسلامی سماج میں زمین ، آسمان کا فرق ہے۔ مدینہ منوّرہ میں اسلامی حکومت تشکیل پائی ، اسلامی معاشرے میں نئی روح پیدا ہوئی ، ایک نئی لہر پیدا ہوئی ، فردی اور نجی عبادات سے اوپر اٹھ کر ایک جدید مرحلے کا آغاز ہوا ؛ اور جب اسلامی نظام قائم ہوا تو اس کے زیر سایہ " لاکلوا من فوقھم ومن تحت ارجلھم " ( ۳) ( تو اپنے اوپر اور قدموں کے نیچے سے رزق خدا حاصل کرتے )  حیات طیّبہ اور خداکی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کا مرحلہ آتا ہے ، انسانی زندگی ، حقیقی معنیٰ میں ایک سعادت مند زندگی قرار پاتی ہے ؛ اور اس زندگی پر وہی اثرات، وہی برکتیں اور نتائج مترتب ہوتے ہیں جو خداوند متعال کی اطاعت و پیروی پر مترتب ہوتے ہیں ۔

اسلامی نظام ، انسانوں کی سعادت و خوشبختی کا ضامن ہے ۔ اسلامی نظام یعنی ایک ایسا نظام جو الٰہی نقشے اور خاکے پر استوار ہو ۔ اگر یہ نقشہ ، اگر یہ خاکہ معرض وجود میں آجائے تو بہت سی شخصی ، ذاتی اور نجی قسم کی غلطیاں ، چشم پوشی کے قابل ہوتی ہیں۔ ایک مشہور و معروف روایت ہے جس میں اس حدیث قدسی کو نقل کیا گیا ہے کہ ارشاد ربّ العزّت ہے : " لاعذّبنّ کلّ رعیّۃ اطاعت اماما جائرا لیس من اللہ ولو کانت الرّعیۃ فی اعمالھا برّۃ تقیۃ " ( میں ہر اس قوم پر عذاب نازل کروں گا جو کسی ظالم و جابر امام کی پیروی کر رہی ہو اگر چہ وہ قوم اپنے نجی اعمال میں نیک کردار ہی کیوں نہ ہو ) اس کے بر عکس " لاعفونّ کل رعیۃ اطاعت اماما عادلا من اللہ و ان کانت الّرعیّۃ فی اعمالھا ظالمۃ مسیئۃ؛ ۔ (ہر اس قوم کو اپنی بخشش کے دامن میں جگہ دوں گا جو کسی عادل حکمران کی اطاعت کر رہی ہو اگر چہ یہ قوم ظالم و گنہگار ہی کیوں نہ ہو) ۔ ایک ایسے  عظیم اجتماعی نظام میں جو کسی صحیح منزل کی جانب رواں دواں ہو ،  افراد کی انفرادی اور ذاتی  غلطیاں قابل اغماض ہوا کرتی ہیں ؛ یا بہتر الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ان کا جرم اور غلطی ، اصلاح کے قابل ہے ؛ ایسا نظام ، اس سماج اور ان افراد کو منزل مقصود تک پہنچا سکتا ہے ؛ اس کے برعکس ، اگر فردی اعمال صحیح ہو ں لیکن اجتماعی رابطے ، اجتماعی نظام ، ظلم و زیادتی پر استوار ہوں ، الٰہی نظام نہ ہو ، شیطانی نظام ہو تو ایسے نظام میں فردی اعمال اس معاشرے کو منزل تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے ؛ اسے انسانی سعادت و خوشبختی تک نہیں پہنچا سکتے جو تمام الٰہی شریعتوں کے مد نظر ہے ۔ لہٰذا اطاعت الٰہی میں ، الٰہی نقشے اور خاکہ کی تلاش ، اس کا تعاقب انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔

اسلامی نظام کی بنیاد ، توحید و وحدانیت پروردگار عالم پر استوار ہے ۔ توحید ہی اس کا اصلی رکن ہے ۔ اس کا ایک دوسرا رکن " عدل " ہے ۔ اس کا ایک دوسرا اہم رکن " انسانی کرامت و شرافت اور انسانی آراء کا احترام  ہے ۔ اگر ہم اس زاویے سے اپنے اسلامی معاشرے کا جائزہ لیں گے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اس اسلامی نظام نے عالم اسلام میں اس کے سلسلے میں ایک عظیم انقلاب بر پا کر دیا ہے جو کسی بھی انفرادی و ذاتی اقدام کے ذریعہ ہر گز ممکن نہیں تھا ۔ عصر حاضر میں جب ہم عالم اسلام پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں جمہوری اسلامی کا نظام ، وہ واحد نظام دکھائی دیتا ہے جس کا معاشرہ الٰہی خاکے اور نقشے کے مطابق تشکیل پایا ہے ۔ اس نظام کی بنیاد ، الٰہی اصولوں پر ہے ۔ البتّہ اس نظام میں کچھ خامیاں بھی پائی جاتی ہیں ، کچھ کمزوریاں بھی ہیں ؛ ہمیں ان خامیوں اور کمزوریوں کی اصلاح و ازالہ کی کوشش کرنا چاہیے ۔ اس اسلامی نظام کی مثال اس ٹرین کی سی ہے جو کسی خاص منزل کی جانب اپنی پٹری پر رواں دواں ہو ، اس ٹرین پر سوار کچھ لوگ اپنے فرائض پر عمل کرتے ہیں اور کچھ لوگ ان سے غفلت برتتے ہیں ۔ کچھ لوگ اس ٹرین میں گندگی پھیلاتے ہیں اور کچھ افراد اس کوڑے کرکٹ کو جمع کرتے ہیں اور ٹرین کی صفائی کا خیال رکھتے ہیں ۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ بات مسلّم ہے کہ یہ ٹرین اپنی منزل مقصود تک ضرور پہنچ جائےگی ۔

معاشرے کے جزئی اور فردی مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے ۔ ان کی اصلاح ممکن ہے ۔ جزئی کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ان مسائل کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ ایسا نہیں ہے ، بلکہ یہ مسائل بھی اپنی جگہ بہت اہم ہیں ۔ لیکن یہ مسائل انفرادی اور ذاتی نوعیّت کے ہیں اور ان کا تعلّق کچھ خاص افراد سے ہے ؛ یہ مسائل قابل اصلاح ہیں ۔ لیکن اس اسلامی نظام کی حفاظت ، ایک بنیادی نوعیّت کا کام ہے ۔  اس اسلامی نظام کی حفاظت ، اس بنیاد کی حفاظت اور دنیا کے دیگر نظاموں کے مقابلے میں اس کی حدوں اور اصلی معیاروں کی حفاظت ، روز اوّل سے ہی  اس انقلاب کے سامنے سب سے بڑا چیلینج رہی ہے ۔ ہمارے نظام اور دنیا کے دیگر نظاموں میں کچھ شباہتیں اور مشترکہ نکات بھی پائے جاتے ہیں لیکن اس نظام کےاصلی تشخص و پہچان (اطاعت خداوندی اور راہ خدا پر چلنا ) کو بہرحال محفوظ رہنا چاہیے ۔ یہی چیز  ہمارے نظام کے سامنے روز اول سے حقیقی اور واقعی چیلینج  رہی ہے ؛ یعنی اس نظام کے مخالفین ، اس اسلامی نظام اور حکم الٰہی اور دین الٰہی کی بنیاد پر چلنے والی اس تحریک کو برداشت نہیں کر پارہے ہیں ۔ ان کی قوّت برداشت جواب کیوں دے چکی ہے ؟ بعض افراد اپنی عمیق اور نافذ نگاہ کی بدولت اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ یہ نظام ، دنیا  کے مادی نظاموں کے سامنے ایک بہت بڑا چیلینج ہے ، اسی وجہ سے اس نظام کے مخالفین ، اس نظام کے مد مقابل صف آراء ہیں ؛ بعض افراد جب موجودہ دنیا پر نظر دوڑاتے ہیں تو اس نظام کی بدولت ، دنیا پر مترتب ہونے والے اثرات کا مشاہدہ کرتے ہیں ، جیسا کہ ہمارے امام امت (رح) نے فرمایا تھا کہ "حزب اللہ " کی جڑیں پورے عالم اسلام میں پھیلنا چاہیے ، اس نظام کے مخالفین اس بات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ پورے عالم اسلام میں " حزب اللہ " کی جڑیں پھیل چکی ہیں ۔ پوری امّت مسلمہ کا دل ، اسلام کی طرف مائل ہو چکا ہے ، وہ دیکھ رہے ہیں کہ عالم اسلام کے بہت سے ملکوں میں ہر مسلمان کے دل میں اسلامی تشخّص کا احساس بیدار ہو چکا ہے ؛ یہ بات ان کے مادی مفادات کے لئیے بہت بڑا خطر ہ ہے۔ وہ اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ اس بیداری و آگاہی کا سرچشمہ ایران ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف صف آراء ہیں ، اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں ۔در حقیقت  اسلامی جمہوریہ ایران کے سوا ہمیں موجودہ دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں ملتا جس کی اس قدر شدید مخالفت ہو رہی ہو اور پورا استکباری محاذ اس کے خلاف متّحد ہو ۔ انقلاب کی کامیابی سے لے کر آج تک یہی صورت حال رہی ہے ۔

ہمیں اس نظام کے ارکان کے استحکام و بقا پر توجّہ مرکوز کرنا چاہیے ۔ اس نظام کے ارکان سے سبھی واقف ہیں ،سبھی کو ان ارکان کے راستے پر چلنا چاہیے اور ان کے ستونوں کے استحکام کے لئیے کوشاں رہنا چاہیے، اس کے لئیے اقدام کرنا چاہیے اور خلّاقیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔

ایک اہم مسئلہ ، عوام کی موجودگی اور ان کے ناقابل تردید کردار کا مسئلہ ہے یہ مسئلہ انتہائی اہمیّت کا حامل ہے ، ملکی انتخابات اور الیکشن ، عوامی موجودگی کا سب سے اہم مظہر شمار ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے اسلامی نظام میں،  ا نتخابات کو ایک واقعی اور حقیقی حیثیت حاصل ہے یہ کوئی دکھاوا اور بناوٹ نہیں ہے ۔ ہم انتخابات کے ذریعہ دنیا کو یہ نہیں دکھانا چاہتے کہ ہمارے ہاں بھی الیکشن ہوتا ہے ، ہم ان انتخابات کے ذریعہ  اغیار کے اس ڈھونگ کی اندھی تقلید نہیں کرنا چاہتے جو وہ جمہوریت کے نام پر رچاتے ہیں ۔ ہمارے نظام میں انتخابات کو ایک حقیقی حیثیت حاصل ہے تاکہ ملکی مسائل میں عوام کی رائے اور مرضی کو بھی شامل کیا جاسکے ؛ وہی چیز جو مالک اشتر کو جاری کردہ فرمان میں امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کے مدّ نظر ہے " کہ عوام کی مرضی اور خوشنودی کو خواص کی ناراضگی پر ترجیح دو ، عوام کی خوشنودی کی وجہ سے اس ناراضگی سے ہراساں نہ ہو جو خواص میں پائی جاتی ہے ۔

ہمیں عوامی مطالبات اور خواہشات کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔ اس نظام کی عوامی  پشت پناہی کی بہت سی برکتیں  ہیں ۔اس کی سب سے بڑی برکت یہ ہے کہ جب ، ہمارے دشمن اس نظام پر نظر ڈالتے ہیں اور اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ اس نظام کو اپنے عوام کی بے پناہ حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے تو ان کے اندر یہ احساس پیدا ہوتاہے کہ اس نظام کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ؛ چونکہ کسی  قوم کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ۔ کسی حکومت کو ، قسم قسم کے دباؤ ، اقتصادی پابندیوں ، نفسیاتی جنگ اور پروپیگنڈہ مشینری کے ذریعہ کمزور حتّیٰ گرایا بھی جا سکتا ہے ؛ لیکن اگر اس حکومت کی جڑیں ، عوام کے درمیان مضبوط ہوں اور نظام اور اس کے حکام ، عوام سے متّصل ہوں ، تو اس صورت میں دشمنوں کا کام اور بھی مشکل ہوجاتا ہے ؛جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دشمن کا کام روزبروز سخت ہوتا جا رہا ہے۔ انقلاب کے ابتدائی دور کے مقابلے میں ، دشمنیوں اور خصومتوں میں گہرائی و گیرائی آچکی ہے لیکن اس کے باوجود اس انقلاب کو نابود کرنے کی دشمنوں کی امیدوں میں دن بدن کمی آتی جا رہی ہے ۔ یعنی اس نظام کے دشمنوں میں ، اس نظام کو صفحہ ہستی سے مٹانے یا کم از کم  اسے نیم جان کرنے کے بارے میں جو امید ، آج سے بیس ، تیس برس قبل پائی جاتی تھی وہ امید آج باقی نہیں ہے ۔ ہمارے دشمنوں کی باتوں ، ان کے اقدامات ، ان کے اعمال  اور رفتار سے ہم یہ بات اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں ۔ لہٰذا عوام کی شراکت اور موجودگی بہت اہم ہے۔ اور اس شرکت اور موجودگی کی سب سے بڑی علامت ، انتخابات میں ان کی بھر پور شرکت ہے ۔

                   صدارتی الیکشن کے بعد رونما ہونے والے واقعات میں سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ کچھ افراد نے عوامی رائے کو ماننے سے انکار کر دیا ، یہ افراد جس عظیم گناہ کے مرتکب ہوئے وہ یہ تھا کہ ان افراد نے الیکشن کے نتیجہ کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کئیے ، نظام پر سوالیہ  نشان لگایا ، اسے جھٹلایا، اس پر الزام تراشیاں کیں۔ان لوگوں کو قانون کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا چاہیے تھا ۔ جب دین اسلام کے معیّن کردہ  معیاروں کے مطابق کوئی الیکشن منعقد ہو ، ( ہم ان میں سے بعض معیاروں کی طر ف اشارہ کریں گے )تو سبھی کو قانون کے سامنے ، قانون کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کر دینا چاہیے بالکل ویسے جیسے قانون کی طرف سے معیّن شدہ ، منصف کے سا منے سرتسلیم خم کرنا ضروری ہے ۔ اگر قانون نے الیکشن جیسے  اہم  مسئلہ میں کسی کو  منصف و قاضی قرار دیا ہو یا کوئی طریقہ انصاف معیّن کیا ہوسبھی کو اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہیے ، اگر چہ اس کا فیصلہ ہماری مرضی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ؛ ایسے الیکشن کو صاف و شفاف الیکشن کہا جاتا ہے۔

اگر الیکشن اس شکل و صورت میں منعقد ہو جو اسلامی نظام میں معتبر ہے تو ایسے الیکشن میں دو نمایاں خصوصیتیں پائی جاتی ہیں : ایسے الیکشن کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ الیکشن ، عوام کی مرضی ، رائے اور تشخیص کا احترام شمار ہوتا ہے ۔ میں آپ سے عرض کردوں ؛ کہ آج کی دنیائے جمہوریت اور ڈیموکریسی میں جہاں جہاں بھی انتخابات ہوتے ہیں اور جو بھی ممالک ، جمہوریت کے علمبردار شمار ہوتے ہیں وہاں عوام کی مرضی کی کوئی وقعت نہیں ہے ۔ عام طور سے وہاں کے انتخابات محض ایک ظاہری رسم اور دکھاوا ہوتے ہیں ؛ امریکہ اور دیگر جمہوریت نواز ممالک میں یہی صورتحال حکم فرما ہے ۔ وہ لوگ جو الیکشن کے اکھاڑے میں اترتے ہیں ، اور ایک دوسرے کے خلاف الیکشن مہم چلاتے ہیں ، ان کی پشت پر کوئی خاص لابی اور گروہ ہوا کرتا ہے ؛ ان کو ، سرمایہ داروں ، مختلف کمپنیوں ، عظیم مالی لابیوں کی حمایت حاصل ہو تی ہے اور یہی سرمایہ دار کمپنیاں ، ان کی الیکشن مہم کو چلاتی ہیں اور اپنے گمراہ کن پروپیگنڈوں اور دیگر مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعہ ، عوامی رائے کو اپنے حق میں کرتی ہیں ، ان الیکشنوں میں حقیقی مقابلہ ، مختلف کمپنیوں کے مالکوں کے درمیان ہوا کرتا ہے ، عوام کے آراء اور ووٹوں کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں ہوتا ؛ وہاں منعقد ہونے والے انتخابات محض ایک خیالی پلاؤ ہیں ۔ در حقیقت وہاں ، جمہوریت کے معنی ، اقلیت کی حکومت کے ہیں ، وہاں ایسے خواص اور منتخب افراد کی حکومت ہے جو اپنے مالی وسائل کی بنا پر خواص اور ممتاز کہلاتے ہیں ؛ یہی افراد ان ممالک کی پالیسیوں کو وضع کرتے ہیں ۔

      لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کے انتخابات میں ایسا نہیں ہے ۔ یہاں  کے عوام ، اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرتے ہیں ، وہ اپنے اچھے برے کی تشخیص کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ ان کی تشخیص کسی مقام پر درست ہو اور کہیں غلط ہو ۔ اس میں بحث کی گنجائش نہیں ہے ۔ لیکن ، یہاں فیصلہ عوام کے ہاتھوں میں ہے ، یہاں پر عوام کی رائے کے پس پردہ طاقت اور ثروت کی لابیاں کارفرما نہیں ہیں ۔ ایرانی انتخابات میں حقیقی معنیٰ میں ، عوامی رائے  اور ان کی تشخیص کا احترام کیا جاتا ہے ۔ ہمیں عوام کے فیصلے کو تسلیم کر لینا چاہیے ، یہ ایک اہم مسئلہ ہے ۔

 انتخابات کے انعقاد اور ان کی اہمیت کے سلسلے میں ایک دوسرا اہم مسئلہ ، انتخابات  پر حاکم ، صحیح و سالم رقابت اور عوامی شوق و نشاط کا مسئلہ ہے ۔ انتخابات کے ذریعہ ، عوام میں احساس ذمّہ داری پیدا ہوتا ہے ، ان میں میدان میں حاضر ہونے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ عوامی جوش و جذبہ ، اس نظام کی رگوں میں تازہ خون دوڑاتا ہے اور اس کے جسم میں نئی روح پھونکتا ہے ۔ اس ملک کی انتظامیہ میں تبدیلی لاتا ہے ۔ ان انتخابات کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ انتخابات ،ٹھہراؤ اور متوقف ہونے کی روک تھام کرتے ہیں ۔کسی بھی اجتماعی نظام کی حیات و بقا کا بہترین راستہ یہ ہے کہ اس نظام میں ثبات کے ساتھ ساتھ ، تغیّر و تبدّل بھی پایا جاتا ہو۔ ٹھہراؤاور متوقف ہوجانا بری چیز ہے لیکن ، ثبات اچھی چیز ہے ۔ ثبات سے مراد ،پائداری ، استقامت اور مضبوطی  ہے ؛ یعنی یہ عمارت اپنی جگہ کھڑی رہے ، اس کی جڑیں مضبوط ہوں ؛ اس کے ساتھ ساتھ ، اس عمارت کے دائرے میں کچھ تبدیلیاں رونما ہوں ، کچھ مقابلے منعقد ہوں؛ یہ وہ مطلوبہ صورت حال ہے جس کے سائے میں ، اس نظام کی کشتی ، پرتلاطم دریا کی موجوں کی پرواہ کئیے بغیر ، بے خوف و خطر اپنے سفر کو جاری رکھ سکتی ہے ۔ " وھی تجری بھم فی موج کالجبال " (۴ )(اور یہ کشتی انہیں لےکر پہاڑوں جیسی موجوں کے درمیان چلی جارہی تھی ) یہ آیت کشتی نوح کے بارے میں ہے ۔ کشتی چل رہی ہے اور مختلف موجوں کے درمیان گھری ہوئی بھی ہے لیکن یہ  پہاڑ جیسی موجیں اس کی پائداری و ثبات کو ختم نہیں کر سکتیں ۔ ہمارے نظام میں ایسے ثبات و پائداری کو وجود میں آنا چاہیے ، البتّہ اس دائرہ ثبات و پائداری کے اندر ، تغیّر وتبدّل بھی ضروری ہے ۔

لہٰذا ان تمام تبدیلیوں کو قانون کے دائرے میں ہونا چاہیے ۔ اگر کوئی شخص الیکشن کے رقابتی میدان میں داخل ہو اور اس دائرے کو توڑنا چاہے ، اور قانون شکنی کا مرتکب ہو تو ایساشخص الیکشن کے قاعدہ و قانون سے باہر ہوجاتا ہے؛ یہ بہت غلط بات ہے ، یہ صحیح نہیں ہے ۔ ہر چیز  کو نظام کے دائرے میں ہونا چاہیے ۔ یہ دائرہ ہرگز تغیّر و تبدّل کے قابل نہیں ہے۔     انتخابات میں ، اس نظام اور اس کے مخالفین کی حدوں کی لکیر پر زیادہ زور دیا جانا چاہیے ۔ عین ممکن ہے کہ الیکشن میں حصّہ لینے والے افرادکی کسی اقتصادی یا اجتماعی پالیسی کے بارے میں ایک دوسرے سے رائے مختلف ہو ، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ، دونوں اپنے اپنے نقطہ نظر کو بیان کریں ، لیکن ان نظریات سے اپنی حدوں کو جدا کریں جو اس نظام کے مخالف ہیں ۔ ان امیدواروں کو اپنی حدوں کا تعیّن کرنا چاہیے ؛ ان حدوں کا تعّین بہت ضروری ہے ۔ میں نے بارہا اس مسئلہ پر زور دیا ہے ؛ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ حدیں معیّن نہ ہوں ، یہ حدیں غیر واضح ہوں تو یہ حدیں ، عوام پر مشتبہ ہو سکتی ہیں ۔ ان کی مثال ، ملک کی سرحدوں کی سی ہے کہ اگر ملکی سرحدیں واضح نہ ہوں تو بعض شر پسند عناصر ، تخریبی کاروائیوں کے قصد سے اس کی سرحدوں  میں داخل ہوسکتے ہیں ، اور کچھ لوگ غفلت کی وجہ سے ان سرحدوں سے باہر نکل سکتے ہیں ؛ انہیں خود بھی اس بات کی خبر نہیں کہ وہ ان حدوں سے باہر نکل رہے ہیں ۔ لہٰذا حدوں کی نشان دہی بہت ضروری ہے ۔ جو لوگ انتخابات میں ان حدوں کی رعایت نہیں کرتے  ان کا سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ وہ عوام کو  بلاوجہ مصیبت میں گرفتا ر کرتے ہیں ،ان کے ذہن میں شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے اس نظام اور اس کے مخالفین کے درمیان ، امتیازی خطوط کو مکمل طور پرواضح ہونا چاہیے ، ان خطوط پر زور دیا جائے اور اس نظام کے مخالفین سے بیزاری کا اظہار کیا جائے ۔                   الیکشن میں ملکی مفادات اور مصلحتوں کو سیاسی پارٹیوں اور ذاتی مفادات اور ان جیسے دیگر مسائل پر ترجیح دینا چاہیے اور تمام نظریات کو واضح انداز میں بیان کرنا چاہیے ؛ انہیں اپنے اہداف و مقاصد کا علم ہونا چاہیے ۔اگر ایسے انتخابات منعقد ہوں گے تو بلا شک اس سے اس نظا م ، ملکی ترقّی  اور عوام  کو خاطر خواہ فائدہ پہنچے گا ؛ ایسے انتخابات ، نظام کو زندہ و پرجوش رکھتے ہیں اور آگے کی سمت بڑھاتے ہیں ۔

 میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ الحمد للہ خوش قسمتی سے عصر حاضر میں ہمارے نظام کی کلی اورعام  حالت ماضی کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے ؛ ہمیں اس پر توجّہ دینا چاہیے ۔ یہ کوئی خیال خام نہیں ہے ، کوئی آرزو نہیں  ہے ۔ بلکہ عین حقیقت ہے ۔

 آپ ملاحظہ کیجئیے کہ دور حاضر میں  ہم امام امت(رہ) کے وجود کی نعمت سے محروم ہیں ، ہمارے ملک میں جنگ بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں جوش و خروش پیدا ہوتا ہے ۔ انقلاب کی کامیابی سے اکتیس برس کا طویل عرصہ گذر چکا ہے ۔ اس کے باوجود ہمارے جوانوں کی ایک بہت بڑی تعدا د (بوڑھے اور سن رسیدہ افراد کو رہنے دیجئیے ) مکمل طہارت و پاکیزگی اور آراستگی کے ساتھ مختلف میدانوں میں حاضر ہوتے ہیں ۔ یونیورسٹیوں میں بھی یہی صورت حال ہے ، یورنیورسٹیوں کے باہر دیگر اجتماعی میدانوں میں بھی ہمارے جوان اسی جذبے کا اظہار کر رہے ہیں ۔ حالانکہ یہی وہ جوان ہیں جنہیں ،  مختلف اخلاقی اور فکری انحرافات میں مبتلا کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔

ملک میں منعقد ہونے والے عظیم اجتماعات میں شریک ہونے والوں میں اکثریت انہیں جوانوں کی ہوتی ہے ۔بائیس بہمن (گیارہ فروری ) انقلاب کی کامیابی کے جشن کے دن ، تہران اور دیگر شہروں میں آپ نے اس کا ایک نمونہ دیکھا جس کی مثال کم ہی ملتی ہے ۔ جیسا کہ ہم نے ٹیلیویژن سے دیکھا اور بعض ایسے افراد سے جو ان ریلیوں میں شریک تھے سنا کہ ان ریلیوں کی اکثریت جوانوں پر مشتمل تھی ۔ یہ کس چیز کی علامت ہے ؟ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے عوام میں احساس ذمّہ داری پایا جاتا ہے جس کی بنا پر وہ میدان میں کود پڑتے ہیں ۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ،  اکتیس سالہ عرصہ گزر نے کے بعد ، ہمارے عوام بالخصوص ہمارے جوانوں میں پایا جانے والا یہ احساس ذمّہ داری ایک عظیم اور بہت بڑا واقعہ ہے ۔

اس کی کیا وجہ ہے کہ اس سال بائیس بہمن کے موقع پر ، منعقد ہونے والے امریکہ اور سامراج  مخالف مظاہروں میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں عوامی شرکت بہت زیادہ تھی ؟  اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ عوام کو خطرے کا احساس ہو چکا تھا ؛ چونکہ عوام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ کس طریقے سے کچھ لوگ الیکشن اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات کو بہانہ بنا کر ،اسلامی نظام سے آمادہ پیکار ہیں ، اس کے بارے میں گمراہ کن ، پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، اسلامی نظام کے منہ پر اپنے پنجے گاڑنا چاہتے ہیں ۔ ان لوگوں کا سب سے خطرناک اقدام یہ تھا کہ یہ لوگ کبھی کبھی امام (رہ)، انقلاب اور اس نظام کا نام اپنی زبان پرلاتے تھے لیکن ان کی رفتار و گفتار ، ان کے اقدامات ، ان کی حرکات و سکنات ، کسی طرح بھی اس انقلاب کی راہ و روش ، اہداف و مقاصد سے میل نہیں کھاتی تھیں ؛ عوام نے اسے اچھی طرح بھانپ لیا ۔ یہ بہت بڑی بصیرت ہے اور بہت اہم بات ہے کہ ہمارے عوام ان حقائق کو سمجھتے ہیں اور انہیں محسوس کرتے ہیں ؛ اور ان کے ادراک و احساس کے بعد اس طریقے سے میدان میں کود پڑتے ہیں اور اپنی موجودگی کا برملا اعلان کرتے ہیں ، یہ چیز ، ان کے بلند وبالا ، عزم و ارادے کی عکّاس ہے ؛ ان کی بہت بڑی اہمیت ہے ، ہمیں ان حقائق کو دیکھنا چاہیے ، ان کی قدر و قیمت کو جاننا چاہیے ،  ان کے علل و اسباب کو تلاش کرنا چاہیے ۔ ہمارے عوام کی " دینداری " ان حقائق کو عملی جامہ پہنانے کا سب سے بڑا عامل اور سبب ہے۔ اس کی اصلی وجہ  " اطاعت پروردگار " ہے جوکہ اسلامی نظام کا سب سے بڑا معیار و کسوٹی ہے ۔ میری نظر میں سب سے بنیادی مسئلہ یہ ہے ۔

آج ہمارا سامنا ، دنیا کی تسلّط پسند طاقتوں کے متحدہ محاذ سے ہے جو ہماری دشمنی پر کمر بستہ ہیں ، یہ متحدہ محاذ، طاقت و ثروت کے عالمی مراکز پر مشتمل ہے جو غالبا بڑے بڑے  سرمایہ داروں اور صہیونیوں کی مٹھی میں ہیں ۔ یہ محاذ ، اسلامی نظام کے خلاف اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لا رہا ہے اور نہایت افسوس کی بات ہے کہ ملک کے اندر بھی کچھ لوگ ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں ؛ کچھ لوگ ان کے مورد اعتماد ہیں جو ان کی باتوں کو دہرارہے ہیں ؛ اسلامی جمہوری نظام کو نقصان پہنچانے کے لئیے ان کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں ! صد افسوس! کہ ہمارے ملک میں بھی ایسے عناصر پائے جاتے ہیں ۔ لیکن اس کے مقابلے میں ہمارے عوام کے اندر ، بیداری ، آگاہی ، دینداری ، عزم و ارادہ ، نظام اور اس کے ارکان سے والہانہ لگاؤ پایا جاتا ہے ۔ یہ وہ حقائق ہیں جو جمہوری اسلامی میں موجزن ہیں ۔ ہم نے گزشتہ برسوں میں مسلسل پیشرفت کی ہے اور آگے کی جانب قدم بڑھایا ہے  جس کے لئیے ہم خداوند متعال کے شکر گزار ہیں ۔

آج ہماری سب سے بڑی ذمّہ داری یہ ہے کہ ہم اس عظیم عمارت کی حفاظت کریں ؛ اس کی حفاظت و استحکام کے لئیے حد بندی ضروری ہے ، میں جس حد بندی پر زور دے رہاہوں اس کی جگہ یہی ہے ۔ یعنی نظام کے اصول و اساس کے سلسلے میں حدبندی کی جائے ۔ ورنہ اس سے کم درجہ اہمیت کے مسائل میں نظریاتی اختلاف میں کوئی قباحت نہیں ہے ، ان اختلافات سے معاشرے کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ۔ بلکہ بسااوقات یہ نظریاتی اختلاف ، ترقّی و پیشرفت کا باعث بنتے ہیں ۔ ان اختلافات کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہے ، یہ اختلافات ، الیکشن مہم میں بھی مؤثّر ثابت ہو سکتے ہیں ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ بلکہ سب سے زیادہ اہمیت ، اس نظام کی بنیاد، اس کے جامع نقشے اور اس نظام کے خاکے کی ہے ؛ ہمیں ہمیشہ ہی اسے پیش نظر رکھنا ہوگا اور اس کے بارے میں حسّاس رہنا ہوگا ۔ ہمیں اپنی رفتار و گفتار میں اس خاکے اور نقشے کو مد نظر رکھنا چاہیے ۔

ہمیں ، عداوتوں کو پہچاننا چاہیے ۔ ہماری سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ہم کبھی کبھی غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں اور نظام کی بنیاد و ارکان سے ہونے والی عداوتوں کو ، جزئی مسائل پر حمل کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ میں ، خواص کی بصیرت پر اس قدر زور دے رہا ہوں ۔ تحریک مشروطیت کے آغاز پر بھی اسی غلطی کا ارتکاب کیا گیا ، اس دور میں بھی بڑے بڑے علماء موجود تھے ،میں ان کانام نہیں لینا چاہتا ، آپ  سبھی ان سے واقف ہیں ، مشہور و معروف علماء تھے  ۔ اس دور کے علماء نے ان سازشوں کو نظر انداز کر دیا تھا جو اس دور کے مغرب نواز روشن خیال افراد کے ذریعہ رچی جا رہی تھیں ، یہ لوگ  مغربی رنگ میں رنگے ہوئے تھے ، مغربی افکار و خیالات کے حامی تھے ۔ ان علماء نے ان افراد کی ان باتوں پر توجّہ نہیں دی جو وہ اس دور کی " مجلس ملّی " میں اپنی زبان پر لارہے تھے یا اپنے اخبارات میں لکھ رہے تھے ۔ اس دور کے علماء نے اس بات سے غفلت برتی کہ ان نام نہاد روشن خیال افراد کی باتیں ، ان کی تحریریں ، اسلام مخالف ہیں ؛ انہوں نے اس پر توجّہ نہیں دی ، انہوں نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ  مرحوم شیخ فضل اللہ نوری (جو ان سازشوں سے آگاہ تھے ) جیسی شخصیت کو ان کی آنکھوں کے سامنے تختہ دار پر لٹکا دیا گیااور یہ لوگ ٹس سے مس نہیں ہوئے ؛ شیخ فضل اللہ نوری کی شہادت کے بعد ، وہ علماء بھی ،  انہیں عناصر کے ہاتھوں ، ہتک حرمت ، توہین و تذلیل کا نشانہ بنے جنہوں نے  مرحوم شیخ فضل اللہ نوری کی شہادت جیسے حسّاس مسئلہ کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی ۔ انہیں بھی مار کھانا پڑی ؛ ان میں سے بعض کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ، بعض کی عزّت و آبرو خاک میں مل گئی ۔ یہ وہ غلطی تھی جو اس دور میں انجام پائی ؛ ہمیں اس غلطی کو نہیں دہرانا چاہیے ۔ ہمارے امام امت ( رضوان اللہ تعالیٰ علیہ ) جو کہ ایک جامع اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے ، ان کی شخصیت کا ایک پہلو یہ تھا کہ موصوف بہت حسّاس تھے ۔ جیسے ہی قصاص کے قانون کےخلاف کچھ لوگوں کا رد عمل سامنے آیا ، امام امت (رہ)نے اس مخالف کی حقیقت کو بھانپ لیا ، اور فورا سمجھ لیا کہ اس مخالف کا مطلب کیا ہے ۔ آپ کو امام امت(رہ) کا یہ فیصلہ کن ، رویہ یاد ہوگا ۔ ہمیں اسی کردار کا مظاہرہ کرنا چاہیے ؛ ہمیں حسّاس ہونا چاہیے ۔

ہمیں ، اس نظام کے اصلی مسئلہ ، اس کے ارکان اور نظام کے تشخص و کلیت کے بارے میں کسی غفلت و چشم پوشی سے کام نہیں لینا چاہیے ۔ کچھ مسائل کی حیثیت ، درجہ دو کی ہے جنہیں باہمی گفتگو کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے ۔میں نے دیکھا کہ ان دنوں ، مجمع تشخیص مصلحت نظام میں ایک منصوبے پر گفتگو چل رہی ہے ، مجمع تشخیص مصلحت نظام کے اراکین اس پر کام کر رہے ہیں ، مذکورہ مجمع کی حیثیت ، ایک مشورتی مجمع کی ہے ، یقینا یہ منصوبہ ہمارے پاس آئے گا ، ہم اپنی صواب دید کے مطابق اس کی منظوری دیں گے ،تب کہیں اس منصوبے پر ، " کلّی سیاست " کا اطلاق ہوگا ۔ بلاشک ، گارڈین کونسل کو قانونی اعتبار سے کچھ اختیارات حاصل ہیں ( جیسے انتخابات کی نگرانی ، امیدواروں کی صلاحیت یا عدم صلاحیت کی تشخیص ) ان اختیارات میں رخنہ اندازی نہیں ہونا چاہیے ،ان امور کی اصلاح  کی جاسکتی ہے ۔ اس مسئلہ کو اختلافی مسائل میں شمار نہیں کیا جانا چاہیے ، یہ وہ امور ہیں جو اصلاح کے قابل ہیں ، عین ممکن ہے کہ گارڈین کونسل کے اراکین میں سے بھی کوئی کسی غلطی کا ارتکاب کر بیٹھے ؛ لیکن اس غلطی کاازالہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ امور ، اصلی و بنیادی مسائل نہیں ہیں ۔ بلکہ اصلی و بنیادی نوعیّت کے مسائل وہ مسائل ہیں جو صدارتی الیکشن کے بعد ، گزشتہ آٹھ ، نو ماہ سے ، اسلامی نظام اور کفر و استکبار کے محاذکے مابین مورد اختلاف رہے ہیں ۔ ملک کے اند ر بھی بعض افراد نے ، کفر و استکبار کے محاذکی باتوں کو دہرایا ۔ اس نظام کے دشمن ، اس اسلامی ، دینی   اور اطاعت خدا و رسول پر مبنی نظام کو مٹانے کے درپے ہیں اور ہر وہ چیز ان کی دشمن شمار ہوتی ہے جو اس نظام کے استحکام وپائداری اور اطاعت عامہ  کا باعث ہو؛ اس کے خلاف اقدام کرتے ہیں، اس کے خلاف سرگرمیوں میں مشغول ہیں ، وہ اس کو نقصان پہنچانے کے لئیے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لارہے ہیں۔ ہمیں بھی ان اصو ل و ارکان کی حفاظت کے لئیے اپنی پوری کوشش سے کام کرنا چاہیے ، ہمیں اصلی اور بنیادی مسئلہ سے ہر گز غفلت نہیں برتنا چاہیے ۔

حدوں کو ایک دوسرے سے واضح و آشکار  اندازمیں  جدا کرنا چاہیے۔ یعنی جو لوگ اسلامی نظام اور عوام کے خیر خواہ ہیں ان کی حدود ، ان لوگوں سے مکمّل طور پر جدا ہونا چاہیے جو اس نظام اور عوام کے مخالف ہیں ، جو قانون سے بر سر پیکار ہیں، جو قانون کے مخالف ہیں ۔ یہ حدیں اس قدر واضح و آشکار ہونا چاہیے کہ عوام میں ان کے بارے میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے ۔ عوام ، ہمارے رویّے پر نظر رکھتے ہیں ؛ ہمیں ان حدوں کا علم ہونا چاہیے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے ۔ اس سے ہٹ کر دیگر تمام مسائل سے چشم پوشی کی جاسکتی ہے ، ان کو حل کیا جاسکتا ہے ، اگر چہ نظریّاتی اختلاف بھی پایا جاتا ہو ، لیکن اس نظریّاتی اختلاف کو باہمی تنازعہ ، مخاصمت اور لڑائی جھگڑے کا باعث نہیں بننا چاہیے ۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ  اس نزاع سے دشمن کو فائدہ پہنچتا ہے ۔

وہ لوگ جو ہمارے بنیادی آئین  میں جلوہ گر ملک کے کلّی خاکے اور نقشے ، اور قانون کی حاکمیت اور قضاوت کو قبول کرتے ہیں وہ اس نظام کے مجموعے کا حصّہ شمار ہوتے ہیں ۔ لیکن جو لوگ اس قانون کو نہیں مانتے ، انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اس نظام میں موجودگی کے موقع کوضائع کردیا ہے اور وہ اس نظام کے زیر سایہ فعّالیت کی صلاحیت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ وہ لوگ جو قانون کو نہیں مانتے ، وہ لوگ جو اکثریت کی رائے کو نہیں مانتے ، وہ لوگ جنہوں نے چار کروڑ پر مشتمل ، قابل فخر  الیکشن پر سوالیہ نشان لگایا ، جو لوگ اس نظام کی مضبوطی و استحکام کے نقطے کو اس کی کمزوری میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں، وہ لوگ در حقیقت اپنے آپ کو اس کشتی نجات (اسلامی نظام ) سے باہر پھینک رہے ہیں ؛ ورنہ کوئی بھی  دوسراشخص ان کو اس کشتی نجات سے باہر نہیں پھینکنا چاہتا ۔

حضرت نوح (علیٰ نبیّنا و علیہ السّلام ) اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں : " یا بنیّ ارکب معنا ولاتکن مع الکافرین" ؛ (۵ )  (فرزند میرے ساتھ کشتی میں سوار ہوجا اور کافروں میں سے نہ ہوجا ) اسلامی نظام بھی حضرت نوح کی پیروی کرتے ہوئے سبھی کو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ آؤ ہمارے ساتھ ہوجاؤ ، اور اس کشتی نجات پر سوار ہو جاؤ " ولاتکن مع الکافرین " ۔ ہمارا مقصد و ہدف یہ ہے ۔ ہم کسی بھی شخص کو اس نظام سے باہر نہیں نکال رہے ہیں ، لیکن کچھ لوگ خود ہی اس نظام سے خارج ہونے پر مصرّ ہیں ۔

ہم دعاکرتے ہیں کہ خداوند متعال ہمیں اس بات کی توفیق عنایت فرمائے کہ ہم اس نظام کی اسی کلّیت اور سمت و سو کی حفاظت کرسکیں ، اور اس نظام و عوام کی خدمت کر سکیں ۔

آج جب ہم نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں یہ دکھائی پڑتاہے کہ عوام کی بصیرت ، ان کی آگاہی ، اسلامی نظام کے بارے میں ان کی احساس ذمّہ داری ، بے مثال ہے ۔ اس احساس ذمّہ داری اور آمادگی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر آج بھی دفاع مقدّس جیسے حالات پیدا ہوتے تو یقینا اس دور کے مقابلے میں ، آج کے عوام بالخصوص ہمارے  جوان زیادہ تعداد میں میدان کارزار میں  شریک ہوتے  ۔ ہم اس عظیم عوامی تحریک سے بخوبی اس بات کو محسوس کرتے ہیں ۔

      ہمیں پوری امّید ہے کہ خداوند متعال ہمارے ملک کے تمام حکام کو اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کی توفیق عنایت فرمائے گا ۔ ملکی حکّام کی ذمّہ داریاں بہت سنگین ہیں ۔ تینوں قوا کے ذمّہ دار حضرات پر بہت سنگین ذمّہ داریاں عائد ہوتی ہیں ؛ ان لوگوں کو اپنی ذمّہ داریوں پر پوری دقّت ، سنجیدگی اور محنت کے ساتھ عمل کرنا چاہیے تاکہ پروردگار عالم کا لطف و کرم ہم پر ناز ل ہو ۔ آج تک جو کچھ بھی انجام پایا ہے وہ خداوند متعال کا لطف و کرم ہی ہے ، اس کے بعد بھی اگر اس کا لطف و کرم ہمارے شامل حال رہا تو ہمیں اس کی مدد ونصرت حاصل رہے گی۔

میں مجلس خبرگان کے اراکین کی زحمتوں ، اچھے کاموں اور   قیمتی بیانات  کا تہہ دل سے مشکور ہوں، خبرگان کونسل کے سربراہ اور دیگر حکام کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں ، اور دعاگو ہوں کہ انشاء اللہ آپ کی یہ زحمتیں ، امام زمانہ(عج) کی خوشنودی کا باعث قرار پائیں اور خداوند متعال امام زمانہ (عج)کو ہم سے راضی و خوشنود فرمائے  اور ہمیں ان کی دعاؤں میں شریک قرار دے !ہمارے امام امت (رہ) اور شہیدوں کی روحوں کو ہم سے راضی و خوشنود فرمائے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)  سورہ نساء : آیت ۵۹

(۲) سورہ آل عمران : آیت ۳۱

 (۳) سورہ مائدہ : آیت ۶۶

(۴) سورہ ھود : آیت ۴۲

(۵) سورہ ھود : آیت ۴۲