ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کاصوبہ آذربائیجان کے عوام کےبعض طبقات سے خطاب

                     بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

میں آپ سبھی بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں ،جنہوں نے  ۲۹ بہمن ۱۳۵۶ ھ، ش ( ۱۸  فروری  سنہ ۱۹۷۸ ع ) میں شہر تبریز کے عظیم اورنا قابل فراموش واقعہ کی یاد منانے کے لئے ایک طویل مسافت طے کی اور  زحمتوں کو برداشت کر کے یہاں  تشریف لائے ہیں اور ہمارے حسینیہ کو منوّر کیا  ہے ۔ در حقیقت آپ کی گرم سانسوں ، گویا زبانوں ، ولولہ انگیز جذبات اور جوش و خروش (ہر موقع پر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے ہیں ) نے ہمارے حسینیہ کو گرمی ، گیرائی اور انقلابی رنگ میں رنگ دیا ہے ۔ جیسا کہ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ اہل تبریز میں ہمیشہ ہی یہی خصوصیات جلوہ گر رہی ہیں ۔

ہم اپنے ماضی قریب کی تاریخ میں ، تحریک مشروطیت کے قبل و بعد سے لے کر آج تک رونما ہونے والے بڑے بڑے واقعات میں  ، اہل تبریز اور صوبہ آذربایجان  کے عوام میں دو خصوصیتوں کو نمایاں طور پردیکھتے ہیں : ان کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ مختلف واقعات و حوادث میں انہوں نے صف اوّل میں رہ کر اپنا کردار ادا کیا ہے اور اکثر تحریکوں کا آغاز ، اہل تبریز اور صوبہ آذر بایجان کے عوام نے کیا ہے ، ان تحریکوں میں اس صوبے کے عوام نے بڑھ چرھ کر حصہ لیا ہے اور خلاقیت کا بہترین مظاہرہ کیا ہے ۔ ۲۹ بھمن سنہ ۱۳۵۶ (ھ ۔ ش) کا واقعہ بھی اسی نوعیت کا ایک واقعہ ہے ۔ اگر شہر تبریز کے بیدار و آگا ہ عوام نے  اس دن شہدائے قم کے چہلم میں اس عظیم واقعہ کو معرض وجود میں نہ لایا ہوتا ،تو ملک میں شہدائے تبریز کے چہلموں کا سلسلہ شروع نہ ہوتا تو یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ پورے ملک کی انقلابی تحریک کس راہ پر گامزن ہوگی ۔ اہل تبریز نے اس سلسلے میں میر کارواں کا کردار ادا کیا ۔اس سے پہلے رونما ہونے والے واقعات میں بھی تبریزی عوام نے یہی رول ادا کیا ہے ، تحریک مشروطیت میں بھی انہوں نے اسی کردار  کا مظاہرہ کیا؛اہل تبریز نے ہر تحریک کو شروع کیا ہے اور اس کی نبض کو اپنے ہاتھ میں رکھا ہے ۔ بہت سے نعرے جو آج پورے ملک کے عوام کی زبان پر جاری ہیں ، ان کا آغاز غالبا شہر تبریز سے ہوا ہے ۔

صوبہ آذر بایجان اور شہر تبریز کی دوسری نمایاں خصوصیت ، ان کی " وفاداری " ہے ۔ بعض افراد کسی راستے کا انتخاب تو کرتے ہیں لیکن راستے کے درمیان میں ہی اسے ترک کر دیتے ہیں اور اس کے وفادار نہیں رہتے؛ مختلف حوادث ان کے قدموں کو ڈگمگا دیتے ہیں ؛ ان کو شک و تردید سے دوچار کر دیتےہیں ؛ یہ افراد کبھی تو اس راستے سے پلٹ جاتے ہیں اور کبھی اس سے بھی بڑھ کر اس راستے کی حقانیت کا انکار کرتے ہیں ؛ اس کی مثالیں کم نہیں ہیں ۔ صوبہ آذربائیجان اور شہر تبریز کے عوام ، جذبہ وفاداری سے سرشار ہیں ۔ وہ آج بھی ثابت قدم ہیں ۔ قرآن مجید میں ارشاد ربّ العزّت ہے " ومن اوفیٰ بما عاھد علیہ اللہ فسیؤتیہ اجرا عظیما " ؛ (۱)  ( اور جو عھد الٰہی کو پورا کرتا ہے خدا اس کو عنقریب اجر عظیم عطا کرے گا ) جو عہد الٰہی کا وفادار رہتا ہے ۔ حق اور حق بات پر اٹل اور ثابت قدم رہتا ہے ،وقت گزرنے اور  زمانے کے حوادث کی وجہ سے ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آتی ، خدا بھی انہیں اجر عظیم عطا کرے گا ۔ لیکن کچھ لوگ ایسے نہیں ہوتے ، وہ عہد الٰہی کو توڑ دیتے ہیں ؛ " فمن نکث فانّما ینکث علیٰ نفسہ " ؛ (۲) جو بیعت توڑتا ہے وہ اپنے ہی خلاف اقدام کرتا ہے ۔ درحقیقت ایسا شخص ، اپنی بیعت شکنی کے ذریعہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے ؛ راہ خدا کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا ۔صوبہ آذربایجان اور شہر تبریز کے عوام نے ہمیشہ ہی وفاداری اور استقامت کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔

اگر چہ ہمارے امام امت(رہ) ، تبریز کے عوام کو نزدیک سے نہیں جانتے تھے لیکن اس شہر کے عوام کے جذبہ ایثار و قربانی سے بخوبی آشنا تھے ۔ جب انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی دور میں ایران کے کچھ شہروں میں انقلاب  مخالف بعض شر پسند عناصر نے آشوب اور فتنے کا ماحول پیدا کر رکھا تھا ، منجملہ شہر تبریز میں بھی یہی صورت حال تھی تو اما م امت (رہ)نے فرمایا کہ اہل تبریز خود ہی ان کا دنداں شکن جواب دیں گے اور ایسا ہی ہوا ۔ جذبہ ایمانی ، غیرت دینی ، ہمت و آگاہی کے سو ا کوئی دوسری چیز ، ان فتنوں اور بلوؤں کی آگ کو نہیں بجھا سکتی تھی ۔

آج بھی ایسا ہی ہے ۔ وہ عزیز جوان جنہوں نے امام امت(رہ) کو نہیں دیکھا  ، مقدّس دفاع کا آٹھ سالہ دور نہیں دیکھا ، شھید باکری جیسے افراد کو نہیں دیکھا ، اس دور کی جذبہ ایثار وشہادت  سے سرشار ان شخصیات کو نہیں دیکھا جنہوں نے جام شہادت نوش کیا ، لیکن اسی جذبے ، اسی قوّت ، اسی بصیرت اور استقامت سے میدان عمل میں حاضر ہوتے ہیں جس جذبے سے ۲۹ بھمن سنہ ۱۳۵۶ کو تبریزی جوان میدان میں داخل ہوئے تھے ، جس جذبے سے ہم پر مسلّط کی گئی آٹھ سالہ جنگ میں اور دیگر محاذوں پر اس دور کے جوانوں نے ایثار و قربانی کے بے مثال نمونے پیش کئیے۔ ہمارے آج کے جوان بھی اسی جذبے سے سرشار ہیں ۔ اس کا مطلب کیا ہے ؟ ایسا کیوں ہے ؟ ماجرا کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اس کا راز اس انقلاب کی " حقانیت " میں تلاش کرنا چاہیے : ہمارے انقلاب کا پیغام حق و صداقت پر مبنی ہے اور حق و صداقت کی خاصیت یہ ہوا کرتی ہے " مثلا کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیّبۃ "؛ یہ ایک ایسا طیب و طاہر اور بہترین بیج کا درخت ہے جو زرخیز زمین میں نشوو نما پاتا ہے ۔ " اصلھا ثابت و فرعھا فی السّماء " ؛ جس کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اور اس کی شاخیں اور ٹہنیاں ، سر بہ فلک ہیں ۔ " توتی اکلھا کل حین باذن ربّھا " ؛ (۳ )  اس کے میوے ہمیشگی اور دائمی ہیں ، ہر موسم میں اس موسم کے مطابق میوہ دیتا ہے ۔ صرف ایک مرتبہ استعمال کے قابل نہیں ہے ۔ یہ انقلاب دنیا کے دیگر بہت سے عوامی یا فوجی انقلابوں کے مانند نہیں ہے جو حکومتوں کو بدلنے کے لئے معرض وجود میں آتے ہیں ۔ لیکن یہ انقلاب ایک بار استعمال کے قابل ہوتے ہیں اور کچھ وقت گزرنے کے بعد اس تحریک سے پہلے والا  ماجرا دہرایا جاتا ہے اور کبھی کبھی اس سے بھی ابتر حالات پیدا ہوجاتے ہیں ۔ لیکن " حرف حق " ایسا نہیں ہوتا ہے وہ ہمیشہ باقی رہتا ہے ۔

آج بھی ہمارے انقلاب کا راستہ اور اس کے اہداف و مقاصد وہی ہیں جو اس انقلاب کے پہلے دن  معیّن کئیے گئے تھے  ۔ جنہیں ہمارے حکیم امام (رہ)نے معیّن کیا تھا ۔ یہ اہداف ، فطرت انسانی سے ہم آہنگ تھے ،اسی وجہ سے عوام نے دل و جان سے انہیں قبول کیا ، ورنہ کروڑوں عوام کا دل کسی ایک سمت مائل ہوجائے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ جب کوئی شخص فطرت انسانی کو مخاطب قرار دیتا ہے ، خدائی پیغام پہنچاتا ہے تو فطرتیں اس کی جانب متوجّہ ہوجاتی ہیں " لو انفقت ما فی الارض جمیعا ما الّفت بین قلوبھم و لٰکن اللہ الّف بینھم " ۔ (۴ ) (اگر آپ ساری دنیا خرچ کر دیتے تو بھی ان کے دلوں میں باہمی الفت نہیں پیدا کر سکتے تھے لیکن خدا نے یہ الفت و محبت  پید ا کر دی ہے ) یہ پروردگار عالم کا دست قدرت ہی ہے جو دلوں کی کسی جانب ہدایت و راہنمائی کرتا ہے ؛ جس کا نتیجہ یہ بر آمد ہوتا ہے کہ بائیس بہمن (گیارہ فروری ) کے دن ،  اسلامی  انقلاب کی  کامیابی کی اکتیسویں سالگرہ کے موقع پر انسانوں کا جم غفیر سڑکوں پر نکل آتا ہے جس کی تعداد گزشتہ برسوں سے بھی زیادہ تھی ؛ عوام کی موجودگی میں نہ صرف یہ کہ کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور اس کا رنگ پھیکا نہیں پڑا بلکہ اس میں مزید نکھار آیا ہے اور اسے قوّت حاصل ہوئی ہے ؛  یہ چیز، عالم طبیعی میں پائے جانے والے حقائق سے بالکل مختلف ہے ۔ اگر آپ پانی میں ایک بڑا سا پتّھر پھینکیں تو اس سے ایک موج پیدا ہو گی ۔ لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ، لمحہ بہ لمحہ اس کی لہروں میں کمی آتی جائی گی ، اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا نام و نشان تک باقی نہیں رہے گا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ، اجتماعی اور معاشرتی لہروں کا بھی یہی انجام ہوتا ہے ، وہ بھی ماند پڑ جاتی ہیں لیکن آخر یہ کون سی حقیقت ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید نکھرتی جا رہی ہے ، واقعہ کربلا کے مانند ،  دن بدن اس کی چمک دمک میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔  واقعہ کربلا میں اس تپتے صحرا میں امام حسین بن علی ( علیہما السّلام ) بے یار و مددگار ، نرغہ اعداء میں اپنے چند انصار کے ہمراہ درجہ شہادت پر فائز ہوتے ہیں ، اہل حرم کو اسیر کر لیا جاتا ہے اور قصّہ یہیں ختم ہوجاتا ہے ۔ لیکن ایک ایسا واقعہ جسے دس ، پندرہ دن میں صفحہ ہستی سے مٹ جانا چاہیے تھا ، آج بھی کس قدر درخشان و تابناک ہے ، دنیا کے کروڑوں شیعوں اور دیگر مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں کے درمیان بھی ، امام حسین علیہ السّلام کا نام ، آفتاب عالم تاب  کے مانند چمک رہا ہے ۔ دلوں کو منوّر کر رہا ہے ، ان کی راہنمائی کر رہا ہے ۔ ہمارے  انقلاب میں بھی یہی خصوصیت پائی جاتی ہے ۔ جس قدر وقت گزرا ہے اس انقلاب نے بہت سے حقائق کو واضح کر دیا ہے ۔

اچّھا، دشمن تو بہر حال  دشمن ہے وہ ایک مختلف انداز میں  بات کر رہا ہے ۔ لیکن ہمارے بعض نام نہاد دوست بھی دشمن کے لب و لہجے میں گفتگو کر رہے ہیں ، خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ ایسا دانستہ طور پر کر رہے ہیں یا انجانے میں ایسی باتیں کر رہے ہیں ؛ لیکن دشمن کے لہجے میں گفتگو کر رہے ہیں ۔ وہ یہ ظاہر کرنے کے درپے ہیں کہ انقلاب اپنے راستے سے ہٹ چکا ہے ؛جناب !  ایسا نہیں ہے، اس لئے کہ اگر انقلاب اپنے راستے سے منحرف ہو چکا ہوتا تو انقلاب، اور اس کی یاد کے نام پر اتنے شیفتہ دل ، ہرگز سڑکوں پر نہ نکلتے ۔ اس انقلاب کی سالگرہ کی یاد منانے کے لئے یہ جذباتی اور ایمانی مناظر دیکھنے کو نہ ملتے ۔ یہ بات صرف ملکی سرحدوں تک محدود نہیں ہے ، دنیا پر ایک نظر دوڑائیے تو وہاں بھی آپ کو یہی مناظر دکھائی دیں گے ۔ آج اسلامی ممالک میں وہاں کے لوگوں کے دلوں میں اس انقلاب کے اثرات کو محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ آپ محض چند دشمن و معاند حکومتوں کہ نہ دیکھیں ، اقوام عالم، اس انقلاب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں ، اس کے عزّت و احترام کی قائل ہیں، ان کے دلوں میں اس جیسے انقلاب کی حسرت پائی جاتی ہے ؛ یہ اس انقلاب کی حقانیت کی علامت ہے ۔ اس انقلاب کے بقا کی علامت ہے ؛ یہ  " تؤتی اکلھا کل حین ''   کی دلیل ہے ۔

توفیق الٰہی کے زیر سایہ جس طریقے سے میں اور آپ ، آج تک اس انقلاب کے وفادار رہے ہیں ویسے ہی آئندہ بھی اس کے وفادار رہ سکتے ہیں ۔ اگر ہم اپنی اس وفاداری پر باقی رہیں گے تو " فسیؤتیہ اجرا عظیما " ؛ خداوند متعال ہمیں اجر عظیم عطا کرے گا ۔ یہ اجر نہ تو اس دنیاسے مخصوص ہے اور نہ ہی عالم  آخرت سے ؛ بلکہ یہ دونوں جہاں کا اجر ہے ؛ اس دنیا میں یہ اجر ، عزّت و اقتدار اور عظیم مقاصد واہداف کے حصول کی صورت میں ظاہر ہو گا ، اور روز قیامت ، اجر الٰہی اور ثواب کی شکل میں نمایاں ہوگا ، جو سب سے بڑھ کر ہے ۔ اگر ہم خدا نخواستہ بیعت شکنی کا ارتکاب کریں یااپنے عہد و پیمان کوصحیح ڈھنگ سے بجا نہ لائیں اور ہماری خواہشات نفسانی ہمیں راستے سے ادھر ادھر گمراہ کر دیں تو اس کا نقصان ، ہمیں خود اٹھانا پڑے گا ؛ انقلاب تو اپنے راستے پر گامزن رہے گا ۔ وہ لوگ جنہوں نے انقلاب کا ساتھ چھوڑ دیا ، دشمن کی مرضی کے مطابق ، اس انقلاب کے مد مقابل محاذ آرائی کی ، انہوں نے خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے ۔اگر وہ اپنے خیال خام میں یہ سوچ رہے ہیں کہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور انقلاب کے خلاف سازشیں کریں ، گفتگو کریں ، دوسروں کو اکسائیں ، تو انہیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ان  اقدامات کے ذریعہ ہر گز اپنے منحوس مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے ۔ یہ لوگ یقینا غلطی پر ہیں ۔

اس سال اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ  بائیس بھمن (گیارہ فروری ) کے موقع پر اس عظیم  الٰہی معجزے  نے خود نمائی کی اور عوام کے جم غفیر سے سبھی کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔لیکن اس انقلاب کے دشمنوں اور مخالفوں خواہ وہ کینہ پرور مخالف ہوں یا معترض مخالف ہوں  نے اس دن کے بارے میں دوسرے ہی خواب دیکھ رکھے تھے ، ایک دوسری پلاننگ کر رکھی تھی ، مختلف قسم کے خیالات  اپنے ذہنوں میں بسا رکھے تھے ۔ وہ کافی عرصے سے اس  سلسلے میں کوشاں تھے کہ کوئی ایسا کام کریں جس کی بنا پر بائیس بھمن جو کہ عوامی حمایت اور موجودگی کا ایک بہت بڑا مظہر ہے اس میں رخنہ اندازی کریں ؛ تہران اور دیگر شہروں میں کوئی ایسا کام کریں کہ جس کی بنا پر عوام میں باہمی تصادم کا ماحول پیدا ہو ؛ انہوں نے اس کی پیش گوئی بھی کر رکھی تھی ۔ اور اپنی گفتگو میں اس کا برملا اظہار بھی کرتے تھے کہ بائیس بھمن ( ۱۱ فروری ) کے دن ایران میں داخلی جنگ کا آغاز ہو جائے گا ! آپ ملاحظہ کیجئیے کہ انہوں نے اند ر ہی اندر کیا منصوبہ بندی کر رکھی تھی جس کی بنا پر ایران میں داخلی انتشار کی باتیں کر رہے تھے ۔ بہر حال بعض افراد اس طرح کی باتیں کر رہے تھے ۔ کچھ افراد یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ وہ بائیس بھمن کے دن ، اسلامی جمہوریہ ایران  کے مخالف چہرے کی نمائش کر سکیں گے ؛ اور ظاہر کر سکیں گے کہ عوام ، انقلاب سے دل برداشہ اور خفا ہیں ۔ اسلامی نظام سے کنارہ کش ہو گئے ہیں ، اس کے مد مقابل صف آرا ہیں ؛ انہوں نے یہ سوچ رکھا تھا ، انہوں نے یہ حساب و کتاب کر رکھا تھا ۔ ایرانی قوم نے اپنی بصیرت ، اپنی آگاہی ، اپنی ہمّت اور دست قدرت ( جس نے ان کے دلوں میں بیداری پیدا کی ) کے زیر سایہ ، ان سبھی مخالفوں کے منہ پر زور دار طمانچہ رسید کیا اور سبھی پر حجت تمام کر دی  ۔

ہمارے بیرونی دشمنوں کی آنکھیں بھی کھل جانا چاہیے ۔ امریکی صدر اور اس جیسے کچھ دیگر افراد ، لگاتار ایرانی عوام کی حمایت کی رٹ لگائے ہوئے تھے " کہ ہم ایرانی عوام کے طرفدار ہیں " ۔ " ایرانی عوام، اسلامی جمہوری نظام کے مخالف ہیں '' ۔ وہ باربار ان بے بنیاد باتوں کو دہرا رہے تھے ۔ معلوم نہیں کہ جب ا نہوں نے بائیس بھمن ( گیارہ فروری ) کے دن ، ایرانی عوام کی عظيم ریلیوں کو سڑکوں پر دیکھا ہو گا تو ان کا کیا حشر ہوا ہو گا ؟ کیا اس سےبھی بڑھ کر ان کی رسوائی کا تصوّر کیا جاسکتا ہے ؟ یہ دشمن کی بہت بڑی ذلت و رسوائی تھی ۔ ملک کے اندر بھی بعض لوگ غفلت ونادانی کی بنا پر اور بعض لوگ دشمنی اور خصومت کی بنیاد پر جمہوری اسلامی کے نظام اور اس کے بنیادی اصولوں کے خلاف مسلسل بیان بازی کر رہے تھے ؛  عوام، عوام کی رٹ لگائے ہوئے تھے ! اچّھا اگر یہی بات ہے تو بائیس بھمن کے دن ، ایرانی عوام نے سب پر ظاہر کر دیا کہ وہ کس طرف ہیں ، کیا چاہتے ہیں ، ان کا مطالبہ کیا ہے ۔ یہ لوگ ان توہمات کی وجہ سے فریب میں آگئے تھے جو ان کے اندر پھیلائے گئے تھےاور اپنے خیال خام اور تجاہل عارفانہ کی بنا پر یہ سوچ بیٹھے تھے کہ عوام ، انقلاب اسلامی اور امام امت (رہ) سے منحرف ہو گئے ہیں ۔بائیس بھمن کے دن ،عوام کی بصیرت اور آگاہی ، ان کے جذبہ ایمانی اور عزم و حوصلے اور اس توفیق الٰہی نے جو ایرانی عوام کے شامل حال ہوئی ،  ان افراد کو دندان شکن جواب دیا ۔

غیر ملکی عناصر بھی غلط فہمی اور توہّم کا شکار ہیں ۔ الفاظ کو ان کے غیر حقیقی معنیٰ میں استعمال کیا جارہا ہے ۔ چند تسلّط پسند ممالک کے سربراہ سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام  کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ عالمی برادری ، جمہوری اسلامی کی مخالف ہے ۔ وہ کس عالمی برادری کی بات کرتے ہیں ؟ کون سی عالمی برادری ، اسلامی جمہوریہ ایران کی مخالف ہے ؟ در حقیقت  یہ چار ، پانچ تسّلط پسند اور منہ زور حکومتیں جو اپنے عوام کو بھی ایک آنکھ نہیں بھاتیں ، یہ اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ ایران کی مخالف ہیں  ۔وہ نظام جو صیہونی کمپنیوں کے  پنجوں میں ہیں ، عالمی تسلط پسند طاقتوں کے پنچوں میں اسیر ہیں ، وہ البتّہ اسلامی جمہوریہ ایران کے مخالف ہیں ، اور انہیں مخالف ہونا بھی چاہیے چونکہ اس اسلامی نظام نے دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کا نعرہ بلند کیا ہے ۔ جس دن ظلم و ناانصافی کی بنیاد پر قائم یہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام ہماری تعریف کرے اور ہماری مخالفت نہ کرے ہمیں اس دن کو یوم عزا کے طور پر منانا چاہیے ۔

جی ہاں ، چند سامراجی اور تسلّط پسند حکومتیں ، جمہوری اسلامی کی مخالف ہیں ؛ لیکن عالمی برادری ، ہر گز ، جمہوری اسلامی کی مخالف نہیں ہے ۔ عالمی برادری سے مراد مختلف قومیں ہیں ، عالمی برادری سے مراد وہ حکومتیں ہیں جو خود بھی ان سامراجی طاقتوں سے بیزار ہیں لیکن عام طور سے ان میں  اس ناراضگی کو ظاہر کرنےاور ان  کی چودھراہٹ پر اعتراض کرنے کی  جرأت وجسارت نہیں پائی جاتی، لیکن ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ حکومتیں ان کے رویّے سے نالاں ہیں ۔ان کی گفتگو اور اظہار خیال سے یہ بات بالکل عیاں ہے ، وہ ہم سے اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں ؛ لیکن کھلم کھلا اپنے اعتراض کو بیان کرنے کی جرأت نہیں رکھتے ، وہ ڈرتے ہیں لیکن ہم کسی سے خائف وہراساں نہیں ہیں ۔ ہم اپنے دل کی بات کو کھلے عام  بیان کرتے ہیں ، حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری بات ، بہت سی قوموں اور حکومتوں کے دل کی  بات ہے ۔  ہم استکبار اور سامراج کے مخالف ہیں ، ہم تسلّط پسندی کے مخالف ہیں ، ہم پوری دنیا کی تقدیر پر چند ممالک کی اجارہ داری کے سخت مخالف ہیں اور ہم اس کا مقابلہ کریں گے اور ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ یہ چند تسّط پسند ممالک ، پوری دنیا کی تقدیر سے کھلواڑ کریں ۔ہماری اسی پالیسی کی وجہ سے یہ حکومتیں ہماری مخالف ہیں لیکن بظاہر کبھی ، ہمارے ایٹمی مسئلہ کو بہانہ بناتے ہیں تو کبھی انسانی حقوق اور جمہوریت کا بہانہ بناتی ہیں ؛ آج پوری دنیا کو معلوم ہے کہ وہ جھوٹ سے کام لے رہے ہیں ، یہ بہانے محض ایک فریب ، ریاکاری اور دکھاوا ہیں ۔

انہوں نے اپنے کارندوں کو اس خطے میں دوبارہ اس مشن پر  بھیجا ہے کہ وہ خلیج فارس کے گرد و نواح کا چکّر لگائیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف دوبارہ انہیں جھوٹی اور بے بنیاد باتوں کو دہرائیں : کہ ایران ، ایٹم بم بنانے  کے لئے کوشاں ہے ! تمہارے ان بے بنیاد دعوؤں کا یقین کون کرے گا ؟ کون اس بات کا اعتبار کرے گا کہ تمہیں اس خطے کی قوموں کی مصلحت اور منفعت کی فکر لاحق ہے ؟ تمہیں ہو کہ جہاں تک تمہیں رسائی حاصل ہوئی اور اجازت ملی  تم نے اس خطے کی قوموں کو  اپنے ناجائز مقاصد تلے پائمال کیا۔ خلیج فارس کو ہتھیاروں کے گودام میں تبدیل کر دیا ۔ یہ امریکیوں کے سیاہ کارنامے ہیں ۔ وہ خلیج فارس کے ممالک کی دولت اور سرمایے کو چوس رہا ہے اور اس کے بجائے ان ممالک کو اپنے اسلحے کے گودام میں تبدیل کر رہا ہے ۔ تم جنگ طلب ہو ، تم نے عراق پر حملہ کیا ، تم نے افغانستان کو ویران کردیا ۔ تم ، پاکستان کی جان لینے کے درپے ہو اور تمہیں جہاں کہیں بھی موقع ملے گا اسی سفاکیت اور بربریت کا مظاہرہ کرو گے ۔ اس کے باوجود ، اس خطے میں جمہوری اسلامی کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے میں مشغول ہو ؟ اس خطے کی سبھی قومیں جانتی ہیں اور اس خطے کی اکثر حکومتوں کو بھی اس بات کا علم ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ، امن وصلح کا حامی ہے ۔ برادری اور بھائی چارے کا طرفدار ہے۔ اس خطے کے ممالک کی عزت کاطرفدار ہے ۔ اسلامی ممالک کی عزّت و اقتدار کا حامی ہے ۔ یہ لوگ پھیری لگانے والوں کی طرح نکل پڑے ہیں !ان کا یہ اقدام ان کی بے بسی اور زبوں حالی کا غماز ہے ۔ تیس سال سے مسلسل اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اور تیس سال سی ہی لگاتار شکست کھا رہے ہیں ، اس سال اسلامی جمہوریہ ایران نے استکبار کے محاذ کے خلاف اپنی لگاتار فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا اور استکبار کے محاذ کی پے در پے شکستوں کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔

             صدارتی الیکشن کے انعقاد کے بعد رونما ہونے والے واقعات کی وجہ سے کچھ افراد نے اپنی نادانی اور حماقت کی بنا پر ، غلط حساب و کتاب کر رکھا تھا ، دشمن نے ان واقعات کی آڑ میں جمہوری اسلامی کو کمزور کرنے کی تابڑتوڑ کوششیں کیں ، لیکن ان کا نتیجہ الٹا ہی نکلا ، اور یہ واقعات ، جمہوری اسلامی کی طاقت اور قوّت کا سبب بن گئے ۔ ان واقعات کے رونما ہونے سے پہلے ، کسی بھی شخص کو یہ ثابت کرنے کے لئے  کہ دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے، دلیل و استدلال کا سہارا لینا پڑتا تھا ، لیکن ان حوادث کے بعد ، لوگوں نے اپنی آنکھوں سے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ واقعا ، دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے ۔ اور ایرانی قوم کا امتیاز یہ ہے کہ جب وہ یہ دیکھتی ہے کہ دشمن ،گھات لگائے ہوئے موقع کی تلاش میں ہے تو اسے امان نہیں دیتی اور فورا میدان میں کود پڑتی ہے ،اس کے بعد بھی انشاء اللہ پروردگار عالم کی توفیق اور مدد کے زیر سایہ اس قوم کی ہر فرد ، انتہائی سنجیدگی سے دشمنوں پر نظر رکھے گی اور پہلے کے مقابلے میں زیادہ جوش و خروش سے اس راستے پر گامزن رہے گی ؛  علم و صنعت ، مختلف ادارات ، تجارت ،کارخانوں اور دیگر جگہوں پر ہمیں انتہائی محنت اور لگن سے کام کرنا چاہئیے ۔

اس عظیم اور حیرت انگیز  عوامی تحریک  کے مقابلے میں ہمارے ملک کے حکام ، تینوں قوا ( عدلیہ ، پارلیمنٹ اور حکومت ) کے اہلکاروں کی ذمّہ داری بہت بڑھ گئی ہے ، ہمارے عوام ، اپنے ملک ، اپنے انقلاب اور اپنی اقدار کی حفاظت کے لئے جان بکف ، میدان میں حاضر ہیں ۔ اس معاشرے کے خادموں کو اس قوم کے مقابلے میں نہایت خاکساری اور تواضع کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فرائض منصبی کوانجام دینا چاہیے ۔ عوام کی خدمت کے جذبے سے کام کریں ۔ ملک میں مشکلات ہیں ، مسائل ہیں لیکن کوئی بھی مشکل اور کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہے جو جذبہ ایمان پر استوار ، عزم وارادے کے طفیل میں حل نہ ہوسکتا ہو ۔ انشاء اللہ ملک کے تینوں قوا کے سربراہان اور ملکی عوام ان مشکلات کے ازالے میں ہر کوئی اپنا کردار ادا کرے گا اور ان مشکلات کا ازالہ کریں گے ۔

سبھی اس بات کو جان لیں کہ ایرانی قوم کا مستقبل ایک درخشاں و تابناک مستقبل ہے ، اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ اس قوم نے اپنے اہداف و مقاصد کی سربلندیوں کو سر کرنے کا پختہ عزم کر رکھا ہے اور وہ انشاء اللہ انہیں سر کر کے دم لے گی ، ایرانی قوم نہ صرف ، امت مسلمہ کے لئے بلکہ دیگر اقوام کے لئے بھی نمونہ عمل قرار پائے گی اور دنیا کو دکھا دے گی عزّت اور عظمت کا راستہ کہاں سے گزرتا ہے ۔

ہم خداوندمتعال کی بارگاہ میں دست بدعا ہیں کہ وہ اہل تبریز، اور صوبہ آذربائیجان کے عوام کو اپنے لطف و کرم اور نصرت سے نوازے ۔ اور امام زمانہ ( عج ) کے قلب مقد س کو ہم سب سے راضی و خوشنود فرمائے ، ہم سب کو ان کی دعاؤں میں شریک کرے اور امام امت(رہ) اور شہداکی روحوں کو ہم سے راضی فرمائے ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱،۲ ) سورہ فتح :  آیت ۱۰

(۳) سورہ ابراھیم : آیت ۲۴ ، ۲۵

(۴ ) سورہ انفال : آیت ۶۳