بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
انقلاب اسلامی کے جہاد و ایثار کے محاذوں میں سے ایک بہت اہم محاذ کے جانباز کمانڈروں ، آفیسروں اور جانثار افراد کو بہت خوش آمدید کہتا ہوں !انیس بہمن کا دن ، انقلاب کی تاریخ کا ایک انتہائی اہم دن ہے ۔ اس عظیم واقعہ میں ( جسے آپ میں سے اکثر جوانوں نے سن رکھا ہے اور ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ) اخلاص اور خدائی جذبے کے سوا کوئی بھی دوسرا جذبہ کار فرما نہیں تھا ؛ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں بھی اس واقعہ نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا اور تاریخ کےصفحات میں بھی ہیمشہ کے لئیے محفوظ ہو گیا ۔ ہر اس کام میں یہ خصوصیت جلوہ نما ہوتی ہے جو خدا کے لئیے اور جذبہ اخلاص کے تحت انجام پاتا ہے کہ وہ باقی رہتا ہے اور اثر انداز ہوتا ہے ۔ اس کی تاثیر اس کے زمان وقوع تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کا اثر دائمی اور ہمیشگی ہوتا ہے ۔ وہ کام جو خوشنودی پروردگار کے لئیے انجام پاتا ہے اس میں یہی خصوصیت موجزن ہوتی ہے۔ اس دن جب ایرانی فضائیہ کے جوان مدرسہ علوی میں حاضر ہوئے اور انہوں نے امام (رہ)کی بیعت کی اور ایک عظیم سیاسی محاذ کو توڑا ، اس دن نہ تو کوئی مقام اور پوسٹ ، اور نہ پیسہ اوردولت ہی ان کے پیش نظر تھی ، یہانتک کہ ان کی حوصلہ افزائی بھی متوقّع نہیں تھی ؛ انہیں خطروں اور دھمکیوں کا سامنا تھا ۔ پس اس واقعہ میں جذبہ الٰہی کے سوا کوئی دوسرا جذبہ کارفرما نہیں تھا ۔ اس دن بھی اس واقعہ نے اپنا نقش چھوڑا اور تیس برس گزرنے کے بعد بھی یہ واقعہ اسی طریقے سے اثرانداز ہے ۔
یہ ایام ، ماہ صفر کے آخری ایام ہیں ؛ چہلم امام حسین علیہ السّلام کے بعد کے ایام ہیں ۔ اگر ہم صدر اسلام کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں یہ ایام ،عقیلہ بنی ھاشم جناب زینب سلام اللہ علیہا سے منسوب نظر آئیں گے ۔ جناب زینب سلام اللہ علیہا نے جو کارنامہ سرانجام دیا اس میں بھی یہی خصوصیت جلوہ گر تھی؛ تاریخ اسلام کی اس بے مثال خاتون نے صرف رضائےالٰہی کی خاطر بے پناہ مصائب وآلام اور مشکلات کی فضا میں یہ کارنامہ انجام دیا ؛ حضرت زینب سلام اللہ کے مصمم چہرے پر دین اسلام کے خدائی اور معنوی رخ کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ تاریخ کے دامن میں نہ جانے کتنے ہی ایسے سنہرے اوراق ہیں جو آج بھی مشعل راہ ہیں اور رہتی دنیا تک معرفت ، فکر ونظر کا سرچشمہ قرار پائیں گے۔
عقیلہ بنی ھاشم جناب زینب سلام اللہ علیہا ، سفر کربلا پر روانگی کے وقت ، امام حسین علیہ السّلام کے ہمراہ ، واقعہ عاشور کے دن ، ان بے پناہ مصائب و آلام میں ، اور حضرت امام حسین بن علی علیہما السّلام کی شہادت کے بعد رونما ہونے والے واقعات میں ،بے پناہ بچوں اور خواتین کی سرپرستی کے ذریعہ ، ولی خدا کے طور پر تاریخ اسلام کے افق پر اس طرح نمودار اور ضو فشاں ہوئیں کہ تاریخ میں جس کی نظیر نہیں ملتی ۔ اس کے بعد شام و کوفہ میں پے در پے پیش آنے والے دیگر واقعات میں اور اسیری کے دور میں حضرت زینب (س) نے بے مثال کارنامہ انجام دیا ۔ یہ ایام اگرچہ واقعہ کربلا کی کڑی کے آخری ایام ہیں لیکن یہ ایام ، اسلامی تحریک اور اس کے طرز تفکّر اور اسلامی سماج کی پیشرفت کا نقطہ آغاز ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے ایثار و جہاد کو، پروردگار عالم کے نزدیک وہ مقام حاصل ہے جو ہمارے فہم و ادراک سے بالا ہے ، جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔
آپ ملاحظہ کیجئیے! کہ پروردگار عالم نے قرآن مجید میں ، ایمان کے ایک مکمل نمونے کے طور پرصنف نازک سے تعلّق رکھنے والی دو ہستیوں کو پیش کیا ہے ، اسی طرح " کفر" کے نمونے کے طور پر بھی دو عورتوں کی مثال پیش کی ہے۔»
"ضرب اللہ مثلا للذین کفروا امرأت نوح و امرأت لوط کانتا تحت عبدین من عبادنا "(۱)(خدانے کفر اختیار کرنے والوں کے لئیے زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال بیان کی ہے کہ یہ دونوں ہمارے نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں )اس آیت میں دو ایسی عورتوں کا ذکرہے جو کفر کا نمونہ ہیں ۔خداوند متعال ، مردوں میں سے کسی کی مثال پیش نہیں کرتا ، بلکہ ایمان اور کفر دونوں کے سلسلے میں ، عورتوں کو مثال کے عنوان سے پیش کرتا ہے ۔ " و ضرب اللہ مثلا للذین آمنوا امرأت فرعون " ؛ (۲) ایمان کے نمونہ کامل کے طور پر دو خواتین کی مثال بیان کرتا ہے ، ایک فرعون کی بیوی جناب آسیہ ہیں اور دوسری مثال جناب مریم کبریٰ ہیں " و مریم ابنت عمران " ۔
اگرہم حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور فرعون کی زوجہ جناب آسیہ کا ایک مختصر موازنہ کریں تو ہمیں جناب زینب سلام اللہ علیہا کے مرتبے کی عظمت کا اندازہ ہوگا ۔ قرآن مجید میں رہتی دنیا کے مرد و زن کے لئیے فرعون کی زوجہ جناب آسیہ کو " ایمان " کے نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔زوجہ فرعون ،حضرت موسیٰ پر ایمان لائی تھی اور ان کی تعلیمات اور ہدایت کی شیفتہ تھی ۔ لیکن جب اس مؤمنہ کا، فرعونی شکنجے اور جسمانی آزار و اذیت سے سامنا ہوا ، جیسا کہ تاریخ اور روایات میں وارد ہوا ہے کہ اسی شکنجے کی وجہ اس مؤمنہ کا انتقال ہوا ، تو اس مؤمنہ کی چیخ نکل گئی ، اس نے پروردگار عالم کی بارگاہ میں درخواست کی " اذ قالت ربّ ابن لی عندک بیتا فی الجنّۃ و نجّنی من فرعون و عملہ " ؛ کہ خدایا ! میرے لئیے اپنے پاس جنّت میں ایک مکان بنا اور مجھے فرعون اور اس کے اعمال سے نجات دے ۔ اس درخواست کے ذریعہ ، زوجہ فرعون ، پروردگار عالم سے اپنی موت کی دعا مانگ رہی تھی ،وہ اس دنیا میں مزید زندہ نہیں رہنا چاہتی تھی " نجّنی من فرعون و عملہ " مجھے فرعون اور اس کے گمراہ کن عمل سے نجات دے ۔ حالانکہ جناب آسیہ کو صرف جسمانی شکنجے کا سامنا تھا ، ان کا دردورنج ، صرف جسمانی درد تک محدود تھا ، لیکن انہوں نے جناب زینب (س) کی طرح کئی بھائیوں ، دو بیٹوں ، اور متعدد اعزاء و اقارب ،کئے بھتیجوں اور بھانجوں کاصدمہ برداشت نہیں کیاتھا اور ان کی آنکھوں کے سامنے ان لوگوں نے مقتل کا رخ نہیں کیا تھا ۔ وہ مصائب و آلام جو حضرت زینب (س) نے برداشت کئیے حضرت آسیہ نے وہ مصائب ہر گز برداشت نہیں کئیے ۔روز عاشور جناب زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے تمام اعزّاء واقارب ، سیدالشّہداء حضرت امام حسین بن علی ، حضرت عباس، حضرت علی اکبر ، حضرت قاسم اور اپنے جگر کے ٹکڑوں اور بھائیوں کومقتل کی طرف جاتے ہوئے اور خاک و خوں میں غلطاں ہوتے ہوئے دیکھا ۔ ان عزیزوں کی شہادت کے بعد ، بے پناہ مصائب و آلام کا سامنا کیا ، خیموں پر دشمن کی سپاہ کے ہجوم کو دیکھا ، اہل حرم کی چادروں کو چھنتے ہوئے دیکھا ، بے سہارا بچوں اور خواتین کی حفاظت کی ذمّہ داری نبھائی ۔ کیا زوجہ فرعون کے جسمانی شکنجے کا موازنہ ان مصائب و آلام سے کیا جاسکتا ہے ؟ ان عظیم مصائب کے مقابلے میں ، جناب زینب سلام اللہ علیہا نے پروردگار عالم کی بارگاہ میں یہ درخواست نہیں کی : " رب نجنی " ؛ پروردگارا! مجھے نجات دے ۔ بلکہ روز عاشور جب آپ نے اپنے بھائی کے پارہ پارہ بدن کو دیکھا تو فورا بارگاہ الٰہی میں ہاتھ اٹھا دئیے اور فرمایا :" خدایا ! اس قربانی کو ہم سے قبول فرما ۔ جب آپ سے واقعہ کربلا کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو آپ فرماتی ہیں " ما رایت الا جمیلا " (۳) میں نے نیکی اور خیر کے سوا کچھ نہیں دیکھا ۔ یہ مصائب کے پہاڑ جناب زینب سلام اللہ علیہا کی نظروں میں خیر ہیں ؛ چونکہ یہ مصائب ، خدا کی طرف سے ، اس کی راہ میں اور اس کی مرضی کے حصول کے لئیے برداشت کئیے گئیے ہیں ۔آپ ملاحظہ کیجئیے ! کہ یہ وسعت قلبی ، حق و حقیقت کی یہ شیفتگی ، زوجہ فرعون جناب آسیہ کے مرتبے و مقام سے کس قدر مختلف ہے جو قرآن مجید نے اس کے بارے میں نقل کیا ہے ۔ اس سے جناب زینب سلام اللہ علیہا کے مرتبہ و مقام کی عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ جو کام مرضی معبود کے حصول کے لئیے انجام دیا جاتا ہے اس میں یہی خصوصیت جلوہ گر ہوتی ہے ، یہی وجہ ہےکہ جناب زینب (س)کا اسم گرامی اور آپ کا یہ کارنامہ ، نمونہ عمل ہے اور ہمیشہ کے لئیے باقی ہے ۔ دین اسلام کی بقا ، راہ خدا کی بقا، اس راستے پر بندگان خدا کا چلنا ، یہ سبھی چیزیں ، حضرت امام حسین بن علی (علیہما السّلام ) اور عقیلہ بنی ہاشم جناب زینب (س) کے بے مثال کارنامے کی مرہون منّت ہیں۔ آج اگر آپ دنیا میں دینی اقدار کا بول بالا دیکھ رہے ہیں تو یہ انہیں ہستیوں کے صبر و ایثار اور جذبہ شہادت کا نتیجہ ہے ۔ مختلف مکاتب فکر میں جو بھی انسانی اقدار پائی جاتی ہیں ان کا سرچشمہ " دین " ہے ، وہ دین پر استوار ہیں ۔ وہ کام جو مرضی معبود کے لئیے انجام پاتا ہے اس میں یہی خصوصیت جلوہ گر ہوا کرتی ہے ۔ ہمارا انقلاب بھی ایک ایسے ہی عمل کا مصداق اتم تھا ؛ یہی وجہ ہےکہ یہ انقلاب باقی رہا ، اس میں حقیقی اور معنوی اقتدار و ثبات پیدا ہوا، اسے دوام و استحکام حاصل ہوا ۔ یہ انقلاب ، مرضی خدا کے حصول کے لئیے معرض وجود میں آیا ۔ جس دن یہ انقلاب آغاز ہوا ، یہ تحریک شروع ہوئی ، یہ کوئی کسی سیاسی پارٹی کی تحریک نہیں تھی ، دنیا کی مختلف سیاسی پارٹیوں کی طرح کی کوئی تحریک نہیں تھی جو عام طور سے اقتدار کے حصول کے لئیے معرض وجود میں آتی ہیں ؛ یہ ایک مظلومانہ تحریک تھی ؛معاشرے میں احکام خداوندی کا نفاذ، اسلامی معاشرے کا قیام ،سماج میں عدل و انصاف کا قیام یہ وہ اہداف و مقاصد تھے جو اس تحریک کے مد نظر تھے ۔ یہ ان افرادکی پر خلوص نیّتوں کا ثمرہ ہے جنہوں نے اپنے ایثار و قربانی کے ذریعہ اس انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا ، اس کے دوام و ثبات کے لئیے بے پناہ استقامت کا مظاہرہ کیا ۔آپ کے شہداء ، ایران کی فضائی فوج کے شہداء میں یہی خصوصیت موجزن تھی ۔ وہ لوگ جو خوشنودی پروردگار کی راہ میں قدم اٹھاتے ہیں ، اور اس کی رضا کے حصول کے لئیے جد و جہد کرتے ہیں ، پروردگار عالم بھی ان کے کام میں برکت عطا کرتا ہے ۔ یہ وہ نکتہ ہے جس کے ادراک سے ہمارا دشمن عاجز ہے ۔ یہی وہ مسئلہ ہے جسے عالمی سامراج اور صیہونی مشینری نہیں سمجھ پا رہی ہے ۔ وہ اس حقیقت کے ادراک سے عاجز ہیں چونکہ اس عمارت کی بنیاد رضائے الٰہی پر استوار ہے ،اخلاص اور جذبہ ایثار وجہاد پر قائم ہے اس لئیے یہ عمارت اتنی مضبوط و مستحکم ہے ۔یہی وجہ ہے یہ انقلاب اور اسلامی نظام ، دلوں پر حکمرانی کر رہا ہے ، آپ ملاحظہ کیجئیے کہ عصر حاضر میں کئی ہزار تشہیراتی ادارے، ریڈیو اور ٹیلیویژن، اور دیگر ذرائع ابلاغ ، موجودہ دور کی ماڈرن پر وپیگنڈہ مشینری کو اس نظام کے خلاف استعمال کر رہے ہیں ۔دشمن کے سینکڑوں ماہرین و مفکرین کمروں میں بیٹھے ہوئے اس کے خلاف منصوبہ بندی کر رہے ہیں ، اور آئے دن ایک نیا نعرہ ، ایک نئی سازش ، ایک جدید حربہ اختیار کر رہے ہیں اس کے باوجود اس انقلاب اور نظام کا بال بھی بیکا نہیں کر پارہے ہیں ۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس عمارت کی مضبوطی اور استحکام کا راز یہ ہے کہ یہ عمارت ، پروردگار عالم پر پختہ ایمان کی بنیاد پر استوار ہے ۔جو لوگ اس راہ پر گامزن رہے ہیں انہوں نے خدائی کام انجام دیا ہے ۔
یہ نظام، دنیا کے دیگر نظاموں جیسا نہیں ہے ۔ دنیا میں کوئی بھی ایسا نظام نہیں ہے جس کے خلاف اس قدر پروپیگنڈہ کیا جارہا ہو ، سیاسی چالیں چلی جا رہی ہوں ، اقتصادی دباؤ ڈالا جا رہا ہو ، اس کے خلاف پابندیاں عائد کی جا رہی ہوں ، اس کے با وجود وہ ایک مضبوط چٹان کی طرح کھڑا ہو ؛ دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ لیکن اسلامی جمہوریہ ایران ان مشکلات کا ڈٹ کر سامنا کر رہا ہے اور اس کے بعد بھی ان کا مقابلہ کرے گا ؛ یہ بات سبھی لوگ کان کھول کر اچھی طرح سن لیں کہ نہ تو امریکہ ، اور نہ ہی صیہونی لابی ، اور نہ ہی دیگر تسلط پسند اور منہ زور طاقتیں، اپنے سیاسی حربوں ، اقتصادی پابندیوں ، الزام تراشیوں اور اپنے داخلی شر پسند عناصر کو اکسا کر ، الغرض کسی بھی طریقے سے اس انقلاب کے پائے ثبات میں لغزش نہیں پیدا کر سکتے ۔
اس انقلاب کی بقا کا راز ، خداوند متعال پر پختہ ایمان اور اس پر مکمل بھروسے میں مضمر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ملاحظہ کرتے ہیں کہ جس دن بھی ایرانی عوام کو یہ احساس ہو جائے کہ اسلامی انقلاب کو کوئی خطرہ درپیش ہے ، کوئی اس سے سنجیدہ دشمنی پر اتر آیا ہے تو اس دن وہ کسی کی دعوت کے بغیر ہی ، رضاکارانہ طور پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں ۔اس سال نو دی کے دن آپ نے مشاہدہ کیا کہ اس ملک میں کیا واقعہ رونما ہوا۔ ہمارے دشمنوں کا ہمیشہ سے ہی یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ ہماری تحقیر و تذلیل کی خاطر کروڑوں افراد پر مشتمل عوامی مظاہروں کو چھوٹا کر کے چند ہزار کی ریلیاں ظاہر کریں ، لیکن اس مرتبہ وہ بھی ان ریلیوں کی عظمت کا اعتراف کر نے پر مجبور ہو گئے ۔ اور انہوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ گزشتہ بیس برس کے دوران ، ایران میں اتنے بڑے پیمانے پر کوئی ریلی نہیں نکالی گئی ؛ وہ لوگ جو ہمیشہ ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے حقایق پر پردہ ڈالنے کے لئیے کوشاں رہتے ہیں انہوں نے زبان سے بھی اس کا اظہار کیا اور لکھا بھی ۔اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایرانی عوام ، اپنے دشمن کو اسلامی نظام کے مد مقابل صف آرا دیکھتے ہیں تو میدان میں کود پڑتے ہیں ۔ یہ ایک ایمانی تحریک ہے ، یہ اس نظام سے عوام کے والہانہ قلبی لگاؤ کا ثمرہے ۔ یہ وہ چیز ہے جس کے پس پردہ ، خدائی جذبہ کارفرما ہے ، جس کے پیچھے خدا کادست قدرت ہے ؛ یہ چیزیں میرے اور آپ کے بس میں نہیں ہیں ۔ دلوں کا اختیار پروردگار عالم کے ہاتھ میں ہے ۔ تمام ارادوں پر خداوند متعال کا ارادہ غالب ہے ۔ جب کسی اقدام پر خلوص حاکم ہو اور اسے مرضی معبود کے لئیے اٹھایا جائے تو خداوند متعال اس طریقے سے اس کا دفاع کرتا ہے ۔ ارشاد ربّ العزت ہے " انّ اللہ یدافع عن الّذین آمنوا " (۴) ۔ اس نظام کے دشمن اس حقیقت کے ادراک سے عاجز ہیں۔ وہ آج تک اس حقیقت کو نہیں سمجھ پائے ہیں ؛ اس وجہ سے کبھی پابندی لگاتے ہیں تو کبھی دھمکی دیتے ہیں اور مختلف طریقوں سے اسلامی جمہوریہ ایران کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں ۔ وہ اپنے خیال خام میں اسلامی نظام کی خامیوں کی تلاش میں ہیں ؛ کبھی انسانی حقوق کی دہائی دیتے ہیں اور کبھی جمہوریت کا نام لیتے ہیں ؛ عالمی رائے عامہ کے لئیے یہ حیلے محض ایک مذاق بن کر رہ گئے ہیں ۔ عالمی رائے عامہ کی بات کرتے ہیں ؛ لیکن اگر عالمی رائے عامہ کو امریکہ اور صیہونی لابی کی باتوں کا ذرہ برابر بھی یقین ہوتا تو مختلف مواقع پر ، مختلف ممالک اور مختلف قومیں ، عالمی سامراج اور اس کے سرغنوں کے خلاف اس قدر نفرت و بیزاری کا اظہار نہ کرتیں ، آپ ملاحظہ کر رہے ہیں کہ اقوام عالم ان کے کرتوتوں سے بیزار ہیں ۔ یہ جہاں کہیں بھی جاتے ہیں کچھ لوگ ان کی مخالفت میں نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں، اس سے صاف ظاہر ہے کہ عالمی رائے عامہ ان کے حربوں اور حیلوں کے جھانسے میں آنے والی نہیں ہے ۔ وہ لوگ جو انسانی حقوق کی پاسداری کا کھوکھلا نعرہ لگاتے ہیں وہ اپنی جیلوں، پوری دنیا ، یہانتک کہ خود اپنی قوم کے سلسلے میں بھی، انسانوں کے سب سے بنیادی مسائل کی رعایت نہیں کرتے ، وہ اپنی قوم کے بنیادی حقوق کو پائمال کر رہے ہیں ! اس کے باوجود انسانی حقوق کا راگ الاپتے ہیں ! وہ جیلوں میں شکنجے اور ایذارسانی کو قانونی شکل دیتے ہیں ! کیا یہ کسی ملک کے لئیےشرم کی بات نہیں ہے ؟ کہ وہاں قیدیوں کے شکنجہ کو قانونی شکل حاصل ہو؟اس کے بعد بھی یہ لوگ انسانی حقوق کی پاسداری کا دم بھرتے ہیں ، انسان کی حرمت و کرامت کے دفاع کا دم بھرتے ہیں ! ناظرین و سامعین جب ان کی باتوں اور دعوؤں کو دیکھتے اور سنتے ہیں اور ان کے دعوؤں کا موازنہ ان کے کردار و عمل سے کرتے ہیں تو ان کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ آج کی دنیا میں کون ان کی باتوں کا یقین کرتا ہے ؟ ایک طرف جمہوریت کا دم بھرتے ہیں تو دوسری طرف دنیا اور ہمارے خطے کی سب سے زیادہ مطلق العنان ، ڈکٹیٹر اور رجعت پسند حکومتوں سے عقد اخوّت پڑھتے ہیں ! آج مشرق وسطیٰ میں کون سی حکومتوں کے امریکہ سے زیادہ تعلّقات ہیں ؟ شمالی افریقہ پر نظر دوڑائیے ، وہاں کون سی حکومتوں کے امریکہ سے تعلّقات ہیں ؟ کیا ان سے بڑھ کر بھی کسی مطلق العنانیت کا تصوّر کیا جاسکتا ہے ؟ جمہوریت کا دم بھرتے ہیں اوراس کو بہانہ بنا کر اسلامی جمہوریہ ایران سے الجھتے ہیں جس نے جمہوریت کی تاریخ میں ایک درخشان باب رقم کیا ہے ، جس نے پچاسی فیصد رائے دہندگان کو پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچایا ہے ! یہ مذاق ہے ؛ سبھی لوگ اس سے اچھی طرح واقف ہیں ۔وہ لوگ جو اس کی حقیقت سے آگاہ ہیں وہ امریکہ کے اس رویّے کا مذاق اڑا رہے ہیں ۔
ایرانی قوم ایک ہوشیار و بیدار اور تجربہ کار قوم ہے ۔ یہ ماجراکوئی آج کا نہیں ہے ۔ عزیز بھائیو! آپ میں سے کچھ لوگوں کو یاد ہوگا ،اور ہمارے جوان بھی جان لیں ، کہ سامراجی مشینری اور ایرانی قوم کے درمیان یہ کشمکش گذشتہ اکتیس بر س سے مسلسل جاری ہے ۔ یہ واقعات ،عصر حاضر تک محدود نہیں ہیں ؛ یہ دھمکیاں ہمیشہ ہی سے شکست سے دوچار ہوئی ہیں ، ان کی پابندیاں ، الزام تراشیاں اور تہمتیں ہمیشہ ہی ناکام ہوئی ہیں ۔اور اسلامی جمہوریہ ایران نےاس تشہیراتی یلغار اور پروپیگنڈوں کی بمباری کے درمیان اس قدر ترقّی کی ہے ۔ آپ کی موجودہ فضائی طاقت کا موازنہ ، اول انقلاب کی فوجی طاقت سے نہیں کیا جاسکتا ۔عصر حاضر میں اس فوج نے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں، اپنی طاقت ، اپنے فوجی ساز وسامان ، اور طرح طرح کی ایجادات میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے ۔ جس کا موازنہ اول انقلاب تو دور کی بات ، بیس سال پہلے سے بھی نہیں کیا جاسکتا ۔
ہم دن بدن آگے بڑھتے رہے ہیں ؛ ملک کے ہر شعبے میں یہی خصوصیت جلوہ نما ہے ۔ آج جو ملک میزائیل ٹیکنالوجی ، ایٹمی توانائی اور لیزر ٹیکنالوجی کے میدان میں اور دیگر شعبوں میں ترقّی کے اس قدر اہم اور عظیم زینے طے کر چکا ہے یہ وہی ملک ہے جو اول انقلاب میں انتہائی معمولی اور سادہ ساز و سامان درآمد کرنے پر مجبور تھا ؛ دوسروں سے قرض لینے پر مجبور تھا ؛ ملک کے بنیادی وسائل کو دوسروں سے خریدتا تھا ، اور وہ لوگ ، ان چیزوں کو ایران کو بیچنے میں آنا کانی کرتے تھے ۔ ایران ان چیزوں کو ان کی حقیقی قیمت سے کئی گنا زیادہ قیمت میں خریدنے پر مجبور تھا ، ایران ، اس دور میں تہی دست اور نادار تھا ۔آج یہ وہی فوج ہے ، یہ وہی مسلح افواج ہیں ، یہ وہی مجموعہ ہے ، یہ وہی فضائی فوج ہے جس نے اتنی زیادہ ترقّی کی ہے اور اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ یہ وہی یونیورسٹی ، سائنس و ٹیکنالوجی ، اور علمی مجموعے ہیں جو آج اس منزل تک پہنچے ہیں ۔ ہم ، ان دشمنیوں ، خصومتوں ، دھمکیوں اور پابندیوں کی بمباری کے زیر سایہ یہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ اس کے باوجود تم ایرانی قوم کو پابندیوں سے ڈراتے ہو ؟ ۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملت ایران اپنے اتحاد و یکجہتی کو محفوظ رکھے ۔ یہ اتحاد اور بھائی چارہ ، دشمنوں کی آنکھ کا کانٹا ہے ۔ وہ اس اتحاد میں رخنہ اندازی کرنا چاہتے ہیں ۔ میری نگاہ میں صدارتی الیکشن کے بعد رونما ہونے والے فتنہ انگیز واقعات کا اصل مقصد ، عوام کی صفوں میں دراڑ ڈالنا تھا ؛ ان کی کوشش یہی تھی ۔ وہ عوام کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے درپے تھے ، وہ ان ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ آج یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ جو لوگ اس قوم کی عظمت، اورالیکشن میں اس کے عظیم کارنامے کے مدمقابل صف آرا تھے وہ اس قوم کا حصّہ نہیں تھے ۔ وہ ایسے لوگ ہیں جو یا تو کھلم کھلا مخالف انقلاب ہیں، یا جہالت اور لجالت کے زیر اثر انقلاب مخالف سرگرمیوں میں ملوّث ہیں ، جن کا عام افراد سے کوئی تعلق نہیں ہے، عام لوگ اپنی راہ پرگامزن ہیں، وہ راہ خدا ، راہ اسلام، راہ جمہوری اسلامی ، احکام الٰہی کے نفاذ اور اسلام کے زیر سایہ ، عزّت و استقلال کے راستے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایرانی قوم کا راستہ یہی ہے ۔ البتّہ کچھ لوگ ابتداء ہی سے اس انقلاب کے مخالف تھے ، کچھ لوگ اول انقلاب سے اس ملک پر ظالمانہ امریکی تسلّط کی واپسی کے خواہاں تھے ، وہ آج بھی اس خواہش کو چھپا نہیں رہے ہیں ۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ یہ نظریہ رکھنے والے کچھ افراد بیرون ملک مقیم ہیں اور کچھ زر خرید عناصر ملک کے اندر بھی پائے جاتے ہیں ۔ان لوگوں کی اولاد آج بھی زندہ ہے جنہیں انقلاب سے ضرب لگی ہے جو طاغوتی حکومت کے زرخرید غلام تھے ۔ ان کے اندر وہی تیس برس پرانا کینہ باقی ہے ۔ اول انقلاب سے ایسے افراد موجود تھے اور آج بھی یہ عناصر پائے جاتے ہیں اور اس کے بعد بھی موجود رہیں گے ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سرے سے ہی اسلام کی حاکمیت اور اسلامی فقہ کے مخالف ہیں یہ لوگ بدرجہ اولیٰ فقیہ کی حاکمیت کے مخالف ہیں ۔ یہ لوگ درحقیقت اسلام کے مخالف ہیں ۔ لیکن یہ کچھ انگشت شمار افراد ہیں ، یہ عظیم قوم ، اسلامی اہداف و مقاصد کے تئیں متفق و متحد ہے ۔ ان کی بات ایک ہے ، ان کے دل ایک ہیں ، اگر چہ ان کی سیاسی وابستگیاں مختلف ہی کیوں نہ ہوں ۔ وہ اس وحدت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ۔ لیکن ہماری قوم ثابت قدم ہے ۔بائیس بھمن (اسلامی انقلاب کی سالگرہ ) کے دن ، یہ عزیز قوم اپنے اتحاد و یکجہتی کے مظاہرے کے ذریعہ ، عالمی سامراج ، امریکہ ، برطانیہ اور صہیونیوں کے منہ پر ایسا بھر پور طمانچہ رسید کر ے گی کہ ماضی کی طرح یہ قوّتیں ایک بار پھر حیرت زدہ رہ جائیں گی ۔
جمہوری اسلامی ، اسلام کے زیر سایہ ، عزّت ، سلامتی ، عدل و انصاف ، اور ایسی جمہوریت کے راستے پر گامزن رہے گی جو اسلامی طرز فکر کی بنیاد پر استوار ہے اور بغیر کسی شک و شبہ اوراحساس تھکاوٹ کے اس راستے کو جاری رکھی گی اور مستقبل کی نسلیں اس کے بارے میں فیصلہ کریں گی ۔ آپ جان لیں کہ ہماری موجودہ جوان نسل اور آئندہ آنے والی نسلیں ، اس قوم کے سامراجی طاقتوں کے ساتھ مقابلے کے بیش بہا تجربات سے بھر پور فائدہ اٹھائیں گی اور سربلندی کے راستے کو جاری رکھیں گی اور اس کی آخری منزل پر پہنچ کر دم لیں گی ۔ ایرانی قوم اس بلندچوٹی کوسر کرنے کی سزاوار ہے ۔ جو قوم ایمان ، خلاقیت ، فکری صلاحیتوں اور انقلاب کی بنیاد پر حاصل ہونے والی آزادی سے سرشار ہوایسی قوم اپنے راستے میں کہیں بھی متوقّف نہیں ہوگی ۔ آپ لوگ وہ دن ضرور دیکھیں گے ۔ آپ ہمت سے کام لیں ، ہر کوئی اپنے شعبے میں ہمّت سے کام لے ، جیسا کہ فضائیہ کے سربراہ کی رپورٹ میں بھی اس کا ذکر تھا کہ فضائی فوج نے مختلف شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں ، ہم بھی ایرانی فضائیہ کی مختلف شعبوں میں پیشرفت سے آگاہ ہیں ؛ لیکن اس کے باوجود موجودہ پوزیشن پر قناعت کر لینا جائز نہیں ہے ۔ موجودہ حالت پر قناعت نہ کیجئیے ، خلاقیت کی دولت سے استفادہ کیجئیے ۔ آپ اس سے کہیں زیادہ کے سزاوار ہیں ، آپ کی قوم کو اس سے کہیں بڑھ کر ، طاقتور فضائیہ کی ضرورت ہے ۔ ایرانی مسلح افواج منجملہ ایرانی فضائیہ کو ملت ایران کی عزّت و استحکام کا مظہر ہونا چاہیے ، ان افواج کو ملت ایران کی استقامت و اقتدار کا آئینہ ہونا چاہئیے ، انشاء اللہ ایسا ہی ہو گا ۔
ہم اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ پروردگار عالم ،اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ اور اس کی مسلح افواج اور دیگر عزیز شہیدوں کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرمائے ۔ اور ہمارے عظیم الشان امام (رہ) کی (یاد ایرانی قوم کے ذہنوں میں دیگر ایام کی نسبت ان ایام میں زیادہ تازہ ہے ) روح کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کرے ،اور امام زمانہ (عج)کے قلب مقدس کو ہم سب سے راضی و خوشنود فرمائے ۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) سورہ تحریم : آیت ۱۰
(۲) سورہ تحریم : آیت ۱۱
(۳)بحارالانوار : جلد ۴۵ صفحہ ۱۱۶
(۴)سورہ حج: آیت ۳۸