ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کی تہران یونیورسٹی کے اساتذہ اوراعلیٰ تعلیم کے وزیر سے ملاقات

                       بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

یہ جلسہ بہت شیرین اور مطلوب جلسہ ہے ، با لخصوص بعض حضرات نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ حقیقت  میں میرے لئیے بہت مفید تھے ؛ خواہ ان کا تعلّق ، انسانی علوم سے ہو یا مختلف مشترکہ علوم سے ، اس کے علاوہ جو دیگر جزئی مسائل بیان کئیے گئے وہ سبھی میرے لئیے مفید تھے ۔ شعبہ زراعت کے متعلّق جن مسائل کو بیان کیا گیا ، اس کے متعلّق جو منصوبہ تیار کیا گیا ہے اسے میرے پاس لائیے تاکہ ہم اس کا مطالعہ  کر سکیں اور اس سے مستفید ہو سکیں ، سائنس و ٹیکنالوجی کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ، تہران یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب ڈاکٹر رہبر نے جو رپورٹ پیش کی وہ بہت مفید تھی اور اس نے ہمارے دل میں امید کی کرن  پیدا کی ہے ۔ اگر اس رپورٹ کو عام لوگوں کے لئیے منتشر کیا جاتا تو  کتنا ہی اچھا ہوتا۔ یہ حقیقت ہے کہ آج ہمارے ملک کے عام لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ  گزشتہ تیس سال میں جمہوری اسلامی نے علم اور سائنس کے فروغ، مختلف یونیورسٹیوں کے قیام ، علمی امور کی پیشرفت ، علمی مقالات اور نئی ایجادات میں کیا کردار ادا کیا ہے ۔ انقلاب کے آغاز سے اس کے مخالفین اور دشمنوں کی طرف سے بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ یہ انقلاب علم کا مخالف ہے ، سائنس کا مخالف ہے ۔ حالانکہ یہ انقلاب ، علم کی بنیاد پر استوار ہے ، ہم اس سلسلے میں چند جملے عرض کریں گے ۔ لہٰذا ان اعداد و شمار کا منتشر ہونا بہت اچھا ہے ۔

 میرے لئیے بھی یہ ایک غنیمت موقع ہے ؛ چونکہ یہ مجمع ایک خاص مجمع ہے ؛ ملک کی ممتاز اور برجستہ یونیورسٹی ( تہران یونیورسٹی ) کی انتظامیہ کے مؤثر اور برجستہ افراد یہاں تشریف فرما ہیں ۔ تہران یونیورسٹی کو حقیقت میں ایران یونیورسٹی کے نام سے پکارا جانا چاہیے چونکہ وہ ہمیشہ ہی دوسری یونیورسٹیوں  کے لئیے الہام بخش اور پیشرو رہی ہے  انشاء اللہ اس کے بعد بھی اپنے کردار کو مزید وسعت دے گی ۔ اس یونیورسٹی کے اساتذہ و حکام یہاں تشریف فرما ہیں ؛ یہ ہمارے لئیے ایک بہت ہی اچھا موقع ہے کہ ہم آپ کی باتیں سنیں اور اپنی باتیں آپ کے سامنے رکھیں۔

جناب ڈاکٹر رہبر کی تجویز کے سلسلے میں بھی ایک جملہ عرض کرتا چلوں ، ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری کا معاملہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے ، یہ اس یونیورسٹی کا میرے  لئے ایک بہت بڑا لطف ہے  ، لیکن مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ؛ عہد جوانی میں  ہم نے جو عہد و پیمان  اپنے پروردگار سے کیا تھا اگر ہم پروردگار عالم کے لطف و کرم کے زیر سایہ  اس عہد و پیمان  کو باقی رکھنے میں کامیاب ہو گئے تو یہی طالب علمی ہمارے لئیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے ، میں اسی کو ترجیح دیتا ہوں ۔ آپ کے لطف کا انتہائی مشکور ہوں اور اسے باعث فخر سمجھتا ہوں لیکن آپ کی تجویز مجھے قبول نہیں ہے ۔ پروردگارعالم آپ کو توفیق و تائید سے نوازے ۔

میں یہاں پر چند مطالب پیش کرنا چاہتا ہوں البتّہ آپ سبھی حضرات ان سے واقف ہیں اور ان مسائل میں صاحب فکر و نظر ہیں ؛ میں بھی سالہا سال سے ان پر زور دیتا آیا ہوں ؛ ہمیں ان مسائل پر اور زیادہ توجّہ دینا چاہیے چونکہ ہم ابھی بھی بہت پیچھے ہیں ۔ ہمیں اپنی پسماندگی کا اعتراف کرنا چاہیے ۔ موجودہ دنیا میں  ہمارے ملک ، ہمارے انقلاب اور جمہوری اسلامی کے نظام کے مسائل اس میں خلاصہ نہیں ہوتے کیونکہ  ہم بھی دنیا کے دیگر سینکڑوں  ممالک اور اقوام کی طرح ایک ملک اور ایک قوم ہیں ۔ اس سے قبل بھی میں نے ایک جلسے میں اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ہمارے ملک کا رقبہ، دنیا کے رقبے کا  ایک فیصد ہے ، ہمارے ملک کی آبادی بھی تقریبا دنیا کی آبادی کا ایک فیصد ہے ؛ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم مختلف مسائل میں ایک فیصد پر قناعت کر لیں ۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داریوں کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کشو ر گشائی یا دیگر ممالک پر قبضے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ اس کا مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں ہے ۔ ایک ایسے شخص کے ذہن میں بھی یہ بات خطور نہیں کر سکتی جو سچا مسلمان ہو کہ وہ دیگر ممالک پر چڑھائی یا قبضے کا تصوّر کرے ، بلکہ مسئلہ ، عالم انسانیت کے بارے میں ہماری ذمّہ داری کا مسئلہ ہے ۔ عالم بشریت ، عصر حاضر میں بہت بڑے بڑے مسائل سے دوچار ہے ، ماضی میں بھی انہیں مسائل میں گرفتار تھا ۔ جس طریقے سے ہم اور آپ پر  اپنے اہل خانہ ، اپنے شہر ، اور اپنے ملک کے بارے میں کچھ مشترکہ ذمّہ داریاں عائد ہوتی ہیں ، اور اگر ہم اپنے ملک کے بارے میں کوئی کام انجام دے سکتے ہوں اور اسے انجام نہ دیں ، تو ہم گناہ گار ہیں ؛ اگر ہم اپنی قوم کے چہرے سے کسی غم کی گرد وغبار  صاف کرنے پر قادر ہوں اور اسے صاف نہ کریں تو ہم گناہ گار ہیں ، عالم انسانیت کا معاملہ بھی یہی ہے ۔ اگر ہم دیکھ رہے ہوں کہ دنیامیں کسی باطل و ناحق سیاسی نظام کے زیر سایہ ، وہاں کے عوام ظلم و ستم کا شکار ہو رہےہیں اور ان کی نجات کے لئیے ایک قدم اٹھا سکتے ہوں لیکن نہ اٹھائیں تو ہم گناہ گار ہیں ۔ اگر ہم دیکھ رہے ہوں کہ دنیا کے لوگ ، بھوک اور  فقر و فاقے سے جاں بلب ہیں   اور ہم ان کی مدد پر قادر ہوتے ہوئے بھی ان کی مدد نہ کریں تو ہم گناہ گار ہیں ۔ ہمیں اس زاویہ فکر سے بشریت اور  عالمی مسائل پر نگاہ ڈالنی چاہیے ۔ اگر یہ بات درست ہے تو ہمیں ایک طاقتور اور بااقتدار ملک کی ضرورت ہے ؛ اس کے لئیے ملک و ملت اورہر شعبے میں ملک  کا مضبوط و قوی ہونا ضروری ہے ۔ اگر ہم قوی نہ ہوں اگر ہمارے اندر اقتدار نہ ہو تو دنیا کی مقتدر طاقتیں ہم پر اثر انداز ہوں گی ، اس صورت میں ہمیں اپنے ہمسایوں اور ہم مسلکوں پر اثر انداز ہونے کا موقع ہی نہیں ملے گا ۔ چہ جائیکہ ہم پورے عالم بشریت پر اپنا نقش چھوڑ سکیں۔ لہٰذا ہمیں اپنے آپ کو طاقتور بنانا ہوگا ۔یہ طاقت ، فوجی ساز و سامان میں نہیں ہے ؛ حتّیٰ ملک کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے اور ٹیکنالوجی کی پیشرفت میں بھی نہیں ہے ۔

 میری نظر میں ، قومی طاقت کے فروغ میں دو چیزیں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں :  پہلی چیز " علم " ہے اور دوسری چیز " ایمان " ہے ۔ علم ، ماضی و حال میں ، طاقت و قدرت کا ایک بہت بڑا عامل رہا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا ۔ یہ علم ، کبھی کسی ٹیکنالوجی میں پیشرفت کا باعث بنے گا اور کبھی ایسا نہیں ہوگا ۔ لیکن" علم " بذات خود ، اقتدار کا باعث ہے ؛ملکی سرمایے اور فوجی طاقت اور سیاسی نفوذ میں اضافہ کا باعث ہے ۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ " العلم سلطان '' ؛ کہ علم ایک طاقت ہے ۔ " من وجدہ صال بہ و من لم یجدہ صیل علیہ "؛ (۱) یعنی اس مسئلے کے دو ، سرے ہیں : اگر آپ کے پاس علم کی دولت ہو تو آپ ، برجستہ نظریات پیش کر سکتے ہیں ۔ صال کا مفھوم یہ ہے ۔ یعنی درمیانی حالت قابل تصوّر نہیں ہے ؛ یا آپ کواپنے علم کی وجہ سے  دوسروں پر برتری حاصل ہوگی یا دوسرے اپنے علم کی بنیاد پر آپ سے بر تر ہوں گے ۔ آ پ کی قسمت کا فیصلہ کریں گے، آپ کی سرنوشت میں مداخلت کریں گے ۔  اسلامی تعلیمات کا خزانہ ان باتوں سے پر ہے ۔ ایک دوسری بحث ایمان کے متعلّق ہے جو ایک مفصّل بحث ہے ۔

لہٰذا ہمیں " علم " کو بنیاد قرار دینا چاہیے ۔ آپ نے جن پیشرفتوں کا تذکرہ کیا ، یقینا بہت اہم ہیں اور یہ اسلامی انقلاب کی بدولت ملنے والی آزادی و آزادی فکر کےزیر سایہ وجود میں آئی ہیں ؛ ورنہ اگر ہم اغیار سے وابستہ اور مطلق العنان طاغوتی حکومت کے  دور میں زندگی بسر کر رہے ہوتے  اور کتنا ہی زمانہ گزر جاتا تو بھی ہم  ان کامیابیوں اور ترقیات کی گرد پا تک نہیں پہنچ سکتے تھے ۔ چونکہ استبداد و ڈکٹیٹر شپ کے علاوہ ، اغیار سے وابستگی کا عنصر بھی کارفرما تھا ؛ کبھی کبھا ر کسی ملک پر کوئی ایسا ڈکٹیٹر حاکم ہوتا ہے جو ڈکٹیٹر تو ہوتا ہے لیکن اسے اپنے ملک کی تعمیر و ترقّی کی فکر بھی ہوتی ہے ، اس سلسلے میں ناپلئون کا نام لیا جاسکتا ہے  جو بظاہر فرانس کا  ایک مطلق العنان حکمران تھا لیکن اسے نے اپنے چودہ ، پندرہ سالہ دور حکومت میں فرانس میں مختلف شعبوں میں وہ انقلاب  لایا جو  اس کے جانے کے بعد شاید ساٹھ ، ستر سال میں بھی ممکن نہیں ہوا ۔ اس دور کی سائنسی ترقّی آج بھی اہل فرانس کے لئیے فخر و مباہات کا باعث ہے ۔ ناپلئون ایک با فہم و فراست شخص تھا ، اسے کام سے لگاؤ بھی تھا ، اور اس کے اطراف کے افراد بھی فہم و فراست سے آراستہ تھے ۔ لیکن کبھی کبھی یہ مطلق العنانیت اور استبداد ، اغیار سے وابستگی اور ان کی نوکر شاہی اور غلامی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، ہم سالہا سال اسی مصیبت میں گرفتار تھے ؛ ہم پہلوی حکومت کے دور میں ایک انداز میں اور قاچاری دور حکومت میں ایک دوسرے انداز میں اغیار سے  وابستہ تھے ۔ یعنی ہم سامراج کے دور شکوفائی سے پہلے جب ہمارے ملک پر ناصر الدّین شاہ حکمران تھا افسوس کہ ہم  اس دور میں بھی زیر تسلّط تھے ۔ یہ مطلق العنانیت اور استبداد ، عوام سے ان کے حق آزادی کو سلب کر لیتا ہے ؛اور اس کے بعد اغیار کی وابستگی ،اغیار  کی پالیسیوں کو ملک پر  تھوپ دیتی ہے ۔ اگریہ ڈکٹیٹر شپ اور وابستگی باقی رہتی تو ہم ہرگز پیشرفت نہیں کر پاتے ۔ موجودہ پیشرفت ، اسلامی انقلاب کی دین ہے ۔ اگر ہم اس پیشرفت کو جاری رکھنے کے خواہاں ہیں تو اس کے لئیے ، سخت محنت اور کوشش کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ، یونیورسٹیوں کا کردار انتہائی اہم اور ممتاز ہے ۔

مناسب ہے کہ میں یہاں پر تہران یونیورسٹی کے بارے میں یہ عرض کردوں کہ میں اگر چہ یونیورسٹی سے وابستہ عنصر نہیں ہوں ، آپ میں سے ایک صاحب نے مجھے '' یونیورسٹی " سے وابستہ فرد کے طور پر یاد کیا ؛ ایسا نہیں ہے ، میں یونیورسٹی والا نہیں ہوں لیکن قدیم الایام سے ،  یونیورسٹی ، اس کے اساتذہ و طلباء سے رابطے میں ہوں ، کبھی کبھی جب تہران یونیورسٹی میں کسی کام سے آنا پڑتا تو مجھے یہاں اپنائیت کا احساس ہوتا تھا، اگر چہ یہاں کا ماحول ہماری ظاہری وضع و قطع سے بہت مختلف ہوا کرتا تھا ہم عمامے ، عبا وقبا کے ساتھ یہاں آتے تھے ۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں یہاں کے ماحول میں اپنائیت کا احساس ہوتا تھا ۔ میرے دوسرے دوست بھی یہی محسوس کرتے تھے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب امام امت (رہ)کی  استقبالیہ کیٹی کو اس بات کا علم ہوا کہ امام کے آنے میں چند دن کی تاخیر واقع ہوگئی ہے اور حکومت وقت ان کو آنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے ، اس بات پر اپنا اعتراض ظاہر کرنے کے لئیے اس کمیٹی کے افراد نے تہران یونیورسٹی کا انتخاب کیا اور یہاں پر اپنے آپ کو محصور کردیا ، یہ کوئی محض  اتفاقیہ امر نہیں تھا ، یہ چیز ،  یونیورسٹی ، بالخصوص اس یونیورسٹی سے  ایک معنوی اور روحانی رابطے کی غماز تھی ۔

میں ہر گز نہیں بھلا سکتا کہ اس دن میں اور مرحوم آقائ بھشتی ، اس یونیورسٹی کے مشرقی دروازے سے تہران یونیورسٹی میں داخل ہوئے ، اس سلسلے میں ایک محترم عالم دین(جو آج بھی بقید حیات ہیں )  وہاں تشریف لے گئے اور وہاں کے ذمّہ دار حضرات سے بات چیت کی اور انہیں راضی کیا کہ یہ دروازہ کھولا جائے ، چونکہ جنوبی دروازہ جو کہ اس یونیورسٹی کااصلی دروازہ تھا اسے ہمارے لئیے بند کر دیا گیا تھا ، ہم مشرقی دروازے سے داخل ہوئے ، اور وہاں سے یونیورسٹی کی مسجد میں داخل ہوئے ، میں مسجد کے پیچھے جو ایک چھوٹا سا کمرہ تھا اس میں  مقیم ہوا ( معلوم نہیں کہ آج بھی وہ کمرہ موجود ہے یا نہیں) اور پہلے ہی دن سے " حصر " کے بارے میں ایک اخبار منتشر کیا ، ہم نے ایک اخبار نکالا جس کے ابتدائی شمارے یہیں سے شایع ہوئے ؛ یہ انس و الفت ، یہ رابطے آج بھی ہمارے ذہن میں موجزن ہیں ، اس یونیورسٹی کے دیرینہ کارنامہ میں محفوظ ہیں ۔ ہم بھی اس یونیورسٹی کےبار ے میں حسن ظن اور مثبت  نگاہ رکھتے تھے اوریہ یونیورسٹی بھی ہمارے لئیے اپنائیت اور میزبانی کا احساس رکھتی تھی ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تہران کی نماز جمعہ کے لئیے ، اسی یونیورسٹی کا انتخاب عمل میں آیا ، ورنہ تہران میں اور بھی بہت سی جگہیں تھیں ۔ لیکن تہران یونیورسٹی کا گراؤنڈ نماز جمعہ کے لئیے منتخب ہو ا ، آج بھی ، تہران کے عوام کا ملجا و ماوی یہی تہران یونیورسٹی ہے جو جمعہ کے دن جذبات سے سرشار عوام کو جوق در جوق اپنی طرف کھینچتی ہے ۔ یہ بہت اہم چیز ہے ۔ انقلاب کی کامیابی کے پہلے دو برسوں میں ، میں بڑی پابندی سے ہفتے میں ایک بار ، تہران یونیورسٹی جایا کرتا تھا اور وہاں کے طللباء سے ملاقات اور گفتگو کیا کرتا تھا ۔یونیورسٹی کی مسجد میں میری مسلسل حاضری ، شاید ایک سال سے زیادہ عرصے تک چلی ۔ میں تہران یونیورسٹی میں آیا کرتا تھا اور اس کی مسجد میں مختلف موضوعات پر گفتگو کیا کرتا تھا اور طلباء کے سوالا ت کا جواب دیا کرتا تھا ۔ الحمد للہ ، تہران یونیورسٹی ،علم کا محور و مرکز اور اس میدان میں پیش رو  ہونے کے علاوہ معنوی اور دینی اعتبار سے بھی ایک اہم مرکز ہے ، ہمیں اس کو غنیمت جاننا چاہیے اور اس کی قدر کرنا چاہیے ۔

میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جیساکہ ہم نے علم کے بارے میں بیان کیا اگر علم اسی اہمیت کا حامل ہے ، تو تہران یونیورسٹی کو علمی میدان میں اپنے قائدانہ رول کو مزید  دوچنداں کرنا چاہیے ، علمی تحقیقات کے حجم کو مزید بڑھانا چاہیے ۔ اس جلسے میں " ایجادات " کا ذکر ہوا ؛ کہ ہم نے کتنی نئی نئی چیزیں ایجاد کی ہیں ؛ اور اس میدان میں جدید کام انجام دئیے ہیں۔ مجھے ان پیشرفتوں کا آپ کے مقابلے میں زیادہ علم ہے چونکہ مجھے مختلف جگہوں سے مسلسل رپورٹیں ملتی رہتی ہیں ؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں اس پیشرفت سے ہرگز راضی نہیں ہوں ۔ یہ وہ مطالب ہیں جو ان جیسی محفلوں میں ہی پیش کیے جاسکتے ہیں ۔ میں جب یہ کہتا ہوں کہ میں ان کامیابیوں سے راضی نہیں ہوں اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہم مزید کامیابیا ں حاصل کر سکتے تھے اور ہم نے حاصل نہیں کیں ؛ اس کا یہ مطلب نہیں ہے ۔عین ممکن ہے کہ اس سلسلے میں کوئی بھی شخص قصوروار نہ ہو ، ہم اس سے زیادہ پیشرفت کرنے پر قادر ہی نہیں تھے ۔ ممکن ہے حقیقت یہی رہی ہو ۔ لیکن یہ صورت حال میرےلئیے مطلوب نہیں ہے ، ابھی ہم اپنے اہداف و مقاصد سے کوسوں دور ہیں ۔ مجھے آپ سے کوئی بہت زیادہ توقّع نہیں ہے ، میں یہ نہیں کہتا کہ ہمیں دس یا بیس سال کے اندر ، علمی اعتبار سے دنیا کا صف اول کا ملک بننا چاہیے لیکن ہمارا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ملک کو علمی اسارت اور دوسروں کی علمی اجارہ داری سے نجات دلانی چاہیے اس ہدف کے حصول میں پچاس سال کا عرصہ ہی کیوں نہ  لگ جائے۔ علم کی تولید کا مطلب یہ ہے ۔ علم کی تولید دیگر مصنوعات کی تولید کی طرح نہیں ہے ؛ اس کے لئیے بے شمار تمہیدی اقدامات لازم ہوتے ہیں ۔ لیکن آخر کار ہمیں اس مقام تک پہچنا چاہیے جہاں ہم علمی قافلے کو آگے بڑھا سکیں ، اس کی گیرائی و گہرائی میں اضافہ کر سکیں ۔ نئے نئے علوم کو کشف کر سکیں؛ انسانی علوم ، صرف ان علوم تک محدود نہیں ہیں جو آج ہمارے دائرہ اختیار میں ہیں ، یقینا بہت سے ایسے علوم ہیں کہ جنہیں انسان بعد میں کشف کرے گا ؛ جیسا کہ بہت سے موجودہ علوم ، سو سال پہلے تک نہیں تھے ، بہت سے وہ انسانی علوم جن کا یہاں ذکر ہوا ، سو سال پہلے ان کی خبر تک نہیں تھی ؛ ان علوم اوران کے بارے میں علمی تحقیقات کی دور دور تک کوئی خبر نہیں تھی ؛ بعد میں انہیں کشف کیا گیا ، انسان کی ظرفیت میں اس سے کہیں زیادہ وسعت پائی جاتی ہے، عالم معرفت و شناخت کی قابلیت اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ ہمیں ان میدانوں میں ممکنہ حد تک آگے بڑھنا چاہیے ،البتّہ ہمیں  علم کو انسان کی سعادت و خوشبختی کا وسیلہ قرار دینا چاہیے ۔علم کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر اور مادی دنیا کے طرز فکر میں بنیادی اختلاف یہی ہے کہ ہم انسان کی سعادت اور رشد ، انسان کی شکوفائی اور عدل و انصاف کے قیام کے لئیے ، علم و سائنس کی پیشرفت کے خواہاں ہیں ، انصاف کا قیام انسان کی دیرینہ آرزو ہے ۔

ہم نے بارہا عرض کیا ہے کہ انسان کی دیرینہ آرزو " عدل و انصاف کا قیام " ہے ۔ انسان ،  قدیم الایام سے ناانصافی اور ظلم و ستم کی وجہ سے پریشان اور دکھی ہیں ۔ عصر حاضر میں بھی دنیا میں ناانصافی اور بے عدالتی کا دور دورہ ہے : البتّہ یہ ناانصافی انتہائی ماڈرن، مسلح اور غیر قابل اعتراض ناانصافی ہے !اس دنیا میں کچھ ایسی ناانصافیاں  حاکم ہیں جن پر کوئی  اعتراض تک نہیں کر سکتا ۔ جیسے ہی کوئی اعتراض کے لئیے زبان کھولتا ہے ، موجودہ دور کی انتہائی پیشرفتہ سائنسی ٹیکنالوجی ،مواصلاتی ذرائع  کے ذریعہ اس کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے ۔ آپ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ یہ لوگ اسلامی جمہوریہ  ایران کے ساتھ کیا برتاؤ کر رہے ہیں ؟ اسلامی جمہوریہ ایران،  آخر کیا کہہ رہا ہے ؟ کس چیز کا مطالبہ کر رہا ہے ؟ کس وجہ اسے اس کے خلاف اس قدر پروپیگنڈے ، اس قدر سازشیں ہو رہی ہیں اور اس کے راستے میں روڑے اٹکا ئے جا ر ہے ہیں ؟ جمہوری اسلامی کے سر میں نہ تو کشور گشائی کا سودا ہے؛نہ ہی وہ اقوام عالم اور عام لوگوں کو کو ئی نقصان پہنچانا چاہتا ہے ؟ بلکہ وہ سبھی کی سعادت اور خوشبختی کا خواہاں ہے  ؛ اس کے پاس پورے عالم انسانیت کے لئیے پیغام ہے ۔ ہمارے دشمن اس سے اچھی طرح واقف ہیں اسی وجہ سے اس پر دباو ڈال رہے ہیں اور سختی سے پیش آرہے ہیں ۔ آج کے دور میں یہ ناانصافی حاکم ہے ، علم کو اس ناانصافی سے لڑنا چاہیے ۔آج کے دور میں علم و ٹیکنالوجی کو اس  ظلم و ناانصافی کی خدمت کے لئیے استعمال کیا جارہا ہے ؛ عصر حاضر میں ، علم ، سب سے زیادہ ظالم افراد اور معاشروں کا آلہ کار بنا ہوا ہے ؛ علم کو اس کی موجودہ حالت سے باہر نکالنا چاہیے ۔ علم کے بارے میں اسلام کی نظر ایک صاف ستھری  ، خواہشات نفسانی سے عاری ، معنوی نظر ہے ۔ ہم علم کو اس نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہمیں اس سلسلے میں بھر پور  کوشش  کرنا چاہیے ۔

ایک دوسرا نکتہ جو میری نظر میں بہت اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں یونیورسٹی کے اندر ، ثقافت کے مسئلہ پر خصوصی توجہ دینا چاہیے ؛ ہمیں یونیورسٹی کے ماحول میں ثقافت کے مسئلہ کو بہت اہمیت دینا چاہیے ۔ البتہ ، یونیورسٹی کی اصلی ذمہ داری  ، علم ہے ، اس میں کسی شک و شبہ کی گنجایش نہیں ہےلیکن جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا ، تعلیم کی ابتدا سے ہی ، طالب علم کے اندر علم کے بارے میں یہی جذبہ کار فرما ہونا چاہیے ؛ اور یہ چیز ممکن ہے  ۔ یہاں ایک صاحب نے کہا کہ تمام لوگوں میں اتحاد وہم فکری پیدا ہونی چاہیے ؛ یہ بہت اچھی چیز ہے لیکن آسان نہیں ہے ؛ اس کے لئیے کچھ تمہیدی اقدامات لاز م ہیں ، لیکن ، تعلیم کے آغاز سے طالب علم کی ثقافتی تربیت ، یہ ایک ممکن امر ہے ؛ یونیورسٹیوں کے بنیادی شعبے اس سلسلے میں منصوبہ بندی کر سکتے ہیں ، تعلیمی نصاب اور استاد کے انتخاب میں اسے پیش نظر رکھا جا سکتا ہے ، طلباء کے لئیے جو مختلف پروگرام رکھے جاتے ہیں ان میں اس ضرورت کو مد نظر رکھا جاسکتا ہے ؛ البتہ یہ ایک انتہائی ظریف کام ہے ۔

 ثقافت کے مسئلہ پر  ایک مدبرانہ نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ تحصیل علم ، بذات خود ایک ثقافت ہے ۔ اگر ہم یونیورسٹی میں ، ثقافت کے مسئلہ پر توجہ دیں گے تو اس صورت میں ہمارے طلباء ، شوق و ذوق سے علم و تحقیق کی طرف راغب ہوں گے ، صرف ڈگری کے حصول کے لئیے درس نہیں پڑھیں گے ۔ اور ہمارے اساتذہ بھی صر ف کسی نہ کسی  طریقے سے  اپنے فرض کو سر سے اتارنے کے جذبے سے درس نہیں دیں گے ، ہمیں کئی مرتبہ ، خود یونیورسٹی سے اس طرح کی رپورٹیں موصول ہوتی رہتی ہیں کہ کچھ اساتذہ کے دروس محض ایک خانہ پری اور رسمی کارروائی بن کر رہ گئے ہیں ؛ بس کلاس میں حاضر ہوتے ہیں اور اپنا گھنٹہ گزار کے رفو چکر ہو جاتے ہیں ۔ حالانکہ تدریس کے مسئلہ کو اپنے فریضے کو سر سے اتارنے کی نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے ۔ بلکہ اسے علم اور طالب علم کی تربیت سے عشق و لگاؤ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے ۔

استاد کو اپنے شاگرد کے ساتھ ،پدرانہ اور برادرانہ شفقت و محبت سے پیش آنا چاہیے ، اپنے شاگرد کو اس کی حالت پر یونہی نہیں چھوڑدینا  چاہیے ۔ خو ش نصیبی سے ہمارے حوزات علمیہ میں آج بھی یہ حالت حکمفرما ہے ، ہمارے حوزہ علمیہ کی ایک دیرینہ سنت و روش یہ ہے کہ استاد اس بات کے لئیے مکمل طور سے تیار رہتا ہے کہ شاگرد اس کے پاس آئے اور اس سے سوال کرے ، اس مسئلہ کی چھان بین کرے ۔ بعض اساتذہ ایسے بھی ہیں کہ جب وہ کلاس سے باہر نکلتے ہیں تو ان کے شاگرد ان کے پیچھے پیچھے کبھی کبھی ان کے گھر تک پہنچ جاتے ہیں ؛ اور کبھی کبھی گھنٹوں بیٹھ کر کسی مسئلہ پر بحث و گفتگو کرتے ہیں ۔ یہ بہت اچھی چیز ہے ؛ لیکن اس کے لئیے ایک ثقافت اور ماحول بنانے کی ضرورت ہے ۔ یہ ایک ثقافتی کام ہے ، حکم صادر کر کے اسے وجود میں نہیں لایا جاسکتا ۔

آپ جانتے ہیں کہ میں سال میں کئی بار ، یونیورسٹیوں کے ذمہ دار حضرات اور اساتذہ سے ملاقات کرتا ہوں ۔ میں نے اپنی ملاقاتوں میں اس بات پر بارہا زور دیا ہے کہ استاد کلاس کے ختم ہونے کے بعد بھی کچھ دیر وہاں موجود رہے تاکہ شاگرد اس سے درسی مشکلات کے بارے میں سوال کر سکیں ۔ اہل یونیورسٹی نے بھی بعض اوقات اس مسئلہ کو اٹھایا ، حکومت نے  بھی چار ، پانچ سال پہلے اس سلسلے میں کچھ قوانین وضع کئیے ۔ میں بھی جانتا ہوں اور آپ بھی واقف ہیں کہ ان قوانین پر اچھی طرح عمل درآمد نہیں ہوتا ۔ آخر نقص کہاں ہے ؟ یہ مشکل بھی ثقافت سے مربوط ہے ۔ تحقیق و ریسرچ کے سلسلے میں بعض افراد نے اپنی گفتگو میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ہمارے مرد وزن ، ہمارے اساتذہ و محقّقین میں " تحقیق و ریسرچ" کا جذبہ موجزن ہے ، یہ بہت اچھی بات ہے ۔ دنیا کی اہم ایجادات ، محققین کی اسی تحقیق و ریسرچ ، جذبہ ایثار و قربانی کا نتیجہ ہیں ؛ یہ ایجادات ،  پیسے اور سفارش کی وجہ سے معرض وجود میں نہیں آئیں ۔بسا اوقات کوئی سائنسدان انتہائی مشکل حالات میں سالہا سال کسی چیز کی تحقیق میں مصروف عمل رہا تب کہیں جا کر اپنے مطلوبہ ہدف تک پہنچا ہے ۔ ممکن ہے کہ مطلوبہ ہدف تک پہنچنے کے بعد ، شہرت اور پیسے اور دیگر چیزوں نے اس کے دروازے پر دستک دی ہو؛ لیکن ، اس ایجاد کااصلی عامل ، اس سائنسدان کے اندر  تحقیق و ریسرچ کے بارے میں پایا جانے والا ، شوق و اشتیاق ، جوش و ولولہ اور اس مسئلہ کی تہہ تک پہچنے کا جذبہ تھا ۔ البتّہ اس'' ثقافت " کو زندہ کرنا ضروری ہے ۔ معاشرے کی رگوں میں یہ ثقافت جاری ہونا چاہیے ۔

آپ جانتے ہیں کہ ہر قوم میں کچھ مخصوص عادتیں پائی جاتی ہیں ، ان میں سے کچھ عادتیں وہاں کی تاریخ و جغرافیہ اور آب و ہوا کے شرائط یا دیگر عوامل و اسباب سے وابستہ ہیں  ۔ہمیں اپنی قوم میں تحقیق و ریسرچ نیز اس راہ کو جاری رکھنے میں تھکن کا احساس نہ ہونے کے جذبے اور شوق و نشاط کو وجود میں لانا چاہیے ۔ ہماری قوم میں یہ جذبہ بہت ہی کم ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ گروہی تحقیق کی بھی یہی صورت حال ہے ، ایک دوسرے کے تعاون سے کسی علمی پروجیکٹ پر کام کرنا ، یہ بھی ہماری قومی عادتوں میں سے نہیں ہے ۔ اگر آپ ہمارے ورزش کے میدان کو دیکھیں اور یورپ سے اس کا موازنہ کریں تو وہاں بھی ہمیں اس جذبے کا فقدان نظر آتا ہے ، ہمارے قومی کھیل  کشتی کامیدان ہو یا دیگر کھیلوں کا میدان ہو ہر میدان میں ہمارے کھلاڑی ، اپنے لئیے  کھیلتے نظر آتے ہیں ۔ آپ جانتے ہیں کہ ہماری تاریخی و قدیمی  ورزش میں جب افراد ، میدان میں داخل ہوتے تھے تو ہر کوئی اپنے طور پر ورزش کرتا تھا ، اگر چہ ایک ساتھ ورزش کرتے تھے لیکن یہ میدان ، فوٹبال یا والیبال کی طرح نہیں ہے جہاں ایک دوسرے کی مدد سے کسی نتیجہ تک پہنچا جاتا ہے ۔ ہماری قوم میں " گروہی کام " کے جذبے کا فقدان ہے اور یہ ایک بہت بڑا عیب ہے ۔ ہمیں اس کمی کو دور کرنا چاہیے اور اس جذبے کو پیدا کرنا چاہیے ، یہ کس کی ذمّہ داری ہے ؟ یہ ہماری یونیورسٹیوں کی ذمّہ داری ہے ۔ لہٰذا ، یونیورسٹیوں کو علمی میدان کے علاوہ " ثقافت " پر بھی توجّہ دینا چاہیے ۔

 ہم ، اپنے معاشرے کو ایسا جوان دے سکتے ہیں جو اہل صبر وقناعت ہو ، اس میں جذبہ عمل اور تحقیق  موجزن ہوں ، ایک دوسرے کے تعاون سے کام کرنے کا جذبہ اس پر حکم فرما ہو، دوسروں کی خطاوں سے درگزر کرتاہو، عقل کو جذبات پر ترجیح دیتا ہو، وقت کی قدر جانتا ہو ، فرض شناس ہو ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہم جوان کے اندر ان کی متضاد صفات کو پیدا کریں ۔ واقعا یہ جوان جو اٹھارہ ، انیس سال کی عمر میں یونیورسٹی میں قدم رکھتا ہے ، ہمیں اسے غنیمت جاننا چاہیے اور اس کی تربیت کے لئیے منصوبہ بندی کرنا چاہیے ۔ آپ ایک ایسی نسل کی تربیت کر سکتے ہیں جن میں مذکورہ صفات موجزن ہوں ۔ اس کے لئیے پلاننگ کی ضرورت ہے ، یہ کام تبلیغات اور پوسٹر بازی سے ممکن نہیں ہے ۔

 جس طریقے سے علمی میدان میں پیشرفت کے لئیے ، منصوبہ بندی لازم ہے ویسے ہی اخلاقی تربیت کے لئیے بھی ایک طویل المیعاد منصوبہ بندی ضروری ہے ۔  یونیورسٹی کے اندر ان طویل المیعاد منصوبوں پر عمل درآمدہو ، ہم یہ نہیں کہتے کہ یونیورسٹی  اپنی چار دیواری سے باہر نکل کر یہ کام انجام دے ۔  یہ کوئی ایسا کام نہیں ہے جو حکمنامے یا دستور کے ذریعہ اپنے سر انجام تک پہنچے ، بلکہ اس کے لئیے یونیورسٹی کے اند ر" خود جوش " جذبے کا ہونا ضروری ہے ۔ میں یہ باتیں اس لئیے عرض کر رہا ہو ں تاکہ ان کی وجہ سے انشاء اللہ یونیورسٹیوں کے اندر یہ جذبہ بیدار ہو اور وہ "ثقافتی " مسائل پر زیادہ توجّہ مرکوز کریں ۔

البتّہ ثقافتی امور کا ایک بہت بڑا حصّہ " دین " سے مربوط ہے ؛ جوانوں کو دین سے مانوس کرنا ، عبادت سے مانوس کرنا ،انہیں عباد ت و بندگی کی لذت سے آشنا کرنا ، یہ تمام امور دینی ثقافت سے مربوط ہیں ۔ منحوس پہلوی حکومت  کے  کالے کرتوتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس دور میں ہماری تعلیم یافتہ نسل کو دینی تعلیمات ، قرآن ، نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ سے دوررکھا گیا  ، انقلاب کے بعد بھی کم و بیش یہی صورتحال باقی رہی ہے ، تیس سال(یعنی ایک نسل ) کا عرصہ گزر چکا ہے  اس دوران بہت سے کام کئیے جاسکتے تھے لیکن ہم نے سابقہ رویّے کو جاری رکھا ۔

میرے دوستو! قرآن مجید سے انس ، اس میں غور و فکر ، اسی طرح ، ان معتبر  دعاؤں کے مضامین میں غور و فکر ، جو ہمارے آئمہ طاہرین سے وارد ہوئی ہیں ، دینی معرفت کی گہرائی میں بہت  اہم کردار ادا کرتا ہے ۔

دینی معرفت میں عمق و گہرائی بہت اہم ہے ۔ کبھی کبھی کوئی شخص ،جذبات کی رو میں بہہ کر ، نماز جماعت میں شریک ہوتا ہے ، اعتکاف بجا لاتا ہے ، مجلس عزا میں شریک ہوتا ہے یا دینی مظاہروں میں حصّہ لیتا ہے لیکن اگر اس میں ، دینی معرفت کا فقدان   ہو تو ایسا شخص بہت آسانی سے راستے سے گمراہ ہو سکتا ہے ۔ اس لئیے معرفت بہت ضروری چیز ہے ۔ ہم نے اس کی بہت سی مثالیں دیکھی ہیں ۔ اسی انقلاب کے مجموعے میں ، اوائل انقلاب میں کچھ ایسے افراد بھی تھے جو بظاہر  ہم صاحب عمامہ ، عبا و قبا  افراد کے مقابلے میں زیادہ دیندار ، اور اسلامی اقدار کے زیادہ پابند معلوم ہوتے تھے ، لیکن بعد میں رونما ہونے واقعات نے  انہیں گمراہ کردیا ۔ یہی وجہ ہے کہ دینی معرفت کی گہرائی ایک بہت اہم مسئلہ ہے ؛ اسلامی معارف سے انس ، بہت اہم ہے ۔ یہ بھی ایک ثقافتی کام ہے جس کی ترویج ہونا چاہیے ۔ اس کے لئیے بانی و سرپرست کی ضرورت ہے ۔ آپ کے سوا کوئی دوسرا اس کا ذمّہ دار نہیں ہے ۔ یعنی آپ اعلی منتظمین  اور تحقیقی کمیٹیوں کے سر براہ  اس بات کے ذمّہ دار ہیں ۔ اس کام کو کسی اداری شکل میں انجام نہیں دیا جا سکتا اور کسی علمی ماحول کے جسم میں نہیں اتارا جاسکتا ۔ اس کے لئیے سر جوڑ کر بیٹھیے اس غور و فکر کیجئیے ؛ یہ بہت اہم کام ہے ۔

ایک دوسرا مسئلہ ، یونیورسٹیوں میں سیاسی مسائل کا مسئلہ ہے ۔ آپ بخوبی واقف ہیں کہ ہمیشہ سے ہی میرا یہ عقیدہ رہا ہے کہ یونیورسٹیوں میں " سیاسی روح " کا زندہ رہنا بہت ضروری ہے ؛ اس سے ہمارے جوانوں میں نشاط پیدا ہوتی ہے ۔ نشاط سے سرشار جوانوں کی ہمیں بہت ضرورت ہے ۔ جو یونیورسٹی سیاست سے دور ہو اور سیاست سے بالکل کنارہ کش ہو، وہ یونیورسٹی ، جوش و ولولے سے عاری ہوگی ؛وہ  خطرناک فکری اور عملی  جراثیم کے فروغ کا مکان قرار پائے گی ۔ لہٰذا ، یونیورسٹیوں میں سیاست کے عنصر کا وجود لاز م و ضروری ہے ۔ البتہ یونیورسٹی میں سیاست کی موجودگی اور اس کی سیاسی کاری میں بہت بڑا فرق ہے ۔ یونیورسٹی میں سیاست کے عنصر کی موجودگی کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ یونیورسٹی مختلف سیاسی احزاب و گروہوں کے اکھاڑے میں تبدیل ہوجا ئے اور وہ اسے اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئیے استعمال کریں ، ایسا نہیں ہونا چاہیے ؛ اس پر کنٹرول کرنا چاہیے ۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے لئیے مدیریت لازم ہے ۔ آپ اپنے قانونی اختیارات کا استعمال کریں اور ایسا کرنے کی اجازت نہ دیجئیے ۔ اگر ایسا ہو جائے ۔ تو آپ کے طلباء آپ کے ہاتھوں سے نکل جائیں گے اور انہیں ناجائز سیاسی مقاصد کے لئیے استعمال کیا جائے گا جس کے سنگین نتائج بر آمد ہوں گے ۔ اس سلسلے میں بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ، ہم اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتے ۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کچھ لوگ کسی شخص کے اپنے  بیٹے کو اس کے اپنے گھر سے چوری کا ذریعہ قرار دیں اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشائی بنا بیٹھا رہے ؛ یہ ممکن نہیں ہے ۔ اس کے لئیے منصوبہ بندی لاز م ہے ؛ خاص کر تہران یونیورسٹی میں۔ جس طریقے سے یہ یونیورسٹی ، اپنے دیرینہ سابقے ، وزانت اور افتخارات کے اعتبار سے ملک کی دیگریونیورسٹیوں پر فوقیت رکھتی ہے ان مسائل میں بھی اس کا یہی کردار ہے۔البتہ اس دور میں  یونیورسٹیوں کی تعداد بہت زیاد نہیں تھی ، چند انگشت شمار یونیورسٹیاں تھیں ۔ اور ان میں بھی ان  مسائل کی کوئی خبر نہیں تھی ۔ تہران یونیورسٹی کی بعض فیکلٹیاں ، سیاسی امور اور رجحانات کے لئیے بہت حساس تھیں اور آج تک یہی صورت حال باقی ہے ۔ لہٰذا ہوشیار رہیے کہ اغیار اس سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں ، ہمارے دشمن اس موقع سے سوء استفادہ نہ کریں ۔

بعض لوگ لفظ " دشمن " کے بارے میں بہت حساس ہیں کہ آپ دشمن کا لفظ کیوں استعمال کرتے ہیں ؛ جناب ، میں اس قدر ، دشمن دشمن کی تکرار کرتا رہتا ہوں اس کے باوجود کچھ لوگ غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں ، وہ نہیں سمجھ پاتے کہ دشمن ان کے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے ؟ اس قدر دہرانے کے باوجود یہ عالم ہے اگر ہم نہ دہراتے تو نہ معلوم کیا ہوتا ! آپ ملاحظہ کیجئیے کہ قرآن کریم کے آغاز سے آخر تک ، پروردگار عالم نے ، شیطان ، ابلیس اور شیطان صفت افراد کا کس قدر تذکرہ کیاہے  ، فرعون ، نمرود ، قارون اور بعثت پیغمبر اسلام (ص) کے دور میں آنحضرت (ص)کے دشمنوں کا کس قدر زیادہ  تذکرہ کیا ہے۔ ابلیس و شیطان کی داستان ، قرآن مجید میں کئی بار تکرار ہوئی ہے ۔ اگر صرف دوسروں کو مطلع کرنا مقصود ہوتا تو ایک مرتبہ کے بیان سے یہ ہدف حاصل کیا جاسکتا تھا ۔ اس تکرار کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کے کید و مکر سے کبھی بھی غافل نہیں ہونا چاہیے ۔ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السّلام ارشاد فرماتے ہیں " ومن نام لم ینم علیہ " ؛ (۲) اگر آپ اپنے مورچے میں سو رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کا دشمن بھی اپنے مورچے میں سو رہا ہوگا ۔ ممکن ہے آپ سو رہے ہوں اور وہ جاگ رہا ہو۔ اس وقت آپ کی جان کے لالے پڑ سکتے ہیں ۔ اس لئیے کبھی بھی غفلت نہیں برتنا چاہیے  ۔ اس کے باوجود آپ ملاحظہ کرتے ہیں کہ غفلت برتی جاتی ہے۔

صدارتی الیکشن کے بعد رونما ہونے والے واقعات میں بہت بڑی  غفلت کامظاہرہ کیا گیا ۔ میں لفظ غفلت اس لئیے استعمال کر رہاہوں چونکہ میں ہمیشہ خوش گمانی سے کام لیتا ہوں  ، میں بذات خود بھی " بد گماں " شخص نہیں ہوں ؛ خوش بین ہوں ، مختلف اشخاص کے بارے میں نیک گمان رکھتا ہوں ۔ ان لوگوں نے الیکشن کے انعقاد کے بعد دوسرے ہی دن سے ناشائستہ اقدام شروع کر دئیے جس کے نتائج اب بھگت رہے ہیں ۔ ان لوگوں نے الیکشن کے نتائج پر اعتراض ظاہر کرنے کے لئیے عوام کو سڑکوں پر نکلنے کی دعوت دی ؛ انہوں نے ایسا کیوں کیا ؟ یہ کون سی منطق ہے ؟ آپ ،عام لوگوں کو  سڑکوں پر کیوں بلا رہے ہیں ؟ کیا الیکشن کے اتنے اہم اور نازک مسئلے کو سڑکوں پر حل کیا جا سکتا ہے ؟ اگر  آپ اس کے ذریعہ دباؤ ڈالنا چاہتے تھےتو یہ آپ کی ایک بہت بڑی غفلت تھی ۔ جب اس عمل کا ارتکاب کیا جاتا ہے تو اس کے ذریعہ دشمن کے لئیے جائے امان اور پناہ گاہ تیار ہو جاتی ہے ، آشوب و بلوہ بپا کرنے والوں کو چھپنے کی جگہ مل جاتی ہے ؛ یہ بہت بڑی غفلت ہے۔ سیاسی میدان میں غفلت برتنے کا نتیجہ کبھی کبھی خیانت کا ارتکاب کرنے کے مترادف ہوا کرتا ہے  او ر یہ غفلت  شدید نقصان پہنچاتی ہے ۔ بالکل ویسے جیسے آپ تیر چلائیں اور یہ تیر کسی انسان کے سینے میں پیوست ہو جائے تو ایسی صورت میں خواہ  آپ کا تیر  غیر ارادی طو ر پر  کسی انسان کو جالگے یا ارادی طور پر ، نتیجے ایک  ہی ہے ، نتیجے پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ دونوں صورتوں میں وہ شخص موت کا نوالہ بن جائے گا جس کے سینے میں تیر پیوست ہوا  ہے ۔ کبھی کبھی انسان کی کسی ایک غلطی کانتیجہ اس قدر بھیانک رخ اختیار کر لیتا ہے ۔ اگر آپ یونیورسٹی کے ماحول کو اس مصیبت سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لئیے آپ کو کیا کرنا چاہیے ؟ یہ بہت اہم چیز ہے ۔ اس کے لئیے طلباء اور بعض اساتذہ کو قانع کیجئیے ۔

یونیورسٹیوں میں " علم " کا مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ، ہم نے پہلے بھی بارہا اس کی افادیت پر روشنی ڈالی ہے اور آج بھی تاکید کی ہے ، یہاں موجود حضرات نے بھی اس سلسلے میں گفتگو کی ۔یہاں علم کے سلسلے میں جو مسائل بیان کئیے گئیے وہ بہت اچھے مطالب تھے ۔ ان مطالب کو میری مکمل حمایت و تائید حاصل ہے ۔ اس کے علاوہ ، میری نگاہ میں  سیاسی اور ثقافتی مسائل بھی بہت اہم ہیں ، البتّہ یہ مسائل محض تہران یونیورسٹی کے مسائل نہیں ہیں  ؛ بلکہ پورے ملک کی یونیورسٹیوں کے مسائل ہیں ؛ لیکن تہران یونیورسٹی ، دیگر تمام یونیورسٹیوں کے لئیے نمونہ عمل ہے؛ اگر آپ کوئی کام انجام دیں گے تو دیگر یونیورسٹیاں بھی اس کی  پیروی کریں گی ، تہران یونیورسٹی کی موجودہ حالت کو قائم رکھئیے ۔

پروردگار عالم آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور آپ کی تائید و حمایت فرمائے تاکہ آپ بھی اپنے فرائض کو خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دی سکیں اور ہم بھی اپنی ذمّہ داریوں کو نبھا سکیں ۔ پروردگار عالم کی نصرت اور مدد، اور آپ کی ہمت اور عزم راسخ کی بدولت یہ سبھی امور آسان اور ممکن ہیں ۔ خوش نصیبی سے ہم نے ان چند سالوں میں مختلف شعبوں میں  ان سب چیزوں کا تجربہ کیا ہے ۔ سیاسی اور علمی اور دیگر شعبوں میں اس کا تجربہ کیا ہے  ۔ ہم جس میدان میں بھی داخل ہوئے ، اور عزم راسخ اور پروردگار عالم پر بھروسے اور اعتماد کا مظاہرہ کیا ، پروردگار عالم نے بھی ہمارے لئیے راستے ہموار کر دئیے ۔ آپ کو اور پوری قوم کو  عشرہ فجر  کی مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ پروردگار عالم ، ہمارے امام امت (رہ)اور شہداء کی ارواح مطھّرہ کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرمائےاور امام زمانہ (ارواحنا فداہ )کے قلب مقدّس کو ہم سے راضی و خوشنود فرمائے ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ، جلد ۲۰ ، ص ۳۱۹

(۲) نہج البلاغہ ، مکتوب نمبر ۶۲ ۔